ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا ﴿٪۸۷﴾ اصل میں ’
لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
لَیَجْمَعَنَّکُمْ
‘ کے بعد ’
اِلٰی
‘ کا صلہ دلیل ہے کہ یہاں کوئی لفظ ہانکنے اور لے جانے کے معنی میں محذوف ہے۔
فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا ؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا ﴿۸۸﴾ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ان کے ساتھ رشتہ و قرابت یا خاندان اور قبیلے کا تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا چاہتے تھے کہ نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ انھیں اگر ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور کچھ ربط ضبط رکھا جائے تو آہستہ آہستہ یہ سچے مسلمان بن جائیں گے۔ یعنی اسلام کی طرف جو قدم انھوں نے اٹھایا تھا، اسے جب دنیا کی محبت میں انھوں نے پیچھے ہٹا لیا تو اللہ نے بھی ان کے اس جرم کی پاداش میں انھیں اسی حالت کی طرف لوٹا دیا جس میں وہ یہ قدم اٹھانے سے پہلے تھے۔ یعنی اپنے اس قانون کے مطابق کہ جانتے بوجھتے حق سے گریز کرنے والوں کو اللہ گمراہی کے حوالے کردیتا ہے۔
وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿ۙ۸۹﴾ مطلب یہ ہے کہ ہجرت کی دعوت کے بعد اب ہجرت ہی ان کے ایمان و اسلام کی کسوٹی ہے۔ اگر وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّاۡمَنُوۡکُمۡ وَ یَاۡمَنُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ کُلَّمَا رُدُّوۡۤا اِلَی الۡفِتۡنَۃِ اُرۡکِسُوۡا فِیۡہَا ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَعۡتَزِلُوۡکُمۡ وَ یُلۡقُوۡۤا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکُمۡ جَعَلۡنَا لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا ﴿٪۹۱﴾ یعنی جب قوم کے سرکشوں کا دباؤ پڑتا ہے تو ان کی شرارتوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔اصل میں لفظ ’
سُلْطَان
‘ آیا ہے۔ اس کے معنی دلیل و حجت کے بھی ہیں اور یہ اختیار و اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس دوسرے معنی کی نظیریں سورة ابراہیم (١٤) کی آیت ٢٢ اور سورة بنی اسرائیل (١٧) کی آیت ٣٣ میں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔
وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ یَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا ۚ وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّصَّدَّقُوۡا ؕ فَاِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّکُمۡ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ وَ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ ۫ تَوۡبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۹۲﴾ قرآن نے غلامی کو ختم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے، یہ بھی انھی میں سے ہے۔ اس زمانے میں غلامی ختم ہوچکی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اگر روزے نہ رکھ سکے تو غلام کی قیمت کے تناسب سے قیدیوں کا جرمانہ ادا کر کے وہ انھیں رہا کرا سکتا یا اسی تناسب سے کسی مسلمان کا قرض ادا کرسکتا ہے۔اصل میں ’
دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
دِیَۃٌ
‘ کے معنی ہیں : وہ شے جو دیت کے نام سے معروف ہے اور ’
دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ
‘ کے الفاظ حکم کے جس منشا پر دلالت کرتے ہیں، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطب کے عرف میں جس چیز کا نام دیت ہے، وہ مقتول کے ورثہ کے سپرد کردی جائے۔ قرآن مجید نے دیت کی کسی خاص مقدار کا تعین کیا ہے، نہ عورت اور مرد، غلام اور آزاد اور مسلم اور غیرمسلم کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھیرائی ہے۔ اس کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے۔ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے دیت کے فیصلے اپنے زمانے میں عرب کے دستور کے مطابق کیے۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں دیت کی جو مقداریں بیان ہوئی ہیں، وہ اسی دستور کے مطابق ہیں۔ عرب کا یہ دستور اہل عرب کے تمدنی حالات اور تہذیبی روایات پر مبنی تھا۔ زمانے کی گردش نے کتاب تاریخ میں چودہ صدیوں کے ورق الٹ دیے ہیں۔ تمدنی حالات اور تہذیبی روایات میں زمین و آسمان کا تغیر واقع ہوگیا ہے۔ اب ہم دیت میں اونٹ دے سکتے ہیں، نہ اونٹوں کے لحاظ سے اس دور میں دیت کا تعین کوئی دانش مندی ہے۔ عاقلہ کی نوعیت بالکل بدل گئی ہے اور قتل خطا کی وہ صورتیں وجود میں آگئی ہیں جن کا تصور بھی اس زمانے میں ممکن نہیں تھا۔ قرآن مجید کی ہدایت ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے۔ چنانچہ اس نے اس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ پھر معروف پر مبنی قوانین کے بارے میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے ان میں تغیر کیا جاسکتا ہے اور کسی معاشرے کے ارباب حل و عقد اگر چاہیں تو اپنے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے انھیں نئے سرے سے مرتب کرسکتے ہیں۔ اِس آیت میں قتل خطا کا جو قانون بیان ہوا ہے، وہ درج ذیل تین دفعات پر مبنی ہے :اول یہ کہ مقتول اگر مسلمان ہے اور مسلمانوں کی ریاست کا شہری ہے یا مسلمانوں کی ریاست کا شہری تو نہیں ہے، لیکن کسی معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہے تو قاتل پر لازم ہے کہ اسے اگر معاف نہیں کردیا گیا تو دستور کے مطابق دیت ادا کرے اور اس جرم کے کفارے میں اپنے پروردگار کے حضور میں توبہ کے لیے ایک مسلمان غلام آزاد کرے۔ دوم یہ کہ وہ اگر دشمن قوم کا کوئی مسلمان ہے تو قاتل پر دیت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس صورت میں یہی کافی ہے کہ اپنے گناہ کو دھونے کے لیے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کردے۔ سوم یہ کہ ان دونوں صورتوں میں اگر غلام میسر نہ ہو تو اس کے بدلے میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ کسی شخص کے غلطی سے قتل ہوجانے کا حکم ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ جراحات کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان میں بھی دیت ادا کی جائے گی اور اس کے ساتھ کفارے کے روزے بھی دیت کی مقدار کے لحاظ سے لازماً رکھے جائیں گے۔ یعنی، مثال کے طور پر، اگر کسی زخم کی دیت ایک تہائی مقرر کی گئی ہے تو کفارے کے بیس روزے بھی لازماً رکھنا ہوں گے۔ آیت کا یہ حصہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”۔۔ جب مفعول اس طرح فعل کے بغیر آئے تو اس پر خاص تاکید اور عزم کے ساتھ زور دینا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں خوں بہا کے ساتھ ساتھ ایک غلام آزاد کرنے اور غلام آزاد کرنے کی مقدرت نہ ہونے کی صورت میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنے کی جو ہدایت ہوئی تو اس پر خاص تاکید کے ساتھ زور دیا کہ یہ خداے علیم و حکیم کی طرف سے مقرر کردہ توبہ ہے، نہ کوئی اس کو شاق سمجھے، نہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ قتل مومن، غلطی ہی سے سہی، عظیم گناہ ہے۔ اس گناہ کو دھونے کے لیے صرف خوں بہا کافی نہیں ہے، بلکہ غلام بھی آزاد کیا جائے اور اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے جائیں تاکہ دل پر سے ہر داغ اس گناہ کا دھل جائے۔ گویا ایسے سنگین معاملے میں زبانی توبہ کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ اس کے مویدات بھی ہونے ضروری ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٦٢)
وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا ﴿۹۳﴾ یہاں قتل عمد کی جو سزا بیان ہوئی ہے، وہ بعینہ وہی ہے جو بدترین منکرین حق کے لیے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں ”۔۔ اس سزا کی سنگینی کی علت سمجھنے کے لیے اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب سے بڑا حق اس کی جان کا احترام ہے، کوئی مسلمان اگر دوسرے مسلمان کی جان لے لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ حقوق العباد میں سے اس نے سب سے بڑے حق کو تلف کیا جس کی تلافی و اصلاح کی بھی اب کوئی شکل باقی نہیں رہی، اس لیے کہ جس شخص کے حق کو اس نے تلف کیا، وہ دنیا سے رخصت ہوچکا اور حقوق العباد کی اصلاح کے لیے تلافی مافات ناگزیر ہے۔ پھر اس کا ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ وہ یہ کہ یہ ایک ایسے مسلمان کے قتل کا معاملہ ہے جو دارالکفر اور دارالحرب میں گھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے اسلامی شریعت کے ان تحفظات سے بھی محروم تھا جو دارالاسلام میں ایک مسلمان کو حاصل ہوتی ہیں۔ اپنے دین اور اپنے نفس کے معاملے میں اس کو اگر کسی سے خیر کی امید ہوسکتی تھی تو وہ مسلمانوں ہی سے ہوسکتی تھی۔ اب اگر کوئی مسلمان ہی اس کو قتل کر دے اور وہ بھی عمداً اور ایسی جگہ پر جہاں اس کو اسلامی قانون کی حفاظت بھی حاصل نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ نہ ایسے مقتول سے بڑھ کر کوئی مظلوم ہوسکتا ہے اور نہ ایسے قاتل سے بڑھ کر کوئی ظالم ! “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٦١)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۹۴﴾ مطلب یہ ہے کہ مال غنیمت کی طمع میں کسی شخص کے ایمان کا انکار نہ کرو۔ تم یہ جنگ فتوحات حاصل کرنے اور مال غنیمت جمع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ مظلوم مسلمانوں کو ظالموں کے پنجے سے چھڑانے کے لیے لڑ رہے ہو۔ خدا کے پاس تمہارے لیے غنیمت کے بڑے ذخیرے ہیں۔ وہ بھی عنقریب تمہیں حاصل ہوجائیں گے، لیکن کسی مسلمان کی جان تمہارے کسی اقدام کی وجہ سے خطرے میں نہیں پڑنی چاہیے۔
دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَ مَغۡفِرَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪۹۶﴾ یہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک مرتبہ پھر جہاد کی ترغیب دی ہے، لیکن اس وقت چونکہ نفیر عام کا موقع نہیں تھا، اس لیے وضاحت کردی ہے کہ اس کی حیثیت ایک درجہ فضیلت کی ہے۔ سچے مسلمان اگر کسی عذر معقول کے بغیر بھی اس کے لیے نہیں اٹھیں گے تو جہاد کے اجر عظیم سے تو یقیناً محروم رہیں گے، مگر خدا کا وعدہ ان سے بھی اچھا ہے۔ وہ جہاد سے جی چرانے والے منافقین نہیں ہیں۔ لہٰذا اپنے اخلاص اور حسن عمل کا اجر ضرور پائیں گے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿ۙ۹۷﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلآءِکَۃُ
‘۔ ان میں لفظ ’
الْمَلآءِکَۃُ
‘ جمع ہے۔ اس سے مقصود یہاں جنس کا اظہار ہے۔ عربی زبان میں جمع بعض موقعوں پر اس طریقے سے بھی آتی ہے۔ یہ وعید اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کے مطالبے کے باوجود یہ لوگ محض اپنے مفادات کی خاطر گریز و فرار کے بہانے تراش رہے تھے اور اس طرح گویا ایک طرح کی منافقت میں مبتلا تھے۔ چنانچہ پیچھے اسی بنا پر انھیں منافق کہا گیا ہے۔ والمحصنت : سورۃ النسآء :
آیت 98-99 تفسیر موجود نہیں۔
وَ مَنۡ یُّہَاجِرۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یَجِدۡ فِی الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا وَّ سَعَۃً ؕ وَ مَنۡ یَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَیۡتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ یُدۡرِکۡہُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۰۰﴾٪ اِن آیتوں سے واضح ہے کہ بندہ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے ، اسے دین کے لیے ستایا جائے، یہاں تک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرنا ہی اس کے لیے ممکن نہ رہے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر وہ کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہوجائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔