ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِہٖ مِنۡ خِطۡبَۃِ النِّسَآءِ اَوۡ اَکۡنَنۡتُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ سَتَذۡکُرُوۡنَہُنَّ وَ لٰکِنۡ لَّا تُوَاعِدُوۡہُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۬ؕ وَ لَا تَعۡزِمُوۡا عُقۡدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۲۳۵﴾٪ یعنی اگر کوئی شخص بیوہ سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو عدت کے دوران میں وہ یہ تو کرسکتا ہے کہ اپنے دل میں اس کا ارادہ کرلے یا اشارے کنایے میں کوئی بات زبان سے نکال دے ، لیکن اس کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ ایک غم زدہ خاندان کے جذبات کا لحاظ کیے بغیر عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے یا کوئی خفیہ عہد و پیمان کرے۔ اس طرح کے موقعوں پر جو بات بھی کی جائے ، اسے ہم دردی اور تعزیت کے اظہار تک ہی محدود رہنا چاہیے۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم اپنا یہ ارادہ ظاہر کرو گے، مگر اس طرح نہیں کہ نکاح کی پینگیں بڑھانا شروع کردو، قول وقرار کرو یا چھپ کر کوئی عہد باندھ لو ۔ اس کا انداز وہی ہونا چاہیے جو ایسے حالات میں پسندیدہ اور دستور کے موافق سمجھا جاتا ہے۔ عدت گزر جائے تو ان عورتوں سے نکاح کا فیصلہ ، البتہ کرسکتے ہو ۔ اس کے بعد تم پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ زمانہ عدت میں عورت کا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے اسی بنا پر عورتوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں اس کے لیے عدت گزار رہی ہیں تو سوگ کی کیفیت میں گزاریں اور زیب وزینت کی کوئی چیز استعمال نہ کریں ۔ روایتوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا : بیوہ عورت رنگین کپڑے نہیں پہنے گی ، نہ زرد، نہ گیرو سے رنگے ہوئے۔ وہ زیورات استعمال نہیں کرے گی اور نہ مہندی اور سرمہ لگائے گی ۔ ابوداؤد ، رقم ١٩٦٠۔
لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۲۳۶﴾ ’
لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ
‘ کے ساتھ یہ الفاظ اصل میں عربیت کے اسلوب پر اس جملے میں حذف ہیں۔ ہم نے ترجمے میں انھیں کھول دیا ہے۔ یعنی ان عورتوں کو بھی سوسائٹی کے دستور اور اپنے معاشی حالات کے لحاظ سے کچھ سامان زندگی دے کر رخصت کرو جن سے خلوت نہ ہوئی ہو یا جنھیں مہر مقرر کیے بغیر طلاق دے دی جائے۔
وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۳۷﴾ یعنی مہر مقرر ہو اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق کی نوبت پہنچ جائے تو مقررہ مہر کا نصف ادا کرنا ہوگا، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے پورا چھوڑ دے یا مرد پورا ادا کر دے۔ اس کے لیے اصل میں ’
اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ مجانست کا اسلوب ہے اور ’
الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ
‘ سے مراد ہمارے نزدیک شوہر ہے، اس لیے کہ نکاح کی گرہ بندھ جائے تو اس کو کھولنے کا اختیار پھر اسی کے پاس ہوتا ہے۔ عورت علیحدگی چاہے تو وہ بھی اس گرہ کو خود نہیں کھول سکتی، بلکہ اسی سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس کو کھول دے۔ اس میں غائب کے اسلوب پر کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بالکل اسی طرح آگیا ہے، جس طرح آیت ٢٢٩ کے الفاظ ’
اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰ
ہِ ‘ میں ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : ”۔۔ اگرچہ ایک محرک عورت کے لیے بھی مہر چھوڑنے کا موجود ہے کہ شوہر نے ملاقات سے پہلے ہی طلاق دی ہے ، لیکن قرآن نے مرد کو اکسایا ہے کہ اس کی فتوت اور مردانہ بلند حوصلگی اور اس کے درجے مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عورت سے اپنے حق کی دستبرداری کا خواہش مند نہ ہو، بلکہ اس میدان ایثار میں خود آگے بڑھے۔ اس ایثار کے لیے قرآن نے یہاں مرد کو تین پہلوؤں سے ابھارا ہے : ایک تو یہ کہ مرد کو خدا نے یہ فضیلت بخشی ہے کہ وہ نکاح کی گرہ کو جس طرح باندھنے کا اختیار رکھتا ہے ، اسی طرح اس کو کھولنے کا بھی مجاز ہے۔ دوسرا یہ کہ ایثار و قربانی جو تقویٰ کے اعلیٰ ترین اوصاف میں سے ہے ، وہ جنس ضعیف کے مقابل میں جنس قوی کے شایان شان زیادہ ہے۔ تیسرا یہ کہ مرد کو خدا نے اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے عورت پر جو ایک درجہ ترجیح کا بخشا ہے اور جس کے سبب سے اس کو عورت کا قوام اور سربراہ بنایا ہے ، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے جس کو عورت کے ساتھ کوئی معاملہ کرتے وقت مرد کو بھولنا نہیں چاہیے۔ اس فضیلت کا فطری تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت سے لینے والا نہیں، بلکہ اس کو دینے والا بنے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٤٨)
حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی ٭ وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَ ﴿۲۳۸﴾ یعنی ہر طرح کی مشکلات اور پرخطر حالات میں بھی ان کی حفاظت کی جائے۔ اس میں، ظاہر ہے کہ ان تمام چیزوں کی نگہداشت اور ان کا اہتمام بھی شامل ہے جو نماز کے شرائط و ارکان یا اس کے آداب سے تعلق رکھتی ہیں اور اس طرح کی صورت حال میں لوگ بالعموم ان سے بےپرواہ ہوجاتے ہیں۔ اِس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ یہ ان حالات کی رعایت سے فرمایا ہے جن میں قرآن نازل ہوا ۔ تمدن کی تبدیلی یا حالات کے تغیر سے یہی صورت اگر کسی اور نماز کی ہوجائے تو اس کا حکم بھی یہی ہوگا۔
فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُکۡبَانًا ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۳۹﴾ یعنی نماز کا وہ طریقہ جو انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم سے انسان نے سیکھا ہے۔ دین ابراہیمی کے پیرو رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی بعثت سے پہلے بھی اس طریقے سے واقف تھے اور ان کے صالحین اس کے مطابق نماز ادا کرتے تھے۔ حضور
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے اس کی اصلاح و تجدید فرمائی اور اسے ایک سنت کی حیثیت سے پورے اہتمام کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں جاری کردیا۔ یہاں امی عربوں کو خاص طور پر توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے سے اس نوعیت کی جو تعلیم انھیں دی ہے، یہ اس کا ان پر بہت بڑا کرم ہے۔ اس کا جواب ان کی طرف سے یہی زیبا ہے کہ وہ اس کی قدر کریں، بنی اسرائیل کی طرح اس کی ناقدری نہ کریں ۔نماز کی اصل حقیقت اللہ کی یاد ہی ہے۔ یہ قرآن نے نہایت خوبی کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کردیا ہے ۔سورة کی تیسری فصل یہاں ختم ہو رہی ہے۔ یہ احکام شریعت کی فصل تھی جسے اللہ تعالیٰ نے نماز کی تاکید پر ختم کیا ہے۔ اس سے جس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے ، وہ یہ ہے کہ دین میں جو اہمیت نماز کی ہے ، وہ کسی دوسری چیز کی نہیں ہے۔ انسان کے علم و عمل میں دین کی حفاظت اسی سے ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اسے ضائع کردیتا ہے تو گویا سارے دین کو ضائع کردیتا ہے۔
وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡ مَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۴۰﴾ یہ دونوں آیتیں خاتمہ فصل کے ساتھ بطور تتمہ ملحق کردی گئی ہیں تاکہ سورة میں ان کے مقام ہی سے واضح ہوجائے کہ اصل احکام کے بعد یہ ان کی وضاحت کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ آخر میں ’
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ
‘ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے۔ اصل الفاظ ہیں : ’
وَصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِھِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ
‘۔ ان میں ’
وَصِیَّۃً
‘ فعل محذوف کا مفعول ہے۔ ’
مَتَاعًا ‘ ’ وَصِیَّۃً
‘ کا مفعول ہے اور ’
غَیْرَ اِخْرَاجٍ ‘ ’ لِاَزْوَاجِھِمْ
‘ سے حال واقع ہوا ہے۔ اس جملے کی یہی تالیف ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ عام طور پر لوگ اس حکم کو سورة نساء میں تقسیم وراثت کی آیات سے منسوخ مانتے ہیں ، لیکن صاف واضح ہے کہ عورت کو نان و نفقہ اور سکونت فراہم کرنے کی جو ذمہ داری شوہر پر اس کی زندگی میں عائد ہوتی ہے ، یہ اسی کی توسیع ہے۔ عدت کی پابندی وہ شوہر ہی کے لیے قبول کرتی ہے۔ پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی اسے کچھ مہلت لازماً ملنی چاہیے۔ یہ حکم ان مصلحتوں کے پیش نظر دیا گیا ہے۔ تقسیم وراثت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اِس لیے ہر شخص کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے جو احکام بھی دیے ہیں، ان میں انھی کے مصالح پیش نظر ہیں۔
وَ لِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲۴۱﴾ اس سے واضح ہے کہ یہ ایک حق واجب ہے۔ اگر کوئی شخص اسے ادا نہیں کرتا تو اللہ کے ہاں یقیناً اِس پر ماخوذ ہوگا اور آخرت میں اس کے ایمان و احسان کا وزن اسی کے لحاظ سے متعین کیا جائے گا۔
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۴۲﴾٪ یہاں اجمال کے بعد تفصیل اور توضیح کے بعد توضیح مزید کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے ، استاذ امام اس کے بارے میں لکھتے ہیں :”۔۔ اس سے دین میں غورو فکر اور اس کے فوائد و مصالح اور اُ س کے اسرار و حکم تک پہنچنے کے لیے ہماری عقل کی تربیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تدریج کو نمایاں کر کے اس حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی فرماتا ہے کہ ہم دین میں عقل کو کس طرح استعمال کرسکتے ہیں اور پیش آنے والے حالات و معاملات میں ان کلیات سے کس طرح جزئیات مستنبط کرسکتے ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف ’
لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ
‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٥٧)
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ ہُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۲۴۳﴾ (یہ مباحث جہادو انفاق کے بارے میں تمہارے سوالوں سے پیدا ہوئے تھے۔ ایمان والو ، ان کا حکم تم پر شاق نہ ہونا چاہیے ) ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ کر ان سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس پر اللہ نے ان سے فرمایا کہ مردے ہو کر جیو ۔ (وہ برسوں اسی حالت میں رہے ) ، پھر اللہ نے انھیں دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے ، مگر لوگوں میں زیادہ ہیں جو (اُس کے) شکرگزار نہیں ہوتے۔ (تفسیر) آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت ۔ جاوید احمد غامدی۔ سورة کی چوتھی اور آخری فصل یہاں سے شروع ہو رہی ہے۔ اس میں جہاد و انفاق کے اسی مضمون کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے جو پچھلی فصل میں برسرموقع بعض سوالات کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔اصل میں ’
اَلَمْ تَرَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ واحد سے جمع کو خطاب کرنے کا یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے ، جب کسی گرو ہے ہر شخص کو فرداً فرداً مخاطب کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ اس میں ’
اَلَمْ تَرَ
‘ کے معنی لازماً یہ نہیں ہوتے کہ مخاطبین نے واقعہ آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کسی واقعہ کی شہرت عام ہو یا متکلم یہ سمجھتاہو کہ اس کی صداقت ایسی مسلم ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجایش نہیں ہوسکتی تو وہ یہ اسلوب اختیار کرسکتا ہے ۔ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، جب فلستیوں نے بنی اسرائیل پر چڑھائی کرکے ان کا قتل عام کیا اور ان سے عہد کا وہ صندوق چھین لیا جس کی حیثیت ان کے ہاں بالکل قبلہ کی تھی۔ بائیبل میں ہے :” اور فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے ڈیرے کو بھاگا اور وہاں نہایت بڑی خون ریزی ہوئی کیونکہ تیس ہزار اسرائیلی پیادے وہاں کھیت آئے اور خدا کا صندوق چھن گیا۔ “ (١۔ سموئیل ٤: ١٠۔ ١١) اِس واقعے کی جو تفصیلات سموئیل باب ٧ اور ١١ میں بیان ہوئی ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اگرچہ تین لاکھ سے زیادہ تھے ، مگر اپنی مذہبی و اخلاقی حالت کی خرابی اور سیاسی ابتری کے باعث فلستیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے اور عقرون سے لے کر جات تک اپنے شہر خالی کر کے ان کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اصل میں لفظ ’
مُوْتُوْا
‘ آیا ہے ، یعنی مرجاؤ۔ یہ قومی حیثیت سے ذلت اور نامرادی کی تعبیر ہے۔ ذریت ابراہیم کے معاملے میں اللہ کا قانون یہی تھا کہ ان کے جرائم کی سزا انھیں دنیا ہی میں دی جائے گی ۔ چنانچہ جب ایمان اور عمل صالح کے بجائے انھوں نے اخلاقی بےراہ روی اور خوف و بزدلی کی زندگی اختیار کی اور اس طرح اللہ کے ساتھ نقض عہد کے مرتکب ہوئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے بھی انھیں ذلت و نامرادی کے حوالے کردیا۔ سموئیل (١) میں ہے کہ بنی اسرائیل پر یہ حالت پورے بیس سال تک طاری رہی :” اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا ، تب سے ایک مدت ہوگئی ، یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا ۔ “ (١/٧: ٢) یہ زندگی اسی قانون کے مطابق دی گئی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ بنی اسرائیل نے توبہ و استغفار کرکے ازسرنو ایمان واسلام کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے صلے میں انھیں قومی حیثیت سے ازسر نو زندہ کردیا اور دشمنوں کے مقابلے میں عزت اور سربلندی عطا فرمائی۔ سموئیل (١) میں ہے : ” اور سموئیل نے اسرائیل کے سارے گھرانے سے کہا کہ اگر تم اپنے سارے دل سے خداوند کی طرف رجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں اور عستارات کو اپنے بیچ سے دور کرو اور خداوند کے لیے اپنے دلوں کو مستعد کر کے فقط اسی کی عبادت کرو ، اور وہ فلستیوں کے ہاتھ سے تمہیں رہائی دے گا۔ تب بنی اسرائیل نے بعلیم اور عستارات کو دور کیا اور فقط خداوند کی عبادت کرنے لگے “۔ (١/ ٧: ٣۔ ٤) ” سو فلستی مغلوب ہوئے اور اسرائیل کی سرحد میں پھر نہ آئے اور سموئیل کی زندگی بھر خداوند کا ہاتھ فلستیوں کے خلاف رہا اور عقرون سے جات تک کے شہر جن کو فلستیوں نے اسرائیلیوں سے لے لیا تھا، وہ پھر اسرائیلیوں کے قبضے میں آئے اور اسرائیلیوں نے ان کی نواحی بھی فلستیوں کے ہاتھ سے چھڑالی۔ “ (١/ ٧: ١٣۔ ١٤) اِس میں بنی اسماعیل کے لیے تشویق ہے کہ اگر وہ بھی جہادو انفاق کی دعوت قبول کریں گے تو اللہ ذریت ابراہیم کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق ان پر فضل فرمائے گا اور انھیں عروج و سربلندی سے سرفراز کرے گا۔ اسی طرح تنبیہ بھی ہے کہ اگر وہ موت سے ڈر گئے اور انھوں نے اپنے لیے ذلت و نامرادی کو پسند کیا تو اسی وعدے کے مطابق ان پر بھی یہی موت طاری ہو کر رہے گی۔
وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۴۴﴾ اِن صفات کا حوالہ دینے سے مقصود ، استاذ امام کے الفاظ میں یہاں اس کا لازم ہے۔ یعنی جب اللہ سنتا اور جانتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمہاری پکارپر تمہاری مدد بھی فرمائے گا اور تمہاری جاں بازیوں کا بھرپور صلہ بھی دے گا۔