ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یُّصۡلِحَا بَیۡنَہُمَا صُلۡحًا ؕ وَ الصُّلۡحُ خَیۡرٌ ؕ وَ اُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۱۲۸﴾ اصل میں ’
نُشُوْز
‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اگر مرد کی طرف سے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بیوی کو بیوی سمجھ کر اس سے معاملہ کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ یہ عورت کو نصیحت فرمائی ہے کہ اگر اسے اندیشہ ہو کہ بیویوں میں برابری کے حقوق پر اصرار کے نتیجے میں مرد اس سے بےپروائی برتے گا یا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرے گا تو اس میں حرج نہیں کہ دونوں مل کر آپس میں کوئی سمجھوتا کرلیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یعنی عورت اپنے حق مہر، عدل اور نان نفقے کے معاملے میں ایسی رعایتیں شوہر کو دے دے کہ قطع تعلق کا اندیشہ رفع ہوجائے۔ فرمایا کہ صلح اور سمجھوتے ہی میں بہتری ہے، اس لیے کہ میاں اور بیوی کا رشتہ ایک مرتبہ قائم ہوجانے کے بعد فریقین کی فلاح اسی میں ہے کہ یہ قائم ہی رہے، اگرچہ اس کے لیے کتنا ہی ایثار کرنا پڑے۔ فرمایا کہ حرص طبائع کی عام بیماری ہے جو باہمی تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ یا تو دونوں فریق ایثار پر آمادہ ہوں اور اگر ایک فریق کا مرض لاعلاج ہے تو دوسرا قربانی پر آمادہ ہو۔ غرض رشتہ نکاح کو برقرار رکھنے کے لیے اگر عورت کو قربانی بھی دینی پڑے تو بہتری اس کے برقرار رہنے ہی میں ہے۔ اس کے بعد ’
وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا
‘ کے الفاظ سے مرد کو ابھارا ہے کہ ایثار و قربانی اور احسان وتقویٰ کا میدان اصلاً اسی کے شایان شان ہے، وہ اپنی فتوت اور مردانگی کی لاج رکھے اور عورت سے لینے والا بننے کی بجائے اس کو دینے والا بنے۔ اللہ ہر ایک کے ہر عمل سے باخبر ہے اور ہر نیکی کا وہ بھرپور صلہ دے گا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٩٩) اصل الفاظ ہیں : ’
وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ
‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں ”۔۔۔’
شُحّ
‘ کے معنی بخل کے بھی ہیں اور حرص کے بھی۔ بخل تو یہ ہے کہ آدمی اداے حقوق میں تنگ دلی برتے۔ یہ چیز ہر حال میں مذموم ہے۔ لیکن حرص اچھی چیز کی بھی ہوسکتی ہے، بری چیز کی بھی، حد کے اندر بھی ہوسکتی ہے اور حد سے باہر بھی، اس وجہ سے اس کا اچھا اور برا ہونا ایک امراضافی ہے۔ اپنے اچھے پہلو کے اعتبار سے یہ انسانی فطرت کے اندر اپنا ایک مقام رکھتی ہے، لیکن اکثر طبائع پر اس کا ایسا غلبہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک بیماری بن کے رہ جاتی ہے۔ ’
اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ
‘ میں اس کے اسی پہلو کی تعبیر ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٩٨)
وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۲۹﴾ اس سے واضح ہے کہ بیویوں کے درمیان جس عدل کا تقاضا قرآن نے کیا ہے، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ظاہر کے برتاؤ اور دل کے لگاؤ میں کسی پہلو سے کوئی فرق باقی نہ رہے۔ اس طرح کا عدل کسی کی طاقت میں نہیں ہے اور کوئی شخص یہ کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔ دل کے میلان پر آدمی کو اختیار نہیں ہوتا۔ لہٰذا قرآن کا تقاضا صرف یہ ہے کہ شوہر ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جائے کہ دوسری بالکل معلق ہو کر رہ جائے گویا کہ اس کا کوئی شوہر نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ برتاؤ اور حقوق میں اپنی طرف سے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرو، اگر کوئی حق تلفی یا کوتاہی ہوجائے تو فوراً تلافی کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ تمہاری اس کوشش کے باوجود اگر کوئی فروگذاشت ہوجاتی ہے تو اللہ بخشنے والا ہے، اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
وَ اِنۡ یَّتَفَرَّقَا یُغۡنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیۡمًا ﴿۱۳۰﴾ مدعا یہ ہے کہ گھر بچانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کو یہی مطلوب ہے، لیکن اگر حالات مجبور کردیتے ہیں اور علیحدگی ہو ہی جاتی ہے تو اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔ وہی رزق دینے والا ہے اور مصیبتوں اور تکلیفوں میں اپنے بندوں کا ہاتھ بھی وہی پکڑتا ہے۔ میاں اور بیوی، دونوں کو وہ اپنی عنایت سے مستغنی کر دے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں ”۔۔ مطلب یہ ہے کہ اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے میاں اور بیوی دونوں سے ایثار اور کوشش تو مطلوب ہے لیکن یہ غیرت اور خودداری کی حفاظت کے ساتھ مطلوب ہے۔ میاں اور بیوی میں سے کسی کے لیے جس طرح اکڑنا جائز نہیں ہے، اسی طرح ایک حد خاص سے زیادہ دبنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الفاظ میں عمومیت ہے، لیکن سیاق کلام دلیل ہے کہ اس میں عورتوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی ہے کہ وہ حتی الامکان نباہنے کی کوشش تو کریں اور مصالحت کے لیے ایثار بھی کریں لیکن یہ حوصلہ رکھیں کہ اگر کوشش کے باوجود نباہ کی صورت پیدا نہ ہوئی تو رزاق اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنے خزانہ جوُد سے ان کو مستغنی کر دے گا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤٠٠)
وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ لَقَدۡ وَصَّیۡنَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیۡدًا ﴿۱۳۱﴾ یعنی خدا تمہارے لیے کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس کو اس کی احتیاج ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ حمید ہے اور اس کی یہ صفت تقاضا کرتی ہے کہ بےنیاز ہونے کے باوجود تمام مخلوقات کو اپنے جود و کرم سے نوازتا رہے۔ والمحصنت : سورۃ النسآء :
آیت 132-133 تفسیر موجود نہیں۔
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا فَعِنۡدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۱۳۴﴾٪ اس آیت میں حذف کا اسلوب ہے جسے ہم نے ترجمے میں کھول دیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :”۔۔ عربی میں کلام کے دو متقابل اجزا میں سے بعض اجزا کو اس طرح حذف کردیتے ہیں کہ مذکور جزو، محذوف کی طرف خود اشارہ کردیتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس آیت کے محذوفات کھول دیے جائیں تو تالیف کلام یہ ہوگی ’
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا، وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ
‘۔ پہلے میں سے ’
فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا
‘ کو حذف کردیا اور دوسرے میں سے ’
وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ
‘ کو۔ اس حذف کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا کہ مذکور ٹکڑے محذوف ٹکڑوں کی نشان دہی خود کر رہے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤٠١)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۱۳۵﴾ یتیموں کی ماؤں سے نکاح کے بارے میں استفتا کا جواب پچھلی آیت پر ختم ہوا۔ یہاں سے آگے آیت ١٥٢ تک اب ان لوگوں کے سوال کا جواب ہے جو دوستی، تعلقات اور رشتہ و پیوند کو حق کے مقابلے میں ترجیح دیتے اور منکرین کے ہاں اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے باربار پوچھتے تھے کہ بیچ کی راہ تلاش کرلینے میں آخر حرج ہی کیا ہے ؟ یہ کیوں ضروری ہے کہ اہل کتاب کے منکرین کو بھی انھی کافروں کی صف میں کھڑا کیا جائے جنھیں قرآن عذاب الٰہی کا مستحق قرار دے رہا ہے ؟ ان کا خیال تھا کہ اہل کتاب بہت کچھ مانتے ہیں۔ اس کی رعایت سے ان کے ساتھ رعایت ہونی چاہیے ؟ اس سورة کے مباحث سے متعلق اس طرح کے سوالات ان کے ذہنوں میں پیدا ہوتے تھے۔ قرآن نے ان کے جواب میں پوری وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے کہ کفر صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص صریح الفاظ میں اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرے، کفر اور صریح کفر یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں کو اللہ کے شرائط پر نہیں، بلکہ اپنے شرائط پر ماننے کے لیے اصرار کیا جائے۔ چنانچہ خدا کا فیصلہ سننا چاہتے ہو تو سن لو کہ تمہیں ہر حال میں حق کہنا ہے، حق کی گواہی دینی ہے اور پورے دین کو بےکم وکاست جس طرح کہ وہ ہے، قبول کرنا ہے۔ اس کے سوا ہر رویہ منافقت کا رویہ ہے اور منافقت اور کفر میں اللہ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی مجرد یہی نہیں کہ تمہیں حق و انصاف پر قائم رہنا ہے، بلکہ دوسروں کے سامنے اس کی گواہی بھی دینی ہے۔ یعنی اس سے گریز و فرار کی کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرو گے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۳۶﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اٰمِنُوْا
‘۔ ان میں پہلا فعل اپنے ابتدائی اور دوسرا کامل معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی ایمان کا دعویٰ کرنے والو، اللہ پر ایمان لاؤ جس طرح کہ ایمان لانے کا حق ہے۔ اِس آیت میں توراۃ کے لیے ’
اَنْزَلَ
‘ اور قرآن کے لیے ’
نَزَّلَ
‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ جو لوگ عربی زبان کی باریکیوں سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ’
اَنْزَلَ
‘ کا مفہوم تو مجرد اتار دینا ہے، لیکن ’
نَزَّلَ
‘ کے اندر اہتمام اور تدریج کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ لفظوں کا یہ فرق توراۃ اور قرآن، دونوں کے اتارے جانے کی نوعیت کو واضح کر رہا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤٠٨)
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا ﴿۱۳۷﴾ؕ یہ بیان واقعہ ہے۔ اس کی صورت یہ تھی کہ یہ لوگ آگے بڑھ کر ایمان کا اقرار کرتے اور اس کے بعد قرآن، اسلام اور پیغمبر کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ ان کے اسی رویے کو یہاں کفر سے تعبیر کیا ہے۔
الَّذِیۡنَ یَتَّخِذُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ اَیَبۡتَغُوۡنَ عِنۡدَہُمُ الۡعِزَّۃَ فَاِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ﴿۱۳۹﴾ؕ وہ اسی کتاب میں تم پر یہ ہدایت نازل کرچکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہاں اُن (مذاق اڑانے والوں) کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں، ورنہ تم بھی انھی کی طرح ہوجاؤ گے۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس طرح کے منافقوں اور منکروں کو جہنم میں ایک ہی جگہ جمع کر دے گا۔
وَ قَدۡ نَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ ۫ۖ اِنَّکُمۡ اِذًا مِّثۡلُہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡکٰفِرِیۡنَ فِیۡ جَہَنَّمَ جَمِیۡعَۨا ﴿۱۴۰﴾ۙ یہ سورة انعام (٦) کی آیت ٦٨ کا حوالہ ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ جب لوگ اللہ کی آیتوں میں کج بحثیاں کر رہے ہوں تو ان ظالموں کے پاس نہ بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں ” جن مجلسوں میں اللہ کے دین اور اس کی شریعت کا تہتک ہو ، ان میں اگر کوئی مسلمان شریک ہو تو یہ اس کی بےحمیتی اور بے غیرتی کی دلیل ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں شرکت کو اپنے لیے وجہ عزت و شرف سمجھے تو یہ صرف بےحمیتی کی ہی نہیں، بلکہ اس کے مسلوب الایمان ہونے کی بھی دلیل ہے۔ اس قسم کے منافقوں کا حشر انھی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن کے ساتھ خدا کے دین کے استہزا میں یہ شریک رہے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤١٠)