ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
لَ
ا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۲۲۵﴾
یعنی اس طرح کی قسم تو ہر حال میں توڑ دینی چاہیے ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس پر مواخذہ نہ ہوگا ۔ اللہ ان قسموں پر تو بیشک ، نہیں پکڑیں گے جن کا تعلق دل سے نہیں ہوتا اور وہ بغیر کسی ارادے کے محض تکیہ کلام کے طور پر زبان سے ٹپک پڑتی ہیں ، مگر ایسی قسم جو پختہ عزم کے ساتھ اور دل کے ارادے سے کھائی گئی ہے ، جس کے ذریعے سے کوئی عہد و پیمان باندھا گیا ہے ، جس سے حقوق و فرائض پر کوئی اثر مترتب ہوتا ہے یا وہ خدا کی کسی تحلیل و تحریم پر اثر انداز ہوسکتی ہے ، اس پر لازماً پکڑیں گے۔ عام قاعدے کے مطابق اس پکڑ سے بچنے کے لیے آدمی کو توبہ و استغفار کرنی چاہیے ، لیکن قرآن نے آگے سورة مائدہ (٥) کی آیت ٨٩ میں بتایا ہے کہ توبہ کے ساتھ اس کے لیے کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔
لِلَّذِیۡنَ یُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَۃِ اَشۡہُرٍ ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۲۶﴾ اس کے لیے اصل میں ’
اِیْلَاء
‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ عرب جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم بیوی سے زن و شو کا تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا لینا ہے۔ اس کے ساتھ حرف ’
مِنْ
‘ اسی مفہوم کے پیش نظر استعمال ہوا ہے۔ اس طرح کی قسم اگر کھالی جائے تو اس سے بیوی چونکہ معلق ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ چیز عدل و انصاف اور برو تقویٰ کے منافی ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے چار مہینے کی مدت مقرر کردی ہے۔ شوہر پابند ہے کہ اس کے اندر یا تو بیوی سے ازدواجی تعلقات بحال کرلے یا طلاق دینے کا فیصلہ ہے تو اس کو طلاق دے دے۔ اِس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عذر معقول کے بغیر بیوی سے ازدواجی تعلق منقطع کرلینا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لیے اگر قسم بھی کھالی گئی ہے تو اسے توڑ دینا ضروری ہے۔ یہ عورت کا حق ہے اور اسے ادا نہ کرنے پر دنیا اور آخرت ، دونوں میں شوہر کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی معاملہ، ظاہر ہے کہ بیوی کا بھی ہوگا۔ وہ بھی کسی معقول وجہ کے بغیر شوہر کے ساتھ یہ تعلق قائم کرنے سے انکار نہیں کرسکتی ۔ یعنی اگرچہ یہ قسم حق تلفی کے لیے کھائی گئی تھی اور اس طرح کی قسم کھانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے ، لیکن اصلاح کرلی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیں گے
وَ اِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۲۷﴾ یعنی اگر طلاق کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس میں اللہ کا قانون اور اس کے حدودو قیود ہر حال میں پیش نظر رہنے چاہئیں۔ اللہ ہر چیز کو سنتا اور جانتا ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوگی تو وہ ہرگز اس سے چھپی نہ رہے گی۔
وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنۡ یَّکۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیۡۤ اَرۡحَامِہِنَّ اِنۡ کُنَّ یُؤۡمِنَّ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ بُعُوۡلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ اِنۡ اَرَادُوۡۤا اِصۡلَاحًا ؕ وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۲۸﴾٪ صل میں لفظ ’
قُرُوْٓء
‘ آیا ہے۔ یہ ’
قرء
‘ کی جمع ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ جس طرح حیض کے معنی کے لیے آتا ہے ، اسی طرح طہر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ” تدبر قرآن “ میں اس کی تحقیق یہ بیان فرمائی ہے :”۔۔ اس کے اصل مادہ اور اس کے مشتقات پر ہم نے جس قدر غور کیا ہے ، اس سے ہمارا رجحان اسی بات کی طرف ہے کہ اس کے اصل معنی تو حیض ہی کے ہیں ، لیکن چونکہ ہر حیض کے ساتھ طہر بھی لازماً لگا ہوا ہے ، اس وجہ سے عام بول چال میں اس سے طہر کو بھی تعبیر کردیتے ہیں، جس طرح رات کے لفظ سے اس کے ساتھ لگے ہوئے دن کو یا دن کے لفظ سے اس کے ساتھ لگی ہوئی رات کو ۔ اس قسم کے استعمال کی مثالیں ہر زبان میں مل سکتی ہیں۔ “ (١/ ٥٣٢) ہم نے اسے حیض کے معنی میں لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اصل مسئلہ ہی یہ متعین کرنے کا ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں ، اور اس کا فیصلہ حیض سے ہوتا ہے ، نہ کہ طہر سے۔ پھر اس کے لیے توقف کی مدت مقرر کی گئی ہے اور یہ بھی حیض سے بالکل متعین ہوجاتی ہے ، اس لیے کہ اس کی ابتدا کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ سورة طلاق میں جس عدت کے لحاظ سے طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے ، یہ قرآن نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ تین حیض ہے۔ عام حالات میں عدت یہی ہے۔ عورت کی بعض دوسری حالتوں کے لحاظ سے اس کے احکام سورة طلاق (٦٥) کی آیات ١۔ ٧ اور سورة احزاب (٣٣) کی آیت ٤٩ میں بیان ہوئے ہیں۔ عدت کا حکم دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ عورت کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوجائے۔ لہٰذاوہ اگر اپنے پیٹ کی حالت چھپائے گی تو اس سے ان تمام مصالح کو سخت نقصان پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں ملحوظ رکھے ہیں۔ شوہر کے لیے رجوع کا جو حق اس آیت میں بیان ہوا ہے ، اس پر یہ شرط اس لیے عائد کی گئی ہے کہ رجوع اس ارادے سے نہیں ہونا چاہیے کہ بیوی کو اپنی خواہش کے مطابق اذیت دی جاسکے ، بلکہ محبت اور سازگاری کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے ہونا چاہیے ۔ عورتوں کے ان حقوق و فرائض کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورة نساء (٤) کی آیات ١٩ اور ٣٤ میں فرمائی ہے ۔ یعنی طلاق سے رجوع کا یہ حق شوہر کو اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ خاندان کا سربراہ ہے۔ چنانچہ خاندان کے نظم کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیوی کے مقابلے میں اس کے لیے ایک درجہ ترجیح کا رکھا ہے۔ اِس طرح کے معاملات چونکہ جذبات پر مبنی اقدامات اور افراط وتفریط کے رویوں کا باعث بن سکتے ہیں اور لوگ اس میں چند در چند غلطیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اس لیے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات عزیزو حکیم کا حوالہ دیا ہے۔ استاذ امام ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ خدا عزیز ہے ، اس وجہ سے اسی کو حق ہے کہ وہ حکم دے اور وہ حکیم ہے ، اس وجہ سے جو حکم بھی اس نے دیا ہے ، وہ سراسر حکمت پر مبنی ہے۔ بندوں کا کام یہ ہے کہ اُ س کے احکام کی بےچون و چرا اطاعت کریں۔ اگر وہ اس کے احکام کی مخالفت کریں گے تو اس کی غیرت و عزت کو چیلنج کریں گے اور اس کے عذاب کو دعوت دیں گے اور اگر خدا سے زیادہ حکیم اور مصلحت شناس ہونے کے خبط میں مبتلا ہوں گے تو خود اپنے ہاتھوں اپنے قانون اور نظام ، سب کا تیا پانچا کرکے رکھ دیں گے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٣٣)
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ شَیۡئًا اِلَّاۤ اَنۡ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا فِیۡمَا افۡتَدَتۡ بِہٖ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَعۡتَدُوۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۲۹﴾ یعنی یہ طلاق جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جس میں شوہر اپنا یہ فیصلہ زمانہ عدت میں واپس لے سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ طلاق کے بعد اگر کسی شخص نے رجوع کرلیا ہے اور اس کے بعد بھی نباہ نہیں ہو سکاتو اسی رشتہ نکاح میں اس کو ایک مرتبہ پھر اسی طرح طلاق دے کر عدت کے دوران میں رجوع کرلینے کا حق حاصل ہے ، لیکن ایک رشتہ نکاح میں دو مرتبہ اس طرح طلاق اور طلاق سے رجوع کے بعد یہ حق کسی شخص کے لیے باقی نہیں رہتا۔ اچھے طریقے سے رخصت کردینے کی جو ہدایت اس سے پہلے بیان ہوئی ہے ، یہ اس کی وضاحت ہے کہ بیوی کو کوئی مال ، جائداد ، زیورات اور ملبوسات وغیرہ ، خواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں ، اگر تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں تو اس موقع پر ان کا واپس لینا شوہر کے لیے جائز نہیں ہے۔ نان و نفقہ اور مہر تو عورت کا حق ہے ، ان کے واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ جو چیزیں دی گئی ہوں، ان کے بارے میں بھی قرآن کا حکم ہے کہ وہ ہرگز واپس نہیں لی جا سکتیں۔ یہ دی ہوئی چیزیں نہ لینے کے حکم سے استثنا ہے کہ میاں بیوی میں اگر حدود الٰہی کے مطابق نباہ ممکن نہ رہے ، معاشرے کے ارباب حل و عقد بھی یہی محسوس کریں ، لیکن میاں صرف اس لیے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو کہ اس کے دیے ہوئے اموال بھی ساتھ ہی جائیں گے تو بیوی یہ اموال یا ان کا کچھ حصہ واپس کر کے شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔ اس طرح کی صورت حال اگر کبھی پیدا ہوجائے تو شوہر کے لیے اسے لینا ممنوع نہیں ہے ۔ آیت کے الفاظ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ طلاق کا اختیار اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ سے مرد پر ہے اور اس کی اہلیت بھی قدرت نے اسے ہی دی ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر اسے قوام قرار دیا اور اس سے پہلے آیت ٢٢٨ میں بہ صراحت فرمایا ہے کہ ’
لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ
‘ (شوہروں کو ان پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے) ۔ چنانچہ ذمہ داری کی نوعیت اور حفظ مراتب، دونوں کا تقاضا ہے کہ طلاق کا اختیار شوہر ہی کو دیا جائے۔ اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ عورت اگر علیحدگی چاہے گی تو طلاق دے گی نہیں، بلکہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے گی۔ عام حالات میں توقع یہی ہے کہ ہر شریف النفس آدمی نباہ کی کوئی صورت نہ پا کر یہ مطالبہ مان لے گا، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو عورت عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔یہ جملہ اوپر کے تمام احکام و ہدایات سے متعلق ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ فرمایا کہ یہ تمہاری ازدواجی زندگی سے متعلق خدا کی حد بندیاں ہیں ، جس طرح تم اپنے رقبوں اور اپنی چراگاہوں کے اردگرد حدبندیاں کرتے ہو اور یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان حدوں کو توڑے اور اگر کوئی ان حدود میں مداخلت کرتا ہے تو تم اس کو اپنی ملکیت میں مداخلت اور اپنی عزت و غیرت کے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہو ، اسی طرح خدا نے بھی اپنے محارم کے ارد گرد یہ حدیں قائم کردی ہیں۔ تم ان سے باہر آزاد ہو ، لیکن ان کے اندرتمھیں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی نے ان حدوں کو توڑنے یا لانگنے کی جسارت کی تو وہ یاد رکھیں کہ وہی لوگ ظالم ہیں۔ یعنی اس کے نتیجے میں جو کچھ اس دنیا میں یا آخرت میں ان کے سامنے آئے گا ، اس کی ساری ذمہ داری خود انھیں پر ہے ، خدا پر نہیں ہے اور اس سے وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھائیں گے ، خدا کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ خدا کے قوانین تمام تر فطرت انسانی کے تقاضوں اور بندوں کے اپنے مصالح پر مبنی ہیں۔ اسی وجہ سے جو لوگ ان کو توڑتے ہیں ، وہ اپنی ہی فطرت اور اپنے ہی مصالح کی دھجیاں خود اپنے ہی ہاتھوں بکھیرتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٣٦)
فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۳۰﴾ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کا حق تو باقی نہیں رہتا ، لیکن وہی میاں بیوی اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو اس کے لیے قرآن نے یہاں تین شرطیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرے ۔ دوسری یہ کہ اس سے بھی نباہ نہ ہو سکے اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تیسری یہ کہ وہ دونوں سمجھیں کہ دوبارہ نکاح کے بعد اب وہ حدود الٰہی پر قائم رہ سکیں گے ۔ پہلی اور دوسری شرط میں نکاح سے مراد عقد نکاح اور طلاق سے مراد وہی طلاق ہے جو آدمی نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا فیصلہ کرلینے کے بعد اپنی بیوی کو دیتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں ۔ ” اصل یہ ہے کہ لفظ نکاح شریعت اسلامی کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کا اطلاق ایک عورت اور مرد کے اس ازدواجی معاہدے پر ہوتا ہے جو زندگی بھر کے نباہ کے ارادے کے ساتھ زن و شو کی زندگی گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر یہ ارادہ کسی نکاح کے اندر نہیں پایا جاتا تو وہ فی الحقیقت نکاح ہی نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک سازش ہے جو ایک عورت اور ایک مرد نے باہم مل کر کرلی ہے۔ نکاح کے ساتھ شریعت نے طلاق کی جو گنجایش رکھی ہے تو وہ اصل اسکیم کا کوئی جزو نہیں ہے ، بلکہ یہ کسی ناگہانی افتاد کے پیش آجانے کا ایک مجبورانہ مداوا ہے۔ اس وجہ سے نکاح کی اصل فطرت یہی ہے کہ وہ زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادے کے ساتھ عمل میں آئے۔ اگر کوئی نکاح واضح طور پر محض ایک معین و مخصوص مدت تک ہی کے لیے ہو تو اس کو متعہ کہتے ہیں اور متعہ اسلام میں قطعی حرام ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس نیت سے کسی عورت سے نکاح کرے کہ اس نکاح کے بعد طلاق دے کر وہ اس عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لیے جائز ہونے کا حیلہ فراہم کرے تو شریعت کی اصطلاح میں یہ حلالہ ہے اور یہ بھی اسلام میں متعہ ہی کی طرح حرام ہے۔ جو شخص کسی کی مقصد بر آری کے لیے یہ ذلیل کام کرتا ہے ، وہ درحقیقت ایک قرم ساق یا بھڑوے یا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ’ کرایے کے سانڈ ‘ کا رول ادا کرتا ہے اور ایسا کرنے والے اور ایسا کروانے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٣٧) تیسری شرط اس لیے عائد کی گئی ہے کہ نکاح و طلاق کو لوگ بچوں کا کھیل نہ سمجھیں اور متنبہ رہیں کہ کسی عورت کو طلاق دینی ہے تو خدا سے ڈرتے ہوئے اور نباہ کی کوئی صورت نہ پا کردی جائے، اور اس سے نکاح کرنا ہے تو یہ لازماً دل کے سچے ارادے اور سازگاری کی مخلصانہ خواہش کے ساتھ کیا جائے۔ اس سے مختلف کوئی رویہ اختیار کرنا کسی بندہ مومن کے لیے اس معاملے میں جائز نہیں ہے ۔ اصل میں ’
لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ عربی زبان میں فعل جس طرح ظاہری یا حقیقی مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح ارادہ فعل کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے اور ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ سَرِّحُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ ۪ وَ لَا تُمۡسِکُوۡہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا ۫ وَّ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ الۡکِتٰبِ وَ الۡحِکۡمَۃِ یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۲۳۱﴾٪ یہ بھلے طریقے سے روکنے کی وضاحت فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ مثبت پہلو سے بات اوپر کہہ چکنے کے بعد منفی پہلو سے بھی اس کی وضاحت اس لیے کردی گئی کہ ظالم لوگ طلاق اور طلاق کے بعد مراجعت کے شوہری حق کو اس ظلم کے لیے استعمال کرسکتے تھے۔ حالانکہ یہ صریح اعتدا ، یعنی اللہ کے حدود سے تجاوز اور اس کی شریعت کو مذاق بنانا ہے۔ فرمایا کہ جو ایسی جسارت کرتے ہیں ، بظاہر تو وہ ایک عورت کو نشانہ ظلم بناتے ہیں ، لیکن حقیقت میں وہ سب سے بڑا ظلم اپنی جان پر کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ کے حدود کو پھاندنے اور اس کی شریعت کو مذاق بنانے کی سزا بڑی ہی سخت ہے ۔آخر میں فرمایا کہ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو کہ اس نے تمہیں ایک برگزیدہ امت کے منصب پر سرفراز فرمایا ، تمہاری ہدایت کے لیے تمہارے اندر اپنا نبی بھیجا، تمہیں خیر و شر اور نیک و بد سے آگاہ کرنے کے لیے تمہارے اوپر اپنی کتاب اتاری جو قانون اور حکمت ، دونوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ کی ایسی عظیم نعمتیں پانے کے بعد اگر تم نے ان کا یہی حق ادا کیا کہ خدا کے حدود کو توڑا اور اس کی شریعت کو مذاق بنایا تو سوچ لو کہ ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان رکھو کہ وہ تمہاری ہر بات سے باخبر ہے ، یعنی وہ لوگوں کی شرارتوں کے باوجود ان کو ڈھیل تو دیتا ہے ، لیکن جب وہ پکڑے گا تو اس کی پکڑ سے کوئی بھی چھوٹ نہ سکے گا۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٣٩)
وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ اَنۡ یَّنۡکِحۡنَ اَزۡوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوۡا بَیۡنَہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ ذٰلِکَ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکُمۡ اَزۡکٰی لَکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۳۲﴾ طلاق کے بعد جو چیزیں باعث نزاع ہوسکتی ہیں ، یہ ان کا حکم ہے۔ فرمایا کہ جب ایک عورت کو طلاق دے دی گئی ہے تو اب اس کے کسی فیصلے میں رکاوٹ بننے کا حق پہلے شوہر کے لیے باقی نہیں رہا، عام اس سے کہ وہ صریح ممانعت کی صورت میں ہو یا کسی سازش اور جوڑ توڑ کے انداز میں ۔ طلاق کے بعد عورت جب چاہے اور جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ اس کا یہ فیصلہ اگر دستور کے مطابق ہے تو اس پر کسی اعتراض کی گنجایش نہیں ہوسکتی ۔ اس کے لیے اصل میں ’
بِالْمَعْرُوْفِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ عورت اور مرد ، دونوں اپنے معاملات طے کرنے میں آزاد ہیں ، لیکن اتنی بات بہرحال ضروری ہے کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو شرفا کی روایات کے خلاف ہو اور جس سے پہلے شوہر یا ہونے والے شوہر یا خود عورت کے خاندان کی عزت اور شہرت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ آیت کے آخری حصے کی وضاحت میں استاذ امام نے لکھا ہے :”۔۔ یہ نصیحتیں ان لوگوں کو کی جا رہی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی جن لوگوں کے اندر خدا اور آخرت پر ایمان موجود ہے ، ان کے ایمان کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ان نصیحتوں پر عمل کریں ۔ پھر فرمایا کہ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے۔ یعنی اگر عورت کی حسب مرضی نکاح کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو اس سے خاندان اور پھر معاشرے میں بہت سی برائیاں پھیلنے کے اندیشے ہیں۔ یہیں سے خفیہ روابط، پھر زنا ، پھر اغوا اور فرار کے بہت سے چور دروازے پیدا ہوتے ہیں اور ایک دن ان سب کی ناک کٹ کے رہتی ہے جو ناک ہی اونچی رکھنے کے زعم میں فطری جذبات کے مقابل میں بےہودہ رسوم کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے۔ یعنی تمہارا علم اور تمہاری نظر بہت محدود ہے ، تمہارے لیے زندگی کے تمام نشیب و فراز کو سمجھ لینا بڑا مشکل ہے ، اس وجہ سے جو کچھ تمہیں خدا کی طرف سے حکم دیا جا رہا ہے ، اس پر عمل کرو۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٤٤)
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡہُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا ؕ وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّاۤ اٰتَیۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۳۳﴾
طلاق کے بعد بچے کی رضاعت کے جو احکام اس آیت میں بیان ہوئے ہیں ، ان کا خلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہے :” مطلقہ پر اپنے بچے کو پورے دو سال دودھ پلانے کی ذمہ داری ہے ، اگر طلاق دینے والا شوہر یہ چاہتا ہے کہ عورت یہ رضاعت کی مدت پوری کرے ۔اِس مدت میں بچے کے باپ پر مطلقہ کے کھانے کپڑے کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں دستور کا لحاظ ہوگا ، یعنی شوہر کی حیثیت ، عورت کی ضروریات اور مقام کے حالات پیش نظر رکھ کر فریقین فیصلہ کریں گے کہ عورت کو نان و نفقہ کے طور پر کیا دیا جائے ۔ فریقین میں سے کسی پر بھی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ، نہ بچے کے بہانے سے ماں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی ، اور نہ بچے کی آڑ لے کر باپ پر کوئی ناروا دباؤ ڈالا جائے گا ۔ اگر بچے کا باپ وفات پا چکا ہو تو بعینہٖ یہی پوزیشن مذکورہ ذمہ داریوں اور حقوق کے معاملے میں اس کے وارث کی ہوگی۔ اگر باہمی رضامندی اور مشورے سے دو سال کی مدت کے اندر ہی اندر بچے کا دودھ چھڑا دینے کا عورت مرد فیصلہ کرلیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ اگر باپ یا بچے کے ورثابچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں ، بشرطیکہ بچے کی والدہ سے دینے دلانے کی جو قرار داد ہوئی ہے ، وہ پوری کردی جائے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٤٥)
وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۲۳۴﴾ بیوہ کی عدت میں عام مطلقہ کی نسبت سے یہ اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ اس کو تو ایسے طہر میں طلاق دینے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں شوہر سے اس کی ملاقات نہ ہوئی ہو ، لیکن بیوہ کے لیے اس طرح کا ضابطہ بنانا چونکہ ممکن نہیں ہے ، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ دن بڑھا دیے جاتے۔ قرآن نے یہی کیا ہے اور مطلقہ کی نسبت سے اس کی مدت ایک ماہ دس دن زیادہ مقرر کردی ہے ۔ مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے ، اس لیے جو مستثنیات طلاق کے حکم میں بیان ہوئے ہیں ، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اسی طرح ملحوظ ہوں گے۔ چنانچہ بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہوگی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہوجائے گی۔ روایتوں میں ہے کہ ایک حاملہ عورت ، سبیعہ (رض) نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا۔ یعنی عدت گزر جائے تو اس کے بعد وہ آزاد ہے اور اپنے معاملے میں جو قدم مناسب سمجھے اٹھاسکتی ہے۔ معاشرے کے دستور کی پابندی ، البتہ اسے کرنی چاہیے۔ یعنی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے متعلق خاندانوں کی عزت ، شہرت ، وجاہت اور اچھی روایات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ یہ ملحوظ رہے تو اس پر یا اس کے اولیا پر پھر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ مطلب یہ ہے کہ غیر شرعی رسوم کو شریعت کا درجہ دے کر خواہ مخواہ ایک دوسرے کو مورد طعن و الزام نہیں بنانا چاہیے۔ نہ شوہر کے وارثوں اور عورت کے اولیا کو یہ طعنہ دینا چاہیے کہ عورت اپنے شوہر کا پورا سوگ بھی نہ منا چکی کہ وہ اس سے تنگ آگئے اور نہ عورت کو یہ طعنہ دینا چاہیے کہ ابھی شوہر کا کفن بھی میلا نہ ہونے پایا تھا کہ یہ شادی رچانے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ خدا نے جو حدود مقرر کردیے ہیں ، بس انھی کی پابندی کرنی چاہیے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ بندوں کے ہر عمل سے باخبر ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٤٦) بخاری ، رقم ٥٣٢٠۔