ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا ﴿۳۴﴾ یہ خاندان کی تنظیم کے لیے اللہ نے اپنا قانون بیان فرمایا ہے۔ خاندان کا ادارہ بھی، اگر غور کیجیے تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقا کے لیے ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے، اسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے۔ سربراہی کا مقام اس ریاست میں مرد کو بھی دیا جاسکتا ہے اور عورت کو بھی۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ مرد کو دیا گیا ہے۔ آیت میں اس کے لیے ’
قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ
‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ عربی زبان میں ’ قام ‘ کے بعد ’
علٰی
‘ آتا ہے تو اس میں حفاظت، نگرانی، تولیت اور کفالت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ سربراہی کی حقیقت یہی ہے اور اس میں یہ سب چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ اپنے اس فیصلے کے حق میں قرآن نے دو دلیلیں دی ہیں۔ استاذ امام ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں :” ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔ مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے جن کی بنا پر وہی سزا وار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت و مدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاؤں مارنے کی جو استعداد و ہمت اس کے اندر ہے، وہ عورت کے اندر نہیں ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے، بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں، لیکن ان کو قوامیت سے تعلق نہیں ہے۔ مثلاً عورت گھر در سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے، وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد اور عورت، دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے۔ لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے۔ دوسری یہ کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔ یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی ہے، بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس کا حق ادا کرسکتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٩١) میاں اور بیوی کے تعلق میں شوہر کو قوام قرار دینے کے بعد خاندان کے نظم کو صلاح و فلاح کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے یہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے دو چیزوں کا تقاضا کیا ہے : ایک یہ کہ انھیں اپنے شوہروں کے ساتھ موافقت اور فرمان برداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ دوسری یہ کہ شوہر کے رازوں اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ پہلی بات تو محتاج وضاحت نہیں، اس لیے کہ نظم خواہ ریاست کا ہو یا کسی ادارے کا، اطاعت اور موافقت کے بغیر ایک دن کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ نظم کی فطرت ہے۔ اسے نہ مانا جائے تو وہ نظم نہیں، بلکہ اختلال و انتشار ہوگا جس کے ساتھ کوئی ادارہ بھی وجود میں نہیں آتا۔ رہی دوسری بات تو اس کے لیے قرآن نے ’
حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ
‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ عام طور پر اس کے معنی پیٹھ پیچھے کی حفاظت کے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے اسے رازوں کی حفاظت کرنے والی کے معنی میں لیا ہے۔ اس کا یہی مفہوم ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے :”۔۔ یہ معنی لینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ’ غیب ‘ کا لفظ راز کے مفہوم کے لیے مشہور ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ترکیب کلام ایسی ہے کہ ” پیٹھ پیچھے “ کے معنی لینے کی گنجایش نہیں، تیسری یہ کہ عورت اور مرد کے درمیان رازوں کی امانت داری کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مسئلہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدرتی امین ہیں۔ بالخصوص عورت کا مرتبہ تو یہ ہے کہ وہ مرد کے محاسن و معائب، اس کے گھر در، اس کے اموال و املاک اور اس کی عزت و ناموس ہر چیز کی ایسی رازدان ہے کہ اگر وہ اس کا پردہ چاک کرنے پہ آجائے تو مرد بالکل ہی ننگا ہو کر رہ جائے۔ اس وجہ سے قرآن نے اس صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ ’
بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ
‘ کا جو اضافہ ہے، اس سے اس صفت کی عالی نسبی کا اظہار مقصود ہے کہ ان کی اس صفت پر خدا کی صفت کا ایک پر تو ہے، اس لیے کہ خدا نے بھی اپنے بندوں اور بندیوں کے رازوں کی حفاظت فرمائی ہے، ورنہ وہ لوگوں کا پردہ چاک کرنے پر آجاتا تو کون ہے جو کہیں منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٩٢) قرآن نے فرمایا ہے کہ صالح بیویوں کا رویہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو عورتیں سرکشی اور تمرد اختیار کریں یا گھر کے راز دوسروں پر افشا کرتی پھریں، وہ خدا کی نگاہ میں ہرگز صالحات نہیں ہیں۔ اصل میں ’
نُشُوْز
‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کے معنی سر اٹھانے کے ہیں، مگر اس کا زیادہ استعمال اس سرکشی اور شوریدہ سری کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت سے اس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ یہ لفظ عورت کی ہر کوتاہی، غفلت یا بےپروائی یا اپنے ذوق اور راے اور اپنی شخصیت کے اظہار کی فطری خواہش کے لیے نہیں بولا جاتا، بلکہ اس رویے کے لیے بولا جاتا ہے، جب وہ شوہر کی قوامیت کو چیلنج کر کے گھر کے نظام کو بالکل تلپٹ کردینے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ کوئی عورت اگر موافقت کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے سرکشی پر اتر آئے اور شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے اس کو شوہر ماننے سے انکار کر دے تو اس کی اصلاح کے لیے شوہر کیا اس کی تادیب کرسکتا ہے ؟ فرمایا ہے کہ معاملہ یہاں تک پہنچ رہا ہو تو مرد تین صورتیں اختیار کرسکتا ہے۔ پہلی یہ کہ عورت کو نصیحت کی جائے۔ آیت میں اس کے لیے ’
وَعْظ
‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی حد تک زجر و توبیخ بھی ہوسکتی ہے۔ دوسری یہ کہ اس سے بے تکلفانہ قسم کا خلا ملا ترک کردیا جائے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ اس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اس کے نتائج غیر معمولی ہوسکتے ہیں۔ تیسری یہ کہ عورت کو جسمانی سزا دی جائے۔ یہ سزا، ظاہر ہے کہ اتنی ہی ہوسکتی ہے جتنی کوئی معلم اپنے زیر تربیت شاگردوں کو یا کوئی باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے اس کی حد ’ غیر مبرح ‘ کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کوئی پائیدار اثر چھوڑے۔ آیت کے انداز بیان سے واضح ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ ہے، یعنی پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری صورت اسی وقت اختیار کرنی چاہیے، جب آدمی مطمئن ہوجائے کہ بات نہیں بنی اور اگلا قدم اٹھانے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ مرد کے تادیبی اختیارات کی یہ آخری حد ہے۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر اس سے اصلاح ہوجائے تو عورت کے خلاف انتقام کی راہیں نہیں ڈھونڈنی چاہئیں۔ چنانچہ ’
اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا
‘ کے الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ سب سے بلند اور سب سے بڑا خدا ہے۔ وہ جب آسمان و زمین کا مالک ہو کر بندوں کی سرکشی سے درگذر فرماتا ہے اور توبہ و اصلاح کے بعد نافرمانیوں کو معاف کردیتا ہے تو اس کے بندوں کو بھی دوسروں پر اختیار پا کر اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ابو داؤد، رقم ١٩٠٥۔
وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ یُّرِیۡدَاۤ اِصۡلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیۡنَہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا خَبِیۡرًا ﴿۳۵﴾ یعنی مرد وہ سارے جتن کرنے کے بعد بھی عورت کے نشوز پر قابو نہیں پاسکا جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب اس رشتے کو قائم رکھنا آسان نہیں رہا۔ لیکن اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ وہ بیوی کو طلاق دے کر جان چھڑا لے۔ چنانچہ اصلاح احوال کے لیے یہ ایک دوسری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور میاں بیوی کے قبیلہ، برادری اور ان کے رشتہ داروں اور خیر خواہوں سے کہا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر معاملات کو سدھارنے کی کوشش کریں۔ یہ نہایت بلیغ اسلوب میں میاں بیوی کو ترغیب دی ہے کہ انھیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ اگر افتراق کے بجائے ساز گاری چاہیں گے تو ان کا پروردگار بڑا کریم ہے۔ اس کی توفیق ان کے شامل حال ہوجائے گی۔
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾ یہ اخلاق کے فضائل و رذائل کا بیان ہے۔ اس کی ابتدا قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی اللہ کی عبادت کرتے رہنے کی ہدایت سے ہوئی ہے۔ یہ عبادت اللہ کا حق ہے اور خالق ومالک اور جہانوں کا پروردگار ہونے کی وجہ سے اسی کا حق سب سے بڑا ہے۔ اس کی حقیقت خضوع اور تذلل ہے جس کا اولین ظہور پرستش کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر انسان کے عملی وجود کی رعایت سے یہی پرستش اطاعت کو شامل ہوجاتی ہے۔ پہلی صورت کے مظاہر تسبیح وتحمید، دعا و مناجات، رکوع و سجود، نذر نیاز، قربانی اور اعتکاف ہیں۔ دوسری صورت میں آدمی کسی کو مستقل بالذات شارع و حاکم سمجھ کر اس کے لیے تحلیل و تحریم اور امر و نہی کے اختیارات مانتا اور اس کے حکم پر سر تسلیم خم کرتا ہے۔ اللہ، پروردگار عالم کا فیصلہ ہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ساتھ ہی تاکید کردی ہے کہ خدا کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھیرایا جائے۔ یہ تنہا خدا کا حق ہے۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے تو یہ باطل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اصل میں ’
وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ ب ‘ اس بات پر دلیل ہے کہ ’
اِحْسَانًا
‘ یہاں ’
بر
‘ کے مفہوم پر متضمن ہے، یعنی یہ حسن سلوک اداے حقوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کی تعلیم تمام الہامی صحائف میں دی گئی ہے۔ قرآن مجید نے یہاں اور اس کے علاوہ بنی اسرائیل (١٧) کی آیت ٢٣، عنکبوت (٢٩) کی آیت ٨، لقمان (٣١) کی آیات ١٤۔ ١٥ اور احقاف (٤٦) کی آیت ١٥ میں یہی تلقین فرمائی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے پہلے اسی کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے والدین ہی اس کے وجود میں آنے اور پرورش پانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لقمان اور احقاف میں یہ حکم جس طرح بیان ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی ماں کا حق زیادہ ہے۔ بچے کی پرورش کے معاملے میں باپ کی شفقت بھی کم نہیں ہوتی، لیکن حمل، ولادت اور رضاعت کے مختلف مراحل میں جو مشقت بچے کی ماں اٹھاتی ہے، اس میں یقیناً اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے۔ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے بھی اسی بنا پر ماں کا حق باپ کے مقابلے میں تین درجے زیادہ قرار دیا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ والدین کے علاوہ جو تعلقات اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان میں پہلا حق اعزہ و اقربا کا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسن سلوک کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے مابین وجہ تعلق ہم عمری بھی ہوسکتی ہے، ہم درسی، ہم سایگی، ہم نشینی، ہم مذاقی، ہم پیشگی اور ہم وطنی بھی، لیکن ان تمام تعلقات میں سب سے بڑھ کر وہی تعلق ہے جو رحم مادر کے اشتراک سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے جسے توڑنا انسان کے لیے کسی طرح زیبا نہیں ہے، لہٰذا اس کے حقوق کی نگہداشت بھی سب سے مقدم ہے۔اعزہ و اقربا کے بعد یہ یتامیٰ و مساکین کو اس حکم میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ گویا یہ بھی قرابت مندوں ہی کے زمرے میں ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو انھیں اسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور اسی جذبے سے ان کی خدمت اور سرپرستی کرنی چاہیے۔ تمدن کی تبدیلی کے باوجود مسافر تواب بھی کسی نہ کسی صورت میں ضرورت مند ہوجاتے ہیں، لیکن غلامی اس زمانے میں ختم ہوچکی ہے۔ اسلام نے جو اقدامات اسے ختم کرنے کے لیے کیے، ان کی تفصیلات ہم اپنی کتاب ” میزان “ میں ” قانون معاشرت “ کے زیر عنوان بیان کرچکے ہیں ۔پڑوسی کے بارے میں، البتہ قرآن کا تصور مذہب و اخلاق کی تاریخ میں ایک بالکل ہی منفرد تصور ہے۔ عام طور پر تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ پڑوسی وہ ہے جس کا مکان آپ کے مکان سے ملا ہوا یا اس کے قریب ہے، لیکن قرآن نے اس آیت میں بتایا ہے کہ پڑوسی تین قسم کا ہوتا ہے : ایک وہ جو پڑوسی بھی ہے اور قرابت مند بھی۔ اسے ’
الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی
‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کا ذکر سب سے پہلے ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے پڑوسیوں کے مقابلے میں یہ حسن سلوک کا زیادہ حق دار ہے۔ دوسرا وہ جو قرابت مند تو نہیں، لیکن پڑوسی ہے۔ اس کے لیے ’
الْجَارِ الْجُنُبِ
‘ یعنی اجنبی پڑوسی کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اجنبیت رشتہ و قرابت کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے اور دین و مذہب میں اختلاف کے باعث بھی ہوسکتی ہے۔ قرابت مند پڑوسی کے بعد اسی کا درجہ ہے۔ تیسرا وہ جو سفر و حضر میں کسی جگہ آدمی کا ساتھی یا ہم نشین بن گیا ہے۔ قرآن نے اسے ’
الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ
‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کے لیے اسی طرح حسن سلوک کی ہدایت فرمائی ہے، جس طرح دوسرے پڑوسیوں کے لیے فرمائی ہے۔اداے حقوق اور احسان کی تاکید کے بعد یہ اس کے منافی ذہنیت کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو خود اپنی قابلیت اور اپنی تدبیر و حکمت کا کرشمہ سمجھنے لگتے ہیں، ان کے اندر تواضع اور شکرگزاری کے جذبے کے بجائے اترانے اور اپنی بڑائی پر فخر کرنے کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بخاری، رقم ٥٩٧١۔ مسلم، رقم ٦٥٠٠۔
ۣ
الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ وَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿ۚ۳۷﴾
یہ اترانے اور بڑائی مارنے والوں کی چند مزید خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :” پہلی یہ کہ یہ خود بھی بخیل ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں۔ بخیل اس شخص کو کہتے ہیں جو دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں تنگ دل ہو۔ جو شخص دوسروں کے حقوق فیاضی اور کشادہ دلی کے ساتھ ادا کرتا ہے، لیکن خود اپنی ذات کے معاملے میں احتیاط اور تنگی برتتا ہے، اس کو بخیل نہیں کہتے۔ بخالت کا بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مال و اسباب کو خدا کی دین سمجھنے کے بجائے خود اپنی تدبیر و قابلیت کا کرشمہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے اندر تواضع اور شکرگزاری کا وہ جذبہ ہی مردہ ہوجاتا ہے جو فیاضی اور جودوکرم کا اصل محرک ہے۔ بخیل آدمی دوسروں کو بھی بخالت کا مشورہ دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کی فیاضی سے خود اس کی بخالت کا راز فاش ہوتا ہے۔ اپنے اس عیب پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس طرح وہ دوسروں کے حقوق دبائے بیٹھا ہے، اسی طرح دوسرے بھی بیٹھے رہیں کہ نہ کوئی ناک والا ہوگا، نہ اس کو نکوبننا پڑے گا۔ قاعدہ ہے کہ جو آدمی بزدل ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی بزدلی ہی کا درس دیتا ہے تاکہ خود اس کی بزدلی کا بھانڈا نہ پھوٹے۔دوسری یہ کہ یہ اللہ کے اس فضل کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے ان کو دے رکھا ہے یہ بخیل مال داروں کے ایک نہایت مخفی نفسیاتی پہلو کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ بخیل مال داروں کی خواہش ایک طرف تو یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص پر ان کی ریاست و امارت کی دھونس جمی رہے، دوسری طرف یہ کوشش بھی وہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی شخص اداے حقوق کے معاملے میں ان کو کوئی ملامت نہ کرسکے۔ چنانچہ یہ ہر ملنے جلنے والے اور ہر طالب وسائل کے سامنے اپنے وسیع اخراجات ، کاروبار میں نقصانات، اپنی پھیلی ہوئی ذمہ داریوں اور طالبوں اور سائلوں کی کثرت کا دکھڑا روتے رہتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ہے تو یہ شخص غنی دریا دل، لیکن بےچارہ کیا کرے، بڑی بھاری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ہزاروں لاکھوں کی آمدنی رکھنے کے باوجود اس کے پاس بچتا بچاتا کچھ بھی نہیں ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٩٩)
وَ مَاذَا عَلَیۡہِمۡ لَوۡ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِہِمۡ عَلِیۡمًا ﴿۳۹﴾ یہ اظہار افسوس کا اسلوب ہے جو ان بخل کرنے والوں کو ان کی بدقسمتی پر توجہ دلانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ والمحصنت : سورۃ النسآء :
آیت 40-41 تفسیر موجود نہیں۔
یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾ اس گواہی کی پوری حقیقت سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی اس گواہی سے واضح ہوتی ہے جس کا ذکر سورة مائدہ کے آخر میں ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے یہ ایک عظیم شرف کا بیان ہے، لیکن غور کیجیے تو اس کے ساتھ یہ آپ کے لیے ایک عظیم ذمہ داری کا بیان بھی ہے۔ چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ ابن مسعود (رض) نے ایک موقع پر حضور (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کو قرآن سناتے ہوئے یہ آیت پڑھی تو آپ شدت تاثر سے آب دیدہ ہوگئے۔ بخاری، رقم ٤٣٠٦، ٤٧٦٣۔ مسلم، رقم ٨٠٠۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا ﴿۴۳﴾ اصل میں ’ لَ
ا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کے ساتھ دو قرینے موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں ’
صَلٰوۃ
‘ کا لفظ موضع
صلوٰۃ
، یعنی مسجد پر بھی مشتمل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ ایک تو یہ کہ فرمایا نشے اور جنابت کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ پھٹکو ۔ظاہر ہے کہ اگر ’
صلوٰۃ
‘ سے مراد مجرد نماز ہوتی تو اس کے لیے ’ نماز نہ پڑھو ‘ کہہ دینا کافی تھا۔ ’
لَا تَقْرَبُوْا
‘ کے الفاظ سے اس مطلب کو ادا کرنے کا کوئی خاص فائدہ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ ’
اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ
‘ کا استثنا بھی ہے۔ یعنی اگر نماز کی جگہ سے مجرد گزر جانا مدنظر ہو تو اس میں مضائقہ نہیں۔ یہ گزر جانا ، نماز کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا، بلکہ اس کی واضح مناسبت ہوسکتی ہے تو موضع نماز ہی کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ بعض لوگوں نے اسی عدم مناسبت سے بچنے کے لیے ’
عَابِرِیْ سَبِیْلٍ
‘ سے مراد حالت سفر کو لیا ہے، لیکن یہ محض تکلف ہے۔ اول تو سفر کے لیے یہ تعبیر بالکل اجنبی ہے، دوسرے یہ کہ حالت سفر کے لیے جو رخصت ہے، وہ اسی آیت میں ’
اَوْ عَلٰی سَفَرٍ
‘ کے الفاظ سے مستقلاً بیان ہوئی ہے۔ پھر یہاں اس کے ذکر کی کیا ضرورت تھی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٠٢) اصل الفاظ ہیں : ’
اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ
‘۔ لفظ ’
غَآءِط
‘ عربی زبان میں نشیبی زمین کے لیے آتا ہے۔ یہاں یہ رفع حاجت سے کنایہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتی زندگی میں لوگ اس مقصد کے لیے بالعموم نشیبی زمینوں ہی میں جاتے ہیں۔ اوپر جس طرح عبادت اور احسان و انفاق کو باطل کردینے والی چیزوں، شرک اور ریا وغیرہ کا ذکر فرمایا تھا، اسی طرح سلسلہ بیان کے آخر میں اب یہ عبادت الٰہی کے سب سے بڑے مظہر نماز کے مفسدات بیان کیے ہیں۔ آیت پر غور کیجیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ نشے اور جنابت کو اس میں یکساں مفسد نماز قرار دیا گیا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ ہر شخص جانتا ہے کہ شراب جس طرح عقل کو معطل کردیتی ہے، اسی طرح جنابت کا انقباض بھی اس انشراح اور حضور قلب کو ختم کردیتا ہے جو نماز کے لیے مطلوب ہے۔ اس میں اتنی رخصت، البتہ اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے کہ اس حالت میں کوئی شخص اگر کسی ضرورت کے باعث مسجد کے اندر سے محض گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے۔ فرمایا ہے کہ جنابت کی اس حالت کے بعد غسل ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس غسل کے لیے آیت میں ’
تَغْتَسِلُوْا
‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اسے پورے اہتمام کے ساتھ کیا جائے۔ تاہم اس کے ساتھ اجازت دی ہے کہ سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں وضو اور غسل، دونوں مشکل ہوجائیں تو آدمی تیمم کرسکتا ہے۔ اس کا طریقہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی پاک جگہ دیکھ کر اس سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلیا جائے۔ نیز صراحت فرمائی ہے کہ تیمم ہر قسم کی نجاست میں کفایت کرتا ہے۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اس کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے اور مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے۔ اسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے۔ مثلاً یہ کہ پانی نایاب تو نہ ہو، لیکن کمیاب ہو۔ اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میں لایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے، یار یل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٠٣) یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقہ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہوجاتی ہے۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ۴۴﴾ اصل میں ’
اَلَمْ تَرَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اسلوب مخاطبین کو فرداً فرداً متوجہ کرنے اور اظہار تعجب و افسوس کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اصل الفاظ ہیں : ’
الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ
‘۔ ان میں ’
مِنْ
‘ بیان کے لیے ہے، یعنی وہ لوگ جن کے حصے میں کتاب الٰہی آئی اور دنیا کی سب قوموں کو چھوڑ کر وہ اس سے نوازے گئے۔
مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَمِعۡنَا وَ عَصَیۡنَا وَ اسۡمَعۡ غَیۡرَ مُسۡمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَـیًّۢا بِاَلۡسِنَتِہِمۡ وَ طَعۡنًا فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا وَ اسۡمَعۡ وَ انۡظُرۡنَا لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَقۡوَمَ ۙ وَ لٰکِنۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۴۶﴾ یہود کی جن شرارتوں کا ذکر آگے ہوا ہے، وہ سب نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) پر طنز کے لیے ہیں، لیکن قرآن نے ان کو ’
طَعْنًا فِی الدِّیْنِ
‘ (دین پر طعن) سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ دین و شریعت اور نبی کی شخصیت اصل میں ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اس وجہ سے نبی پر طعن خود دین پر طعن کے مترادف ہے۔ یہ ان شرارتوں کی طرف اجمالاً اشارہ کیا ہے جو یہود کے اشرار نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی توہین کے ارادے سے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو دوسروں کی نگاہ میں حقیر اور بےوقعت بنانے کے لیے کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال عرب کے مجلسی الفاظ میں ان کی تحریف تھی جو متکلم کی تحسین، سننے والوں کی طرف سے ذوق وشوق اور اعتراف و قبول کے اظہار کے لیے بولے جاتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یہ الفاظ اصلاً تو اظہار تحسین یا اعتراف و قبول کے لیے ہیں، لیکن اگر کوئی گروہ شرارت اور بدتمیزی کرنا چاہے تو ذرا زبان کو توڑ مروڑ کر، تلفظ کو بگاڑ کر، یا لب ولہجے میں ذرا مصنوعی انداز پیدا کر کے بڑی آسانی سے تحسین کو تقبیح اور اعتراف و اقرار کو طنزواستہزا بنا سکتا ہے۔ اس سے متکلم کے وقار کو کوئی نقصان پہنچے یا نہ پہنچے، لیکن شرارت پسند اشخاص اس طرح اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کر کے خوش ہوجاتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٠٩) استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”’
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا
‘ کے لفظی معنی ہیں : ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اہل عرب یہ اس موقع پر بولتے تھے جب اپنے کسی بڑے، کسی سردار، کسی بادشاہ کے حکم و ارشاد پر اپنی طرف سے امتثال امر کے لیے آمادگی اور مستعدی کا اظہار کرنا چاہتے۔ عربی میں اس کے لیے ’
طَاعَۃٌ
‘ کا لفظ بھی ہے جو قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہودی اشرار آنحضرت (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی مجالس میں جاتے تو اپنی سعادت مندی اور وفاداری کی نمایش کے لیے ’
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا
‘ تو بات بات پر کہتے، لیکن لب ولہجے کے تصرف سے اس کو ادا اس طرح کرتے کہ ’
اَطَعْنَا
‘ کو ’
عَصَیْنَا
‘ بنا لیتے۔ چونکہ دونوں کے حروف ہم آہنگ اور قریب المخرج ہیں، اس وجہ سے اس تحریف میں ان کو کامیابی ہوجاتی۔ اس طرح وہ تسلیم و اطاعت کے جملے کو نافرمانی و سرکشی کے قالب میں ڈھال دیتے اور سمجھنے والے ان کی اس شرارت پر کوئی گرفت بھی نہ کرسکتے، اس لیے کہ وہ بڑی آسانی سے یہ بہانہ بنا سکتے تھے کہ ہم نے ’
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا
‘ کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں شریف اور خوددار آدمی بات کو سن اور سمجھ کر بھی خاموشی سے ٹال دینے ہی کو بہتر خیال کرتا ہے۔ ’
اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ
‘ کے لفظی معنی ہیں : سنو وہ بات جو پہلے سنائی نہیں گئی۔ اس فقرے کا اچھا محل یہ ہے کہ مجلس میں متکلم یا خطیب کی کوئی حکیمانہ بات سن کر ایک سامع دوسرے سامع کو متوجہ کرے کہ یہ دانش مندانہ اور حکیمانہ بات سنیے، یہ بات پہلی بار ہمارے کانوں نے سنی ہے، اس سے پہلے یہ بات کبھی ہم نے نہیں سنی۔ ظاہر ہے کہ یہ بات نہ صرف متکلم اور خطیب کی قدردانی کی دلیل ہے، بلکہ دوسروں کو اس کی قدردانی کے لیے تشویق و ترغیب بھی ہے، لیکن کوئی شخص ہوٹنگ (hooting ) کے انداز میں بانداز تمسخر یہی بات کہے تو اس کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ’ ذرا اس کی ناشنیدنی سنو، یہ کیسی بےپر کی اڑا رہا ہے، ایسی بات کا ہے کو کبھی کسی نے سنی ہوگی ! ‘ ظاہر ہے کہ محض انداز اور لب ولہجے کی تبدیلی نے اس نہایت اعلیٰ فقرے کو طعن وطنز کا ایک زہر آلود نشتر بنا دیا۔ لیکن اس پر بھی کوئی گرفت نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ گرفت ہو تو کہنے والا صفائی پیش کرسکتا ہے کہ میں نے تو طنز کے طور پر نہیں، بلکہ تحسین کے طور پر کہا ہے۔ چونکہ اس فقرے میں طنز کا پہلو ’
غَیْرَ مُسْمَعٍ
‘ کے الفاظ سے پیدا ہوتا تھا، اس لیے قرآن نے اس کی یہ نوک توڑ دی اور ہدایت کی کہ صرف ’
اِسْمَعْ
‘ کہا جائے۔’
رَاعِنَا
‘ کے لفظی معنی ہیں، ذرا ہماری رعایت فرمائیے۔ اس لفظ کا اچھا محل استعمال یہ ہے کہ اگر مخاطب نے متکلم کی بات اچھی طرح سنی یا سمجھی نہ ہو یا بات ایسی لطیف اور حکیمانہ ہو کہ خود متکلم کی زبان سے اس کو مکرر سننا چاہے تو اس کو دوبارہ متوجہ کرنے کے لیے جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں : پھر ارشاد ہو، پھر فرمائیے، اسی طرح عربی میں ’
رَاعِنَا
‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ سامع کے ذوق وشوق اور اس کی رغبت علم کی دلیل ہے، لیکن یہودی اشرار ’
لیّ لسان
‘ یعنی زبان کے توڑ مروڑ کے ذریعے سے اس کو بھی طنز کے قالب میں ڈھال لیتے تھے۔ اس کی شکل یہ ہوتی کہ ’
رَاعِنَا
‘ میں ’ ع ‘ کے کسرہ کو ذرا دبا دیجیے تو یہ لفظ ’ راعینا ‘ بن جائے گا اور اس کے معنی ہوں گے : ” ہمارا چرواہا “۔ قرآن نے یہود کی اس شرارت کی وجہ سے اس لفظ کو سرے سے مسلمانوں کے مجلسی الفاظ ہی سے خارج کردیا اور اس کی جگہ ’
اُنْظُرْنَا
‘ کے استعمال کی ہدایت فرمائی جس کے معنی ہیں : ذرا ہمیں مہلت عنایت ہو، ذرا پھر توجہ فرمائیے۔ یعنی مفہوم کے لحاظ سے یہ ٹھیک ٹھیک ’
رَاعِنَا
‘ کا قائم مقام ہے اور اس میں لہجے کے بگاڑ سے کسی بگاڑ کے پیدا کیے جانے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٠٩) یعنی ان میں سے شاذ کوئی مان لے تو مان لے، ایک گروہ کی حیثیت سے اب ان کے ایمان لانے کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے کہ اتمام حجت کے باوجود جب انھوں نے رسول کی تکذیب کا فیصلہ کرلیا ہے تو ان کے اس جرم کی پاداش میں اللہ نے بھی ان پر لعنت کردی ہے جس کے نتیجے میں یہ توفیق ہدایت سے محروم ہوچکے ہیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰۤی اَدۡبَارِہَاۤ اَوۡ نَلۡعَنَہُمۡ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصۡحٰبَ السَّبۡتِ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا ﴿۴۷﴾ یہ تہدیدو وعید کی آیت ہے۔ اس میں دعوت کا ذکر محض اتمام حجت کے لیے ہوا ہے۔ اصل میں ’
اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ طمس الشء ‘ کے معنی کسی چیز کے آثارو علامات مٹادینے کے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تمہارے چہروں پر یہ آنکھ، کان، منہ اور ناک کے نشانات مٹا کر برابر کردیں گے، اس لیے کہ یہ قوتیں جس مقصد سے عطا ہوئی ہیں، جب ان سے وہ کام نہیں لیا گیا تو انھیں باقی رکھنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے بعد تو یہی بہتر ہے کہ چہرے بھی اسی طرح سپاٹ بنا دیے جائیں، جس طرح سر کے پیچھے کا حصہ سپاٹ ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ’
وُجُوْہًا
‘ کا لفظ اس جملے میں نکرہ آیا ہے۔ یہ نفرت وکراہت کے اظہار کے لیے ہے اور اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ متکلم ان لعنت زدہ چہروں کا تعین کے ساتھ ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا ’
وجوھہم
‘ نہیں کہا، ان سے منہ پھیر کر ’
وُجُوْہًا
‘ کہا ہے۔ اس کے بعد ’
نَلْعَنَہُمْ
‘ کی ضمیر غائب بھی اسی رعایت سے آئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :” یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے مجھے باربار یہ خیال ہوتا ہے کہ چہروں کو بگاڑ دینے کی دھمکی جو ان کو دی گئی، اس میں عمل اور سزا کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اوپر والی آیت میں ان کی یہ حرکت جو بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر کا مذاق اڑانے کے لیے منہ بنا بنا کر اور لہجے بگاڑ بگاڑ کر الفاظ کو کچھ سے کچھ کردیتے ہیں اور اس منہ بنانے اور الفاظ کے بگاڑنے کو انھوں نے ہنر سمجھ رکھا ہے، اس کی بنا پر وہ مستحق ہوئے کہ واقعی ان کے چہرے مسخ ہی کردیے جائیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس جنھوں نے حق سے منہ موڑنے ہی کو شیوہ بنا لیا ہے تو وہ سزاوار ہیں کہ ان کے چہرے پیچھے ہی کی طرف الٹ دیے جائیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣١٢) اِس سے پہلے جو مضمون ’
اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا
‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے، یہ اسی کی تفصیل ہے۔ یعنی یہود کے جن لوگوں نے سبت کے دن کی بےحرمتی کی، ان پر لعنت کردی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ یہ ذلیل بندر بنا دیے گئے۔ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ان کی سیرت مسخ ہوئی اور اس کے بعد ایک ظاہری فرق جو تھوڑا سارہ گیا تھا، وہ بھی بالآخر مٹ گیا۔ یہاں تک کہ اس لعنت نے ان کے ظاہروباطن، ہر چیز کا احاطہ کرلیا۔