ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۚ وَ مَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۲۰۳﴾ اصل میں ’
فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ
‘ کے الفاظ ہیں ، یعنی گنے ہوئے دن ۔ یہ اسلوب جس طرح بیان تقلیل کے لیے موزوں ہے ، اسی طرح اگر غور کیجیے تو تعیین و تحدید کے لیے بھی بالکل موزوں ہے۔ ہمارے نزدیک ، اس آیت میں یہ اسی دوسرے مفہوم میں ہے. یعنی اجازت ہے کہ کوئی شخص ١٣ ذوالحجہ تک ٹھیرے یا ١٢ کو واپس چلا آئے ، دونوں ہی صورتوں میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ اس لیے فرمایا کہ عبادات میں جو چیز جس طرح متعین کردی جائے ، اس میں جس طرح کمی جائز نہیں ہے ، اسی طرح اضافہ بھی جائز نہیں ہے. یعنی اصل اہمیت اس کی نہیں کہ لوگ کتنے دن ٹھیرے ، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ، خدا کی یاد میں اور اس سے ڈرتے ہوئے ٹھیرے۔ عبادت کی روح تقویٰ ہے۔ رسوم و آداب سے یہی مقصود ہے۔ یہ ہو تو دو دن بھی بہت ہیں اور نہ ہو تو دس دن کے قیام سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ آخر میں تنبیہ ہے کہ جس طرح یہاں اکٹھے ہو، روز حشر بھی اسی طرح خدا کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے۔ یہاں سے بھاگ سکتے ہو ، لیکن اس دن کسی کے لیے بھی خدا کے حکم کے بغیر اس کے سامنے سے ہٹنا ممکن نہ ہوگا۔
یہ اشارہ ہے مدینہ کے ان منافقین کی طرف جو اللہ کی راہ میں جہادو قتال کی باتیں کرتے تو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ، لیکن نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے پاس سے ہٹتے تو ان کی ساری تگ و دو اللہ اور رسول سے لوگوں کو برگشتہ کرنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوتی تھی۔ فرمایا کہ یہ سب اس دنیا کی زندگی ہی میں ہے۔ قیامت کے دن پردہ اٹھے گا تو اپنے باطن کو چھپانے کے لیے یہ کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ منافق کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو معتبر ثابت کرنے کے لیے وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے ، اس لیے کہ اپنی نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ لوگ اس کی بات کو باور نہیں کریں گے۔ اصل میں ’
اَلَدُّ الْخِصَامِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
خِصَام
‘ ہمارے نزدیک ’
خصم
‘ کی جمع ہے، یعنی دشمنوں میں سے بدترین۔
وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ ﴿۲۰۵﴾
یعنی خدا کی جو دینونت اس سرزمین میں برپا ہے ، اس میں لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے اور اس طرح صلح و امن پر آمادہ کرنے کے بجائے وہ جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ ، ظاہر ہے کہ حرث و نسل کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتۡہُ الۡعِزَّۃُ بِالۡاِثۡمِ فَحَسۡبُہٗ جَہَنَّمُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمِہَادُ ﴿۲۰۶﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ
‘ ۔ ان میں ’
بِالْاِثْمِ
‘ کی ’ ب ‘ ہمارے نزدیک مصاحبت کے لیے ہے اور لفظ ’
الْعِزَّۃُ
‘ ٹھیک اس معنی میں آیا ہے جس میں یہ سورة ص (٣٨) کی آیت ٢ ’
بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ
‘ میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انھیں اگر اس وقت ڈھیل ملی ہوئی ہے تو یہ کوئی رعایت نہیں ہے۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے دوزخ تیار ہے ، وہ کوئی کمی نہ چھوڑے گی ۔ ان کی شرارتوں کی جو سزا انھیں ملنی چاہیے ، اس کے لیے بالکل کافی ہوجائے گی۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۰۸﴾ یہ خطاب اگرچہ عام ہے ، لیکن روے سخن، اگر غور کیجیے تو انھی منافقین کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اُنھیں دعوت دی گئی ہے کہ شیطان کے پیچھے چلنے کے بجائے ان سچے اہل ایمان کی پیروی کرو جو اپنے پروردگار کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اصل میں لفظ ’
کَآفَّۃً
‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ یہاں ضمیر فاعل سے حال پڑا ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم سب مسلمان ایک جماعت ہو تو اللہ کی اطاعت کے معاملے میں بھی تمہیں ایک ہی جماعت ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تم ایمان کا دعویٰ تو کرو اور پھر تم میں سے کچھ اللہ کا حکم ماننے والے ہوں اور کچھ شیطان کے پیچھے چلنے والے۔ اللہ کو ماننے کے بعد یہ رویہ کسی حال میں بھی گوارا نہیں کیا جاسکتا۔
فَاِنۡ زَلَلۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡکُمُ الۡبَیِّنٰتُ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۰۹﴾ اصل میں لفظ ’
الْبَیِّنٰتُ
‘ آیا ہے۔ یعنی وہ آیات جو شیطان کے فتنوں سے خبردار کرنے اور ایمان و اسلام کے تقاضوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے قرآن میں وارد ہوئی ہیں۔ تنبیہات کے لفظ سے اس کا ترجمہ ہم نے اسی مفہوم کے لحاظ سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا حوالہ یہاں جس پہلو سے آیا ہے ، استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں۔ ” عزیز کی صفت کے حوالے سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے : ایک تو اس حقیقت کی طرف کہ خدا کوئی کمزور و ناتواں ہستی نہیں ہے ، بلکہ وہ غالب و توانا ہے تو جو اس کی تنبیہات کے باوجود شیطان کی پیروی کریں گے ، ان کو وہ اس عذاب میں ضرور پکڑے گا جو شیطان کے پیرؤوں کے لیے اس نے مقدر کر رکھا ہے اور جس کی اس نے پہلے سے خبر دے رکھی ہے۔ دوسرا اس طرف کہ جو لوگ ان واضح ہدایات کے بعد بھی راہ حق کو چھوڑ کر شیطان ہی کی پیروی اختیار کریں گے، وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑیں گے ، بلکہ اپنا ہی بگاڑیں گے۔ اس لیے کہ خدا عزیز ہے ، یعنی ہر نفع و نقصان سے بالاتر۔ اِسی طرح حکیم کی صفت بھی یہاں دو حقیقتوں کو نمایاں کر رہی ہے : ایک تو یہ کہ اس دنیا کا خالق حکیم ہے اور اس کے حکیم ہونے کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہدایت پر جمے رہنے والوں اور اس سے منحرف ہوجانے والوں کے درمیان ان کے انجام کے لحاظ سے امتیاز کرے۔ اگر وہ ان میں کوئی امتیاز نہ کرے ، بلکہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے یا دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ایک حکیم نہیں ، بلکہ ایک کھلنڈرا ہے اور یہ دنیا ایک پر حکمت اور بامقصد کارخانہ نہیں، بلکہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے۔ دوسری یہ کہ بدی اور نیکی کے نتائج کے ظہور میں جو دیر سویر ہوتی ہے ، وہ سب حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ بسا اوقات شیطان کے پیروکاروں کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے اور بسا اوقات اہل حق کسی آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ اس سے نہ تو اہل باطل کو مغرور ہونا چاہیے نہ اہل حق کو مایوس، بلکہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ مہلت اور یہ آزمائش ، دونوں خداے حکیم و دانا کی حکمت پر مبنی ہیں ، اور اس حکمت کے تحت اس کے قوانین اور ان کے نتائج بالکل قطعی اور اٹل ہیں ، ان میں سر مو فرق ممکن نہیں ہے۔ “ (تدبر قرآن ١ /٤٩٩)
سَلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ کَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍۭ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ مَنۡ یُّبَدِّلۡ نِعۡمَۃَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۲۱۱﴾ یعنی بنی اسرائیل سے پوچھ کر دیکھ لو، ان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جو لوگ عقل اور سمجھ سے کام نہیں لیتے، ان کی آنکھیں بڑے سے بڑا معجزہ دیکھ لینے کے بعد بھی بند ہی رہتی ہیں۔
زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ یَسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۘ وَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۲۱۲﴾ یہ جس فریب نظر کی وجہ سے ہوتا ہے ، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے۔ ”۔۔ اس دنیا کی زندگی میں حق اور باطل اور کفرو ایمان ، دونوں کو مہلت ملی ہوئی ہے۔ کوئی شخص اگر نیکی اور اطاعت کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ ابتلا کے قانون سے بالاتر ہوجائے، بلکہ بعض حالات میں اس کا ابتلا اس کے ایمان کے اعتبار سے سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کفر و نافرمانی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی سنت الٰہی یہ نہیں ہے کہ فوراً خدا کے فرشتے اتر کر اس کی گردن ناپ دیں ، بلکہ اکثر حالات میں اس کو ایسی ڈھیل پر ڈھیل ملتی جاتی ہے کہ اس کی جسارت دن پر دن بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اسی فریب نظر کو یہاں ’
زُیِّنَ
‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی اس دنیاوی زندگی کا یہ فریب اس طرح ان کی نگاہوں میں کھبا دیا گیا ہے کہ وہ اس کے اس پہلو سے نگاہ ہٹا کر کسی اور پہلو سے اس کو دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ ان کی نگاہوں میں اس زندگی کی اس خاص پہلو سے تزئین شیطان نے کی ہے ، جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں اس کی تصریح ہے۔ اور یہ امر بھی ظاہر ہے کہ شیطان کو اس تزئین کا موقع انسان کی عاجلہ پرستی اور اتباع شہوات نے فراہم کیا ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٠١) یعنی اس طرح عطا فرمائے گا کہ توقعات اور اندازوں کے تمام پیمانے اسے ناپنے سے قاصر رہ جائیں گے۔
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ مَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۱۳﴾
یعنی کہتے ہیں کہ حق و باطل کا معاملہ کچھ ایسا واضح نہیں ہے کہ اس کے لیے ہم بالکل ہی یکسو ہو کر کھڑے ہوجائیں ۔ اس میں اختلافات ہیں اور ان کا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس معاملے میں کوئی حتمی بات کہنا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جو کشمکش اس وقت برپا ہے ، اس میں غیرجانب داری کا وہی رویہ صحیح ہے جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے ۔ اصل میں لفظ ’
اِذْن
‘ آیا ہے جس کے معنی اجازت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت امہال کے لیے بھی ہوتی ہے اور توفیق کے لیے بھی ۔ یہاں موقع کلام دلیل ہے کہ یہ توفیق کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق تو ہمیشہ سے واضح رہا ہے اور اب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ذریعے سے اسے پوری طرح واضح کردیا ہے ، لیکن اس کو پانے کے لیے پہلی شرط یہی ہے کہ آدمی ضدم ضدا کا رویہ چھوڑ دے اور حق کا سچا طالب بن کر کتاب الٰہی کی طرف رجوع کرے۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہ اللہ کا قانون ہے اور اللہ اسی کے مطابق لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴﴾ یعنی رسولوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی دینونت جب بھی کسی سرزمین میں برپا ہوئی ہے ، اس کا طریقہ یہی رہا ہے کہ سزا بھی اتمام حجت کے بعد دی جاتی ہے اور سرفرازی کا فیصلہ بھی ایمان لانے والوں کے بعض غیر معمولی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ اللہ کی مدد ، جس طرح تم چاہتے ہو ، اس طرح نہ اس سے پہلے کبھی آئی ہے اور نہ اب آئے گی ۔ یہ سنت الٰہی ہے اور اللہ کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔