• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 2 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 172


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾
جو چیزیں باپ دادا کے زمانے سے حرام چلی آرہی ہوں، انھیں کھانے کے لیے تیار ہوجانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ قرآن نے اسی کے پیش نظر مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اس طرح کے اوہام سے نکل کر جو کچھ اللہ نے حلال ٹھیرایا ہے، اسے بغیر کسی تردد کے کھاؤ اور پیو۔ اس کی بندگی اور شکرگزاری کا تقاضا یہی ہے اور تمہیں یہ تقاضا ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 173


اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۷۳﴾
کھانے اور پینے کی چیزوں میں قرآن نے اصلاً یہ چار ہی چیزیں حرام قرار دی ہیں۔ ان کے علاوہ جو چیزیں کھانے کے لیے موزوں نہیں سمجھی جاتیں، وہ ممنوعات فطرت ہیں۔ انسان ہمیشہ سے جانتا ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ اسے معلوم ہے کہ گھوڑے اور گدھے دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، بلکہ سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اِن جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ نشہ آور چیزوں کی غلاظت کو سمجھنے میں بھی اس کی عقل عام طور پر صحیح فیصلہ کرتی ہے۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے اس معاملے میں انسان کو اصلاً اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں، جلالہ اور پالتو گدھے وغیرہ کا گوشت کھانے کی جو ممانعت روایت ہوئی ہے، وہ اسی فطرت کا بیان ہے۔ شراب کی ممانعت سے متعلق قرآن کا حکم بھی اسی قبیل سے ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہوجاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا عام مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ شریعت نے اس طرح کی کسی چیز کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حرمت و حلت کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کرلینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن وہ درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ پھر اسے کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا ؟ وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مرجائیں تو ان کا حکم کیا ہونا چاہیے ؟ اِنھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال و طیب قرار دیا جائے گا ؟ یہ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کردیے جائیں تو کیا پھر بھی حلال ہی رہیں گے ؟ اِن سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ ‘۔ ان میں ’ بَاغٍ ‘ ’ بغی یبغی ‘ سے اسم فاعل ہے۔ اس پر ’ عَادٍ ‘ کے عطف سے واضح ہے کہ اس کے معنی یہاں چاہنے اور طلب کرنے ہی کے ہیں یہ اس حالت اضطرار کے لیے ایک رخصت ہے جو کھانے کی کوئی چیز میسر نہ آنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں حرام کے استعمال پر عقوبت اٹھالی گئی ہے، ’ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘ کے الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے۔ یہی حکم ظاہر ہے کہ حالت اکراہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ ضرورت پیش آجانے پر آدمی اس رخصت سے فائدہ اٹھائے اور عزیمت کے جوش میں خواہ مخواہ اپنی جان کو مشقت میں نہ ڈالے۔ تیمم، قصر اور جرابوں پر مسح وغیرہ کے بارے میں نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا جو اسوہ روایتوں میں بیان ہوا ہے، اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ تاہم بعض حالات میں آدمی کے ایمان کا تقاضا اس سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں. ”۔۔ لیکن بعض شکلیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جب ایک غیرت مند مسلمان کے شایان شان بات یہی ہوتی ہے کہ وہ جان تو دے دے، لیکن حرام کو ہاتھ لگانا گوارا نہ کرے۔ مثلاً ، اگر کسی جگہ فساق و فجار کے صاحب اختیار ہونے کی وجہ سے حرام و حلال کی تمیز اٹھ گئی ہو اور آدمی کوئی حرام چیز کھانے پر مجبور کیا جائے تو اس کے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ وہ عزیمت کی راہ اختیار کرے اور دوسروں کے ایمان کو زندہ کرنے کے لیے اپنی زندگی قربان کر دے۔ یہ بازی کھیل کر وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ ان شاء اللہ اپنی غیرت ایمانی اور احترام حقوق شریعت الٰہی کے صلے میں شہادت کا مقام حاصل کرے گا۔ کم از کم علما و مصلحین کے لیے تو ایسے حالات کے اندر یہی روش بہتر ہے۔ حضرات صحابہ نے مکہ کی ابتدائی زندگی میں جو تکلیفیں کلمہ توحید کی خاطر اٹھائی ہیں، وہ کس سے مخفی ہیں ؟ کتنے اصحاب نے اعداے توحید کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا اور زندگی تو سب ہی حضرات کی خطرے میں رہی، لیکن ان میں سے کسی ایک صحابی کے متعلق بھی ہمارے علم میں یہ بات نہیں آئی کہ انھوں نے جان بچانے کی خاطر کلمہ کفر زبان سے نکالا ہو، حالانکہ قرآن میں اس بات کی صریح اجازت موجود تھی کہ اکراہ کی صورت میں آدمی جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ سکتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٢٠) مسلم، رقم ٤٩٩٤۔ نسائی، رقم ٤٤٥٢۔ بخاری، رقم ٤٢١٦۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 174


اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَشۡتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۚۖ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۷۴﴾

یہ اس لیے فرمایا ہے کہ دین بیچ کر اگر دنیا کے سارے خزانے بھی مل جائیں تو وہ ایک متاع حقیر ہی ہیں۔بات نہ کرنے کے معنی لطف و عنایت کی بات نہ کرنے کے ہیں۔ یہود کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے واسطے سے انھیں صدیوں تک شرف تکلم سے نوازا۔ اس کا تقاضا تھا کہ وہ خدا کے کلام کی قدر کرتے اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا چرچا پھیلاتے۔ لیکن اس کے برعکس جو رویہ انھوں نے اس کے ساتھ اختیار کیا، اس کا نتیجہ یہی نکلنا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں اپنے شرف تکلم سے محروم کر دے۔اِس سے مراد وہ پاکیزگی ہے جو اللہ تعالیٰ ایمان کے صلے میں اپنے بندوں کو ان کے گناہوں سے درگذر کر کے یا تھوڑی بہت سزا دے کر خاص اپنی رحمت سے عطا فرمائیں گے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 175


اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی وَ الۡعَذَابَ بِالۡمَغۡفِرَۃِ ۚ فَمَاۤ اَصۡبَرَہُمۡ عَلَی النَّارِ ﴿۱۷۵﴾
اصل الفاظ ہیں : ’ فَمَآ اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ ‘ ۔ یہ ’ ما احسن ‘ کی طرح اظہار تعجب کا اسلوب ہے
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 176


ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِی الۡکِتٰبِ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۱۷۶﴾٪
یعنی دین و شریعت کے بارے میں نہایت واضح اور قطعی ہدایت کے ساتھ اتاری ہے۔ لہٰذا حق و باطل اور حرام و حلال کے باب میں اب کوئی ابہام نہیں رہا۔ اصل میں ’ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ شِقَاق ‘ کے معنی مخالفت اور عناد کے ہیں۔ اس کے ساتھ جب ’ بَعِیْد ‘ کی صفت آئے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص مخالفت اور ضدم ضدا میں اتنی دور نکل گیا ہے کہ اسے نہ اپنے نفع و نقصان کا ہوش رہا ہے اور نہ اس نے وہاں سے پلٹنے اور تلافی مافات کرنے کی کوئی گنجایش اپنے لیے باقی رہنے دی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 177


لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾
اصل میں لفظ ’ الْبِرّ ‘ استعمال ہوا ہے۔ امام فراہی کی تحقیق کے مطابق اس کا اصل مفہوم کسی کے حق کو پورا کرنا ہے۔ اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جو انسان کے وجود ہی سے اس پر عائد ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ کے ، ماں باپ کے اور اس کے بندوں کے حقوق اور وہ بھی جو معاہدات، قول وقرار اور حلف وولا سے پیدا ہوتے ہیں۔ لفظ کی اس وسعت کے باعث وہ تمام نیکیاں اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتی ہیں جو عدل یا احسان کے زیر عنوان بیان کی جاسکتی ہیں۔ اردو زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو اس کے اس پورے مفہوم کو ادا کر دے۔ وفا داری کا لفظ ، ہمارے نزدیک لفظ کی اصل روح ایک حد تک ادا کردیتا ہے ۔ یہ یہود و نصاریٰ پر تعریض ہے جنھوں نے توراۃ و انجیل کی اصل تعلیمات تو طاق نسیاں پر رکھ دی تھیں ، لیکن اس پر لڑنے مرنے کے لیے تیار تھے کہ قبلہ مشرق کی طرف ہونا چاہیے یا مغرب کی طرف۔ معلوم ہوتا تھا کہ سارے دین کا انحصار ان کے نزدیک ، بس اسی ایک مسئلے پر ہے۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے الفاظ میں ، گویا مچھروں کو چھانتے اور اونٹوں کو نگلتے تھے۔ اِس مفہوم کے لیے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، ان میں ایک مضاف عربیت کی رو سے حذف ہوگیا ہے۔ یعنی ’ برمن آمن ‘۔ یعنی بغیر کسی شائبہ شرک کے اپنے آپ کو پورا کا پورا اپنے پروردگار کے حوالے کردیں۔ یعنی اس بات کو تسلیم کریں کہ مرنے کے بعد وہ لازماً اٹھائے جائیں گے ، ایمان و عمل صالح کے سوا وہاں کوئی چیز ان کے کام نہ آئے گی ، اپنے ہر قول و فعل کے لیے وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے اور اذن خداوندی کے بغیر وہاں کسی کو یارا نہ ہوگا کہ ان کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ دے ۔ یعنی یہ مانیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک معصوم اور قدسی صفت مخلوق ہیں ، اس کی ہدایت انسانوں کو پہنچاتے ہیں، اس میں پوری طرح امین اور قابل اعتماد ہیں اور قضا و قدر کے فیصلے ان کے ذریعے سے نافذ کیے جاتے ہیں۔ فرشتوں پر یہ ایمان ، اگر غور کیجیے تو بےحد ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کو خدا کی ہدایت اگر انبیاء و رسل کے ذریعے سے ملتی ہے تو ان انبیاء و رسل تک یہ ہدایت بالعموم انھی فرشتوں کے ذریعے سے پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہی ایک ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہوت اور عالم ناسوت ، دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں۔ اپنی نورانیت کے باعث یہ تجلیات الٰہی کے بھی متحمل ہوجاتے ہیں اور مخلوق ہونے کے لحاظ سے انسانوں کے ساتھ بھی اتصال پیدا کرلیتے ہیں۔ چنانچہ جس طرح نوح ، ابراہیم، موسیٰ اور یوحنا و مسیح ہمارے لیے خدا کے رسول ہیں ، اسی طرح فرشتے ان رسولوں کے لیے خدا کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اور صحائف انھی فرشتوں کے ذریعے سے انبیاء و رسل پر نازل کیے ہیں اور زمین پر اس کی دینونت بھی ہمیشہ انھی کے ذریعے سے برپا ہوئی ہے۔ یعنی اس بات پر ایمان لائیں کہ انبیاء (علیہم السلام) جس چیز کو کتاب الٰہی کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا صحیفہ ہدایت ہے۔ اللہ نے اسے حق و باطل کے لیے کسوٹی بنا کر نازل کیا ہے ، اور اس لیے نازل کیا ہے کہ دین کے معاملے میں لوگ ٹھیک انصاف پر قائم ہوجائیں ۔ یعنی یہ تسلیم کریں کہ انبیاء انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے مامور اور واجب الاطاعت ہادی ہیں ، ان کا علم بےخطا ہے ، ان کا عمل زندگی کے لیے اسوہ ہے اور ان کی اطاعت ، اتباع اور محبت ہر شخص کے لیے ضروری ہے ۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ‘۔ اس کے معنی عربیت کی رو سے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اس نے اپنا مال خدا کی محبت میں خرچ کیا ہے ، لیکن ہمارے نزدیک وہ معنی قابل ترجیح ہیں جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے نظائر سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ سورة آل عمران (٣) کی آیت ٩٢ اور سورة حشر (٥٩) کی آیت ٩ میں قرآن نے صراحت کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کی وفاداری کا اعلیٰ مرتبہ انسان کو اس مال کے خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے جو اسے محبوب ہو ۔ یہاں بھی یہی بتایا جا رہا ہے کہ یہ مرتبہ انسان کو کس قسم کے انفاق سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا موقع کلام کا تقاضا ہے کہ اسی مفہوم کو ترجیح دی جائے۔ انفاق کے مصارف میں سب سے پہلے قرابت مندوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے اعزہ و اقربا اگر ضرورت مند ہوں تو اس کی اعانت کے سب سے زیادہ مستحق وہی ہیں۔ یہ قرابت مندوں کے بعد معاً یتیموں کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اپنے عزیزوں کے بعد آدمی کی پہلی نظر ان بچوں پر پڑنی چاہیے جو باپ کے سایے سے محروم ہوچکے ہیں اور جن کی کفالت کی ذمہ داری اب شرعاً و عرفاً معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔ یعنی وہ لوگ جو اپنی ضرورت لے کر کسی کے پاس آجائیں ۔ مساکین کے بعد ان کے مستقل ذکر سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو شخص مانگنے کے لیے آجائے ، اس کے متعلق زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ فی الواقع مستحق ہے یا نہیں ہے۔ ہمارا حق صرف یہ ہے کہ مدد کرسکتے ہوں تو مدد کریں ، ورنہ شایستہ انداز سے اس کے سامنے اپنی معذرت پیش کردیں۔ اِس سے مراد غلاموں کی گردنیں ہیں اور یہ قرآن کی انھی ہدایات میں سے ہے جو اس نے غلامی کے رواج کو بتدریج ختم کرنے کے لیے دی ہیں۔ اس زمانے میں کوئی شخص اگر کسی ضرورت مند کو اس کے قرض ، تاوان یا اس طرح کی کسی دوسری مصیبت سے نجات دلائے تو یہ بھی ان شاء اللہ اسی درجے کی نیکی ہوگی ۔ ایمان و انفاق کے بعد یہ نماز اور زکوۃ کا ذکر ان دونوں کے قانونی اور عملی مظاہر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ایمان کی عظیم حقیقت عملاً نماز سے ظاہر ہوتی ہے اور انفاق کی عظیم حقیقت زکوۃ سے۔ یہ ان دونوں کا کم سے کم تقاضا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصلی حق اٹھتے بیٹھتے خدا کے ذکر اور اس کی راہ میں فیاضانہ انفاق سے ادا ہوتا ہے ۔ یہ قیداِن وفا پرستوں کے عزم و استقلال کو ظاہر کرتی ہے، یعنی جب کوئی عہد کر بیٹھتے ہیں تو خواہ کچھ ہوجائے ، بڑے سے بڑا نقصان اٹھا کر اور جان کی بازی لگا کر بھی وہ اسے پورا کرتے ہیں۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ ‘۔ ان میں ، اگر غور کیجیے تو اسلوب کلام دفعتاً بدل گیا ہے۔ اس سے پہلے ایمان، انفاق، نماز اور زکوۃ کا ذکر فعل کے صیغوں میں تھا ۔ یہ انھی پر معطوف ہے ، لیکن اسم فاعل کی صورت میں ہے۔ پھر آگے ’ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ ‘ میں ایک اور تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ ’ الْمُوْفُوْنَ ‘ پر معطوف ہونے کے باوجود وہ ’ الصّٰبِرُوْنَ ‘ کے بجائے ’ الصّٰبِرِیْنَ ‘، یعنی حالت نصب میں ہوگیا ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ” عربی زبان کے طلبہ اس بات سے واقف ہیں کہ عربی میں فعل کے صیغے تو صرف کسی فعل کے وقوع کو ظاہر کرتے ہیں ، لیکن صفت کے صیغے کسی مستقل صفت، کسی خصلت اور کسی کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر ایک عزم و جزم کی روح بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ سلسلہ کلام میں اگر کسی صفت کا ذکر بغیر کسی ظاہری سبب کے حالت نصب میں ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ متکلم اس پر خاص طور پر زور دینا چاہتا ہے۔ ہمارے اہل نحو اس بات کو ’ علی سبیل المدح ‘ یا ’ علی سبیل الاختصاص ‘ کی اصطلاح میں تعبیر کرتے ہیں۔ مثلاً یہاں ’ مُوْفُوْنَ ‘ کے بعد دفعتاً اس سے بالکل مختلف اسلوب میں ’ الصّٰبِرِیْنَ ‘ جو آگیا تو اس سے معنی میں یہ اضافہ ہوجائے گا کہ گویا متکلم یہ کہنا چاہتا ہے کہ ’ انا اخص بالذکر الصابرین ‘ میں صابرین کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں ۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٢٧) اِس سے معلوم ہوا کہ دین میں اصل اہمیت کی چیز سیرت و کردار ہے۔ یہی دین کا مغز اور اس کی روح ہے۔ آزمائش کا اصلی میدان بھی یہی ہے۔ انسان کو انفرادی زندگی میں یہی چیز بروتقویٰ کے مقام پر فائز کرتی ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی یہی اسے صالحین و ابرار کے زمرے کا آدمی بناتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہوا کہ اسے خاص اہتمام کے ساتھ بیان کیا جائے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کے متعلق ایک اہم نکتہ اور بھی واضح فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ” ایک سوال یہاں اور بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ یہاں سیرت و کردار سے متعلق صرف دو ہی چیزوں کا ذکر فرمایا : ایک ایفاے عہد کا ، دوسری صبر کا ۔ اس فہرست میں اور بھی چیزیں شامل ہوسکتی تھیں ، آخر ان کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں درحقیقت سیرت و اخلاق سے متعلق تمام اجزا کے لیے بمنزلہ شیرازہ ہیں۔ ایفاے عہد کے اندر تمام چھوٹے بڑے حقوق و فرائض آجاتے ہیں ، خواہ وہ خلق سے متعلق ہوں یا خالق سے ؛ خواہ وہ کسی تحریری معاہدے سے وجود میں آتے ہوں یا کسی نسبت، تعلق ، رشتہ داری اور قرابت سے ؛ خواہ ان کا اظہار و اعلان ہوتا ہو یا وہ ہر اچھی سوسائٹی میں بغیر کہے ہوئے سمجھے اور مانے جاتے ہوں۔ اللہ اور رسول ، ماں اور باپ ، بیوی اور بچے ، خویش و اقارب ، کنبہ اور خاندان، پڑوسی اور اہل محلہ، استاد اور شاگرد ، نوکر اور آقا، ملک اور قوم ، ہر ایک کے ساتھ ہم کسی نہ کسی ظاہری یا مخفی معاہدے کے تحت بندھے ہوئے ہیں اور یہ برو تقویٰ کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ ان تمام معاہدوں کے حقوق ادا کرنے والے بنیں ۔ گویا ایفاے عہد کی اصل روح ایفاے حقوق ہے اور ایفاے حقوق انسان کے تمام چھوٹے بڑے فرائض کو محیط ہے۔ اِس کے ساتھ صبر کی صفت کو جمع کر کے یہ واضح فرما دیا کہ ہر وہ مزاحمت جو ایفاے حقوق کی اس راہ میں حائل ہو ، مومن عزیمت و استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے اور کسی حال میں بھی طمع، پست ہمتی یا خوف سے مغلوب نہ ہو۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٢٨) یہی تین حالتیں ہیں جن میں انسان کے عزم و استقلال کی آزمائش ہوتی ہے۔ ان میں اگر کوئی شخص ثابت قدم رہے تو یقیناً بر وتقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ قرآن نے آگے یہی کہا ہے اور اس طرح یہ بات واضح کردی ہے کہ جو لوگ چند ظاہری رسوم سے خدا کی وفاداری کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں ، ان کے پاس نہ تقویٰ ہے اور نہ وہ اپنے عہد وفا میں سچے ہیں۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 178


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۷۸﴾
قصاص ’ قصص ‘ سے ہے جس کے اصل معنی کسی کے پیچھے اس کے نقش قدم کے ساتھ چلنے کے ہیں۔ اسی سے یہ اس سزا کے لیے استعمال ہوا جس میں مجرم کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہے ۔ اِس حکم کا تعلق مسلمانوں کے پورے معاشرے سے ہے۔ ’ کُتِبَ عَلَیْکُمْ ‘ کا مخاطب وہی ہے۔ چنانچہ یہ فرض معاشرے کے نظم اجتماعی پر عائد ہوتا ہے کہ اس کے دائرہ اختیار میں اگر کوئی قتل ہوجائے تواس کے قاتلوں کا سراغ لگائے، انھیں گرفتار کرے اور قانون کے مطابق ان سے قصاص لے۔ یہ اس بےلاگ انصاف اور کامل مساوات کا بیان ہے جو قصاص میں لازماً ملحوظ رکھی جائے گی ۔ قرآن کے اس حکم نے قدیم و جدید جاہلیت کی تمام ناانصافیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ ا دنیٰ و اعلیٰ ، امیر و غریب، شریف و وضیع اور آقاو غلام ، سب کو ایک ہی آدم و حوا کی اولاد مان کر اس معاملے میں بالکل ایک ہی سطح پر رکھا جائے گا ۔ کسی شخص کا معاشرتی اور سماجی مرتبہ ہرگز کسی ترجیح کا باعث نہ بنے گا اور قانون و عدالت ہر ایک کے ساتھ بالکل یکساں معاملہ کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں قصاص لینا فرض نہیں رہے گا۔ عدالت چاہے تو اس پر اصرار کرسکتی ہے، لیکن مقتول کے اولیا اگر جان کے بدلے میں جان کا مطالبہ نہ کریں اور مجرم کے ساتھ نرمی برتنے کے لیے تیار ہوجائیں تو جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کے پیش نظر وہ اسے کوئی کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ اس کے لیے اصل میں ’ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ عُفِیَ ‘ کے معنی معاف کردینے کے ہیں اور جملے کی تالیف ہمارے نزدیک یہ ہے : ’ فمن عفی لہ من اخیہ شیء من العفو ۔ ‘ یعنی اگر مقتول کے وارثوں کی طرف سے قاتل کو کچھ چھوٹ دے دی گئی۔ اس کی جو صورت یہاں مراد ہے، وہ یہ ہے کہ جان کے بدلے جان کے بجائے وہ خون بہا لینا قبول کرلیں ۔ آگے ’ اَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ‘ کے الفاظ سے یہ معنی بالکل واضح ہوجاتے ہیں۔ یہ رعایت ، اگر غور کیجیے تو نہایت حکیمانہ ہے۔ مجرم کے لیے معافی کا فیصلہ کرتے وقت مقتول کے اولیا کی مرضی کو اہمیت دی جائے تو یہ چیز نہ صرف یہ کہ ان کی آتش انتقام بجھا دیتی ہے، بلکہ قتل جیسے جرائم کے مسموم معاشروں میں اس زہر کا تریاق بن جاتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل جانے سے ایک تو ان کے بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوتی ہے ، دوسرے اگر اس صورت میں یہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اس کے خاندان پر یہ ان کا براہ راست احسان ہوتا ہے جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہوسکتی ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٣٣)
اصل الفاظ ہیں : ’ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ ‘۔ لفظ ’ مَعْرُوْف ‘ قرآن میں بھلائی اور خیر کے معنی میں بھی آیا ہے اور رواج اور دستور کے معنی میں بھی ۔ یہاں ’ اَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ‘ کے الفاظ اس کے بعد دلیل ہیں کہ یہ دوسرے معنی میں ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ قرآن نے دیت کی کوئی خاص مقدار خود متعین کردینے کے بجائے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے میں معاشرے کے دستور کی پیروی کریں ۔ قرآن کے اس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی دستور کا پابند ہے۔ جس معاشرے میں دیت کا کوئی قانون پہلے سے موجود نہیں ہے ، وہاں مسلمانوں کے ارباب حل و عقد کو اختیار ہے کہ چاہیں تو عرب کے اس دستور کو برقرار رکھیں جس کے مطابق نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے زمانے میں دیت کے فیصلے کیے اور چاہیں تو اس کی کوئی دوسری صورت تجویز کریں ۔ وہ جو صورت بھی اختیار کریں گے ، معاشرہ اسے قبول کرلیتا ہے تو اس کے لیے وہی دستور قرار پائے گی اور اس کے مطابق دیت ادا کردینے سے قرآن کا منشا یقیناً پورا ہوجائے گا ۔ یہ خوبی کے ساتھ دیت ادا کرنے کا حکم جس وجہ سے دیا ہے ، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”۔۔ حسن و خوبی کے ساتھ ادائیگی کی تاکید اس لیے فرمائی کہ عرب میں دیت کی ادائیگی بالعموم نقد کی صورت میں نہیں ، بلکہ جنس و مال کی شکل میں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے اگر ادائیگی کرنے والوں کی نیت اچھی نہ ہوتی تو وہ اس میں بہت کچھ چالیں چل سکتے تھے۔ یہ بات بڑی آسانی سے ممکن ہے کہ اونٹوں یا بکریوں کی تعداد یا غلہ اور کھجور کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے تو دیت کا مطالبہ پورا کردیا جائے ، لیکن باعتبار حقیقت و کیفیت اس کی حیثیت محض خانہ پری ہی کی ہو ۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ان لوگوں کے احسان کی کوئی قدر نہیں کی گئی جنھوں نے ایک شخص کی جان پر شرعی اختیار پا کر اس کو معاف کردیا اور اس کی طرف سے مال قبول کرلینے پر راضی ہوگئے۔ ان کے احسان کا جواب تو احسان ہی ہونا چاہیے۔ یعنی دیت کی ادائیگی اس خوبی ، فیاضی اور کشادہ دلی کے ساتھ کی جائے کہ ان کو یہ صدمہ نہ اٹھانا پڑے کہ انھوں نے اپنے ایک عزیز کے خون کے بدلے میں بھیڑ بکریاں قبول کر کے کوئی غلطی یا بےغیرتی کی ۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٣٤) مطلب یہ ہے کہ حرمت جان کا اصل حق تو یہی تھا کہ جان کے بدلے جان لی جاتی ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے کہ اس نے اس معاملے میں رعایت فرما دی ہے۔ لہٰذا اب اس رعایت سے کسی شخص کو کوئی غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ اِس کی تفسیر میں استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اس میں قاتل اور اس کے خاندان والوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد یہ انتہائی کفران نعمت ہوگا کہ اس کے پردے میں مقتول کے خاندان پر کسی نئے ظلم کے لیے اسکیم بنائی جائے۔ مثلاً یہ کہ قاتل اور اس کے اعزہ یہ منصوبہ بنائیں کہ اس وقت تو کسی طرح مقتول کے ورثا کو راضی کر کے اپنی جان بچا لو ، پھر موقع پیدا کر کے اس کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔ اسی طرح اس میں مقتول کے وارثوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ انھیں اپنے دل میں یہ منصوبہ رکھ کے دیت کا راضی نامہ نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت تو قاتل سے دیت لے لیتے ہیں ، بعد میں موقع ملنے پر اس کی جان بھی ٹھکانے لگا دیں گے۔ خدا کی بخشی ہوئی ایک رعایت کے تحت جو راضی نامہ ہوگیا ہے ، دونوں فریقوں کو سچے دل سے اس کا احترام کرنا چاہیے۔ جو بھی یہ راضی نامہ ہو چکنے کے بعد کوئی زیادتی کرے گا ، وہ اللہ کے غضب کا مستحق ٹھیرے گا ۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٣٤)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 179


وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾
قرآن نے خاص طور پر اہل عقل کو مخاطب کر کے اس قانون کی حکمت بیان فرمائی ہے تاکہ لوگ نہ قصاص کے معاملے میں کسی سہل انگاری، چشم پوشی ، جانب داری اور بےجا رحم و مروت کو حائل ہونے دیں اور نہ جذبات سے مغلوب ہو کر جرم و سزا کے معاملے میں اس طرح کے فلسفے پیش کرنے کی جسارت کریں جو اس زمانے میں بعض لوگوں نے مجرموں کی وکالت کرتے ہوئے پیش فرمائے ہیں۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :”۔۔ یہ زندگی فرد کے لحاظ سے نہیں، بلکہ معاشرے کے لحاظ سے ہے۔ اگر ایک شخص قتل کے جرم میں قتل کردیا جاتا ہے تو بظاہر تو ایک جان کے بعد یہ دوسری جان بھی گویا تلف ہی ہوتی ہے ، لیکن حقیقت کے اعتبار سے اگر دیکھیے تو اس کے قتل سے پورے معاشرے کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس سے قصاص نہ لیا جائے تو یہ جس ذہنی خرابی میں مبتلا ہو کر ایک بےگناہ کے قتل کا مرتکب ہوا ہے ، وہ خرابی پورے معاشرے میں متعدی ہوجائے۔ بیماری اور بیماری میں فرق ہوتا ہے۔ جو بیماریاں قتل ، ڈکیتی، چوری اور زنا وغیرہ جیسے خطرناک جرائم کا سبب بنتی ہیں ، ان کی مثال ان بیماریوں کی ہے جن میں پورے جسم کو بچانے کے لیے بسا اوقات جسم کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردینا پڑتا ہے۔ اگرچہ کسی عضو کو کاٹ پھینکنا ایک سنگ دلی کا کام معلوم ہوتا ہے ، لیکن ایک ڈاکٹر کو یہ سنگ دلی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اگر وہ طبیعت پر جبر کر کے یہ سنگ دلی اختیار نہ کرے تو اس ایک عضو کی ہم دردی میں اسے مریض کے پورے جسم کو ہلاکت کے حوالے کرنا پڑے گا. معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس جسم کے بعض اعضا میں بھی بسا اوقات اسی قسم کا فساد و اختلال پیدا ہوجاتا ہے جس کا علاج مرہم و ضماد سے ممکن نہیں ہوتا، بلکہ عضو مریض پر آپریشن کر کے اس کو جسم کے مجموعے سے الگ کردینا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ یہ عضو مریض ہے ، اس وجہ سے نرمی اور ہم دردی کا مستحق ہے تو اس نرمی کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ایک دن یہ عضو سارے جسم کو سڑا اور گلا کر رکھ دے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٣٦)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 180


کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۸۰﴾ؕ
وصیت کے لیے یہ دو شرطیں اس لیے عائد کی ہیں کہ جو لوگ اپنی چلتی پھرتی زندگی میں وصیت کردیتے ہیں ، ان کے لیے بسا اوقات بڑی الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں اور جو لوگ مال رکھتے ہوئے اس معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں ، وہ بارہا اپنے پیچھے بڑے جھگڑے چھوڑ جاتے ہیں۔ پہلی شرط کا ذکر اصل میں ’ اِذَا ‘ کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے کہ موت سب کو آنی ہے اور دوسری کا ذکر ’ اِنْ ‘ کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے کہ مال ہر شخص کے پاس نہیں ہوتا۔ ’ اِنْ ‘ اور ’ اِذَا ‘ کا یہ فرق عربی زبان کے طلبہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ مال کے لیے اس آیت میں ’ خَیْر ‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے اصلی معنی مرغوب اور مطلوب چیز کے ہیں۔ اس طرح قرآن نے گویا بالواسطہ طریقے پر بتادیا ہے کہ مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں ہے ، بلکہ علم و دانش کی طرح ایک خیر ہے جس کی تمنا اگر آدمی کے دل میں پیدا ہو اور وہ اس کے لیے جدوجہد بھی کرے تو اسے کسی طرح ناپسندیدہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ لوگ بالعموم اولاد ہی کو اپنے ترکے کا وارث سمجھتے تھے۔ والدین اور دوسرے اعزہ کے لیے کوئی حصہ اس میں نہیں مانتے تھے۔ وصیت کا یہ حکم ان وارثوں کے لیے باقی نہیں رہا جن کے حصے اللہ تعالیٰ نے سورة نساء (٤) میں اس کے بعد خود متعین فرما دیے ہیں۔ تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وارثوں کی کوئی ضرورت یا ان میں سے کسی کی کوئی خدمت یا اس طرح کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے تو اس صورت میں بھی ان کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح کی وصیت کی جاسکتی ہے، مگر رشتہ داری کی بنیاد پر کوئی وصیت نہیں کی جاسکتی۔ اولاً ، اس لیے کہ نساء کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ حصے اس نے خود اس لیے متعین فرمائے ہیں کہ لوگ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ ان کے وارثوں میں سے کون بہ لحاظ منفعت ان سے قریب تر ہے۔ لہٰذا اب اگر کوئی شخص ان وارثوں کے لیے وصیت کرتا ہے تو وہ گویا اپنے عمل سے یہ کہتا ہے کہ میں یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ کرسکتا ہوں ، بلکہ اس فیصلے سے بہتر کرسکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ثانیاً ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں ان حصوں کو اپنی وصیت قرار دیا ہے جس کے بعد اگر وصیت کی جائے تو یہ گویا اللہ کی وصیت کے مقابلے میں اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت ہے۔ ثالثاً ، اس لیے کہ اسی سورة نساء کی آیت ٧ میں ان حصوں کو ’ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا ‘ کہا گیا ہے جنھیں، ظاہر ہے کہ کوئی وصیت اب کسی طرح باطل نہیں کرسکتی۔ چنانچہ یہ بات تو بالکل قطعی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وارثوں کی حد تک عام حالات میں وصیت کا یہ حکم سورة نساء کی آیات سے منسوخ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ جب دیا گیا تو اس سے کیا چیز پیش نظر تھی ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں۔” اس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے جو وصیت کا حکم دیا گیا ، وہ معروف کے تحت تھا اور اس عبوری دور کے لیے تھا جب کہ اسلامی معاشرہ ابھی اس استحکام کو نہیں پہنچا تھا کہ تقسیم وراثت کا وہ آخری حکم دیا جائے جو سورة نساء میں نازل ہوا ۔ اس حکم کے نزول کے لیے حالات کے ساز گار ہونے سے پہلے یہ عارضی حکم نازل ہوا اور اس سے دو فائدے پیش نظر تھے : ایک تو فوری طور پر ان حصہ داروں کے حقوق کا ایک حد تک تحفظ جن کے حقوق عصبات کے ہاتھوں تلف ہو رہے تھے ، اور دوسرے اس معروف کو از سر نو تازہ کرنا جو شرفاے عرب میں زمانہ قدیم سے معتبر تھا، لیکن اب وہ آہستہ آہستہ جاہلیت کے گرد و غبار کے نیچے دب چلا تھا تاکہ یہ معروف اس قانون کے لیے ذہنوں کو ہموار کرسکے جو اس باب میں نازل ہونے والا تھا۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٣٩) اصل الفاظ ہیں : ’ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ‘۔ ان میں ’ حَقًّا ‘ مصدر موکد ہے، یعنی ’ حق ذلک حقًّا ‘۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 182


فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۸۲﴾٪
اصل میں ’ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ جَنَف ‘ کے معنی مائل ہونے کے ہیں، لیکن یہ زیادہ تر نیکی اور حق سے ہٹ کر برائی اور ظلم کی طرف مائل ہونے کے لیے آتا ہے۔ آیت میں یہ ٹھیک اس مفہوم میں آیا ہے جس مفہوم میں ہم جانب داری کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے مقابل میں ’ اِثْم ‘ ہے جو اداے حقوق میں پیچھے رہ جانے کے لیے آتا ہے۔ اس کا مفہوم ، ظاہر ہے کہ یہاں حق تلفی کا ہوگا ۔ اصل میں لفظ ’ خَوْف ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی اس آیت میں اندیشہ کرنے کے ہیں۔ عربی زبان میں یہ اصلاً گمان کرنے ، خیال کرنے ، توقع کرنے اور اندیشہ کرنے کے مفہوم ہی میں آتا ہے۔ استاذ امام نے کلام عرب سے بھی اس کی دلیل اپنی تفسیر میں پیش کردی ہے ۔ اصل الفاظ ہیں : ’ فَاَصْلَحَ بَیْنَھُمْ ‘۔ ان کا واضح مفہوم صلح کرا دینے کا ہے، بطور خود کوئی اصلاح کردینے کا نہیں ہے۔ لہٰذا اس ہدایت کا مقصد یہی تھا کہ اگر کوئی جانب داری یا حق تلفی ہوئی ہے تو وصیت میں مناسب تبدیلی کے لیے وارثوں میں مفاہمت کرا دی جائے۔
 
Top