ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یعنی انھیں اس بات پر حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت سے بنی اسماعیل کو کیوں نوازا ہے۔ پھر جب اسلام اور اس کی برکتوں میں روز بروز ترقی ہوئی تو ان کا یہ حسد اور بڑھ گیا ، یہاں تک کہ اس نے ان کو بالکل تباہی کے کنارے پر پہنچا کر چھوڑا۔
اصل میں ’ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں نہی نتیجے کے لحاظ سے ہے۔ یعنی خدا کی جو دینونت اس سر زمین میں برپا ہے، اس میں لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے اور اس طرح صلح و امن پر آمادہ کرنے کے بجائے جنگ کی آگ نہ بھڑکاؤ جس کا نتیجہ حرث و نسل کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ آگے آیت ٢٠٥ میں قرآن نے اسے صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
اِن کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ دو فریقوں میں مصالحت کی جو پالیسی ہم نے اختیار کی ہے، تم اسے فساد قرار دیتے ہو، دراں حالیکہ اصلاح اگر ہوسکتی ہے تو ہمارے اس طریقے ہی کو اختیار کرنے سے ہوسکتی ہے۔
یہود اس بات سے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے تھے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار کر رہے ہیں ، لیکن اپنے دل میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ اگر آپ کو مان رہے ہیں تو ان امیوں ہی کے لیے اللہ کا رسول مان رہے ہیں۔ رہے وہ تو ان کے لیے ان کے اپنے نبی اور اپنے صحیفے ہی کافی ہیں ، وہ اس دائرے سے باہر کسی ہدایت کو ماننے کے مکلف نہیں ہیں۔
دور حاضر میں بھی یہود و نصاریٰ میں سے جو لوگ اسلام لائے بغیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں ، اسی مفہوم میں کرتے ہیں۔
اصل میں ’ خَلَوْا اِلٰی ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ خلا ‘ کے بعد ’ الی ‘ کا تقاضا ہے کہ اسے کسی ایسے فعل پر متضمن مانا جائے جو اس صلہ سے مناسبت رکھنے والا ہو ۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح رہے کہ لفظ ’ شَیْطَان ‘ اس آیت میں یہود کے لیڈروں کے لیے بالکل اسی طرح استعمال ہوا ہے، جس طرح ہم اردو میں یہ لفظ اس طرح کے مواقع پر استعمال کرتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں : ’ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ‘۔ ان میں ’ یَعْمَھُوْنَ ‘ حال واقع ہوا ہے اور ’ فِیْ طُغْیَانِھِمْ ‘ کا تعلق ’ یَمُدُّھُمْ ‘ سے ہے ، اس لیے کہ ’ مدہ فیہ ‘ عربی زبان میں زیادہ آتا ہے۔ مدعا کے لحاظ سے یہ اللہ تعالیٰ کے اسی مذاق کی وضاحت ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ یعنی وہ سرکشی میں جتنا آگے بڑھ رہے ہیں، اللہ اسی کے حساب سے ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے تاکہ جب انھیں پکڑا جائے تو ان کے پاس کوئی عذر اس کے حضور میں پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہ جائے۔
اصل میں لفظ ’ اِشْتَرٰی ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی خریدنے کے ہیں۔ خریدنا چونکہ قیمت کے مقابل میں ایک لحاظ سے اس شے کو ترجیح دینا بھی ہے جسے آدمی کوئی قیمت ادا کر کے خریدتا ہے، اس وجہ سے ترجیح دینے کے یہ معنی اس میں پیدا ہوگئے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ اس مفہوم میں جگہ جگہ آیا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی منافقت کا پردہ چونکہ بالکل چاک کردیا ہے ، لہٰذا مصالحت کی اس پالیسی سے جو راہ انھوں نے پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے نتائج سے بچنے کے لیے نکالنا چاہی تھی ، وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
یہ دو تمثیلیں ہیں۔ ان میں حرف ’ اَوْ ‘ تقسیم کے لیے ہے۔ پہلی تمثیل ان لوگوں کی ہے جن کا ذکر اوپر ’ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘ کے الفاظ میں ہوا ہے اور دوسری ان کی جو اس کے بعد ’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ ‘ کے الفاظ میں مذکور ہیں۔ تمثیل کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس میں اور تشبیہ میں بڑا فرق ہے۔ تشبیہ میں اصل اہمیت مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان مطابقت کی ہوتی ہے اور تمثیل میں صورت واقعہ کو صورت واقعہ کے مقابل میں رکھ دیا جاتا ہے ، اس میں تمثیل کے اجزا کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
یہ تمثیل ایک قافلے کی ہے جو اندھیری رات میں اپنے لیے راستہ تلاش کر رہا ہے۔ اس میں آگ جلانے والے سے اشارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے ، جنھوں نے آگ جلا کر گویا راستہ بالکل روشن کردیا ہے ، لیکن قافلے کے تمام افراد چونکہ اندھے ، بہرے اور گونگے ہیں، اس لیے نہ پکارنے والے کی پکار سن سکتے ہیں ، نہ اسے جواب دے سکتے ہیں اور نہ اس آگ کی روشنی میں اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرسکتے ہیں۔
یہ دوسری تمثیل ایک ایسے قافلے کی ہے جو رات کی تاریکی میں کسی جگہ بارش میں گھر گیا ہے۔ اس میں بارش سے اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے۔ اندھیری گھٹاؤں سے ان مشکلات راہ کا تصور دلانا مقصود ہے جو قرآن کی دعوت قبول کرنے والوں کو اس زمانے میں لازماً پیش آتی تھیں؛کڑک اور چمک سے قرآن کی وہ وعیدیں مراد ہیں جو قرآن اپنے جھٹلانے والوں کو سنا رہا تھا اور جن کی زد اس وقت بطور خاص یہود پر پڑ رہی تھی۔
بارش کے ساتھ آسمان کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ اس سے ایک تو تمثیل کے تقاضے سے بارش کی تصویر نگاہوں کے سامنے آجائے ، دوسرے اس سے جب قرآن کو مراد لیا گیا ہے تو اس کے آسمانی ہونے کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہوجائے۔
یہود کے اس موخر الذکر گروہ کو چونکہ قرآن کی حقانیت کا پورا احساس تھا ، اس وجہ سے قرآن کی وعیدیں اسے بہت شاق گزرتی تھیں ۔ ان کا علاج اس نے یہ سوچا کہ سرے سے قرآن کی بات سنی ہی نہ جائے۔ تمثیل میں یہ اسی صورت حال کی تصویر ہے۔
یعنی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو یقیناًمبتلا کرسکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچے رہیں گے ، لیکن فی الواقع وہ بچ نہیں سکتے، اس لیے کہ اللہ ہر طرف سے اپنی سب قوتوں کے ساتھ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے
یہ اس پریشانی کی تصویر ہے جس میں نزول قرآن کے بعد وہ مبتلا ہوگئے تھے۔ قرآن کی چمک اور دمک نگاہوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی اور اس کی بجلیوں سے بچنے کی کوئی راہ وہ تلاش نہیں کر پا رہے تھے۔ اس چیز نے انھیں بالکل حیران و درماندہ کردیا تھا کہ کریں تو کیا کریں ۔ اس حیرانی و درماندگی میں کوئی بات بنتی نظر آتی تو بنانے کی کوشش کرتے تھے اور جب بگڑ جاتی تھی تو حیران و درماندہ ہو کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ قرآن نے یہ اسی صورت حال کی تصویر کھینچی ہے۔
یہ وعید ہے کہ انھوں نے اگر اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور دوسروں کو فریب دینے کا طریقہ چھوڑ کر حق کو ، جس طرح کہ وہ ہے ، پوری سچائی کے ساتھ قبول نہ کیا تو اندیشہ ہے کہ پہلے گروہ کی طرح ان کی روشنی بھی سلب کرلی جائے اور یہ حق کو پانے کی صلاحیت ہی سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیے جائیں ۔ ” اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلب کرلیتا “ ان الفاظ کا مدعا یہ ہے کہ ابھی انھیں مہلت ملی ہوئی ہے ، لیکن اس مہلت سے یہ بےخوف اور بےپرواہ نہ ہوں، یہ نہیں جانتے کہ کب یہ مہلت ختم ہوجائے گی اور کب یہ عذاب الٰہی کی زد میں آجائیں گے