ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶۳﴾٪ آیت ١٦٢ پر اس سورة کی دوسری فصل ختم ہوئی ۔ اس فصل میں ذریت ابراہیم ہی کی ایک شاخ بنی اسماعیل میں سے امت مسلمہ کی تاسیس کا اعلان ہوا۔ اب یہاں سے تیسری فصل شروع ہو رہی ہے جس میں اس امت کے لیے دین ابراہیمی کی تجدید کی جا رہی ہے۔ اس کی ابتدا توحید کے بیان سے ہوئی ہے اور اس کے بعد ایک مناسب ترتیب کے ساتھ امت کو شریعت کے وہ احکام دیے گئے ہیں جو اس سورة کے زمانہ نزول میں دینا موزوں تھے اور ان کے تحت ان بدعات کی تردید کی گئی ہے جو یہود اور مشرکین ، دونوں نے دین میں داخل کردی تھیں ۔ ’
الٰہ
‘ عربی زبان میں اس ہستی کے لیے آتا ہے جس کی عبادت کی جائے اور اسباب و علل سے ماورا جس سے مدد کی توقع کی جائے۔ لفظ
’ اللّٰہ ‘
اسی پر تعریف کا الف لام داخل کر کے بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مثبت اور منفی، دونوں پہلوؤں سے بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ میں سے رحمن اور رحیم کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ حوالہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بےہمگی کے تصور سے جو مایوسی پیدا ہوسکتی ہے ، اسے دور کر کے خلق کے ساتھ اس کے تعلق کو واضح کرتا ہے تاکہ انسان وسیلے اور واسطے تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے پروردگار ہی کی طرف لپکے اور اسی کے دامن رحمت میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے ، اور دوسری طرف یہ حوالہ اس کی صفت رحمت و شفقت کو نمایاں کر کے صفات الٰہی کے باب میں وہ صحیح نقطہ اعتدال متعین کردیتا ہے جہاں انسان خدا کے قہر و جلال سے محفوظ رہنے کے لیے اس کے مقربین تلاش نہیں کرتا ، بلکہ ہر مشکل میں بغیر کسی تردد کے اسی کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ یعنی ان کی پیدایش، ساخت ، نفع رسانی اور مقصدیت میں جو ان کے بنانے والے کی عظیم قدرت ، بےمثل حکمت، بےپایاں رحمت اور ہمہ گیر ربوبیت کو نمایاں کرتی ہے اور ان کی اس موافقت اور ساز گاری میں جو شہادت دیتی ہے کہ آسمان و زمین ، دونوں کا خالق ایک ہی ہے۔ ان کے اندر کسی دوسرے کے ارادے اور تصرف کو کوئی دخل نہیں ہے۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے یہ پورے نظم اور پابندی اوقات کے ساتھ اور اپنے مزاج ، اپنی فطرت اور اپنے اثرات و نتائج کے حیرت انگیز اختلافات صفحہ عالم پر بکھیرتے ہوئے آتے اور جاتے ہیں۔ اصل میں لفظ ’
الْفُلْک
‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع ، مذکر اور مونث سب کے لیے اسی صورت میں آتا ہے ۔ اصل میں لفظ ’
دَآبَّۃ
‘ آیا ہے۔ یہ جس طرح زمین پر چلنے والے جانوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح اگر قرینہ موجود ہو تو اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس معنی میں ہم ’ جان دار ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت میں چرند پرند ، بلکہ بنی نوع انسان بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ اسی دوسرے معنی میں ہے ۔ یعنی ہواؤں کے ان عجائب تصرفات میں جو بہاروخزاں ، ابروباراں اور نعمت و نقمت کی صورت میں ہر آن ایک نئی شان کے ساتھ نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ اصل میں ’
السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ تسخیر ‘ کے معنی ہیں تابع فرمان بنا کر بغیر کسی معاوضے کے کسی کی خدمت میں لگا دینا ۔ قرآن میں انسانوں کی نسبت سے جب بادوباراں اور مہ و آفتاب کی تسخیر کا ذکر آتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ سب چیزیں انسان کے ہاتھ میں مسخر ہیں یا وہ انھیں مسخر کرسکتا ہے ، بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ پروردگار عالم نے ان چیزوں کو مسخر کر کے اس کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ مضمون جگہ جگہ ’
سَخَّرَلَکُمْ ‘
کے الفاظ میں بیان ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا تابع فرمان بنا کر تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے ، یہ نہیں ہیں کہ ان کو تمہارا تابع فرمان بنادیا ہے ۔ یعنی اس بات کی نشانیاں ہیں کہ عالم کا معبود ایک ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ استاذ امام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ” اس آیت پر اگر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک اس کائنات کے متقابل، بلکہ متضاد اجزا و عناصر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس حیرت انگیز اتحادو توافق اور ان کی اس بےمثال بہم آمیزی و سازگاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان کے اندر اس کائنات کی مجموعی خدمت کے لیے پائی جاتی ہے۔ آسمان کے ساتھ زمین، رات کے ساتھ دن، کشتی کے ساتھ دریا۔ بظاہر دیکھیے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ضدین کی نسبت رکھتے ہیں ، لیکن ذرا گہری نگاہ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اگر یہ ایک طرف ضدین کی نسبت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خانہ آبادی کے نقطہ نظر سے آپس میں زوجین کا سا ربط و اتصال بھی رکھتے ہیں۔ یہ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے سورج اور چاند نہ ہوں تو ہماری زمین کی ساری رونقیں اور بہاریں ختم ہوجائیں، بلکہ اس کی ہستی ہی نابود ہوجائے۔ اسی طرح یہ زمین نہ ہو تو کون بتاسکتا ہے کہ اس فضاے لامتناہی کے بیشمار ستاروں اور سیاروں میں سے کس کس کا گھر اجڑ کے رہ جائے۔ علیٰ ہٰذا القیاس، ہماری اور ہماری طرح اس دنیا کے تمام جان داروں کی زندگی جس طرح دن کی حرارت، تمازت، روشنی اور نشاط انگیزی کی محتاج ہے، اسی طرح شب کی خنکی، لطافت، سکون بخشی اور خواب آوری کی بھی محتاج ہے۔ یہ دونوں مل کر اس گھر کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سمندر کو دیکھیے۔ اس کا پھیلاؤ کتنا ہوش ربا اور ناپیدا کنار ہے اور اس کی موجیں کتنی مہیب اور ہول ناک ہیں، لیکن دیکھیے اس سرکشی و طغیانی کے باوجود کس طرح اس نے عین اپنے سینہ پر سے ہماری کشتیوں اور ہمارے جہازوں کے لیے نہایت ہموار اور مصفا سڑکیں نکال رکھی ہیں جن پر ہمارے جہاز دن رات دوڑ رہے ہیں اور تجارت و معیشت، تمدن ومعاشرت اور علوم و فنون ، ہر چیز میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملائے ہوئے ہیں۔ آگے آسمان سے بارش اور اس بارش سے زمین کے ازسر نو باغ و بہار اور معمورو آباد ہوجانے کا ذکر ہے۔ غور کیجیے کہاں زمین ہے اور کہاں آسمان، لیکن اس دوری کے باوجود دونوں میں کس درجہ گہرا ربط و اتصال ہے۔ زمین اپنے اندر روئیدگی اور زندگی کے خزانے چھپائے ہوئے ہے، لیکن یہ سارے خزانے اس وقت تک مدفون ہی رہتے ہیں جب تک آسمان سے بارش نازل ہو کر ان کو ابھار نہیں دیتی۔ اسی طرح کا رشتہ بادلوں اور ہواؤں کے درمیان ہے۔ بادلوں کے جہاز لدے پھندے اپنے بادبان کھولے کھڑے ہیں، لیکن یہ اپنی جگہ سے ایک انچ سرک نہیں سکتے جب تک ہوائیں ان کو دھکے دے کر ان کی جگہ سے نہ ہلائیں اور ان کو ان کی مقرر کی ہوئی سمتوں میں آگے نہ بڑھائیں، یہ ہوائیں ہی ہیں جو ان کو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ہنکائے پھرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ، ان کو غائب کردیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں، ان کو افق پر نمودار کردیتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ غوروتدبر کی نگاہ اس دنیا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا یہ اضداد اور متناقضات کی ایک رزم گاہ ہے جس میں مختلف ارادوں اور قوتوں کی کشمکش برپا ہے یا ایک ہی حکیم ومدبر ارادہ ان سب پر حاکم و فرماں روا ہے جو ان تمام عناصر مختلفہ کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص نظام اور ایک مجموعی مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مشاہدے سے یہ دوسری ہی بات ثابت ہوتی ہے۔ پھر مزید غور کیجیے تو یہیں سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے، وہ یہ کہ دنیا آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ اس کے اندر جو ارتقا ہوا ہے، وہ آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے عناصر مختلفہ میں ایک بالاتر مقصد کے لیے وہ سازگاری کہاں سے پیدا ہوتی جو اس کائنات کے ہر گوشے میں موجود ہے۔ غور کیجیے تو یہ ایک ہی حقیقت ایک طرف شرک کے تمام امکانات کا سدِّباب کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ ڈارونزم کے بھی تمام وساوس کی جڑ کاٹ رہی ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٠١)
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕوَ لَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ ﴿۱۶۵﴾ یہ انداز کلام اظہار تعجب کا ہے۔ یعنی اس حماقت کے لیے کوئی گنجایش تو نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی اپنی عقل استعمال کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو تو اس کا کیا علاج ، اس کے لیے یہ سب نشانیاں بےمعنی ہوجائیں گی ۔ یعنی جب ان کے سامنے اللہ اور غیر اللہ کی محبت کے ایک دوسرے سے متضاد مطالبات آتے ہیں تو ان پر ہمیشہ اپنے پروردگار کی محبت غلبہ پاتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ محبت دوسروں سے بھی کی جاسکتی ہے ، لیکن اسے ہر حال میں اللہ کی محبت کے تابع ہونا چاہیے ، اس کے برابر یا اس سے بڑھ کر نہیں ہونا چاہیے۔ اُنھیں معلوم ہے کہ محبت الٰہی کو دوسری محبتوں پر مقدم رکھنا اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے ہے۔ اس میں کسی دوسرے کو اس کا شریک نہیں کیا جاسکتا۔ اصل میں جو حرف ’
لَوْ ‘
جملے کی ابتدا میں آیا ہے ، یہ اس کا جواب ہے جو عربی قاعدے کے مطابق حذف کردیا گیا ہے۔
’ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا
‘ اور اس کے بعد کے الفاظ اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔
اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ ﴿۱۶۶﴾ یہ اسی عذاب کی مزید وضاحت ہے جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔ عربیت کی رو سے یہ پچھلے جملے میں ’ اِ
ذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ
‘ کے الفاظ سے بدل واقع ہوا ہے۔ اصل میں لفظ ’
اَسْبَاب
‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’ سبب ‘ کی جمع ہے جس کے معنی رسی کے ہیں۔ اس کے اندر یہیں سے توسل کا مفہوم پیدا ہوا اور اس سے مزید وسیع ہو کر یہ کسی چیز کے متعلقات کے لیے استعمال ہونے لگا۔
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ ﴿۱۶۷﴾٪ اس سے ان کی وہ وفاداریاں اور قربانیاں مراد ہیں جو وہ اپنے ان باطل معبودوں اور گمراہ کرنے والے پیشواؤں کے لیے کرتے رہے۔
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۶۸﴾ اس سے معلوم ہوا کہ شرک اور تحلیل و تحریم، دونوں ایک دوسرے سے متعلق مضمون ہیں۔ چنانچہ اسی تعلق سے شرک کی تردید کے بعد اب یہ لوگوں کو خطاب کر کے تمام جائز اور پاکیزہ چیزیں کھانے کی تلقین فرمائی ہے۔ سورة انعام (٦) کی آیات ١٣٦ سے ١٤٥ اور مائدہ (٥) کی آیت ١٠٣ میں قرآن نے ان چیزوں کی تفصیل کی ہے جو شیطان کی پیروی میں مشرکین عرب نے اپنے مشرکانہ توہمات کے تحت حلال یا حرام ٹھیرائی تھیں۔ یہی معاملہ اہل کتاب کا تھا۔ وہ بھی اپنے فقہا و علما کی پیروی میں بہت سی چیزیں اسی طریقے سے حرام ٹھیرا چکے تھے۔مطلب یہ ہے کہ خدا کی جائز کی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھیرانے کی راہ تمہیں شیطان نے سجھائی ہے، اس کے لیے دین و شریعت میں کوئی سند نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے سجھائے ہوئے اس راستے پر نہ چلو۔ قرآن میں دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ شیطان نے شروع ہی سے یہ چیز اپنے پروگرام میں شامل کر رکھی ہے کہ وہ اس طرح کے توہمات پیدا کر کے لوگوں کو توحید کی راہ سے ہٹائے گا۔ ملاحظہ ہو : سورة نساء (٤) آیت ١١٩۔ یعنی ایسا دشمن ہے جو ابتدا ہی سے نہایت کھلے ہوئے الفاظ میں تمہارے خلاف اعلان جنگ کرچکا ہے۔ شیطان کا یہ اعلان سورة اعراف (٧) کی آیات ١٦۔ ١٧ میں نقل ہوا ہے۔
اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ الۡفَحۡشَآءِ وَ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ اصل میں لفظ
’ سُوْٓء ‘
استعمال ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ جس طرح بدی اور گناہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح مالی، جسمانی اور عقلی نقصانات اور مصائب کے لیے بھی آتا ہے۔ سورة آل عمران (٣) کی آیت ١٧٤ اور سورة نمل (٢٧) کی آیت ١٢ میں اس کی نظیر موجود ہے، لیکن یہاں اس پر
’ الْفَحْشَآء ‘
کا عطف اور اس کے لیے
’ یَاْمُرُکُمْ ‘
کا فعل دلیل ہے کہ یہ بدی اور گناہ ہی کے معنی میں ہے۔ اصل میں لفظ ’
اَمْر
‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ حکم دینے کے معنی میں بھی آتا ہے اور کوئی بات سجھانے یا اس کی ترغیب دینے کے معنی میں بھی۔ یہاں اس سے مراد شیطان کا ان باتوں کے لیے دلوں میں وسوسے ڈالنا اور انھیں نگاہوں میں کھبانا ہے۔ استاذ امام نے شیطان کی ان ترغیبات سے متعلق ایک خاص نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ” یہاں ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ رحمن اور شیطان کے احکام میں ایسا واضح اور محسوس عقلی و فطری امتیاز موجود ہے کہ کسی سلیم الفطرت اور خوش ذوق انسان کو ان کے درمیان کوئی گھپلا پیش نہیں آسکتا۔ اوپر والی آیت میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں کھانے پینے کے لیے جائز ٹھیرائی ہیں، وہ اپنے اثرات، اپنے ظاہر اور اپنے باطن کے لحاظ سے پاکیزہ، خوش گوار، معتدل، صحت بخش اور روح پرور ہیں۔ اس کے بالمقابل شیطان جن باتوں کو اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے، وہ سب کی سب روح، عقل، جسم اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی اور بےحیائی و بدکاری کی راہیں کھولنے والی ہیں۔ اس واضح فرق کے بعد بھی جو لوگ شیطان کی پیروی اختیار کریں، ان کی شامت ہی ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤١١) اصل الفاظ ہیں : ’
وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ ‘
۔ ان میں ’ قال ‘ ’ مفترین ‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ کے مفہوم پر متضمن ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹی اور من گھڑت بات منسوب کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ فلاں اور فلاں کو اللہ نے یہ اختیارات دے رکھے ہیں یا بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کرنا کہ فلاں اور فلاں چیز حرام ہے۔
مطلب یہ ہے کہ بزرگوں کے ورثہ کو، بیشک احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے، لیکن اس کی صحت و صداقت ثابت کرنے کے لیے مجرد یہ بات کافی نہیں ہے کہ فلاں اور فلاں چیز باپ دادا سے اسی طرح چلی آرہی ہے۔ اس پر اگر کوئی تنقید کی جاتی ہے تو ہر سلیم الطبع انسان کو چاہیے کہ وہ اسے توجہ سے سنے اور اگر وہ چیز علم و عقل کی میزان پر پوری نہ اترتی ہو تو بغیر کسی تردد کے اسے چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔
یہ بھیڑ بکریوں کے گلے کی تمثیل ہے جسے چرواہا پکارتا ہے تو اس کی آواز، بیشک اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے، لیکن اس سے آگے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ چرواہا کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ اس طرح کی تمثیلات میں ایک صورت حال کی تمثیل دوسری صورت حال سے دی جاتی ہے۔ اس کے لیے ممثل اور ممثل بہ کے تمام اجزا کی ایک دوسرے سے مطابقت ضروری نہیں ہوتی۔ یعنی تمام عقلی اور روحانی خصوصیات سے بالکل محروم ہیں۔ ان میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔