ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾ اس لیے کہ شرک خدا پر افترا ہے اور اس لحاظ سے سب سے بڑا ظلم ہے جس کا ارتکاب کوئی شخص خدا کی زمین پر کرسکتا ہے۔ اس سے توبہ اور رجوع کے بغیر کوئی شخص اگر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو خدا کی بارگاہ میں پھر اس کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ دوسرے گناہوں کے معاملے میں بھی کسی کو دلیر نہیں ہونا چاہیے، اس لیے کہ یہ بھی اسی وقت معاف ہوں گے، جب خدا چاہے گا اور خدا کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اپنی حکمت اور اپنے قانون کے مطابق چاہتا ہے۔ اس کی کوئی مشیت بھی الل ٹپ نہیں ہوتی۔ وہ علیم و حکیم ہے اور اس کی یہ صفات اس کی ہر مشیت کے ساتھ شامل رہتی ہیں۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ﴿۴۹﴾ یعنی اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے محبوبوں کی اولاد اور اس کی برگزیدہ امت ہیں، اس لیے بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب ہونے کے باوجود اس کی جنت میں داخل ہونے کے لیے جو پاکیزگی چاہیے، وہ ہمیں ہر حال میں حاصل رہتی ہے۔ یعنی اپنے اس قانون کے مطابق کہ پاکیزگی ایمان وعمل اور بروتقویٰ سے وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت انھی کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے بغیر یہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا ﴿۵۱﴾ یہود جن معاملات میں شرک کے مرتکب ہوئے، یہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس میں جبت سے مراد اعمال سفلیہ ہیں۔ ان میں چونکہ شیطانی قوتوں کو موثر بالذات مانا جاتا ہے، اس لیے جبت کے ساتھ طاغوت کا ذکر بھی ہوا ہے۔ اس میں اور شیطان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن میں یہ دونوں بالکل ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی اس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی مخالفت میں کھلم کھلا مشرکین عرب کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے وہ کتاب الٰہی کی ان اصلاحات کو آڑ بناتے تھے جو ان بدعتوں اور تشددات کے خلاف تھیں جو ان کے فقہا نے خدا کی شریعت میں پیدا کردیے تھے۔
اَمۡ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡکِ فَاِذًا لَّا یُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِیۡرًا ﴿ۙ۵۳﴾ یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی بادشاہی اور اس کا اختیار و اقتدار اسی کے پاس ہے۔ اس نے اس کا کوئی حصہ انھیں نہیں دے رکھا ہے کہ یہ جس کو چاہیں دیں اور جسے چاہیں محروم کردیں۔
اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا ﴿۵۴﴾ یہ ان کے باطن سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ ان کا تمام غم وغصہ صرف اس بات پر ہے کہ نبوت تو ان کے خاندان کا حصہ تھی۔ یہ اس سے نکل کر بنی اسماعیل کے اندر کس طرح چلی گئی ہے ؟ یعنی ان کے حسد کے علی الرغم بنی اسماعیل کے حق میں نبوت اور نبوت کے ساتھ ایک عظیم بادشاہی کا بھی فیصلہ کردیا ہے۔ یہ وہی بادشاہی ہے جو بعد میں رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی۔ اس وقت یہ ایک پیشین گوئی تھی، لیکن چند ہی برسوں میں حقیقت بن گئی اور خدا کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں پوری شان کے ساتھ نافذ ہوگیا۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۵۶﴾ لہٰذا نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے اور نہ اس کا کوئی کام انصاف اور حکمت سے خالی ہوسکتا ہے۔ اس کا قانون بےلاگ ہے، بنی اسرائیل ہوں یا بنی اسمٰعیل، وہ ہر ایک کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ کرے گا۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۵۸﴾ امانت کا لفظ ان چیزوں کے لیے آتا ہے جن کا کسی شخص کو امین بنایا جائے۔ یہاں اس سے مراد وہ مناصب اور ذمہ داریاں ہیں جو نظم اجتماعی سے پیدا ہوتی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تم سے پہلے یہ بادشاہی جن لوگوں کو دی گئی تھی، وہ تو اس میں چور ثابت ہوئے، مگر تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ تمہاری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ اس نعمت عظمیٰ کو پانے کے بعد قوم کی امانتیں اہلیت کی بنیاد پر لوگوں کے سپرد کرو اور عدل و انصاف کو زندگی کے ہر شعبے میں اور اس کی آخری صورت میں قائم کردینے کی جدوجہد کرتے رہو۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے یہ دوسری بات اپنی تفسیر میں اس طرح واضح فرمائی ہے : ”۔۔ یہ امانت کے سب سے اہم پہلو کی تفصیل بھی ہے اور اقتدار کے ساتھ جو ذمہ داری وابستہ ہے، اس کی وضاحت بھی۔ جن کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین میں اقتدار بخشتا ہے، ان پر اولین ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کو عدل و انصاف کے ساتھ چکائیں۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں امیروغریب، شریف و وضیع، کالے اور گورے کا کوئی فرق نہ ہو، انصاف خریدنی و فروختنی چیز نہ بننے پائے، اس میں کسی جنبہ داری، کسی عصبیت، کسی سہل انگاری کو راہ نہ مل سکے۔ کسی دباؤ، کسی زورواثر اور کسی خوف و طمع کو اس پر اثرانداز ہونے کا موقع نہ ملے۔ جن کو بھی اللہ تعالیٰ اس زمین میں اقتدار بخشتا ہے، اسی عدل کے لیے بخشتا ہے۔ اس وجہ سے سب سے بڑی ذمہ داری اسی چیز کے لیے ہے۔ خدا کے ہاں عادل حکمران کا اجر بھی بہت بڑا ہے اور غیرعادل کی سزا بھی بہت سخت ہے۔ اس وجہ سے تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ بہت ہی اعلیٰ نصیحت ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں کر رہا ہے، اس میں کوتاہی نہ ہو۔ آخر میں اپنی صفات سمیع وبصیر کا حوالہ دیا ہے کہ یاد رکھو کہ خدا سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے، کوئی مخفی سے مخفی ناانصافی بھی اس سے مخفی رہنے والی نہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٢٣)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿٪۵۹﴾ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب قرآن نازل ہو رہا تھا، رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) بنفس نفیس مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اور وہ اپنے نزاعات کے لیے جب چاہتے، آپ کی طرف اور آپ کی وساطت سے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرسکتے تھے۔ لیکن صاف واضح ہے کہ اللہ و رسول کی یہ حیثیت ابدی ہے۔ لہٰذا جن معاملات میں کوئی حکم انھوں نے ہمیشہ کے لیے دے دیا ہے، ان میں مسلمانوں کے اولی الامر کو، خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان، اب قیامت تک اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اولی الامر کے احکام اس اطاعت کے بعد اور اس کے تحت ہی مانے جاسکتے ہیں۔ اس اطاعت سے پہلے یا اس سے آزاد ہو کر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ مسلمان اپنی ریاست میں کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے جو اللہ و رسول کے احکام کے خلاف ہو یا جس میں ان کی ہدایت کو نظرانداز کردیا گیا ہو۔ آیت کے سیاق سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم اس میں بیان ہوا ہے، وہ صرف مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے۔ ان لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جو کھلے کفر کے مرتکب ہوں، اللہ و رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کریں یا خدا کے دین کو چھوڑ کر عملاً اپنے لیے کوئی اور دین پسند کرلیں۔ اس طرح کے لوگ قرآن کی یہ آیت سنا کر مسلمانوں سے اپنے لیے اطاعت کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یَزۡعُمُوۡنَ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَحَاکَمُوۡۤا اِلَی الطَّاغُوۡتِ وَ قَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِہٖ ؕ وَ یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۶۰﴾ یہود کے بڑے لیڈر کی طرف اشارہ ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کعب بن اشرف تھا جسے اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موت کی سزا دی اور رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے حکم سے یہ سزا اس پر نافذ کردی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر سرکش ہوچکا تھا۔ بخاری، رقم ٢٣٧٥، ٢٨٦٧، ٢٨٦٨، ٣٨١١۔ مسلم، رقم ١٨٠١۔
فَکَیۡفَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ثُمَّ جَآءُوۡکَ یَحۡلِفُوۡنَ ٭ۖ بِاللّٰہِ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡسَانًا وَّ تَوۡفِیۡقًا ﴿۶۲﴾ استاذ امام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :” جس مصیبت کے پیش آنے کا یہاں ذکر ہے، وہ بعد میں اس طرح پیش آئی کہ جب اسلام نے طاقت پکڑ لی اور یہود کی سیاسی طاقت بالکل کمزور ہوگئی تو مسلمانوں کو یہ ہدایت کردی گئی کہ اب منافقین کے معاملے میں چشم پوشی اور اغماض کی روش وہ بدل دیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے اپنی روش بدل لی اور قدم قدم پر منافقین کا احتساب شروع کردیا۔ منافقین اس صورت حال سے بہت پریشان ہوئے۔ نہ یہود میں اتنا دم خم باقی رہا تھا کہ ان کی سرپرستی کرسکیں، نہ مسلمان اب ان کے چکموں میں آنے کے لیے تیار تھے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منافقین بھاگ بھاگ کر آنحضرت (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی خدمت میں آتے اور قسمیں کھا کھا کے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ وہ یہود سے جو ربط ضبط اب تک رکھتے اور کبھی کبھی اپنے معاملات میں ان کی بالاتری تسلیم کرتے رہے ہیں، اس میں کسی فساد نیت کو دخل نہیں تھا، بلکہ ان کی خواہش صرف یہ رہی ہے کہ اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا اور جو خلیج اختلاف وعناد یہود اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہوگئی ہے وہ زیادہ وسیع نہ ہونے پائے گی۔ اس طرح وہ اپنی منافقت کو مصالحت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے اور اس کو احسان اور توفیق کے خوب صورت الفاظ سے تعبیر کرتے، لیکن واقعات کے تشت ازبام ہوجانے کے بعد اس سخن سازی کا موقع بالکل نکل چکا تھا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٢٧)