ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اصل الفاظ ہیں : ’ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ ‘۔ ان میں ’ الْفُرْقَانَ ‘ سے پہلے ’ و ‘ تفسیر کے لیے ہے ، یعنی وہ کتاب جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے تاکہ لوگ اس کی روشنی میں دین سے متعلق اپنے اختلافات کا فیصلہ کرسکیں۔ اسی سورة کی آیت ٢١٣ میں قرآن مجید نے وضاحت فرمائی ہے کہ توراۃ ، انجیل ، قرآن یہ سب صحیفے اسی مقصد کے پیش نظر نازل کیے گئے ہیں۔ سورة حدید (٥٧) کی آیت ٢٥ میں یہی بات ’ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسطِ ‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے ، یعنی ان کے ذریعے سے لوگ حق کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہوجائیں۔
اصل میں لفظ ’ بَارِءِکُمْ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے اور خالق کے مفہوم میں اگرچہ باریک سا فرق ہے ، لیکن عام استعمال میں دونوں ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں : ’ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ‘۔ عربی زبان میں اس جملے کے معنی اپنے آپ کو قتل کرنے کے بھی ہوسکتے ہیں اور اپنے لوگوں کو قتل کرنے کے بھی۔ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ان کی قوم کے لوگ اگر کفر و شرک پر اصرار کریں تو قرآن کی رو سے اس جرم کی انتہائی سزا موت ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں نے جب پیغمبر کی موجودگی میں شرک کا ارتکاب کیا تو یہی سزا ان پر نافذ کی گئی اور ان کے موحدین اس کے نفاذ پر مامور کیے گئے۔ اُنھیں حکم دیا گیا کہ بچھڑے کو الٰہ بنانے والوں کی گردنیں مار دیں تاکہ اہل ایمان کی آزمائش ہو اور بنی اسرائیل کی جماعت کو مجرموں سے پاک کردیا جائے۔ بائیبل کی کتاب خروج کے باب ٣٢ میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے :
”۔۔ موسیٰ نے لشکر گاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا جو جو خداوند کی طرف ہے (یعنی اپنے ایمان پر قائم ہے ) ، وہ میرے پاس آجائے۔ تب سب بنی لاوی اس کے پاس جمع ہوگئے اور اس نے ان سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے کے موافق عمل کیا ۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریباً تین ہزار مرد کھیت آئے اور موسیٰ نے کہا کہ آج خداوند کے لیے اپنے آپ کو مخصوص کرو ، (یعنی اپنے ایمان کی تجدید کرو) ، بلکہ ہر شخص اپنے ہی بیٹے اور اپنے ہی بھائی کے خلاف ہوتا کہ وہ تم کو آج ہی برکت دے۔ “ (٢٦۔ ٢٩)
یعنی ہوسکتا ہے کہ تم اسے بہت بڑا ظلم اور اپنی قوم کا نقصان خیال کرو ، لیکن تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے یہی بہتر ہے۔ اولاً ، اس لیے کہ شہادت حق کے جس منصب پر تمہیں فائز کیا جا رہا ہے ، اس کے لیے تمہاری جماعت کی تطہیر ضروری ہے۔ ثانیاً ، یہ قتل عام تمہارے اندر خدا کی دینونت صغریٰ کا ظہور ہے جو توحید کے معاملے میں تمہیں ہمیشہ متنبہ رکھے گا ۔ ثالثاً ، اس جرم کا ارتکاب تمہاری غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔ لہٰذا اس کا کفارہ بھی ادا ہونا چاہیے۔ اس سے توقع ہے کہ تمہارا گناہ معاف ہوجائے گا اور تمہارے پروردگار کی رحمتیں اور برکتیں ایک مرتبہ پھر تمہیں حاصل ہوجائیں گی۔
اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش اگر شرح صدر اور اطمینان قلب کے لیے ہو تو کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے ، لیکن بنی اسرائیل کا یہ مطالبہ محض ان کی بےیقینی اور تشکیک کا مظاہرہ اور انکار و تکذیب کا بہانہ تھا۔ اُنھیں کسی طرح اس بات کا یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرماتے ہیں۔ لہٰذا ان پر عتاب ہوا ۔
اصل میں لفظ ’ صَاعِقَۃ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی گرج اور کڑک کے بھی ہیں اور اس بجلی کے بھی جو کڑک کے ساتھ گرتی ہے۔ سورة اعراف (٧) کی آیت ١٥٥ میں یہی واقعہ ’ فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ ’ رَجْفَۃ ‘ کے معنی زلزلے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے مطالبے پر اللہ تعالیٰ کی تجلی ’ صَاعِقَۃ ‘ کی صورت میں ظاہر ہوئی اور اس نے سارے پہاڑ میں ایسا زلزلہ ڈال دیا کہ وہ بالکل بدحواس ہو کر گرپڑے۔
عربی زبان میں موت کا لفظ ، اگر قرینہ موجود ہو تو نیند اور بےہوشی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں جس موقع پر یہ لفظ آیا ہے اور جس طرح آیا ہے ، اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ بےہوشی ہی کے معنی میں ہے۔ بنی اسرائیل اگرچہ اپنی سرکشی کے باعث اس کے مستحق تو نہ تھے کہ اس موت سے پھر زندگی کی طرف لوٹتے ، لیکن سورة اعراف (٧) کی آیت ١٥٥ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع پر اس دل سوزی سے ان کے لیے معافی کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا۔
یہ شبنم کی طرح کی ایک چیز تھی جو زمین پر ٹپکتی تھی اور پالے کے دانوں کی طرح جم جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اسے سورج کی تمازت بڑھنے سے پہلے جمع کرلیتے تھے۔ تمازت بڑھتے ہی یہ دانے پگھل جاتے تھے۔ ایک بےآب وگیاہ صحرا میں جہاں غذا کے اسباب مفقود تھے ، یہ ایک عظیم نعمت تھی جو بغیر کوئی مشقت اٹھائے بنی اسرائیل کو خدا کے حکم پر پیغمبر کے ساتھ ہجرت کرنے کے صلے میں حاصل ہوئی۔ ’ مَنّ ‘ کے معنی فضل و عنایت کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی مناسبت سے اس کا نام ’ مَنّ ‘ قرار پایا ۔ بائیبل کی کتاب خروج میں اس کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے :
”۔۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گول چیز ، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگے : من ؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے۔ تب موسیٰ نے ان سے کہا : یہ وہی روٹی ہے جو خداوند نے کھانے کو تم کو دی ہے۔۔ اور وہ ہر صبح کو اپنے اپنے کھانے کی مقدار کے مطابق جمع کرلیتے تھے اور دھوپ تیز ہوتے ہی وہ پگھل جاتا تھا۔ “ (١٦: ١٣۔ ١ ٢ )
اِس سے مراد وہ پرندے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے صحراے سینا میں بنی اسرائیل کے لیے بھیجے ، یہ بٹیروں سے ملتے جلتے تھے اور بٹیروں ہی کی طرح نہایت آسانی سے شکار ہوجاتے تھے۔ کتاب خروج میں ہے :
” اور بنی اسرائیل کہنے لگے : کاش کہ ہم خداوند کے ہاتھ سے ملک مصر میں جب ہی مار دیے جاتے، جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے ، کیونکہ تم تو ہم کو اس بیابان میں اسی لیے لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارو۔۔ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا : میں نے بنی اسرائیل کا بڑبڑانا سن لیا ہے، سو تو ان سے کہہ دے کہ شام کو تم گوشت کھاؤ گے اور صبح کو تم روٹی سے سیر ہو گے اور تم جان لو گے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا۔ “ ( ١٦ : ٣۔ ١٣)
مطلب یہ ہے کہ یہ نعمتیں گویا زبان حال سے دعوت دیتی تھیں کہ اپنے پروردگار کی اس عنایت سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے شکرگزار بن کر رہو۔
یہ آخری بات اوپر کی باتوں کی طرح یہود کو براہ راست مخاطب کر کے نہیں کہی گئی ، بلکہ ان سے منہ پھیر کر غائب کے صیغے میں کہی گئی ہے۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب بالعموم متکلم کی طرف سے اظہار بےزاری کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہے۔
اصل میں لفظ ’ الْقَرْیَۃَ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جس طرح چھوٹے دیہات کے لیے مستعمل ہے ، اسی طرح بڑے بڑے شہروں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اس سے مراد سرزمین فلسطین ہی کا کوئی شہر ہے ، اس لیے کہ آگے ’ فَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِءْتُمْ رَغَدًا ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں ، وہ اسی سرزمین کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں : ’ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا ‘۔ ’ الْقَرْیَۃَ ‘ کے بعد ’ الْبَابَ ‘ کا لفظ جس طرح یہاں آیا ہے ، اس سے عربیت کی رو سے بستی کا دروازہ ہی مراد ہوسکتا ہے۔ اسے ’ خیمہ عبادت کا دروازہ ‘ کے معنی میں لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔
اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’ سُجَّدًا ‘ کا لفظ آیا ہے۔ صاف واضح ہے کہ اس سے مراد یہاں سر جھکانا ہے۔ قرآن کی یہ آیت دلیل ہے کہ ’ سجد ‘ عربی زبان میں جس طرح زمین پر پیشانی رکھ دینے کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح محض سر جھکا دینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
اصل الفاظ ہیں : ’ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ‘ ۔ ان میں ’ حِطَّۃٌ‘ ایک جملے کا قائم مقام ہے، یعنی ’ مسئلتنا حطۃ ‘ ۔ ’ حطۃ ‘ ’ حط یحط ‘ سے ہے جس کے معنی جھاڑ دینے کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد گناہوں کا جھاڑ دینا ہے۔ عربی اور عبرانی چونکہ قریب الماخذ زبانیں ہیں ، اس وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ عبرانی میں بھی یہ جھاڑ دینے اور بخش دینے کے مفہوم میں مستعمل رہا ہے۔
یعنی بنی اسرائیل کے کچھ بدبختوں نے ’ حِطَّۃٌ‘ کے لفظ کو جو استغفار اور توبہ کا کلمہ تھا، اس سے بالکل مختلف مفہوم رکھنے والے کسی لفظ سے بدل لیا۔ ’ بَدَّلَ ‘ کا جو لفظ اصل میں استعمال ہوا ہے ، یہ جب اپنے دو مفعولوں کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو رکھ دینے کے ہوتے ہیں۔ لفظ کی یہ نوعیت پیش نظر رہے تو اسے محض رویے کی تبدیلی کے معنوں میں نہیں لیا جاسکتا ۔ اس کے صاف معنی یہی ہیں کہ انھوں نے اس لفظ کو کسی دوسرے لفظ سے تبدیل کردیا ۔
اِس عذاب کے لیے ’ آسمان سے عذاب ‘ کی یہ تعبیر اسی طرح اختیار کی گئی ہے، جس طرح کسی ہول ناک آفت کو قہر آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل پر یہ عذاب غالباً ارض فلسطین کے قریب ایک شہر شطیم میں آیا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس شہر میں انھوں نے موآبی عورتوں سے بدکاریاں کیں ، ان کی دعوت پر مشرکانہ قربانیوں میں شریک ہوئے اور اس طرح گویا بالواسطہ ان کے دیوتا بعل فغور کی پرستش میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اِن جرائم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت وبا بھیجی جس میں ان کے چوبیس ہزار مردو زن ہلاک ہوئے۔
بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھر کی چٹان سے پانی بہ نکلنے کا یہ واقعہ دشت صین میں پیش آیا ہے۔ گنتی میں ہے :
” اور پہلے مہینے میں بنی اسرائیل کی ساری جماعت دشت صین میں آگئی اور وہ لوگ قادس میں رہنے لگے۔۔ اور جماعت کے لوگوں کے لیے وہاں پانی نہ ملا۔ سو وہ موسیٰ اور ہارون کے برخلاف اکٹھے ہوئے۔ اور لوگ موسیٰ سے جھگڑنے اور یہ کہنے لگے : ہائے کاش، ہم بھی اسی وقت مرجاتے، جب ہمارے بھائی خداوند کے حضور مرے۔ تم خداوند کی جماعت کو اس دشت میں کیوں لے آئے ہو کہ ہم بھی اور ہمارے جانور بھی یہاں مریں ؟ اور تم نے کیوں ہم کو مصر سے نکال کر اس بری جگہ پہنچایا ہے ؟ یہ تو بو نے کی اور انجیروں اور تاکوں اور اناروں کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہاں تو پینے کے لیے پانی تک میسر نہیں اور موسیٰ اور ہارون جماعت کے پاس سے جا کر خیمہ اجتماع کے دروازے پر اوندھے منہ گرے۔ تب خداوند کا جلال ان پر ظاہر ہوا اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اس لاٹھی کو لے اور تو اور تیرا بھائی ہارون، تم دونوں جماعت کو اکٹھا کرو اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس چٹان سے کہو کہ وہ اپنا پانی دے اور تو ان کے لیے چٹان ہی سے پانی نکالنا۔ یوں جماعت کو اور ان کے چوپایوں کو پلانا۔ چنانچہ موسیٰ نے خداوند کے حضور سے اسی حکم کے مطابق وہ لاٹھی لی اور موسیٰ اور ہارون نے جماعت کو اس چٹان کے سامنے اکٹھا کیا اور اس نے ان سے کہا : سنو ، اے باغیو ، کیا ہم تمہارے لیے اسی چٹان سے پانی نکالیں ؟ تب موسیٰ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس چٹان پر دو بار لاٹھی ماری اور کثرت سے پانی بہ نکلا اور جماعت نے اور ان کے چوپایوں نے پیا۔ “ ( ٢٠: ١۔ ١١)
بنی اسرائیل کے بارہ خاندان تھے۔ چنانچہ جب بارہ چشمے پھوٹے تو ہر خاندان نے ان پر اپنا گھاٹ الگ متعین کرلیا اور یہ اندیشہ نہ رہا کہ ان کے درمیان پانی لینے پر کوئی جھگڑا برپا ہو۔
یہاں یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ پیچھے من وسلویٰ کے ذکر کے بعد صرف ’ کُلُوْا ‘ (کھاؤ) کا لفظ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک صرف غذا ہی کا اہتمام ہوا تھا ۔ اس کے ساتھ جب پانی کا اہتمام بھی اس فراوانی کے ساتھ ہوگیا تو اب ’ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ‘ کے الفاظ آئے ہیں ، یعنی کھاؤ اور پیو۔
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا، اس لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو ! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی (١) ۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے (٢) یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے (٣) تھے، ان کی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے (٤) ۔
آیت ٤٠ سے جو مضمون شروع ہوا تھا ، یہ اس کے خاتمہ کی آیت ہے۔ اس میں قرآن نے نہایت غیر مبہم طریقے پر یہ بات واضح کردی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کو فلاح محض اس بنیاد پر حاصل نہ ہوگی کہ وہ یہود و نصاریٰ میں سے ہے یا مسلمانوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا صابی ہے ، بلکہ اس بنیاد پر حاصل ہوگی کہ وہ اللہ کو اور قیامت کے دن کو فی الواقع مانتا رہا ہے اور اس نے نیک عمل کیے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگوں کو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ، اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ ہوگا ۔ یہود کا یہ زعم محض زعم باطل ہے کہ وہ یہودی ہونے ہی کو نجات کی سند سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات ہوتی تو اللہ دنیا میں بھی ان کے جرائم پر ان کا مواخذہ نہ کرتا ۔ لہٰذا وہ ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب و ملت کے پیرو ، ان میں سے کوئی بھی محض پیغمبروں کو ماننے والے کسی خاص گروہ میں شامل ہوجانے سے جنت کا مستحق نہیں ہوجاتا ، بلکہ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان اور عمل صالح ہی اس کے لیے نجات کا باعث بنتا ہے۔
اصل الفاظ ہیں : ’ وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا ‘۔ اہل عرب ’ ھاد یھود ‘ کا فعل جس طرح رجوع کرنے اور توبہ کرنے کے معنی میں استعمال کرتے تھے ، اسی طرح یہودی ہونے کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔ قرآن مجید نے یہ لفظ اپنی طرف سے ایجاد کر کے نہیں ، بلکہ عربی زبان کے ایک عام لفظ کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ یہود کو یہ نام سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے یہودا کی نسبت سے ملا اور ان کا یہ نام جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے، ’ یہو ‘ اور ’ ذا ‘ سے مرکب نہیں ہے، بلکہ ایک ہی لفظ ہے جس کا مادہ ’ ھود ‘ ہے اور اس کے تسمیہ میں حمد وطاعت کا مفہوم ملحوظ ہے ۔
اِس کی تفصیل کوئی شخص اگر چاہے تو امام حمید الدین فراہی کی کتاب ” مفردات القرآن “ میں دیکھ سکتا ہے۔
یہ ’ نصران ‘ کی جمع ہے۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے پیرو شروع میں یہی کہلاتے تھے۔ ان کے خلیفہ برحق شمعون کے پیرؤوں نے اپنے آپ کو اسی نام سے موسوم کیا ۔ پال نے، البتہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات میں جس طرح دوسری بدعتیں داخل کیں ، اسی طرح اس نام کو بھی ان کے لیے ایک تحقیر کا لفظ بنادیا ، لیکن یہ بالکل قطعی ہے کہ مسیحی متقدمین اپنے لیے یہی نام پسند کرتے تھے۔ امام فراہی نے اپنی کتاب ” مفردات القرآن “ میں اس لفظ پر بھی مفصل بحث کی ہے۔ تفصیل کے طالب اسے دیکھ سکتے ہیں۔
یہ کوئی قدیم مذہبی فرقہ ہے جس کا وجود قرآن کے زمانہ نزول میں بالکل معروف تھا۔ ’ صبا ‘ کے معنی طلوع ہونے کے آتے ہیں۔ اس وجہ سے امام فراہی کے نزدیک یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ لوگ غالباً اپنی ستارہ شناسی اور علم نجوم میں مہارت کے باعث صابئین کے نام سے موسوم ہوئے۔ قرآن نے یہاں ان کا ذکر جس طرح کیا ہے ، اس سے یہ بات، البتہ واضح ہے کہ یہ دین حق کے پیرؤوں ہی کا کوئی گروہ تھا جو یہود و نصاریٰ کی طرح بعد میں گمراہ ہوگیا ۔ متقدمین میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملائکہ کی پرستش کرتے تھے ، قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور زبور کی تلاوت کرتے تھے۔ بعض انھیں اہل کتاب کا ایک فرقہ اور بعض سیدنا ابراہیم کے پیرو قرار دیتے ہیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو بھی ابتدا میں صابئین کہتے تھے۔ امام فراہی کا خیال ہے کہ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان لوگوں کے اندر نماز کی عبادت بہت زیادہ تھی۔ مشرکین جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو پانچ وقت اہتمام کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھتے تو خیال کرتے کہ یہ بھی صابی ہوگئے ہیں۔ بعض مستشرقین کا بیان ہے کہ اس فرقہ کے کچھ لوگ اب بھی عراق میں دیکھے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ انھیں حضرت یحییٰ کی امت کہتے ہیں۔ تاہم ان کی کوئی مستند تاریخ چونکہ اس وقت موجود نہیں ہے ، اس لیے ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ کوئی بات کہنا مشکل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت، ظاہر ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ آدمی نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو جو ایمان اور عمل صالح کے باوجود اسے جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔ مثلاً کسی بےگناہ کو قتل کردینا یا جانتے بوجھتے اللہ کے کسی سچے پیغمبر کو جھٹلا دینا۔