• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 1

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

تفسیر سرسید :

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید کی سورتوں کو جو سورة کہتے ہیں اس کی وجہ تسمیہ میں متعدد اقوال ہیں۔ سب سے صاف یہ ہے کہ سورت شہر کی فصیل کو کہتے ہیں جس سے شہر محدود ہوجانا ہے۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید کی آیات مسعتینہ محدودہ پر صورت کا اطلاق کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں بھی آٹھ جگہ سورت کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ وہاں لفظ سورة سے قرآن مجید کی صورتیں جو سورتوں کے نام سے مشہور ہیں مراد نہیں ہے۔ بلکہ ان سے قرآن مجید کا ایسا حصہ مراد ہے جن میں کوئی پورا مطلب اور منشا بیان کیا گیا ہو۔ مگر جبکہ کوئی حصہ تعین کیا جاویگا تو پرور ہے کہ وہ بھی معین و محدود ہوگا۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید میں اس پر سورت کا اطلاق ہوا ہے۔ پس اوسی کی پیروی سے۔ ان مجموعہ آیات پر جو درحقیقت معین و محدود اور اپنے ماقبل ومابعد سے علیحدہ ہیں۔ سورت کا اطلاق کرنا۔ نہایت درست و صحیح ہے۔
قرآن مجید میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں۔ ان سے بجز اونتیس (29) کے جن کی ابتداء میں حروف مقطعات ہیں اور کسی کو خدا تعالیٰ نے کسی نام سے موسوم نہیں کیا۔ جس قدر نام سورتوں کے ہیں وہ سب بعد کے رکھے ہوئے ہیں۔ کیا عجب ہے کہ صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین کے زماناہ ہی میں یہ نام مشہور ہوگئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی بات کا کچھ ثبوت نہیں ہے۔ حدیثوں میں جو ان سورتوں میں سے بعض کے نام آئے ہیں اگرچہ وہ حدیثیں ثابت نہیں ہیں۔ تاہم اگر ان کو ثابت بھی گنا جاوے تو اس سے بجز اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ کہ راوی اخیر کے زمانہ میں وہ سورت اسی نام سے مشہور تھی۔
یہودیوں کا دستور تھا کہ توراۃ کی سورتوں کو یا اس کے شروع کے لفظ سے موسوم کرتے تھے۔ یا جس معاملہ یا مطلب پر وہ سورت دلالت کرتی تھی اسی میں سے کوئی لفظ لے کر اس کا نام رکھ دیتے تھے۔ مثلاً توراۃ کی پہلی سورت کے شروع میں لفظ ” براشیث “ آیا ہے اس کا نام انھوں نے ” سو رہ براثیث “ رکھا ہے اسی قاعدہ کے مطابق اہل اسلام نے بھی قرآن مجید کی سورتوں کے نام رکھے ہیں۔ اس سورت کا نام جو سورة فالحہ رکھا ہے اس لحاظ سے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید اس سے شروع ہوتا ہے۔ مگر یہ نام ان ناموں میں سے نہیں ہے جو وحی سے ٹھہرائے گئے ہیں۔
(اختلاف قرات) جب قرآن نازت ہوتا تھا۔ تو متفرق ٹکڑوں پر لکھ لیا جاتا تھا اور لوگ جو سنتے تھے اس کو یہ زبانی یاد بھی کرلیا کرتے تھے ۔ مگر جیسا کہ عام قاعدہ فطرت انسانی کا ہے برزبان یاد کرنے والوں کو پیش آتا تھا۔ یعنی جس کا حافظہ قوی تھا اس کو نہایت صحت و ضبط کے ساتھ یاد رہتا تھا اور جس کا حافظہ قوی نہ تھا اس کو ایسے ضبط سے یاد نہ رہتا تھا۔ اور اس وجہ سے اختلاف قراءت پیدا ہوگئے تھے۔ کسی کو واو کی جگہ فے یادرہ گئی۔ کسی کو زیر کی جگہ زبر کسی کو سکون کی جگہ تشدید۔ اور کچھ شبہہ نہیں کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی شخص برزبان یاد رکھنے میں کوئی کلمہ یا آیات بھول گیا، یا کوئی غیر کلمہ اس کی زبان پر چڑھ گیا جو درحقیقت اس میں نہ تھا۔ غرضیکہ زبانی یاد رکھنے میں جو امور کہ موافق فطرت انسانی پیش آسکتے ہیں اس زمانہ کے لوگوں کو بھی پیش آتے تھے۔ مگر جو لغزشیں اس طرح واقع ہوتی تھیں اس کے درست کرنے والے یا تو وہ لوگ تھے جو نہایت صحت و ضبط سے یاد رکھتے تھے یا وہ متفرق لکھے ہوئے پرچے تھے جو قرآن نازل ہونے کے بعدلکھ لیے جاتے تھے ۔ غرضیکہ زبانی غلطیاں یا تو بخوبی یاد رکھنے والوں سے یا متفرق لکھے ہوئے پرچوں سے جو لوگوں کے پاس تھے صحیح ہوجاتی تھیں۔
یہ اختلاف روز بروز جیسا کہ عام قاعدہ سے بڑھتا جاتا تھا۔ اس لیے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت میں صحابہ نے اس پر اتفاق کیا۔ کہ ان متفرق پرچوں کو جمع کر کے تمام قرآن مجید کو ایک جگہ لکھ لینا چاہیے۔ تاکہ اختلاف نہ بڑھے۔ پس زید بن ثابت نے وہ تمام متفرق پرچے جمع کیے اور اپنے ہم عصروں سے جو قرآن کو بخوبی یاد رکھتے تھے اور جن کے پاس متفرق پرچے لکھے ہوئے تھے مدد لی۔ اور اول سے آخر تک قرآن مجید لکھ لیا۔
حضرت عثمان (رض) کے وقت تک بلادہ دردست میں اسلام پھیل گیا تھا۔ اور صرف ایک قرآن کا مدینہ میں ہونا کافی نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اس قرآن کی جس کو زید بن ثابت نے لکھا تھا متعدد نقلیں کیں۔ اور دور دور کے ملکوں میں بھیج دیا۔ یہ کارروائی نہایت مفید ہوئی اور سب سے بڑا یہ کام ہوا کہ اس زمانہ سے پہلے کسی کو کوئی سورة یاد تھی اور کسی کو کوئی سورة یاد تھی۔ کسی کو دو یاد تھیں ، کسی کو دس یاد تھیں، کسی کو آدھی یاد تھی ، کسی کو پاؤ، اب سینکڑوں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جن کو بہ ترتیب من اولہ الیٰ آخرہ تمام قرآن یاد تھا۔
اگرچہ اب وہ غلطیاں جو نسبت اسقاط یا اضافہ کلمات کے زبانی یاد رکھنے والوں کو پڑتی تھیں۔ بالکل جاتی رہیں۔ مگر پھر بھی کسی قدر اختلاف قراءت باقی رہا۔ اس لیے کہ یہ سب قرآن جو لکھے گئے تھے قدیم کوفی خط میں تھے جس میں نہ نقطے ہوتے تھے نہ اعراب۔ اور اگرچہ عرب اس سبب سے کہ ان کی زبان تھی اس کو بخوبی بلا تکلف بصحت پڑھتے تھے۔ مگر پھر بھی بعضے ایسے لفظ تھے کہ بلحاظ قواعد صرف ونحو زبان عرب کے۔ یا یوں کہو کہ مطابق بول چال اہل عرب کے ۔ اگر اس کو (سی) سے پڑھو تو بھی معنی ٹھیک ہوتے ہیں۔ اور اگر (تے) سے پڑھو تو بھی معنی ٹھیک ہوتے ہیں۔ اگر سکون سے پڑھو تو بھی صحیح ہے۔ اور اگر تشدید سے پڑھو تو بھی صحیح ہے۔ چنانچہ اس قسم کے اختلاف قراءت مگر بہت کم باقی رہ گئے۔
تھوڑے دنوں بعد جبکہ بعض صحابہ اور بہت سے تابعین زندہ تھے۔ اور ہزاروں شخص قرآن مجید کو بہ ترتیب من اولہ الی آخرہ یاد رکھنے والے موجود تھے۔ اس اختلاف کے رفع کرنے پر بھی کوشش کی گئی۔ اور قرآن مجید میں اعراب اور نقاط بالکل لگا دیئے۔ کتابوں میں تو بلاشبہ ان پہلے اختلافوں کا ذکر ہوتا ہے مگر فی الواقع اختلاف قراءت بالکل جاتا رہا۔ اور ہزارہا قراءت میں ایک حزرف یا ایک اعراب کا بھی فرق نہ تھا۔ اور آج کے دن بھی جو یکم شوال 1308 عیسوی بمطابق 1294 ہجری موافق اکتوبر 1877 عیسوی کے ہی ہزاروں حافظ ہر ملک میں اسی قسم کے موجود ہیں۔ درحقیقت یہ شرف سوائے قرآن مجید کے اور کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ کہ اگر تمام دنیا سے قرآن کے قلمی اور چھاپہ کے نسخے معدوم کردیئے جاویں تو حافظوں کے سینہ سے پھر قرآن بالکل ایسا ہی نقل ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ہے اور جس میں ایک لفظ اور ایک شوشہ ایک اعراب کا بھی فرق نہ ہوگا۔
اس کے سوا ایک اور قسم کا اختلاف قراءت ہے جو عرب کی مختلف قوموں کے لہجہ اور محاورہ زبان سے علاقہ رکھتا ہے۔ یا جو اختلاف گنواروں اور اشرافوں پر ہے لکھوں اور جاہلوں کی زبان میں ہوتا ہے۔ اس کو اختلاف قراءت پر منسوب کرنا بیجا ہے۔ کیونکہ وہ اختلاف قراءت نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف تلفظ ہی جس کو انگریزی زبان میں ” پر وفنی ایشن “ کہتے ہیں۔
توریت اور صحف انبیاء اور انجیل کے قلمی نسخے جو اب دنیا میں موجود ہیں۔ وہ آپس میں نہایت مختلف ہیں۔ اگرچہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں۔ کہ یہودوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ اور نہ علما سے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علماء سے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ اور نہ علمائے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علماء سے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف و تبدیل کی ہے۔ اس پر عیسائی مصنفوں نے اس امر محال کے اثبات پر کوشش کی ہے کہ قرآن میں بھی تحریف ثابت کریں۔ اور انھوں نے اپنی اس ناشدنی سعی میں کامیاب ہونے کو تین امر پر استدلال کیا ہے۔ اول اختلاف قراءت پر جس کا بالتفصیل اوپر مذکور ہوا۔ دوم شیعہ مذہب کی ایسی روایتوں پر جن کو خود شیعہ بھی تسلیم نہیں کرتے جن میں کذاب اور ایک گروہ کے طرفدار راویوں نے بیان کیا ہے کہ قرآن میں اور بھی آیتیں یا سورتیں حضرت علی اور اہل بیت کی شان میں ہیں۔ جو جامعین قرآن نے داخل نہیں کیں۔ سوم ان لغو اور بیہودہ روایتوں پر جن میں بعض آیات متروک التلاوت یا منسوخ التلاوت کا ہونا بیان کیا گیا ہے اور جن کو شریر و بدمذہب آدمیوں نے شہرت دیا ہے۔
قرآن مجید کے اختلاف قراءت کو اور توراۃ و صحت انبیاء و زبور و انجیل کے اختلاف عبارت کو یکساں قرار دینا دیدہ دانستہ ایک غلطی کرنا ہے۔ ریونڈمسٹر ہارن مختلف عبارتوں میں لکھتے وقت لکھتے ہیں کہ ” دو یا زیادہ مختلف عبارتوں میں صرف ایک عبارت صحیح ہوسکتی ہے۔ باقی خواہ تودیدۃ دانستہ تبدیل کی گئی ہونگی یا وہ نقل کرنے والوں کی غلطیاں ہونگی “ پھر وہ یہودی اور عیسائی کتب مقدسہ میں اختلاف عبارت ہونے کے چار سبب لکھتے ہیں۔ اول لکھنے والے کی غفلت یا غلطی۔ دوم جن نسخوں سے نقل کی گئی ہو ان کا غلط یا ناقص ہونا۔ سوم نقل کرنے والے کا بلاکافی و معتبر سند کے اصل عبارت میں اصلاح دینا ۔ چہارم دیدہ و دانستہ کسی خاص فریق کی تائید کے لیے عبارت کا بگاڑ دینا ۔ پس قرآن مجید کا کوئی بھی اختلاف قراءت ان حالتوں میں سے کسی حالت کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتا۔
علاوہ اس کے قرآن مجید کی تحریف ثابت کرنے کو عیسائی مصنفوں نے جن مذکورہ بالامخرجوں پر استدلال کیا ہے۔ اور جو مخرج فی نفسہ غلط ہیں۔ ان کی غلطی ثابت کرنے پر ایک طولانی بحث کرنے سے زیادہ تر یہ مختصر بات بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ جس بنا پر عیسائیوں نے تحریف قرآن کا دعویٰ کیا ہے اسی طرح پر دعویٰ کرنا ب مقابل ان مسلمانوں کے جو دعویٰ تحریف لفظی کا کتب مقدسہ یہودیوں اور عیسائیوں میں کرتے ہیں صحیح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ ان مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح پر کہ ابتدا میں توراۃ وصحف انبیاء و انجیل وزبور لکھی گئی تھی بعد اس کی تحریر کے یہودیوں اور عیسائیوں نے اس میں تحریف لفظی کی ہے اور جملے اور کلمے اور آیتیں نکال دی ہیں اور اپنی طرف سے آیتیں اور جملے اور کلمے بلکہ کتابیں کی کتابیں لکھ کر داخل کردی ہیں۔
پس اگر کوئی عیسائی اس کے مقابلہ میں قرآن کی تحریف کا دعویٰ کرنا چاہے۔ تو اس کو اختلاف قراءت یا روایات غیر مسلمہ اہل مذہب کا پیش کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان کے مقابل جب ہوسکتا ہے جب وہ یہ دعویٰ کرے کہ جو قرآن زید بن ثابت نے ابتداء میں لکھا تھا اس کی تحریر کے یہ آیت یا یہ سورت اس میں سے نکال ڈالی گئی ہے اور یہ آیت یا یہ کلمات اس میں بڑھا دیئے گئے ہیں۔ یا یہ صحیفے یا یہ اعراب تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ اور اگر وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تو بالفرض زید بن ثابت نے جو کچھ کیا ہو۔ کیا ہو۔ مگر قرآن پر تحریف کا دعویٰ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جیسا وہ جب لکھا گیا تھا۔ ویسا ہی اب تک موجود ہے۔
زید بن ثابت نے جب قرآن لکھا تھا اور جس کی نقل حضرت عثمان (رض) نے کی تھی۔ اس زبانیں قواعد رسم خط کے بخوبی منضبط نہیں ہوئے تھے۔ اور اس سبب سے بہت سے الفاظ زید بن ثابت نے اس طرح لکھے ہیں جو ان قواعد رسم خط سے بعد کو منضبط ہوئے مختلف ہیں مگر صرف اس خیال سے کہ جو کچھ زید بن ثابت نے لکھا ہے اس میں تبدیلی نہ واقع ہونے پاوے۔ حضرت عثمان (رض) نے بھی وہی رسم خط رہنے دی تھی۔ اور اس کے بعد تمام مسلمانوں نے صرف قرآن کی تحریر میں اسی رسم خط کو رہنے دیا۔ اور یہاں تک اس میں غلو کیا کہ اس کے برخلاف رسم خط تحریر قرآن میں اختیار کرنے کو گناہ اور کفر قرار دے دیا۔
قاری مصطفیٰ تفسیر بحر العلوم کے مصنف نے لکھا ہے کہ ” مطابقت خط مصحف عثمانی ہر کاتب قرآن ازواجبات دینی ست کہ اجماع صحابہ براں واقع شدہ است و مخالفت اجماع حرام باشد و جمہور علماء وائمہ مذاہب اربعہ سنیہ بریں اندور مقنہ آمدہ سئل مالک ھل یکتب ما احد ثہ الناس من الھجا فقال لا الا علی کتبۃ الاولیٰ ۔
اور اثقان فے علوم القرآن میں لکھا ہے کہ ” کان احمد یحرم مخالفۃ خط عثمان (رض) فی راواویاء اولف اور غیر ذلک۔
اور ابن مہران کا قول ہے کہ ” اتباع المصحف فی ھجاء ہ واجب و من طعن فی شیء من ھجاء ہ لھوکا لطاعن فی تلاوتہ لانہ بالھجاء یتلیٰ ۔
اور حدیقہ البیان میں لکھا ہے کہ ” اگر کسی اعتقاد و کند کہ بر موافق امام یعنی مصحف عثمانی نباید نوشت نسبت خطا برقلم اولین کردہ باشد زیرا کہ ” لوح محفوظ بہ ہماں طور نوشتہ شدہ است و نیر بجناب صحابہ (رض) بلکہ بجناب رسالت معلم صحابہ و یجرئیل معلم رسول نسبت خطا واقع میشووزیادتی و کمی قرآن حاصل می آید وایں ہمہ قریب کفر ست “۔
اور کتاب ہجا میں ابی عبداللہ محمد کا یہ قول ہے کہ ” من خالف الامام صار فاسقا و دحل تحت و عید من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار۔
اور ایضاح میں لکھا ہے کہ ” یکرہ قراۃ القراٰن من المصحف الذی یخالف ما خطہ ایں ثابت (رض) ۔
یہ تشدوات صرف اسی مطلب سے ہیں کہ جو کچھ زید بن ثابت نے لکم اور جس کی بعینہ نقل حضرت عثمان (رض) نے کی۔ اس میں ذرہ بھی فرق نہ پڑنے پاوے۔ چنانچہ آج تک قرآن مجید اسی طرح محفوظ ہے۔ پس ہر شخص یہ بات کہہ سکے گا اور قبول کرسکے گا کہ دنیا میں کوئی قلمی کتاب بجز قرآن مجید کے ایسے موجود نہیں ہے۔ کہ تیرہ سو برس کے بعد بھی ایسی ہی موجود ہے۔ جیسی کہ پہلے دن لکھی گئی تھی۔ جس میں ایک شوشہ تک کا فرق نہیں ۔ اور باوجودیکہ لاکھا قلمی نسخے اس کے پھیلے۔ مگر سب یکساں ہیں۔ پھر ایسی کتاب کی نسبت یہ کہنا کہ اس میں بھی اس قسم کی تحریف ہوئی ہے۔ جیسی کہ مسلمان توراۃ و انجیل میں بیان کرتے ہیں۔ ایسی بات ہی جس کو کوئی شخص نہ بت پرست نہ یہودی۔ نہ عیسائی۔ نہ سیاہ کافر۔ غرضیکہ کہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا۔ سرولیم میور صاحب بھی اپنی کتاب مسمیٰ لیف آف محمد میں تسلیم کرتے ہیں کہ ” دنیا میں غالباً کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کی عبارت بارہ سو برس تک ایسی خالص رہی ہو۔
(آیات) علاوہ اعراب کے قرآن کے نسخوں میں اور بھی نشان پائے جاتے ہیں جو آیات وغیرہ کے نشان کہلاتے ہیں۔
(گول چھوٹا سا دائرہ) آیت پوری ہونے کی نشانی ہے۔
1 ۔ (م) یہ نشان اس لیے ہے کہ اس کلمہ پر ٹھہر جانا اور اس کو آئندہ کے کلمے سے نہ ملانا نہایت ضروری ہے۔
2 ۔ (ط) یہ نشان اس لیے ہے کہ اس کلمہ پر ٹھہرجانا اور اگلے کلمہ کو جدا شروع کرنا بہتر ہے۔
3 ۔ (ج) یہ نشان اس لیے ہے کہ وہاں ٹھہر جانا جائز ہے۔
4 ۔ (ز) یہ نشان اس لیے ہے کہ یہاں ٹھہر جانا تجویز کیا گیا ہے۔ مگر ملانا بہتر ہے۔
5 ۔ (ص) یہ نشانی اس لیے ہے کہ یہاں ٹھہر جانے کی رخصت دی گئی ہے۔
یہ پانچ نشانیاں تو وہ تھیں جو متقدمین نے اختیار کی تھیں مگر متاخرین نے سات اور بڑھائیں۔
1 ۔ (قف) گویا ٹھہرنے کا حکم ہے۔
2 ۔ (ق) یعنی بعضوں نے یہاں ٹھہر جانا کہا ہے۔
3 ۔ (صلی) اس کلمہ کو اگلے کلمے سے ملا ہوا پڑھنا بہتر ہے۔
4 ۔ (لا) یعنی یہاں ٹھہرنا جائز نہیں بلکہ ملا ہوا پڑھنا بہتر ہے۔
5 ۔ (سکۃ) یعنی ٹھہر لو مگر دم نہ لو۔
6 ۔ (ک) یعنی کذلک ہے یعنی اوپر کا نشان ہے۔
7 ۔ (قلا) یعنی بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہیے۔
بہرحال یہ سب نسان علما نے قرآن کا مطلب سمجھانے کو بنائے ہیں۔ وحی سے نہیں لگائے گئے ہیں۔
قرآن مجید جب نازل ہوا تو عرب اس کو اپنے لہجہ میں پڑھتے تھے۔ جیسا کہ اہل زبان کا دستور ہے، اور علاوہ ادائے مخارج حروف کے جو ان کی زبان تھی، وہ کسی لفظ کو زور دے کر پڑھتے تھے، اور کسی جگہ وقفہ کر کے، کسی کو مدد دے کر، اور کسی کو قصر کر کے، پچھلے عالموں نے اسی خیال سے آیات اور وقف مقرر کیے ہیں۔ مگر جب قرآن لکھا گیا تھا تو وہ ان اشاروں سے معرا تھا۔ پس یہ نشان آیتوں کے کسی کو ان کے تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ قرآن مجید کا طرز کلام اور اس کا مضمون خود بتاتا ہے۔ اور ہر ایک محقق اور عالم بلکہ ہر ذی عقل و فہم اس کے معنی دریافت کر کے سمجھ سکتا ہے کہ کہاں مطلب ختم ہوا اور کہاں سے دوسرا مطلب شروع ہوا۔ اور یہی سبب ہے کہ بعض علماء نے ایک ہی فقرہ کو دو یا زیادہ ٹکڑوں میں منقسم سمجھا ہے اور اس کی دو یا تین آیتیں قرار دی ہیں۔ اور بعضوں نے کل فقرہ کو ایک ہی آیت سمجھا ہے۔ اور اس سبب سے ایک عالم اسی ایک فقرہ میں دو یا تین آیتیں کہتا ہے۔ اور ایک عالم ایک ہی اور اب بھی ہر ایک مفسر مجاز ہے کہ بلحاظ ربط کلام کے جہاں وہ چاہے آیت قرار دے۔ میں اپنی تفسیر میں مطالب کے بیان میں اسی طریقہ کو اختیار کرونگا۔ مگر میں نے شمار آیتوں کا اس کے مطابق رہنے دیا ہے۔ جو مولف نجوم الفرقان نے اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کتاب کے مولف نے نہایت خوبی سے قرآن مجید کے ہر ایک لفظ کو بتایا ہے کہ کس کس آیت میں ہے اور وہی شمار قائم رکھنے سے مجھ کو اپنی تفسیر میں الفاظ واردہ قرآن کا نشان دینے کو جہاں کہیں ان کے نشان دینے کی ضرورت ہو نہایت آسانی ہوگی۔
یہی سبب ہے کہ باوجودیکہ میرے نزدیک ہر ایک سورت پر جو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی ہے وہ اس سورت کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے مگر میں نے اس پر شمار آیت کا نہیں لگایا۔ کیونکہ مولف نجوم الفرقان نے ہر ایک سورت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شمار آیتوں سے خارج رکھا ہے۔ اگر میں اس کو شمار آیتوں میں داخل کردیتا تو بالکل شمار مختلف ہوجاتا اور الفاظ وار وہ قرآن کا پتہ و نشان درست نہ رہتا۔
(مضامین قرآن) قرآن مجید کے بعض مضامین اور احکام ایسے ہیں جو توراۃ یا انجیل کے مضامین سے یا یہودیوں کی روایات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اور اس کا طرز کلام ایسا ہے جو زمانہ جاہلیت کے طرز کلام سے مناسبت رکھتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور بعض جگہ طریقہ نظم قرآن ایسا ہے جو اور مشرک قوموں کی مقدس کتابوں میں یہی جن کو وہ الٰہامی سمجھتے تھے موجود ہے اور اس سبب سے مخالفین اسلام نے قرآن مجید پر اعتراض کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ باتیں وہاں سے لی گئی ہیں۔
مگر معترضوں کی یہ ایک علانیہ غلطی ہے۔ اس لیے کہ پیغمبر درحقیقت اس قوم کے لیے یا اس زمانہ کے لوگوں کے لیے جس میں وہ پیدا ہوئے۔ برائیوں کی اصلاح کرنے والے اور اچھی باتوں کے قائم کرنے والے اور سچ بات کو تسلیم کرنے والے اور حق بات کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی پیغمبر کے زمانہ سے پہلے جو باتیں مروج ہوں۔ یا جو باتیں بطور مذہب کے جاری ہوں۔ یا بطور تواریخی واقعات کے مشہور ہوں۔ یا بطور مقدس کلام کے سمجھی جاتی ہوں۔ یا اگ لے ادیان حقہ کا بقیہ ہوں وہ سب غلط و جھوٹ اور خراب اور ناواجب ہوں۔ بلکہ بالضرور سچ میں جھوٹ اور اچھی میں بری ملی ہوتی ہیں۔ اور اس لیے جو شخص کہ اصلاح کے منصب پر ہو اس کو ان اچھی باتوں کو قائم رکھنا اور سچ بات کو تسلیم کرنا اور نیک کاموں کو بحال رکھنا ضرور و لازم ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنا علانیہ نیکی اور بےریائی اور اس اصلاح کرنے والے کی سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ پس اگر قرآن مجید میں بھی ایسا ہے تو یہ وجہ اس پر کچھ اعتراض کی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی سچائی کی دلیل ہے۔
بلاشبہ آتش پرستوں میں یہ رواج تھا کہ ان کے مقدس صحیفوں کے سروں پر جن کو وہ الٰہامی سمجھتے تھے ایک ایسا فقرہ لکھا ہوا ہوتا تھا جو مماثل بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہے اور وہ فقرہ یہ ہے ۔

فہ شید شمغائی ھرشند ، ھرششگرزمریان فرامیدور
ترجمہ : بنام ایزد بخشا بندہ بخشا یشکر ھربان دادگر



مگر یہ فقرہ (کیا عجب ہے کہ الٰہامی ہو) ایسا عمدہ ہے کہ جو شخص خدا پر ایمان لانے کا حامی ہو۔ اور اس کی لوگوں کو ہدایت کرتا ہو۔ وہ ضرور اس کو تسلیم کرے گا ۔ اور اس کا موید ہوگا۔ پس قرآن مجید میں ہر سورت پر بسم اللہ الرحمن الرحیم ہونے پر اعتراض کرنا اور اس کو ایک سرقہ قرار دینا۔ ایک ناانصافی اور محض مکابرہ ہے۔ کون شخص ہے جو خدا کو مانتا ہو اور لوگوں کو بھی منوانا چاہے اور اس فقرہ کو مٹا دے اور نہ خدا ایسا کرسکتا ہے کہ جو کلام اس کی مرضی کے مطابق ہے اس کے برعکس کوئی کلام نازل کرے۔
 
مدیر کی آخری تدوین :

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 2

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾

تفسیر سرسید :

سورة فاتحہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت 1-7
اس سورة میں کچھ تو خدا کی تعریف ہے اور کچھ اپنی عاجزی اور کچھ دعا۔ پس گویا بندوں کی زبان سے کہی گئی ہے۔ اور بلاشبہ بندوں کو خدا سے اسی طرح التجا کرنی زیبا ہے۔
دعا جب دل سے کی جاتی ہے ہمیشہ مستجاب ہوتی ہے۔ مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جس مطلب کے لیے ہم دعا کرتے ہیں۔ دعا کرنے سے وہ مطلب حاصل ہوجاویگا۔ اور استجابت کے معنی اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ غلطی ہے۔ حصول مطلب کے جو اسباب خدا نے مقرر کیے ہیں۔ وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ اس مطلب کے اسباب میں سے ہے۔ اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے۔ بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے۔ جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطرار میں جو مطلب نہ حاصل ہونے سے ہوتا ہے تسکین دیتی ہے۔ اور جبکہ دعا دل سے اور اپنے تمام فطرتی قوا کو متوجہ کر کے کیجاتی ہے۔ اور خدا کی عظمت اور اس کی بےانتہا قدرت کا خیال اپنے دل میں جمایا جاتا ہے تو وہ قوت تحریک میں آتی ہے۔ اور ان تمام قوتوں پر جن سے اضطرار پیدا ہوا ہے اور اس مصیبت کا رنج برانگیختہ ہوا ہے۔ ان سب پر غالب ہوجاتی ہے۔ اور انسان کو صبر و استقلال پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اسی کیفیت کا دل میں پیدا ہونا دعا کا مستجاب ہونا ہے۔
اسی امر کا اشارہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لفظوں میں فرمایا کہ ” الدعاء مخ العبادۃ “ یعنی دعا غالص عبادت ہے اور اس سے بھی واضح کر کے فرمایا کہ ” الدعاء ھوالعبادۃ “ یعنی دعا عبادت ہی ہے اور پھر فرمایا کہ تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ ” ادعونی استجب لکم “ یعنی مجھ کو پکارو یعنی میری عبادت کرو میں تمہارے لیے اس عبادت کو قبول کرونگا۔ مشکوۃ
پس دعا سے مطلب کا حاصل ہونا موعود نہیں ہے۔ بلکہ عبادت کا جو نتیجہ ہے۔ وہ موعود ہے۔ دعا کے ساتھ کبھی مطلب کا حاصل ہوجانا اتفاقیہ بات ہے۔ جو اس کے اسباب جمع ہونے سے حاصل ہوجاتا ہے۔
(ملک یوم الدین) یعنی اس دن کا جس دن کہ اس نور فطرت کے کام میں لانے یا نہ لانے کا جو خدا نے ہر ایک انسان میں موافق اس کی حالت کے رکھا ہے نتیجہ ظاہر ہوگا۔
(انعمت علیھم) جن پر انعام ہوا وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کی نشانیوں میں غور کیا ہے۔ اور جو نور فطرت خدا نے اس میں رکھا ہے۔ اس کو کام میں لائے ہیں۔ اور قومی اور ملکی اور تمدنی اور آبائی امور کی الفت و موالسنت اور خلقی امور کی قوت پر اس کو غالب کیا ہے۔ یا غالب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ راہ اختیار کی ہے جو خدا نے بتائی ہے۔
(المغضوب) جن پر غصہ ہوا ۔ وہ لوگ ہیں جو اس نور فطرت کو کام میں نہیں لائے اور نہ کام میں لانے کی کوشش کی۔ اور آبائی اور ملکی و تمدنی امور کے بوجھ میں دبے اور خلقی امور کی قوت میں مغلوب رہے اور جو راہ خدا نے بتائی تھی اس کو اختیار نہیں کیا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 1

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

تفسیر سرسید :

(الم) یہ سورت انہی انتیس سورتوں میں سے ہے جن کو خود خدا نے ان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ حروف مقطعات ان سورتوں کے نام ہیں۔ جن کی ابتداء میں آئے ہیں۔ اور جو سورتیں باہم کسی قسم کی مناسبت رکھتی ہیں ان کے ایک ہی سے نام مقرر کیے ہیں۔ اب یہاں تین باتیں غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ انہی انتیس سورتوں کے نام مقرر کرنے کا کیا سبب ہے۔ دوسرے یہ کہ حروف مقطعات سے کیوں ان کے نام مقرر کیے ہیں۔ تیسری یہ کہ جن حروف مقطعات سے ان سورتوں کے نام مقرر کیے ہیں۔ انہی حروف سے ان کا نام مقرر کرنے کا کیا سبب ہے۔
قرآن مجید پر غور کرنے سے علانیۃ پایا جاتا ہے کہ جس سورت کو خدا تعالیٰ نے قسمیہ طور پر یا اس طرز کلام پر شروع کیا ہے۔ کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ یا یہ خدا کی کتاب ہے۔ اس مقام پر خدا نے اس سورت کو کسی اسم سے موسوم کیا ہے۔ تاکہ اس کا نام لینے سے اس کے مسمی پر اس کا امر کا اطلاق ہو۔ جس کا اطلاق کرنا منظور ہے۔ اور جن سورتوں کو اس طرز کلام سے شروع نہیں کیا ان کا نام رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
مثلاً اس سورت کا نام جس کی ہم تفسیر کررہے ہیں (الم) ہے۔ اب خدا تعالیٰ نے طرز کلام اس طرح پر شروع کیا ہے۔ کہ یہ سورت خدا کی کتاب کی ہے۔ تو اس نے اس سورت کا نام لے کر کہہ دیا کہ الم یعنی اس کا مسمی وہ کتاب ہے۔ پس الم جو اس سورت کا نام ہے مبتدا ہے اور ذلک مبتداء ثانی ہے۔ اور الکتاب اس کی خبر ہے۔ اور یہ مبتدا و خبر مل کر پہلے مبتداء کی خبر ہیں۔ اور الم یعنی الم کا مسمی ذلک الکتاب پر محمول ہے۔
یہ بات بھی صاف ہے کہ اگر ان سورتوں کے نام الفاظ بامعنی سے مرکب ہوتے تو ان معنوں کا جن پر وہ الفاظ دلالت کرتے ۔ ” ذلک الکتاب “ پر حمل ہونے کا شبہ پڑتا۔ اور معنی سے قطع نظر کرکے اس کے مسمی کا محمول ہونا بہت کم خیال میں جاتا۔ پس خدا تعالیٰ نے حروف مفردہ کو جو ترکیب کے اصول بھی ہیں۔ اور معانی سے مبرا بھی ہیں اسماء سوراختیار کیا۔ تاکہ بجز مسمیٰ کے محمول ہونے کے اور کوئی احتمال ہی نہ رہے۔
البتہ اس بات کا تصفیہ کہ ان حروف کو اس سورة کے نام کے لیے کیوں مخصوص کیا مشکل ہے۔ دنیا میں بھی جو شخص کسی کا کچھ نام رکھتا ہے اور جو مناسبت یا علت اس نام رکھنے کی اس کے دل میں ہوتی ہے۔ اس کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ پس یہ قرار دینا کہ خدا نے اس مناسبت سے ان حروف مقطعات سے اس سورت کو موسوم کیا ہے ایک مشکل بات ہے اور ضرور ہے کہ باہم علما کے اس میں اختلاف ہو۔ چنانچہ بہت سا اختلاف ہوا بھی ہے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے کہا کہ اس مناسبت کا علم خدا ہی کو ہے۔ مگر ہر شخص بقدر اپنی فہم کے اس مناسبت کے بیان کرنے کا بلاشبہ مجاز ہے۔
میری سمجھ یہ ہے کہ بعض دفعہ اہل عرب حروف مقطعات بولتے تھے اور اس سے اشارہ کسی مطلب کی طرف ہوتا تھا۔ جیسے کہ اس شعر میں ہے۔
قلت لھا قفی فقالت لیق
لا تحتسبی انا نسینا الا یجاف
یعنی میں نے اس سانڈنی سوار عورت سے کہا کہ ٹھہر جا یہ مت خیال کر کہ میں سانڈنی ہنکانا بھول گیا ہوں۔ اس نے کہا کہ قاف یعنی وقفت ٹھہر گئی میں پس حرف قاف سے پورا کلام ” وقفت “ کا مراد ہے۔
سورة بقرہ، اور سورة آل عمران، اور سورة عنکبوت، اور سورة روم، اور سورة لقمان اور سورة سجدہ، ان سب کے سرے پر الم ہے جو ان سورتوں کا نام ہے۔ ان تمام سورتوں میں خدا تعالیٰ نے احکام الٰہی کی تعمیل اور امر بالمعروف کی تاکید ۔ اور لیل و نہار کے اختلاف اور عالم میں جو آیات قدرت کردگار ہیں ان سے خدائے واحد کے وجود پر استدلال کیا ہے اور موت کا اور اس کے بعد کے حالات کا بیان فرمایا ہے۔ اور اسی سبب سے الم سے ان سورتوں کو موسوم کیا ہے۔ تاکہ ان تینوں حرفوں سے ان مطالب عظیمہ کی طرف اشارہ ہو۔ اور انہی مطالب عظیمہ کا ذکر ان سب سورتوں میں تھا۔ اس لیے ان سب کو ایک ہی نام سے موسوم کیا۔
علماء اسلام نے رفع التباس کے لیے ان سورتوں کے نام کے ساتھ جن کے متحد نام تھے۔ یا جن میں حروف مقطعات زیادہ تھے۔ یا کسی سورت کے اہم مضمون پر زیادہ وضاحت سے اشارہ کرنے کی غرض سے اور نیز ان سورتوں کے لیے جو کسی نام سے موسوم نہ تھیں۔ اسے یہودی قاعدہ کے مطابق اسی سورت میں سے کوئی لفظ اس سورت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے منتخب کیا۔ جو رفتہ رفتہ بطور ان سورتوں کے نام کے متصور ہونے لگے مگر درحقیقت وہ الفاظ ہیں جو علماء نے ان سورتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اختیار کیے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 2

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾

تفسیر سرسید :

(الکتاب) خدا اپنے رسول سے فرماتا ہے کہ الم یعنی اس کا مسمے وہ کتاب ہے۔ یعنی وہ کتاب جو ہم تجھ پر نازل کرتے ہیں۔ عام بول چال کا محاورہ ہے کہ جب کوئی شخص کوئی کتاب تصنیف کرنی یا لکھنی شروع کرے ۔ یا شروع کرنی چاہیے۔ تو قبل اس کے کہ وہ لکھی جاچکے۔ یا تصنیف ہوچکے اس پر کتاب کا لفظ بولتا ہے۔ اس خیال سے کہ وہ تصنیف ہو چکنے اور لکھی جا چکنے کے بعد کتاب ہوگی۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے بھی قرآن مجید پر قبل اس کے لکھے جانے کے کتاب کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خدا کی مرضی تھی کہ لکھی جاوے۔ اور اس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ جس قدر قرآن نازل ہوتا تھا اسی وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے وقت میں لکھ لیا جاتا تھا۔
لاریب فیہ) کے معنی اگلے مفسروں نے یہ بیان کیے ہیں کہ اس کے خدا کی طرف سے ہونے میں کچھ شبہ نہیں، گویا یہ خطاب ہے ان لوگوں کی طرف جو قرآن کے خدا کی طرف سے ہونے میں جبکہ وہ نازل ہوتا تھا شک کرتے تھے، اور بطور یقین کے بلا دلیل بیان کرنا اس بات پر اشارہ ہے کہ یہ دعویٰ ایسی دلائل سے ثابت ہے یا ثابت ہوگا کہ جو بمنزلہ بدیہی کے ہیں، جیسا کہ عام بول چال میں دستور ہے کہ جو بات یقینی ہوتی ہے اس کی دلیلیں بیان کرنے سے پہلے کہہ دیتے ہیں کہ اس بات میں کچھ شک نہیں اور پھر اس کی دلیل بیان کی جاتی ہے۔
مگر میری سمجھ میں اس مقام میں ان معنوں کے اختیار کرنے سے دوسرے معنی اختیار کرنے بہتر ہیں، خدا تعالیٰ نے اس جگہ تین فرقوں کا حال بیان کیا ہے۔ ایمان والوں کا کافروں کا، منافقوں کا۔ جو دل میں کافر ہیں اور جھوٹ موت ظاہر میں اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں، پس لاریب فیہ کے ایسے معنے لینے زیادہ تر مناسب ہیں جو ان فرقوں میں سے کسی کے حال کے مناسب ہوں، اور وہ یہ معنے ہیں کہ اس کتاب کے پرہیزگاروں یعنی ایمان والوں کے لیے ہادی ہونے میں کچھ شک نہیں، جو اس کتاب کو مانتے ہیں اور اس کی ہدایتوں پر چلتے ہیں، جن میں سے سب سے بڑا حکم خدا پر ایمان لانا اور نماز کا ادا کرنا اور خیرات کا دینا ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتے ہیں وہی اس کتاب سے ہدایت پاوینگے، اور جو نہیں مانتے وہ ہدایت نہیں پاسکتے گو کہ فی نفسہ سب کے لیے ہدایت ہو، اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً ایک دواجوفی نفسہ کسی مرض سے شفا دینے والی ہے تو وہ فی نفسہ تو اس مرض کی سب مریضوں کے لیے شفا ہے الاشفا وہی پاوینگے جو اس کا استعمال کرینگے، اس طرح قرآن بھی سب کے لیے ہدایت ہے، مگر ہدایت وہی پاوینگے جو پرہیزگار ہیں یعنی وہ جو اس کی ہدایتوں پر چلتے ہیں۔
اگر یہ معنی تسلیم کیے جاویں تو ” ہدی “ کا لفظ بدل ہے ضمیر مجور سے جو ” فیہ “ میں ہے اور جار مجرور ثابت یا کاٹن سے متعلق ہو کہ لا نفی جنس کی خبر ہے یعنی ” لاریب فی کونہ یاویا للمتقین “ جس کے معنی یہ ہوئے کہ پرہیزگاروں کے لیے قرآن کے ہادی ہونے میں کچھ شک نہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 3

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

تفسیر سرسید :

( غیب) اسے کہتے ہیں جو آنکھ سے اوجھل ہو، مگر یہاں اس ذات پاک سے مراد ہے جو باوجود ہونے کے نہ آنکھ سے اور نہ کسی اور حواس سے محسوس ہوتی ہے نہ ہوسکتی ہے۔ اور بجز اس کے کہ عقل یہ کہتی ہے کہ ہے، اور کچھ نہیں بناسکتے، اس تفسیر میں جو عبداللہ بن عباس کی طرف منسوب ہے یہ لکھا ہے، ” ویقال الغیب ھواللہ “ پس معنی یہ ہوئے کہ پرہیزگار وہ ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 6

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾

تفسیر سرسید :

ان الذین کفروا) جو لوگ کفر میں پڑے ہیں ان کی نسبت خدا نے فرمایا ” ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ “ مگر کسی مفسر نے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے، کیونکہ نہ کسی انسان کے دل پر اور نہ کان پر سچ مچ کی مہر لگی ہوئی ہے، اور نہ کسی کی آنکھوں پر سچ مچ کا پردہ پڑا ہوا ہے، بلکہ سچ بات کے نہ سمجھنے اور حق بات کے نہ سننے اور ٹھیک بات پر نہ غور کرنے کے بطور استعارہ دلوں پر اور کانوں پر مہر کردینے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے بیان کیا ہے۔ بلا تشبیہ یہ ایسا ہی کلام ہے جیسا کہ ایک ناصح شفیق کسی کو افعال ذمیمہ چھوڑنے اور اخلاق حمیدہ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہو، مگر وہ شخص اس کی نصیحت پر کان نہ دہرتا ہو، اور ایک شخص فصیح و بلیغ اس حالت کو دیکھ کر کہے کہ ، بدذاتوں نااہلوں کو تم نصیحت کرو یا نہ کرو وہ کبھی نہیں مانے گے، ان کے دل پتھر کے ہیں اور آنکھیں اندھی اور کان بہرے، خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ، پس جس محاورہ میں انسان اس طرح بات چیت کرتے ہیں اسی انسانی محاورہ پر خدا نے یہی کلام کیا ہے۔
(مسئلہ جبرو اختیار) ان آیتوں سے یا اور آیتوں سے جو اس کی مثل ہیں جبرواختیار کے مسئلہ پر بحث کرنا قرآن مجید کے سیاق کلام کے منافی ہے، قرآن مجید کی کسی آیت سے نہ انسان کے اپنے افعال میں مجبور ہونے پر استدلال ہوسکتا ہے نہ مختار ہونے پر، نہ من الجبروالا اختیار ہونے پر مگر، افسوس ہے کہ علماء متقدمین نے اس پر بحث کی ہے، اور غلطی سے اس کو ایک ایسا مسئلہ سمجھا ہے جو مسائل اسلام میں داخل ہے، اور جو وحی یا قرآن سے ثابت ہے۔ اور پھر آپس میں مختلف رائیں قرار دی ہیں، ایک گروہ انسان کے اپنے افعال میں مجبور ہونے کا قائل ہے، دوسرا گروہ مختار ہونے کا اور تیسرا بین الجبروالاختیار کا جو بالفعل مذہب، اہل سنت و جماعت کا ہے۔
انسان اپنے افعال میں مجبور ہو یا مختار یا بین الجبرو الا اختیار۔ ایک جدا مسئلہ ہے، جو انسان کی فطرت کی تحقیقات پر منحصر ہے ، اور اس کی فطرت پر مباحثہ کرنے کے بعد جو ثابت ہو، ہو، ہمارا مقصد اس مقام پر صرف اس قدر کہنا ہے کہ قرآن مجید سے ان باتوں میں سے کسی پر استدلال کرنا ہے، اور اس کو ایک مسئلہ اسلام منزل من اللہ سمجھنا غلطی ہے، قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے جا بجا بندوں کے افعال کو، بلکہ ہر ایک چیز کو اپنی طرف منسوب کیا ہے، جو کام بندوں سے ہوتے ہیں ان کی نسبت فرماتا ہے، کہ ہم نے کیا، یا جو چیزیں کہ اور اسباب سے پیدا ہوتے ہیں ان اسباب کو بیچ میں سے نکال کر فرماتا ہے کہ ہم نے کیا، ہم نے مینہ برسایا، ہم نے درخت اگائے، ہم نے دریا بہائے، ہم نے سمندر میں جہاز تیرا ئے، ہم نے اوڑتے جانور ہوا میں تھمائے، پس اس تمام طرز کلام سے واسطوں کا درحقیقت درمیان میں نہ ہونا اس شے کا ان افعال میں مجبور یا مختار ثابت کرنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ اپنی عظمت و شان اور اپنے علۃ العلل یعنی تمام چیزوں کی اخیر علت یا خالق ہونے کا بندوں پر اظہار مقصود ہوتا ہے، اور اس لیے اس قسم کے کلام سے انسان کا اپنے افعال میں مجبور یا مختار ہونے کا استنباط و استدلال کرنا صحیح نہیں ہوسکتا، بلکہ ایسا کرنا داخل تفسیر القول بما لایرضی قائلہ کے ہے، کیونکہ اس کلام سے اس بات کی حقیقت کا بیان کرنا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور ہے یا مختار یا بین الجبر والاختیار مقصود ہی نہیں ہے۔
خدا اپنے تئیں علۃ العلل جمیع کائنات کا بتاتا ہے، پس اگر تمام حوادث و افعال کو جو عالم میں تمام مخلوقات ، انسان، حیوان ، عناصر، قوی ، وغیرہ سے ہوتے ہیں اپنی طرف نسبت کرے، اور ہر چیز کی نسبت یہ کہے کہ ہم نے کیا، تو یہ نسبت صحیح درست ہوگی۔ علاوہ اس کے مصری اور یونانی حکما کا یہ خیال تھا کہ دو چیزیں ازلی اور ابدی ہیں، ایک خدا، اور ایک مادہ، خدا نے اس قدیم ازلی اور ابدی مادہ سے تمام دنیا کو بنایا اور رچایا ہے، اور ایک گروہ زردشتیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ دو مقابل کے وجود ہیں، ایک یزدان یعنی خدا، دوسرا ہر من یعنی شیطان، نیک کام خدا کرتا ہے اور بدکام شیطان، اور یہ مذہب اس ریگستان میں بھی پھیل گیا تھا جہاں ان غلطیوں کا اصلاح کرنے والا پیدا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید میں ان دونوں عقیدوں کا مٹانا اور اپنی ذات واحد کو خالق جمیع کائنات بتانا اور اپنے تئیں وحدہ لا شریک لہ جتانا مقصود تھا۔
پس سب سے عمدہ طریقہ اس باریک مسئلہ کے سمجھانے کا یہی تھا کہ تمام افعال کو ان کے تمام واسطوں کو دور کر کے خاص اپنی طرف منسوب کرے، اور کبھی ان واسطوں کی طرف، تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ علۃ العلل صرف ایک ذات وحدہ لاشریک ہے، اور جو واسطے ہم کو دکھائی دیتے ہیں، بلاشبہ وہ واسطے ہیں، مگر علۃ العلل ان سب کی وہی ایک ذات وحدہ لاشریک ہے، پس جس کلام کا یہ موضوع ہو اس سے اس مطلب کو نکالنا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور ہے یا مختار یا بین الجبر والاختیار اس کلام کو غیر ماوضع لہ میں استعمال کرنا ہے۔ ہاں یہ ایک تمدنی اور طبعی اور عقلی مسئلہ ہے جس پر انسان کی خلقت کے لحاظ سے بحث اور غور ہوسکتی ہے جس کو ہم مختصراً بیان کرتے ہیں۔
ان علما اور حکما نے جنہوں نے انسانی فطرت پر غور کی ہے، دو طرح پر انسان کو اپنے افعال میں مجبور پایا ہے، ایک امور خارجیہ کے سبب سے جبکہ قومی و ملکی و تمدنی امور کی الف و موانست کا، اور بچپن سے کسی امر کی محارست و تربیت و صحبت کا اس پر ایسا قوی اثر ہوتا ہے کہ وہ انہی افعال کو مستحسن سمجھتا ہے، اور انہی کے کرنے پر اس کا دل اس کو مجبور کردیتا ہے گو یہ مجبوری اکثر اس کی سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ بظاہر اس پر کسی کا جبر نہیں ہوتا، مگر درحقیقت انہی قومی و ملکی و تمدنی اور بچپن سے کسی امر کی ممارست و تربیت و صحبت کا اثر رفتہ رفتہ بےمعلوم اس میں ایسا سرایت کرجاتا ہے کہ جس سے ان افعالی کے کرنے پر جن کو وہ کرتا ہے مجبور ہوتا ہے، اور جن باتوں کو وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی مرضی سے کرتا ہوں درحقیقت وہ اسی قوی اثر کے سبب سے مجبوری کرتا ہے۔
دوسری قسم کی مجبوری اپنے افعال میں خود انسان کو اپنی خلقت کے سبب سے ہوتی ہے، ہم تمام دنیا کی چیزوں میں ان کی ایک فطرت پاتے ہیں جس کے برخلاف ہرگز نہیں ہوتا ہم دیکھتے ہیں کہ معدنی چیزیں ہوا میں نہیں اڑتی پھرتی، پانی ہوا کے اوپر نہیں رہتا، مچھلی زمین پر زندہ نہیں رہتی، درندے جانوروں سے درندگی، پرند جانوروں سے پرواز، آبی جانوروں سے شنا درسی کبھی زائل نہیں ہوتی، پس وہ سب ان افعال کے سرزد ہونے میں جو ان سے منسوب ہیں بمقتضائے اپنی خلقت کے مجبور ہیں۔
اسی طرح ہم انسانوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنی افعال میں بمقتضا سے اپنی فطرت کے مجبور ہیں، جس کی آنکھ خدا نے ایسی بنائی ہے جس سے دور کی چیز دکھائی دیتی ہے، تو وہ دور کی چیز دیکھنے میں مجبور ہے۔ اس طرح انسانوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو افعال ظاہری و باطنی ان سے سرزد ہوتے ہیں، وہ ان میں مجبور محض ہیں، اگر بالفرض ایک نہایت رحمدل نیک طبیعت شخص کے اعضا، دل و دماغ کی بناوٹ، ایک نہایت شقی القلب بےرحم بدذات آدمی کیسی ہوتی ، تو اس سے بھی وہی افعال صادر ہوتے جو اس بدذات سے ہوتے ہیں ، اگر ایک بیوقوف آدمی کے اعضا کی بناوٹ ایک عقلمند آدمی کے اعضاء کی بناوٹ سے تبدیل ہوسکے، تو اس عقلمند سے اس بیوقوف کیسے افعال اور اس بیوقوف سے اس عقلمند کیسی افعال سرزد ہونے لگیں گے۔ غرضیکہ علم تشریح ابدان سے ثابت ہوگیا ہے کہ جس قسم کی بناوٹ انسان کی ہوتی ہے اسی کے مناسب افعال خواہ مخواہ اس سے سرزد ہوتے ہیں، نہایت بےرحم سفاک قاتلوں کی کھوپری میں ایک خاص قسم کی بناوٹ ہے، اور تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ہر قاتل و سفاک کی کھوپڑی اسی بناوٹ کی ہوتی ہے، پس جس کی کھوپڑی اس بناوٹ کی ہوگی، وہ ضرور سفاک قاتل بےرحم ہوگا، اور جو بےرحم سفاک قاتل ہوگا اس کھوپڑی اسی بناوٹ کی ہوگی، پس ان افعال میں جو خلقت انسانی سے علاقہ رکھتے ہیں انسان مجبور ہے، اور یہ ایسی بدیہی باتیں ہیں جن سے کوئی بھی جبکہ وہ اس علم میں واقفیت حاصل کرے انکار نہیں کرسکتا۔
اس کو اور صاف طرح سے غور کرو جس کو ہر کوئی سمجھ سکے، بعض لوگ ایسے ہیں جن کا حافظہ بہت قوی ہے، بعض ایسے ہیں جن کو کوئی بات یاد نہیں رہتی، بعض ایسے ہیں جن کے قوے سے قوی ہیں، بعض نہایت ضعیف القویٰ ہیں، بعض ایسے ہیں کہ کسی کام کو ایسا عمدہ کرتے ہیں کہ اوروں سے باوصف کوشش کے ایسا نہیں ہوسکتا، کسی کا ہاتھ خوشنویسی کے لائق ہوتا ہے، کسی کا مصوری کے ، کسی کا دماغ علم ادب کے مناسب ہوتا ہے، کسی کا ریاضی کے ، کسی کی بناوٹ کسی خاص امر کے ایسی مناسب ہوتی ہے کہ اس کے مثل دوسرا نہیں ہوسکتا، پس یہ تمام تفاوت انسانوں میں فطرت کے باعث سے ہیں، اور جو افعال کہ اس فطرت پر مبنی ہیں ان کے صادر ہونے میں وہ مجبور ہیں۔
بااینہمہ ہم انسانوں میں ایک اور چیز بھی پاتے ہیں جو نیک و بد میں تمیز کرسکتی ہے، یا ایک بات کو دوسری بات پر ترجیح دے سکتی ہے۔ یہ قوت بھی کبھی بلکہ اکثر قومی و ملکی و تمدنی امور کی الف و موانست سے اور بچپن سے کسی امر کی ممارست و تربیت و صحبت کے اثر سے موثر ہوجاتی ہے، اور اس قوت کی ایسی حالت کو تمام اہل مذاہب کا نشنس یعنی نور ایمان و نور و ہرم سے تعبیر کرتے ہیں، مگر درحقیقت وہ قابل اعتماد اور لائق طمانیت کے نہیں ہے، کیونکہ اس کا دوست وغیرہ دوست دونوں قسم کے اثروں سے موثر ہونا، اور مخالف اثروں سے ایک ہی نتیجہ حاصل ہونا ممکن ہے، ایک مسلمان کے لیے بت کو سجدہ کرنا جس قدر اس کے نور ایمان کے برخلاف ہے ویسا ہی ایک بت پرست کے نورو ہرم کے موافق ہے، پس ایک شے دو مخالف نتیجے پیدا کرتی ہے۔ مگر اس کے سو ایک اور قوت بھی انسان میں پائی جاتی ہے جو ان تمام اثروں پر غالب ہوجاتی ہے
اور جس کو میں نور قلب یا نور فطرت کہتا ہوں۔ ہمارے پاس بہت سے لوگوں کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے جنہوں نے بچپن سے ایک خاص قوم کی رسم و عادات میں تربیت پائی ، اور انہی ملکی و تمدنی باتوں کے سوا اور کوئی خیال ان کے دلوں میں نہیں گزرا اور زمانہ دراز تک اسی قومی و ملکی و تمدنی امور کی الف و موانست میں رہے، اور ایک ہی سی صحبت پائی، اور ایک ہی سی تربیت ہوئی، اور پھر خود انھوں نے اپنی سوچ سمجھ اور غور و فکر سے جس کو الہام کہنا چاہیے ان تمام بندشوں کو توڑا، اور ان کے عیبوں کو جانا، اور اپنے تئیں اس سے آزاد کیا، اور لوگوں کے آزاد کرنے میں کوشش کی۔
یہ قوت فکری کم و بیش تمام انسانوں میں فطری ہے، اور ہر شخص خود اپنے حال پر فکر کر کے سمجھ رکھتا ہے کہ وہ اس کے کام میں لانے پر قادر ہے، اور یہی وہ قوت ہے جو حق و باطل میں تمیز کرتی ہے، اور اصل سچ کو پرکھ لیتی ہے، اور انسان کو اپنی حالت کی اصلاح پر متوجہ کرتی ہے، اور تمام بوجھوں کو جو انسان پر بسبب اس کے ملکی و تمدنی و آبائی رسم و رواج کی الف و موانست سے ہوتے ہیں ان کو اٹھا دیتی ہے، اسی قوت کو زندہ رکھنے اور کام میں لانے کی، اور اس بوجھ یعنی ملکی و تمدنی و آبائی رسم و رواج کی الف و موانست کے اٹھانے کی جا بجا قرآن میں ہدایت ہوئی ہے، اور یہی قوت ہے جس کے باعث انسان مکلف ہوا ہے، اور دیگر حیوانات سے افضل کہا گیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ یہ قوت بھی انسانوں میں بمقتضائے ان کی خلقت کے قوی اور ضعیف ہے، مگر معدوم نہیں، اور جن میں معدوم ہو وہ مکلف نہیں، بلکہ مرفوع القلم ہے، کبھی یہ قوت ہندو نصیحت اور سمجھانے بجھانے اور دلیلوں اور نشانیوں کے بتانے اور صحبت کے اثر سے تحریک میں آجاتی ہے ، جیسا کہ ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جو سچی راہ بتانے والوں کی ہدایتوں کو سمجھ کر اور یقین کر کے پیروی کرتے ہیں، بشرطیکہ اس پیروی کی اور کوئی ایسی وجہ نہ ہو جس نے انسان کو خفیہ خفیہ اپنے افعال پر مجبور کردیا ہو، اور اس نے اس فطری قوت کو بغیر کام میں لائے اس خفیہ مجبوری سے وہ پیروی نہ کی ہو۔ اور کبھی وہ قوت فطری ایسی قوی ہوتی ہے کہ خود بخود اس میں سے وہ روشنی اٹھتی ہے، اور حق و باطل میں فرق دکھاتی ہے، اور ملکی و تمدنی اور آبائی رسم و رواج کی الف و موانست کے بوجھ کو اٹھا دیتی ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو شرع کی زبان میں پیغمبر اور تمدنی اصطلاح میں رفارمر کہلاتے ہیں۔
یہی قوت تھی جس نے ایک جوان کے دل کو خود اپنی روشنی سے روشن کردیا، جو ” اور کلدانیاں “ میں رہتا تھا، اور جس کا نام ابراہیم تھا، بچپن سے اس نے اپنے پیارے باپ کی گود میں پرورش پائی، بجز بتوں کے اس کی آنکھ نے کچھ نہیں دیکھا، اور بجز بتوں کی پرستش کے نغموں کے اس کے کانوں نے کچھ نہیں سنا، اور پھر سمجھا تو یہ سمجھا کہ ہائے میرا پیارا باپ اور میری پیاری قوم بڑی گمراہی میں ہے۔ یہ سوچ کر گھبرایا اور چاروں طرف دیکھنے لگا کہ پھر سچ کیا ہے، چاند کو، روشن دیکھ کر خیال کیا کہ شاید یہ سچ ہو، سورج کو چمکتا دیکھ کر سوچا کہ شاید یہ سچ ہو۔ مگر اس نور فطرت نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے، اس نے سب سے منہ موڑا اور سچی بات پکار اٹھا کہ ” انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین “
ایک یتیم بن ماں باپ کے بچے کا حال سنو، جس نے نہ اپنی ماں کے کنار عاطفت کا لطف اٹھایا، نہ اپنے باپ کی محبت کا مزہ چکھا، ایک ریگستان کے ملک میں پیدا ہوا، اور اپنے گرد بجز اونٹ چرانے والوں کے غول کے کچھ نہ دیکھا، اور بجز لات و منات و عزیٰ کو پکارنے کی آواز کے کچھ نہ سنا، مگر خود کبھی نہ بھٹکا، اور کہا تو یہ کہا ، کہ ” افراء یتم اللاوت والعزی و منات الثالثۃ الاخریٰ “ پس یہ تمام روشنیاں اس نور فطرت کی خود آپ ہی آپ روشن ہوئی تھیں، اور جنہوں نے نہ صرف ان کو بلکہ تمام جہان کو منور کردیا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 11

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾

تفسیر سرسید :

واذا قیل لھم) ان آیتوں میں اس گفتگو کا اشارہ ہی جو منافق اور کافر آپس میں کرتے تھے، یعنی کافر سمجھتے تھے کہ منافقوں کا اس طرح ظاہر میں اپنے تئیں مسلمان جتانا فساد ڈالنا ہے، تو وہ ان سے کہتے تھے کہ تم فساد مت ڈالو اور اپنے تئیں مسلمان مت جتلاؤ، یا جس طرح اور لوگ سچ مچ مسلمان ہوگئے ہیں تم بھی ہوجاؤ، تو وہ ان کو جواب دیتے تھے کہ ہمارا ظاہر میں مسلمانوں میں ملا رہنا فساد کی بات نہیں ہے، بلکہ اچھی بات ہے، نہ ہم اور بیوقوفوں کی طرح ایمان لاسکتے ہیں، خدا تعالیٰ نے ان منافقوں کی ان دونوں باتوں کی برائی بتلائی، اور ان آیتوں سے اگلی آیت میں اس طرح کی گفتگو کا سبب فرمایا، کہ اس طرح کی گفتگو کا سبب یہ تھا کہ منافق جب مسلمانوں سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں، اور جب کافروں میں جاتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے اپنے تئیں مسلمان بتلا کر ٹھٹھہ کرتے ہیں ہم تو درحقیقت تمہارے ہی ساتھی ہیں، کافر تو منافقوں کو اس لیے مفسد بتاتے تھے کہ وہ کافروں کو دھوکے میں ڈالتے تھے، اور خدا نے ان کو اس لیے مفسد بتایا کہ مسلمانوں کو دھوکا دیتے تھے، منافق سچے مسلمانوں کو بیوقوف بتاتے تھے، مگر خدا نے انھیں بیوقوف بنایا ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 15

اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۱۵﴾

تفسیر سرسید :

( اللہ یستھزی بھم) اس لفظ سے یہ بحث کرنی کہ خدا کی شان سے ٹھٹھہ کرنا کیونکر ہوسکتا ہے، ٹھٹھہ کی بات ہی ، لوگوں میں بڑی غلطی ہے جو قرآن مجید کے ہر ایک لفظ کے (قطع نظر کر کے انسانی محاورہ سے) حقیقی و لغوی معنی لینے چاہتے ہیں، قرآن مجید جیسا کہ ہم یقین کرتے ہیں بیشک خدا کا کلام ہے ، مگر وہ انسانوں کی زبان میں اور انسانوں کے محاورہ بات چیت میں بولا گیا ہے ، پس جس طرح کہ ایک انسان دوسرے انسان سے بات کرتا ہے، اور اپنی گفتگو میں مجاز و استعارہ و کنایہ کا استعمال کرتا ہے، اور بعض دفعہ عام مشہور بات کو بطور استدلال کے لاتا ہے، اور کبھی مخاطب کی وسعت علم و عقل و فہم کے مطابق طرز کلام اختیار کرتا ہے، کبھی محال امر کو محال بات پر تعلیق کرتا ہے، کبھی مزاحاً کوئی بات کہتا ہے، اس طرح قرآن کو بھی سمجھنا چاہیے، اور انہی اصولوں پر اس کے معنی قرار دینے لازم ہیں۔ کبھی کبھی آپس میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہم کو کیا چڑاتا ہے، ہم ہی اس کو چڑاتے ہیں، حالانکہ وہ اس کو کچھ نہیں چڑاتے، بلکہ اسی کے چڑانے کو اپنا چڑانا تعبیر کرتے ہیں، اور اس سے مقصود صرف اس شخص کی بیوقوفی کا جتلانا ہوتا ہے۔ اسی طرح کافروں کی بیوقوفی جتلانے کو اس مقام پر خدا نے فرمایا کہ کافر مسلمانوں سے کیا ٹھٹھہ کرتے ہیں، خدا ان سے ٹھٹھہ کرتا ہے، جو ان کو ایسی حالت میں چھوڑ رکھا ہے، پس کافروں کا مسلمانوں سے ٹھٹھہ کرنا ہی خدا کافروں سے ٹھٹھہ کرنا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 17

مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۱۷﴾

تفسیر سرسید :

( مثلھم) میں آگ جلانے والی یا موسلادھار مینہ، مشبھ بہ نہیں ہیں، بلکہ منافقوں کی حالت کو ان لوگوں کی حالت سے تشبیہہ دی ہے جنہوں نے آگ جلانے والے کی روشنی دیکھی اور پھر اندھیرے میں پڑگئے (رات کو رستہ چلنے والے جلتی ہوئی آگ دیکھ کر رستہ پہنچانتے تھے اور قافلہ کے لوگوں کا پڑا ہونا خیال کرتے تھے اور جب آگ بجھ جاتی تھی تو اندھیرے میں رستہ ٹٹولتے حیران کھڑے رہ جاتے تھے) یا جنہوں نے بجلی کی خوفناک چمک میں رستہ دیکھا اور پھر اندھیرے میں کھڑے رہ گئے، یہ دونوں تشبیہں منافقوں کے حال کے مطابق تھیں اسلام کی روشنی سے کچھ کچھ راہ پر آتے تھے اور پھر گمراہی کے اندھیرے میں ٹکراتے رہ جاتے تھے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 20

یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿٪۲۰﴾

تفسیر سرسید :

( یکادالبرق) ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے فطرت انسانی کی وہ حالت بیان فرمائی ہے جو ایسے موقعہ پر مینہ اور کڑک و چمک میں خوف سے ہوجاتی ہے، اور تھوڑا سا رستہ بھی دکھائی دیا جاتا ہے، اور اس ظاہری تمثیل سے اس تھوڑی سی ہدایت اور زیادہ تر گمراہی کی تمثیل سمجھائی ہے جو منافقوں کے حال کے مناسب تھی، اور آخر کو اپنی قدرت کے قانون اور اپنے وجود کے آثار اور اپنی حکمت کاملہ کی نشانیوں سے اپنے ہونے پر استدلال کیا ہے۔ تمام قرآن میں جس عمدگی و خوبی سے قوانین قدرت سے خدا تعالیٰ نے اپنے وجود پر استدلال کیا ہے درحقیقت نہایت پیارا اور دل میں اثر کرنے والا بےمثل اور بےنظیر ہے اور یہ ایسا عمدہ طریقہ استدلال کا ہے جو عالم اور جاہل سب کی سمجھ میں آتا ہے۔
البناء مصدرسمی بہ البنی بینا کان فیہ اوخباء واطرافا وابنیۃ العرب اخبیتھم ومنہ بنی علی امرثتہ لانہم کانوا اذاتزو جو اضربوا علیھا خباء اجدیداً (کشاف و بیضائے)
 
Top