• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 63


وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۶۳﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ وہی سلسلہ بیان پھر شروع ہوا ہے جو آیت ٤٠ سے چلا آ رہا ہے۔
اصل میں لفظ ’ مِیْثَاق ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اس عہد و پیمان کے لیے آتا ہے جو کسی اہم معاملے کے لیے پورے شعور اور احساس ذمہ داری کے ساتھ باندھا گیا ہو اور جس کے بارے میں یہ بات مانی گئی ہو کہ اسے ہر حال میں اور نہایت وفاداری کے ساتھ پورا کیا جائے گا ۔ یہاں اس سے مراد وہ عہد ہے جو بنی اسرائیل سے توراۃ کو مضبوطی سے پکڑے رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے بارے میں لیا گیا۔ اس کا ذکر سورة اعراف (٧) کی آیات ١٦٩۔ ١٧١ میں تفصیل کے ساتھ ہوا ہے ۔
قرآن اور بائیبل ، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے یہ عہد پہاڑ کے دامن میں اس طرح لیا گیا کہ طور اپنی جگہ سے اکھڑ کر سائبان کی طرح ان کے سروں پر لٹک رہا تھا اور انھیں لگتا تھا کہ وہ ان پر گر کر رہے گا ۔ قرآن نے یہاں اس حالت کو پہاڑ کے ان پر اٹھالینے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ خدا کی قدرت اور اس کے جلال کا ایک مظاہرہ تھا جو اس لیے کیا گیا کہ بنی اسرائیل ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ جس خدا کے ساتھ وہ یہ عہد باندھ رہے ہیں ، اس کی قدرت کتنی بےپناہ ہے اور انھوں نے اگر اس کی خلاف ورزی کی تو وہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرسکتا ہے۔
یعنی اسے پوری مضبوطی کے ساتھ لو اور زندگی کے تمام مراحل میں پورے استقلال اور عزیمت کے ساتھ اس کی ہدایات کی پیروی کرو۔
مطلب یہ ہے کہ اس کا حرف حرف ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھو ، خواہ وہ اس کے احکام و ہدایات سے متعلق ہو یا اس کی ان تنبیہات سے متعلق جو ان احکام و ہدایات سے انحراف کے نتائج کے بارے میں تمہیں سنائی گئی ہیں۔
اصل الفاظ ہیں : ’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ‘۔ ان سے پہلے چونکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی تنبیہات کے یاد رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے ، اس لیے سیاق کلام کا تقاضا ہے کہ ’ تَتَّقُوْنَ ‘ کو یہاں خدا کے غضب سے بچنے کے مفہوم میں لیا جائے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 64


ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ۚ فَلَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَکُنۡتُمۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

تم اس سے پھرگئے ، یعنی تمہاری قوم کے لوگ اس عہد سے پھرگئے۔ اسلاف کے کسی فعل پر اخلاف سے خطاب کا یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی عام ہے۔ غرناطہ صدیوں پہلے کے مسلمانوں نے کھویا تھا ، لیکن ہم اس زمانے کے لوگوں سے بھی بےتکلف کہتے ہیں کہ مسلمانو، جب تم غفلت کی نیند سو گئے تو غرناطہ تمہارے ہاتھوں سے جاتا رہا

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 65


وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

سبت چھٹی کے دن کو کہتے ہیں۔ یہ اصلاً جمعہ کا دن تھا جسے بنی اسرائیل نے اس کے اگلے دن سے بدل ڈالا۔ ان کے ہاں یہ دن پشت در پشت تک دائمی عہد کے نشان کے طور پر خدا کی عبادت کے لیے خاص تھا اور اس میں ان کے لیے کام کاج ، سیرو شکار ، حتیٰ کہ گھروں میں آگ جلانا اور لونڈی غلاموں سے کوئی خدمت لینا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ان کی ایک بستی کے لوگوں نے اس دن کی پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے جو شرعی حیلے ایجاد کیے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی شریعت کا مذاق اڑایا ، یہ اسی کی طرف اشارہ ہے اور اس سے مقصود یہاں محض اس نقض عہد کی ایک مثال بیان کرنا ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ بنی اسرائیل چونکہ اس داستان سے پوری طرح واقف تھے ، اس لیے قرآن نے اس کی زیادہ تفصیل نہیں کی۔
یہ لعنت کا جملہ ہے۔ آگے کی بات سے واضح ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ بندروں سے جس طرح مشابہ ہوئے ، اس کی نوعیت ایسی محسوس تھی کہ گردوپیش کی بستیوں کے لوگ اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرسکتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خواہش نفس کی پیروی میں جب وہ بندروں کی طرح کسی حد کے پابند نہیں رہے تو پہلے ان کی سیرت مسخ ہوئی اور اس کے بعد ایک ظاہری فرق جو تھوڑا سا رہ گیا تھا ، وہ بھی بالآخر مٹ گیا۔ یہاں تک کہ اس لعنت نے ان کے ظاہر و باطن ، ہر چیز کا احاطہ کرلیا۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 66


فَجَعَلۡنٰہَا نَکَالًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہَا وَ مَا خَلۡفَہَا وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۶۶﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

سورة اعراف (٧) کی آیت ١٦٣ میں قرآن نے تصریح کی ہے کہ یہ بستی سمندر کے کنارے آباد تھی اور اس میں ان کی آزمائش کے لیے سبت کے دن مچھلیاں ابھر ابھر کر سمندر کی سطح پر آجاتی تھیں ، لیکن سبت کے سوا باقی دنوں میں اس طرح نہیں آتی تھیں ۔ محققین کا غالب رجحان یہ ہے کہ یہ مقام ایلہ یا ایلات یا ایلوت تھا ۔ اسرائیل کی یہودی ریاست نے یہاں اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے۔ اردن کی مشہور بندرگاہ عقبہ اس کے قریب ہی واقع ہے۔ حضرت سلیمان کے عہد میں بحر قلزم کے لیے ان کے جنگی اور تجارتی بیڑے کا صدر مقام یہی بستی تھی۔ اس کا محل وقوع بحر قلزم کی اس شاخ کے انتہائی سرے پر ہے جو جزیرہ نماے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 67


وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ؕ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۶۷﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ نقض عہد کی دوسری مثال ہے۔ اس سے واضح ہے کہ شریعت الٰہی کے قبول کرنے میں بنی اسرائیل کی ذہنیت شروع ہی سے کیسی حیلہ جویانہ رہی ہے۔
اِس کے بعد جو واقعہ سنایا گیا ہے ، اس سے واضح ہے کہ بنی اسرائیل کو گا ے کی اس قربانی کا حکم قسامہ ، یعنی خون پر قسمیں کھانے کے لیے دیا گیا تھا ۔ توراۃ میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ استثنا میں ہے :

” اگر اس ملک میں جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو قبضہ کرنے کو دیتا ہے ، کسی مقتول کی لاش میدان میں پڑی ہوئی ملے اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا قاتل کون ہے تو تیرے بزرگ اور قاضی نکل کر اس مقتول کے گرداگرد کے شہروں کے فاصلے کو ناپیں اور جو شہر اس مقتول کے سب سے نزدیک ہو ، اس شہر کے بزرگ ایک بچھیا لیں جس سے کبھی کوئی کام نہ لیا گیا ہو اور نہ وہ جوئے میں جوتی گئی ہو اور اس شہر کے بزرگ اس بچھیا کو بہتے پانی کی وادی میں جس میں نہ ہل چلا ہو اور نہ اس میں کچھ بویا گیا ہو ، لے جائیں اور وہاں اس وادی میں اس بچھیا کی گردن توڑ دیں ۔ تب بنی لاوی جو کاہن ہیں ، نزدیک آئیں کیونکہ خداوند تیرے خدا نے ان کو چن لیا ہے کہ خداوند کی خدمت کریں اور اس کے نام سے برکت دیا کریں اور ان ہی کے کہنے کے مطابق ہر جھگڑے اور مارپیٹ کے مقدمے کا فیصلہ ہوا کرے۔ پھر اس شہر کے سب بزرگ جو اس مقتول کے سب سے نزدیک رہنے والے ہوں ، اس بچھیا کے اوپر جس کی گردن اس وادی میں توڑی گئی ، اپنے اپنے ہاتھ دھوئیں اور یوں کہیں کہ ہمارے ہاتھ سے یہ خون نہیں ہوا اور نہ یہ ہماری آنکھوں کا دیکھا ہوا ہے۔ “ (٢١: ١۔ ٧)

لفظ ’ بَقَرَۃٌ‘ اس حکم میں جس طرح نکرہ استعمال ہوا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اگر متوسط درجے کی کوئی سی گا ے ذبح کردیتے تو حکم کا منشا یقیناپورا ہوجاتا ، لیکن یہ ان کا فساد مزاج تھا کہ اپنے سوالات سے انھوں نے اس حکم کو نہایت مشکل بنا لیا۔
یعنی قاتل تک پہنچنے کے لیے قسمیں لینے کا یہ طریقہ کیا ہے ؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید ہم سے مذاق کر رہے ہو ؟
اصل الفاظ ہیں : ’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ ‘۔ ان میں ’ جھل ‘ کا لفظ علم کے بجائے حلم کے مقابل لفظ کے طور پر آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ دین کے معاملے میں کوئی احمقانہ بات کروں۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 68


قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ ؕ عَوَانٌۢ بَیۡنَ ذٰلِکَ ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶۸﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی اس قسم کے سوالات کر کے اپنے لیے تنگی پیدا نہ کرو اور کوئی سی گا ے لے کر اسے ذبح کر ڈالو۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 69


قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا لَوۡنُہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفۡرَآءُ ۙ فَاقِعٌ لَّوۡنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِیۡنَ ﴿۶۹﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

گا ے کے رنگوں میں زرد اور سنہرا رنگ سب سے زیادہ دل پسند سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جب پوچھا جائے گا تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ پسندیدہ رنگ ہی کی ہدایت کی جائے گی۔
اصل میں لفظ ’ فَاقِعٌ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اسی سنہرے رنگ کی شوخی کے لیے آتا ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 70


قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۷۰﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

ان الفاظ سے ان کا یہ باطن واضح ہوتا ہے کہ اپنے سوالات کی نامعقولیت اب ان پر بھی واضح ہوچکی تھی۔ چنانچہ ان کا یہی احساس ہے جس کی برکت سے شاید یہ الفاظ ان کی زبان سے نکلے اور ان الفاظ کی برکت سے انھیں قربانی کے اس حکم پر عمل کی توفیق نصیب ہوئی۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 71


قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوۡلٌ تُثِیۡرُ الۡاَرۡضَ وَ لَا تَسۡقِی الۡحَرۡثَ ۚ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا ؕ قَالُوا الۡـٰٔنَ جِئۡتَ بِالۡحَقِّ ؕ فَذَبَحُوۡہَا وَ مَا کَادُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿٪۷۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل میں ’ الْءٰنَ جِءْتَ بِالْحَقِّ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ حق ‘ کا لفظ عربی زبان میں کئی معنوں کے لیے آتا ہے۔ ان میں سے ایک معنی واضح اور بین ہونے کے بھی ہیں۔ یہاں یہ اسی معنی میں ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 72


وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾


(تفسیر البیان (الغامدی :

اس مفہوم کے لیے ’ اِدّٰرَءْ تُمْ ‘ کا جو لفظ اصل میں آیا ہے، یہ درحقیقت ’ تدارء تم ‘ ہے۔ ادغام کے قاعدے سے اس کی یہ صورت ہوگئی ہے۔


 
Top