الم : سورۃ الفاتحة : آیت 1
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
تفسیر سرسید :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید کی سورتوں کو جو سورة کہتے ہیں اس کی وجہ تسمیہ میں متعدد اقوال ہیں۔ سب سے صاف یہ ہے کہ سورت شہر کی فصیل کو کہتے ہیں جس سے شہر محدود ہوجانا ہے۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید کی آیات مسعتینہ محدودہ پر صورت کا اطلاق کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں بھی آٹھ جگہ سورت کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ وہاں لفظ سورة سے قرآن مجید کی صورتیں جو سورتوں کے نام سے مشہور ہیں مراد نہیں ہے۔ بلکہ ان سے قرآن مجید کا ایسا حصہ مراد ہے جن میں کوئی پورا مطلب اور منشا بیان کیا گیا ہو۔ مگر جبکہ کوئی حصہ تعین کیا جاویگا تو پرور ہے کہ وہ بھی معین و محدود ہوگا۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید میں اس پر سورت کا اطلاق ہوا ہے۔ پس اوسی کی پیروی سے۔ ان مجموعہ آیات پر جو درحقیقت معین و محدود اور اپنے ماقبل ومابعد سے علیحدہ ہیں۔ سورت کا اطلاق کرنا۔ نہایت درست و صحیح ہے۔
قرآن مجید میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں۔ ان سے بجز اونتیس (29) کے جن کی ابتداء میں حروف مقطعات ہیں اور کسی کو خدا تعالیٰ نے کسی نام سے موسوم نہیں کیا۔ جس قدر نام سورتوں کے ہیں وہ سب بعد کے رکھے ہوئے ہیں۔ کیا عجب ہے کہ صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین کے زماناہ ہی میں یہ نام مشہور ہوگئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی بات کا کچھ ثبوت نہیں ہے۔ حدیثوں میں جو ان سورتوں میں سے بعض کے نام آئے ہیں اگرچہ وہ حدیثیں ثابت نہیں ہیں۔ تاہم اگر ان کو ثابت بھی گنا جاوے تو اس سے بجز اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ کہ راوی اخیر کے زمانہ میں وہ سورت اسی نام سے مشہور تھی۔
یہودیوں کا دستور تھا کہ توراۃ کی سورتوں کو یا اس کے شروع کے لفظ سے موسوم کرتے تھے۔ یا جس معاملہ یا مطلب پر وہ سورت دلالت کرتی تھی اسی میں سے کوئی لفظ لے کر اس کا نام رکھ دیتے تھے۔ مثلاً توراۃ کی پہلی سورت کے شروع میں لفظ ” براشیث “ آیا ہے اس کا نام انھوں نے ” سو رہ براثیث “ رکھا ہے اسی قاعدہ کے مطابق اہل اسلام نے بھی قرآن مجید کی سورتوں کے نام رکھے ہیں۔ اس سورت کا نام جو سورة فالحہ رکھا ہے اس لحاظ سے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید اس سے شروع ہوتا ہے۔ مگر یہ نام ان ناموں میں سے نہیں ہے جو وحی سے ٹھہرائے گئے ہیں۔
(اختلاف قرات) جب قرآن نازت ہوتا تھا۔ تو متفرق ٹکڑوں پر لکھ لیا جاتا تھا اور لوگ جو سنتے تھے اس کو یہ زبانی یاد بھی کرلیا کرتے تھے ۔ مگر جیسا کہ عام قاعدہ فطرت انسانی کا ہے برزبان یاد کرنے والوں کو پیش آتا تھا۔ یعنی جس کا حافظہ قوی تھا اس کو نہایت صحت و ضبط کے ساتھ یاد رہتا تھا اور جس کا حافظہ قوی نہ تھا اس کو ایسے ضبط سے یاد نہ رہتا تھا۔ اور اس وجہ سے اختلاف قراءت پیدا ہوگئے تھے۔ کسی کو واو کی جگہ فے یادرہ گئی۔ کسی کو زیر کی جگہ زبر کسی کو سکون کی جگہ تشدید۔ اور کچھ شبہہ نہیں کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی شخص برزبان یاد رکھنے میں کوئی کلمہ یا آیات بھول گیا، یا کوئی غیر کلمہ اس کی زبان پر چڑھ گیا جو درحقیقت اس میں نہ تھا۔ غرضیکہ زبانی یاد رکھنے میں جو امور کہ موافق فطرت انسانی پیش آسکتے ہیں اس زمانہ کے لوگوں کو بھی پیش آتے تھے۔ مگر جو لغزشیں اس طرح واقع ہوتی تھیں اس کے درست کرنے والے یا تو وہ لوگ تھے جو نہایت صحت و ضبط سے یاد رکھتے تھے یا وہ متفرق لکھے ہوئے پرچے تھے جو قرآن نازل ہونے کے بعدلکھ لیے جاتے تھے ۔ غرضیکہ زبانی غلطیاں یا تو بخوبی یاد رکھنے والوں سے یا متفرق لکھے ہوئے پرچوں سے جو لوگوں کے پاس تھے صحیح ہوجاتی تھیں۔
یہ اختلاف روز بروز جیسا کہ عام قاعدہ سے بڑھتا جاتا تھا۔ اس لیے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت میں صحابہ نے اس پر اتفاق کیا۔ کہ ان متفرق پرچوں کو جمع کر کے تمام قرآن مجید کو ایک جگہ لکھ لینا چاہیے۔ تاکہ اختلاف نہ بڑھے۔ پس زید بن ثابت نے وہ تمام متفرق پرچے جمع کیے اور اپنے ہم عصروں سے جو قرآن کو بخوبی یاد رکھتے تھے اور جن کے پاس متفرق پرچے لکھے ہوئے تھے مدد لی۔ اور اول سے آخر تک قرآن مجید لکھ لیا۔
حضرت عثمان (رض) کے وقت تک بلادہ دردست میں اسلام پھیل گیا تھا۔ اور صرف ایک قرآن کا مدینہ میں ہونا کافی نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اس قرآن کی جس کو زید بن ثابت نے لکھا تھا متعدد نقلیں کیں۔ اور دور دور کے ملکوں میں بھیج دیا۔ یہ کارروائی نہایت مفید ہوئی اور سب سے بڑا یہ کام ہوا کہ اس زمانہ سے پہلے کسی کو کوئی سورة یاد تھی اور کسی کو کوئی سورة یاد تھی۔ کسی کو دو یاد تھیں ، کسی کو دس یاد تھیں، کسی کو آدھی یاد تھی ، کسی کو پاؤ، اب سینکڑوں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جن کو بہ ترتیب من اولہ الیٰ آخرہ تمام قرآن یاد تھا۔
اگرچہ اب وہ غلطیاں جو نسبت اسقاط یا اضافہ کلمات کے زبانی یاد رکھنے والوں کو پڑتی تھیں۔ بالکل جاتی رہیں۔ مگر پھر بھی کسی قدر اختلاف قراءت باقی رہا۔ اس لیے کہ یہ سب قرآن جو لکھے گئے تھے قدیم کوفی خط میں تھے جس میں نہ نقطے ہوتے تھے نہ اعراب۔ اور اگرچہ عرب اس سبب سے کہ ان کی زبان تھی اس کو بخوبی بلا تکلف بصحت پڑھتے تھے۔ مگر پھر بھی بعضے ایسے لفظ تھے کہ بلحاظ قواعد صرف ونحو زبان عرب کے۔ یا یوں کہو کہ مطابق بول چال اہل عرب کے ۔ اگر اس کو (سی) سے پڑھو تو بھی معنی ٹھیک ہوتے ہیں۔ اور اگر (تے) سے پڑھو تو بھی معنی ٹھیک ہوتے ہیں۔ اگر سکون سے پڑھو تو بھی صحیح ہے۔ اور اگر تشدید سے پڑھو تو بھی صحیح ہے۔ چنانچہ اس قسم کے اختلاف قراءت مگر بہت کم باقی رہ گئے۔
تھوڑے دنوں بعد جبکہ بعض صحابہ اور بہت سے تابعین زندہ تھے۔ اور ہزاروں شخص قرآن مجید کو بہ ترتیب من اولہ الی آخرہ یاد رکھنے والے موجود تھے۔ اس اختلاف کے رفع کرنے پر بھی کوشش کی گئی۔ اور قرآن مجید میں اعراب اور نقاط بالکل لگا دیئے۔ کتابوں میں تو بلاشبہ ان پہلے اختلافوں کا ذکر ہوتا ہے مگر فی الواقع اختلاف قراءت بالکل جاتا رہا۔ اور ہزارہا قراءت میں ایک حزرف یا ایک اعراب کا بھی فرق نہ تھا۔ اور آج کے دن بھی جو یکم شوال 1308 عیسوی بمطابق 1294 ہجری موافق اکتوبر 1877 عیسوی کے ہی ہزاروں حافظ ہر ملک میں اسی قسم کے موجود ہیں۔ درحقیقت یہ شرف سوائے قرآن مجید کے اور کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ کہ اگر تمام دنیا سے قرآن کے قلمی اور چھاپہ کے نسخے معدوم کردیئے جاویں تو حافظوں کے سینہ سے پھر قرآن بالکل ایسا ہی نقل ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ہے اور جس میں ایک لفظ اور ایک شوشہ ایک اعراب کا بھی فرق نہ ہوگا۔
اس کے سوا ایک اور قسم کا اختلاف قراءت ہے جو عرب کی مختلف قوموں کے لہجہ اور محاورہ زبان سے علاقہ رکھتا ہے۔ یا جو اختلاف گنواروں اور اشرافوں پر ہے لکھوں اور جاہلوں کی زبان میں ہوتا ہے۔ اس کو اختلاف قراءت پر منسوب کرنا بیجا ہے۔ کیونکہ وہ اختلاف قراءت نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف تلفظ ہی جس کو انگریزی زبان میں ” پر وفنی ایشن “ کہتے ہیں۔
توریت اور صحف انبیاء اور انجیل کے قلمی نسخے جو اب دنیا میں موجود ہیں۔ وہ آپس میں نہایت مختلف ہیں۔ اگرچہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں۔ کہ یہودوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ اور نہ علما سے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علماء سے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ اور نہ علمائے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علماء سے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف و تبدیل کی ہے۔ اس پر عیسائی مصنفوں نے اس امر محال کے اثبات پر کوشش کی ہے کہ قرآن میں بھی تحریف ثابت کریں۔ اور انھوں نے اپنی اس ناشدنی سعی میں کامیاب ہونے کو تین امر پر استدلال کیا ہے۔ اول اختلاف قراءت پر جس کا بالتفصیل اوپر مذکور ہوا۔ دوم شیعہ مذہب کی ایسی روایتوں پر جن کو خود شیعہ بھی تسلیم نہیں کرتے جن میں کذاب اور ایک گروہ کے طرفدار راویوں نے بیان کیا ہے کہ قرآن میں اور بھی آیتیں یا سورتیں حضرت علی اور اہل بیت کی شان میں ہیں۔ جو جامعین قرآن نے داخل نہیں کیں۔ سوم ان لغو اور بیہودہ روایتوں پر جن میں بعض آیات متروک التلاوت یا منسوخ التلاوت کا ہونا بیان کیا گیا ہے اور جن کو شریر و بدمذہب آدمیوں نے شہرت دیا ہے۔
قرآن مجید کے اختلاف قراءت کو اور توراۃ و صحت انبیاء و زبور و انجیل کے اختلاف عبارت کو یکساں قرار دینا دیدہ دانستہ ایک غلطی کرنا ہے۔ ریونڈمسٹر ہارن مختلف عبارتوں میں لکھتے وقت لکھتے ہیں کہ ” دو یا زیادہ مختلف عبارتوں میں صرف ایک عبارت صحیح ہوسکتی ہے۔ باقی خواہ تودیدۃ دانستہ تبدیل کی گئی ہونگی یا وہ نقل کرنے والوں کی غلطیاں ہونگی “ پھر وہ یہودی اور عیسائی کتب مقدسہ میں اختلاف عبارت ہونے کے چار سبب لکھتے ہیں۔ اول لکھنے والے کی غفلت یا غلطی۔ دوم جن نسخوں سے نقل کی گئی ہو ان کا غلط یا ناقص ہونا۔ سوم نقل کرنے والے کا بلاکافی و معتبر سند کے اصل عبارت میں اصلاح دینا ۔ چہارم دیدہ و دانستہ کسی خاص فریق کی تائید کے لیے عبارت کا بگاڑ دینا ۔ پس قرآن مجید کا کوئی بھی اختلاف قراءت ان حالتوں میں سے کسی حالت کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتا۔
علاوہ اس کے قرآن مجید کی تحریف ثابت کرنے کو عیسائی مصنفوں نے جن مذکورہ بالامخرجوں پر استدلال کیا ہے۔ اور جو مخرج فی نفسہ غلط ہیں۔ ان کی غلطی ثابت کرنے پر ایک طولانی بحث کرنے سے زیادہ تر یہ مختصر بات بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ جس بنا پر عیسائیوں نے تحریف قرآن کا دعویٰ کیا ہے اسی طرح پر دعویٰ کرنا ب مقابل ان مسلمانوں کے جو دعویٰ تحریف لفظی کا کتب مقدسہ یہودیوں اور عیسائیوں میں کرتے ہیں صحیح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ ان مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح پر کہ ابتدا میں توراۃ وصحف انبیاء و انجیل وزبور لکھی گئی تھی بعد اس کی تحریر کے یہودیوں اور عیسائیوں نے اس میں تحریف لفظی کی ہے اور جملے اور کلمے اور آیتیں نکال دی ہیں اور اپنی طرف سے آیتیں اور جملے اور کلمے بلکہ کتابیں کی کتابیں لکھ کر داخل کردی ہیں۔
پس اگر کوئی عیسائی اس کے مقابلہ میں قرآن کی تحریف کا دعویٰ کرنا چاہے۔ تو اس کو اختلاف قراءت یا روایات غیر مسلمہ اہل مذہب کا پیش کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان کے مقابل جب ہوسکتا ہے جب وہ یہ دعویٰ کرے کہ جو قرآن زید بن ثابت نے ابتداء میں لکھا تھا اس کی تحریر کے یہ آیت یا یہ سورت اس میں سے نکال ڈالی گئی ہے اور یہ آیت یا یہ کلمات اس میں بڑھا دیئے گئے ہیں۔ یا یہ صحیفے یا یہ اعراب تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ اور اگر وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تو بالفرض زید بن ثابت نے جو کچھ کیا ہو۔ کیا ہو۔ مگر قرآن پر تحریف کا دعویٰ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جیسا وہ جب لکھا گیا تھا۔ ویسا ہی اب تک موجود ہے۔
زید بن ثابت نے جب قرآن لکھا تھا اور جس کی نقل حضرت عثمان (رض) نے کی تھی۔ اس زبانیں قواعد رسم خط کے بخوبی منضبط نہیں ہوئے تھے۔ اور اس سبب سے بہت سے الفاظ زید بن ثابت نے اس طرح لکھے ہیں جو ان قواعد رسم خط سے بعد کو منضبط ہوئے مختلف ہیں مگر صرف اس خیال سے کہ جو کچھ زید بن ثابت نے لکھا ہے اس میں تبدیلی نہ واقع ہونے پاوے۔ حضرت عثمان (رض) نے بھی وہی رسم خط رہنے دی تھی۔ اور اس کے بعد تمام مسلمانوں نے صرف قرآن کی تحریر میں اسی رسم خط کو رہنے دیا۔ اور یہاں تک اس میں غلو کیا کہ اس کے برخلاف رسم خط تحریر قرآن میں اختیار کرنے کو گناہ اور کفر قرار دے دیا۔
قاری مصطفیٰ تفسیر بحر العلوم کے مصنف نے لکھا ہے کہ ” مطابقت خط مصحف عثمانی ہر کاتب قرآن ازواجبات دینی ست کہ اجماع صحابہ براں واقع شدہ است و مخالفت اجماع حرام باشد و جمہور علماء وائمہ مذاہب اربعہ سنیہ بریں اندور مقنہ آمدہ سئل مالک ھل یکتب ما احد ثہ الناس من الھجا فقال لا الا علی کتبۃ الاولیٰ ۔
اور اثقان فے علوم القرآن میں لکھا ہے کہ ” کان احمد یحرم مخالفۃ خط عثمان (رض) فی راواویاء اولف اور غیر ذلک۔
اور ابن مہران کا قول ہے کہ ” اتباع المصحف فی ھجاء ہ واجب و من طعن فی شیء من ھجاء ہ لھوکا لطاعن فی تلاوتہ لانہ بالھجاء یتلیٰ ۔
اور حدیقہ البیان میں لکھا ہے کہ ” اگر کسی اعتقاد و کند کہ بر موافق امام یعنی مصحف عثمانی نباید نوشت نسبت خطا برقلم اولین کردہ باشد زیرا کہ ” لوح محفوظ بہ ہماں طور نوشتہ شدہ است و نیر بجناب صحابہ (رض) بلکہ بجناب رسالت معلم صحابہ و یجرئیل معلم رسول نسبت خطا واقع میشووزیادتی و کمی قرآن حاصل می آید وایں ہمہ قریب کفر ست “۔
اور کتاب ہجا میں ابی عبداللہ محمد کا یہ قول ہے کہ ” من خالف الامام صار فاسقا و دحل تحت و عید من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار۔
اور ایضاح میں لکھا ہے کہ ” یکرہ قراۃ القراٰن من المصحف الذی یخالف ما خطہ ایں ثابت (رض) ۔
یہ تشدوات صرف اسی مطلب سے ہیں کہ جو کچھ زید بن ثابت نے لکم اور جس کی بعینہ نقل حضرت عثمان (رض) نے کی۔ اس میں ذرہ بھی فرق نہ پڑنے پاوے۔ چنانچہ آج تک قرآن مجید اسی طرح محفوظ ہے۔ پس ہر شخص یہ بات کہہ سکے گا اور قبول کرسکے گا کہ دنیا میں کوئی قلمی کتاب بجز قرآن مجید کے ایسے موجود نہیں ہے۔ کہ تیرہ سو برس کے بعد بھی ایسی ہی موجود ہے۔ جیسی کہ پہلے دن لکھی گئی تھی۔ جس میں ایک شوشہ تک کا فرق نہیں ۔ اور باوجودیکہ لاکھا قلمی نسخے اس کے پھیلے۔ مگر سب یکساں ہیں۔ پھر ایسی کتاب کی نسبت یہ کہنا کہ اس میں بھی اس قسم کی تحریف ہوئی ہے۔ جیسی کہ مسلمان توراۃ و انجیل میں بیان کرتے ہیں۔ ایسی بات ہی جس کو کوئی شخص نہ بت پرست نہ یہودی۔ نہ عیسائی۔ نہ سیاہ کافر۔ غرضیکہ کہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا۔ سرولیم میور صاحب بھی اپنی کتاب مسمیٰ لیف آف محمد میں تسلیم کرتے ہیں کہ ” دنیا میں غالباً کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کی عبارت بارہ سو برس تک ایسی خالص رہی ہو۔
(آیات) علاوہ اعراب کے قرآن کے نسخوں میں اور بھی نشان پائے جاتے ہیں جو آیات وغیرہ کے نشان کہلاتے ہیں۔
(گول چھوٹا سا دائرہ) آیت پوری ہونے کی نشانی ہے۔
1 ۔ (م) یہ نشان اس لیے ہے کہ اس کلمہ پر ٹھہر جانا اور اس کو آئندہ کے کلمے سے نہ ملانا نہایت ضروری ہے۔
2 ۔ (ط) یہ نشان اس لیے ہے کہ اس کلمہ پر ٹھہرجانا اور اگلے کلمہ کو جدا شروع کرنا بہتر ہے۔
3 ۔ (ج) یہ نشان اس لیے ہے کہ وہاں ٹھہر جانا جائز ہے۔
4 ۔ (ز) یہ نشان اس لیے ہے کہ یہاں ٹھہر جانا تجویز کیا گیا ہے۔ مگر ملانا بہتر ہے۔
5 ۔ (ص) یہ نشانی اس لیے ہے کہ یہاں ٹھہر جانے کی رخصت دی گئی ہے۔
یہ پانچ نشانیاں تو وہ تھیں جو متقدمین نے اختیار کی تھیں مگر متاخرین نے سات اور بڑھائیں۔
1 ۔ (قف) گویا ٹھہرنے کا حکم ہے۔
2 ۔ (ق) یعنی بعضوں نے یہاں ٹھہر جانا کہا ہے۔
3 ۔ (صلی) اس کلمہ کو اگلے کلمے سے ملا ہوا پڑھنا بہتر ہے۔
4 ۔ (لا) یعنی یہاں ٹھہرنا جائز نہیں بلکہ ملا ہوا پڑھنا بہتر ہے۔
5 ۔ (سکۃ) یعنی ٹھہر لو مگر دم نہ لو۔
6 ۔ (ک) یعنی کذلک ہے یعنی اوپر کا نشان ہے۔
7 ۔ (قلا) یعنی بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہیے۔
بہرحال یہ سب نسان علما نے قرآن کا مطلب سمجھانے کو بنائے ہیں۔ وحی سے نہیں لگائے گئے ہیں۔
قرآن مجید جب نازل ہوا تو عرب اس کو اپنے لہجہ میں پڑھتے تھے۔ جیسا کہ اہل زبان کا دستور ہے، اور علاوہ ادائے مخارج حروف کے جو ان کی زبان تھی، وہ کسی لفظ کو زور دے کر پڑھتے تھے، اور کسی جگہ وقفہ کر کے، کسی کو مدد دے کر، اور کسی کو قصر کر کے، پچھلے عالموں نے اسی خیال سے آیات اور وقف مقرر کیے ہیں۔ مگر جب قرآن لکھا گیا تھا تو وہ ان اشاروں سے معرا تھا۔ پس یہ نشان آیتوں کے کسی کو ان کے تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ قرآن مجید کا طرز کلام اور اس کا مضمون خود بتاتا ہے۔ اور ہر ایک محقق اور عالم بلکہ ہر ذی عقل و فہم اس کے معنی دریافت کر کے سمجھ سکتا ہے کہ کہاں مطلب ختم ہوا اور کہاں سے دوسرا مطلب شروع ہوا۔ اور یہی سبب ہے کہ بعض علماء نے ایک ہی فقرہ کو دو یا زیادہ ٹکڑوں میں منقسم سمجھا ہے اور اس کی دو یا تین آیتیں قرار دی ہیں۔ اور بعضوں نے کل فقرہ کو ایک ہی آیت سمجھا ہے۔ اور اس سبب سے ایک عالم اسی ایک فقرہ میں دو یا تین آیتیں کہتا ہے۔ اور ایک عالم ایک ہی اور اب بھی ہر ایک مفسر مجاز ہے کہ بلحاظ ربط کلام کے جہاں وہ چاہے آیت قرار دے۔ میں اپنی تفسیر میں مطالب کے بیان میں اسی طریقہ کو اختیار کرونگا۔ مگر میں نے شمار آیتوں کا اس کے مطابق رہنے دیا ہے۔ جو مولف نجوم الفرقان نے اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کتاب کے مولف نے نہایت خوبی سے قرآن مجید کے ہر ایک لفظ کو بتایا ہے کہ کس کس آیت میں ہے اور وہی شمار قائم رکھنے سے مجھ کو اپنی تفسیر میں الفاظ واردہ قرآن کا نشان دینے کو جہاں کہیں ان کے نشان دینے کی ضرورت ہو نہایت آسانی ہوگی۔
یہی سبب ہے کہ باوجودیکہ میرے نزدیک ہر ایک سورت پر جو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی ہے وہ اس سورت کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے مگر میں نے اس پر شمار آیت کا نہیں لگایا۔ کیونکہ مولف نجوم الفرقان نے ہر ایک سورت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شمار آیتوں سے خارج رکھا ہے۔ اگر میں اس کو شمار آیتوں میں داخل کردیتا تو بالکل شمار مختلف ہوجاتا اور الفاظ وار وہ قرآن کا پتہ و نشان درست نہ رہتا۔
(مضامین قرآن) قرآن مجید کے بعض مضامین اور احکام ایسے ہیں جو توراۃ یا انجیل کے مضامین سے یا یہودیوں کی روایات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اور اس کا طرز کلام ایسا ہے جو زمانہ جاہلیت کے طرز کلام سے مناسبت رکھتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور بعض جگہ طریقہ نظم قرآن ایسا ہے جو اور مشرک قوموں کی مقدس کتابوں میں یہی جن کو وہ الٰہامی سمجھتے تھے موجود ہے اور اس سبب سے مخالفین اسلام نے قرآن مجید پر اعتراض کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ باتیں وہاں سے لی گئی ہیں۔
مگر معترضوں کی یہ ایک علانیہ غلطی ہے۔ اس لیے کہ پیغمبر درحقیقت اس قوم کے لیے یا اس زمانہ کے لوگوں کے لیے جس میں وہ پیدا ہوئے۔ برائیوں کی اصلاح کرنے والے اور اچھی باتوں کے قائم کرنے والے اور سچ بات کو تسلیم کرنے والے اور حق بات کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی پیغمبر کے زمانہ سے پہلے جو باتیں مروج ہوں۔ یا جو باتیں بطور مذہب کے جاری ہوں۔ یا بطور تواریخی واقعات کے مشہور ہوں۔ یا بطور مقدس کلام کے سمجھی جاتی ہوں۔ یا اگ لے ادیان حقہ کا بقیہ ہوں وہ سب غلط و جھوٹ اور خراب اور ناواجب ہوں۔ بلکہ بالضرور سچ میں جھوٹ اور اچھی میں بری ملی ہوتی ہیں۔ اور اس لیے جو شخص کہ اصلاح کے منصب پر ہو اس کو ان اچھی باتوں کو قائم رکھنا اور سچ بات کو تسلیم کرنا اور نیک کاموں کو بحال رکھنا ضرور و لازم ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنا علانیہ نیکی اور بےریائی اور اس اصلاح کرنے والے کی سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ پس اگر قرآن مجید میں بھی ایسا ہے تو یہ وجہ اس پر کچھ اعتراض کی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی سچائی کی دلیل ہے۔
بلاشبہ آتش پرستوں میں یہ رواج تھا کہ ان کے مقدس صحیفوں کے سروں پر جن کو وہ الٰہامی سمجھتے تھے ایک ایسا فقرہ لکھا ہوا ہوتا تھا جو مماثل بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہے اور وہ فقرہ یہ ہے ۔
مگر یہ فقرہ (کیا عجب ہے کہ الٰہامی ہو) ایسا عمدہ ہے کہ جو شخص خدا پر ایمان لانے کا حامی ہو۔ اور اس کی لوگوں کو ہدایت کرتا ہو۔ وہ ضرور اس کو تسلیم کرے گا ۔ اور اس کا موید ہوگا۔ پس قرآن مجید میں ہر سورت پر بسم اللہ الرحمن الرحیم ہونے پر اعتراض کرنا اور اس کو ایک سرقہ قرار دینا۔ ایک ناانصافی اور محض مکابرہ ہے۔ کون شخص ہے جو خدا کو مانتا ہو اور لوگوں کو بھی منوانا چاہے اور اس فقرہ کو مٹا دے اور نہ خدا ایسا کرسکتا ہے کہ جو کلام اس کی مرضی کے مطابق ہے اس کے برعکس کوئی کلام نازل کرے۔
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
تفسیر سرسید :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید کی سورتوں کو جو سورة کہتے ہیں اس کی وجہ تسمیہ میں متعدد اقوال ہیں۔ سب سے صاف یہ ہے کہ سورت شہر کی فصیل کو کہتے ہیں جس سے شہر محدود ہوجانا ہے۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید کی آیات مسعتینہ محدودہ پر صورت کا اطلاق کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں بھی آٹھ جگہ سورت کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ وہاں لفظ سورة سے قرآن مجید کی صورتیں جو سورتوں کے نام سے مشہور ہیں مراد نہیں ہے۔ بلکہ ان سے قرآن مجید کا ایسا حصہ مراد ہے جن میں کوئی پورا مطلب اور منشا بیان کیا گیا ہو۔ مگر جبکہ کوئی حصہ تعین کیا جاویگا تو پرور ہے کہ وہ بھی معین و محدود ہوگا۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید میں اس پر سورت کا اطلاق ہوا ہے۔ پس اوسی کی پیروی سے۔ ان مجموعہ آیات پر جو درحقیقت معین و محدود اور اپنے ماقبل ومابعد سے علیحدہ ہیں۔ سورت کا اطلاق کرنا۔ نہایت درست و صحیح ہے۔
قرآن مجید میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں۔ ان سے بجز اونتیس (29) کے جن کی ابتداء میں حروف مقطعات ہیں اور کسی کو خدا تعالیٰ نے کسی نام سے موسوم نہیں کیا۔ جس قدر نام سورتوں کے ہیں وہ سب بعد کے رکھے ہوئے ہیں۔ کیا عجب ہے کہ صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین کے زماناہ ہی میں یہ نام مشہور ہوگئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی بات کا کچھ ثبوت نہیں ہے۔ حدیثوں میں جو ان سورتوں میں سے بعض کے نام آئے ہیں اگرچہ وہ حدیثیں ثابت نہیں ہیں۔ تاہم اگر ان کو ثابت بھی گنا جاوے تو اس سے بجز اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ کہ راوی اخیر کے زمانہ میں وہ سورت اسی نام سے مشہور تھی۔
یہودیوں کا دستور تھا کہ توراۃ کی سورتوں کو یا اس کے شروع کے لفظ سے موسوم کرتے تھے۔ یا جس معاملہ یا مطلب پر وہ سورت دلالت کرتی تھی اسی میں سے کوئی لفظ لے کر اس کا نام رکھ دیتے تھے۔ مثلاً توراۃ کی پہلی سورت کے شروع میں لفظ ” براشیث “ آیا ہے اس کا نام انھوں نے ” سو رہ براثیث “ رکھا ہے اسی قاعدہ کے مطابق اہل اسلام نے بھی قرآن مجید کی سورتوں کے نام رکھے ہیں۔ اس سورت کا نام جو سورة فالحہ رکھا ہے اس لحاظ سے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید اس سے شروع ہوتا ہے۔ مگر یہ نام ان ناموں میں سے نہیں ہے جو وحی سے ٹھہرائے گئے ہیں۔
(اختلاف قرات) جب قرآن نازت ہوتا تھا۔ تو متفرق ٹکڑوں پر لکھ لیا جاتا تھا اور لوگ جو سنتے تھے اس کو یہ زبانی یاد بھی کرلیا کرتے تھے ۔ مگر جیسا کہ عام قاعدہ فطرت انسانی کا ہے برزبان یاد کرنے والوں کو پیش آتا تھا۔ یعنی جس کا حافظہ قوی تھا اس کو نہایت صحت و ضبط کے ساتھ یاد رہتا تھا اور جس کا حافظہ قوی نہ تھا اس کو ایسے ضبط سے یاد نہ رہتا تھا۔ اور اس وجہ سے اختلاف قراءت پیدا ہوگئے تھے۔ کسی کو واو کی جگہ فے یادرہ گئی۔ کسی کو زیر کی جگہ زبر کسی کو سکون کی جگہ تشدید۔ اور کچھ شبہہ نہیں کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی شخص برزبان یاد رکھنے میں کوئی کلمہ یا آیات بھول گیا، یا کوئی غیر کلمہ اس کی زبان پر چڑھ گیا جو درحقیقت اس میں نہ تھا۔ غرضیکہ زبانی یاد رکھنے میں جو امور کہ موافق فطرت انسانی پیش آسکتے ہیں اس زمانہ کے لوگوں کو بھی پیش آتے تھے۔ مگر جو لغزشیں اس طرح واقع ہوتی تھیں اس کے درست کرنے والے یا تو وہ لوگ تھے جو نہایت صحت و ضبط سے یاد رکھتے تھے یا وہ متفرق لکھے ہوئے پرچے تھے جو قرآن نازل ہونے کے بعدلکھ لیے جاتے تھے ۔ غرضیکہ زبانی غلطیاں یا تو بخوبی یاد رکھنے والوں سے یا متفرق لکھے ہوئے پرچوں سے جو لوگوں کے پاس تھے صحیح ہوجاتی تھیں۔
یہ اختلاف روز بروز جیسا کہ عام قاعدہ سے بڑھتا جاتا تھا۔ اس لیے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت میں صحابہ نے اس پر اتفاق کیا۔ کہ ان متفرق پرچوں کو جمع کر کے تمام قرآن مجید کو ایک جگہ لکھ لینا چاہیے۔ تاکہ اختلاف نہ بڑھے۔ پس زید بن ثابت نے وہ تمام متفرق پرچے جمع کیے اور اپنے ہم عصروں سے جو قرآن کو بخوبی یاد رکھتے تھے اور جن کے پاس متفرق پرچے لکھے ہوئے تھے مدد لی۔ اور اول سے آخر تک قرآن مجید لکھ لیا۔
حضرت عثمان (رض) کے وقت تک بلادہ دردست میں اسلام پھیل گیا تھا۔ اور صرف ایک قرآن کا مدینہ میں ہونا کافی نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اس قرآن کی جس کو زید بن ثابت نے لکھا تھا متعدد نقلیں کیں۔ اور دور دور کے ملکوں میں بھیج دیا۔ یہ کارروائی نہایت مفید ہوئی اور سب سے بڑا یہ کام ہوا کہ اس زمانہ سے پہلے کسی کو کوئی سورة یاد تھی اور کسی کو کوئی سورة یاد تھی۔ کسی کو دو یاد تھیں ، کسی کو دس یاد تھیں، کسی کو آدھی یاد تھی ، کسی کو پاؤ، اب سینکڑوں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جن کو بہ ترتیب من اولہ الیٰ آخرہ تمام قرآن یاد تھا۔
اگرچہ اب وہ غلطیاں جو نسبت اسقاط یا اضافہ کلمات کے زبانی یاد رکھنے والوں کو پڑتی تھیں۔ بالکل جاتی رہیں۔ مگر پھر بھی کسی قدر اختلاف قراءت باقی رہا۔ اس لیے کہ یہ سب قرآن جو لکھے گئے تھے قدیم کوفی خط میں تھے جس میں نہ نقطے ہوتے تھے نہ اعراب۔ اور اگرچہ عرب اس سبب سے کہ ان کی زبان تھی اس کو بخوبی بلا تکلف بصحت پڑھتے تھے۔ مگر پھر بھی بعضے ایسے لفظ تھے کہ بلحاظ قواعد صرف ونحو زبان عرب کے۔ یا یوں کہو کہ مطابق بول چال اہل عرب کے ۔ اگر اس کو (سی) سے پڑھو تو بھی معنی ٹھیک ہوتے ہیں۔ اور اگر (تے) سے پڑھو تو بھی معنی ٹھیک ہوتے ہیں۔ اگر سکون سے پڑھو تو بھی صحیح ہے۔ اور اگر تشدید سے پڑھو تو بھی صحیح ہے۔ چنانچہ اس قسم کے اختلاف قراءت مگر بہت کم باقی رہ گئے۔
تھوڑے دنوں بعد جبکہ بعض صحابہ اور بہت سے تابعین زندہ تھے۔ اور ہزاروں شخص قرآن مجید کو بہ ترتیب من اولہ الی آخرہ یاد رکھنے والے موجود تھے۔ اس اختلاف کے رفع کرنے پر بھی کوشش کی گئی۔ اور قرآن مجید میں اعراب اور نقاط بالکل لگا دیئے۔ کتابوں میں تو بلاشبہ ان پہلے اختلافوں کا ذکر ہوتا ہے مگر فی الواقع اختلاف قراءت بالکل جاتا رہا۔ اور ہزارہا قراءت میں ایک حزرف یا ایک اعراب کا بھی فرق نہ تھا۔ اور آج کے دن بھی جو یکم شوال 1308 عیسوی بمطابق 1294 ہجری موافق اکتوبر 1877 عیسوی کے ہی ہزاروں حافظ ہر ملک میں اسی قسم کے موجود ہیں۔ درحقیقت یہ شرف سوائے قرآن مجید کے اور کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ کہ اگر تمام دنیا سے قرآن کے قلمی اور چھاپہ کے نسخے معدوم کردیئے جاویں تو حافظوں کے سینہ سے پھر قرآن بالکل ایسا ہی نقل ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ہے اور جس میں ایک لفظ اور ایک شوشہ ایک اعراب کا بھی فرق نہ ہوگا۔
اس کے سوا ایک اور قسم کا اختلاف قراءت ہے جو عرب کی مختلف قوموں کے لہجہ اور محاورہ زبان سے علاقہ رکھتا ہے۔ یا جو اختلاف گنواروں اور اشرافوں پر ہے لکھوں اور جاہلوں کی زبان میں ہوتا ہے۔ اس کو اختلاف قراءت پر منسوب کرنا بیجا ہے۔ کیونکہ وہ اختلاف قراءت نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف تلفظ ہی جس کو انگریزی زبان میں ” پر وفنی ایشن “ کہتے ہیں۔
توریت اور صحف انبیاء اور انجیل کے قلمی نسخے جو اب دنیا میں موجود ہیں۔ وہ آپس میں نہایت مختلف ہیں۔ اگرچہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں۔ کہ یہودوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ اور نہ علما سے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علماء سے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ اور نہ علمائے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علماء سے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف و تبدیل کی ہے۔ اس پر عیسائی مصنفوں نے اس امر محال کے اثبات پر کوشش کی ہے کہ قرآن میں بھی تحریف ثابت کریں۔ اور انھوں نے اپنی اس ناشدنی سعی میں کامیاب ہونے کو تین امر پر استدلال کیا ہے۔ اول اختلاف قراءت پر جس کا بالتفصیل اوپر مذکور ہوا۔ دوم شیعہ مذہب کی ایسی روایتوں پر جن کو خود شیعہ بھی تسلیم نہیں کرتے جن میں کذاب اور ایک گروہ کے طرفدار راویوں نے بیان کیا ہے کہ قرآن میں اور بھی آیتیں یا سورتیں حضرت علی اور اہل بیت کی شان میں ہیں۔ جو جامعین قرآن نے داخل نہیں کیں۔ سوم ان لغو اور بیہودہ روایتوں پر جن میں بعض آیات متروک التلاوت یا منسوخ التلاوت کا ہونا بیان کیا گیا ہے اور جن کو شریر و بدمذہب آدمیوں نے شہرت دیا ہے۔
قرآن مجید کے اختلاف قراءت کو اور توراۃ و صحت انبیاء و زبور و انجیل کے اختلاف عبارت کو یکساں قرار دینا دیدہ دانستہ ایک غلطی کرنا ہے۔ ریونڈمسٹر ہارن مختلف عبارتوں میں لکھتے وقت لکھتے ہیں کہ ” دو یا زیادہ مختلف عبارتوں میں صرف ایک عبارت صحیح ہوسکتی ہے۔ باقی خواہ تودیدۃ دانستہ تبدیل کی گئی ہونگی یا وہ نقل کرنے والوں کی غلطیاں ہونگی “ پھر وہ یہودی اور عیسائی کتب مقدسہ میں اختلاف عبارت ہونے کے چار سبب لکھتے ہیں۔ اول لکھنے والے کی غفلت یا غلطی۔ دوم جن نسخوں سے نقل کی گئی ہو ان کا غلط یا ناقص ہونا۔ سوم نقل کرنے والے کا بلاکافی و معتبر سند کے اصل عبارت میں اصلاح دینا ۔ چہارم دیدہ و دانستہ کسی خاص فریق کی تائید کے لیے عبارت کا بگاڑ دینا ۔ پس قرآن مجید کا کوئی بھی اختلاف قراءت ان حالتوں میں سے کسی حالت کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتا۔
علاوہ اس کے قرآن مجید کی تحریف ثابت کرنے کو عیسائی مصنفوں نے جن مذکورہ بالامخرجوں پر استدلال کیا ہے۔ اور جو مخرج فی نفسہ غلط ہیں۔ ان کی غلطی ثابت کرنے پر ایک طولانی بحث کرنے سے زیادہ تر یہ مختصر بات بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ جس بنا پر عیسائیوں نے تحریف قرآن کا دعویٰ کیا ہے اسی طرح پر دعویٰ کرنا ب مقابل ان مسلمانوں کے جو دعویٰ تحریف لفظی کا کتب مقدسہ یہودیوں اور عیسائیوں میں کرتے ہیں صحیح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ ان مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح پر کہ ابتدا میں توراۃ وصحف انبیاء و انجیل وزبور لکھی گئی تھی بعد اس کی تحریر کے یہودیوں اور عیسائیوں نے اس میں تحریف لفظی کی ہے اور جملے اور کلمے اور آیتیں نکال دی ہیں اور اپنی طرف سے آیتیں اور جملے اور کلمے بلکہ کتابیں کی کتابیں لکھ کر داخل کردی ہیں۔
پس اگر کوئی عیسائی اس کے مقابلہ میں قرآن کی تحریف کا دعویٰ کرنا چاہے۔ تو اس کو اختلاف قراءت یا روایات غیر مسلمہ اہل مذہب کا پیش کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان کے مقابل جب ہوسکتا ہے جب وہ یہ دعویٰ کرے کہ جو قرآن زید بن ثابت نے ابتداء میں لکھا تھا اس کی تحریر کے یہ آیت یا یہ سورت اس میں سے نکال ڈالی گئی ہے اور یہ آیت یا یہ کلمات اس میں بڑھا دیئے گئے ہیں۔ یا یہ صحیفے یا یہ اعراب تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ اور اگر وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تو بالفرض زید بن ثابت نے جو کچھ کیا ہو۔ کیا ہو۔ مگر قرآن پر تحریف کا دعویٰ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جیسا وہ جب لکھا گیا تھا۔ ویسا ہی اب تک موجود ہے۔
زید بن ثابت نے جب قرآن لکھا تھا اور جس کی نقل حضرت عثمان (رض) نے کی تھی۔ اس زبانیں قواعد رسم خط کے بخوبی منضبط نہیں ہوئے تھے۔ اور اس سبب سے بہت سے الفاظ زید بن ثابت نے اس طرح لکھے ہیں جو ان قواعد رسم خط سے بعد کو منضبط ہوئے مختلف ہیں مگر صرف اس خیال سے کہ جو کچھ زید بن ثابت نے لکھا ہے اس میں تبدیلی نہ واقع ہونے پاوے۔ حضرت عثمان (رض) نے بھی وہی رسم خط رہنے دی تھی۔ اور اس کے بعد تمام مسلمانوں نے صرف قرآن کی تحریر میں اسی رسم خط کو رہنے دیا۔ اور یہاں تک اس میں غلو کیا کہ اس کے برخلاف رسم خط تحریر قرآن میں اختیار کرنے کو گناہ اور کفر قرار دے دیا۔
قاری مصطفیٰ تفسیر بحر العلوم کے مصنف نے لکھا ہے کہ ” مطابقت خط مصحف عثمانی ہر کاتب قرآن ازواجبات دینی ست کہ اجماع صحابہ براں واقع شدہ است و مخالفت اجماع حرام باشد و جمہور علماء وائمہ مذاہب اربعہ سنیہ بریں اندور مقنہ آمدہ سئل مالک ھل یکتب ما احد ثہ الناس من الھجا فقال لا الا علی کتبۃ الاولیٰ ۔
اور اثقان فے علوم القرآن میں لکھا ہے کہ ” کان احمد یحرم مخالفۃ خط عثمان (رض) فی راواویاء اولف اور غیر ذلک۔
اور ابن مہران کا قول ہے کہ ” اتباع المصحف فی ھجاء ہ واجب و من طعن فی شیء من ھجاء ہ لھوکا لطاعن فی تلاوتہ لانہ بالھجاء یتلیٰ ۔
اور حدیقہ البیان میں لکھا ہے کہ ” اگر کسی اعتقاد و کند کہ بر موافق امام یعنی مصحف عثمانی نباید نوشت نسبت خطا برقلم اولین کردہ باشد زیرا کہ ” لوح محفوظ بہ ہماں طور نوشتہ شدہ است و نیر بجناب صحابہ (رض) بلکہ بجناب رسالت معلم صحابہ و یجرئیل معلم رسول نسبت خطا واقع میشووزیادتی و کمی قرآن حاصل می آید وایں ہمہ قریب کفر ست “۔
اور کتاب ہجا میں ابی عبداللہ محمد کا یہ قول ہے کہ ” من خالف الامام صار فاسقا و دحل تحت و عید من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار۔
اور ایضاح میں لکھا ہے کہ ” یکرہ قراۃ القراٰن من المصحف الذی یخالف ما خطہ ایں ثابت (رض) ۔
یہ تشدوات صرف اسی مطلب سے ہیں کہ جو کچھ زید بن ثابت نے لکم اور جس کی بعینہ نقل حضرت عثمان (رض) نے کی۔ اس میں ذرہ بھی فرق نہ پڑنے پاوے۔ چنانچہ آج تک قرآن مجید اسی طرح محفوظ ہے۔ پس ہر شخص یہ بات کہہ سکے گا اور قبول کرسکے گا کہ دنیا میں کوئی قلمی کتاب بجز قرآن مجید کے ایسے موجود نہیں ہے۔ کہ تیرہ سو برس کے بعد بھی ایسی ہی موجود ہے۔ جیسی کہ پہلے دن لکھی گئی تھی۔ جس میں ایک شوشہ تک کا فرق نہیں ۔ اور باوجودیکہ لاکھا قلمی نسخے اس کے پھیلے۔ مگر سب یکساں ہیں۔ پھر ایسی کتاب کی نسبت یہ کہنا کہ اس میں بھی اس قسم کی تحریف ہوئی ہے۔ جیسی کہ مسلمان توراۃ و انجیل میں بیان کرتے ہیں۔ ایسی بات ہی جس کو کوئی شخص نہ بت پرست نہ یہودی۔ نہ عیسائی۔ نہ سیاہ کافر۔ غرضیکہ کہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا۔ سرولیم میور صاحب بھی اپنی کتاب مسمیٰ لیف آف محمد میں تسلیم کرتے ہیں کہ ” دنیا میں غالباً کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کی عبارت بارہ سو برس تک ایسی خالص رہی ہو۔
(آیات) علاوہ اعراب کے قرآن کے نسخوں میں اور بھی نشان پائے جاتے ہیں جو آیات وغیرہ کے نشان کہلاتے ہیں۔
(گول چھوٹا سا دائرہ) آیت پوری ہونے کی نشانی ہے۔
1 ۔ (م) یہ نشان اس لیے ہے کہ اس کلمہ پر ٹھہر جانا اور اس کو آئندہ کے کلمے سے نہ ملانا نہایت ضروری ہے۔
2 ۔ (ط) یہ نشان اس لیے ہے کہ اس کلمہ پر ٹھہرجانا اور اگلے کلمہ کو جدا شروع کرنا بہتر ہے۔
3 ۔ (ج) یہ نشان اس لیے ہے کہ وہاں ٹھہر جانا جائز ہے۔
4 ۔ (ز) یہ نشان اس لیے ہے کہ یہاں ٹھہر جانا تجویز کیا گیا ہے۔ مگر ملانا بہتر ہے۔
5 ۔ (ص) یہ نشانی اس لیے ہے کہ یہاں ٹھہر جانے کی رخصت دی گئی ہے۔
یہ پانچ نشانیاں تو وہ تھیں جو متقدمین نے اختیار کی تھیں مگر متاخرین نے سات اور بڑھائیں۔
1 ۔ (قف) گویا ٹھہرنے کا حکم ہے۔
2 ۔ (ق) یعنی بعضوں نے یہاں ٹھہر جانا کہا ہے۔
3 ۔ (صلی) اس کلمہ کو اگلے کلمے سے ملا ہوا پڑھنا بہتر ہے۔
4 ۔ (لا) یعنی یہاں ٹھہرنا جائز نہیں بلکہ ملا ہوا پڑھنا بہتر ہے۔
5 ۔ (سکۃ) یعنی ٹھہر لو مگر دم نہ لو۔
6 ۔ (ک) یعنی کذلک ہے یعنی اوپر کا نشان ہے۔
7 ۔ (قلا) یعنی بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہیے۔
بہرحال یہ سب نسان علما نے قرآن کا مطلب سمجھانے کو بنائے ہیں۔ وحی سے نہیں لگائے گئے ہیں۔
قرآن مجید جب نازل ہوا تو عرب اس کو اپنے لہجہ میں پڑھتے تھے۔ جیسا کہ اہل زبان کا دستور ہے، اور علاوہ ادائے مخارج حروف کے جو ان کی زبان تھی، وہ کسی لفظ کو زور دے کر پڑھتے تھے، اور کسی جگہ وقفہ کر کے، کسی کو مدد دے کر، اور کسی کو قصر کر کے، پچھلے عالموں نے اسی خیال سے آیات اور وقف مقرر کیے ہیں۔ مگر جب قرآن لکھا گیا تھا تو وہ ان اشاروں سے معرا تھا۔ پس یہ نشان آیتوں کے کسی کو ان کے تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ قرآن مجید کا طرز کلام اور اس کا مضمون خود بتاتا ہے۔ اور ہر ایک محقق اور عالم بلکہ ہر ذی عقل و فہم اس کے معنی دریافت کر کے سمجھ سکتا ہے کہ کہاں مطلب ختم ہوا اور کہاں سے دوسرا مطلب شروع ہوا۔ اور یہی سبب ہے کہ بعض علماء نے ایک ہی فقرہ کو دو یا زیادہ ٹکڑوں میں منقسم سمجھا ہے اور اس کی دو یا تین آیتیں قرار دی ہیں۔ اور بعضوں نے کل فقرہ کو ایک ہی آیت سمجھا ہے۔ اور اس سبب سے ایک عالم اسی ایک فقرہ میں دو یا تین آیتیں کہتا ہے۔ اور ایک عالم ایک ہی اور اب بھی ہر ایک مفسر مجاز ہے کہ بلحاظ ربط کلام کے جہاں وہ چاہے آیت قرار دے۔ میں اپنی تفسیر میں مطالب کے بیان میں اسی طریقہ کو اختیار کرونگا۔ مگر میں نے شمار آیتوں کا اس کے مطابق رہنے دیا ہے۔ جو مولف نجوم الفرقان نے اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کتاب کے مولف نے نہایت خوبی سے قرآن مجید کے ہر ایک لفظ کو بتایا ہے کہ کس کس آیت میں ہے اور وہی شمار قائم رکھنے سے مجھ کو اپنی تفسیر میں الفاظ واردہ قرآن کا نشان دینے کو جہاں کہیں ان کے نشان دینے کی ضرورت ہو نہایت آسانی ہوگی۔
یہی سبب ہے کہ باوجودیکہ میرے نزدیک ہر ایک سورت پر جو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی ہے وہ اس سورت کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے مگر میں نے اس پر شمار آیت کا نہیں لگایا۔ کیونکہ مولف نجوم الفرقان نے ہر ایک سورت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شمار آیتوں سے خارج رکھا ہے۔ اگر میں اس کو شمار آیتوں میں داخل کردیتا تو بالکل شمار مختلف ہوجاتا اور الفاظ وار وہ قرآن کا پتہ و نشان درست نہ رہتا۔
(مضامین قرآن) قرآن مجید کے بعض مضامین اور احکام ایسے ہیں جو توراۃ یا انجیل کے مضامین سے یا یہودیوں کی روایات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اور اس کا طرز کلام ایسا ہے جو زمانہ جاہلیت کے طرز کلام سے مناسبت رکھتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور بعض جگہ طریقہ نظم قرآن ایسا ہے جو اور مشرک قوموں کی مقدس کتابوں میں یہی جن کو وہ الٰہامی سمجھتے تھے موجود ہے اور اس سبب سے مخالفین اسلام نے قرآن مجید پر اعتراض کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ باتیں وہاں سے لی گئی ہیں۔
مگر معترضوں کی یہ ایک علانیہ غلطی ہے۔ اس لیے کہ پیغمبر درحقیقت اس قوم کے لیے یا اس زمانہ کے لوگوں کے لیے جس میں وہ پیدا ہوئے۔ برائیوں کی اصلاح کرنے والے اور اچھی باتوں کے قائم کرنے والے اور سچ بات کو تسلیم کرنے والے اور حق بات کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی پیغمبر کے زمانہ سے پہلے جو باتیں مروج ہوں۔ یا جو باتیں بطور مذہب کے جاری ہوں۔ یا بطور تواریخی واقعات کے مشہور ہوں۔ یا بطور مقدس کلام کے سمجھی جاتی ہوں۔ یا اگ لے ادیان حقہ کا بقیہ ہوں وہ سب غلط و جھوٹ اور خراب اور ناواجب ہوں۔ بلکہ بالضرور سچ میں جھوٹ اور اچھی میں بری ملی ہوتی ہیں۔ اور اس لیے جو شخص کہ اصلاح کے منصب پر ہو اس کو ان اچھی باتوں کو قائم رکھنا اور سچ بات کو تسلیم کرنا اور نیک کاموں کو بحال رکھنا ضرور و لازم ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنا علانیہ نیکی اور بےریائی اور اس اصلاح کرنے والے کی سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ پس اگر قرآن مجید میں بھی ایسا ہے تو یہ وجہ اس پر کچھ اعتراض کی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی سچائی کی دلیل ہے۔
بلاشبہ آتش پرستوں میں یہ رواج تھا کہ ان کے مقدس صحیفوں کے سروں پر جن کو وہ الٰہامی سمجھتے تھے ایک ایسا فقرہ لکھا ہوا ہوتا تھا جو مماثل بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہے اور وہ فقرہ یہ ہے ۔
فہ شید شمغائی ھرشند ، ھرششگرزمریان فرامیدور
ترجمہ : بنام ایزد بخشا بندہ بخشا یشکر ھربان دادگر
ترجمہ : بنام ایزد بخشا بندہ بخشا یشکر ھربان دادگر
مگر یہ فقرہ (کیا عجب ہے کہ الٰہامی ہو) ایسا عمدہ ہے کہ جو شخص خدا پر ایمان لانے کا حامی ہو۔ اور اس کی لوگوں کو ہدایت کرتا ہو۔ وہ ضرور اس کو تسلیم کرے گا ۔ اور اس کا موید ہوگا۔ پس قرآن مجید میں ہر سورت پر بسم اللہ الرحمن الرحیم ہونے پر اعتراض کرنا اور اس کو ایک سرقہ قرار دینا۔ ایک ناانصافی اور محض مکابرہ ہے۔ کون شخص ہے جو خدا کو مانتا ہو اور لوگوں کو بھی منوانا چاہے اور اس فقرہ کو مٹا دے اور نہ خدا ایسا کرسکتا ہے کہ جو کلام اس کی مرضی کے مطابق ہے اس کے برعکس کوئی کلام نازل کرے۔
مدیر کی آخری تدوین
: