• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 31


وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا ‘۔ ان میں ’ اَسْمَآء ‘ پر الف لام عہد کا ہے اور مراد اس سے آدم (علیہ السلام) کی ذریت میں سے بالخصوص ان لوگوں کے نام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات پاکر خود بھی ان کا حق ادا کریں گے اور دوسروں کو بھی ان کا حق ادا کرنے کی ترغیب دیں گے ، یہاں تک کہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بارہا اپنا سب کچھ قربان کردیں گے، یعنی اولاد آدم میں سے انبیاء و رسل ، مجددین ، مصلحین اور شہدا و صدیقین۔
’ نام بتاؤ ‘ یعنی تعارف کراؤ۔ اس مفہوم کے لیے یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی معروف ہے۔
یعنی اپنے اس خیال میں کہ اولاد آدم کو زمین کا اقتدار دیا گیا تو وہ اس میں فساد برپا کر دے گی۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 32


قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳۲﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

آیت کی ابتدا میں لفظ ’ سُبْحٰنَکَ ‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ کئی مواقع پر آتا ہے۔ یہاں مدعا یہ ہے کہ پروردگار ، آپ کی شان اس سے بلند ہے کہ آپ کا کوئی کام حکمت سے خالی ہو۔ ہم نے اپنا جو شبہ ظاہر کیا ہے، وہ محض ہمارے علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ہمارا علم محدود ہے ، علم و حکمت کا اصلی خزانہ تو آپ ہی کے پاس ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 33


قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿۳۳﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

آدم کی تخلیق اور اسے زمین کی بادشاہی عطا کرنے کا جو بھید ذریت آدم کے صالحین کو فرشتوں کے سامنے پیش کرنے اور ان کا تعارف کرانے سے واضح ہوا، وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی جنت کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں جو اس اقتدار کے باوجود ان کی اطاعت پر قائم رہیں۔ یہ مقصد ظاہر ہے کہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا تھا ، جب تک اطاعت کے مقابلے میں سرکشی کو گوارا نہ کیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ جاننے کے باوجود کہ فساد برپا ہوگا، آدم کو بنانے اور زمین کی بادشاہی عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں کو بتادیا کہ یہ اسکیم ہرگز ناکام نہ ہوگی اور خدا کے اذن سے صالحین کی ایک بڑی جماعت جنت الفردوس کے لیے منتخب ہوجائے گی ۔
یعنی اپنے اور بنی آدم کے وہ اوصاف جو فرشتوں نے بیان کردیے تھے ۔
یعنی فرشتوں کا وہ مدعا جس کے بارے میں ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ادب کے تقاضے سے وہ اسے زبان پر نہیں لائے تھے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 34


وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

صل الفاظ ہیں : ’ وَ اِذْ قُلْنَا ‘۔ آیت ٣٠ کی ابتدا میں پہلے ’ اِذْ ‘ کے بعد یہ دوسرا ’ اِذْ ‘ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہ ایک مستقل واقعہ ہے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ یہ پہلے واقعے کے بعد ہی پیش آیا ہو۔
یہ سجدہ تعظیم کے لیے تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا ، اس لیے اس میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اطاعت کا یہ امتحان جس وجہ سے لیا ، وہ یہ تھی کہ اولاً ، آدم پر واضح ہوجائے کہ اصلی سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمان برداری میں ہے۔ لہٰذا اسے بھی اپنی انانیت کو ایک طرف رکھ کر ہمیشہ حق کے سامنے سرتسلیم خم کردینا چاہیے۔ ثانیاً وہ یہ سمجھ لے کہ اسے جب اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہے کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تو یہ بات کسی طرح اس کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ کسی برتر سے برتر مخلوق کو بھی خدا کا شریک سمجھ کر اس کی پرستش کرے۔ بندگی اور پرستش اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ وہ اگر اس حق میں کسی کو شریک کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی اہانت نہیں کرتا ، بلکہ خود اپنی بھی اہانت کرتا ہے۔
یہ ’ ابلس ‘ سے ’ افعیل ‘ کے وزن پر اس جن کا لقب ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ۔ ’ ابلس ‘ کے معنی مایوس اور غم زدہ ہونے کے ہیں۔ بعض لوگ اسے فرشتہ سمجھتے ہیں، لیکن قرآن میں صراحت ہے کہ یہ جنات میں سے تھا۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات چونکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے فرشتوں سے زیادہ دور نہیں ہیں، اس لیے انھیں جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو علیٰ سبیل التغلیب جنات بھی اس حکم میں شامل تھے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 35


وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ غالباً اسی دنیا کا کوئی باغ تھا جسے آدم و حوا کا مستقر قرار دیا گیا ۔ اس میں جو امتحان انھیں پیش آیا ، اس سے دونوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ شیطان ان پر حملہ کرے گا تو کہاں سے کرے گا۔
سورة طہ (٢٠) کی آیت ١٢٠ میں اسے ’ شَجَرَۃُ الْخُلْد ‘ کہا گیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ لفظ ’ اَلشَّجَرَۃَ ‘ یہاں مجازی مفہوم میں ہے۔ ’ شَجَرَۃُ الْخُلْد ‘ کے لفظ سے جو معنی ظاہر ہوتے ہیں اور اس درخت کا پھل کھانے کے جو اثرات قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوئے ہیں، دونوں اس بات کی طرف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہی شجرہ تناسل ہے جس کا پھل کھانے کے باعث انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہے ، لیکن آج بھی دنیا میں اس کے لیے سب سے بڑی آزمائش اگر کوئی ہے تو یہی درخت ہے۔ سورة اعراف (٧) کی آیت ٢٧ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سب سے بڑھ کر اسی کو فتنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس قرار دیا اور انھیں اجازت دی کہ وہ یہ لباس پہن کر اس درخت کا پھل کھائیں، لیکن شیطان ہمیشہ انھیں اس لباس کے بغیر ہی اس کا پھل کھانے کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 36


فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۳۶﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اس سے مراد وہی ابلیس ہے جس کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ہے۔
اُس نے آدم و حوا سے کہا کہ حیات جاوداں اور ابدی بادشاہی کا راز اسی درخت کے پھل میں ہے جس سے تمہیں محروم کردیا گیا ہے۔ چنانچہ اس ترغیب سے وہ اس پھل کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی خواہش میں جو غیر معمولی کیفیت انسان پر طاری ہوجاتی ہے، اس سے مغلوب ہو کر شیطان کے فریب میں آگئے اور یہ پھل کھا بیٹھے۔
اصل میں لفظ ’ اِھْبِطُوْا ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں ’ اترو ‘ کا مفہوم وہی ہے جو اسی سورة کی آیت ٦١ کے الفاظ ’ اِھْبِطُوْا مِصْرًا ‘ میں ہے، یعنی اے آدم و حوا اور ابلیس، تم سب اس باغ سے نکل کر زمین میں اتر جاؤ۔
یعنی ابلیس تمہارا دشمن ہے اور تم اس کے دشمن ہو ۔ تمہارے اور اس کے درمیان فطری تعلق دشمنی کا ہے ، لہٰذا تم کو ہمیشہ اسے اپنا دشمن ہی سمجھنا چاہیے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 37


فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۳۷﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اس سے اللہ تعالیٰ کی سنت معلوم ہوتی ہے کہ انسان جب گناہ کرلینے کے بعد ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ اسے توبہ کی توفیق دیتا ہے ، بلکہ اس کے لیے موزوں الفاظ بھی اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو جو الفاظ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سکھائے ، وہ سورة اعراف (٧) کی آیت ٢٣ میں بیان ہوئے ہیں۔
اِس لیے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے کوئی مجرم نہیں ہے۔ وہ اگر گناہ کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کرتا کہ وہ ازلی گناہ گار ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ و اختیار کی جو نعمت اسے عطا فرمائی ہے ، اس کے سوء استعمال کی وجہ سے گناہ کرتا ہے۔ اس گناہ سے اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و اصلاح کا طریقہ اسے بتایا ہے۔ اس کے لیے کفارے کا کوئی عقیدہ وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اصل الفاظ ہیں : ’ فَتَابَ عَلَیْہِ ‘ ۔ ان میں ’ عَلٰی ‘ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ ’ اقبل ‘ کے مفہوم پر متضمن ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا التفات اور توجہ اسے پھر حاصل ہوگئی۔ رحمت و عنایت کے اس مضمون کو قرآن نے آگے ’ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ‘ کے الفاظ میں واضح کردیا ہے۔
اِس پورے واقعے سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی میں جو سب سے بڑا امتحان انسان کو پیش آئے گا، وہ انانیت اور جنسی جبلت کے راستے سے پیش آئے گا۔ پہلی صورت میں اسے فرشتوں کا نمونہ سامنے رکھنا چاہیے جو ایک برتر مخلوق ہونے کے باوجود اللہ کے حکم پر اس کے سامنے جھک گئے اور دوسری صورت میں اپنے باپ آدم کا نمونہ جو شیطان کے بہکانے پر جذبات میں بہ تو گئے ، لیکن اس کیفیت سے نکلتے ہی فوراً اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آئے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور انھیں برگزیدہ فرمایا۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 38


قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۳۸﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ الفاظ دو مرتبہ دہرائے گئے ہیں۔ ایک مرتبہ آدم (علیہ السلام) کی لغزش کا ذکر کرنے کے بعد اور دوسری مرتبہ یہاں ان کی توبہ کے بعد ۔ لغزش کے بعد یہ اس لغزش کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے آئے ہیں اور توبہ کے بعد اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ یہی امتحان اب تمہیں دنیا میں درپیش ہے ، اس لیے جاؤ، تمہاری لغزش اور توبہ سے وہ مقصد پورا ہوگیا جس کے لیے تم اس باغ میں رکھے گئے تھے۔ تمہارا مستقر اب دنیا ہے اور تمہیں ایک خاص وقت تک اسی میں رہنا ہے۔
یعنی تم جس امتحان میں ڈالے گئے ہو ، وہ بڑا سخت امتحان ہے۔ اس میں تنہا اپنی عقل و فطرت کی رہنمائی سے تمہیں کامیابی میں مشکل ہوسکتی ہے۔ میری رحمت کا تقاضا ہے کہ اس میں تمہاری ہدایت کا سامان کروں ۔ لہٰذا میں یہ سامان کروں گا تاکہ جس نے ہدایت پانی ہے ، وہ ہدایت پائے اور جس نے گمراہی کے راستے پر چلنا ہے ، وہ پوری طرح اتمام حجت کے بعد چلے اور جزا و سزا کے دن اپنا کوئی عذر پیش نہ کرسکے ۔
قرآن مجید میں یہ الفاظ جنت کی تعبیر کے لیے خاص ہیں، یعنی ایسی جگہ جہاں نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ۔ ’ خوف ‘ اور ’ حزن ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، وہ اسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں ، اس لیے کہ خوف کسی پیش آنے والے خطرے کا ہوتا ہے اور حزن رفتہ و حاضر کے کسی نقصان کا۔ دنیا کی زندگی ، اس کے برعکس ، اگر دیکھیے تو مستقبل کے اندیشوں اور ماضی کے پچھتاو وں ہی کا نام ہے۔
اِس سے واضح ہوا کہ انسان کا نصب العین ازل ہی سے جنت الفردوس ہے۔ وہ اسی کو پانے کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے ، لہٰذااُس کے تمام اعمال کا محرک یہی جنت ہے۔ وہ اگر اس کی اصلی جگہ پر اس کے حصول کی جدوجہد نہ بھی کر رہا ہو تو اس سے بےپرواہ نہیں ہوسکتا۔ اپنے علم و عمل کی تمام صلاحیتیں وہ پھر اسی دنیا میں اسے پالینے کی جدوجہد میں صرف کردیتا ہے۔ یہ چیز اس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسی نصب العین کے لیے جیتا اور اسی کے لیے مرتا ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 40


یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ ﴿۴۰﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

سورة کی تمہید ختم ہوئی ۔ اب یہاں سے اصل خطاب شروع ہوتا ہے۔ اس میں پہلے یہود کو ان کی وہ ذمہ داریاں یاد دلائی گئی ہیں جو توراۃ کی رو سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے متعلق ان پر عائد ہوتی تھیں ۔ اس کے بعد اس سلسلہ بیان کے آخر تک یہ حقیقت ان پر واضح کی گئی ہے کہ جزا و سزا کا قانون بالکل بےلاگ ہے، لہٰذا کسی گروہ سے تعلق اس معاملے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ نجات کا فیصلہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر ہوگا۔ ان کے سوا کوئی چیز بھی قیامت کے دن ان کے کام نہ آسکے گی۔
یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی وہی ہیں جو عربی زبان میں لفظ ’ عبد اللّٰہ ‘ کے ہیں۔
اِس سے مراد شہادت علی الناس اور دنیا کی امامت کا وہ منصب ہے جس کے لیے بنی اسرائیل بالکل اسی طرح منتخب کیے گئے، جس طرح اللہ تعالیٰ بنی آدم میں سے بعض ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو نعمتیں انھیں عطا کی گئیں، وہ بھی تبعاً اس میں شامل سمجھنی چاہئیں، اس لیے کہ وہ درحقیقت اسی منصب کے لیے ان کے انتخاب کا نتیجہ تھیں ۔
’ میری نعمت ‘ اور ’ جو میں نے تم پر کی تھی ‘ کے الفاظ یہود کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنے کے لیے آئے ہیں کہ وہ اس نعمت کو اپنے پروردگار کی عنایت سمجھنے کے بجائے اپنے ذاتی اور خاندانی استحقاق کا ثمرہ سمجھتے تھے۔
یعنی میرا وہ عہد جو میں نے تم سے اپنی شریعت کی پابندی اور اپنے آخری پیغمبر پر ایمان کے بارے میں لیا تھا اور تم سے وعدہ کیا تھا کہ اس کو پورا کرو گے تو میں دنیا کی سب قوموں پر تمہیں سرفرازی عطا کروں گا۔ استثنا کے باب ٢٨ میں یہ عہد تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ اس کا جو حصہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق ہے ، اس کا ذکر استثنا میں اس طرح ہوا ہے :

” خداوند تیرا خدا تیرے لیے ، تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا ، تم اس کی سننا۔۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو ، جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ، نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ “ (١٨: ١٥۔ ١٨)

اصل الفاظ ہیں : ’ وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ ‘۔ ’ رھبۃ ‘ کا لفظ لرزش اور کپکپی کی اس حالت کے لیے آتا ہے جو کسی کی عظمت و جلالت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہوتی ہے۔ اس جملے میں مفعول مقدم بھی ہے اور فعل کے بعد اسے دہرایا بھی گیا ہے۔ اسی طرح فعل پر حرف ’ ف ‘ بھی آیا ہے جس سے ’ اما ‘ اور اس کی جزا کا مفہوم اس میں پیدا ہوگیا ہے۔ عربیت کی رو سے جملے کی تالیف میں یہ سب چیزیں اہتمام و اختصاص پر دلیل ہیں۔ ’ اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ‘ مطلب یہ ہے کہ تمام مصلحتوں اور اندیشوں سے قطع نظر کر کے تم پر صرف میری ہی عظمت و جلالت کا غلبہ ہونا چاہیے اور تمہیں صرف مجھ ہی سے ڈرنا چاہیے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 41


وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ ﴿۴۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی آخری پیغمبر کے بارے میں توراۃ کی وہ پیشین گوئی جو یہود کے پاس تھی اور جسے قرآن نے سچی ثابت کردیا اور اس طرح یہ بات بھی ثابت کردی کہ توراۃ فی الواقع اللہ پروردگار عالم ہی کی اتاری ہوئی کتاب ہے۔ ’ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، ان کا صحیح مفہوم یہی ہے۔
اصل میں ’ وَلاَتَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ’ افعل ‘ کا مضاف الیہ مفرد ہے ، اس لیے یہ تمییز کے مفہوم میں ہے۔ اس کی جگہ اگر ’ اول الکافرین ‘ کا اسلوب اختیار کیا جاتا تو اس کے معنی یہ ہوجاتے کہ منکروں میں تم سب سے پہلے لوگ نہ بنو۔ ’ اَوَّلَ کَافِرٍ ‘ کے اسلوب میں یہ بات پیش نظر نہیں رہتی کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرے منکر بھی پائے جاتے ہیں یا نہیں ۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ یثرب کی اس بستی میں تمہیں اس کتاب کے لیے پہلے مومن ہونا چاہیے تھا نہ کہ سب سے پہلے منکر ، لیکن افسوس ہے کہ تم نے یہی دوسری صورت اپنے لیے پسند کی ہے ، اس لیے اب بھی سنبھل جاؤ اور سب سے پہلے اس کتاب کے منکر نہ بنو۔
یعنی اپنے دنیوی مفادات کی خاطر خدا سے باندھے ہوئے سب عہد و پیمان مٹی میں نہ ملاؤ اور توراۃ کے احکام و ہدایات کو ان مفادات پر قربان نہ کرو ۔ آیت میں تھوڑی قیمت کے عوض نہ بیچنے کے جو الفاظ آئے ہیں ، ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر زیادہ قیمت مل جائے تو بیچ سکتے ہو۔ اس میں نہی کا تعلق اصل فعل سے ہے اور تھوڑی قیمت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ دین فروشی کا یہ کاروبار نہایت ذلیل طریقے سے ہو رہا ہے ، اس لیے کہ اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں اگر دنیا کے سارے خزانے بھی حاصل ہوجائیں تو وہ ایک متاع حقیر ہی ہیں۔ جملے میں اس طرح کی قیود سے کسی چیز کی شناعت کو واضح کرنے کا یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی عام ہے۔
’ وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ ‘ ہی کے طریقے پر یہاں اصل الفاظ ہیں : ’ وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ‘ یعنی اصل ڈرنے کی چیز میرا غضب ہی ہے ، مجھے ہر حال میں نرم نہ سمجھو، میرا غضب جب نازل ہوتا ہے تو اس وقت کوئی نہیں ہوتا جو اس سے چھڑانے کے لیے کھڑا ہو سکے۔ یہاں اور اس سے آگے کی ایک آیت میں ’ رھبۃ ‘، ’ تقوٰی ‘ اور ’ خشوع ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں ، استاذ امام امین احسن اصلاحی ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں :

”۔۔۔(یہ) سب ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ کسی کے عظمت و جلال کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی طاری ہوتی ہے ، وہ رہبت ہے۔ اس لرزش اور کپکپی سے صاحب عظمت و جلال کے لیے دل میں جو عجز و فروتنی اور پستی و نیازمندی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت میں بےنیازی کی جگہ فقر کا اور گھمنڈ کی جگہ اخبات کا جو احساس ابھرتا ہے ، وہ خشوع ہے۔ اسی طرح اس صاحب عظمت و جلال کے قہر و غضب سے بچنے ، اس کے مقرر کردہ حدود کی مخالفت سے احتراز اور اس کے احکام و ہدایات کی خلاف ورزی سے اجتناب و احتیاط کی جو بےچینی طبیعت میں پیدا ہوتی ہے اور جو خلوت و جلوت ، ہر جگہ آدمی کو بیدار اور چوکنا رکھتی ہے ، وہ تقویٰ ہے۔ “ ( تدبر قرآن ١/ ١٨٢)


 
Top