• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 105


مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ لَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۰۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

مطلب یہ ہے کہ مسئلہ صرف ایک لفظ کے استعمال کرنے اور نہ کرنے کا نہیں ہے ، بلکہ یہودی اور مشرکین ، دونوں اس غصے اور حسد میں جل رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں یہ خیرعظیم تمہیں کیوں عطا فرمایا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 106


مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۰۶﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی شریعت کے ایک ضابطے کو ہٹا کر کوئی دوسرا ضابطہ مقرر کرتے ہیں۔ اصل میں لفظ ’ اِنْسَاء ‘ استعمال ہوا ہے ، یعنی فراموش کرا دینا ۔ اس سے قرآن نے توراۃ کے ان احکام کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے یہود نے بےپروائی برتی اور ان کے اس جرم کی پاداش میں وہ ان کے ذہنوں سے محو کردیے گئے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْمِثْلِھَا ‘۔ ان میں ’ اَوْ ‘ تقسیم کے لیے ہے، یعنی توراۃ کے وہ ضابطے جو منسوخ کردیے گئے ، تمدن کے ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ان سے بہتر ضابطے دیتے ہیں ، اور جو بھلا دیے گئے ، ان کی جگہ انھی جیسے بعض دوسرے ضوابط نازل کردیتے ہیں۔ اِن دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو قابل اعتراض قرار دی جاسکے۔ پہلی چیز حالات کے تغیر کا لازمی تقاضا ہے اور دوسری دین کی دولت کے اس ضیاع کا لازمی نتیجہ جو تمہارے ہاتھوں سے ہوا اور جس کے باعث ضروری تھا کہ اب دین کے خزانے کو نئی دولت سے معمور کیا جائے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 108


اَمۡ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَسۡـَٔلُوۡا رَسُوۡلَکُمۡ کَمَا سُئِلَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَبَدَّلِ الۡکُفۡرَ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱۰۸﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل میں لفظ ’ سُؤَال ‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں آتا ہے۔ یہاں موقع کلام دلیل ہے کہ یہ معترضانہ سوال کے مفہوم میں ہے۔ اِس سے اوپر والی آیت میں جس طرح یہود کو تنبیہ کی گئی ہے ، اسی طرح یہ مسلمانوں میں ان کی نمائندگی کرنے والوں کو تنبیہ ہے۔ تاہم ان سوالات کے پس پردہ بھی چونکہ یہود ہی کا ذہن کارفرما تھا ، اس وجہ سے قرآن نے یہ کہہ کر کہ اس طرح کی باتیں اس سے پہلے موسیٰ سے پوچھی گئیں ، بڑی بلاغت کے ساتھ انھیں بھی توجہ دلا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی سازشوں اور وسوسہ اندازیوں سے بیخبر نہیں ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 109


وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَوۡ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِکُمۡ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡحَقُّ ۚ فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۰۹﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل میں لفظ ’ عَفْو ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ جس طرح دل سے معاف کردینے کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح درگذر کرنے ، چشم پوشی کرنے اور نظر انداز کردینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اس معنی کی نظیر سورة مائدہ (٥) کی آیت ١٥ میں دیکھ لی جاسکتی ہے۔ یہی فیصلہ ہے جو یہود پر اتمام حجت کے بعد ان کے قتل ، جلاوطنی ، اور ان سے جزیہ لینے اور انھیں مسلمانوں کا زیر دست بنا کر رکھنے کی صورت میں صادر ہوا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 110


وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۱۰﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

تمام دین کی بنیاد اور تمام اصلاح و تربیت کی اساس ، قرآن کی رو سے یہ نماز اور زکوۃ ہی ہیں۔ چنانچہ اس طرح کے سب مواقع پر وہ معاندین اسلام کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بالعموم انھی کی تاکید کرتا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 111


وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی یہودی کہتے ہیں کہ جب تک یہودی نہ ہو اور نصرانی کہتے ہیں کہ جب تک نصرانی نہ ہو۔ یہ لف کا اسلوب ہے جس میں کلام کے بعض حصے سامع کی ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے حذف کردیے جاتے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 112


بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی اپنی پوری زندگی کو خدا کی شریعت کے تابع کردیا۔اصل میں لفظ ’ مُحْسِنٌ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی کسی کام کو اس کے بہترین طریقے پر کرنے کے ہیں۔ دین میں جب کوئی عمل اس طرح کیا جائے کہ اس کی روح اور قالب پورے توازن کے ساتھ پیش نظر ہوں ۔ اس کا ہر جز بہ تمام و کمال ملحوظ رہے تو اسے احسان کہا جاتا ہے۔ لفظ ’ مُحْسِنٌ ‘ اسی احسان سے بنا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی جب اس احساس کے ساتھ کی جائے گویا ہم اسے دیکھ رہے ہیں تو یہ احسان ہے۔ یعنی یہودی اور نصرانی نہیں ، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
مسلم ، رقم ٩٣۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 113


وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ مِثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ۚ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

مطلب یہ ہے کہ فرقہ دارانہ تعصبات نے ان کے اندر حق و باطل میں امتیاز کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہنے دی۔ یہ اب حق کو حق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے فرقوں اور گروہوں کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ چنانچہ تمہاری مخالفت سے الگ ان کی باہمی تکفیر و تفسیق کی حالت بھی یہ ہے کہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں، مگر ایک دوسرے کی کوئی جڑ بنیاد تسلیم نہیں کرتے۔ یعنی اس نیت کے ساتھ اور انھی محرکات کے تحت جو یہود کے اس طرح کی بات کہنے کا باعث بنے ہیں۔ اِس سے مراد مشرکین عرب ہیں۔ یہ چونکہ صدیوں سے کتاب اور نبوت ، دونوں سے ناآشنا تھے ، اس لیے ان کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے۔ اِس میں اگر غور کیجیے تو مخاطبین کے لیے وعید کے ساتھ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے یہ تسلی بھی ہے کہ تم اس نزاع میں صرف حق پہنچا دینے ہی کے ذمہ دار ہو ۔ اس سے زیادہ تمہارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
 
آخری تدوین :

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 114


وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اشارہ ہے اس جنگ وجدال کی طرف جو یہودو نصاریٰ کے درمیان بیت المقدس میں بھی ایک دوسرے کو خدا کی یاد اور اس کی عبادت سے روکنے کے لیے ہوا اور اس سے باہر بھی جہاں جہاں انھیں اس کا موقع ملا۔یعنی انبیاء ( علیہم السلام ) کے ذریعے سے ہدایت پانے کے بعد ان لوگوں کے لیے تو کسی طرح موزوں نہ تھا کہ خدا کی عبادت گاہوں کو ویران کریں ۔ اِنھیں تو ان میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور لرزتے ہوئے داخل ہونا چاہیے تھا۔
 
آخری تدوین :

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 115


وَ لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہودو نصاریٰ ، دونوں کا قبلہ بیت المقدس تھا ، لیکن نصاریٰ نے غالباً اس میں سیدہ مریم کے مقام اعتکاف کی رعایت سے مشرق کو قبلہ بنا لیا اور یہود نے ان کی ضد میں مغرب کی سمت اختیار کرلی ۔ پھر اس اختلاف کے باعث ان کے مابین خوب خوب لڑائی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کے معبدوں کی حرمت پوری بےدردی کے ساتھ پامال کی۔ یعنی قبلہ کے معاملے میں اصل چیز اللہ کا حکم ہے۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے۔ لہٰذا اس کے حکم پر تم جدھر رخ کرو گے، اللہ ہی کی طرف رخ کرو گے۔ یہ تم ہو جو اپنی جہالت اور اپنے تعصبات کے اسیر ہوجاتے ہو، ورنہ اللہ تو بڑی وسعت والا ہے، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
 
Top