ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اصل الفاظ ہیں : ’ اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا ‘۔ ان میں ’ ھا ‘ کی ضمیر جس طرح آئی ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بھی اوپر بیان کیے گئے قانون کے مطابق پہلے گا ے ذبح کر کے قسامہ کا طریقہ اختیار کیا گیا، لیکن جب ان لوگوں نے جھوٹی قسمیں کھا لیں اور ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تنبیہ اور انھیں آخرت کی یاددہانی کے لیے یہ معجزہ دکھایا۔ قسامہ کے لیے گا ے کی قربانی کا حکم چونکہ متصل پہلے ہی بیان ہوا ہے ، اس وجہ سے ضمیر اس طریقے سے آگئی ہے اور اس نے نہایت بلیغ طریقے پر اس پوری بات کی طرف اشارہ کردیا ہے جسے ہم نے اپنے ترجمے میں کھولا ہے۔ اس معجزے کے بارے میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ مقتول کی لاش کو قربانی کی گا ے کا ٹکڑا مارنا محض ایک علامت تھی۔ اس سے پہلے اس سورة میں جن معجزات کا ذکر ہوا ہے ، وہ بھی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کے اشارے ہی سے نمودار ہوئے۔ معجزات کے بارے میں سنت الٰہی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالعموم اس طرح کی کسی علامت کے ساتھ ہی نمودار ہوتے ہیں۔
یہ اس یاددہانی کی تعبیر ہے جو اس معجزے نے زبان حال سے انھیں کی۔
یعنی دین و شریعت کے ساتھ اسی طرح حیلہ بازی ، کٹ حجتی اور ڈھٹائی کا معاملہ کرتے رہے۔
مطلب یہ ہے کہ پتھر تو پتھر ہو کر بھی ان صلاحیتوں سے محروم نہیں ہوتے جو قدرت کی طرف سے ان کے اندر ودیعت ہوتی ہیں۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ طورکس طرح لرزہ بر اندام ہوا اور تمہارے لیے کس طرح ایک چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، لیکن یہ تم ہو کہ اخلاقی بگاڑ نے تمہارے دل کی تمام سوتیں اس طرح خشک کردی ہیں کہ تمہارے سینے میں دھڑکتا ہوا گوشت کا یہ لوتھڑا پتھر بن گیا ہے ، بلکہ اس کی سختی پتھروں اور چٹانوں کی سختی سے بھی بڑھ گئی ہے۔
یعنی وہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ، اس کے سامنے اپنے تقدس اور بزرگی کی حکایت نہ بڑھاؤ۔
یہود سے خطاب کے بیچ میں یہ مسلمانوں کی طرف التفات ہے۔ اسی طرح کا ایک التفات اس سے پہلے آیات ٢١۔ ٢٩ میں یثرب اور اس کے نواح کے مشرکین کی طرف گزر چکا ہے۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ اطمینان دلانا بھی ہے کہ وہ یہود کی مخالفت سے بددل نہ ہوں اور یہود کی بعض پس پردہ حرکتوں سے انھیں آگاہ کرنا بھی ہے تاکہ سادہ لوح مسلمان ان کے ایمان کے دعوؤں سے متاثر ہو کر ان کے فریب میں نہ آجائیں۔
تحریف کے ساتھ یہ قید اس بات کو واضح کرتی ہے کہ تحریف پر تحریف کا اطلاق اسی وقت ہوتا ہے جب وہ جانتے بوجھتے ہوئے کی جائے۔ یہی چیز تحریف کو ایک سنگین جرم بناتی ہے اور اس کے مرتکبین کو اس روشنی سے یک قلم محروم کردیتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعے سے انسانوں کو بخشتا ہے۔
تحریف کے معنی کسی بات یا کلام کو بدل دینے کے ہیں۔ اہل کتاب اس کی جن صورتوں کے مرتکب ہوئے، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں :
” ایک بات کی دیدہ و دانستہ ایسی تاویل کردی جائے جو قائل کے منشا کے بالکل خلاف ہو۔
کسی لفظ کے طرز ادا اور قراءت میں ایسی تبدیلی کردی جائے جو لفظ کو کچھ سے کچھ بنا دے، مثلاً مروہ کو بگاڑ کر مورہ یا مریا وغیرہ کردیا گیا ۔
کسی عبارت یا کلام میں ایسی کمی بیشی کردی جائے جس سے اس کا اصل مدعا بالکل خبط ہو کر رہ جائے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کے ہجرت کے واقعے میں یہود نے اس طرح ردوبدل کردیا کہ خانہ کعبہ سے ان کا کوئی تعلق ثابت نہ ہو سکے ۔
کسی ذومعانی لفظ کا وہ ترجمہ کردیا جائے جو سیاق وسباق کے بالکل خلاف ہو ۔ مثلاً عبرانی کے ابن کا ترجمہ بیٹا کردیا گیا ۔ دراں حالیکہ اس کے معنی بندہ اور غلام کے بھی آتے ہیں۔
ایک بات کا مفہوم بالکل واضح ہو ، لیکن اس کے متعلق ایسے سوالات اٹھا دیے جائیں جو اس واضح بات کو مبہم بنا دینے والے یا اس کو بالکل مختلف سمت میں ڈال دینے والے ہوں ۔ “ ( تدبر قرآن ١/ ٢٥٢)
یہود یہ اقرار جس مفہوم میں کرتے تھے، اس کی وضاحت ہم اس سے پہلے حاشیہ ٢٦ میں کرچکے ہیں۔ یہاں اتنی بات مزید واضح ہوتی ہے کہ اپنے اس خاص مفہوم میں وہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار کرتے تو اس موقع پر بعض اوقات وہ پیشین گوئیاں بھی بیان کردیتے تھے جو آپ کے متعلق ان کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں۔
اصل میں لفظ ’ اُمِّیُّوْنَ ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’ امی ‘ کی جمع ہے جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ اس آیت میں جس طرح ان کا ذکر ہوا ہے ، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اوپر کلام الٰہی میں تحریف کرنے والے جس گروہ کا بیان ہے ، اس سے یہود کے علما اور پڑھے لکھے لوگ مراد ہیں۔
یعنی مثال کے طور پر یہ آرزوئیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں گنتی کے چند روز ہی کے لیے چھوئے گی اور جنت میں صرف یہودی اور نصرانی جائیں گے اور آخرت کی فوزوفلاح صرف ہمارے لیے خاص ہے اور ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے معاملے میں ان کا سارا اعتماد عقیدہ و عمل کے بجائے صرف اپنی گروہی نسبت پر رہ گیا تھا۔
یعنی جس کی کوئی سند تمہاری کتاب میں موجود نہیں ہے ، تم نے یہ بات محض اپنے جی سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردی ہے۔
پچھلے سلسلہ بیان کے آخر میں جس طرح ’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا ‘ والی آیت آئی تھی، اسی طرح یہاں یہ آیت وارد ہوئی ہے۔ دونوں کا موقع و محل اور مقصد ایک ہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے مضامین کس خوب صورتی کے ساتھ اس کے نظم میں پروئے ہوئے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے اور وہ برائی اس کی زندگی کا اس طرح احاطہ کرلے کہ وہ خدا کے حضور میں پیشی کے شعور اور توبہ و ندامت کی توفیق ہی سے محروم ہوجائے تو اس کے لیے ہمیشہ کی جہنم ہے، خواہ اس کا تعلق کسی گروہ سے ہو۔
یہ اب یہود کو ان کے نقض عہد کی یاددہانی کی جا رہی ہے تاکہ ان پر واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے جس عہدومیثاق کو وہ اپنا سرمایہ فخروناز سمجھتے ہیں ، اس کے ساتھ ان کا رویہ کیا رہا ہے۔
اِس سے مراد وہ ابتدائی عہد ہے جو بنی اسرائیل سے توحید اور اداے حقوق سے متعلق لیا گیا۔ ’ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ ‘ کے الفاظ اس کے لیے اصل میں حرف بیان کے بغیر بالکل اسی طرح آگئے ہیں، جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں : میں نے تم سے کہا ہے ، تم یہ کام نہیں کرو گے ۔
اللہ تعالیٰ کا حق بیان کرنے کے فوراً بعد یہ والدین کے حق کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خدا کے بعد سب سے بڑا حق انسان پر اگر کوئی ہے تو انھی کا ہے۔
والدین اور اقربا کے معًا بعد یتیموں اور مسکینوں کا ذکر اسلامی معاشرے میں ان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
حسن سلوک اداے حقوق سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ دوسروں کے حقوق نہایت خوبی کے ساتھ ادا کردیے جائیں۔
یہ کم و بیش وہی بات ہے جو اسی سورة کی آیت ٢٦٣، سورة نسا (٤) کی آیات ٥، ٨ ، ٩ اور سورة بنی اسرائیل (١٧) کی آیت ٢٨ میں بالترتیب ’ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ‘، ’ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ‘، ’ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا ‘ اور ’ فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلاً مَّیْسُوْرًا ‘ کے الفاظ میں کہی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اداے حقوق کے ساتھ ان حق داروں کی عزت نفس بھی ہر حال میں ملحوظ رہنی چاہیے۔ لہٰذا ان سے جو بات بھی کی جائے ، نہایت شریفانہ اور مہذب انداز میں کی جائے، سختی اور ترش کلامی کا رویہ ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ اداے حقوق کے ساتھ یہ چیز نہ ہو تو آدمی کا سارا حسن سلوک غارت ہوسکتا ہے۔
یعنی یہ کوئی ایسا جرم نہیں ہے جو تم سے اتفاقاً صادر ہوگیا ہو ، بلکہ تمہارا مستقل رویہ یہی رہا ہے۔