• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 2 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 183


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ
اصل میں لفظ ’ الصِّیَامُ ‘ آیا ہے۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے کھانے پینے اور زن و شو کے تعلق سے رک جانے کے معنی میں یہ ایک دینی اصطلاح کے طور پر عربی زبان میں ہمیشہ سے اسی طرح معروف رہا ہے، جس طرح روزے کا لفظ ہماری اردو زبان میں اس معنی کے لیے معروف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کا ظہور بالعموم تین ہی صورتوں میں ہوتا ہے : پرستش ، اطاعت اور حمیت و حمایت۔ روزہ ان میں سے اطاعت کا علامتی اظہار ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعتوں میں یہ تربیت نفس کی خاص عبادت رہا ہے ۔ حدود الٰہی کی پابندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر جذبات اور خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرے اور یہ صلاحیت ، اگر غور کیجیے تو فی الواقع اللہ کے ڈر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 184


اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۴﴾
یہ الفاظ تالیف قلب کے طور پر آئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تربیت نفس کے لیے تیس یا انتیس دنوں کا یہ نصاب حقیقت میں چند روزہ ہی ہے ، لہٰذا اس سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ‘۔ ان میں ضمیر کا مرجع اگرچہ موخ رہے ، لیکن غور کیجیے تو متکلم کی نیت میں وہ بالکل اسی طرح مقدم ہے ، جس طرح ، مثال کے طور پر ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں : تم اس کی ہمت رکھتے ہو تو سفر کے لیے نکل جاؤ۔ قضا روزوں کے بدلے میں مسکین کو کھانا کھلانے کی یہ اجازت ، جیسا کہ آگے کی آیت سے واضح ہوگا ، بعد میں منسوخ کردی گئی اور اس کی جگہ روزہ رکھنا ہی ضروری قرار دیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ روزے کا یہ فدیہ کم سے کم مطالبہ ہے جو استطاعت رکھنے والوں کو ہر حال میں پورا کرنا چاہیے ، لیکن اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ان کے ساتھ کوئی اور نیکی کر دے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ یعنی یہ فدیہ ایک رعایت ہے۔ اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر یہی ہے کہ آدمی فدیے کے بجائے دوسرے دنوں میں روزے ہی پورے کر دے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 185


شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾
آگے قضا شدہ روزوں کے لیے فدیے کی جو اجازت ختم کی گئی ہے ، اس سے واضح ہے کہ یہ آیت اوپر والی آیت کے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی ہے۔ اصل میں لفظ ’ بَیِّنٰت ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد نہایت واضح ، دل نشیں اور ہر الجھن کو دور کردینے والے دلائل وبراہین ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ قرآن ان بینات کا ایسا خزانہ ہے جو رہتی دنیا تک عقل انسانی کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘۔ تالیف کلام کے لحاظ سے یہ اوپر کے مبتدا کی خبر ہے اور ’ فَلْیَصُمْہُ ‘ کے معنی اس میں یہ ہیں کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے جائیں ، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے۔ یعنی اس طرح کی حالت ہو کہ آدمی کے لیے روزہ رکھنا غیر معمولی تکلیف کا باعث بن جائے۔ چنانچہ یہی حکم حاملہ ، مرضعہ اور پیر فانی کا بھی ہوگا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اوپر والی آیت کے الفاظ ’ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ‘ سے ’ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ‘ تک حذف فرما دیے ہیں۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قضا شدہ روزوں کے لیے فدیے کی جو اجازت اس سے پہلے دی گئی تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے آگے خود بیان کردی ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ اجازت کیوں دی گئی ؟ اس سوال کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اس لیے جب تک طبائع اس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہوگئیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے لازم نہیں فرمایا۔ اِس سے پہلے ، اگر غور کیجیے تو تین باتیں بیان ہوئی ہیں : ایک یہ کہ روزوں کے لیے رمضان کا مہینا خاص کیا گیا۔ دوسری یہ کہ فدیہ کی اجازت منسوخ کردی گئی۔ تیسری یہ کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزے دوسرے دنوں پر ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔ یہاں ان تینوں کی حکمت اللہ تعالیٰ نے ترتیب صعودی کے ساتھ ، یعنی نیچے سے شروع کر کے اوپر کی طرف چڑھتے ہوئے بیان فرما دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس مہینے میں دنیا کو قرآن جیسی نعمت ملی ، وہ سزاوار تھا کہ خدا کی تکبیر اور شکرگزاری کا خاص مہینا قرار دیا جائے۔ روزہ یہی تکبیر اور شکرگزاری ہے۔ اس میں انسان جب اپنی جائز خواہشوں سے بھی محض اپنے پروردگار کی خوشنودی اور رضا کی طلب میں دست بردار ہوجاتا ہے تو گویا اپنے قول و فعل ، ظاہر و باطن اور اپنے روزو شب ، ہر چیز سے اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حکم سے بڑی اس کے نزدیک کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ اللہ کی عظمت، جلالت اور اس کی بزرگی وکبریائی کے احساس و اعتراف کی یہی حالت ، اگر غور کیجیے تو اس کی شکرگزاری کا حقیقی اظہار بھی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 186


وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾
یعنی اس وقت جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہے ، تم ان کے درمیان موجود ہو اور تمہاری وساطت سے وہ جب چاہیں ، مجھ سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ان سوالات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے جو شریعت کی شرح و تبیین کے لیے ضروری تھے۔ اس سے مراد وہ غیر ضروری سوالات نہیں ہیں جن سے قرآن میں دوسری جگہ لوگوں کو منع کیا گیا ہے۔ یہ اگرچہ عام حالات میں بھی ایک حقیقت ہے ، لیکن یہاں اس سے مراد بالخصوص وہ جواب ہے جو زمانہ نزول قرآن میں لوگوں کو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وساطت سے فوراً مل جاتا تھا۔ اس طرح کے متعدد سوالوں کے جوابات اس سے آگے اسی سورة میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی میں جب ان کے قریب بھی ہوں اور ان کی ذہنی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے ان کے سوالوں کا جواب بھی دے رہا ہوں تو میرے ساتھ ان کو کوئی منافقانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نہ میرے کسی حکم کو شبہات و اعتراضات کا ہدف بنانا چاہیے ، بلکہ پورے ایمان و یقین کے ساتھ اس کی پیروی کرنی چاہیے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 187


اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ وَ عَفَا عَنۡکُمۡ ۚ فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡہُنَّ وَ ابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ ۪ وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾
یہ تبیین کی آیت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اوپر کی تمہید لوگوں کی اسی الجھن کے پیش نظر اٹھائی گئی تھی جسے اس آیت میں دور کیا گیا ہے۔ آگے کی آیات سے واضح ہوگا کہ اس سے حوصلہ پا کر انھوں نے پے در پے سوالات کیے اور قرآن نے بار بار سلسلہ بیان کو روک کر ان سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اصل میں لفظ ’ الرَّفَثُ ‘ آیا ہے۔ اس کے معنی شہوانی باتوں کے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ’ اِلٰی ‘ کے صلے نے اس کے اندر بیویوں سے اختلاط کا مضمون پیدا کردیا ہے ۔ یعنی یہ اگرچہ پہلے ہی جائز تھا ، لیکن تمہارے تردد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بتادیا کہ روزوں کی رات میں تم بیویوں کے پاس جاسکتے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دونوں میں ایسا چولی دامن کا رشتہ ہے اور باہم دگر تم فطرت کے ایسے بندھن میں بندھے ہوئے ہو کہ ناگزیر ضرورت کے سوا تمہیں کسی حالت میں بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا ۔ میاں بیوی کے تعلق کو بیان کرنے کے لیے لباس کا یہ استعارہ ، اگر غور کیجیے تو نہایت بلیغ استعارہ ہے۔ لباس کے تین پہلو ہیں : پردہ پوشی ، حفاظت اور زینت۔ مردو عورت ان تینوں ہی پہلوؤں سے ایک دوسرے کے لیے لباس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے جنسی جذبات اور داعیات کے لیے باہم دگر پردہ بھی فراہم کرتے ہیں ، شیطان کے حملوں سے ایک دوسرے کی حفاطت کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور باہمی ربط وتعلق سے زندگی کو وہ تمام رونقیں اور بہاریں بھی عطا کردیتے ہیں جن سے دنیا میں تہذیب و تمدن کا حسن نمایاں ہوتا ہے۔ یعنی اپنے خیال کے مطابق یہ سمجھتے ہوئے کہ رمضان کی راتوں میں بیویوں کے پاس جانا جائز نہیں ہے ، اس کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہود کے ہاں روزہ افطار کے بعد معاً پھر شروع ہوجاتا تھا اور وہ روزے کی رات میں کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسلمانوں نے اس سے گمان کیا کہ ان کے لیے بھی یہی قانون ہوگا ، لیکن پھر ان میں سے بعض لوگ یہ گمان اپنے دلوں میں رکھتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔ قرآن نے اسے اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے۔ آدمی اگر اپنے اجتہاد یا گمان کے مطابق کسی چیز کو دین و شریعت کا تقاضا سمجھتا ہے تو اس سے قطع نظر کہ وہ فی الواقع شریعت کا حکم ہے یا نہیں ، اس کی خلاف ورزی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ اسے ضمیر کے ساتھ خیانت ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ یعنی اس خیانت پر گرفت ہوسکتی تھی ، لیکن یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے تمہیں معاف فرما دیا ۔ اِس طرح کے معاملات میں لوگ چونکہ ہر لحاظ سے واضح ہونا چاہتے ہیں ، اس لیے نہایت بلیغ اسلوب میں بتادیا کہ اگر چاہو تو اس تعلق سے اولاد بھی پیدا کرو۔ نتیجہ اور عمل ، دونوں کے لحاظ سے اب اس معاملے میں تمہیں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کی یہ اجازت صبح صادق کے اچھی طرح نمایاں ہوجانے تک ہے ، اس وجہ سے معمولی تقدیم و تاخیر پر اپنے یا دوسروں کے روزے مشتبہ قرار دے بیٹھنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ یہ ایک دینی اصطلاح ہے جس سے مراد ہر چیز سے الگ ہو کر کسی معبد میں یاد الٰہی کے لیے گوشہ نشین ہوجانا ہے۔ اس کی حیثیت ایک سنت ثابتہ کی ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے دین میں ہمیشہ جاری رہی ہے۔ قرآن کے مخاطبین اس سے پوری طرح واقف تھے ، لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کی تفصیل کی جائے۔ قرآن کے الفاظ سے اتنی بات ، البتہ واضح ہے کہ روزوں کے مہینے سے اس عبادت کو خاص مناسبت ہے۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے عمل اور آپ کے ارشادات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ اِس عبادت سے مقصود چونکہ ’ تبتل الی اللّٰہ ‘ ہے اور اس میں آدمی کو پورے دل سے اپنے پروردگار ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ انسانی حاجات کے لیے باہر نکلنے کے سوا وہ مسجد ہی میں قیام کرے ، اس وجہ سے اس کے دوران میں بیویوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ یعنی حدود الٰہی کی خلاف ورزی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے لیے ان سے ذرا دور ہی دور رہنا چاہیے تاکہ بھولے سے بھی قدم کہیں معصیت کی حد میں نہ جا پڑے ۔ یہ الفاظ قرآن میں بالعموم ان آیات کے بعد آتے ہیں جو کسی حکم کی وضاحت کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ قرآن سے متعلق یہ اللہ تعالیٰ کے اُس وعدے کی تکمیل ہے جس کا ذکر سورة قیامہ میں ہوا ہے کہ ’ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ ‘ (پھر ہمارے ہی ذمے ہے کہ ہم اس کی وضاحت کردیں) ۔ اس طرح کی وضاحت سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ حکم میں کوئی تردد باقی نہ رہے اور بندہ مومن کا قدم تقویٰ میں مزید راسخ ہوجائے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 188


وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪
اصل میں ’ بِالْبَاطِلِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد وہ طریقہ ہے جو سچائی ، دیانت، عدل و انصاف اور معروف کے خلاف ہو ۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ چوری ، غصب ، غلط بیانی ، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا ، یہ سب اسی کے تحت داخل ہیں۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَ تُدْلُوْابِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ ‘۔ ان میں ’ اِدْلاَء ‘ کے معنی اصلاً کنوئیں میں ڈول ڈالنے کے ہیں۔ یہیں سے اس کے اندر رسائی حاصل کرنے کا مفہوم پیدا ہوا ۔ یہ رشوت کی تعبیر ہے، اور غور کیجیے تو قرآن نے اس کے ذریعے سے رشوت کی حقیقت بالکل واضح کردی ہے۔ اِس جملے کا عطف پہلے جملے پر ہے اور چونکہ یہ اسی کی وضاحت کر رہا ہے ، اس لیے اس میں حرف ’ لا ‘ کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ یعنی اس کا گناہ اور حق تلفی ہونا تمہیں معلوم ہے ، تمہاری عقل اور تمہاری فطرت اس کی گواہی دیتی ہے ، دنیا کا معروف اس پر حجت ہے اور تمام مذاہب و ادیان میں اس کی حرمت ہمیشہ مانی گئی ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جسے سب جانتے ہیں، تم میں سے کوئی بھی اس سے ناواقف نہیں ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 189


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ وَ اۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِہَا ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۸۹﴾
اصل الفاظ ہیں : ’ وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ‘۔ ان میں ’ اَھِلَّۃ ‘ ہلال کی جمع ہے۔ ہلال شروع ماہ کے چاند کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد مہینا بھی ہوتا ہے۔ جمع کی صورت میں بالخصوص اس کا استعمال مہینوں ہی کے لیے معروف ہے۔ اس پر الف لام ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سوال کچھ مخصوص مہینوں کے بارے میں ہے اور جواب سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حرام مہینوں اور ان کے آداب سے متعلق تھا۔ قرآن کا عام اسلوب ہے کہ اس میں سوالات اسی طرح بالاجمال نقل کیے جاتے ہیں اور ان کی صحیح نوعیت بالعموم ان کے جواب سے معلوم ہوتی ہے۔ یہاں اس سوال کے پیدا ہونے کی وجہ ، جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہوگا ، یہ ہوئی کہ بیت اللہ کے قبلہ قرار پا جانے کے بعد لوگ حج کے لیے بےتاب ہوئے اور حج کے راستے میں اس وقت قریش حائل تھے۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ قریش نے مزاحمت کی تو جنگ ہوسکتی ہے اور اس میں حرام مہینوں کی حرمت حائل ہوگی ۔ پھر کیا یہ حرمت قائم رکھی جائے گی یا وہ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے قریش کے خلاف تلوار اٹھاسکتے ہیں ؟ مطلب یہ ہے کہ عرب کی بدامنی کے ماحول میں حج کے قافلوں کا نکلنا بھی اسی حرمت کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے اور لوگوں کو تجارتی سرگرمیوں کی مہلت بھی اسی سے ملتی ہے ، لہٰذا یہ حرمت اسی طرح باقی رہنی چاہیے ۔ یہ سوال سلسلہ بیان کو روک کر پوچھا گیا تھا۔ قرآن نے اس کا جواب دیا تو اسی سے ملا کر جہاد و انفاق اور حج وعمرہ کے وہ احکام بیان کرنا شروع کردیے جن کا بیان کرنا یہاں اصلاً پیش نظر تھا۔ ان میں سے جہاد و انفاق کا حکم تو ابتداءً آیا ہے ، لیکن حج وعمرہ کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ان کی حیثیت پہلے سے جاری ایک سنت کی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان میں کچھ بدعتیں داخل کردی گئی تھیں اور ان کی حقیقت بھی لوگوں کے لیے بہت حد تک اجنبی ہوچکی تھی ، لیکن ان کے مناسک اس کے باوجود لوگوں کے لیے بالکل معلوم اور متعین تھے۔ قرآن نے اسی بنا پر ان کی کوئی تفصیل نہیں کی ۔ اس کا بیان ان سے متعلق بعض ضروری اصلاحات اور بعض فقہی مسائل کی توضیح تک محدود ہے۔ یہ ایک بدعت تھی جو حج کے سلسلے میں لوگوں نے ایجاد کرلی تھی۔ اس عجیب و غریب حرکت کا محرک غالباً یہ وہم تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے نکلے ہیں ، پاک ہوجانے کے بعد انھی دروازوں سے گھروں میں داخل ہونا اب خلاف تقویٰ ہے۔ اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ایک مضاف عربیت کے اسلوب پر حذف ہوگیا ہے ، یعنی ’ برمن اتقی ‘۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 190


وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۱۹۰﴾
مطلب یہ ہے کہ جس قتال کا حکم یہاں دیا جا رہا ہے ، وہ نہ خواہش نفس کے لیے ہے، نہ مال و دولت کے لیے ، نہ ملک کی تسخیر اور زمین کی حکومت کے لیے ، نہ شہرت و ناموری کے لیے اور نہ حمیت و حمایت اور عصبیت یا عداوت کے کسی جذبے کی تسکین کے لیے ، بلکہ محض اللہ کے لیے ہے۔ انسان کی خودغرضی اور نفسانیت کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اللہ کی جنگ ہے جو اس کے بندے اس کے حکم پر اور اس کی ہدایت کے مطابق اس کی راہ میں لڑتے ہیں۔ ان کی حیثیت اس جنگ میں محض آلات وجوارح کی ہے۔ اس میں ان کو اپنا کوئی مقصد نہیں ، بلکہ خدا کے مقاصد پورے کرنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی اس حیثیت سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے ۔ یعنی اللہ کی راہ میں یہ قتال اخلاقی حدود سے بےپرواہ ہو کر نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاقیات ہر حال میں اور ہر چیز پر مقدم ہیں اور جنگ وجدال کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے انحراف کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 191


وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹۱﴾
یعنی تمہیں نکالنا ہی کچھ کم جرم نہ تھا ، لیکن اللہ نے انھیں مہلت دی ، اب اگر یہ حج کی راہ بھی روکتے ہیں تو انھیں ام القریٰ مکہ سے اسی طرح نکال دو ، جس طرح انھوں نے تمہیں وہاں سے نکالا ہے۔ پھر جہاں پاؤ، قتل کردو ، اس لیے کہ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اب یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں رہے ۔ اِن آیات میں قتال کا جو حکم دیا گیا ہے ، یہ اس کی دلیل بیان ہوئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ہرچند حرم کے پاس اور حرام مہینوں میں قتال ایک بڑی ہی سنگین بات ہے ، لیکن فتنہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ فتنہ کا لفظ یہاں کسی کو ظلم و جبر کے ساتھ اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے یا مذہب پر عمل سے روکنے کی کوشش کے لیے آیا ہے۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں ‘Persecution’ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن نے اسے جگہ جگہ اس معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ فی الواقع قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور اس میں انسانوں کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے آزادانہ فیصلے سے جو دین اور جو نقطہ نظر چاہیں ، اختیار کریں ۔ لہٰذا کوئی شخص یا گروہ اگر دوسروں کو بالجبر ان کا دین چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے تو یہ درحقیقت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کسی حرمت کے پامال کرنے میں پہل تمہاری طرف سے نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ مسجد حرام کے پاس اور حرام مہینوں میں قتال اگر ہوسکتا ہے تو صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اس کی ابتدا ان کی طرف سے ہوجائے۔ تم اس معاملے میں اپنی طرف سے ابتدا ہرگز نہیں کرسکتے۔ یعنی جو رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود اسے نہ مانیں، بلکہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیں اور حج جیسی عبادت کے لیے بھی وہ اگر واپس آنا چاہیں تو حرام مہینوں میں تلوار اٹھائیں اور ان کی راہ میں مزاحم ہو کر کھڑے ہوجائیں، ان کی سزا ایسی ہی سخت ہونی چاہیے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 192


فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۹۲﴾
باز آجانے سے مراد محض جنگ سے رک جانا نہیں ہے ، بلکہ اپنے اس کفر اور سرکشی سے باز آجانا ہے جس کی سزا اوپر بیان ہوئی ہے۔ اس کے بغیر ، ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کے مستحق نہیں ہوسکتے تھے۔


 
Top