ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ خَطِیۡٓىـَٔۃً اَوۡ اِثۡمًا ثُمَّ یَرۡمِ بِہٖ بَرِیۡٓــًٔا فَقَدِ احۡتَمَلَ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۲﴾٪ یہ منافقین کی ایک اور شرارت سے پردہ اٹھایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یہ لوگ اپنی کسی غلطی یا کسی حق تلفی پر جب گرفت میں آجاتے ہیں تو اعتراف کے بجائے جھوٹ اور بہتان کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس کا بوجھ کسی بےگناہ پر لادنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرمایا کہ خدا سے بریت کا یہ راستہ بھی غلط ہے۔ اس بہتان اور جھوٹ سے دنیا کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، خدا کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ خدا کے ہاں ایسے مجرم نہ صرف اپنے جرم کا بوجھ اٹھائیں گے، بلکہ اپنے اصل جرم پر بہتان اور جھوٹ کا بھی اضافہ کرلیں گے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٨٠) والمحصنت : سورۃ النسآء :
آیت 113-114 تفسیر موجود نہیں۔
وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾٪ اس سے مراد صحابہ کرام ہیں۔ ان کا راستہ یہ تھا کہ انھوں نے جب ایک مرتبہ اللہ کے پیغمبر کو مان لیا تو اس کے بعد پھر کبھی بدعہدی، بےوفائی، مخالفت اور گریز و فرار کا رویہ اختیار نہیں کیا، بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ آپ کی اتباع کی اور جو حکم دیا گیا، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے رہے۔ لہٰذا یہ ایمان و اخلاص، اتباع و اطاعت اور تسلیم وانقیاد کا راستہ ہے جس کی پیروی ہر مسلمان کو کرنی چاہیے۔ دین کی تعبیر یا اس کو سمجھنے میں کسی اختلاف سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہ اللہ کا قانون ہے جو قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر بیان ہوا ہے کہ ہدایت انھیں ملتی ہے جو ہدایت کے سچے طالب ہیں اور گمراہی کے حوالے وہی لوگ کیے جاتے ہیں جو اپنے لیے خود گمراہی کا راستہ اختیار کرلیں۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾ اس کی وجہ کیا ہے ؟ استاذ امام لکھتے ہیں ”۔۔ جس طرح تمام خیر کا منبع توحید ہے یعنی خدا کی ذات، صفات اور اس کے حقوق میں کسی کو ساجھی نہ ٹھہرانا، اسی طرح تمام شر کا منبع شرک ہے، یعنی خدا کی ذات، صفات اور اس کے حقوق میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ توحید پر قائم رہتے ہوئے انسان اگر کوئی ٹھوکر کھاتا ہے تو وہ غلبہ نفس و جذبات سے اتفاقی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غلطی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ اس وجہ سے وہ گرنے کے بعد لازماً اٹھتا ہے۔ برعکس اس کے شرک کے ساتھ اگر کسی سے کوئی نیکی ہوتی ہے تو وہ اتفاقی ہوتی ہے جس کا اصل منبع خیر یعنی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ بےبنیاد ہوتی ہے۔ مشرک خدا سے کٹ جانے کی وجہ سے لازماً اپنی باگ نفس اور شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، اس وجہ سے وہ درجہ بدرجہ صراط مستقیم سے اتنا دور ہوجاتا ہے کہ اس کے لیے خدا کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا تاآنکہ وہ شرک سے توبہ کرے۔ اس وجہ سے خدا کے ہاں شرک کی معافی نہیں ہے۔ البتہ توحید کے ساتھ اگر کسی سے گناہ ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ “ (تدبر قرآن ٢ /٣٨٧) یعنی اپنے اس قانون کے مطابق جو اس نے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے۔
اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَیۡطٰنًا مَّرِیۡدًا ﴿۱۱۷﴾ۙ اصل میں لفظ ’
اِنَاث
‘ آیا ہے۔ یہ ’
انثی
‘ کی جمع ہے جس کے معنی عورت کے ہیں۔ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہاں اس سے مراد دیویاں ہیں۔اِس آیت میں پکارنے سے مراد دعا، فریاد، استغاثہ، استعانت اور استرحام کے ارادے سے اس معنی میں پکارنا ہے جس معنی میں کسی معبود کو پکارا جاتا ہے۔ شرک جہاں کہیں اور جس صورت میں بھی پایا جاتا ہے، اس کا امام اور پیشوا درحقیقت شیطان ہی ہے۔ اس کے پکارنے کا ذکر یہاں اسی حیثیت سے ہوا ہے۔
لَّعَنَہُ اللّٰہُ ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۱۱۸﴾ۙ یہ شیطان کی اس دھمکی کا حوالہ ہے جو اس نے اس وقت دی، جب آدم کو سجدہ کرنے کے معاملے میں اس کی سرکشی کے بعد اسے راندہ درگاہ قرار دیا گیا۔
وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾ؕ یہ ان جھوٹی آرزوؤں کی طرف اشارہ ہے جن میں مشرک قومیں بالعموم مبتلا ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ عربوں کا یہ عقیدہ کہ دنیا اور آخرت کی نعمتیں ان دیویوں اور دیوتاؤں کی سفارش سے ملتی ہیں جنھیں وہ پوجتے ہیں اور یہود کا یہ وہم کہ وہ ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد ہیں، اس لیے جنت ان کے حق میں لکھ دی گئی ہے، انھی آرزوؤں کی مثالیں ہیں۔ یہی معاملہ نصاریٰ کا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے اپنے بیٹے کو انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ بنادیا ہے۔ اصل میں ’
وَلَاٰمُرَنَّہُمْ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جس طرح حکم دینے کے معنی میں آتے ہیں، اسی طرح بتانے، سکھانے اور ترغیب دینے کے معنی میں بھی آتے ہیں۔ شیطان کی یہ بات اس طرح پوری ہوئی کہ مشرک قوموں نے خاص خاص جانوروں کو اپنے فرضی معبودوں کی نذر کیا اور اس کی علامت کے طور پر ان کے کان چیرے تاکہ کوئی ان سے تعرض نہ کرے۔ یعنی خدا نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے، اس کو مسخ کریں گے۔ چنانچہ توحید کے بجائے شرک کے داعی اور علم بردار ہوں گے، پھر اسی کے تحت وہ سب چیزیں اختیار کرلیں گے جو فطرت کی تبدیلی کے حکم میں ہیں۔ مثلاً رہبانیت، برہمچرج، عورتوں کا مرد اور مردوں کا عورت بننا اور اس طرح کی دوسری خرافات۔
اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۫ وَ لَا یَجِدُوۡنَ عَنۡہَا مَحِیۡصًا ﴿۱۲۱﴾ اوپر بیان ہوا ہے کہ شرک کی مغفرت نہیں ہوسکتی۔ قرآن نے یہ اسی موقع کلام کی رعایت سے شرک کا بودا پن اور اس کا حسب و نسب بھی واضح کردیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :” بودے پن کا ذکر دو پہلوؤں سے فرمایا : ایک تو یہ کہ شرک کا یہ سارا کارخانہ دیویوں کے بل بوتے پر قائم ہے، اول تو یہی پرلے سرے کی حماقت ہے کہ خداے واحد کے سوا کسی اور کا سہارا انسان ڈھونڈے، پھر حماقت در حماقت یہ کہ سہارا بھی فرضی عورتوں کا جن کی بے بسی اور ناتوانی خود ضرب المثل ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی تمام تر بنیاد شیطان کی پیدا کی ہوئی جھوٹی آرزوؤں اور اس کے پر فریب وعدوں پر ہے اور شیطان کے سارے وعدے بالکل بےحقیقت ہیں۔ جب حقیقت کھلے گی تو نظر آئے گا کہ نہ ابراہیم کا حسب و نسب کچھ نافع ہے اور نہ لات و منات اور ان کی شفاعت کا کوئی وجود ہے، بلکہ سارا معاملہ ایمان و عمل صالح پر منحصر ہے۔ جن کے پاس یہ متاع نہیں ہے، ان کے لیے صرف جہنم ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اُس کے حسب و نسب کا بیان اس طرح فرمایا کہ اس کا موجد اور امام ابلیس لعین ہے جس نے جوش حسد میں پہلے ہی روز یہ دھمکی دی تھی کہ میں تیرے بندوں میں سے اپنا حصہ بٹا کر رہوں گا، میں ان کو گمراہ کروں گا، ان کو طرح طرح کی جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کروں گا، وہ میرے حکم سے بتوں کو نذرانے پیش کریں گے اور میرے القا سے فطرت اللہ کو مسخ کریں گے۔ فرمایا کہ جو لوگ اس شیطان لعین و متمرد کو اپنا مرجع اور کارساز بنائیں، ان سے زیادہ بدبخت اور نامراد کون ہوسکتا ہے۔ فرمایا کہ شیطان ان کو وعدوں کے سبز باغ دکھا رہا ہے اور آرزوؤں کے جال ان کے آگے بچھا رہا ہے، حالانکہ شیطان کے سارے وعدے محض فریب ہیں۔ نہ شفاعت ان کے کام آنی ہے نہ بزرگوں سے نسبت۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے کوئی مفر نہ ہوگا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٩١)
وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ یعنی اصل دین یہ ہے۔ ابراہیم اسی کے پیرو تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا دوست بنایا تو اسی وجہ سے بنایا کہ ہر چیز سے الگ ہو کر انھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا تھا۔ مسلمان اسی امام توحید کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس کے برخلاف ان مشرکوں کا حال یہ ہے کہ ابراہیم کے طریقے کو چھوڑ کر انھوں نے امام شرک ابلیس کی پیروی اختیار کرلی ہے۔
وَ یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ فِی النِّسَآءِ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِیۡہِنَّ ۙ وَ مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ فِیۡ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَاتُؤۡ تُوۡنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَ تَرۡغَبُوۡنَ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الۡوِلۡدَانِ ۙ وَ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلۡیَتٰمٰی بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیۡمًا ﴿۱۲۷﴾ اپنے مضمون کے لحاظ سے سورة یہاں ختم ہوئی۔ اس سے آگے اب ایک ضمیمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان سوالوں کا جواب دیا ہے جو اس سورة کے احکام سے متعلق لوگوں نے اس کی تلاوت کے دوران میں کیے ہیں۔ آیت ١٣٤ تک پہلے سوال کا جواب ہے۔ یہ ان مسلمانوں نے کیا ہے جو ایمان و اخلاق کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ابھی کچھ کمزور ہیں۔ دوسرا سوال منافقین کا ہے۔ اس کا جواب آیت ١٥٢ پر ختم ہوا ہے۔ تیسرا سوال ایک مطالبے کی صورت میں ہے اور یہ اہل کتاب نے کیا ہے۔ آیت ١٧٥ تک قرآن نے اس کا جواب دیا ہے۔ آیت ١٧٦ میں چوتھے اور آخری سوال کا جواب ہے۔ اس کا تعلق میراث کے ان احکام سے ہے جو اس سورة کی ابتدا میں بیان ہوئے ہیں۔ یہ استفتا کس نوعیت کا تھا ؟ اس کی وضاحت آگے اس کے جواب سے ہوجاتی ہے۔ قرآن کا عام اسلوب ہے کہ اس میں سوالات اسی طرح اجمال کے ساتھ نقل ہوتے ہیں۔ غور کیجیے تو یہی طریقہ قرین بلاغت ہے، اس لیے کہ سوال اگر جواب سے واضح ہے تو اس کا نقل کرنا محض طول کلام کا باعث ہوگا۔ اصل الفاظ ہیں : ’
لاَ تُؤْتُوْنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ
‘۔ یعنی ان کو تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے لکھا گیا ہے۔ یہ مہر اور عدل کی اس شرط کی طرف اشارہ ہے جو اس سورة کی آیات ٣۔ ٤ میں یتیموں کی ماؤں کے ساتھ نکاح میں بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔ اصل میں ’
وَمَا یُتْلٰی عَلَیْْکُمْ فِی الْکِتٰبِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کا عطف ہمارے نزدیک ’
فِیْھِنَّ
‘ کی ضمیر مجرور پر ہے اور ’
الْکِتٰب
‘ سے مراد اس جملے میں قرآن مجید ہے۔ یہ وہ فتویٰ ہے جو لوگوں کے استفتا کے جواب میں ارشاد ہوا ہے۔ اس کے لیے اصل میں ’
وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کا معطوف علیہ اس جملے میں محذوف ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :”۔۔ یہاں کلام میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ہے جو ’
وَاَنْ تَقُوْمُوْا
‘ کا معطوف علیہ بن سکے۔ اس وجہ سے لازماً یہاں محذوف ماننا پڑے گا اور یہ محذوف سیاق کلام کی روشنی میں معین کیا جائے گا۔ چنانچہ یہاں ’
وَاَنْ تَقُوْمُوْا
‘ سے پہلے یہ مضمون محذوف ہوگا کہ ان عورتوں کو ان کے مہر دو ، ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کرو، پھر اس کے اوپر ’
وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ
‘ کا عطف موزوں ہوگا۔ یعنی اور یتیموں کے لیے عدل کی حفاظت کرنے والے بنو۔ گویا فتوے میں یہ بات واضح کردی گئی کہ مہر اور عدل کی شرط جس طرح عام عورتوں کے معاملے میں ہے اسی طرح یتیموں کی ماؤں کے بارے میں بھی ہے اور آیت ’
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا
‘ میں عورتوں کے ساتھ عدل کا اور آیت ’
وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنََّّ
‘ میں اداے مہر کا جو حکم ہے تو وہ یتیموں کی ماؤں سے متعلق ہی ہے، جن سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو، لیکن مہر اور عدل کی کھکیڑ میں پڑنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس طرح گویا قرآن نے آیات ٣۔ ٤ کے اجمال کو کھول دیا اور اس فتوے کے ذریعے سے ان میں دیے ہوئے احکام کو مزید موکد کردیا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٩٧)