ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِیَآءَ الشَّیۡطٰنِ ۚ اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا ﴿٪۷۶﴾ اشارہ ہے عرب کے ائمہ کفر کی طرف جن کے لیے اصل میں لفظ ’
طَاغُوْت
‘ آیا ہے۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۚ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَخۡشَوۡنَ النَّاسَ کَخَشۡیَۃِ اللّٰہِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡیَۃً ۚ وَ قَالُوۡا رَبَّنَا لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ ۚ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ؕ قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ ۚ وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۟ وَ لَا تُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ﴿۷۷﴾ یعنی جب کفار کے علاقوں میں مسلمانوں کی مظلومیت اور بےبسی کو دیکھ کر لوگوں کے اندر جنگ کا احساس پیدا ہوتا اور وہ اس کا ذکر نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) سے کرتے تو یہ منافقین اپنے ایمان و اخلاص کی دھونس جمانے کے لیے دوسروں سے بڑھ کر جہاد و قتال کے لیے بےتاب ہوتے تھے، لیکن جو کام اس وقت کرنے کے تھے، ان سے جی چراتے اور گریز و فرار کے بہانے ڈھونڈتے تھے۔ اصل میں لفظ ’
قَالُوْا
‘ آیا ہے۔ یہ زبان کا قول نہیں ہے، بلکہ ان کی ذہنی حالت کی تعبیر ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ اس طرح کی تعبیرات کے لیے بھی آتا ہے۔
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا ﴿۷۸﴾ اصل میں ’
بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ
‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ’
مُشَیَّدَۃ
‘ کی صفت بلندی اور استحکام، دونوں مفاہیم کو شامل ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے
مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿۷۹﴾ یعنی اللہ کے اذن سے آتی ہے، مگر نفس کی کسی غلطی کی وجہ سے یا اس کی کوئی کمزوری دور کرنے کے لیے آتی ہے یا اس لیے آتی ہے کہ طبیعت کے اندر جو خیر و شر بھی دبا ہوا ہے، وہ ابھر کر سامنے آجائے۔
مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ﴿ؕ۸۰﴾ اس میں بات اگرچہ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے، مگر روے سخن، اگر غور کیجیے تو انھی منافقین کی طرف ہے۔
وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۸۱﴾ اصل میں لفظ ’
طَاعَۃٌ
‘ آیا ہے۔ یہ خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ سارا زور خبر پر رہے۔اصل الفاظ ہیں : ’
بَیَّتَ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ
‘۔ ان میں ’
بَیَّتَ
‘ کے معنی اصلاً توراۃ میں کوئی کام کرنے کے ہیں، لیکن اپنے عام استعمال میں یہ لفظ رات کی قید سے مجرد ہوگیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ الفاظ کے اس طرح اپنے ابتدائی مفہوم سے مجرد ہوجانے کی مثالیں عربی زبان میں بہت ہیں۔ ’
اضحٰی
‘ اور ’ بات ‘ بھی اپنے عام استعمال میں دن اور رات کی قید سے مجرد ہو کر استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ نبی کی مجلس میں تو یہ ہر بات پر سرتسلیم خم کرتے ہیں، لیکن جب وہاں سے ہٹتے ہیں تو اپنی مجلسوں میں ان آیات و احکام کے خلاف مشورے کرتے ہیں جن کو اپنی خواہشات اور اپنے مفاد ذاتی کے خلاف پاتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٤٦)
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ﴿۸۲﴾ مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن پر غور کرتے تو تمہاری نبوت کے بارے میں کبھی متردد نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہوسکتا جو سال ہا سال تک مختلف حالات میں اور مختلف موقعوں پر اس طرح کے متنوع موضوعات پر تقریریں کرتا رہے اور شروع سے آخر تک اس کی یہ تمام تقریریں جب مرتب کی جائیں تو ایک ایسے ہم رنگ اور متوافق مجموعہ کلام کی صورت اختیار کرلیں جس میں نہ خیالات کا کوئی تصادم ہو، نہ متکلم کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی کیفیات کی کوئی جھلک دکھائی دے اور نہ راے اور نقطہ نظر کی تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دیکھے جاسکتے ہوں۔ یہ تنہا قرآن ہی کی خصوصیت ہے اور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے اور تم خدا کے پیغمبر ہو۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہوسکتے۔ وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے، وہ ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی الگ کردیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہوجائے۔ وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے وہ عقائد سے اس طرح پیدا ہوتی ہیں جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں، وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے وہ اپنے اصول سے اس طرح ظہور میں آتے ہیں جس طرح ایک شے سے اس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں۔ اس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہوجائے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٤٧)
وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۳﴾ اس طرح کی افواہیں عام حالات میں بھی بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں۔ اس زمانے میں جنگ کے حالات تھے جن میں یہ خطرناکی اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اصل میں لفظ ’
عَلِمَ
‘ آیا ہے۔ یہ کسی چیز کے موقع و محل کو متعین کرلینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔
مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ نَصِیۡبٌ مِّنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ کِفۡلٌ مِّنۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقِیۡتًا ﴿۸۵﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّءَۃً ‘۔ ’ شَفَعَ
‘ کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے جوڑنے کے ہیں۔ اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ کسی بات کی تائید و حمایت اور اس کے حق میں کچھ کہنے کے لیے آتا ہے۔ وہ بات اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ چنانچہ دونوں کے لیے قرآن نے یہی لفظ اختیار فرمایا اور پہلی صورت کو ’
شَفَاعَۃٌ حَسَنَۃٌ
‘ اور دوسری کو ’
شَفَاعَۃٌ سَیِّءَۃٌ
‘ سے تعبیر کیا ہے۔
وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا ﴿۸۶﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ
‘۔ استاذ امام نے ان کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :”’
حیاہ تحیۃ
‘ کے اصل معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ اسی سے دعائیہ کلمہ ’
حیاک اللّٰہ
‘ ہے جس کے معنی ہیں، اللہ تمہاری عمر دراز کرے۔ سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی چونکہ کم و بیش یہی یا اسی سے ملتے جلتے مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں، اس وجہ سے لفظ کے عام مفہوم میں وہ سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٥٦) یہ فوج کشی چونکہ ان مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں کی جا رہی تھی جو منکروں کے نرغے میں تھے، اس لیے ہدایت کی گئی کہ سلام کو ان کے اسلام کی علامت سمجھا جائے، اسے خوش دلی کے ساتھ قبول کیا جائے اور اس کا جواب بہتر طریقے سے دیا جائے۔ ان کے ایمان و اسلام کی تحقیق بعد میں ہوسکتی ہے۔ اس وقت زیادہ اہمیت اس چیز کی ہے کہ کوئی مخلص مسلمان تمہاری تلواروں کی زد میں نہ آجائے۔