• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 127


وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۷﴾

اصل میں ’ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جملہ، ہمارے نزدیک اس پوری دعا کے لیے بطورتمہید ہے جو آگے آرہی ہے۔ لہٰذا ’ تَقَبَّلْ ‘ کا مفعول ہم نے ترجمے میں کھول دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ان دو صفتوں کا حوالہ ہے جن پر اعتماد کر کے بندہ اپنے پروردگار سے دعا کرتا ہے۔ اس میں حصر کا اسلوب بندے کی طرف سے کامل سپردگی اور کامل اعتماد کے اظہار کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 128


رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾

اصل الفاظ ہیں : ’ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ ‘۔ دعا کی ابتدا میں باپ بیٹے ، دونوں کی طرف سے اپنے مسلم بنائے جانے کی اس التجا سے جو حقیقتیں روشنی میں آتی ہیں ، وہ استاذ امام نے اپنی تفسیر ” تدبر قرآن “ میں اس طرح واضح فرمائی ہیں " ایک تو یہ کہ ایمان و اسلام اور طلب خشیت وتقویٰ کی دعاؤں میں انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو سامنے رکھے۔ یہ چیزیں ایسی نہیں جن سے کوئی بھی مستغنی ہو سکے ، اگرچہ وہ کتنا ہی عالی مقام ہو۔ دوسری یہ کہ اسلام کے درجات و مراتب کی کوئی حدونہایت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل جیسے مسلم کامل بھی ، جن کے ذریعے سے دنیا اسلام کے نام اور اس کی روح سے آشنا ہوئی ، اپنے مسلم بنائے جانے کے لیے دعا کرتے تھے۔ تیسری حقیقت جو خاص اس موقع سے تعلق رکھنے والی اور نظم کلام کو کھولنے والی ہے ، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ تاریخی موقع پر ، جب کہ وہ اپنے مشن کا مرکز تعمیر کر رہے تھے ، اپنے لیے جس چیز کی دعا کی تھی، مسلم بنائے جانے کی تھی نہ کہ یہودی یا نصرانی بنائے جانے کی۔ “ ( ١/ ٣٣٨) اِس دعا کے موقع پر سیدنا ابراہیم کے ساتھ ان کی ذریت میں سے صرف اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے ، اس لیے بالبداہت واضح ہے کہ یہ انھی کی اولاد سے متعلق تھی۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بعثت اور آپ کی دعوت کے نتیجے میں جماعت صحابہ کے ظہور سے یہ دعا حرف بہ حرف پوری ہوگئی ۔ بائیبل کی کتاب پیدایش میں فرزند کی قربانی کے بعد یہ الفاظ کہ ” اور تیری نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی “ ، اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ اصل الفاظ ہیں : ’ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا ‘۔ ان میں ’ اَرِنَا ‘ کے معنی ’ ہمیں دکھا ‘ کے ہیں۔ سیدنا ابراہیم نے یہ لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ عبادات سے متعلق جو سنن انبیاء (علیہم السلام) نے قائم کی ہیں ، ان کی تعلیم بالعموم اس طرح دی گئی کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر عمل کرکے رویا وغیرہ میں انھیں دکھا دیا۔ ’ مَنَاسِک ‘ کا لفظ اس آیت میں جمع ہے جس کا واحد ’ منسک ‘ ہے۔ اس کے معنی قربانی کے طریقہ کے بھی ہیں اور قربان گاہ کے بھی ۔ اسی سے عام ہو کر یہ حج وعمرہ کے تمام مراسم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اصل میں ’ تُبْ عَلَیْنَا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ علی ‘ کا صلہ دلیل ہے کہ ’ اقبل ‘ کا مفہوم یہاں متضمن ہے جو رحمت کی تعبیر ہے۔ قرآن نے آگے ’ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ‘ کہہ کر اسے کھول دیا ہے۔٢٢: ١٨۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 129


رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾٪
اس دعا میں رسول کا لفظ اہل کتاب ، بالخصوص یہود کو یہ بتاتا ہے کہ سیدنا ابراہیم نے بنی اسماعیل میں جس نبی کی بعثت کے لیے دعا کی تھی ، یہ وہی ہیں جن کا تعارف سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے توراۃ کی کتاب استثنا میں ’ میری مانند ' کے الفاظ سے کرایا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے ، لہٰذا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا بھی ایک صاحب رسالت نبی کے لیے تھی اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسی کے مطابق ایک رسول کی حیثیت سے مبعوث ہوئے ہیں۔ آیت عربی زبان میں اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جائے۔ قرآن کا ہر جملہ کسی نہ کسی حقیقت کے لیے دلیل وبرہان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے آیت کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہے۔ آیتیں سنانے کے لیے اصل میں ’ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اس زور و اختیار کو ظاہر کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کا رسول اس کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو اس کا فرمان پڑھ کر سناتا ہے اور پھر خدا کی عدالت بن کر اس کا فیصلہ ان پر نافذ کردیتا ہے۔ اصل میں ’ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’ الکتاب ‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’ الحکمۃ ‘ جب اس طرح عطف ہو کر آتے ہیں تو ’ الکتاب ‘ سے شریعت اور ’ الحکمۃ ‘ سے دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت ہے اور اس سے آنے والے پیغمبر کی یہ خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ اس کی دعوت قانون و حکمت ، دونوں کی جامع ہوگی ۔ اس کے لیے ’ یُعَلِّمُھُم ‘ کا فعل بالکل اسی طرح آیا ہے جس طرح ’ اَلرَّحْمٰنُ ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ‘ ** میں ہے ، یعنی ان کے اندر وہ رسول اٹھا جو انھیں قانون و حکمت کا علم دے۔ اِس مفہوم کے لیے عربی زبان کا جو لفظ قرآن نے اختیار کیا ہے ، وہ تزکیہ ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی ۔ انبیاء (علیہم السلام) انسانوں کو جس قانون و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، اس سے یہ دونوں ہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ سیدنا ابراہیم کا مدعا یہ ہے کہ آنے والا انھیں وہ قانون اور وہ حکمت سکھائے جس سے ان کا علم و عمل تمام آلایشوں سے پاک ہو کر صحیح سمت میں نشو ونما پانے لگے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو تزکیہ قانون و حکمت سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ انھی دونوں کا حاصل ہے جسے قرآن نے عربیت کے اسلوب پر بیان کی واؤ سے ان پر عطف کردیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ دین درحقیقت دو ہی چیزوں کا مجموعہ ہے : ایک قانون ، دوسرے حکمت ، اور اس کا مقصد انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تزکیہ ہے۔ انسان جب اس قانون و حکمت کو پوری طرح اختیار کرلیتا ہے تو تزکیہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اسے حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے کہیں اور جانے اور کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔یعنی تو زبردست ہے ، اس لیے تیرا حق ہے کہ تو لوگوں کو اپنا قانون دے اور صاحب حکمت ہے ، لہٰذا تیری اس صفت کا تقاضا ہے کہ تو انھیں بھی حکمت عطا فرمائے۔
۔ ١٨: ١٥۔
۔ ٥٥: ١۔ ٢۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 130


وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾
اشارہ یہود کی طرف ہے اور اسلوب میں تعجب بھی ہے اور افسوس بھی ۔ مطلب یہ ہے کہ دین ابراہیمی کے تنہا اجارہ دار بنے ہوئے ہیں ، لیکن وہی دین جب اس کی صحیح صورت میں ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس سے گریز اور فرار کے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ یعنی اپنے دین کی امامت اور پیشوائی کے لیے خاص کیا ۔ اس کا ذکر اسی سلسلہ بیان میں اوپر گزر چکا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 131


اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾
اصل میں ’ اَسْلِمْ ‘ اور ’ اَسْلَمْتُ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کا صحیح مفہوم حوالے کردینے ہی سے ادا ہوتا ہے۔ یہاں ان سے سیدنا اسماعیل کی قربانی کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسی امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کی عزت سے نوازے گئے۔ یہ اپنے آپ کو پوری طرح سپرد کرنے کا ایسا تقاضا تھا کہ اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تعبیر یہی ہوسکتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے معنی اپنے آپ کو ہر لحاظ سے اپنے پروردگار کے حوالے کردینے کے ہیں۔ سیدنا ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اسی اسلام کا حکم دیا تھا ، انھوں نے اسے ہی اختیار کیا اور ان کو جو امامت حاصل ہوئی ، وہ اسی کے نتیجے میں حاصل ہوئی ۔ یہودیت یا نصرانیت سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ یہ عزت انھیں مفت میں حاصل ہوئی تھی، جس طرح کہ یہود اسے حاصل کرنا چاہتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 132


وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۲﴾ؕ
اصل الفاظ ہیں : ’ وَوَصّٰی بِھَآ اِبْرٰہٖمُ ‘۔ ان میں ’ توصیۃ ‘ کے معنی تلقین و نصیحت کرنے کے ہیں ، عام اس سے کہ یہ تلقین و نصیحت مرتے وقت کی جائے یا زندگی کے کسی دوسرے مرحلے میں، اور ’ بِھَا ‘ میں ضمیر کا مرجع وہی ’ مِلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ ‘ ہے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا ہے۔ سیدنا یعقوب کی اس سے ملتی جلتی ایک وصیت ” تالمود “ میں بیان ہوئی ہے، لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیت کا ذکر یہود کے صحیفوں میں کہیں نہیں ملتا ۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ یہ اصلاً اُنھی کی روایت تھی جسے سیدنا یعقوب نے بھی قائم رکھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ بنی اسرائیل براہ راست انھی کی اولاد تھے ، اور یہاں انھی کو بتانا مقصود ہے کہ تمہارے یہ آبا اسلام ہی کے پیرو تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو کبھی یہودیت یا نصرانیت کی وصیت نہیں کی۔
اصل میں لفظ ’ الدِّیْنَ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں لام عہد کا ہے اور اس سے مراد وہی دین ابراہیمی یعنی اسلام ہے جس کی وصیت کا ذکر اس سے پہلے ہوا ہے۔ یعنی اس راہ کی ہر آزمائش اور اس میں شیطان کی ہر دراندازی کے باوجود مہد سے لحد تک تمہیں اسی دین کے لیے جینا اور اسی کے لیے مرنا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 133


اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾
یہ سوال کا اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ مخاطبین اس بات کو سننے کے لیے پوری طرح متنبہ ہوجائیں جو آگے بیان کی جا رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ تمہارے یہ بزرگ یہودی یا نصرانی تھے تو کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہ گفتگو کی ۔ اسے یاد کرو اور بتاؤ کہ اس وقت انھوں نے اپنی اولاد سے یہودیت اور نصرانیت کا اقرار لیا تھا یا اسلام کا ؟ وصیت کے وقت سیدنا یعقوب کی موت کے اس حوالے سے جن باتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے، ان کی وضاحت استاذ امام نے اپنی تفسیر میں اس طرح فرمائی ہے۔ ”۔۔ ایک تو اس بات کی طرف کہ حضرت یعقوب نے یہ عہد و اقرار اپنی اولاد سے اپنے بالکل آخری لمحات زندگی میں لیا ہے ، اس وجہ سے یہ گمان کرنے کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اس کے بعد ان کے مسلک و مذہب میں کوئی تبدیلی واقع ہوگئی ہو ۔ دوسری اس بات کی طرف کہ ایک شفیق و مہربان باپ جو خدا کا ایک پیغمبر بھی ہے ، اپنی اولاد سے جو عہد و اقرار، اپنے بالکل آخری لمحات زندگی میں لیتا ہے، اس کے اور اس کی اولاد کے درمیان سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا واقعہ وہی عہد و اقرار ہوسکتا ہے اور باوفا اولاد کا یہ سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کے اندر اس عہد کو نبا ہے ، صرف ناخلف اولاد ہی اس نوعیت کے عہدو اقرار کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ تیسری یہ کہ اللہ سے ڈرنے والے اور اپنی اولاد سے سچی محبت کرنے والے ایک باپ کا زندگی میں اپنی اولاد سے متعلق آخری فریضہ یہ ہے کہ وہ مرتے دم ان کی دنیا سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرے اور ان کو دین حق پر قائم رہنے اور اسی دین پر جینے اور مرنے کی تلقین کرے۔ “ (تدبرِ قرآن ١/ ٣٤٦) اصل الفاظ ہیں : ’ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ ‘۔ ان میں سوال کے لیے ’ مَا ‘ کا لفظ سیدنا یعقوب نے اس لیے استعمال فرمایا کہ مخاطبین کے ذہن میں معبود سے متعلق اگر کوئی تردد ہوگا تو وہ ابہام کے اس اسلوب سے ان کے جواب میں ظاہر ہوجائے گا۔ یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں کی زبان سے اس اعتماد اور صراحت کے ساتھ یہاں سیدنا اسماعیل کے ذکر سے واضح ہے کہ ان کے زمانے تک ان کی اولاد میں اسماعیل اور ان کی ذریت کے خلاف اس طرح کا کوئی تعصب نہ تھا جو بعد میں بدقسمتی سے پیدا ہوگیا۔ یعنی ہم توحید کے ماننے والے ہیں اور ہم نے اسلام ہی کو اپنے دین کی حیثیت سے اختیار کیا ہے ، اس کے سوا ہمارا کوئی دین نہیں ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 134


تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾
یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا ، ان کا ہے جو انھوں نے کیا اور تمہارا ہے جو تم نے کیا، تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 135


وَ قَالُوۡا کُوۡنُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی تَہۡتَدُوۡا ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾
یہاں بھی وہی لف کا اسلوب ہے جس کا ذکر ہم اس سے پہلے آیت ١١١ کے تحت کرچکے ہیں۔ یعنی یہودی کہتے ہیں کہ یہودی بنو تو ہدایت پاؤ گے اور نصرانی کہتے ہیں کہ نصرانی بنو تو ہدایت پاؤ گے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ‘۔ ان میں ’ مِلَّۃَ ‘ کا لفظ منصوب ہے ، لہٰذا یہاں لازماً کوئی فعل محذوف مانا جائے گا ۔ ہم نے ، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے ، امر کا صیغہ محذوف مانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں اس طرح کا نصب ، بالعموم ترغیب یا ترہیب کے مواقع پر آتا ہے، اور اس کے لیے امر کا صیغہ ہی موزوں ہے۔ پھر یہ جملہ یہودونصاریٰ کی دعوت کے جواب میں آیا ہے اور دعوت کا جواب ، اگر غور کیجیے تو اس موقع پر دعوت ہی ہوسکتی ہے۔ اصل میں ’ حَنِیْفًا ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی پوری طرح کسی کی طرف جھک جانے کے ہیں۔ یہاں یہ مضاف الیہ سے حال واقع ہوا ہے۔ اس پر کوئی تردد نہ ہونا چاہیے ، عربی زبان میں مجرور سے حال پڑنے کا یہ طریقہ بالکل عام ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 136


قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۶﴾
یعنی ہم تمہاری طرح یہ نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں ۔ اللہ تعالیٰ کی کسی ہدایت کو بھی ہم نہ جھٹلاتے ہیں اور نہ تردید کرتے ہیں ، بلکہ بغیر کسی استثنا کے سب پر ایمان رکھتے ہیں۔
 
Top