ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یہ اشارہ ہے ان تصرفات کی طرف جو یہود نے توراۃ میں کر ڈالے تھے اور جن سے ان حقائق پر پردہ ڈالنا مقصود تھا جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی ، ان کی قربان گاہ اور ان کے قبلہ کا تعلق سرزمین عرب سے ثابت کرتے تھے اور اس طرح یہود کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے متعلق ایک قطعی حجت کی حیثیت رکھتے تھے۔
اصل الفاظ ہیں : ’ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ‘۔ یہ پچھلے جملے پر عطف ہے ، لیکن اس میں حرف ’ لا ‘ کا اعادہ نہیں کیا گیا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک ہی حقیقت کا بیان ہیں۔ یہود نے حق کو باطل میں ملانے کی جو کوشش کی، اس کا مقصود یہی کتمان حق تھا ۔ وہ حق کو باطل میں اسی لیے ملاتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں توراۃ کی پیشین گوئیوں کو خلط ملط کر کے لوگوں کو غلط فہمی میں ڈال دیں۔
نماز اور زکوۃ سے یہود پوری طرح واقف تھے۔ وہ اگرچہ انھیں عملاً ترک کرچکے تھے ، اور اسی بنا پر انھیں یہ دعوت دی گئی ہے ، لیکن یہ ان کے لیے کوئی اجنبی چیزیں نہ تھیں ۔ خدا کی ہر شریعت میں انھیں بنیادی احکام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ قرآن کے سب مخاطبین انھیں جانتے تھے۔ چنانچہ ان کی ہیئت اور شرح و نصاب وغیرہ کے بارے میں کسی تفصیل کی ضرورت نہ تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ابتدا نہیں کی ۔ یہ پہلے سے جاری سنن تھیں جنھیں آپ نے قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق تجدید و اصلاح کے بعد اپنی امت میں قائم رکھا ہے۔ یہاں ان کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ ان آیات میں یہود کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ ان دونوں کے بغیر کسی شخص کا اسلام نہ دنیا میں قبول کیا جاتا ہے اور نہ آخرت میں۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے آج اللہ کی بندگی کی دعوت لے کر اٹھے ہیں اور مسجدوں میں شب و روز نماز کی صورت میں یہ بندگی کر رہے ہیں ، تم بھی اس بندگی میں ان کے ساتھ شامل ہوجاؤ ۔ ’ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، وہ نماز ہی کی تعبیر ہیں۔ نماز کے اجزا ، مثلاً قیام اور سجدہ وغیرہ کے الفاظ سے نماز کی تعبیر قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی کی گئی ہے۔ یہاں اسے رکوع سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہود اپنی نمازوں میں رکوع کو فراموش کرچکے تھے۔ تمرد اور سرکشی کو چھوڑ کر قبول حق کی دعوت کا یہ اسلوب کہ ’ اِن جھکنے والوں کے ساتھ تم بھی خدا کے حضور میں جھک جاؤ ‘، اگر غور کیجیے تو نہایت بلیغ اسلوب ہے۔
اصل میں لفظ ’ الْبِرّ ‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ وفاداری ، ایفاے عہد اور اداے حقوق کے معنی میں آتا ہے۔ نیکی اور احسان کی تمام قسموں کے لیے یہ قرآن کی ایک جامع تعبیر ہے۔
اِس سے واضح ہے کہ ان آیات کے مخاطب اصلاً یہود کے عوام نہیں ، بلکہ ان کے علما اور اکابر ہیں۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے بھی ان کی یہ حالت اسی طرح بیان فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
”۔۔ اے شرع کے عالمو ، تم پر بھی افسوس کہ تم ایسے بوجھ جن کو اٹھانا مشکل ہے ، آدمیوں پر لادتے ہو اور آپ ایک انگلی بھی ان بوجھوں کو نہیں لگاتے۔ “ ( لوقا ١١: ٦ ٤)
’ صبر ‘ کا لفظ عربی زبان میں اپنے آپ کو گھبراہٹ ، پریشانی اور مایوسی سے بچا کر اپنے موقف پر قائم رکھنے کے معنی میں آتا ہے۔ بندہ جب پورے اطمینان قلب کے ساتھ ہر مشکل میں اپنے پروردگار سے وابستہ اور اپنے موقف پر ڈٹا رہے تو قرآن کی اصطلاح میں یہ ’ صبر ‘ ہے۔ قرآن نے اسی سورة کی آیت ١٧٧ میں اس کے تین مواقع ذکر کیے ہیں : غربت، بیماری اور جنگ۔ غورکیجیے تو تمام مصیبتوں کے سرچشمے یہی تین ہیں۔ آدمی اگر ان میں متزلزل نہ ہو تو بےشک، وہ صابرین میں سے ہے۔
راہ حق کو اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کے لیے یہ قرآن کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی شخص نہ اس راہ کو اختیار کرسکتا ہے اور نہ اس پر قائم رہ سکتا ہے ، اور اللہ کی مدد صرف صبر اور نماز کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ آدمی اگر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے کا عزم کرلے اور نماز کا اہتمام رکھے تو اس عزم کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے۔ کسی مشکل سے مشکل صورت حال میں بھی اول تو اس کے پاے استقلال میں لغزش پیدا نہیں ہوتی اور اگر حالات کی نزاکت سے کسی وقت پیدا ہوجائے تو اس کا پروردگار خود آگے بڑھ کر اسے سنبھال لیتا ہے۔
اصل الفاظ ہیں : ’ وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ‘۔ ان میں ’ ھَا ‘ کا مرجع ہمارے نزدیک وہ سب باتیں ہیں جو اس سلسلہ بیان میں بنی اسرائیل سے کہی گئی ہیں۔ عربی زبان میں اس طرح کے مواقع پر بالعموم ضمیر مونث ہی آتی ہے۔
اصل میں ’ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قومی اور نسلی غرور کو چھوڑ کر حق کے سامنے سر تسلیم خم کردینا اگرچہ آسان نہیں ہے، لیکن آدمی میں خدا کی عظمت و جلالت کا احساس ہو ، وہ اس کے سامنے عجز و فروتنی اور پستی و نیاز مندی کے جذبات رکھتا ہو ، اس کے نفس میں اخبات ہو اور وہ خدا کے مقابلے میں اپنے فقر و احتیاج کو سمجھتا ہو تو یہ چیز بہت سہل ہوجاتی ہے۔
اصل میں لفظ ’ یَظُنُّوْنَ ‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ جس طرح یقین کے مقابلے میں گمان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح کسی چیز کا خیال ہونے اور اس کا اندیشہ رکھنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ اس دوسرے معنی میں اس کے ساتھ شک کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
اللہ سے ڈرنے والوں کی تعریف میں یہ بات ان کے باطن کو نمایاں کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اگر خدا سے ڈرتے ہیں تو اسی وجہ سے ڈرتے ہیں کہ آخرت میں خدا کے سامنے حاضری کا اندیشہ رکھتے ہیں۔
یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انھیں اسی ایک پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے جو روز جزا کا تنہا مالک ہے ، جس کے فیصلوں پر وہاں کوئی اثر انداز نہ ہو سکے گا، جس کے غضب سے اگر پناہ ملے گی تو اسی کے دامن میں ملے گی ۔ اُنھیں احساس ہے کہ ان کا ہر قدم درحقیقت اسی کی طرف اٹھتا ہے۔ وہ یہاں بھی اسی کے ہیں اور وہاں بھی اسی کے ہوں گے۔ کوئی دوسرا کہیں بھی ان کے کام نہ آسکے گا۔
یہود کو ازسر نو مخاطب کر کے یہ ایک مرتبہ پھر انھیں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ فضیلت بھی تمہیں حاصل رہی ہے، محض اللہ تعالیٰ کی عنایت سے حاصل رہی ہے۔ اس میں نہ تمہارے استحقاق کو کوئی دخل ہے اور نہ تمہاری خاندانی شرافت کو، اس لیے اس کے غرور میں مبتلا ہو کر اس دعوت سے منہ نہ موڑو جو اس وقت تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔
یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے اور اس اجمال کی وضاحت ہے جو لفظ نعمت میں موجود ہے، یعنی ساری دنیا کے لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہیں یہ شرف بخشا کہ تم لوگوں پر میرے گواہ بنو اور میں تمہارے ساتھ ہو کر تمہارے ذریعے سے ان پر اپنی حجت پوری کردوں۔
یعنی اس دعوت کو قبول کرو اور اس کے معاملے میں اس دن سے ڈرو جس میں تمہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔
یعنی اس خیال میں نہ رہو کہ تم چونکہ ابراہیم اور اسحاق و یعقوب جیسے انبیاء (علیہم السلام) کی اولاد ہو، اس لیے روز قیامت تمہاری نجات کے لیے ان بزرگوں کی نسبت ہی کافی ہے۔ یاد رکھو، وہاں عمل کے سوا کوئی چیز بھی تمہارے کام نہ آسکے گی۔
اصل میں لفظ ’ آل ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد محض اولاد نہیں ہوتی ، بلکہ قرینہ موجود ہو تو عربی زبان میں یہ لفظ کسی بڑے آدمی کی اولاد ، قوم ، قبیلہ اور پیروکار، سب کو شامل ہوتا ہے۔
یہاں اور اس کے بعد تاریخ بنی اسرائیل کے جن واقعات کی طرف اشارات کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تاریخ کے نہایت مشہور واقعات ہیں جن سے ان کا بچہ بچہ واقف تھا ، اس لیے ان کی تفصیل کی ضرورت نہ تھی ، پھر زمانہ نزول قرآن کے بنی اسرائیل چونکہ انھیں اپنا سرمایہ فخر و مباہات سمجھتے تھے ، اس بنا پر قرآن نے انھیں اس طرح پیش کیا ہے کہ گویا یہ انھی کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ اتمام حجت کے نقطہ نظر سے یہ اسلوب، اگر غور کیجیے تو نہایت موثر ہے۔
یہ اس عذاب کی تفصیل ہے جس میں فرعونیوں کے ہاتھوں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے اور جسے اس آیت میں ’ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرعونی ہر طرح کے عذاب ان کو دیتے تھے۔ قرآن نے یہ ان میں سے سب سے بڑے عذاب کا ذکر کیا ہے ۔
اِس میں بلاغت کا یہ نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ لڑکوں کو ذبح کرنے کا ذکر بیٹوں کے لفظ سے ہوا ہے اور لڑکیوں کے زندہ رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے تمہاری عورتوں کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ پہلی تعبیر ، اگر غور کیجیے ، تو شفقت پدری کا جذبہ ابھارتی ہے اور دوسری غیرت کو حرکت میں لانے کا باعث بنتی ہے۔
اصل میں ’ فَرَقْنَا بِکُمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ ب ‘ جس مفہوم پر دلالت کرتی ہے، اسے کھول دیجیے تو گویا پوری بات یہ ہے کہ جس طرح کوئی کسی کو گود میں اٹھا کر دریا پار کرا دے، اسی طرح ہم نے تمہیں ساتھ لے کر دریا کو پھاڑتے ہوئے اس کے پار کرا دیا۔
یہ اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو دریا پار کرلینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی شریعت دینے کے لیے فرمایا۔ چالیس راتوں کی یہ مدت اس ذہنی اور قلبی تیاری کے لیے تھی جو کتاب الٰہی کا حامل بننے کے لیے ضروری تھی۔ پہلے یہ وعدہ تیس دنوں کا تھا ، لیکن سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گئے۔ ان کی اس جلد بازی کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان کی تربیت کے لیے یہ مدت تیس دنوں سے بڑھا کر چالیس دن کردی۔ سورة اعراف (٧) کی آیت ١٤٢ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔
بائیبل کی کتاب خروج میں بچھڑا بنانے کا یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ یہود نے اگرچہ اس میں سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو بھی ملوث کردیا ہے ، لیکن قرآن نے دوسری جگہ اس کی تردید کردی ہے :
” اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے ، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا ، کیا ہوگیا۔۔ تب خداوند نے موسیٰ کو کہا : نیچے جا کیونکہ تیرے لوگ جن کو تو ملک مصر سے نکال لایا ، بگڑ گئے ہیں۔ وہ اس راہ سے ، جس کا میں نے ان کو حکم دیا تھا ، بہت جلد پھرگئے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا اور اسے پوجا اور اس کے لیے قربانی چڑھا کر یہ بھی کہا کہ اے اسرائیل یہ تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ میں اس قوم کو دیکھتا ہوں کہ یہ گردن کش قوم ہے۔ اس لیے تو مجھے اب چھوڑ دے کہ میرا غضب ان پر بھڑکے اور میں ان کو بھسم کر دوں۔ “ (٣٢: ١۔ ١٠)