ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۴۵﴾ یہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے غایت درجہ موثر اور نہایت شوق انگیز اسلوب میں مالی قربانی کی دعوت ہے۔ استاذامام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔”۔۔ قرض قرض دار کے ذمے واجب ہوتا ہے اور یہ رب کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ جو مال اس نے خود بندوں کو عنایت فرمایا ہے ، وہی مال وہ جب ان سے اپنی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو اس کو اپنے ذمے قرض ٹھیراتا ہے ، یعنی اس کی واپسی ازخود اپنے ذمے واجب قرار دیتا ہے۔ پھر اس سے زیادہ روح و دل کو بےخود کردینے والی بات یہ ارشاد ہوئی کہ رب کریم یہ قرض اس لیے مانگتا ہے کہ وہ بندوں کو دیے ہوئے خزف ریزوں کو خوب بڑھائے اوران کو بڑھا کر ایک لازوال خزانے کی شکل میں ان کو واپس کرے۔ یعنی اس قرض کی ضرورت اس لیے نہیں پیش آئی ہے کہ خدا کے خزانے میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے ، اس کا خزانہ بھرپور اور وہ بالکل بےنیاز و بےپرواہ ہے، البتہ اس کی کریمی نے اپنے بندوں کے لیے نفع کمانے کی یہ راہ کھولی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ایک خرچ کرکے دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اس کا اجر حاصل کرلیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٦٧) اِس قرض کے متعلق اچھا قرض ہونے کی جو شر ط لگائی ہے، اس کی وضاحت میں انھوں نے لکھا ہے :”۔۔ قرض حسن کا مفہوم قرآن کے دوسرے مواقع سے جو نکلتا ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ دل کی تنگی کے ساتھ محض چھدا اتارنے کے لیے نہ دیا جائے ، بلکہ پوری فراخ دلی اور حوصلے کے ساتھ دیا جائے ، ریا اور نمایش کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ صرف خدا کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، کسی دنیوی طمع کے حصول کی غرض سامنے رکھ کر نہ دیا جائے، بلکہ صرف آخرت کے اجر کی خاطر دیا جائے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیر ، کم وقعت اور ناجائز ذرائع سے حاصل کیے ہوئے مال میں سے نہ دیا جائے ، بلکہ محبوب ، عزیز اور پاکیزہ کمائی میں سے دیا جائے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٦٧) مطلب یہ ہے کہ تم اگر اپنا مال خدا کی راہ میں نہیں دیتے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اسی کو نہیں دیتے جو بخشنے کے بعد، جب چاہے چھین بھی سکتا ہے اور جس کا معاملہ اسی دنیا تک نہیں رہ جانا، بلکہ کل آخرت میں جسے منہ بھی دکھانا ہے۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ قَالَ ہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِیَارِنَا وَ اَبۡنَآئِنَا ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۴۶﴾ یہ اسی واقعے کی تفصیل فرمائی ہے جس کا ذکر اوپر بالاجمال ہوا ہے کہ برسوں کی مردنی کے بعد اللہ تعالیٰ نے کس طرح بنی اسرائیل کو ان کی طرف سے توبہ اور رجوع کے بعد دوبارہ ایک زندہ قوم بنادیا ۔ بائیبل میں وضاحت ہے کہ یہ ان کے نبی سموئیل (علیہ السلام) تھے۔ یہاں موقع کلام دوسرا ہے ، اس لیے ذکر نہیں ہوا ، لیکن بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ مقرر کرنے کے اس مطالبے کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور انھیں توجہ دلائی کہ وہ اپنے ہاتھوں محکومی کا یہ طوق اپنی گردن میں نہ ڈالیں ۔ سموئیل (١) میں ہے :”۔۔ یہ بات سموئیل کو بری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دعا کی اور خداوند نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں، تو اس کو مان کیونکہ انھوں نے تیری نہیں، بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں ان کا بادشاہ نہ رہوں۔۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے ، خداوند کی سب باتیں کہہ سنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا ، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے آگے دوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اور اپنے رتھوں کے ساز بنوائے گا اور تمہاری بیٹیوں کو لے کر گندھن اور باورچن اور نان پز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے ، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصہ لے کر اپنے خوجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکروں اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصہ لے گا ۔ سو تم اس کے غلام بن جاؤ گے اور تم اس دن اس بادشاہ کے سبب سے، جسے تم نے اپنے لیے چنا ہوگا ، فریاد کرو گے ، پر اس دن خداوند تم کو جواب نہ دے گا ۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سنی اور کہنے لگے : نہیں ، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں جو ہمارے اوپر ہو تاکہ ہم بھی اور سب قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے۔ “ (١/ ٨: ٦۔ ٢٠) اصل میں ’
ھَلْ عَسَیْتُمْ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی کیا اس بات کا اندیشہ نہیں ہے ؟ اردو زبان میں ’ ایسا نہ ہو ‘ کی تعبیر اسی مفہوم کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ یہ جہاد فلستیوں کی جارحیت کے مقابلے کے لیے فرض کیا گیا تاکہ بنی اسرائیل ان کے ظلم وعدوان سے اپنے دین و مذہب اور عزت و ناموس کی حفاظت کریں اور اپنے وہ شہر ان سے واپس لے لیں جن پر انھوں نے قبضہ کرلیا تھا۔
وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۴۷﴾ بائیبل میں ان کا نام ساؤل آیا ہے۔ یہ طالوت غالباً ان کا لقب ہے جس سے وہ اپنے غیر معمولی قدوقامت کی وجہ سے لوگوں میں مشہور رہے ہوں گے۔ سموئیل (١) میں ہے :”۔۔ اور جب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تو ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔ “ (١/ ١٠: ٢٣) اصل میں لفظ ’
بَعَثَ
‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائیبل اور قرآن کی تصریحات کے مطابق سموئیل (علیہ السلام) نے اس بادشاہ کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق منتخب کیا تھا اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت گویا خدا کے مبعوث کی تھی۔ بنی اسرائیل کے بعض شریروں نے یہ اعتراض اپنی عادت کے مطابق کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ طالوت بنیامین کے قبیلہ سے تھے۔ بنی اسرائیل کے قبیلوں میں یہ سب سے چھوٹا قبیلہ تھا اور طالوت اس کے سب سے چھوٹے گھرانے سے تھے۔ پھر ، جیسا کہ بیان ہوا ، وہ کوئی مال دار آدمی بھی نہیں تھے۔ سموئیل میں ہے : ” پر شریروں میں سے بعض کہنے لگے کہ یہ شخص ہم کو کس طرح بچائے گا ؟ سو انھوں نے اس کی تحقیر کی اور اس کے لیے نذرانے نہ لائے۔ پر وہ ان سنی کر گیا ۔ “ (١٠: ٢٧) یعنی یہ خدا کا انتخاب ہے اور اہلیت کی بنیاد پر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے علم میں بھی وسعت دی ہے اور عمل کی قوت بھی عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا جس طرح کی قیادت اس وقت تمہیں چاہیے ، اس کے لیے یہ شخص نہایت موزوں ہے۔
وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۴۸﴾٪ اصل میں لفظ ’
التَّابُوْتُ
‘ استعمال ہوا ہے۔ یہاں اس سے مراد بنی اسرائیل کا وہ صندوق ہے جسے بائیبل میں ’ خدا کا صندوق ‘ یا ’ خدا کے عہد کا صندوق ‘ کہا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے زمانے سے لے کر بیت المقدس کی تعمیر تک اسی صندوق کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت حاصل رہی۔ وہ اس کو اپنے خیمہ عبادت میں ایک مخصوص مقام پر نہایت مخصوص اہتمام کے ساتھ پردوں کے بیچ میں رکھتے اور تمام دعا و عبادت میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے۔ ان کے ربی اور کاہن غیبی رہنمائی کے لیے بھی اسی کو مرجع بناتے۔ مشکل حالات ، قومی مصائب اور جنگ کے میدانوں میں بھی بنی اسرائیل کا حوصلہ قائم رکھنے میں اس صندوق کو سب سے بڑے عامل کی حیثیت حاصل رہی ۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک تو اس میں توراۃ اور صحرا کی زندگی کے دور کی بعض یادگاریں محفوظ کی گئیں، لیکن پھر اس میں حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور ان کے خاندان کے بعض اور تبرکات بھی محفوظ کردیے گئے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٧١) اِس صندوق کے ساتھ بنی اسرائیل کو غیر معمولی عقیدت تھی۔ چنانچہ ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، مشکل کے وقت اور جہاد و قتال کے موقع پر ان کے حوصلے کو قائم رکھنے میں اس کو بڑا دخل تھا۔ ’
فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ
‘ کے الفاظ سے قرآن نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور فلستیوں نے غالباً طالوت کے بعض جنگی اقدامات اور ان میں کامیابی سے مرعوب ہو کر اپنے آپ کو جنگ کے خطرے سے بچانے کے لیے اس صندوق کو ایک گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہانک دیا۔ یہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان اور بغیر کسی محافظ کے دو ایسی گایوں کے ذریعے سے جن کے دودھ پیتے بچے گھروں پر روک لیے گئے تھے ، دہنے بائیں مڑے بغیر اپنی منزل پر پہنچ گئی ۔ یہ سب ، ظاہر ہے کہ فرشتوں کی مدد ہی سے ہوسکتا ہے۔ سموئیل (١) میں اس کی تفصیلات یہ ہیں :” اب تم ایک نئی گاڑی بناؤ اور دو دودھ والی گائیں جن کے جوا نہ لگا ہو، لو اور ان گایوں کو گاڑی میں جو تو اور ان کے بچوں کو گھر لوٹا لاؤ اور خداوند کا صندوق لے کر اس گاڑی پر رکھو اور سونے کی چیزوں کو جن کو تم جرم کی قربانی کے طور پر ساتھ کرو گے ، ایک صندوقچہ میں کر کے اس کے پہلو میں رکھ دو اور اسے روانہ کردو کہ چلا جائے اور دیکھتے رہنا۔۔ سو ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور دو دودھ والی گائیں لے کر ان کو گاڑی میں جوتا اور ان کے بچوں کو گھر میں بند کردیا اور خداوند کے صندوق اور سونے کی چہیوں اور اپنی گلٹیوں کی مورتوں کے صندوقچہ کو گاڑی پر رکھ دیا ۔ اِن گایوں نے بیت شمس کا سیدھا راستہ لیا۔ وہ سڑک ہی سڑک ڈکارتی گئیں اور دہنے یا بائیں ہاتھ نہ مڑیں اور فلستی سردار ان کے پیچھے پیچھے بیت شمس کی سرحد تک گئے اور بیت شمس کے لوگ وادی میں گیہوں کی فصل کاٹ رہے تھے۔ انھوں نے جو آنکھیں اٹھائیں تو صندوق کو دیکھا اور دیکھتے ہی خوش ہوگئے۔ “ (١/ ٦: ٧۔ ١٣) یہ صندوق جب فلستیوں نے چھینا تو بنی اسرائیل کے بزرگوں نے اسے اسرائیل کی ساری حشمت کے چھن جانے سے تعبیر کیا اور پوری قوم کم و بیش بیس سال تک اس حادثے کا ماتم کرتی رہی ۔ لہٰذا طالوت کے انتخاب کے خدائی انتخاب ہونے کی اس سے بہتر کوئی علامت نہیں ہوسکتی تھی۔ پھر اس میں یہ بشارت بھی مضمر تھی کہ بنی اسرائیل نے خدا کی طرف رجوع کیا ہے تو ان کی حشمت بھی اب اللہ کی مدد سے اسی طرح واپس آجائے گی ، جس طرح صندوق واپس آگیا ہے۔ بائیبل کا بیان اس معاملے میں قرآن سے مختلف ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ فلستیوں نے طالوت کے انتخاب سے بہت پہلے ہی صندوق کو گاڑی میں رکھ کر بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہانک دیا تھا۔ لیکن اس بیان کی خود بائیبل ہی کے دوسرے بیانات سے تردید ہوتی ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں ، اگر واقعہ یہی ہے کہ فلستیوں نے سات مہینے کے بعد ہی صندوق کو اس کی کرامات اور اس کے خوارق سے ڈر کر واپس کردیا تھا تو بائیبل کے اس بیان کے کوئی معنی نہیں رہتے : ” اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا ، تب سے ایک مدت ہوگئی ، یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا ۔ “ (١۔ سموئیل ٧: ٢) وہ لکھتے ہیں :” سوال یہ ہے کہ قریت یعریم اگر بنی اسرائیل ہی کے علاقے میں شامل تھا اور تابوت انھی کی حفاظت میں تھا تو بیس برس تک اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کیوں کرتا رہا ؟ اور اس ” خداوند کے پیچھے “ کے الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟ اصل یہ ہے کہ سموئیل میں یہود نے متضاد روایات کا اتنا انبار لگا دیا ہے کہ اس کے اندر حق و باطل کا امتیاز ناممکن ہے۔ یہ قرآن کا احسان ہے کہ اس نے بعض واقعات کے صحیح پہلو نمایاں کیے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٧٦)
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبۡتَلِیۡکُمۡ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنۡ شَرِبَ مِنۡہُ فَلَیۡسَ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَطۡعَمۡہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡۤ اِلَّا مَنِ اغۡتَرَفَ غُرۡفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ فَشَرِبُوۡا مِنۡہُ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۙ قَالُوۡا لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۲۴۹﴾ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہم فلستیوں کے مقابلے میں تھی جن کا سردار اس زمانے میں جاتی جو لیت تھا۔ قرآن نے اس کا ذکر جالوت کے نام سے کیا ہے۔ سموئیل (١) میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے :” پھر فلستیوں نے جنگ کے لیے اپنی فوجیں جمع کیں اور یہوداہ کے شہر شو کہ میں فراہم ہوئے اور شو کہ اور عزیقہ کے درمیان افسدمیم میں خیمہ زن ہوئے۔ اور ساؤل اور اسرائیل کے لوگوں نے جمع ہو کر ایلا کی وادی میں ڈیرے ڈالے اور لڑائی کے لیے فلستیوں کے مقابل صف آرائی کی ۔ اور ایک طرف کے پہاڑ پر فلستی اور دوسری طرف کے پہاڑ پر بنی اسرائیل کھڑے ہوئے اور ان دونوں کے درمیان وادی تھی۔ “ (١/ ١٧: ١۔ ٣) اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ، ظاہر ہے کہ طالوت کو سموئیل (علیہ السلام) کی وساطت سے معلوم ہوا اور اسی بنا پر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا۔ اصل میں ’
مَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ اس امتحان میں سو فی صدی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ ندی کا پانی سرے سے کوئی چکھے ہی نہیں۔ ’ اپنے ہاتھ سے ‘ کی یہ قید اس لیے لگا دی ہے کہ معاملہ گلاس اور کٹورے تک نہ پہنچ جائے۔ بائیبل میں اس امتحان کا ذکر نہیں ہے، لیکن اسی سے ملتے جلتے ایک دوسرے امتحان کا ذکر ہے۔ اِن دونوں کو دیکھنے کے بعد ہر صاحب ذوق خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس معاملے میں قرآن کا بیان ہی ہر پہلو سے قرین عقل بھی ہے اور بامقصد اور نتیجہ خیز بھی۔ اصل الفاظ ہیں : ’
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ
‘۔ قرینہ دلیل ہے کہ ان میں ’
اٰمَنُوْا
‘ کا فعل اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ جو لوگ اس امتحان میں پورے نہیں اترے، وہ اپنے ایمان کے دعوؤں میں بھی پورے نہیں تھے۔ یہ اس لیے فرمایا کہ خدا کی راہ میں موت اگر بندہ مومن کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہوتی ہے تو اس کے اسی عقیدے کی بنا پر ہوتی ہے کہ وہ اس موت سے مرے گا نہیں، بلکہ حقیقی زندگی پا کر اپنے پروردگار کی ملاقات سے مشرف ہوگا۔ طالوت کے بیٹے یونتن نے یہ فقرہ غالباً اسی موقع پر کہا ہے : ” سو یونتن نے اس جوان سے جو اس کا سلاح بردار تھا، کہا : آہم ادھر ان نامختونوں کی چوکی کو چلیں۔ ممکن ہے کہ خداوند ہمارا کام بنا دے، کیونکہ خداوند کے لیے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعے سے بچانے کی قید نہیں۔ “ (١۔ سموئیل ١٤: ٦)
فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾ یعنی اسباب و وسائل تو یقیناً اختیار کیے گئے، لیکن فتح اصلاً اللہ کے حکم ہی سے ہوئی۔ سموئیل میں ہے کہ سیدنا داؤد نے یہی بات اس وقت کہی تھی ، جب وہ میدان جنگ میں جالوت کے مقابل ہوئے :” اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا، اس لیے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کردے گا۔ “ (١۔ سموئیل ١٧: ٤٧) یہ وہی حضرت داؤد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور جن کے فرزند بنی اسرائیل کے جلیل القدر بادشاہ اور نبی سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے جالوت کو قتل کرنے کے اس واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان کے بارے میں لکھا ہے :”۔۔ ان کی ابتدا غریبانہ، لیکن انتہا نہایت شان دار ہوئی ۔ انھوں نے اپنے بارے میں خود فرمایا ہے کہ خداوند نے مجھے بھیڑ سالے سے نکالا اور اسرائیل کے تخت پر لا بٹھایا۔ یہ طالوت کی اس فوج میں شامل تھے جس کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اس شمولیت کے متعلق توراۃ میں دو مختلف روایتیں ہیں۔ ایک سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اس جنگ کے پیش آنے سے پہلے ہی طالوت کے سلاح بردار کی حیثیت سے ان کے لشکر میں داخل ہوچکے تھے اور درپردہ یہ سموئیل کے ممسوح اور مستقبل کے بادشاہ بھی تھے۔ دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بالکل وقت کے وقت اپنی بکریاں چراگاہ میں چھوڑ کر اپنے بڑے بھائیوں کو، جو جنگ میں شریک تھے ، اپنے باپ کے حکم سے کچھ کھانے کی چیزیں دینے آئے۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ جالوت مقابلے کے لیے چیلنج دے رہا ہے ، لیکن کوئی اس کے مقابلے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر ان کی غیرت کو جوش آیا۔ انھوں نے طالوت سے اس کے مقابلے کی اجازت مانگی ۔ یہ اس وقت ایک نوخیز، سرخ رو اور خوش قامت نوجوان تھے۔ طالوت کو ان کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی بنا پر اجازت دینے میں تردد ہوا۔ لیکن جب انھوں نے کہا کہ میں اپنی بکریوں پر حملہ کرنے والے شیروں اور ریچھوں کے جبڑے توڑ دیا کرتا ہوں ، بھلا اس نامختون فلسطینی کی کیا حیثیت ہے کہ یہ زندہ خداوند کی فوجوں کو رسوا کرے ، تو طالوت نے ان کے عزم و ہمت کو دیکھ کر ان کو اجازت دے دی اور خود اپنا جنگی لباس پہنا کر اپنے مخصوص اسلحہ سے ان کو لیس کیا ۔ اس وقت تک ان کا زمانہ بھیڑوں بکریوں کی چرواہی میں گزرا تھا ، اس جنگی لباس اور ان جنگی اسلحہ کا ان کو کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ ان کو پہن کر کچھ بندھا بندھا سا محسوس کرنے لگے۔ آخر طالوت کی اجازت سے اس قید سے رہائی حاصل کی اور چرواہوں کی طرح اپنی فلاخن اٹھائی، چادر کے ایک کونے میں کچھ پتھر رکھے اور وقت کے سب سے بڑے دیو کے مقابل میں جا کے ڈٹ گئے۔ پہلے تو اس نے ان کا مذاق اڑایا۔ لیکن جب ان کی طرف سے اس کو ترکی بہ ترکی جواب ملا تو اس نے کہا کہ ” اچھا آ ، آج تیرا گوشت چیلوں اور کو وں کو کھلاتا ہوں۔ “ اتنے میں حضرت داؤد نے فلاخن میں پتھر رکھ کر جو اُ س کو مارا تو پتھر اس کے سر سے چپک کر رہ گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اتنے بڑے سپہ سالار کا ایک الھڑ چرواہے کی فلاخن سے اس طرح مارا جانا ، ظاہر ہے کہ ایک عظیم واقعہ تھا۔ چنانچہ فلسطینی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور ادھر بنی اسرائیل کی عورتوں کی زبان پر یہ گیت جاری ہوگیا :” ساؤل نے تو ہزاروں کو مارا ، پر داؤد نے لاکھوں کو مارا “۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٨٠) اصل الفاظ ہیں : ’
عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ
‘۔ یہاں بظاہر ’
مما شاء
‘ کا موقع تھا، مگر اس کے بجائے یہ اسلوب اللہ تعالیٰ کے جس طریقے کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے، اسے ہم نے اپنے ترجمے میں واضح کردیا ہے۔ یہ آخر میں جنگ کا مقصد بیان کرکے بات ختم کردی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر ظلم وعدوان کے مقابلے میں اس کا حکم نہ دیتے تو زمین میں ایسا فساد برپا ہوجاتا کہ وہ نیکی، تقویٰ اور صلاح و فلاح کے تمام آثار سے خالی ہوجاتی۔ اس میں، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے ترغیب و تشویق ہے کہ انھیں بھی اب بغیر کسی تردد کے خدا کے اس مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد کے لیے تیار ہوجانا چاہیے اور بنی اسرائیل کی تاریخ کے ان واقعات کی روشنی میں مطمئن رہنا چاہیے کہ وہ ثابت قدم رہے تو اللہ ان کے دشمنوں پر انھیں اسی طرح غلبہ عطا فرمائے گا۔