الم : سورۃ البقرة : آیت 72
وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾
تفسیر سرسید :
(واذقتلتم) اس قصہ کو پہلے قصہ سے کچھ تعلق نہیں ہے، بیل کے ذبح کرنے کا قصہ ختم ہوچکا، یہ دوسرا قصہ ہے، کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اور قاتل معلوم نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ جو موجود ہیں اور انہی میں قاتل بھی ہے مقتول کے اعضاء سے مقتول کو ماریں جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں ہیں وہ سبب یقین اپنی بیخبری کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کرینگے، مگر اصل قاتل بسبب خوف اپنے جرم کے جو ازروے فطرت (اول ھذالقصۃ (ای قصۃ واذ قال موسیٰ لقومہ) قول تعالیٰ واذ قتلتم نفسا ناذارعتم فیھا وانما فک عنہ وقدمت لا ستقلالہ (بیضاوی) انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانہ میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہی ایسا نہیں کرنے کا، اور اسی وقت معلوم ہوجاویگا، اور وہی نشان جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھے ہیں لوگوں کو دکھادیگا، اس قسم کے حیلوں سے اس زمانہ میں بھی بہت سے چور معلوم ہوجاتے ہیں، اور وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو دوسرے لوگ بلاخوف بہ تقویت اپنی بیخبری کے کرتے ہیں نہیں کرسکتے ، پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔
ہمارے مفسرین نے ان آیتوں کی یہ تفسیر کی ہے، کہ پہلا اور پچھلا ایک ہی قصہ ہے، اور پچھلی آیتوں میں جو بیان ہوا ہے وہ باعتبار وقوع کے مقدم ہے، اور قصہ یوں قرار دیا ہے، کہ بنی اسرائیل نے ایک شخص کو قتل کیا تھا اس کا قاتل معلوم کرنے کو خدا نے ایک بیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اس مذبوح بیل کے اعضا سے مقتول کو مارو، ان کے مارنے سے مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کا بتلا دیا۔
مگر اس تفسیر میں متعدد نقصان ہیں، اول تو پچھلی آیتوں کو مقدم قرار دینے اور دونوں قصوں کو ایک کردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے، دوسرے کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ کے معنی جب مربوط ہوتے ہیں جب اس کے پہلے یہ جملہ ” فاحیاء اللہ “ مقدر ماناجاوے، اور ایسے جملہ کو جو خارج از عقل اور خلاف عادت باری تعالیٰ ہے، اپنی طرف سے بغیر موجود ہونے کسی یقین یا اشارہ صریح کے مقدر ماننا عبارت قرآن میں اضافہ کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ باوجود اس اضافہ کے یہ ماننا پڑے گا کہ ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ سے مراد حیاء اموات بروز بعث ونشر ہے، اور اسی جگہ بعث و نشر کے حال کے بیان کرنے کا کوئی محل وموقع نہیں ہے اور نہ کوئی مباحثہ بعث و نشر کی بابت ہے۔
جو سیدھے ساھے صاف صاف معنی آیتوں کے ہم نے بیان کیے ہیں، اور جن میں نہ آیتوں کی ترتیب الٹنی پڑتی ہے اور نہ کسی جملہ خلاف از عقل و بغیر سند کے نقل کے اپنی طرف سے بڑھانے کی حاجت ہوتی ہے، اور جو صاف طور پر قرآن مجید سے پایا جاتا ہے، شاید اس کی نسبت بھی بعض لوگ کچھ شبہ کرینگے۔ اول تو یہ کہینگے ” اضربوہ “ میں ضمیر مذکر کی ہے اور ” ببعضھا “ میں ضمیرمونث کی، اور دونوں کا مرجع ہم نے مقتول ٹھہرایا ہے۔ مگر یہ اعتراض کسی طرح صحیح نہیں ہونے کا، اس آیت سے پہلے ” واذقتلتم نفسا “ واقع ہے اور ببعضہا کی ضمیر نفس کی جانب راجع ہے اور نفس مونث ہی اور اس کے لیے مونث ہی کی ضمیر ہونی چاہیے ” اضربو “ کی ضمیر کو بھی تمام مفسرین نے نفس ہی کی جانب راجع کیا ہے، مگر باعتبار شخص مقتول کے اس کا مذکر لانا جائز قرار دیا ہے، چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” الھاء فی قولہ تعالیٰ فاضربوہ ضمیروھوا ما ان یرجع الی النفس وحینئذ یکون التذکیر علی تاویل الشخص والانسان واما الی القتیل وھوالذی دل علیہ قولہ وماکنتم تکتمون “۔
دوسرایہ شبہ کرینگے کہ ” یحییٰ “ اور ” موتی “ کے لفظ کے ہم نے وہ معنی نہیں لیے جو صریح ان لفظوں سے پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ اعتراض بھی صحیح نہ ہوگا اس لیے کہ ہم نے ان لفظوں کے وہی معنی لیے ہیں جن معنوں میں خود خدا نے ان لفظوں کو استعمال کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” وکنتم امواتا ناحیاکم “ یعنی تم مرد یعنی معدوم یا غیر موجود یا نامعلوم تھے، پھر ہم نے تم زندہ یعنی مخلوق یا موجود یا ظاہر کیا پس اسی (دیکھو صفحہ ) دلیل سے ہم نے یہاں سے ، یحییٰ اور موتیٰ ، کے یہی معنی لیے ہیں، کہ نامعلوم قاتل معلوم ہوگیا، اور ان معنوں کے صحیح ہونے پر خود اسی مقام میں خدا تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے، اوپر کی آیت میں لفظ واللہ مخرج آیا ہے، اسی کے مقابل اس آیت میں یحییٰ اللہ کا لفظ آیا ہے۔ اوپر کی آیت میں تکتمون کا لفظ آیا ہے، اسی کے مقابل اس آیت میں موتی، کا لفظ آیا ہے، پس علانیہ ثابت ہے کہ ” یحییٰ اللہ “ سے ظاہر ہونا قاتل کا اور موتیٰ سے نامعلوم یا غیر ظاہر ہونا قاتل کا مراد ہے نہ مقتول کا زندہ ہونا خدا اپنی قدرت اور اپنی حکمت کو، انہی باتوں میں جو انسان روزمرہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے، مگر انسان کا خیال اس پر قناعت نہیں کرتا، اور دوراز کار باتوں کو پسند کرتا ہے۔
تیسرا شبہ یہ کرینگے کہ ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ کے قبل ہم کو یہ جملہ کہ ” فاظہرہ اللہ “ مقدر ماننا پڑے گا، مگر یہ جملہ نہ خلاف عقل ہے نہ خلاف قرآن، اور نہ خلاف سیاق کلام خدا، کیونکہ خود خدا نے فرمایا ہے، واللہ مخرج، بر خلاف اس پہلے جملہ کے کہ نہ وہ زمین کا ہے نہ آسمان کا۔
وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾
تفسیر سرسید :
(واذقتلتم) اس قصہ کو پہلے قصہ سے کچھ تعلق نہیں ہے، بیل کے ذبح کرنے کا قصہ ختم ہوچکا، یہ دوسرا قصہ ہے، کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اور قاتل معلوم نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ جو موجود ہیں اور انہی میں قاتل بھی ہے مقتول کے اعضاء سے مقتول کو ماریں جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں ہیں وہ سبب یقین اپنی بیخبری کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کرینگے، مگر اصل قاتل بسبب خوف اپنے جرم کے جو ازروے فطرت (اول ھذالقصۃ (ای قصۃ واذ قال موسیٰ لقومہ) قول تعالیٰ واذ قتلتم نفسا ناذارعتم فیھا وانما فک عنہ وقدمت لا ستقلالہ (بیضاوی) انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانہ میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہی ایسا نہیں کرنے کا، اور اسی وقت معلوم ہوجاویگا، اور وہی نشان جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھے ہیں لوگوں کو دکھادیگا، اس قسم کے حیلوں سے اس زمانہ میں بھی بہت سے چور معلوم ہوجاتے ہیں، اور وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو دوسرے لوگ بلاخوف بہ تقویت اپنی بیخبری کے کرتے ہیں نہیں کرسکتے ، پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔
ہمارے مفسرین نے ان آیتوں کی یہ تفسیر کی ہے، کہ پہلا اور پچھلا ایک ہی قصہ ہے، اور پچھلی آیتوں میں جو بیان ہوا ہے وہ باعتبار وقوع کے مقدم ہے، اور قصہ یوں قرار دیا ہے، کہ بنی اسرائیل نے ایک شخص کو قتل کیا تھا اس کا قاتل معلوم کرنے کو خدا نے ایک بیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اس مذبوح بیل کے اعضا سے مقتول کو مارو، ان کے مارنے سے مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کا بتلا دیا۔
مگر اس تفسیر میں متعدد نقصان ہیں، اول تو پچھلی آیتوں کو مقدم قرار دینے اور دونوں قصوں کو ایک کردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے، دوسرے کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ کے معنی جب مربوط ہوتے ہیں جب اس کے پہلے یہ جملہ ” فاحیاء اللہ “ مقدر ماناجاوے، اور ایسے جملہ کو جو خارج از عقل اور خلاف عادت باری تعالیٰ ہے، اپنی طرف سے بغیر موجود ہونے کسی یقین یا اشارہ صریح کے مقدر ماننا عبارت قرآن میں اضافہ کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ باوجود اس اضافہ کے یہ ماننا پڑے گا کہ ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ سے مراد حیاء اموات بروز بعث ونشر ہے، اور اسی جگہ بعث و نشر کے حال کے بیان کرنے کا کوئی محل وموقع نہیں ہے اور نہ کوئی مباحثہ بعث و نشر کی بابت ہے۔
جو سیدھے ساھے صاف صاف معنی آیتوں کے ہم نے بیان کیے ہیں، اور جن میں نہ آیتوں کی ترتیب الٹنی پڑتی ہے اور نہ کسی جملہ خلاف از عقل و بغیر سند کے نقل کے اپنی طرف سے بڑھانے کی حاجت ہوتی ہے، اور جو صاف طور پر قرآن مجید سے پایا جاتا ہے، شاید اس کی نسبت بھی بعض لوگ کچھ شبہ کرینگے۔ اول تو یہ کہینگے ” اضربوہ “ میں ضمیر مذکر کی ہے اور ” ببعضھا “ میں ضمیرمونث کی، اور دونوں کا مرجع ہم نے مقتول ٹھہرایا ہے۔ مگر یہ اعتراض کسی طرح صحیح نہیں ہونے کا، اس آیت سے پہلے ” واذقتلتم نفسا “ واقع ہے اور ببعضہا کی ضمیر نفس کی جانب راجع ہے اور نفس مونث ہی اور اس کے لیے مونث ہی کی ضمیر ہونی چاہیے ” اضربو “ کی ضمیر کو بھی تمام مفسرین نے نفس ہی کی جانب راجع کیا ہے، مگر باعتبار شخص مقتول کے اس کا مذکر لانا جائز قرار دیا ہے، چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” الھاء فی قولہ تعالیٰ فاضربوہ ضمیروھوا ما ان یرجع الی النفس وحینئذ یکون التذکیر علی تاویل الشخص والانسان واما الی القتیل وھوالذی دل علیہ قولہ وماکنتم تکتمون “۔
دوسرایہ شبہ کرینگے کہ ” یحییٰ “ اور ” موتی “ کے لفظ کے ہم نے وہ معنی نہیں لیے جو صریح ان لفظوں سے پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ اعتراض بھی صحیح نہ ہوگا اس لیے کہ ہم نے ان لفظوں کے وہی معنی لیے ہیں جن معنوں میں خود خدا نے ان لفظوں کو استعمال کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” وکنتم امواتا ناحیاکم “ یعنی تم مرد یعنی معدوم یا غیر موجود یا نامعلوم تھے، پھر ہم نے تم زندہ یعنی مخلوق یا موجود یا ظاہر کیا پس اسی (دیکھو صفحہ ) دلیل سے ہم نے یہاں سے ، یحییٰ اور موتیٰ ، کے یہی معنی لیے ہیں، کہ نامعلوم قاتل معلوم ہوگیا، اور ان معنوں کے صحیح ہونے پر خود اسی مقام میں خدا تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے، اوپر کی آیت میں لفظ واللہ مخرج آیا ہے، اسی کے مقابل اس آیت میں یحییٰ اللہ کا لفظ آیا ہے۔ اوپر کی آیت میں تکتمون کا لفظ آیا ہے، اسی کے مقابل اس آیت میں موتی، کا لفظ آیا ہے، پس علانیہ ثابت ہے کہ ” یحییٰ اللہ “ سے ظاہر ہونا قاتل کا اور موتیٰ سے نامعلوم یا غیر ظاہر ہونا قاتل کا مراد ہے نہ مقتول کا زندہ ہونا خدا اپنی قدرت اور اپنی حکمت کو، انہی باتوں میں جو انسان روزمرہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے، مگر انسان کا خیال اس پر قناعت نہیں کرتا، اور دوراز کار باتوں کو پسند کرتا ہے۔
تیسرا شبہ یہ کرینگے کہ ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ کے قبل ہم کو یہ جملہ کہ ” فاظہرہ اللہ “ مقدر ماننا پڑے گا، مگر یہ جملہ نہ خلاف عقل ہے نہ خلاف قرآن، اور نہ خلاف سیاق کلام خدا، کیونکہ خود خدا نے فرمایا ہے، واللہ مخرج، بر خلاف اس پہلے جملہ کے کہ نہ وہ زمین کا ہے نہ آسمان کا۔