محمد اویس پارس
رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا ﴿۳۴﴾
یہ خاندان کی تنظیم کے لیے اللہ نے اپنا قانون بیان فرمایا ہے۔ خاندان کا ادارہ بھی، اگر غور کیجیے تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقا کے لیے ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے، اسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے۔ سربراہی کا مقام اس ریاست میں مرد کو بھی دیا جاسکتا ہے اور عورت کو بھی۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ مرد کو دیا گیا ہے۔ آیت میں اس کے لیے ’ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ عربی زبان میں ’ قام ‘ کے بعد ’ علٰی ‘ آتا ہے تو اس میں حفاظت، نگرانی، تولیت اور کفالت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ سربراہی کی حقیقت یہی ہے اور اس میں یہ سب چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ اپنے اس فیصلے کے حق میں قرآن نے دو دلیلیں دی ہیں۔ استاذ امام ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں :” ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔ مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے جن کی بنا پر وہی سزا وار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت و مدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاؤں مارنے کی جو استعداد و ہمت اس کے اندر ہے، وہ عورت کے اندر نہیں ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے، بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں، لیکن ان کو قوامیت سے تعلق نہیں ہے۔ مثلاً عورت گھر در سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے، وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد اور عورت، دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے۔ لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے۔ دوسری یہ کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔ یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی ہے، بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس کا حق ادا کرسکتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٩١) میاں اور بیوی کے تعلق میں شوہر کو قوام قرار دینے کے بعد خاندان کے نظم کو صلاح و فلاح کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے یہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے دو چیزوں کا تقاضا کیا ہے : ایک یہ کہ انھیں اپنے شوہروں کے ساتھ موافقت اور فرمان برداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ دوسری یہ کہ شوہر کے رازوں اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ پہلی بات تو محتاج وضاحت نہیں، اس لیے کہ نظم خواہ ریاست کا ہو یا کسی ادارے کا، اطاعت اور موافقت کے بغیر ایک دن کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ نظم کی فطرت ہے۔ اسے نہ مانا جائے تو وہ نظم نہیں، بلکہ اختلال و انتشار ہوگا جس کے ساتھ کوئی ادارہ بھی وجود میں نہیں آتا۔ رہی دوسری بات تو اس کے لیے قرآن نے ’ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ عام طور پر اس کے معنی پیٹھ پیچھے کی حفاظت کے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے اسے رازوں کی حفاظت کرنے والی کے معنی میں لیا ہے۔ اس کا یہی مفہوم ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے :”۔۔ یہ معنی لینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ’ غیب ‘ کا لفظ راز کے مفہوم کے لیے مشہور ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ترکیب کلام ایسی ہے کہ ” پیٹھ پیچھے “ کے معنی لینے کی گنجایش نہیں، تیسری یہ کہ عورت اور مرد کے درمیان رازوں کی امانت داری کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مسئلہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدرتی امین ہیں۔ بالخصوص عورت کا مرتبہ تو یہ ہے کہ وہ مرد کے محاسن و معائب، اس کے گھر در، اس کے اموال و املاک اور اس کی عزت و ناموس ہر چیز کی ایسی رازدان ہے کہ اگر وہ اس کا پردہ چاک کرنے پہ آجائے تو مرد بالکل ہی ننگا ہو کر رہ جائے۔ اس وجہ سے قرآن نے اس صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ ’ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ‘ کا جو اضافہ ہے، اس سے اس صفت کی عالی نسبی کا اظہار مقصود ہے کہ ان کی اس صفت پر خدا کی صفت کا ایک پر تو ہے، اس لیے کہ خدا نے بھی اپنے بندوں اور بندیوں کے رازوں کی حفاظت فرمائی ہے، ورنہ وہ لوگوں کا پردہ چاک کرنے پر آجاتا تو کون ہے جو کہیں منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٩٢) قرآن نے فرمایا ہے کہ صالح بیویوں کا رویہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو عورتیں سرکشی اور تمرد اختیار کریں یا گھر کے راز دوسروں پر افشا کرتی پھریں، وہ خدا کی نگاہ میں ہرگز صالحات نہیں ہیں۔ اصل میں ’ نُشُوْز ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کے معنی سر اٹھانے کے ہیں، مگر اس کا زیادہ استعمال اس سرکشی اور شوریدہ سری کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت سے اس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ یہ لفظ عورت کی ہر کوتاہی، غفلت یا بےپروائی یا اپنے ذوق اور راے اور اپنی شخصیت کے اظہار کی فطری خواہش کے لیے نہیں بولا جاتا، بلکہ اس رویے کے لیے بولا جاتا ہے، جب وہ شوہر کی قوامیت کو چیلنج کر کے گھر کے نظام کو بالکل تلپٹ کردینے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ کوئی عورت اگر موافقت کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے سرکشی پر اتر آئے اور شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے اس کو شوہر ماننے سے انکار کر دے تو اس کی اصلاح کے لیے شوہر کیا اس کی تادیب کرسکتا ہے ؟ فرمایا ہے کہ معاملہ یہاں تک پہنچ رہا ہو تو مرد تین صورتیں اختیار کرسکتا ہے۔ پہلی یہ کہ عورت کو نصیحت کی جائے۔ آیت میں اس کے لیے ’ وَعْظ ‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی حد تک زجر و توبیخ بھی ہوسکتی ہے۔ دوسری یہ کہ اس سے بے تکلفانہ قسم کا خلا ملا ترک کردیا جائے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ اس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اس کے نتائج غیر معمولی ہوسکتے ہیں۔ تیسری یہ کہ عورت کو جسمانی سزا دی جائے۔ یہ سزا، ظاہر ہے کہ اتنی ہی ہوسکتی ہے جتنی کوئی معلم اپنے زیر تربیت شاگردوں کو یا کوئی باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس کی حد ’ غیر مبرح ‘ کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کوئی پائیدار اثر چھوڑے۔ آیت کے انداز بیان سے واضح ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ ہے، یعنی پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری صورت اسی وقت اختیار کرنی چاہیے، جب آدمی مطمئن ہوجائے کہ بات نہیں بنی اور اگلا قدم اٹھانے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ مرد کے تادیبی اختیارات کی یہ آخری حد ہے۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر اس سے اصلاح ہوجائے تو عورت کے خلاف انتقام کی راہیں نہیں ڈھونڈنی چاہئیں۔ چنانچہ ’ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا ‘ کے الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ سب سے بلند اور سب سے بڑا خدا ہے۔ وہ جب آسمان و زمین کا مالک ہو کر بندوں کی سرکشی سے درگذر فرماتا ہے اور توبہ و اصلاح کے بعد نافرمانیوں کو معاف کردیتا ہے تو اس کے بندوں کو بھی دوسروں پر اختیار پا کر اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ابو داؤد، رقم ١٩٠٥۔