ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مرزا قادیانی ایک گھٹیا سوچ کا حامل انسان تھا۔ قادیانی جماعت کا بانی آنجہانی مرزا قادیانی جس طرح ظاہری طور پر بد صورت تھا، اسی طرح باطنی طور پر بھی بد سیرت تھا۔ قادیانی اسے ''سلطان القلم'' کہتے نہیں تھکتے۔ اس کی تحریرات کو ملاحظہ کیا جائے تو جا بجا بد کلامی و بد گوئی کی نجاست و غلاظت بکھری ہوئی نظر آئے گی۔ ذیل میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے نمونہ کے طور پر ''سلطان القلم'' کی تحریروں کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، و گرنہ مرزا قادیانی کی ساری کتابیں ایسی ہی تحریروں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان فحش، مخرب اخلاق ، حیا سوز، گندی اور بازاری تحریروں سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا یہ کسی شریف انسان کی تحریریں ہو سکتی ہیں۔ مرزا قادیانی کی سوچ کی پستی ، حیا باختگی اور اوباش پن کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو جس میں اس نے خشوع و خضوع کو کس انداز میں سمجھا یا ہے ملاحظہ ہو
(1) مرزا قادیانی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے:
قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون
۔ یعنی وہ مومن مراد پا گئے جو اپنی نمازوں میں اور ہر ایک طور کی یادِ الٰہی میں فروتنی اور عجز و نیاز اختیار کرتے ہیں اور رقت اور سوز و گداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ ……وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لیے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں اور جیسا کہ نطفہ اس وقت تک معرض خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے ………یہی سنت اللہ بنی آدم کے لیے جاری ہے پس جبکہ انسان نماز اور یاد الٰہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے، تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لیے مستعد بناتا ہے۔ سو نطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالت خشوع ہے، صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور جیسا کہ نطفہ کے لیے ممکن ہے کہ وہ رحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہو جائے۔ ایسا ہی روحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لیے یعنی حالت خشوع کے لیے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی برباد ہو جائے۔ جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اس ذات ذوالفضل سے جس کا نام رحیم ہے، کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا اور نہ اس کی خاص تجلی کے جذبہ سے اس کی طرف کھنچے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کا وہ تمام سوز و گداز اور تمام وہ حالت خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسا اوقات ان کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں۔''
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 188 تا 190 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 188 تا 190 از مرزا قادیانی)
(2) ''یاد رکھنا چاہیے کہ نماز اور یاد الہیٰ میں جو کبھی انسان کو حالت خشوع میسر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے یا لذت محسوس ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہو جائے اور لذت بھی محسوس ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اس نطفہ کو رحم سے تعلق ہو گیا ہے بلکہ تعلق کے لیے علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الہیٰ میں ذوق شوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالت خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اس حالت سے مشابہ ہے جب و ہ ایک صورت انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گرجاتا ہے۔ ''
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 192 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 192از مرزا قادیانی)
(3) ''جیسا کہ نطفہ کبھی حرام کاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تو اس میںبھی وہی لذت، نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ۔ پس ایسا ہی بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع او ر حالت ذوق و شوق، رنڈی بازوں سے مشابہ ہے یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور ان لوگوں کا جو محض اغراضِ دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں، اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرام کار عورتوں کے اندام نہانی میں جا کر باعث لذت ہوتا ہے بہر حال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے، حالت خشوع میں بھی تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صر ف حالت خشوع اور رقت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق ہو بھی گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جو اس روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عوت کے اندام نہانی میں داخل ہو جائے اور اس کو فعل سے کمال لذت حاصل ہو تو یہ لذت اس بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہو گیا ہے۔ پس ایسا ہی خشوع او ر سوز و گداز کی حالت گو وہ کیسی ہی لذت اور سرور کےساتھ ہو ، خدا سے تعلق پکڑنے کے لیے کوئی لازمی علامت نہیں ہے۔ ''
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 193 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 193از مرزا قادیانی)
(4) ''اور پھر ایک اور مشابہت خشوع او ر نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہ رونے کی صورت میں ہوتا ہے جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے، اور جیسے بے اختیار نطفہ اچھل کر صورت انزال اختیار کر تا ہے، یہی صورت کمال خشوع کے وقت رونے کی ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جبکہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتا ہے اور کبھی حرام طور پر جبکہ انسان کسی حرام کار عورت سے صحبت کرتا ہے۔ یہی صورت خشوع او ر سوز و گداز اور گریہ و زاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اور سوزو گداز محض خدائے واحد لا شریک کے لیے ہوتا ہے جس کے ساتھ کسی بد عت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ پس وہ لذت سوز و گداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوزو گداز اور اس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میںبھی حاصل ہوتی ہے مگر وہ لذت حرامکاری کے جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔ ''
(ضمیمہ براہین احمد یہ حصہ پنجم صفحہ 196مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 196از مرزا قادیانی)
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
مناقِب اہلبیت رضی اللّٰہ عنہم اور قادیانیوں کی جسارتیں
مناقِب شیر خدا سیّدنا علی رضی اللّٰہ عنہ :
زرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ علی رضی اﷲ عنہ سے منافق کو محبت نہ ہوگی اور مومن کو بغض نہ ہو گا ، اور جس نے علی کو گالیاں دیں اس نے دراصل مجھے گالیاں دیں ۔
ز ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو مردوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے تھی۔ مناقِب سیّدة النّساء فاطمتہ الزّہراء رضی اللّٰہ عنہا :
زرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فاطمہ رضی اﷲ عنہا میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض (غضب ناک)کیا،اْس نے مجھے ناراض (غضب ناک)کیا اور جس نے اس کو ناخوش کیا ، اْس نے مجھ کوناخوش کیا اور جس نے اس کو اذیت پہنچائی اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی ''۔
(بخاری ومسلم)
زحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجس کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کی رات میں ایک مقدس فرشتہ زمین پرنازل ہواجو اس سے پہلے زمین پر نہیں آیا تھا اور حق تعالیٰ سے اجازت لے کر اس مقصد سے نازل ہوا کہ مجھ کو سلام کرے اوربشارت سنائے کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا)جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما)نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے۔ (رواہ الترمذی)
زوفات مبارک سے چند روز پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا اے فاطمہ تمہارے لئے بہت خوشی کامقام ہے کہ تجھے جنتی عورتوں کی سردار بنایا جائے گا۔ (حاصل حدیث :رواہ البخاری ومسلم) مناقِب سیّدنا حَسَن وحُسَین رضی اللّٰہ عنہما :
زحضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ (حضرت )حسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے نصف ِ اعلی ٰ میں سَر تابہ سینہ تک بہت مشابہ تھے اور (حضرت)حسین سینہ کے بعد سے قدم مبارک تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے بہت ہی مشابہت رکھتے تھے۔
ز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں حضرت حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) تھے اور آپ یہ دعا فرمارہے تھے۔''اے اللہ میںحسن اور حسین سے محبت کرتاہوں۔اے اللہ آپ بھی ان دونوں کو اپنا محبوب بنالیجیے اور ان لوگوں سے بھی محبت فرمائیے جو ان سے سچی محبت کریں۔''
زایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اس طرح تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاندھے پر حسن (رضی اللہ عنہ)اور دوسرے پرحسین (رضی اللہ عنہ ) تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غایت شفقت سے کبھی ایک کو پیار کرتے اور کبھی دوسرے کو۔اس پر حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا ،یا رسول اللہ !خداکی قسم آپ کو تو ان دونوں بچوںسے بہت محبت معلو م ہوتی ہے۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما)سے محبت کریگا اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔''
(البدایتہ والنہایتہ ص ٥٠٢ج٨)
زحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل بیت میں سب سے زیادہ کو ن محبوب ہے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے محبوب مجھ کو حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما ) ہیں اور بارہاآپ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہما)سے فرمایا کرتے تھے :''میرے پاس میرے دونوں بیٹوں حسن اورحسین کوبلادو تاکہ میں اُن کو محبت سے اپنے سینے سے لگاؤں اور پیار کروں۔''
(رواہ الترمذی )
زایک روز صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،اس شان سے کہ آپ ایک اونی منقش کمبل اوڑھے ہوئے تھے۔اتنے میں حسن بن علی آگئے ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کواپنے کمبل میں داخل کرلیا پھرحسین بھی آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنے کمبل میں داخل کرلیا۔ پھر حضرت ِفاطمہ تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنے کمبل میں داخل کرلیا۔ان کے بعد حضرت علی تشریف لے آئے۔آپ نے ان کو بھی اسی کمبل میں لے لیا۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا
ترجمہ:۔اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ اے پیغمبر کے گھر والو! تم سے (معصیت ونافرمانی کی )گندگی کو دور رکھے اور تم کو (ظاہراً وباطناً ،عقیدةً وعملاً وخلقاً) بالکل پاک وصاف رکھے۔
زنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مقام خم کے قریب جومکہ اور مدینہ کے درمیان میں واقع ہے۔کھڑے ہوکر عام مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا۔خطبہ میں حمدوثنا کے بعد مختلف نصیحتیں فرمائیں۔اس کے بعد ارشاد فرمایا:۔''اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں ،عنقریب زمانہ میں ایسا معلو م ہوتا ہے کہ میرے پاس میرے پروردگار کا پیامی آئے گا اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں گا تو میں تم میں دوعظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جاؤں گا۔ان میں پہلی چیز کتاب اللہ ہے۔جس میں ہدائیت اور نور ہے۔ تم کتاب اللہ کو مضبوط پکڑ لو اور اسکی حفاظت کی پوری پوری کوشش کرو۔''اسکے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مختلف طریقے پر کتاب اللہ کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کی رغبت دلائی اس کے بعد ارشاد فرمایا :'' دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔تم خدا سے ڈرنا،میرے اہل بیت کے معاملے میں تم اللہ سے ڈرنا میرے اہل بیت کے معاملے میں۔'' (یہ جملہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دومرتبہ ارشاد فرمایا۔رواہ مسلم) اہلبیت رضی اللّٰہ عنہم سے متعلق قادیانیوں کی غلیظ زبان
اہل بیت کا نسب نہایت پاکیزہ و عالی ہے۔ ان کے حق میں قرآن کریم کی کئی آیات نازل ہوئیں اور کئی احادیث نبویہ ان کی شان میں وارد ہوئیں۔ وہ سب مسلمانوں کے احترام، توقیر اور ان کی محبت کے لائق اور مستحق ہیں۔ ہر مسلمان اہل بیت سے محبت اپنے لیے سرمایۂ حیات سمجھتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل بیت پر طعن و تشنیع کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا۔ لیکن اس دنیا میں ایسے بدبختوں اور نامرادوں کی کمی نہیں جو ان کے خلاف اپنی گز گز بھر لمبی زبانیں کھولتے ہیں۔ ایسے ہی نامرادوں میں ایک آنجہانی مرزا غلام قادیانی ہے۔مرزا قادیانی نے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ، اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کیں اور اپنے آپ کو ان سب سے برتر اور افضل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مرزا قادیانی کی غلیظ زبان اور بد بختی کے چندنمونے پیش نظر ہیں:
(1) حضرت علی کے بارے میں مرزا قادیانی زبان دراز کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو۔ اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو۔''
(ملفوظات جلد اول صفحہ 400، طبع جدید، از مرزا قادیانی)
(2) نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور شہید کربلا حضرت امام حسین کے بارے میں مرزا قادیانی لکھتا ہے:
ز''اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے، کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔''
(اعجاز احمدی صفحہ70 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 181 از مرزا قادیانی)
ز''اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔''
(اعجاز احمدی صفحہ81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 193 از مرزا قادیانی)
ز''تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا۔ اور تمہارا ورد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے۔ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ (ذکرحسین) کا ڈھیر ہے۔'' (نقلِ کفر کفر نباشد! مرزا قادیانی پہ لعنت بے شمار)۔
(اعجاز احمدی صفحہ82 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 194 از مرزا قادیانی)
''
کربلائیست سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم
''
ترجمہ: میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے۔ سو (100) حسین ہر وقت میری جیب میں ہیں۔
(نزول المسیح صفحہ99 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ477 از مرزا قادیانی)
'' اے قوم شیعہ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے۔''
(دافع البلاء صفحہ 17، مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233 از مرزا قادیانی)
(3) سیدہ النساء حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ عہناکی شرمناک توہین:
زجگر گوشہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدة النساء حضرت فاطمہ الزہرا کی ذات پاک کے بارے میں مرزا قادیانی نے جو بکواس کی ہے، ہمارا قلم اسے لکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اگر کسی نے یہ بکواس دیکھنی ہو تو ملعون مرزا قادیانی کی کتاب کا حوالہ درج ہے۔
(ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ) صفحہ9 امندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233 از مرزا قادیانی)
(4) اپنے ایک شعر میں پنج تن پاک کی توہین کرتے ہوئے اپنی اولاد کو پنج تن کہتا ہے:
ز ''میری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے''
(در ثمین اردو صفحہ49 از مرزا قادیانی)
(5) مرزائیوں کے نزدیک اب مرزا قادیانی کی اتباع کئے بغیرسید بھی سید نہیں رہے گا :
زمرزا قادیانی کا بیٹا اور قادیانی جماعت کا خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود لفظ ''سید'' کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:''اب جو سید کہلاتا ہے اس کی یہ سیادت باطل ہو جائے گی۔ اب وہی سید ہوگا جو حضرت مسیح موعود (مرزا) کی اتباع میں داخل ہوگا۔ اب پرانا رشتہ کام نہیں آئے گا۔''
(قول الحق صفحہ 32 مندرجہ انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 80 از مرزا بشیرالدین محمود)
ہم شہادت حسین کتنے جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ناناجا ن صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کے تحفظ کی خاطر ، حق کی سر بلندی کی خاطر میدان کربلا کو اپنے خاندان کے خون سے رنگین ہوتے دیکھا ۔اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرا دیا بالاخر اپنا سر بھی قلم کرادیا ، لیکن اپنے نانا جان صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین پر آنچ نہ آنے دی ۔دعویٰ ہمارا یہ ہے کہ ہم اسلام کے سپاہی ہیں ۔ہم اسلام کے کیسے سپاہی ہیں ؟ اسلام پر تو قادیانی کتے حملہ آور ہیں اورہم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں ۔حضرات اہل بیت کرام کی شان میں ایسی توہین کرنے والوں کے ساتھ ہماری دوستیاں یارانے کیا مطلب رکھتے ہیں ؟ان کے ساتھ اقتصادی ومعاشی و معاشرتی ا ور سیاسی تعلقات استوار کرکے ہم کس طرح اہل بیت سے محبت اور وفاداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟اور اگر ہم ان تمام باتوں کا علم ہو جانے کے بعد بھی اپنے تعلقات ان قادیانیوں سے رکھ رہے ہیں تو کیا ہم بے حس نہیں ہیں تو اور کیا ہیں ؟کیا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے ؟کیا شہید کربلا کی غلامی کا حق یہی ہے ؟ اے مسلمان تیری غیرت کہاں سو گئی ؟
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
امت مسلمہ سے جذبہ جہاد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے انگریز استعماریت سے برصغیر بالخصوص پنجاب میں قادیانیت کا شرمناک پودا کاشت کیا جو مسلمانوں کے لئے برگ حشیش سے بھی زیادہ زہرناک اور افسوس ناک ثابت ہوا ہے۔ یہ مسلمانوں کے سینے کا ناسور ہے جو گزشتہ ایک صدی سے فتنہ درفتنہ پھیل رہا ہے۔ انگریز کی غلامی کو مرغوب بنانے کی رومانیت اس کا بنیادی وظیفہ رہا ہے۔ ختم نبوت کے چورجسے اقبال نے شرک فی النبوت قرار دیا، ایک ایسے بدبخت ، ہذیان گو، جنس پرست اور غلیظ انسان کو نبی، مجدد اور مسیح موعود کے طور پر پیش کرتے رہے جو اپنی اخلاق باختگی کے سبب انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں تھا۔ انگریز کی ٹوہ چاٹنے والا یہ شخص اور اس کی کافر امت شروع سے ہی مسلمانوں کو کافر قرار دیتی اور ان کے خلاف سازشیں بنتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے اسے غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا اعلان کیا تاکہ عام مسلمان ان سے دھوکہ نہ کھائیں اور یہ مسلمانوں کے اندر نقب نہ لگاسکیں۔
مرزابشیرالدین محمود جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا، ایک بہت بڑا سازشی ذہن تھا۔ اس نے کشمیر کمیٹی کی آڑ میں اور کشمیری اور مسلمانوں کی آزادی کے پردے میں کشمیر میں قادیانی مبلغ بھیجے اور انگریز کی ملی بھگت سے کشمیر کو قادیانی ریاست میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلتا رہا۔ وہ کشمیر کمیٹی کی کاروائیوں کا مخبر تھا اور کشمیر کی آزادی کیلئے ہونے والی کوششوں سے انگریزوں کو آگاہ رکھتا۔ علامہ اقبال اور کچھ دوسرے لوگوں نے اسی لیے اس کشمیر کمیٹی سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس بدبخت کو اس کی صدارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔ قادیانیوں کی فرمانبرداری کے صلے میں چودھری ظفراللہ کے ذریعے پنجاب میں قادیانیت کو منظم کیا۔ ظفراللہ نے اور دوسرے بااثر قادیانیوں نے مسلمان نوجوانوں کو نوکریوں، عورتوں اور دولت کے لالچ دے کر قادیانیت کی طرف راغب کیا۔ خود شیخ اعجاز احمد جو علامہ اقبال کے سگے بھتیجے تھے، ظفراللہ کی طرف سے سب ججی کے لالچ میں آکر قادیانی ہوگئے۔ خاندان اقبال میں یہ واحد روسیا تھا جس نے اپنے مقدر میں قادیانیت کی ذلت لکھی۔ جبکہ اس کے باپ،بیٹوں اور بیٹیوں نے قادیانیت کو دھتکار دیا۔
قادیانیت نے سرفضل حسین اور چودھری ظفراللہ کے توسط سے یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ میں گھس کر 1935ء کے دستور کے تحت ہونے والے انتخاب میں مسلم نشستوں پر قادیانی اُمیدوار کھڑے کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ یہ قادیانی مسلم نشستوں پر منتخب ہو کر اور مسلم عوام کے نمائندے بن کر قیام پاکستان کے مطالبے کو سبوتاژ کرسکیں اور انگریز کی غلامی کو رحمت قرار دے کر برصغیر کی تقسیم کو ناکام بنادیں۔ علامہ اقبال نے 1935ء سے جب شدومد سے قادیانیوں کے کافر اور غیر مسلم اور ملت اسلامیہ سے اخراج کا جو مطالبہ کیا، اس کے پیچھے ان کی تحریک پاکستان کو ناکام بنانے کی سازش کو توڑنا تھا۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد جب انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا تو یہ بھی اقبال کے ہی خواب کی تعبیر تھی کیونکہ برصغیر کے تمام علماء متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم اور کافر قرار دے چکے تھے۔ خود قادیانی بھی اپنی تحریروں میں مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ صرف وہ مسلمانوں میں نقب لگانے کیلئے چولے پر چولا بدلتے رہتے ہیں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ وہ تومسلمانوں کو کافر سمجھیں۔ مسلم قائدین اور عوام کے جنازوں میں شرکت نہ کریں۔ (چودھری ظفراللہ نے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی) مگر چاہیں کہ انہیں مسلمانوں سے الگ نہ کیا جائے۔ ختم نبوت کی ان کی بھونڈی اور ناکارہ تاویلات جھوٹ اور فریب کاری کا پلندہ ہیں۔ اقبال کے بقول اے کہ بعد از نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک
نبی پاکؐ کے بعد نبوت کا خفی، جلی، بروزی، ظلی، مہدویت، مسیح موعودیت اور مجددیت کا دعویٰ کفروزندقہ کے سوا کچھ معنی نہیں رکھتا جبکہ اس کا مدعی قادیانی کذاب جیسا جھوٹا،جنس پرست، انگریز کے تلوے چاٹنے والا، اخلاق باختہ انسان ہو۔ یہ امت مسلمہ میں نفاق کا فتنہ تھا جو ذلیل و رسوا ہوا۔
غلام قادیانی کی امت کاذبہ نے بلوچستان میں بھی اپنی مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کی مگر کشمیر اور پنجاب کی طرح یہاں بھی وہ ذلیل و خوار ہوئی۔ ان کی پاکستان دشمنی یوں تو ان کے ہر اقدام سے واضح ہے تاہم ان کے چند بیانات ملاحظہ ہوں:
’’میں قبل ازیں بتاچکا ہوں کہ ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری اور ہم کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہوجائیں۔‘‘
(الفضل16مئی1947ء خطبہ مرزا محمود)
’’ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک پاکستان کا بننا اصولاً غلط ہے۔‘‘
(الفضل،12-13اپریل 1947ئ)
’’ممکن ہے عارضی طور پر کچھ افتراق (علیحدگی) ہوا اور کچھ وقت کے لیے دونوں قومیں (ہندوومسلم) جداجدارہیں مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جلد دور ہوجائے۔بہرحال ہم چاہتے ہیں ، اکھنڈہندوستان بنے۔‘‘
(الفضل17مئی1947ئ)
قادیانی خودمسلمانوں کوکافر سمجھتے ہیں۔مرزا محمود لکھتا ہے: ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت ، صفحہ35قادیانیوں کی کتاب)
قادیانیوں سے بیزاری کے بارے میں علامہ اقبال لکھتے ہیں۔’’ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا جب ایک نئی نبوت۔بانی اسلام کی نبوت سے اعلیٰ تر نبوت۔۔ کا دعویٰ کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرتؐ کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا‘‘۔
(اقبال اور احمدیت، صفحہ59 بی۔اے ڈار)
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ یہ گستاخان نبوت کافر اور پاکستان دشمن ہیں اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے پر عمل کررہے ہیں لہٰذا ان کا وجود پاکستان میں ناقابلِ برداشت ہے اور وہ پاکستان میں بیٹھ کر اور پاکستان سے باہر آئین پاکستان کو اس لیے ختم کرنے کے درپے ہیں کہ اس میں انہیں کافر اور غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور یہ آئین پاکستان میں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ مرزا طاہر نے موجودہ عدلیہ، انتظامیہ اور صدر لغاری کے تنازعے میں قادیانیت کے اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح یہ بحران شدید ہو، آئین معطل ہوجائے اور قادیانیوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے۔ مگر خدا نے انہیں ننگا کر کے ان کے مقاصد ناکام بنا دیے ہیں۔ مشہور قادیانی سائنسدان عبدالسلام نے بھی پاکستان دشمنی میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے راز حکومت امریکہ کو پہنچائے جس پر جنرل ضیاء نے کہا کہ ’’اس کتیا کے بچے کو کبھی میرے سامنے نہ لانا۔ یہ امریکہ، برطانیہ اور یہودیوں کا گماشتہ ہے۔ ‘‘ اور اس لیے اسے نوبل انعام دے دیا گیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شہید اسلام صدر جنرل محمد ضیاء الحق امریکہ تشریف لے گئے اور انہوں نے کہا کہ پاکستان کوئی ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ ہم تو پر امن مقاصد کے لیے ایٹمی پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں تو امریکیوں نے غصے میں آکر جنرل ضیاء کو ایک کمرے میں جانے کو کہا جہاں کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا۔ جب جنرل ضیاء اس کمرے میں داخل ہورہے تھے تو دوسرے دروازے سے نکلتے ہوئے جنرل ضیاء نے ڈاکٹر عبدالسلام کو دیکھ لیا تھا۔
عالمی تحریک تحفظ ختم نبوت کے ممتاز راہنما حضرت مولانا حافظ محمد یوسف لدھیانوی نے بھی15جون1998ء کے روزنامہ جنگ لاہور میں ایک بیان میں کہا کہ صدر ایوب خان مرحوم کی بڑی خواہش تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے۔ چنانچہ انہوں نے وفاقی وزیرِ قانون شیخ خورشید کے بھائی منیر احمد خان کی سربراہی میں ا یٹمی کمیشن تشکیل دیا مگر ڈاکٹر عبدالسلام یہ شاگرد تھے اور حلقہ اثر میں تھے۔ چنانچہ ان دونوں کی وجہ سے اس سمت میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ یہ دونوں امریکہ اور برطانیہ کو پاکستان کی ان سرگرمیوں میں باخبر رکھتے رہے۔1971ء کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار پر آئے تو انہوں نے ایٹمی طاقت بننے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدیر کو اس منصوبے پر کام سونپا گیا۔ ان کے خلاف بھی ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر منیر احمد خان سازشیں کرتے رہے جنہیں جنرل ضیاء الحق نے ناکام بنایا۔ جب تک ڈاکٹر عبدالسلام زندہ رہا، پاکستان ایٹمی طاقت نہ بن سکا۔ اس مردود کے واصل جہنم ہونے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر کی سربراہی میں پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ یوں قادیانیوں کی پاکستان کے خلاف یہ سازش بھی ناکام ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے پاکستان میں ایٹمی توانائی کا آغاز کیا اور انہوں نے ہی قادیانیوں کو سیاسی مصلحت کے تحت ہی سہی، اقلیت قرار دے کر اس فتنے کا گھیرا تنگ کردیا۔
ہر قادیانی جہاں بھی بیٹھا ہے، وہ کافر اور غدار ہے۔ پاکستان اور اسلام کا دشمن ہے۔ رسول پاکؐ کا گستاخ ہے لہٰذا انہیں تمام اہم اور کلیدی مناصب سے فوراً الگ کردیا جائے۔ ان پرکڑی نظر رکھی جائے تاکہ ان کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے اور اگر ممکن ہو تو انہیں آہستہ آہستہ پاکستان سے نکال دیا جائے۔ اس لیے کہ ہمارے ایمان اور پاکستان کی سلامتی کا یہ تقاضا ہے۔ پاکستان کے خلاف سازشوں میں عیسائیوں، ہندوئوں اور یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ ان کو پالنا اور ان سے صرف نظر خود کشی کا راستہ ہے۔ حکومت پاکستان کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ان کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا چلا جائے۔ یہ ہمارے ایمان اور ملک کی سلامتی کا تقاضا ہے۔ ان سے ہررعایت خود سے دشمنی کے مترادف ہے۔
غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی چورا چکے کو تاج ختم نبوت چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کاش مسلمان فرقہ پرستیوں کے حصار سے نکل کر ایک دوسرے کے خلاف الجھنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ان گستاخوں کو لگام ڈالیں اور آپس کی فرقہ بندیوں میں توانائی ضائع کرنے کی بجائے متحد ہو کر اسلام اور پاکستان کے ان غداروں کا محاصرہ کریں۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
قادیانی دجال کے دجل وفروب سے دنیابھر کے انسانوں، مسلمانوں اور خود قادیانیوں کو آگاہ کرنا عین عبادت ہے تاکہ وہ اس گمراہی اور کفروضلالت سے محفوظ رہ سکیں۔ تاجدارِ ختم نبوت جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی عزت وناموس کی جان و مال سے حفاظت کریں اور سارق تاج ختم نبوت کا ہر کہیں تعاقب کریں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے قادیانیت کے خلاف جہاد میں حصہ لیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کو امر بنادیا۔ ایسے تمام عشاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین و دنیا کی بشارتیں ہیں اور مردود ہیں وہ لوگ جو اس قادیانی دجال کو کس بھی درجے میں انسان بھی گردانتے ہیں۔اسلام کے اندر اس فتنہ ارتداد کے بانی مرتد غلام قادیانی کی سزا رجم اور قتل ہونی چاہیے تھی۔ افسوس راجپال تو واصل جہنم ہوگیا مگر مرتدین کی یہ اولاد انگریز کی چھترچھایا تلے قوت پکڑتی رہی اور آج کل بین الاقوامی اسلام دشمن قوتیں اور عالمی صیہونیت اس کی مربی اور پشت پناہ ہے اور وہ پوری دنیا میں کفروضلالت پھیلا رہے ہیں۔ یہ اسرائیل کے ایجنٹ، ہندو کے گماشتے، مغربی طاقتوں کے آلہ کار اور پاکستان اور عالم اسلام کے دشمن نمبر ایک ہیں۔
اقبال نے جن کے قرب و جوامیں قادیانیوں کے گڑھ تھے۔ سب سے پہلے سیاسی، عمرانی اورتہذیبی سطح پر ان کے خطرناک عزائم کا ادراک کیا اور انہیں اسلام اور ہندوستان (مراد مسلم ہندوستان جو آج کل پاکستان ہے) کاغدار قرار دیا۔ اس لیے کہ قادیانی اسلام کے بنیادی عقیدے ختم نبوت کے سارق تھے اور ہندوئوں ،انگریزوں اور یونینسٹوں کے ساتھ مل کر 1935ء کے آئین کی آڑ میں مسلم نشستوں پر قبضہ کر کے تحریک پاکستان کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے اسی بنا پر ان کو کافر قرار دے کر ان کو الگ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا جبکہ علماء کرام دینی اور مذہبی حوالے سے ان کے خلاف مورچہ بند تھے۔قادیانی علامہ اقبال کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ اقبال نے1935ء میں حضرت سید عطاء اللہ بخاری ؒ جو ختم نبوت کے مجاہدِ اعظم تھے، کے کہنے پر قادیانیوں کے خلاف سرگرمی دکھائی ۔ حالانکہ وہ ان کے بارے میں پہلے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ قادیانیوں کا یہ بیان سراسرجھوٹ ہے۔اقبال نے1902ء سب سے پہلے قادیانیت پر وار کیا۔ 1902ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں انہوں نے مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ:
اے کہ بعداز تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ
اپنی مرتبہ کتاب ’’سرور رفتہ‘‘ میں صفحہ30پرغلام رسول مہر نے ایک نوٹ میں کہا کہ یہ 1902ء کا کلام ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لکھنے کی ضرورت مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ بروزیت کی بنا پر ہوئی۔ یعنی کہتے ہیں کہ تیرے بعد نبوت کا دعویٰ ہر لحاظ سے شرک فی النبوت ہے۔ خواہ اس کا مفہوم کوئی ہو۔ یعنی ظلی اور بروزی نبوت بھی اس سے باہر نہیں۔
مئی1902ء میں مخزن لاہور اور 11جون1902؟ء میں محمد دین فوق کے رسالے پنجہ فولاد میں قادیانی مذہب کے نتائج کا تجزیہ یوں کیا۔ یاد رہے کہ یہ قادیان کی طرف سے بیعت کے جواب میں شعر لکھے۔
تو جدائی پہ جان دیتا ہے وصل کی راہ سوچتا ہوں میں
بھائیوں میں بگاڑ ہو جس سے اس عبادت کو کیا سراہوں میں
مرگ اغیار پر خوشی ہے تجھے اور آنسو بہا رہا ہوں میں
یاد رہے مرزا قادیانی اپنے مخالفین کی موت پر پیشگوئیاں کرتا رہتا تھا۔
1903ء انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ’’فریاد امت‘‘ منعقدہ مارچ1903ء میں اقبال نے ایک نظم پڑھی جس کا دوسرا عنوان ا برگہربار تھا۔ اس میں انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
اقبال نے اس شعر کے ذریعے مرزا قادیانی کے اس دعوے کو رد کردیا کہ وہ مثل مسیح یا مثل محمد ہے۔
1911ء …ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر میں انہوں نے قادیانیوں کو ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ کہنے کے ساتھ ساتھ انہیں نام نہاد قادیانی فرقہ کہا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس مقالے کے ترجمے میں ’’So-Called‘‘ نام نہاد کا لفظ غلطی سے چھوڑ دیا جس کو قادیانیوں نے ایکسپلائٹ کیا اور اصل انگریزی مضمون دیکھنے کی کسی نے زحمت نہ کی۔ کیونکہ قادیانیوں نے اس مضمون کا انگریزی ورژن مارکیٹ سے غائب کردیاتھا۔
1914ء …میں اقبال نے لکھا کہ قادیانی جماعت نبی اکرم ؐ کے بعد نبوت کی قائل ہے تو ہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
1915ء …میں رموز بے خودی شائع ہوئی۔ اقبال نے عقیدہ ختم نبوت کا واشگاف اعلان کیا۔
پس خدا برماشریعت ختم کرو بررسول ما رسالت ختم کرو
لا نبی بعدی ز احسان خدااست پردہ ناموس دین مصطفی است
حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست
1916ء …اقبال نے1916ء میں ایک بیان میں کہا: ’’جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہوجس کا انکار مستلزم کفر ہو تووہ خارج از اسلام ہوگا۔ اگر قادیانی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔
جون1933ء …اقبال نے کشمیر میں قادیانیوں کی سازشوں کے بارے میں بیان دیا کہ ’’آخر میں مسلمانان کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں سے خبردار رہیں جو ان کے خلا ف کام کررہی ہیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔‘‘ (7جون1933ء اقبال نامہ، حصہ اول)
20جون1933ء …کو اقبال نے کشمیر میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کی بناء پر کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔
12 اکتوبر1933ء …کو اقبال نے قادیانی اہل قلم جن میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ پیش پیش تھے کی سازشوں کے خلاف بیان دیا اور کشمیر کمیٹی کے عہدہ صدارت کی پیشکش کو فریب قرار دیا اور کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات کے پیش نظر ایک مسلمان کسی ایسی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے جس کا اصل مقصد غیر فرقہ واری کی ہلکی سی آڑ میں کسی مخصوص جماعت کا پراپیگنڈہ کرنا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ، صفحہ204)
9 فروری 1934ء …کو نعیم الحق وکیل پٹنہ کو لکھتے ہیں۔جس مقدمے کی پیروی کیلئے میں نے آپ سے درخواست کی تھی، اس کی پیروی چودھری ظفراللہ کریں گے۔ چودھری ظفراللہ خان کیونکر اورکس کی دعوت پر وہاں جارہے ہیں، مجھے معلوم نہیں۔ شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لو گ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ ‘‘ (اقبال نامہ، صفحہ435)
1935ء…اقبال نے ضرب کلیم میں اپنی نظم جہاد میں قادیانیوں پر تنقید کی۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر
دوسری نظم نبوت میں لکھتے ہیں: وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
ایک نظم امامت میں لکھتے ہیں فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
انگریز کی قادیانیوں کی چاکری پر لکھتے ہیں
ہو اگر قوت فرعون کی درپردہ مرید قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم الٰہی
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے غارت گر اقوام سے وہ صورت چنگیز
1936:7 اگست1936ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں ’’الحمدللہ کہ اب قادیانی فتنہ پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہورہا ہے۔‘‘
پس چہ باید کرد1936ء میں شائع ہوئی۔ اقبال لکھتے ہیں۔ عصر من پیغمبرے ہم آفرید آنکہ در قرآں بغیر از خود ندید
شیخ او مرد فرنگی را مرید گرچہ گوید از مقام بایزید
گفت دیں را رونق ز محکومی است زندگانی از خودی محرومی است
دولت اغیار را رحمت شمرد رقص ہا گرد کلیسا کرد و مرد
1937ء قادیانی مذہب از پروفیسر الیاس برنی، موصول ہونے پر اقبال نے لکھا: ’’قادیانی تحریک یایوں کہئے کہ بانی تحریک کا دعویٰ مسئلہ بروز پر مبنی ہے۔ مسئلہ بروز کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہ مسئلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے۔ نبوت کا سامی تخیل اس سے بہت ارفع واعلیٰ ہے۔ میری ناقص رائے میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کاخاتمہ کردے گی۔‘‘
ہماری اس تحریر سے واضح ہوگیا کہ اقبال نے کسی اضطراری کیفیت میں قادیانیوں کے خلاف مہم جوئی نہیں کی تھی بلکہ ایک پورے تسلسل کے ساتھ 1902ء سے اپنی وفات تک قادیانیت کے خلاف جہاد کیا۔ علمائے عظام نے دینی اور مذہبی محاذ اور اقبال نے عمرانی، تہذیبی، اور سیاسی محاذپر اس کفرستان پر پیہم حملے کئے اور 1935ء میں تحریک پاکستان جو مسلمانوں کی برصغیر میں آزادی کی آخری کوشش تھی، کو سبوتاژ کرنے کی قادیانی کوششوں کی وجہ سے کھل کر انہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ مسلمانوں کی نشستوں پر منتخب ہو کر مسلمانوں کو ہندو اور انگریز کا غلام نہ بنادیں۔ برصغیر میں قادیانی ریاست کی تشکیل کیلئے قادیانیوں نے کبھی پنجاب، کبھی کشمیر اور کبھی بلوچستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جنہیں بندگان خدانے ناکام بنادیا۔
اقبال کے نزدیک قادیانی…اسلام اور پاکستان کے غدار ہیں۔ یہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر ا یک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہیں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف بھارت کی حمایت کرتے ہیں اور اسے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ پر اہلحدیث مکتبہ فکر کامئوقف
مرزا غلام احمد قادیانی (
علیہ من اللہ ما استحق
) اپنے دعویٰ نبوت و رسالت، کفریہ وشرکیہ عقائد، گستاخانہ ہفوات، باطنی تلبیسات کی وجہ سے خود اوراس کے جملہ پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ تقریباً تمام نواقض ایمان واسلام اس گروہ میں موجود ہیں۔
کفار کی چند اقسام:
(1) مشرک (بت پرست، آتش پرست وغیرہ)
(2) منافق
(3) کتابی
(4) مرتد
(5) عام کفار (مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ دین اسلام یا اس کے کسی رکن یا جزو کا منکر ہو جیسے دہریے، نیچری، منکرین حدیث وغیرہ)
(6) زندیق ،وہ شخص یا گروہ جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو لیکن خفیہ طور پر (خروج عن الملۃ) کافرانہ عقائد واعمال بد کا مرتکب ہو اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیتا ہو۔
مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات، عقائد، دعوؤںکی وجہ سے مرتد، کافر، مشرک، زندیق ٹھہرتا ہے اور اس کے جملہ پیروکار بھی کافر، زندیق ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ بظاہر مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے قرآن مجید، احادیث رسول، صحابہ کرام، آئمہ دین، نماز، روزہ سے وابستگی ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقولون الا کذبا (الکہف) جب کہ حقیقت میں ان کا مقصد مختلف حیلوں بہانوں سے (کہیں حیات، وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام، مجدد، مثیل مسیح وغیرہ کا موضو ع چھیڑ کر) مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت و رسالت کو تسلیم کروانا ہے۔ حق یہ ہے کہ قادیانیت دین اسلام کے مقابلہ میں الگ ایک مصنوعی مذہب ہے۔ یہ فتنہ ابتداً مذہبی تحریک کی صورت میں سامنے آیا تو علماء اہلحدیث شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا عبدالحق غزنوی، صحافی اسلام مولانا محمد حسین بٹالوی، شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محدث عبدالرحمن مبارکفوری، مولانا محدث شمس الحق عظیم آبادی، مولانا میر ابراہیم سیالکوٹی، مولانا محدث محمد بشیر سہوانی، مولانا عبداللہ روپڑی، مولانا عبداللہ معمار امرتسری ، مولانا ابراہیم کمیر پوری، مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری، شہید ملت مولانا علامہ احسان الٰہی ظہیر وغیرھم (کثراللہ امثالہم ورحمہم اللہ رحمتہ واسعۃ) بالاتفاق جماعت اہلحدیث اور دیگر اسلامی گروہوں نے قادیانی امت کو اس کے پیشوا سمیت کافر زندیق قراردیا۔ ملاحظہ ہو پاک و ہند کے علماء اسلام کا اولین فتویٰ مطبوعہ دارالدعوۃ السلفیہ لاہور، مرزائیت اور اسلام، فتاویٰ ثنائیہ، فتاویٰ نذیریہ وغیرہا۔
موجودہ حالات میں یہ انگریزی ناسور اور شیطانی تحریک اسلام کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف مذہبی یلغار کی صورت میں بلکہ عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف مختلف حربوں ، چربوں سے ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے اور ان لوگوں نے اپنی سیاسی اور عسکری تنظیمیں بنا رکھی ہیں جو ملت اسلامیہ کو معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی، سیاسی ، دینی نقصان پہنچانے میں مصروف کار ہیں جیسا کہ مستفتی کی تحریرسے بھی عیاں ہے ۔ زندیق کے ساتھ ساتھ ان قباحتوں کا ہونا ظلمات بعضھا فوق بعض کا مصداق کامل ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں اس جماعت یا اس کے کسی فرد سے برادرانہ تعلقات جس میں سلام و کلام، میل جول، نشست و برخاست، شادی و غمی میں شرکت، تجارت، لین دین، خریدوفروخت، ان کی تعلیم گاہوں، ہوٹلوں، ریستورانوں میں جانا اور ان سے کسی بھی قسم کی رواداری برتنا قطعی طور پر حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
1۔
لا یتخد المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شیئ
۔ (اٰل عمران:28)
ترجمہ : مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جوکوئی ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں۔
2۔
یاایھا الذین امنو لا تتخذو الذین اتخذو دینکم ھزوا لعبامن الذین اوتو الکتاب من قبلکم والکفار اولیاء واتقواللہ ان کنتم مومنین
۔ (المائدہ :57)
ترجمہ : مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بنائو جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔
3۔
ولا ترکنوا الی الذین ظلمو فتمسکم النار
۔ (ہود : 113 )
ترجمہ : اور ظالمو کی طرف ہرگز نہ جھکنا، ورنہ تمہیں بھی (دوزخ) کی آگ لگ جائے گی۔
4۔
لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حآد اللہ ورسولہ ولو کانا اباء ھم اوابناء ھم او اخوانھم او عشیرتھم
۔ (مجادلۃ : 22)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالف کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ کے ہی کیوں نہ ہوں
5۔
یاایھا الذین امنو لا تتخذوا عدوی وعدکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ وقد کفروا بماجائکم من الحق
۔ (ممتحنہ :1)
ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں۔
6۔
یاایھا الذین امنو لا تتولو قوما غضب اللہ علیھم قد یئسو من الاخرۃ کما یئس الکفرا من اصحاب القبور
۔ (ممتحنہ : 13)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے جو آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں جیسے مردہ اہل قبر سے کافر نااُمید ہیں۔
7۔
یایھا الذین امنو لا تتخذو ابآئکم واخوانکم اولیاء ان استحبو الکفر علی الایمان ومن یتولھم منکم فاولئک ھم الظلمون
۔ (التوبہ : 23 )
ترجمہ : اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بنائو، اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا ظالم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی باتیں لائیں گے جن کو تم نے نہ سنا ہوگا، نہ تمہارے باپ دادا نے، تم ان سے دور رہنا (یاد رہے) وہ تم سے دور ہیں وہ تم کو گمراہ نہ کریں اور تم کو فتنہ میں نہ ڈالیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ 10)
مزید تفصیل کے لئے سنن ابی دائود کی کتاب السنہ الملی احکام المرتدین ملاحظہ فرمائیں
مزید برآں زندیق کے ساتھ سیدنا علی ؓ کا سلوک : سیدنا علی ؓ کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور بیت المال سے نقد و جنس بھی پاتے تھے لیکن خفیہ طور پر بتوں کی پرستش بھی کرتے تھے۔ یہ لوگ پکڑے گئے اور حضرت علیؓ کے سامنے پیش کئے گئے۔ آپ نے انہیں مسجد میں بٹھایا یا شاید جیل خانہ میں رکھا پھر لوگوں سے فرمایا’’لوگو! اس قوم کے متعلق تمہار اکیا خیال ہے، جو بیت المال سے نقد و جنس وصول کرتے ہیں اور پھر بتوں کی پرستش کرتے ہیں؟‘‘ لوگوں نے آپ کو انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ آپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا ’’میں ان کے ساتھ وہی کچھ کروں گا جو ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا تھا‘‘ پھر آپ نے انہیں آگ میں جلادیا۔ (فقہ حضرت علی صفحہ 349 بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ)
امام ابن قدامہ نے حضر ت علیؓ سے روایت کی ہے کہ مرتدکو توبہ کی ترغیب کی جائے لیکن زندیق کو توبہ کی ترغیب نہیں دی جائے گی۔ حضرت علیؓ کے پاس ایک شخص لایا گیا جو عیسائی ہوگیا آپ نے اسے توبہ کرنے کیلئے کہا اس نے انکار کردیا جس پر اس کی گردن اڑا دی گئی۔ ایک گروہ حضرت علیؓ کے پاس لایا گیا جو نمازیں تو پڑھتے تھے لیکن زندیق تھے جس کی عادل گواہوں نے شہادت بھی دی۔ انہوں نے بے دینی سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ ہمارا دین تو صرف اسلام ہے۔ آپؓ نے ان لوگوں سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا اور ان کی گردن اُڑا دی۔ پھر آپؓ نے فرمایا ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں نے نصرانی کو کیوں توبہ کی ترغیب دی تھی؟ میں نے اس لیے ایسا کیا تھاکہ اس نے اپنے دین کا اظہار کردیا تھا ، لیکن زندیقوں کا یہ ٹولہ جس کے خلاف ثبوت بھی مہیا ہو یا تھا اسے میں نے اس لیے قتل کردیا کہ یہ انکاری تھے حالانکہ ان کے خلاف گواہی قائم ہوچکی تھی۔ ‘‘ المغنی ابن قدامہ 141/8
ڈاکٹر محمدرواس حفظہ اللہ اس اثر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی یہ رائے بہت صائب تھی کیونکہ زندیق تو پہلے اظہار اسلام کررہا ہے اس کی توبہ اظہار اسلام سے ہوسکتی ہے جو پہلے ہی حاصل ہے لیکن دوسری طرف اس کے کفر پر دلیل قائم ہوچکی ہے اب وہ جو اظہار اسلام کررہا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف کوئی چال پوشیدہ ہو۔ (فقہ حضرت علی ؓصفحہ نمبر346)
صحیح بخاری میں موجود ہے کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زنادقہ (زندیقوں) کو جلا دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا۔ میں ان کو جلاتا تو نہ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے عذاب (آگ) سے عذاب نہ دو۔ البتہ میں ان کو قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ جو کوئی اپنے دین کو تبدیل کرے اس کو قتل کردو۔ ‘‘ (صحیح بخاری رقم 6922، مسند احمد جلد اول صفحہ282)
جہاد سے تحلف کی بناء پر سیدنا کعب بن مالک، سیدنا مرارہ بن ربیع اور سیدنا بلال بن امیہ رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا معاشرتی بائیکاٹ تب تک رہا جب تک آسمان سے ان کی توبہ کی منظوری نہ اتری۔ ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری رقم الحدیث 4418
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓکا بدعت اختیار کرنے والے شخص کے سلام کا جواب نہ دینا اور ان کا ایک دوست شام میں رہتا تھا جب اس نے بدعت اختیار کی تو جناب عبداللہؓ نے اس کو اپنی طرف خط لکھنے سے منع کردیا۔ (سنن ابی دائود رقم الحدیث4613)
لہٰذا قرآن مجید اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے طرزِ عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین اسلام اور مسلمان دشمن قادیانیوں / مرزائیوں کے ساتھ مکمل مقاطعہ /بائیکاٹ ضروری ہے۔ یہ لوگ قرآن و حدیث، توحید وسنت کے دشمن،ا للہ جل شانہ، انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ رضوان اللہ علیہم، آئمہ و محدثین، شعائر اللہ مکہ، مدینہ کے گستاخ، عقل پرست، منکرین وحی، دین اسلام اور اہل اسلام کے دشمن اور مسلمانوں کی دشمنی میں کفاریہودونصاریٰ کے گہرے دوست ہیں جو مسلمانوں کو معاشی، معاشرتی، سیاسی، دینی نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔ جب بائیکاٹ کے علاوہ اصلاح کی کوئی اور صورت نہ ہو تو ان سے ذاتی، معاشرتی، معاشی، سیاسی ،دینی رواداری برتنا حرام ہے اور قادیانیوں / مرزائیوں سے اجتناب ضروری ہے۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
شیزان اور دیگر قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں ضروری ہے؟
مولانا عزیز الرحمن ثانی صاحب دامت برکاتھم
دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے اہم ترین عقیدہ عقیدہ ختم نبوت ہے جس پر مسلمانان عالم متفق ہیں۔یہ قرب قیامت کا دورہے۔ روز بروز نت نئے فتنے مختلف شکلوں میں رونما ہو رہے ہیں جن میں سب سے بڑا فتنہ قادیانیت ہے۔پوری ملت اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروںکی بد ترین قسم زندیق قرار دیتی ہے اوربقول علامہ اقبال:ؒ ’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں‘‘ ۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے 1974 میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس کے بعد صدر پاکستان نے تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298 بی اور 298 سی کا اضافہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال اورقادیانیت کی تبلیغ سے روک دیا۔منکرین ختم نبوت قادیانی ؍ مرزائی آج بھی مختلف چالوں سے مسلمانوں کے کمائے ہوئے پیسوں سے مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہیں۔دوستی ،نوکری ، چھوکری ،پیسوں کی ٹوکری کے بہانے سے اور کسی کو غیر ملکی ویزہ کا جھانسا دیکر اسکے ایمان کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا رشتہ توڑ کر مرزا غلام احمد قادیانی سے جوڑتے ہیں۔اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کفار کے ساتھ تو معا ملات کرنے جائز ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کفار کے ساتھ معا ملات توتب جائز ہیں جب وہ مسلمان کا روپ نہ دھاریں اور مسلمان کی نشانیوں (شعائر اسلامی)کو استعمال کر کے مسلمانوں کو دھوکہ نہ دیں۔جبکہ قادیانی مسلمانوں کا روپ دھار کر اور انکے شعائر (کلمہ، نماز،روزہ،قرآن)کو استعمال کر کے تعلقات کے جھانسہ میں سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔لہذٰا اس قسم کے کافروں سے ہر قسم کے تعلقات حرام ہیں۔پاکستان اور بیرون ممالک سے تمام مکاتب فکر کا متفقہ فتوی ہے کہ قادیانیوں /مرزائیوں سے خریدوفروخت ،تجارت، لین دین ،سلام و کلام ، ملنا جلنا، کھانا پینا ، شادی و غمی میں شرکت ، جنازہ میں شرکت ،تعزیت ،عیادت،ان کے ساتھ تعاون یاملازمت سب شریعت اسلامیہ میںسخت ممنوع اور حرام ہیں۔ قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ ان کو توبہ کرانے میں بہت بڑا علاج اور ان کی اصلاح اور ہدایت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ قادیانیوںکا مکمل بائیکاٹ ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کی نشانی ہے ۔
قادیانی /مرزائی بے انتہا پیسہ خرچ کر کے مرزائیت کی تبلیغ اور مسلمانوں کو مرتد بنانے اور اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں اور اس کوشش میں قادیانی جماعت کی مالی معاونت میں شیزان پیش پیش ہے۔شیزان قادیانیوں کا ملکیتی اورقادیانی جماعت کی بھرپور مالی معاونت کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کی مصنوعات جوس، مربے، چٹنیاں، جام جیلی، نمک، بوتلیں وغیرہ پورے پاکستان میں دستیاب ہیں اور بیرونِ ممالک میں بھی جاتی ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ ادارہ جو اسلام مخالف سرگرمیوں میں جوش وخروش سے مصروف ہے ہم مسلمانوں کی جیب سے چل رہا ہے۔ شاہنواز نامی متعصب قادیانی نے 1967ء میں شیزان کمپنی کی بنیاد رکھی اور اس کی آمدنی میں سے بے دریغ سرمایہ مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کی تشہیر کے لئے خرچ کیا۔ شیزان کمپنی نے قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر کیلئے ریکارڈ کام کیا۔ پاکستان میں قادیانیوں کے سالانہ جلسہ پر پابندی لگنے پر یہ جلسہ ملعونہ لندن میں منعقد ہوا۔ اس جلسے کے لئے سب سے زیادہ مالی معاونت شیزان نے کی۔ 1988ء میں ایک کروڑ ساڑھے اکاون ہزار روپے ربوہ فنڈ میں جمع کروائے اور ہر سال کروڑوں روپے اس فنڈ میں جمع کروائے جارہے ہیں۔ خلاف قانون شائع ہونے والے قادیانی اخبارات اور درجنوں رسائل اور جرائد میں شیزان انٹرنیشنل بڑے بڑے اشتہارات دے کر انہیں مالی طور پر مستحکم کر تی ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے خلاف کام کرنے والے اور ارتداد پھیلانے والے قادیانی طلباء اور مربیوں کے لئے شیزان انٹرنیشنل نے باقاعدہ وظائف مقرر کررکھے ہیں۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں پر مبنی قادیانی لٹریچر چھپوانے کے لئے وسیع فنڈ شیزان انٹرنیشنل نے مخصوص کررکھا ہے۔ ہر قادیانی رسالے کے خاص نمبر میں شیزان انٹرنیشنل خصوصی تعاون کرتی ہے۔شاہنواز اس قدرجنونی قادیانی تھا کہ معروف سابق قادیانی مرزا محمد حسین نے ہولناک انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیزان کمپنی کے مالک شاہنواز قادیانی کی ہدایت پر اس کی تمام مصنوعات میں ربوہ کے نام نہاد بہشتی مقبرہ کی مٹی بطور تبرک استعمال ہوتی ہے ۔ معروف صحافی جناب آغا شورش کشمیریؒ نے ایک جلسہ میں اپنی تقریر میں اس راز سے پردہ افشاں کیا تھا۔
1974ء میں قادیانیوں کے خلاف ملک گیر تحریک چلی تو مسلمانوں میں قادیانیوں / مرزائیوں کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا تھا۔ ان دنوں شیزان کا بائیکاٹ ہونا شروع ہوا تو شاہنواز نے ایک بدقسمت مسلمان فیملی (ڈین ٹیکسی والوں) سے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے شیزان فیکٹری اور اس کی تمام مصنوعات اور تمام دنیا میں موجود شیزان ریسٹورنٹ قادیانیوں کی ملکیت رہیں گے۔ البتہ صرف لاہور کی حدود میں قائم شیزان بیکریاں اور ریسٹورنٹ مسلمان چلائیں گے مگر نام شیزان کا رکھنے کے پابند ہوں گے اور شیزان کو پروموٹ کریں گے۔ مسلمانوں کو خفیہ اور مشروط معاہدہ کے تحت بیکریاں فروخت کردی گئی۔ اس میر جعفر اور میرصادق صفت فیملی نے قادیانیوںکے شانہ بشانہ اسلام کو نقصان پہنچانے اور قادیانیت کے فروغ کے لئے اپنی مسلمانی تک پیش کردی۔ اس کے بعد شاہنواز نے پوری دنیا میں جہاں جہاں شیزان کی مصنوعات جاتیں وہاں پروپیگنڈا شروع کروادیا کہ شیزان مسلمانوں نے خرید لی ہے اور بہت سے مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے کہ شیزان مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ کراچی سے خیبر تک ہر جگہ شیزان والے 38 سال سے یہ پروپیگنڈا کرتے نظر آرہے ہیں کہ شیزان مسلمانوں نے خرید لی ہے۔
شیزان بیکریوں کے مالکان شیزان کا نام اور سٹائل جو کہ شاہنواز کے نام رجسٹرڈ ہے استعمال کررہے ہیں اورلاکھوں مسلمانوں کے لعنت ملامت کے ساتھ منع کرنے کے باوجود چار عشروں سے استعمال کررہے ہیںاور ان کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو دھوکہ دیا جارہاہے کہ شیزان فیکٹری کی مصنوعات قادیانیوں کی ملکیت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں نے خرید لی ہیں۔ ڈین ٹیکسی فیملی کے جلال الدین، ریاض الدین، اسلم، افضل،اعجازاور اصغر سے درخواست ہے کہ اگر یہ بیکریاں آزاد ہیں تو ان کا نام تبدیل کریں تاکہ مسلمانوں کو پتہ چلے کہ ان کا شیزان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ مسلمان خرید چکے ہیں۔ اور پوری دنیا میں تشہیر کریں کہ شیزان انٹرنیشنل کی تمام مصنوعات قادیانیوں کی ہیں اور لاہور کے علاوہ ساری دنیا میں موجود شیزان ریسٹورنٹ قادیانیوں کی ملکیت ہے۔ ہمارا نام غلط استعمال کیا گیا کہ شیزان کی مصنوعات ہم مسلمانوں نے لے لی ہیں۔ ہم نے صرف لاہور شہر کی حدود میں قائم شیزان بیکریاں اور ریسٹورنٹ خریدا ہے اور اس کا نیا نام --------ہے۔ جب تک ان بیکریوں کا نام نہیں بدلاجاتا، ان کی حیثیت ایسی رہے گی کہ مسلمانوں کی قادیانی بیکریاں ۔اگر کسی کو یہ بات سمجھ نہ آئے تو وہ اس طرح فرض کر لیں کہ اگر کوئی مسلمان ’’ابوجہل بیکرز اینڈ سویٹس‘‘ کے نام سے دکان کھول لے تو کیا کوئی مسلمان جس کے اندر ذرا سی بھی دینی غیرت موجود ہو،اس بیکری سے سامان خریدے گا ؟ یقینا نہیں۔ حالانکہ صرف نام ابوجہل رکھا ہے شیزان بیکری کا تونام بھی قادیانیوں کا ہے اور مال بھی قادیانیوں کا اور منافع بھی قادیانیوں کو جاتا ہے۔ دوسرا ان کی دھوکہ دہی کی وجہ سے لوگ شیزان کی قادیانی مصنوعات کو ساری دنیا میںاستعمال کرلیتے ہیں۔
شاہنواز کے مرنے پر شیزان انٹرنیشنل نے قومی اخبارات میں جو اشتہار شائع کروایا اس کا متن ملاحظہ فرمائیں۔’’ انتقال پرملال: پاکستان کے ممتاز صنعتکار اور بزنس مین چودھری شاہ نواز چیئرمین شاہنواز گروپ 23مارچ1990ء کو رات کو انتقال کر گئے۔ ان کی عمر بیاسی سال تھی۔ وہ اپنے چھوٹے صاحبزادے مسٹر منیر نواز چیئرمین شیزان انٹرنیشنل لمیٹیڈ کی رہائش گاہ واقع 15/295سرور روڈ لاہور کینٹ میں قیام پذیر تھے۔ان کا جنازہ 25مارچ کو ربوہ لے جایا گیا جہاں انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔ مرحوم چودھری شاہنواز ضلع سیالکوٹ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز وکیل کی حیثیت سے کیا اور بعد میں کاروبار کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انہوں نے شاہنواز گروپ کے نام سے ایک گروپ آف انڈسٹریز قائم کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک شیزان ریستوران قائم کئے۔ مرحوم چودھری شاہنواز نے شیزان انٹرنیشنل لمیٹڈ کے زیرِ اہتمام پھلوں کے رس کو بوتلوں میں بند کر کے پاکستان میں متعارف کرایا۔ انہوں نے اپنے پیچھے دو صاحبزادے مسٹر محمود نواز اور مسٹر منیر نواز دو صاحبزادیاں مسز محمد خالد اور مسز محمد نعیم کے علاوہ سینکڑوں کارکن سوگوار چھوڑے ہیں‘‘ ۔ (’’نوائے وقت‘‘ مورخہ26مارچ 1990ء )
شاہنواز کے مرنے کے بعد اس کی قادیانی فیملی شیزان انٹرنیشنل کو چلارہی ہے اور اسی انداز سے چلا رہی ہے جو شاہنواز نے اپنی زندگی میں اپنایا تھا۔ یہ فیملی بھی قادیانی جماعت کے لئے مالی قربانیوں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور قادیانیت کے فروغ کے لئے تن من دھن قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور اسی طرح قادیانی رسائل، اخبارات میں اشتہارات اور مالی منصوبوں میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔شیزان انٹرنیشنل کے موجودہ مالکان / حصہ داران کے نام یوں ہیں۔ شاہنواز کا بیٹا محمود نواز اور منیر نواز اور ان کی بیویاں بشریٰ محمود نوازاور عابدہ منیر نواز۔ شاہنوازکی بیٹی امت الحی اور اس کا شوہر چوہدری محمد خالد۔ شاہنواز کی دوسری بیٹی امت الباری نعیم اور اس کا شوہر محمد نعیم اور سیفی چوہدری قادیانی۔ یہ سب پکے قادیانی ہیں ۔ قادیانی ادارے آج بھی اس ہتھیار کو استعمال کررہے ہیں کہ اپنے ساتھ ایک آدھ غدارِ اسلام مسلمان کو چند فیصد اپنا حصہ دار بنا کر پروپیگنڈاکریں کہ قادیانی ادارہ مسلمانوں نے خرید لیا ہے کیونکہ بہت سے سادہ لوح حضرات اس دھوکے میں آجاتے ہیں۔ شاہنواز کی اس قادیانی فیملی کے ساتھ مسلمان ہونے کا دعویدار لاہور کا محمد خالدشیزان انٹرنیشنل میں معمولی شیئرز ہولڈر ہے۔ محمد خالد شیزان انٹرنیشنل اور پوری دنیا کے شیزان ریسٹوران کو مسلمانوں کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے دن رات کوشاںہیں اور اس کام کے لئے قومی اخبارات اور دوسرے ذرائع استعمال کررہے ہیں۔ شاہنواز کی فیملی کے کل شیئرز1589156ہیں۔ جبکہ محمد خالد کے شیئرز کی تعداد2700اور اس کی بیوی کے شیئرز کی تعداد600ہے۔ سیفی چوہدری قادیانی جو کہ شیزان انٹرنیشنل کا چیف ایگزیکٹو تھا۔ اس کی جگہ محمد خالد کو چیف ایگزیکٹو بنا کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے والی مہم کو دوبارہ تیز کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں ڈین ٹیکسی والی فیملی اور محمد خالد جیسے غداروں کی وجہ سے 38سال سے یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ شیزان مسلمانوںنے خرید لی ہے حالانکہ یہ شاہنواز کی فیملی کی ملکیت ہے۔ ایسے مسلمانوں کے بارے میں شریعت اسلامیہ کہتی ہے کہ یہ لوگ فاسق، گمراہ، ظالم اور مستحق عذاب الیم ہیں۔ مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی کافر کی شراب کی فیکٹری میں اگر کوئی مسلمان ایک فیصد کا حصہ دار ہوگیا تو وہ شراب جائز نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان سور کے گوشت کی فروخت میں چند فیصد کا حصہ دار ہوجائے تو اس کامسلمان ہونا سور کے گوشت اور اس کو فروخت کرنے کے عمل کو جائز اور حلال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی بد نصیب مسلمان شراب خانہ کے باہر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے حدیث شریف لکھ کر لگا دے تو وہاں کی شراب جائز نہیں ہوگی۔ آپ علیحدہ کام کریں اوردنیا مفاد کی خاطر اپنی مسلمانی اور غیرت ایمانی کو نیلام کرنے سے بچائیں۔ مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت سے تعاون کی بجائے تاجدارِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے پناہ لیں۔
قادیانیوں کی مصنوعات کی خریدوفروخت کرنے والوں سے گذارش ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام ہما رے ماں باپ ، ہماری آل اولاد بلکہ ہماری جان سے بھی زیا دہ ہے ۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ شیزان اور دیگر قادیانی اداروں کا مکمل بائیکاٹ کریں اور دیگر مسلمانوں کو بھی اس بات پر تیار کریں ۔ اے افراد ملت اسلامیہ! آج ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر شوگر کے مریض کو میٹھی اشیاء استعمال کرنے سے روکے تو وہ فوراً رک جاتا ہے ، اگر بلڈ پریشر کے مریض کو نمک استعمال کرنے سے منع کرے تو وہ فوراً منع ہو جاتا ہے۔ جان کی حفاظت کیلئے تو ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق سب کچھ چھوڑا جاسکتا ہے لیکن کیا ایمان کی حفاظت کے لئے شیزان اور دیگر قادیانی اداروں کونہیں چھوڑا جاسکتا؟
اس کے علاوہ شاہ تاج شوگر مل کی تیار کردہ چینی، OCS ، ذائقہ بناسپتی گھی، BETA پائپ، شان آٹا، یونیورسل سٹیبلائزر، قائداعظم لاء کالج، بوبی شوز وغیرہ بھی قادیانیوں کے ادارے ہیں۔ یہ ہر سال قادیانی جماعت کو کروڑوں روپے چندہ دیتے ہیں جو اسلام کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر آپ کی نظر میں کوئی دوسری قادیانی کمپنی یا آپ کے شہر میں کوئی دکان ہے تو اس کا بھی بائیکاٹ کیجیے۔ یہ آپ کی دینی غیرت و حمیت کا اوّلین تقاضا ہے۔ اگر آپ کی وجہ سے قادیانیوں کو منافع اور فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں میں مالی طور پر بالواسطہ آپ بھی شامل ہو رہے ہیں۔ یہ چیز آپ کی آخرت کو برباد کر دے گی۔ لہٰذا اس سے اجتناب کریں۔
تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے محلہ یا علاقہ میں کسی دوکاندار نے شیزان یا دیگر قادیانی مصنوعات رکھی ہوں تو اسے مسلسل پیار،خوش اخلاقی، نہایت محبت اور احترام کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اوردینی غیرت وحمیت کے واقعات سناکر قادیانی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے تیار کریں۔ اسے قادیانیوں کے کفریہ اور گستاخانہ عقائد سمجھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ شیزان کمپنی کے مالکان اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک کثیر حصہ قادیانی فنڈ میں جمع کرواتے ہیں جومسلمانوں کو مرتد کرنے، تحریف شدہ تفسیر قرآن تقسیم کرنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہوتا ہے۔ٍ آپ کی تھوڑی سی محنت اور توجہ سے دوکاندار شیزان کا بائیکاٹ شروع کر دے گا(انشاء اللہ) ۔ہمارے بعض مسلمان بھائی قادیانی اداروں میں کام کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہم مسلمان ہیں مگر غیر مسلم قادیانیوں کے ہاں کام کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ آج کل روزگار نہیں ملتا۔ قادیانی اداروں میں کام کرنے والے ہمارے مسلمان بھائیوںکو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ روزی حرام ہے اور قادیانیوں سے بائیکاٹ فرض ہے۔ ان مسلمانوں سے درخواست ہے کہ قادیانیوں سے کاروبار کرنا حرام ہے۔ اپنے بچوں کے لئے حلال طریقے سے روزی تلاش کریں جس کے لاکھوں ذرائع ہیں۔یاد رکھیے جو شخص حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لیے گستاخان رسول کے خلاف اپنی ملازمت کی قربانی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنے رزق کے تمام دروازے کھول دے گا۔ آقائے دوجہاں سرور کونین فخر دوعالم سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جو گناہ گارسے گناہ گار مسلمان کے سینے میں جوش مار رہی ہے کے وسیلے سے ایک ایک مسلمان سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ وہ قادیانیوں اور انکی تمام مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں، ان سے ہر قسم کے تعلقات کو ختم کریں اور انکے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے کے لئے اپنے دل کو غیر ت دلانے کے لئے اس جملے کو پڑھ لیا کریں
"اے مسلمان جب تو کسی قادیانی سے ملتا ہے تو گنبد خضریٰ میں دل مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دکھتا ہے "
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
زندیق قادیانیوں سے ہر طرح کے بائیکاٹ میں کو ئی کو تاہی نہ کی جائے
حضرت مولاناعزیز الرحمن ثانی صاحب دامت برکاتہم
مرکزی ناظم شعبہ اطلاعات و نشریات عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
زندیق شرعاً اس شخص کو کہا جا تا ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتا ہو اور شعائر اسلا م کا اظہار کرتاہو مگر کسی کفریہ عقیدہ پر ڈٹا ہو اہو ۔زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر خبیث عقائدرکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد خبیثہ پر چسپاںکرتاہو۔اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدترہے کہ کافر اور مرتدکی توبہ بالا تفاق قابل قبول ہے مگر بقول علامہ شامی ؒزندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کلمہ،نہ اس کی توبہ قابل التفا ہے۔الایہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برأت کا اعلان کرے ۔
حضرت ملا علی قاری ؒ مرقات جلد۷ صفحہ ۱۰۴ پر زندیق کامعنی بیان کر تے ہیں کہ وہ جو کفر کو چھپاتا ہو اور ایمان کو ظا ہر کر تا ہو ۔ علامہ شامی ؒ فر ماتے ہیں کہ :زندیق ملمع سازی کر کے اپنے کفر کو پیش کرتا ہے فاسد عقید ہ کی ترویج کر تا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظا ہر کر تاہے اور کفرکے چھپانے کا یہی مطلب ہے ۔ ( شامی جلد۳صفحہ۳۲۴)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ مفتی اعظم پاکستان جواہر الفقہ جلد۱ صفحہ ۲۹میں تحریر فر ماتے ہیں :’’زندیق کی تعریف میں جو عقائد کفریہ کا دل میں رکھنا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثل منافق کے اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتا ۔بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے عقا ئد کفریہ کو ملمع کرکے اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے ۔‘‘
درج بالا عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زندیق مثل منافق نہیں ۔ زندیق کافر ہیں مگر اپنے کفر کو اسلام کہتے ہیں۔ خالص کفر لیکن یہ اس کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات سے، احادیث طیبہ سے، صحابہ ؓ کے ارشادات سے اور بزرگانِ دین کے اقوال سے توڑ موڑ کر اپنے کفر کو اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی اصطلاح میں ’’زندیق‘‘ کہا جاتا ہے۔
قادیانیوں کے بارے میں شیخ موسیٰ روحانی البازی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تصنیف’’ التحقیق فی الزندیق‘‘میںتحریرفرماتے ہیں کہ :فرقہ قادیانیہ جو غلام احمد قادیانی کو نبی یا مصلح و مرشد مانتا ہے ، یہ فرقہ زمانہ حال کے زنادقہ کبار میں سے ہے اور کسی اسلامی مملکت میں بحکم شرع اسے رہائش ،اقامت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے ۔کسی ا سلامی مملکت میں یہ فر قہ جزیہ ادا کرکے بطور ذمی بھی سکونت نہیں کر سکتا کیو نکہ ان میں سے جو لوگ مسلمان تھے اور پھر قادیانی ہو گئے وہ مرتد ہیں ۔ مرتد ذمی نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح یہ لوگ مرتد ہو نے کے علاوہ زندیق بھی ہیں لہذا ان میں جو اشخا ص قادیانیت کے مبلغ و داعی ہوں ان کی توبہ قضاء مقبول نہیں ہے اور وہ زندقہ کی وجہ سے واجب القتل ہیں(مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے، عوام کو اس کا اختیار نہیں ) ۔ جیسا کہ ابا حیہ و روافض و قرامطہ و زنادقہ فلاسفہ کی تو بہ مقبول نہیں اور وہ واجب القتل ہیں۔اس سے بڑھ کر اور زندقہ کیا ہو گا کہ وہ اسلام کے اندر ہمارے نبی خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی کی نبوت کے قائل ہیں ۔اور جو قادیانی پیدائشی قادیانی ہوں یعنی قادیانی خاندان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بڑے ہو گئے وہ بھی کسی اسلامی مملکت میں ازروئے شریعت اسلامیہ سکونت و اقامت کے مجاز نہیں ہو سکتے ۔اور وہ جزیہ ادا کر کے ذمی بھی نہیں بن سکتے بلکہ وہ زندیق ہیں۔اگر وہ قادیانیت کے داعی و مبلغ ہوں تو ان کی تو بہ قضاء مقبول نہیں ہو سکتی اور اگر داعی و مبلغ نہ ہوں تو ان کی تو بہ قبول ہو سکتی ہے ۔
بہر حال پیدائشی قادیانی زندیق ہیںاور واجب القتل ہیں(مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے، عوام کو اس کا اختیار نہیں) ، وہ جزیہ ادا کرکے بھی دارالسلام میں اقامت کرنے کے مجاز نہیں۔
۱۔کیو نکہ وہ ختم نبوت جو ضروریات اسلام میں سے ہے کے منکر ہیں ۔ در مختار میں ہے واجب القتل ملحدین کے بیان میں وکذا من علم انہ ینکر فی الباطن بعض الضروریات کحرمۃ الخمر و یظھراعتقادحرمتہ انتہیٰ۔ جب وہ شخص واجب القتل ہے اس الحادو زندقہ کی وجہ سے ببا طن حرمت خمر منکرکامنکر ہو اگرچہ لوگوں کے سامنے حرمت خمر کا اظہارکر تا ہو تو قادیانی جو علی الاعلان ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں اور زندقہ کی اشاعت میں کوشش کر تے ہیں بطریق اولیٰ واجب القتل ہیں(مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے، عوام کو اس کا اختیار نہیں) ۔
۲۔ان کی زندقہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور تمام اہل اسلام کو کافر سمجھتے ہیں ۔ لہذا یہ بہت بڑا زندقہ ہے ۔
۳۔ نیز وہ قرآ ن وحدیث کے بے شمار نصوص کی تحریف کرتے ہوئے ان سے اپنی گمراہی پر استدلال کرتے ہیں اور تحریف قرآن وسنت سے بڑھ کر اور زندقہ کیا ہو گا ۔ لہذا وہ مثل قرامطہ و با طنیہ ہیں۔
۴۔ نیز وہ شعائر اﷲ اور کئی اصول اسلام اور خصائص اسلام کی ہتک و بے حرمتی کر تے ہیں مثلاً وہ غلام احمد کی بیویوں کو امہات المومنین اور اس کے دیکھنے والوں کو صحابہ کہتے ہیں اور اپنی عبادت گاہ کو وہ مسلمانوں کی طرح مسجد کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ امور خصائص اسلام میں سے ہیں اور یہ اسلام سے استہزاء ہے۔ مسجد صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کانام ہو سکتا ہے ۔ کسی اسلامی مملکت میں کسی کا فر فرقہ کو ازروئے شرع یہ حق حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمانوںکی طرح اذان دے اور مسلمانوں کی طرح اپنی عبادت گاہ کانام مسجد رکھے اور اپنے الحاد کی اشاعت کے لیے اسلامی نام استعمال کر کے تشبّہ بالمسلمین کرے ،یہ اسلام کی سخت بے حرمتی ہے ۔ اور اس قسم کی بے حرمتی ایک مستقل زندقہ ہے جو موجب قتل ہے(مگریہ سلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے، عوام کو اس کا اختیار نہیں) ۔
۵۔جزیہ تو عیسا ئیت ، یہودیت وغیرہ ان ادیان باطلہ کے معتقدین سے لیا جا تا ہے جو قدیم و معروف تھے اور بوقت ظہور اسلام موجود تھے ۔ اور جو اپنے آپ کو اہل اسلام کے بر خلاف ایک فرقہ شمار کر تے تھے اور کرتے ہیں ۔ لیکن جو فرقہ خود اسلام کا مدعی ہو اس سے کس طرح جزیہ لیا جا سکتا ہے ۔ ایسے فر قہ کے بارے میں بعد از تحقیق د واحتمال ہو سکتے ہیں۔اول یہ کہ اگر تحقیق کے بعد ان کا مسلمان ہو نا ثابت ہو ا تو وہ یقینا مسلمان شما ر ہو گا اور اہل اسلام سے جزیہ وصول نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اگر تحقیق سے وہ کافر ثا بت ہوا تو وہ مرتد یا زندیق ہو گا اور مرتد و زندیق سے جزیہ نہیں لیا جا سکتا ۔ بلکہ وہ اگر مصّر ہو تو واجب القتل ہے(مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے، عوام کو اس کا اختیار نہیں) ۔قادیانی فرقہ احتمال ثانی کے قبیل میں سے ہے وہ مرتد وزندیق ہیکما مرا لتفصیل من قبل۔ وہ کسی طرح دار اسلام میں اقامت و رہائش کے مجاز نہیں ہیں ۔ قادیانی لوگ اسلام اور شعائر اسلام کی بے حرمتی و بے عزتی و استہزا ء کرتے ہیں اور بے حرمتی کرنے والا زندیق ہے ۔وہ نصوص قطعیہ کی تحریف کرتے ہیں اور یہ زندقہ ہے بلکہ تحریف نصوص اسلام کی بڑی بے حرمتی ہے ۔
مفتی رشید احمد رحمۃ اﷲ علیہ احسن الفتا ویٰ میں لکھتے ہیں : ’’قادیانی زندیق ہیں جن کا حکم عام مرتد سے بھی زیادہ سخت ہے، مرتد اور اس کا بیٹا اپنے مال کے مالک نہیں ، لہٰذاان کی بیع و شراء ،اجارہ و استجارہ ، ہبہ کا لین دین وغیرہ کوئی تصرف بھی صحیح نہیں ، البتہ پوتے نے جو مال خود کما یا ہو وہ اسمیں تصرف کر سکتا ہے ،مگر زندیق کا پو تا بھی اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں اوراس کے تصرفات نافذ نہیں ، اس لئے قادیانی سے کسی ذریعہ سے بھی کوئی مال لیا تو حلال نہیں ۔تجارت وغیرہ معاملات کے علاوہ بھیقادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کاکوئی میل جول رکھنا جائز نہیں ۔ اس میں یہ مفاسد ہیں :
۱۔اس میں قادیانیوں کے ساتھ تعاون ہے ۔
۲۔اس قسم کے معاملات میں عوام قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگتے ہیں ۔
۳۔اس طرح قادیانیوں کو اپنا جا ل پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں ۔
اس لئے قادیانیوں سے لین دین اور دیگر ہر قسم کے معاملات میں قطع تعلق ضروری ہے ۔‘‘
قادیانیوں سے تجارت اور دنیاوی معاملات کی حد تک تعلق رکھنے والا شخص سخت مجرم اور فاسق ہے ۔۔۔ قادیانیوں سے تعلقات رکھنے والا آدمی اگرچہ ان کو بُرا سمجھتا ہو قابل ملامت ہے ، ایسے شخص کو سمجھانا دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے۔۔۔۔۔۔
حکومت وقت پر فرض ہے کہ ان کے قتل کا حکم دے ، خواہ کو ئی خود زندیق بنا ہو یا باپ دادا سے اس مذہب میں چلاآتا ہو۔ ۔۔۔۔زندیقہ عورت بھی واجب القتل ہے ۔۔۔ ان سے کسی قسم کا کوئی معاملہ جائز نہیں ۔
(احسن الفتاویٰ جلد اول ’’کتاب الایمان والعقائد‘‘)
ان اصولوں کی روشنی میں قادیا نی فردیا جماعت کی حیثیت او ران سے اقتصادی ومعاشی اور معاشرتی وسیاسی مقاطعہ یا مکمل سوشل بائیکاٹ کا شرعی حکم بالکل واضح ہو جاتا ہے اور پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے موجودہ جید علماء کرام اور مفتیان عظام کے فتا ویٰ جات بھی اس موضوع پر موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہے کہ اس بات میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ قادیانیت کو نیست و نابود کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔جب تک حکومت وقت کی طرف سے قادیانیوں پر شرعی سزا نافذ نہ کر دی جائے اس وقت تک تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ قادیانیوں خواہ وہ ربوہ کے ہوں یا لاہوری گروہ کا ہرطرح سے معاشرتی اور معاشی طور پربائیکاٹ کریں ۔
اس سلسلہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے شعبہ اطلاعات و نشریات کے ناظم کی حیثیت سے ہم تمام عوام الناس سے اپیل کرتے ہیں کہ جو ذمہ اری شرعیت نے ہم عوام پر فرض کی ہے یعنی قادیانیوں سے ہر طرح کا بائیکاٹ کم از کم اس کو تو پورا کر نے میں کو ئی کو تاہی نہ کی جائے اور علماء کرام سے یہ التماس کر تے ہیں کہ اس بات کو وضاحت سے عوام الناس تک پہنچایا جائے۔
حضرت مولاناعزیز الرحمن ثانی صاحب دامت برکاتہم
مرکزی ناظم شعبہ اطلاعات و نشریات
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
یکم ربیع الاول ۱۴۳۲ھ
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نصوص قطعیہ ، احادیث صحیحہ متواترہ اور اجما ع امت سے مسئلہ ختم نبوت کا اتنا اور ایسا قطعی ثبوت ہے کہ اس میں تامل کرنے والا بھی کافر ہے بلکہ صحیح اور صریح احادیث کی رو سے مدعی نبوت اور اس کو نبی ماننے والے واجب القتل ہیںمگر یہ قتل صرف اسلامی حکومت کاکام ہے نہ کہ رعایا اور افراد کا۔حضرت عبداﷲ بن مسعور رضی اﷲ تعالیٰ (المتوفی ۳۲ھ)سے روایت ہے :
قال قد جاء ابن النواحۃ وابن اثال رسولین للمسیلمۃ الی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقال لھما رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشھد ان انی رسول اﷲ ؟فقال نشھد ان مسیلمۃ رسول اﷲ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آمنت باﷲ ورسلہ لو کنت قاتلاً رسولاً لقتلتکم قال عبداﷲ فمصت السنۃ بان الرسل لاتقتل
حضرت ابن مسعو د رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے دو سفیر عبداﷲ بن نواحہ اوراسامہ بن اثال انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں اس کی گواہی دیتے ہو کہ میں اﷲ کارسول ہوں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اﷲ کا رسول ہے (معاذ اﷲ تعالیٰ )۔آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فر مایا کہ میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا اگر میں کسی قاصد کو قتل کر تا تو تمھیں قتل کر دیتا ۔ حضرت ابن مسعو د رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بین الاقوامی دستور اور سنت یوں جاری ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا رہا ۔ ابن اثال کا معاملہ تو اﷲ نے خود ہی اس کی کفایت کر دی ( اسمہ بن اثال بعد کو مسلمان ہو گئے تھے ۔ البدایۃو النہایۃ، جلد ۶صفحہ ۵۲)اور ابن نواحہ کا معاملہ میرے دل میں کھٹکتا رہا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس کی قدرت دی اور میں نے اسے قتل کروایا۔
ابوداؤد جلد۲ صفحہ۲۴ اورمستدرک جلد ۳ صفحہ۵۲ میں ایک اور سند سے بھی یہ روایت مروی ہے۔جو اس حدیث کی صرف متابع اور شاہد ہے۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲتعالی علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی تسلیم کرنے والاواجب القتلہے ۔رکاوٹ صرف یہ پیش آئی کہ اس وقت اسامہؓ بن اثال اور عبداﷲ بن نواحہ سفیر تھے اور سنت اور اس وقت کے بین الاقوامی دستور کے مطا بق سفرا ء کو قتل نہیں کیا جاتا تھا تا کہ پیغام رسانی میں کسی قسم کی کوئی کمی اور کوتا ہی باقی نہ رہ جائے ۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کوفہ کے گورنر تھے تو عبداﷲ بن نواحہ ان کے قابو آگیا اور وہ اپنے اس باطل عقیدے سے باز نہ آیا اور توبہ کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے حضرت قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ ابن نواحہ کی گر دن اُڑا دے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ ( مستدرک جلد ۲ صفحہ ۵۳قال الحاکم و الذہبیؒ صحیح )
اور حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اس مو قع پر ابن نواحہ سے خطاب کر تے ہوئے فرمایا کہ : فانت الیوم لست برسول فامر قرظۃ بن کعب فضرب عنقہ فی السوق ثم قال من ارادان ینظر الیٰ ابن النواحۃقتیلاً بالسوق ۔
(ابو دائو د جلد۲ صفحہ۲۴)
آج کے دن تو تُوقاصد نہیں ہے پھرانہوں نے حضرت قرظہؓ بن کعب کو حکم دیا۔ اور انہوں نے کوفہ کے بازار میں ابن نواحہ کی گردن اُڑا دی ۔پھر فر مایا کہ جو شخص ابن نواحہ کو بازارمیں مقتول دیکھنا چاہتا ہے تو دیکھ لے۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
فتنہ قادیانیت کے بارے میں قائدین قوم کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ:
’’جب کشمیر سے واپسی پر قائدِ اعظمؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی قادیانیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ’’میری رائے وہی ہے جو علماء کرام اور پوری امت کی ہے‘‘۔ یعنی آپ پوری امت کی طرح قادیانیوں کوکافر سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ:
’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے …… کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اس بناء پر قتل کیا گیا، حالانکہ طبری لکھتا ہے کہ وہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مصدق تھا اور اس کی اذان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق تھی‘‘۔
’’قادیانی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں ۔ ہم منکر اور دائرہ اسلام سے خارج کیسے ہوئے؟ مگر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نئے نبی کی نبوت کو تسلیم کر لیا اور اس کا خاتم الانبیاء کا اقرار باطل ہوگیا۔ گویا دائرہ اسلام سے نکلنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ضروری نہیں۔ کسی نئے نبی کا اقرار بھی آدمی کو اسلام کے دائرے سے باہر نکال دیتا ہے۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی قادیانیت سے متعلق رائے کا خلاصہ ذیل میں درج کیاجاتا ہے جس کی وہ تبلیغ کرتے رہے۔
1)قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے۔
2)ظل، بروز، حلول، مسیح موعود کی اصطلاحات غیر اسلامی ہیں۔
3)قادیانی گروہ وحدت اسلامی کا دشمن ہے۔
4)قادیانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں۔
5)مرزا قادیانی کے نزدیک ملت اسلامیہ سڑا ہوادودھ ہے۔
6)شریعت میں ختم نبوت کے بعد مدعی نبوت کاذب اور واجب القتل ہے۔
7)قادیانی امت ختم نبوت کی منکر ہے۔
8)قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں (پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام خط) مولانا ابوالکلام آزادرحمۃ اللہ علیہ:
باقی رہے مرزا قادیانی کے دعاوی میں تو نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص جس نے اسلام کے اصول و مبادیات کو سمجھا ہے اور عقل سلیم سے بے بہرہ نہیں ۔ یہ دعاوی ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم کرسکتا ہے‘‘۔
’’ اس بارے میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں،تیسری کوئی نہیں یا نجات کے لئے وہ عقائد کافی ہیں جوقرآن نے صاف صاف بتلا دئیے ہیں یا پھر کافی نہیں۔ اگر کافی ہیں تو قرآن نے کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ کسی نئے ظہور پر ایمان لائو۔ اگر کافی نہیں ہیں اور نئے شرائط میں نجات کی گنجائش باقی ہے تو پھر قرآن ناقص نکلا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے اعلان
الیوم اکملت لکم دینکم
صادق نہیں…… ہر مسلمان کے سامنے دونوں راہیں کھلی ہیں جوچاہے اختیار کرے۔ اگر قرآن پر ایمان ہے تو نئی شرط نجات کی گنجائش نہیں۔ اگر نئی شرط نجات مانی جاتی ہے تو قرآن اپنی جگہ باقی نہیں رہا‘‘۔ مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ:
’’جہاں تک مرزا قادیانی کا تعلق ہے ہم اس کو ایک بار نہیں ہزار بار دجال کہیں گے۔ اس نے حضور ؐ کی ختم المرسلینی پر اپنی نبوت کا ناپاک پیونڈ جوڑ کر ناموس رسالت پرکھلم کھلا حملہ کیا ہے۔ اپنے اس عقیدہ سے میں ایک منٹ کے کروڑویں حصے کے لئے بھی دست کش ہونے کو تیار نہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی دجال تھا، دجال تھا ، دجال تھا۔ میں اس سلسلہ میں قانون محمدیؐ کا پابند ہوں‘‘۔
فتنہ قادیانیت کے بارے میں قائدین قوم کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔ خان لیاقت علی خا ن رحمۃ اللہ علیہ:
گذشتہ دنوں قومی اخبارات اور کراچی سے شائع ہونے والے ایک جریدہ ہفت روزہ’’تکبیر‘‘ مارچ1986ء میں پاکستان کے مشہور سراغاں جیمز سالومن ونسٹنٹ کی یادوں کے حوالہ سے ایک چونکا دینے والا انکشاف شائع ہو چکا ہے۔ اس انکشاف سے ملک بھر کے سیاسی حلقے حیرت زدہ رہ گئے۔ بتایا گیا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کوسید اکبر نے نہیں بلکہ ایک جرمن قادیانی جیمز کنزے نے قتل کیا تھا۔ یہ شخص ظفر اللہ خاں قادیانی سابق وزیر خارجہ کالے پالک تھا اور اس سازش کا پورا ڈرامہ آنجہانی ظفر اللہ خان قادیانی سابق وزیر خارجہ کے تخریبی ذہن کی پیداوار تھا۔لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق یہ رپورٹ آج بھی سنٹرل انٹیلی جنس کراچی کے دفتر میں موجود ہے اب اس قتل کی وجہ بھی سنئے۔حضرت امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے خطیب پاکستان قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ کو حکم دیا کہ وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان سے ملاقات کرکے انہیں قادیانیوں کی خرمستیوں اور سیاسی قلابازیوں سے آگاہ کرولہٰذا ملاقات کے لئے صرف 5منٹ کا وقت دیا گیا لیکن جب قاضی صاحب نے ’’قادیانیت کے سربستہ رازوں کی گرہیں کھولیں‘‘ تو لیاقت علی خان ششدر رہ گئے اور یہ 5منٹ کی ملاقات ڈھائی گھنٹے میں بدل گئی۔ لیاقت علی خان نے بھرائی ہوائی آواز میں کہا’’اب یہ بوجھ آپ کے کندھوں سے میرے کندھوں پر آن پڑا ہے‘‘۔
لیاقت علی خانؒ نے قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ سے ملاقات میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تھا لہٰذا سر ظفر اللہ خان نے لیاقت علی خانؒ کو شہید کروادیا۔
ڈاکٹرعبدالقدیرخان:
’’ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف قادیانیوں کی مبینہ سازش کے بارے میں جن حقائق کو منظر عام پر لایا گیا ہے مجھے اس سے پورا اتفاق ہے ۔ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ عرصہ دراز سے قادیانی ملک کے اندر اور باہر یہودی لابی سے مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں اور اپنااثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مغربی ممالک کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں اور بے جا پابندیاں پیدا کر کے ہماری فنی ترقی کو مفلوج بنانے میں مشغول ہیں۔
سوال: ڈاکٹر عبدالقدیر قادیانی کو جو نوبل انعام ملا اس کے بارے میں آپ کی رائے؟
جواب: وہ بھی نظریات کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام 1957ء سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں نوبل انعام ملے اور آخرکار آئن سٹائن کی صد سالہ وفات پر ان کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا۔ دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے جو ایک عرصہ سے کام کررہا ہے۔ یہودی چاہتے ہیں کہ آئن سٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیا جائے۔ سوڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو اس انعام سے نوازا گیا۔ نوٹ:یہ نوبل انعام تین آدمیوں کو دیا گیا جن میں ایک ڈاکٹر عبدالسلام تھا۔ ایم -ایم عالم ریٹائرڈ ائیر کموڈور:
’’مجھے قادیانیوں کی سازش کے نتیجے میں سروس سے ریٹائر کیا گیا۔ اس سازش کے نتیجے میں 1968ء کے بعد مجھے جہاز کے قریب بھی نہیں جانے دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک پنشن بھی وصول نہیں کی۔ بھٹو دور میں مجھے قادیانیوں نے فوج سے نکالنے کی کوشش کی لیکن بھٹو صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کردیا‘‘۔
’’قادیانیوں نے ہمیشہ غداری کی ہے۔یہ لوگ ملک اور قوم دونوں کے دشمن ہیں۔میرے متعلق ان لوگوں نے افواہ اڑائی ہے کہ نعوذ بااللہ میں قادیانی ہوں۔ میں ان پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اگر میں قادیانی ہوتا تو آج ائیرفورس کا کمانڈہوتا۔ مجھ پر ذاتی طور پر بہت ظلم ہوا‘‘۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری رحمۃ اللہ علیہ(خالق قومی ترانہ):
’’پاکستان کو ختم کرنے میں یہ لوگ روز اول سے مصروف ہیں کیونکہ دنیا میں پاکستان ہی وہ توانا اسلامی مملکت تھی اور ہے جو بحال رہے تو ساری دنیائے اسلام کو نئی زندگی عطا کرسکتی ہے۔ یہودوہنود کی مدد کرنے والے ایجنٹ اب آخری ضربیں لگا رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ جو بھی اور جس طرح بھی کرے، وہ اسلامی مجاہد ہے‘‘۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
سلطان نور الدین ایک عابد شب بیدار تھا۔ وہ ایک عظیم الشان سلطنت کا فرمانروا ہونے کے باوجود ایسا مرد درویش تھا، جس کی راتیں مصلیٰ پر گزرتی تھیں اور دن میدان جہاد میں۔ وہ عظمت و کردار کا ایک عظیم پیکر تھا، جس نے اپنی نوکِ شمشیر سے تاریخ اسلام کا ایک روشن باب لکھا۔ سلطان نورالدینؒ رات کا بیشتر حصہ عبادات و مناجات میں گزارتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ نماز عشاء کے بعد بکثرت نوافل پڑھتا اور پھر رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم پر سیکڑوں مرتبہ درود بھیج کر تھوڑی دیر کے لیے بستر پر لیٹ جاتا۔ چند ساعتوں کے بعد پھر نمازِ تہجد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا اور صبح تک نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عبادات میں مشغول رہتا۔
ایک شب وہ اوراد و وظائف سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹا تو خواب میں تین بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ بعض روایتوں میں سلطان نے متواتر تین رات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ ہر مرتبہ دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نورالدین! یہ آدمی مجھے ستا رہے ہیں، ان کے شر کا استیصال کر‘‘ نورالدین یہ خواب دیکھ کر سخت مضطرب ہوا۔ بار بار استغفار پڑھتا اور رو رو کر کہتا؟ میرے آقا و مولا کو میرے جیتے جی کوئی ستائے، یہ نہیں ہو سکتا۔ میری جان، مال، آل، اولاد سب آقائے مدنی پر نثار ہے۔ خدا اس دن کے لیے نورالدین کو زندہ نہ رکھے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم غلام کو یاد فرمائیں اور وہ دمشق میں آرام سے بیٹھا رہے۔ سلطان نور الدین بے چین ہو گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں ضرور کوئی ایسا ناشدنی واقعہ ہوا ہے، جس سے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کو تکلیف پہنچی ہے۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی اس نے بیس اعیان دولت کو ساتھ لیا اور بہت سا خزانہ گھوڑوں پر لدوا کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اہل دمشق سلطان کے یکایک عازم سفر ہونے سے بہت حیران ہوئے، لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ اصل بات کیا ہے؟
دمشق سے مدینہ منورہ پہنچنے میں عام طور پر بیس پچیس دن لگتے تھے، لیکن سلطان نے یہ فاصلہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا اور سولہویں دن مدینہ منورہ جا پہنچا۔ اہل مدینہ اس کی اچانک آمد پر حیران رہ گئے۔ سلطان نے آتے ہی شہر میں آنے جانے کے دروازے بند کرا دیے، پھر منادی کرا دی کہ آج تمام اہل مدینہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں، تمام اہل مدینہ نے نہایت خوش دلی سے سلطان کی دعوت قبول کی۔ اس طرح مدینہ منورہ کے تمام لوگ سلطان کی نظر سے گزر گئے۔ لیکن ان میں وہ آدمی نہیں تھے، جن کی شکلیں اسے خواب میں دکھائی گئیں تھیں۔
سلطان نے اکابر شہر سے پوچھا کہ کوئی ایسا شخص تو باقی نہیں رہا، جو کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہو سکا ہو، انھوں نے عرض کی کہ اہل مدینہ میں تو کوئی شخص ایسا نہیں رہا، جو دعوت میں شریک نہ ہوا ہو۔ البتہ دو خدا رسیدہ مغربی زائر جو مدت سے یہاں مقیم ہیں، نہیں آئے۔ یہ دونوں بزرگ عبادت میں مشغول رہتے ہیں، اگر کچھ وقت بچتا ہے تو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں۔ اس کے سوا وہ کسی سے ملتے ملاتے نہیں۔
سلطان نے حکم دیا، ان دونوں کو بھی ضرور یہاں لائو، جب وہ دونوں سلطان کے سامنے حاضر کیے گئے، تو اس نے ایک نظر میں پہچان لیا کہ یہ وہی دو آدمی ہیں، جو اسے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ انھیں دیکھ کر سلطان کا خون کھول اٹھا، لیکن تحقیق حال ضروری تھی، کیونکہ ان کا لباس زاہدانہ اور شکل و صورت مومنوں کی سی تھی۔ سلطان نے ان دونوں سے پوچھا کہ تم دونوں کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ روضہ اقدس کے قریب ایک مکان کرایہ پر لے رکھا ہے اور اسی میں ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں۔
سلطان نے انھیں وہیں اپنے آدمیوں کی نگرانی میں چھوڑا اور خود اکابر شہر کے ہمراہ اس مکان میں جا پہنچا، یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا، جس میں نہایت مختصر سامان مکینوں کی زاہدانہ زندگی کی شہادت دے رہا تھا۔ اہل شہر ان دونوں کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور بظاہر کوئی چیز قابل اعتراض نظر نہیں آتی تھی، لیکن سلطان کا دل مطمئن نہیں تھا۔ اس نے مکان کا فرش ٹھونک بجا کر دیکھنا شروع کیا۔ یکایک سلطان کو ایک چٹائی کے نیچے فرش ہلتا ہوا محسوس ہوا۔ چٹائی ہٹا کر دیکھا تو ایک چوڑی سل تھی، اسے سر کایا گیا تو ایک خوفناک انکشاف ہوا۔ یہ ایک سرنگ تھی، جو روضہ اقدس کی طرف جاتی تھی۔ سلطان سارا معاملہ آناً فاناً سمجھ گیا اور بے اختیار اس کے منہ سے صدق اللّٰہ و صدق رسولہ النبی الکریم نکلا۔
سادہ مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑ نما بھیڑیوں کی یہ حرکت دیکھ کر ششدر رہ گئے، سلطان اب قہر و جلال کی مجسم تصویر بن گیا اور اس نے دونوں ملعونوں کو پابہ زنجیر کر کے اپنے سامنے لانے کا حکم دیا، جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوئے، تو اس نے ان سے نہایت غضبناک لہجہ میں مخاطب ہو کر پوچھا… سچ سچ بتائو تم کون ہو؟ اور اس ناپاک حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ دونوں ملعونوں نے نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے جواب دیا، اے بادشاہ! ہم نصرانی ہیں (بعض روایتوں میں ہے کہ یہ دونوں یہودی تھے) اور اپنی قوم کی طرف سے تمھارے پیغمبر کی لاش چرانے پر مامور ہوئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی کارِ ثواب نہیں ہے، لیکن افسوس کہ عین اس وقت جب ہمارا کام بہت تھوڑا باقی رہ گیا تھا، تم نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ یہ سرنگ حضرت عمر کے جسد مبارک تک پہنچ چکی تھی، یہاں تک کہ ان کا ایک پائوں مبارک ننگا ہو گیا تھا۔
سلطان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ اس نے تلوار کھینچ کر ان دونوں بدبختوں کی گردنیں اڑا دیں اور ان کی لاشیں بھڑکتی ہوئی آگ کے الائو میں ڈلوا دیں۔ یہ کام انجام دے کر سلطان پر رقت طاری ہو گئی اور شدت گریہ سے اس کی گھگی بندھ گئی، وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا تھا اور کہتا تھا ’’زہے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کا انتخاب فرمایا‘‘… جب ذرا قرار آیا تو سلطان نے حکم دیا کہ روضۂ نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ایک گہری خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے۔
سلطان کے حکم کی تعمیل میں روضۂ اطہر کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا، اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا تاکہ زمانہ کی دستبرد سے ہر طرح محفوظ رہے۔ یہ سیسے کی دیوار روضۂ اقدس کے گرد آج تک موجود ہے اور ان شاء اللہ ابد تک قائم رہے گی۔ آج بھی اہل اسلام سلطان نور الدین کا نام نہایت محبت اور احترام سے لیتے ہیں اور ان کا شمار ان نفوس قدسی میں کرتے ہیں، جن پر سید البشر نے خود اعتماد کا اظہار فرمایا اور ان کے محب رسولصلی اللہ علیہ وسلمہونے کی تصدیق فرمائی۔
یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا (’’نورالدین محمود زنگی‘‘ از طالب الہاشمیؒ)
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین