ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(واذقتلتم) اس قصہ کو پہلے قصہ سے کچھ تعلق نہیں ہے، بیل کے ذبح کرنے کا قصہ ختم ہوچکا، یہ دوسرا قصہ ہے، کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اور قاتل معلوم نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ جو موجود ہیں اور انہی میں قاتل بھی ہے مقتول کے اعضاء سے مقتول کو ماریں جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں ہیں وہ سبب یقین اپنی بیخبری کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کرینگے، مگر اصل قاتل بسبب خوف اپنے جرم کے جو ازروے فطرت (اول ھذالقصۃ (ای قصۃ واذ قال موسیٰ لقومہ) قول تعالیٰ واذ قتلتم نفسا ناذارعتم فیھا وانما فک عنہ وقدمت لا ستقلالہ (بیضاوی) انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانہ میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہی ایسا نہیں کرنے کا، اور اسی وقت معلوم ہوجاویگا، اور وہی نشان جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھے ہیں لوگوں کو دکھادیگا، اس قسم کے حیلوں سے اس زمانہ میں بھی بہت سے چور معلوم ہوجاتے ہیں، اور وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو دوسرے لوگ بلاخوف بہ تقویت اپنی بیخبری کے کرتے ہیں نہیں کرسکتے ، پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔
ہمارے مفسرین نے ان آیتوں کی یہ تفسیر کی ہے، کہ پہلا اور پچھلا ایک ہی قصہ ہے، اور پچھلی آیتوں میں جو بیان ہوا ہے وہ باعتبار وقوع کے مقدم ہے، اور قصہ یوں قرار دیا ہے، کہ بنی اسرائیل نے ایک شخص کو قتل کیا تھا اس کا قاتل معلوم کرنے کو خدا نے ایک بیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اس مذبوح بیل کے اعضا سے مقتول کو مارو، ان کے مارنے سے مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کا بتلا دیا۔
مگر اس تفسیر میں متعدد نقصان ہیں، اول تو پچھلی آیتوں کو مقدم قرار دینے اور دونوں قصوں کو ایک کردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے، دوسرے کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ کے معنی جب مربوط ہوتے ہیں جب اس کے پہلے یہ جملہ ” فاحیاء اللہ “ مقدر ماناجاوے، اور ایسے جملہ کو جو خارج از عقل اور خلاف عادت باری تعالیٰ ہے، اپنی طرف سے بغیر موجود ہونے کسی یقین یا اشارہ صریح کے مقدر ماننا عبارت قرآن میں اضافہ کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ باوجود اس اضافہ کے یہ ماننا پڑے گا کہ ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ سے مراد حیاء اموات بروز بعث ونشر ہے، اور اسی جگہ بعث و نشر کے حال کے بیان کرنے کا کوئی محل وموقع نہیں ہے اور نہ کوئی مباحثہ بعث و نشر کی بابت ہے۔
جو سیدھے ساھے صاف صاف معنی آیتوں کے ہم نے بیان کیے ہیں، اور جن میں نہ آیتوں کی ترتیب الٹنی پڑتی ہے اور نہ کسی جملہ خلاف از عقل و بغیر سند کے نقل کے اپنی طرف سے بڑھانے کی حاجت ہوتی ہے، اور جو صاف طور پر قرآن مجید سے پایا جاتا ہے، شاید اس کی نسبت بھی بعض لوگ کچھ شبہ کرینگے۔ اول تو یہ کہینگے ” اضربوہ “ میں ضمیر مذکر کی ہے اور ” ببعضھا “ میں ضمیرمونث کی، اور دونوں کا مرجع ہم نے مقتول ٹھہرایا ہے۔ مگر یہ اعتراض کسی طرح صحیح نہیں ہونے کا، اس آیت سے پہلے ” واذقتلتم نفسا “ واقع ہے اور ببعضہا کی ضمیر نفس کی جانب راجع ہے اور نفس مونث ہی اور اس کے لیے مونث ہی کی ضمیر ہونی چاہیے ” اضربو “ کی ضمیر کو بھی تمام مفسرین نے نفس ہی کی جانب راجع کیا ہے، مگر باعتبار شخص مقتول کے اس کا مذکر لانا جائز قرار دیا ہے، چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” الھاء فی قولہ تعالیٰ فاضربوہ ضمیروھوا ما ان یرجع الی النفس وحینئذ یکون التذکیر علی تاویل الشخص والانسان واما الی القتیل وھوالذی دل علیہ قولہ وماکنتم تکتمون “۔
دوسرایہ شبہ کرینگے کہ ” یحییٰ “ اور ” موتی “ کے لفظ کے ہم نے وہ معنی نہیں لیے جو صریح ان لفظوں سے پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ اعتراض بھی صحیح نہ ہوگا اس لیے کہ ہم نے ان لفظوں کے وہی معنی لیے ہیں جن معنوں میں خود خدا نے ان لفظوں کو استعمال کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” وکنتم امواتا ناحیاکم “ یعنی تم مرد یعنی معدوم یا غیر موجود یا نامعلوم تھے، پھر ہم نے تم زندہ یعنی مخلوق یا موجود یا ظاہر کیا پس اسی (دیکھو صفحہ ) دلیل سے ہم نے یہاں سے ، یحییٰ اور موتیٰ ، کے یہی معنی لیے ہیں، کہ نامعلوم قاتل معلوم ہوگیا، اور ان معنوں کے صحیح ہونے پر خود اسی مقام میں خدا تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے، اوپر کی آیت میں لفظ واللہ مخرج آیا ہے، اسی کے مقابل اس آیت میں یحییٰ اللہ کا لفظ آیا ہے۔ اوپر کی آیت میں تکتمون کا لفظ آیا ہے، اسی کے مقابل اس آیت میں موتی، کا لفظ آیا ہے، پس علانیہ ثابت ہے کہ ” یحییٰ اللہ “ سے ظاہر ہونا قاتل کا اور موتیٰ سے نامعلوم یا غیر ظاہر ہونا قاتل کا مراد ہے نہ مقتول کا زندہ ہونا خدا اپنی قدرت اور اپنی حکمت کو، انہی باتوں میں جو انسان روزمرہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے، مگر انسان کا خیال اس پر قناعت نہیں کرتا، اور دوراز کار باتوں کو پسند کرتا ہے۔
تیسرا شبہ یہ کرینگے کہ ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ کے قبل ہم کو یہ جملہ کہ ” فاظہرہ اللہ “ مقدر ماننا پڑے گا، مگر یہ جملہ نہ خلاف عقل ہے نہ خلاف قرآن، اور نہ خلاف سیاق کلام خدا، کیونکہ خود خدا نے فرمایا ہے، واللہ مخرج، بر خلاف اس پہلے جملہ کے کہ نہ وہ زمین کا ہے نہ آسمان کا۔
( واتینا عیسیٰ ابن مریم البینت) بینات صفت ہے اور جہاں صرف لفظ بینات ہے وہاں اس کا موصوف جس کی وہ صفت ہے مقدر ہے، پس خدا کے کلام پر غور کر کر موصوف مقدر کو قرار دینا چاہیے ، خدا کے کلام میں ہمیشہ بینات کا موصوف آیات کا لفظ آیا ہے، جیسا کہ اسی سورة میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت فرمایا ہے ” ولقد انزلنا الیک ایات بینات “ اس لیے جو معنی آیات بینات کے ہیں وہی معنی صرف بینات کے بھی ہیں، کیونکہ آیات اس کا موصوف وہاں مقدر ہے، اور جو مراد لفظ بینات سے ہے، مع اس صفت کے جس پر لفظ بینات دلالت کرتا ہے۔
(آیہ) کے معنی لعنت میں علامت یعنی نشانی کے ہیں، اور علامت ہمیشہ اس پر جس کی وہ نشانی ہے دلالت کرتی ہے، پس آیت کے معنی دلالت کرنے والے کے ہوئے، جیسے کہ امام فخرالدین رازی نے بھی مذکور بالا آیت کی تفسیر میں لکھا ہے ” ان الایۃ ھی الدالۃ “ اور جو کہ قرآن مجید کے فقرے بھی خدا کی وحدانیت اور انبیاء کی نبوت اور احکام شریعت پر دلالت کرتے ہیں، اس لیے اس کے ہر فقرہ کو بھی آیت کہتے ہیں جیسا کہ تفسیر معالم التنزیل میں ” ولقد انزلنا الیک ایات بینات “ کی تفسیر میں لکھا ہے ” واضحات مفصلات بالحلال والحرام والحدود والا حکام “ اور جبکہ فقرات قرآن اس لیے کہ وہ احکام پر دلالت کرتے ہیں آیات کا اطلاق ہوا، تو آیات سے خود احکام بھی جو اس شخص کے وجود اور عظمت و جلال اور قدرت و سطوت و اختیار پر دلالت کرتے ہیں، جس نے وہ احکام صادر کیے ہیں مراد لیے جاسکتے ہیں، درحقیقت آیات کے لفظ سے قرآن مجید کی آیتیں یا احکام جو خدا نے ان آیتوں میں نازل فرمائے ہیں مراد لینا ایک ہی بات ہے۔
قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال کبھی تو خدا کی جانب سے ہوا ہے، جیسا کہ اس آیت میں ” ولقد انزلنا الیک ایات بینات “ اور کبھی بطور قول کفار یا اہل الکتاب کے ہوا ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے ” وقالوا لولا یاتینا بایۃ من ربہ “ پس جہاں قرآن میں اس لفظ یعنی، آیت، یا آیات، یا بینات، یا آیات بینات ، کا استعمال خدا کی جانب سے ہوا ہے، اس سے ہمیشہ وہ احکام یا نصایح اور مواعظ مراد ہیں، جو خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے کلام یا وحی کے انبیاء پر نازل فرمائے ہیں، ان احکام ومواعظ میں سے بعض خفی ہیں جن کی حکمت بہ تامل و تدقیق نظر سمجھ میں آتی ہے، اور بعض ایسی ہیں جو نہایت صاف اور واضح بدیہی ہیں، اسی لیے خدا نے کبھی صرف آیات سے اور کبھی آیات بینات سے اور کبھی زیادہ تر بدیہی ہونے کے سبب سے صرف بینات سے ان کو تعبیر کیا ہے۔
اس بیان سے ظاہر ہے کہ ہم آیات بینات سے جہاں کے وہ خدا کی طرف سے بولا ہے، وہ چیز مراد نہیں لیتے جس کو لوگ معجزہ یا معجزات کہتے ہیں، گو مفسرین نے اکثر مقامات میں بلکہ قریباً کل مقامات میں ان الفاظ سے معجزات ہی مراد لیے ہیں مگر یہ غلطی ہے، معجزہ پر آیت یا آیات کا اطلاق ہو نہیں سکتا، کیونکہ معجزہ امر مطلوب پر یعنی اثبات نبوت یا خدا کی طرف سے ہونے پر دلالت نہیں کرتا، اور نہ وہ نصبفت بینات موصف ہوسکتا ہے، اس لیے کہ اس میں اگر وہ ہو بھی تو بھی کوئی ایسی وضاحت جس سے اس کا حق اور واقعی ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا پایا جاوے کبھی نہیں ہوتی صرف احکام ہی ہیں جو بینات کی صفت سے موصوف ہوسکتے ہیں۔
معجزہ نبوت کے ثبوت کی کیونکر دلیل ہوسکتا ہے، اثبات نبوت کے لیے دل خدا کا (فقلیلا مایومنون مایومنون قلیل لا کثیر ویقول ما یومنون بقلیل ولا بکثیرر (تفسیران عباس) وجود اور اس کا متکلم ہونا اور اس میں اپنے ارادہ سے کام کرنے کی قدرت کا ہونا اور اس کا تمام بندوں کا مالک ہونا ثابت کرنا چاہیے۔ پھر اس کا ثبوت چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے رسول و پیغمبر بھیجا کرتا ہے، پھر یہ ثابت ہونا چاہیے کہ جو شخص دعوے نبوت کرتا ہے وہ درحقیقت اس کا بھیجا ہوا ہے۔ ہم پہلی دو باتوں سے قطع نظر کرتے ہیں کیونکہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایسے مقامات پر اکثر اہل کتاب مخاطب ہیں جو ان دونوں پہلی باتوں کو مانتے تھے، اور اس لیے معجزات سے صرف تیسری بات کا ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔
مگر وہ تیسری بات بھی معجزے سے ثابت نہیں ہوسکتی۔ قاضی ابی الولید محمد بن رشد نے اپنی کتاب میں جس کا نام ” کتاب الکشف عن مناھج الا دلہ فی عقائد للہ “ ہے بعثت انبیاء پر نہایت لطیف مباحثہ لکھا ہے، جس کا ماحصل ہم بھی اس مقام پر لکھتے ہیں، انھوں نے لکھا ہے کہ خدا کی طرف سے رسولوں کے آنے میں دو چیزیں غور طلب ہیں۔ اول رسول کے ہونے کا ثبوت۔ دوسرے وہ چیز جس سے ظاہر ہو کہ یہ شخص جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے رسولوں میں سے ایک رسول ہے، اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا نہیں ہے۔ انسانوں میں سے ایسے انسان کے ہونے پر متکلمین نے دنیا کے حالات پر قیاس کرکے استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کیا یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے، کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے اور صاحب ارادہ، اور بندوں کا مالک اور دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ ایسا شخص مجاز ہے کہ اپنے مملوک بندوں کے پاس اپنا ایلچی یا رسول بھیجے، تو خدا کی نسبت بھی ممکن ہے کہ اپنے بندوں کے پاس اپنا رسول بھیجے۔ اور یہ بات بھی دنیا میں دیکھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں بادشاہ کا ایلچی ہوں اور بادشاہی نشانیاں اس کے پاس ہیں تو واجب ہوتا ہے کہ اس کا ایلچی ہونا قبول کیا جاوے۔ متکلمین کہتے ہیں کہ یہ نشانیاں رسولوں کے ہاتھ سے معجزوں کا ہونا ہے۔
ابن رشد فرماتے ہیں کہ یہ دلیل عام لوگوں کے لیے کس قدر مناسب ہو، مگر جب غور سے دیکھا جاوے تو ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ جو شخص بادشاہ کے ایلچی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس وقت تک اس کو سچا نہیں مانا جاسکتا جب تک کہ یہ نہ معلوم ہو کہ جو نشانیاں وہ دکھاتا ہے وہی نشانیاں بادشاہ کے ایلچی ہونے کی ہیں، اور یہ بات دو طرح سے ہوسکتی ہے یا تو خود بادشاہ نے اپنی رعیت سے کہہ دیا ہوگا کہ جس شخص کے پاس تم میری ان خاص نشانیوں کو دیکھو تو اس کو میرا رسول یا ایلچی جانو، یا بادشاہ کی عادت سے یہ بات معلوم ہوگئی ہو کہ وہ ایسی نشانیاں بجز اپنے ایلچی یا رسول کے اور کسی کو نہیں دیتا۔ جبکہ یہ بات ہے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کہاں سے معلوم ہوگی کہ بعض انسان کے ہاتھ سے معجزوں کا ہونا روسل ہونے کی خاص نشانی ہے، کیونکہ دو حال سے خالی نہیں ، یا یہ بات شرع سے جانی گئی ہوگی یا عقل سے، شرع سے جاننا تو غیر ممکن ہے، کیونکہ شرع تو رسول ثابت ہونے کے بعد ٹھہرے گی اور ابتک رسول ہونا ہی ثابت نہیں ہوا ہے اور عقلاً بھی اس بات کا قرار دینا کہ یہ نشانیاں مخصوص رسولوں کی ہیں غیر ممکن ہے ہاں اگر دو نشانیاں بہت سی دفعہ انہی لوگوں سے ظاہر ہوتیں جو روسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے سوا اور کسی سے نہیں ہوتیں تو جو لوگ رسولوں کے ہونے کو مانتے ہیں ان کے لیے دلیل ہوسکتی، اور اس وقت یہ کہا جاسکتا کہ اس شخص نے جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے معجزے دکھائے ہیں، اور جو شخص کہ معجزے دکھاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے، اور اس لیے یہ شخص بھی رسول ہے۔ مگر یہ ماننا کہ اس شخص نے جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے معجزے دکھائے ہیں، اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ اول تسلیم کرلیا جاوے کہ ایسی باتیں انسان سے ہوسکتی ہیں، اور درحقیقت ان کا ہونا بخوبی محسوس ہوا ہو، اور یقین ہوگیا ہو کہ وہ کسی لاگ اور کسی حکمت سے اور خواص اشیاء سے نہیں ہوئیں، اور جو دکھائی دیا ہے وہ ڈھٹ بندی نہ تھی، بلکہ حقیقت میں واقع ہوا ہے۔ اور یہ کہنا کہ جو شخص معجزے دکھاتا ہے وہ وہ رسول ہوتا ہے ، جب صحیح ہوگا کہ پہلے رسولوں کا وجود اور یہ بات کہ وہ معجزے بجز رسولوں کے اور کسی نے نہیں دکھائے مان لیا جاوے، کیونکہ اس قسم کی منطقی دلیل کا جس میں دو مقدمے ملا کر نتیجہ نکالا جاتا ہے یہ خاصہ ہے کہ وہ دونوں مقدمے مان لیے گئے ہوں، مثلاً جس شخص کے سامنے یہ دلیل کیجاوے کہ الحالم محدث تو ضرور ہے کہ اس کو یہ بات معلوم ہو کہ عالم موجود ہے اور محدث بھی ہے پس اب ایک معترض کہہ سکتا ہے، کہ یہ بات کہ جو شخص معجزے دکھاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے کہاں سے ثابت ہوئی ہے، کیونکہ اب تک رسالت ہی کا وجود ثابت نہیں ہوا، اور دو مقدموں کو ملا کر نتیجہ نکالنے کے لیے اول ان دونوں کا ثابت ہوجانا ضرور تھا۔ اور یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ جب رسولوں کا ہونا عقلاً ممکن ہے تو ان کے ہونے پر عقل دلالت کرتی ہے، کیونکہ وہ امکان اسی قسم کا امکان نہیں ہے جو موجودات کی طبیعت میں پایا جاتا ہے ، جس طرح کہ ہم کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ مینہ برسے اور نہ برسے، اس لیے کہ جو امکان موجودات کی طبیعت میں مانا جاتا ہے وہ اس لیے مانا جاتا ہے کہ وہ شی کبھی موجود ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی، جیسا کہ مینہ کا حال ہے کہ کبھی برستا ہے اور کبھی نہیں برستا، اور اس لیے عقل بطور قاعدہ کلیہ کے یہ بات کہتی ہے کہ مینہ کا برسنا ممکن ہے۔ اور واجب کا حال اس کے برخلاف ہے اور وہ وہ ہے جو ہمیشہ موجود اور محسوس ہو، اور اس لیے اس کی نسبت عقل بطور قاعدہ کلیہ کے یہ بات کہتی ہے کہ اس کا متغیر ہونا اور بدل جانا ممکن نہیں، پس جو شخص کسی ایک رسول کے ہونے کا بھی قائل ہوگیا ہو تو اس کے مقابل میں کہا جاسکتا ہے، کہ رسولوں کا ہونا ممکن ہے ، مگر جو شخص رسول ہونے کا قائل ہی نہ ہو تو اس کے مقابل میں اس کا امکان کہنا جہالت ہے، اور لوگوں کی طرف سے ایلچی کا ہونا ممکن مانا گیا ہے، تو اس سبب سے مانا گیا ہے، کہ ان کے الیچیوں کا وجود ہم نے پایا ہے، اگر یہ کہا جاوے کہ لوگوں کی طرف سے ایلیچیوں سے وجود کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی طرف سے بھی رسولوں کا ہونا ممکن ہو، جیسا کہ عمرو کے ایلچی کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ زید کی طرف سے بھی ایلچی کا ہونا ممکن ہے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہوگا اس لیے کہ ایسی صورت میں عمرو اور زید دونوں کی طبیعتوں کا مساوی ہونا ضرور ہے، اور یہ مساوات خدا اور بندوں میں نہیں ہے، اور اگر آئندہ کے لیے رسول ہونے کا امکان فی نفسہ مان لیا جاوے، تو یہ تسلیم ایک امکانی امر کی تسلیم ہوگی نہ اس کے وقوع کی، اور یہ نہ معلوم ہوگا کہ اس نے بھیجا بھی ہے یا نہیں ۔ جیسا کہ اس بات میں شک ہوتا ہے کہ عمرو نے کسی گزشتہ زمانہ میں ایلچی بھیجا ہے، یا نہیں اور آئندہ زمانے میں بھیجنے میں شک کرنا کہ آئندہ بھی وہ بھیجے گا یا نہیں گزشتہ زمانے کے شک کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ پھر جب ہم کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ زید نے گزشتہ زمانہ میں کوئی ایلچی بھیجا ہے یا نہیں تو ہم کو یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ جس کے پاس زید کی نشانیاں ہیں وہ زید کا ایلچی ہے، جب تک کہ ہم یہ نہ جان لیں کہ یہ نشانیاں اس کے ایلچی ہونے کی نشانیاں ہیں، اور یہ بات جب ہوگی جب ہم جان چکے ہوں کہ اس نے اپنا ایلچی بھیجا ہے۔ پس جبکہ ہم نے یہ تسلیم بھی کرلیا کہ رسالت ہوتی ہے اور معجزے بھی ہوتے ہیں، تو کس طرح ہم کو یہ بات معلوم ہوگی کہ جس نے وہ معجزے دکھائے ہیں وہ رسول ہے۔ کیونکہ اس کے رسول ہونے کا ثبوت خدا کی طرف سے تو اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا رسول ہوناثابت نہ ہولے ورنہ تصییح الشیء بنفسہ لازم آتی ہے جو باطل ہے اور تجربہ اور عادت سے بھی اس کے رسول ہونے کا ثبوت نہیں ہوسکنے کا بجز اس کے کہ معجزے رسول ہی دکھایا کریں اور کوئی نہ دکھا سکے حالانکہ خرق حاوت جس کا ایک نام معجزہ بھی ہے رسول اور غیر رسول دونوں دکھا سکتے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے سبب متکلمین نے ان سب باتوں کو چھوڑ کر صرف یہ بات کہی کہ جس شخص کے پاس معجزے یعنی عاجز کرنے والی چیز ہو وہ رسول ہے، مگر یہ بھی صحیح نہ ہوگا بجز اس کے کہ وہ شے معجز فی نفسہ رسالت اور رسول ر دلالت نہ کرے ، اور عقل میں یہ قوت نہیں کہ وہ جب کوئی عجیب خرق عادت دیکھے تو یہ جان لے کہ وہ ربانی ہے اور رسالت پر دلیل قاطع ، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ دیکھنے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس شخص سے یہ خرق عادت ہوئی ہے، وہ ایک بڑا شخص ہے، اور بڑا شخص جھوٹ نہیں بولے گا، بلکہ اس کے رسول ماننے کو یہ بھی کافی نہ ہوگا جب تک کہ یہ بھی نہ مان لیا جائے کہ رسالت درحقیقت ایک چیز ہے، اور ایسی خرق عادت بجز رسول کے اور کسی بڑے شخص سے نہیں ہوتی۔ شے معجز بھی رسالت پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ عقل نہیں جان سکتی کہ رسالت اور شی معجز میں کیا علاقہ ہے، جب تک یہ نہ مان لیا جائے کہ اعجاز، رسالت کے افعال میں سے ایک فعل ہے، جیسا کہ بیمار کا اچھا کرنا طب کے افعال میں سے ایک فعل ہے، اور جو شخص بیمار کو اچھا کردیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ طب کا وجود ہے، اور یہ شخص طبیب ہے، پس یہ تمام دلیلیں بودی ہیں۔ اور اگر ہم بطور تنزل کے رسالت کے امکان امری کو امکان وتوعی فرض کرلیں اور معجزہ کو بھی اس شخص کے سچا ہونے کی دلیل مان لیں جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے، تو بھی ان لوگوں کے نزدیک جو کہتے ہیں کہ رسول کے سوا اور سے بھی شئے معجز ظاہر ہوتی ہے، رسالت پر معجزہ کی دلالت لازمی نہیں ہونے کی، اور متکلمین اس بات کے قائل ہیں کہ شے معجز کبھی جادو گر سے اور ولی سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اور اس مقام پر جو انھوں نے یہ شرط لگائی ہے، کہ شے معجز اسی وقت رسالت پر دلالت کرتی ہے، جبکہ وہ رسالت کے دعویٰ کے مقارن ہو، اور جو شخص رسول نہیں ہے اور وہ یہ دعویٰ کرکے کہ میں رسول ہوں شے معجز کو دکھانا چاہے توند کھا سکے گا، یہ ایک ایسی بات ہے جس پر کوئی دلیل نہیں، نہ تو اس کا نشان منقولات میں پایا جاتا ہے، اور انہ عقل سے معلوم ہوسکتا ہے، اور یہ کہنا کہ شے معجز ایک بڑے شخص سے ظاہر ہوتی ہے، اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرے وہ بڑا شخص نہیں ہے، اور اس لیے اس سے ظاہر نہ ہوگی، اس لیے غلط ہوجاتا ہے کہ متکلمین جادو گر سے شے معجز کا ظاہر ہونا تسلیم کرتے ہیں، اور جادو گر بڑا شخص تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
ان سب خرابیوں پر خیال کرکے بعض لوگوں نے یہ کہا ہے، کہ یہ اعتقاد ٹھیک ہے کہ خرق عادت بجز انبیاء کے اور کسی سے نہیں ہوتا، اور سحر صرف ایک (والضمیر (ای ضمیر ہو) لمادل علیہ یعمروان یعمر بدل منہ (بیضاوی) ڈھٹ بندی ہے، نہ قلب عین شی یعنی معجزہ سے لکڑی سچ مچ کا سانپ بن جاتی ہے، اور سحر سے وہ سانپ نہیں بنتی، بلکہ لوگوں کو سانپ دکھائی دیتی ہے اور اسی وجہ سے ان لوگوں نے کرامات اولیا سے انکار کیا ہے (واضح ہو کہ اسی خیال پر شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی حجۃ اللہ بالغہ میں کرامات اولیا سے انکار کیا ہے) مگر قاضی ابن رشد اس اعتقاد کی بھی تردید کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم کو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حال سے ظاہر ہوگا، کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کسی ایک شخص کے اور نہ کسی ایک گروہ کے ایمان پر دعوت کرتے وقت یہ نہیں کیا، کہ اس سے پہلے اس کے سامنے کوئی خرق عادت کی ہو، اور ایک چیز کو دوسری چیز میں بدل دیا ہو، یعنی لکڑی کا سانپ اور سانپ کی لکڑی، اور سونے کو مٹی اور مٹی کو سونا بنادیا ہو، اور اسلام لانے کی دعوت کے وقت کوئی کرامات اور کوئی خوارق عادت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظاہر نہیں ہوتی، اگر ظاہر ہوئی ہے تو معمولی حالات میں، بغیر اس کے کہ کرامات یاخرق عادت کا دعوے کیا ہو، اور اس کا ثبوت خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے، جہاں خدا نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ ” کافر کہتے ہیں کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ تو زمین پھاڑ کر ہمارے لیے چشمے نہ نکالے ، یا تیرے پاس کھجور و انگور کا باغ نہ ہو جس کے بیچ میں تو بہتی ہوئی نہریں نہ نکالے زور سے بہتی، یا تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے نہ ڈالے، یا خدا اور فرشتوں کو اپنے ساتھ نہ لاوے، یا تیرے لیے کوئی مزین گھر نہ ہو، یا تو آسمان پر پڑھ (قالو الن نومن لک حتیفتفجر لنا من الارض ینبوعا اور تکون لک جنۃ من نخیل وعنب فتفجر الا تھا رخلالھا تفجیر الاوتسعط السماء کیا) نہ جاوے اور ہم تو تیرے منتر پر ہرگز ایمان نہیں لاوینگے، جب تک کہ ہم پر ایسی کتاب نہ اترے جو ہم پڑھ لیں (اس پر خدا اپنے پیغمبر سے کہتا ہے کہ) تو ان سے کہہ دے ، کہ پاک ہے میرا پروردگار میں تو کچھ نہیں ہوں مگر رسول (اور خدا نے فرمایا کہ ) نہیں روکا ہم کو آیات کے بچنے سے مگر یہ کہ جھٹلایا ان کو اگلوں نے۔
غرضیکہ قاضی ابن رشد نے معجزات کو مثبت نبوت قرار نہیں دیا، اور اس کے بعد صرف قرآن کو مثبت نبوت قرار دیا ہے اور قریباً قریباً وہی لکھا ہے جو اس بحث میں ہم لکھ چکے ہیں، مگر وہ بخث اس مقام سے متعلق نہیں ہے۔ قاضی ابن رسد نے جو اتنی بڑی بحث لکھی ہے اس کا حاصل یہ ہے، کہ اگر خدا کو موجود ومرید و متکلم و قادر و مالک عبادت سلیم بھی کرلیا جاوے، اور یہ بھی مان لیا جاوے کہ وہ رسول بھی بھیجا کرتا ہے، اور معجزات کا بھی وقوع قبول کرلیا جاوے، تب بھی معجزات کے وقوع سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی، کہ وہ شخص خدا کا رسول ہے، مختصر طور پر اس کی یہ دلیلیں ہیں۔
جو امر کہ واقع ہوا اس کی نسبت اس امر کے لزوم کا ثبوت نہیں ہوتا کہ جس شخص سے یہ واقع ہو وہ رسول ہوتا ہے۔ کوئی خرق عادت ایسی معلوم نہیں ہے جو بطور خاصہ رسولوں سے مخصوص ہو۔ ، کچھ ثبوت نہیں ہے کہ خرق عادت سے رسالت کو کیا تعلق ہے۔ اس کا ثبوت نہیں ہوتا کہ اس کا وقوع قانون قدرت کے مطابق نہیں (دیکھو صفحہ لغایت ) ہوا کیونکہ بہت سے عجائبات اب بھی ایسے ظاہر ہوتے ہیں جو فی الحقیقت ان کا وقوع قانون قدرت کے مطابق ہوتا ہے مگر وہ قانون ابھی لامعلوم ہے۔
اس کا کچھ ثبوت نہیں ہوتا کہ جو امر واقع ہوا وہ خواص نفس انسانی سے جو ہر ایک انسان میں ہے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔
، غیر انبیاء سے جو امور خرق عادت کے واقع ہوتے ہیں اور جو انبیاء سے واقع ہوتے ہیں ان دونوں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں ہے۔
، یہاں تک کہ اہل ہنر سے جو امور واقع ہوتے ہیں ان میں دخرق عادت میں امتیاز نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔
کوئی معترض غلطی سے کہہ سکتا ہے، کہ قرآن مجید میں جس طرح آیات بینات کا اطلاق قرآن کی آیتوں یا احکام ونصایح ومواعظ قرآنی پر ہوا ہے، اسی طرح معجزات پر ہوا ہے، اور دو آیتیں قرآن کی غلط فہمی سے اس کی دلیل میں پیش کرسکتا ہے، پس مناسب ہے کہ ہم اس مقام پر بتادیں ، کہ ان آیتوں میں سے آیات بینات سے معجزے مراد نہیں ہیں۔
پہلی آیت سورة مائدہ کی ہے جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا ہے کہ ” اذاید تک بروح القدس تکلم الناس فی المہد دکھلا۔ ولذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل۔ واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی قتنفخ فیھا فتکون طیراً باذنی وتبری الاکمہ والابرص باذنی۔ واذ تخرج الموتی باذنی۔ واذکففت بنی اسرائیل عنک لنجئتہم بالبینات فقال الذین کھروا متھم ان ھذا الا سحر مبین “ اس آیت میں مفسرین کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا بیان ہے ، اور پھر کہا گیا ہے کہ کافروں نے کہا یہ تو کھلا ہوا جادو ہے، اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہبینات سے جو اس آیت میں ہے معجزے مراد ہیں جن کو کافروں نے جادو کہا۔ صاف تفسیر بیضاوی نے بھی ہذا کا اشارہ ” الذی جئتبہ “ کی طرف کیا ہے جس سے صاحب بیضاوی کے نزدیک بھی اس جگہ بینات سے معجزے مراد ہیں۔
مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے، اول تو ان ہذا کا مشارا الیہ الذی جئت بہ ہو نہیں سکتا کیونکہ وہ ظرف واقع ہوا ہے کففت کا جیسا کہ خود صاحب بیضاوی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے، پس ان ہذا کا مشارا الیہ مابہ کفف ہے نہ الذی حبئت بہ ، کیونکہ اذ جئتہم ظرف اور جزوزائد ہے جو کلام میں مقصود بالذات نہیں ہوتا، اور کفف خود فعل مسند ہے جو مقصود بالذات ہے اور اس لیے ہذا کا اشارہ اسی کی طرف اولی ہے۔
غرضیکہ حضرت عیسیٰ کا بنی اسرائیل کے حملہ سے بچ جانے کو جو انھوں نے ان کے قتل کے ارادہ سے اس وقت کیا تھا جبکہ وہ احکام خدا ان کو سنا رہے تھے کافروں نے کھلا ہوا جادو بتایا، بینات کے لفظ سے اس کو کچھ تعلق نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ جب سادے طور سے تمام اس آیت پر نظر ڈالی جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ پر جو اکرام کیے تھے ان کو اذاذکر کر بیان کیا ہے، اور اخیر کو جو قول کافروں کا تھا اس کا ذکر کیا ہے، پس وہ قول انہی چیزوں سے متعلق ہے جس نے کہ وہ متعلق ہوسکتا ہے ، نہ یہ کہ اس سے کوئی خاص معنی لفظ بینات کے ثابت ہوسکتے ہیں۔
دوسری آیت سورة بنی اسرائیل کی ہے، جہاں خدا نے فرمایا ہے ” وما منعنا ان نرسل بالایات الا ان کذب بھا الاولون، واتینا ثمود الناقۃ مبصرۃ فظلموا بھا ومانرسل بالاٰیات الا تخویفا “ اس آیت سے قاضی ابن رسد نے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوحا سے نبوت کے ساتھ کوئی معجزہ کسی کو نہیں دکھلایا جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، اور اس سے پایا جاتا ہے، کہ قاضی ابن رشد نے اس آیت میں جو لفظ ” آیات “ ہے اس سے معجزات مراد لیے ہیں۔ صاحب تفسیر بیضاوی نے بھی یہ سمجھا ہے کہ جو معجزات قریش نے طلب کیے تھے اس آیت میں لفظ بینات سے وہی معجزے مراد ہیں۔
مگر اس تفسیر میں چند نقصان ہیں، اول تو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ خدا نے لوگوں کی نہ ماننے یا جھٹلانے سے کیوں معجزوں کا بھیجنا بند کردیا۔ دوسرے یہ کہ آدم سے عیسیٰ تک برابر کیوں بھیجتا رہا، اور کیوں اگلوں کو ایسی بےرحمی سے غارت کرتا رہا، اس لیے میری سمجھ میں اس مقام پر بھی آیات کے معنی معجزات کے لینا صحیح نہیں، یہاں بھی احکام کے ہی معنی ہیں، جو حکم خاص کسی کو یا کسی قوم کو دیا گیا ہے وہ بھی آیت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة آل عمران سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زکریا سے جبکہ خدا نے کہا کہ تیرے بیٹا ہوگا، تو انھوں نے عرض کیا ” رب اجعل لی ایۃ “ یعنی اے پروردگار میرے لیے خاص آیت یعنی حکم مقرر کر، خدا نے کہا ” ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الارمزا “ یعنی تیری آیت یعنی تیرے لیے یہ حکم ہے کہ تین دن تک بجز اسارے کے کسی آدمی سے بات نہ کر۔ قوم ثمود کو جو احکام حضرت صالح (علیہ السلام) نے نسبت ناقہ کے بتائے ان کے سبب سے اس پر بھی آیت کا اطلاق ہوا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ “ کیونکہ وہ اونٹنی فی نفسہ کوئی معجزہ نہ تھی۔
پس اب اس آیت پر غور کرنا چاہیے جس پر بحث ہے خدا تعالیٰ نے تمام قرآن میں کوئی حکم خاص نسبت کسی شخص کے یا خاص کسی قوم کے مخصوص نہیں کیا ہے، بلکہ تمام انسانوں کے لیے یکساں حکم ہیں ، اور نہ کسی حکم میں کوئی خاص بات یا کسی امر کی نشانی کا ہونا بتایا ہے، برخلاف اس کے بعض اگلی امتوں پر بعض احکام خاص خاص بطور نشانی کے تھے، پس خدا فرماتا ہے کہ ہم نے وہ احکام اس لیے نہیں بھیجے کہ اگلی قومیں جن پر وہ احکام تھے وہ اس کو بجا نہیں لاسکیں۔ اور اسی کے ساتھ بطور تمثیل کے قوم ثمود کا ذکر آیا ہے جن کو حکم تھا کہ اونٹنی کو کھاتا پیتا پڑا پھرنے دیں ، اور کسی طرح ستاویں نہیں، اور پھر اخیر کو بتادیا کہ وہ خاص احکام صرف ڈر قائم رکھنے کے لیے تھے نہ مقصود بالذات۔
و جبرائیل و میکائل یہودیوں نے فرشتوں کے لیے نام مقرر کیے تھے، اور ان کے ہاں سات فرشتے نہایت مشہور فرشتوں میں ہیں، مگر اس کا ثبوت نہیں ہے کہ کسی نبی نے ان کو بتایا تھا، کہ یہ فرشتوں کے نام ہیں، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحف انبیاء میں کوئی صفت صفات باری میں سے کسی خاص لفظ کے ساتھ تعبیر کی گئی تھی، اور پھر رفتہ رفتہ وہ لفظ فرشتہ کا نام مشہور ہونے لگا، قرآن مجید میں ان کا استعمال اسی طرح پر ہوا ہے جس طرح کہ یہودی خیال کرتے تھے، مگر ہمارے ہاں کے علماء نے بھی یہودیوں کی تقلید سے ان کو فرشتوں کے نام قرار دیئے ہیں، قرآن مجید میں صرف دو فرشتوں یعنی جبرائیل و میکائیل کا نام آیا ہے، وہ دونوں فرشتے یہودیوں کے ہاں۔۔۔ بھی اسی نام سے مشہور ہیں، صرف تلفظ کا فرق ہے، کیونکہ یہ دونوں نام اور اصل عربی نہیں بلکہ عبرانی ہیں۔
(جبرئیل) عربی زبان میں اس لفظ کے معنی قوۃ اللہ یا قدرت اللہ کے ہیں یہ لفظ دانیال، پیغمبر کی کتاب میں آیا ہے۔ حضرت دانیال نے سینگ دار مینڈھے اور سینگ دار بکرے کی لڑائی کا ایک خواب دیکھا تھا، اسی خواب میں ایک شخص نے دریا کے کنارے سے پکار کر کہا اے جبرائیل اس شخص یعنی دانیال کو اس کے خواب کی تعبیر سمجھا دے، اور ایک اور دفعہ وہی شخص جس کا نام خواب میں حضرت دانیال نے جبرائیل سنا تھا ان کا خواب سمجھانے کو (دانیال باب درس وبابدرس )
آیت : وملئکتہ اور اس کے فرشتوں کا
ہوا کیونکہ بہت سے عجائبات اب بھی ایسے ظاہر ہوتے ہیں جو فی الحقیقت ان کا وقوع قانون قدرت کے مطابق ہوتا ہے مگر وہ قانون ابھی لامعلوم ہے۔
اس کا کچھ ثبوت نہیں ہوتا کہ جو امر واقع ہوا وہ خواص نفس انسانی سے جو ہر ایک انسان میں ہے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔
، غیر انبیاء سے جو امور خرق عادت کے واقع ہوتے ہیں اور جو انبیاء سے واقع ہوتے ہیں ان دونوں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں ہے۔
، یہاں تک کہ اہل ہنر سے جو امورواقع ہوتے ہیں ان میں دخرق عادت میں امتیاز نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔
کوئی معترض غلطی سے کہہ سکتا ہے ، کہ قرآن مجید میں جس طرح آیات بینات کا اطلاق قرآن کی آیتوں یا احکام و نصایح ومواعظ قرآنی پر ہوا ہے، اسی طرح معجزات پر ہوا ہے، اور دو آیتیں قرآن کی غلط فہمی سے اس کی دلیل میں پیش کرسکتا ہے، پس مناسب ہے کہ ہم اس مقام پر بتادیں ، کہ ان آیتوں میں سے آیات بینات سے معجزے مراد نہیں ہیں۔
پہلی آیت سورة مائدہ کی ہے جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا ہے کہ ” اذاید تک بروح القدس تکلم الناس فی المہد دکھلا۔ ولذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل۔ واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی قتنفخ فیھا فتکون طیراً باذنی وتبری الاکمہ والابرص باذنی۔ واذ تخرج الموتی باذنی۔ واذکففت بنی اسرائیل عنک لنجئتہم بالبینات فقال الذین کھروا متھم ان ھذا الا سحر مبین “ اس آیت میں مفسرین کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا بیان ہے ، اور پھر کہا گیا ہے کہ کافروں نے کہا یہ تو کھلا ہوا جادو ہے، اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہبینات سے جو اس میں تکرار کرکے گفتگو کی، تب اس نے بدنامی کی نالش کرنے میں دلیری نہ کی، لیکن کہا اللہ تجھے ملامت کرے “۔
بہرحال ہم کو اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو الفاظ صفات باری پر مستعمل ہوئے تھے آخر کو انہی الفاظ کو فرشتوں کا نام سمجھنے لگے۔ یہودی خیال کرتے تھے کہ میکائیل قوم بنی اسرائیل کا محافظ اور نگہبان ہے، اور جبرائیل کو سمجھتے تھے کہ وہ بنی اسرائیل کا مخالف ہے۔ اس سبب سے جبرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور اس سے عداوت رکھتے تھے اسی کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ جو کوئی جبرائیل کا یامیکائیل کا دشمن ہے بیشک خدا اس کا دشمن ہے۔ مگر جبرائیل و میکائیل کا اس آیت میں حکایتاً نام ہونے سے ان کے ایسے وجود واقعی پر جیسا کہ یہودیوں نے اور ان کی پیروی سے مسلمانوں نے تصور کیا ہی استدلال نہیں ہوسکتا، جیسا کہ فرشتوں کی بحث کے بعد اس کو بیان کرینگے۔
(ملائکہ) فرشتوں کی نسبت بھی جو بحث ہے وہ نہایت ہی غور طلب ہے، قرآن مجید میں فرشتوں کا ذکر آیا ہے، اور اس لیے ہر ایک مسلمان کو جو قرآن پر یقین رکھتا ہے فرشتوں کے موجود اور ان کے مخلوق ہونے پر یقین کرنا ضرور ہے، مگر جہاں تک بحث ہی اس پر بحث ہے کہ وہ کیسی مخلوق ہے، عام خیال مسلمانوں کا اور علماء اسلام کا یہ ہے کہ جس طرح انسان وحیوان جسم و صورت و شکل رکھتے ہیں اسی طرح وہ بھی جسم اور صورت و شکل رکھتے ہیں، اور ان کے پر بھی ہیں جن سے وہو اڑ کر آسمان پر جاتے ہیں اور زمین پر اتر آتے ہیں، اور خدا کا پیغام پیغمبروں تک پہنچاتے اور دنیا کے کام جو ان سے متعلق ہیں کرتے پھرتے ہیں۔ اور حیوانات کے جسم اور ان کے جسم میں اتنا فرق ہے کہ ان کا جسم محسوس نہیں ہوتا نہ چھونے سے ہاتھ کو لگتا ہے، نہ دیکھنے سے آنکھ کو دکھائی دیتا ہے، اور باوجود اس قدر نازک ہونے کے وہ بہت بڑے بڑے اور نہایت مشکل مشکل کام کرتے ہیں، پہاڑ اٹھالیتے ہیں زمین کو الٹ دیتے ہیں، اور ان میں یہ بھی طاقت ہے کہ کبھی اپنے جسم کو ایسا کرلیتے ہیں کہ ان کی اصلی صورت جو بہت بڑی خیال کی گئی ہے دکھائی دی جاتی ہے، اور ان میں یہ بھی قدرت ہے کہ جس شخص کی صورت چاہیں بن جاویں، اور انسانوں کی طرح انسانوں کے پاس آکر باتیں کریں۔
ہمارے پاس کسی ایسی مخلوق کے ہونے سے جو کسی قسم کا جسم و صورت بھی رکھتی ہو جو ہم کو نہ دکھائی دیتی ہو انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، پس ہم کہتے ہیں کہ شاید ایسی مخلوق ہو، مگر ہم ایسی مخلوق کے ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے اور جو افعال ایسی مخلوق کی نسبت منسوب کیے جاتے ہیں ان کا بھی اقرار نہیں کرتے ، کیونکہ ان باتوں کے اثبات کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، قرآن مجید سے فرشتوں کے اس قسم کے وجود، کا اور ان کے اس قسم کے جسم کا اور ان کے ان افعال کا جن کا اوپر ذکر ہوا کچھ ثبوت نہیں ہے۔
فرشتوں کے اس قسم کے وجود اور افعال کا ثبوت ضرور ہے کہ دلیل نقلی سے ہوگا، اور اس لیے قبل شروع کرنے اس بحث کے ہم کو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علماء علم کلام نے جو بحث نسبت دلیل نقلی کے کی ہے اس مقام پر اس کو نقل کریں۔
شرح مواقف میں اس بات پر ایک بحث لکھی ہے ، کہ دلائل نقلیہ جن سے مطالب پر استدلال کیا جاتا ہے مفید یقین ہیں یا نہیں، معتزلہ اور جمہورا شاعرہ کا یہ مناسب بیان کیا ہے کہ مفید نہیں، اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جن الفاظ سے استدلال کیا جاتا ہے ان کی نسبت جاننا چاہیے کہ وہ انہی معنوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں جو معنی ان سے لیے جاتے ہیں۔ اور اسبات کا بھی جاننا چاہیے کہ یہی معنی ان سے مراد ہی ہیں پہلی بات کے جاننے کے اصول تین ہیں، لعنت اور صرف ونحو، اور یہ تینوں اصول روایت احاد سے ہم تک پہنچے ہیں، مثلاً اصمعی اور خلیل و سیبویہ سے، اور اگر (اعلی ملک سلیمان، اعی علی عھد، ای زمانہ ملکہ۔ فاملضاف محذوف، مارزمان سلیمان فا لملک مجاز عن العھد وعلی التقدیرین علی بمعنی فی (بیضاوی وعصام)
وہ صحیح بھی ہوں تو ممکن ہے کہ خود اہل عرب نے اس میں غلطی کی ہو، اس لیے کہ امراء القیس جو سب سے بڑا شاعر زمانہ جاہلیت کا تھا اس نے کئی جگہ ان باتوں میں غلطی کی ہے۔ اور ان اصول کی فروعات قیاس پر مبنی ہیں اور وایت احادا اور قیاس دونوں ظنی دلیلیں ہیں۔
دوسری بات اس پر موقوف ہے کہ جن معنوں کے لیے وہ لفظ وضع ہوئے تھے ان معنوں سے کسی دوسرے معنی میں مستعمل نہیں ہوئے۔ اور نیز وہ لفظ مشترک المعنی بھی نہیں ہیں، کیونکہ اگر مشترک المعنی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ جو معنی ہم نے سمجھے ہیں ان سے وہ معنی مراد نہ ہوں، بلکہ دوسرے معنی مراد ہوں، اور نیز یہ بھی معلوم ہو کہ وہ مجازی معنوں میں بھی نہیں بولے گئے ہیں، کیونکہ اگر مجازی معنوں میں بولے گئے ہوں تو ان سے وہی معنی مراد ہوں گے نہ حقیقی معنی جو ان سے متبادل ہوتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہو کہ کلام میں کوئی مضمر بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی شے مضمر ہو تو اس کے معنی بدل جاوینگے، اور نیز وہاں کوئی تخضیص بھی نہ ہو، کیونکہ اگر کوئی تخصیص ہوگی تو جن چیزوں پر وہ لفظ دلالت کرتا ہے ان میں سے بعض مراد ہوں گے نہ کل، اور یہ کہ کلام میں تقارم و تاخر بھی نہ ہو، کیونکہ اگر کلام میں تقدم و تاخر ہوگا تو اس کے معنی بھی پلٹ جاوینگے اور ان باتوں میں سے ہر ایک بات ایسی ہے جو فی الواقع کلام میں ہوتی ہے، اس لیے ضرورتاً نقل مفید یقین نہیں ہوتی۔
ان سب باتوں کے ہونے کے بعد اس بات کا جاننا بھی ضرور ہے کہ جس بات پر نقلی دلیل دلالت کرتی ہے اس پر کوئی عقلی معارضہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی عقلی معارضہ پایا جاویگا تو ضرور نقلی دلیل پر اس کو ترجیح ہوگی، اور اس نقلی دلیل کو ضرور دوسرے معنوں میں تاویل کرنا پڑے گا، مثلاً یہ جو خدا کا قول ہے کہ ” الرحمن علی العرش استوی “ یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ خدا تخت پر بیٹھا ہوا ہے، مگر دلیل عقلی اس کی معارض ہے اور خدا کا تخت پر بیٹھا ہوا ہونا عقلی دلیل سے محال ہے، اس لیے اس نقلی دلیل کی غلبہ یابادشاہت سے تاویل کی گئی، اور اگر یوں نہ کیا جاوے تو اجتماع نقیضین یا ارتفاع فقیضین لازم آتا ہے، اور اگر دلیل نقلی کو عقل پر ترجیح دیں تو فرع سے اصل کا ابطال لازم آتا ہے، کیونکہ جو چیزیں نقلی ہیں ان کا اثبات بھی بجز عقل کے اور کسی طرح ممکن نہیں، پس نقل کے لیے بھی عقل ہی اصل ہے، اس لیے نقل کو ترجیح دینے سے اصل سے فرع کا ابطال لازم آتا ہے، اور فرع بھی اس سے باطل ہوجاتی ہے، کیونکہ صحت نقل تو متفرع تھی عقل پر جس میں فساد ہونا مانا گیا تو نقل بھی مقطوع الصحت نر ہی۔ عقلی معارضہ کا نہ ہونا بھی یقینی نہیں ہے، کیونکہ غایت الغایت یہ ہے کہ باوجود تلاش کے کوئی معارض عقلی نہیں ملا، لیکن معارض عقلی کے نہ ملنے سے اس کے نہ ہونے پر یقین نہیں ہوسکتا، اور اس سے ثابت ہوا کہ دلالت نقلی بلکہ عقلی بھی امور ظنی پر موقوف ہے، اور اس لیے دلالت نقلی اپنے مدلولات پر مفید یقین نہیں ہے۔
صاحب شرح مواقف نے ان دلیلوں کے لکھنے کے بعد یہ لکھا ہے، کہ یہ دلیلیں ٹھیک نہیں ہیں، بلکہ حق یہ ہے کہ دلائل نقلی شرعیات میں ان قرائن سے جو منقول ہیں مشاہدہ ہوتی ہیں، اور بطور تو اتر کے ہم تک پہنچی ہیں، اور جن سے تمام احتمالات مذکورہ بالا جاتے رہتے ہیں مفید یقین ہوتی ہیں، کیونکہ تمام اہل لعنت کے بیان سے ہم جانتے ہیں کہ جن معنوں میں لفظ ارض و سما کا اور اسی کی مانند جو اور مستعمل لفظ ہیں رسول خدا (علیہ السلام) کے وقت میں انہی معنوں میں مستعمل تھے جو معنی کہ اب ان سے لیے جاتے ہیں، اور اس میں شک کرنا سفسطہ ہے جس کے غلط ہونے میں کچھ شبہ نہیں، اور معارض عقلی کا نہ ہونا قائل کو یعنی پیغمبر کو صادق ماننے سے جانا جاتا ہے، کیونکہ اگر معارض عقلی کا ہونا خیال کیا جاوے تو قائل کا کذب لازم آتا ہے (ھذا محصل مافی شرح المواقف)
مگر جو کچھ نسبت دلیل نقلی کے مفید یقین ہونے کے شارح مواقف اور صاحب مواقف نے لکھا ہے وہ کسی قدر زیادہ غور کے قابل ہے، اس لیے کہ الفاظ مستعملہ کے جو معنی بطور تو اتر اور ورنبقل اہل لغت ہم تک پہنچے ہیں وہ مسمیات ان الفاظ کے ہیں بلالحاظ ان کی ماہیات کے، مثلاً ارض و سماء جو سب سے زیادہ مشہور و مستعمل الفاظ ہیں ان کے معنی جو ہم تک بطور تواتر کے پہنچے ہیں وہ اس قدر ہیں، کہ جس چیز پر ہم رہتے ہیں وہ ارض ہے، اور جو چیز ہم کو اپنے سر پر دکھائی دیتی ہے وہ آسمان ہے، اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ عرب قدیم اس قدر سے زیادہ اور کوئی معنی ان لفظوں کے نہیں
سمجھتے تھے ، مگر اہل کلام نے اور علماء اسلام نے صرف اسی قدر پر قناعت نہیں کی، بلکہ ان کے معنوں میں وہ باتیں بھی شامل قرار دی ہیں جن کا غالباً خیال بھی عرب قدیم کو نہیں تھا، اور اس صورت میں ان الفاظ کی دلالت ان معنوں پر یقینی قطعی نہیں ہے۔
الفاظ مشترک المعنی کی نسبت کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے کہ جس سے ان کا کسی ایک معنی پر مستعل ہونے کو قطعی دلیل موجود ہو۔
الفاظ کا مجازی معنوں میں مستعمل ہونا ایک ایسا وسیع امر ہے جس کی نسبت نہ نقل سے اور نہ اہل لغت کے تواتر نقل سے تصفیہ ہوسکتا ہے، اور یہی حال اضمار اور مستخصیص اور تقدیم و تاخیر کا ہے۔
ان سب سے زیادہ ایک اور امر ہے جس پر شارح مواقف اور صاحب مواقف بلکہ اور کسی نے بھی غور نہیں کیا، اور وہ کلام غیر مقصود ہے، مثلاً ایک شخص یہ بات کہے کہ جب آفتاب مغرب سے نکلے یا اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جاوے تب یہ امر واقع ہوگا، اور مخاطب اس کو یہ جواب دے کہ آفتاب کے مغرب سے نکلنے اور اونٹ کے سوئی کے ناکے میں سے نکل جانے پر بھی یہ امر واقع نہ ہوگا۔ اس کلام میں آفتاب کا مغرب سے نکلنا اور اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا کلام مقصود نہیں ہے، بلکہ عدم وقوع اس امر کا جس کے وقوع کا قائل مدعی تھا مقصود ہے۔ اور اس کلام سے تسلیم اس بات کی کہ درحقیقت کبھی آفتاب مغرب سے نکلے گا ، یا اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جاویگا، لازم نہیں آتی، پس دلیل نقلی میں اس بات کا علم بھی کہ وہ کلام غیر مقصود نہیں ہے اشد ضروریات میں سے ہے اور بغیر اس کے کوئی نقلی دلیل مفید یقین نہیں ہوسکتی۔
قرآن مجید میں اس قسم کا کلام غیر مقصود نہایت کثرت سے ہے، مشرکین واھل کتاب کے عندیہ میں بہت سی ایسی باتیں سمائی ہوئی تھیں جن کا دراصل کچھ وجود نہ تھا، یا وجود تھا، مگر اس کی جو حقیقت کہ وہ سمجھے ہوئے تھے دراصل وہ نہ تھی، یا وہ بات ظاہر میں دکھائی دیتی تھی اور بطور غلط العام یا باعتبار مشاہدہ اسی کو واقعی سمجھتے تھے، حالانکہ حقیقت اور اصلیت بر خلاف اس کے تھی۔ اور قرآن مجید کو اس سے بحث مقصود نہ تھی، اس لیے اس کو اسی طرح بیان کیا جس طرح مشرکین اور اہل کتاب خیال کرتے تھے، اور کبھی اسی پر بطور حجت الزامی کے کلام مقصود کی بناء قائم کی، اور کبھی اس کو بطور نظیر مسلمہ مخالف کے اور کبھی بطور ایک مسئلہ غلط العام کے، اور کبھی بلحاظ مشاہدہ ظاہری کے، اس کو بیان کیا، اور کلام مقصود سمجھایا گیا، پس کلام مقصود کے سوا جس قدر کلام ہے وہ سب کلام غیر مقصود ہے، اور اس سے کوئی ثبوت کسی امر کی واقعیت کا حاصل نہیں ہوتا، اور نہ وہ کسی امر کے لیے مفید یقین ہوتا ہے، اور اس لیے دلیل نقلی کے مفید بالیقین ہونے کو قطع نظر ان تمام باتوں کے جو شارح مواقف اور صاحب مواقف نے بیان کی ہیں، اس بات کا حلم کہ وہ کلام غیر مقصود نہیں ہے واجب و ضرور ہے۔ یہ امر جو ہم نے بیان کیا اس کو کچھ کلام اللہ ہی سے خصوصیت نہیں ہے، بلکہ عام کلام کا اور خود ہماری روزمرہ گفتگو کا، بلکہ تمام دنیا اور تمام قوموں کی باہمی گفتگو و کلام کا یہی طریقہ ہے، کہ جو امر بحث سے اور مقصود سے خارج ہے اس کے صحیح یا غیر صحیح ہونے سے قطع نظر کر کے کبھی بطور حکایت اور کبھی بطور تسلیم فرضی اور کبھی بغیر کسی خیال کے اس کا ذکر اور بیان آجاتا ہے، اور اس سے بجز اس کے کہ اس کے بعد کلام مقصود بنایا جاوے گا اور کچھ مقصد نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ بعض اشخاص غلطی سے سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بعض ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں کہ جو حقائق موجودہ کے برخلاف ہیں ، اور بعض اس سے بھی زیادہ غلطی یہ کرتے ہیں کہ اس کو کلام مقصود سمجھ کر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہی دراصل حقائق موجودہ ہیں۔ اور دراصل دونوں غلطی پر ہیں، قرآن مجید بلاشبہ کلام اللہ ہے، مگر انسانوں کی زبان اور انسانوں کے کلام کے طرز پر، پس اسی کلام کو مثل ایک انسان کے کلام کے تصور کرنا چاہیے، اور اس سے معانی ومطالب اور احکام و مقاصد اخذ کرنے اور اس سے دلیلیں قائم کرنے میں اس کو انسان کے کلام سے زیادہ کچھ رتبہ دینا نہیں چاہیے۔
اب ہم کو ملک اور ملائکہ کے لفظ سے اور جس طرح پر کہ فرشتوں کا خیال انسانوں کے دل میں پیدا ہوا اور جس طرح کا خیال یہودیوں اور عیسائیوں میں فرشتوں کی نسبت تھا اور جس طرح سے کہ ان کا بیان قرآن مجید میں ہوا ہے اس پر بحث کرنی چاہیے۔ قدیم زمانہ کی تمام دنیا کی قوموں کا یہ حال تھا کہغ جو امور عجیب و غریب ان کے سامنے ایسے پیش آتے تھے جس کی، علت ان کی سمجھ سے باہر تھی اس کو کسی ایسی قوت یا ایسے شخص سے منسوب کرتے تھے جو انسان سے برتر اور خدا سے کمتر تھی، اسی خیال سے تمام بت پرست قوموں نے اپنے ہاں خیالی دیوتا اور دیبیاں اور خدا پرست قوموں نے اپنے ہاں فرشتے نام کرلیے۔
ملک کے لفظ کی اہل لغت ملاک بتاتے ہیں اور اس کے معنی رسول یا پیغمبر لینے پیغام پہنچانے والے کے کہتے ہیں، مگر اس لفظ کا اطلاق اس شے پر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مقاصد کے انجام کے واسطے یا اپنی وجود یا قدرت کے اظہار کے واسطے معین کیا کیا ہو۔ توراۃ اور صحف انبیاء اور انجیل میں فرشتہ کے لفظ کا استعمال نہایت وسیع معنوں میں (دیکھو صفحہ حکایت ) آیا ہے، کتاب دوم شموئیل باب درس و میں اور کتاب دوم ملوک باب درس میں اور زبور داؤد باب درس میں وبا پر فرشتہ کا اطلاق ہوا ہے، اور زبور داؤد باب درس میں ہواؤن پر فرشتہ کا اطلاق کیا گیا ہے۔
کتاب ایوب باب اور س و کتاب اول شمونیل باب درس اور انجیل لوقا بابدرس وہابدرس و میں فرشتہ کا لفظ عام ایلچیوں پر بولا گیا ہے، کتاب اشعیاباب درس وکتاب حجی باب درس و کتاب ملا کی باب میں فرشتہ کا لفظ پیغمبر یعنی انبیاء کے معنوں میں آیا ہے، اور کتاب واعظ باب درسو کتاب ملا کی باب درسمیں فرشتہ کا لفظ بمعنی کاہن یا امام کے مستعمل ہوا ہے، مشاہدات یوحنا باب درس میں اور انجیل کے اور چند مقاموں میں فرشتہ کا لفظ حضرت عیسیٰ کے رسولوں پر بولا گیا ہے۔
توریت میں بہت جگہ فرشتوں کو اس طرح بیان کیا ہے جیسا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے پاس آئے اور ملاقات کرے اور باتیں کریں، توراۃ کی پہلی کتاب مسمی یہ کتاب پیدائش باب میں فرشتہ کا بطور ایک شخص کے تمام رات حضرت یعقوب سے کشتی لڑنے کا اور اخیر کو ان کی ٹانگ مروڑ ڈالنے کا ذکر لکھا ہے، اور ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حضرت یعقوب کو بیماری تقرس یا وجع الورک کا ہونا مراد ہے، پس اگر یہ خیال صحیح ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ مرض پر بھی فرشتہ کا اطلاق ہوا ہے، اور سای کتاب کے باب میں حضرت لوط کے پاس دو فرشتوں کے آنے کا ذکر ہے جو مسافر آدمیوں کی صورت میں آئے تھے، اور حضرت لوط نے اپنے گھر میں ان کو مہمان رکھا اور ان کی ضیافت کی اور نان فطیری ان کے لیے پکائی اور انھوں نے کھائی۔ بااینہمہ بہت جگہ فرشتہ کا لفظ ایسے وجودہا سے روحانی یاعقول ملکی کی نسبت مستعمل ہوا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے احکامات بجا لانے کے واسطے مامور ہیں۔
ارواح کی نسبت قدیم یہودیوں کا خیال اس زمانہ کے خیال سے کس قدر مختلف تھا۔ اس زمانہ میں روح سے غیر مادی چیز خیال کی جاتی ہے، اور مادہ کو ضدروح اور روح کو ضد ناد سمجھا جاتا ہے ، مگر یہودی عبری لفظ ” روح “ سے غیر مادی شے مراد نہیں لیتے تھے، بلکہ غیر مرئی جسم سمجھتے تھے، اور ان کے جوہر کو خالص ہوا یا رقیق آگ تصور کرتے تھے، اور اس لیے جب قدیم یہودی فرشتوں کو ارواح کہتے تھے تو ان کے ذی جسم ہونے سے ان کو انکار نہ تھا، بلکہ صرف مادہ غلیظ کی نجاستوں سے مبرا ہونا سمجھتے تھے، سنٹ پال نے جو اپنے نامہ اول موسومہ کر نتہیاں باب درس میں لکھا ہے، اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ بھی روحانی اجسام کو تسلیم کرتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو کتب مقدسہ میں روحانی عقول کا اکثر ذکر پایا جاتا ہے جن کی حالت وجود جداگانہ ہے اور ایک آسمانی جماعت قرار دی گئی ہے جس کا سردار خود خدا ہی کتاب دانیال باب درس و انجیل متی باب درس و انجیل لوقاباب درس ونامہ عبرانیاں باب درس ، سے کروڑہا بلکہ کروڑہا فرشتوں کا ہونا معلوم ہوتا ہے، اتنے بڑے جم غفیر کے اندر مختلف درجے اور مختلف صفتیں موجود ہونی ضرور ہیں، تاکہ انسان سے لے کر خدا تک ایسا سلسلہ وجود کا قائم ہوجاوے جو خالق اور کمترین ذی عقل مخلوق کی تفاوت کو مربوط کردے، یہودیوں کی مقدس کتابوں میں فرشتوں کا ایسی جماعتوں میں منقسم ہونا مذکور ہے جن کی عزت اور قوت اور صفت غیر مساوی ہے، اور ان پر
سردار اور حکام بھی ہیں۔
اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہودیوں کی قدیم کتب مقدسہ میں یعنی ان کتابوں میں جو قید بابل سے پیشتر لکھی گئی ہیں یہ خیال صاف صاف بیان نہیں ہوا، بلکہ جو کتابیں جلاوطنی کے زمانہ میں اور اس کے بعد کو لکھی گئی ہیں ان کتابوں میں اس خیال نے صورت پکڑی ہے، اور خصوصاً حضرت دانیال اور حضرت زکریا کی تحریرات میں اس خیال کا پتہ ملتا ہے، کتاب زکریا باب درس میں ایک فرشتہ سب سے اعلیٰ درجہ کا ہے جو خدا کے روبرو کھڑا رہتا ہے، اور فرشتوں سے بطور اپنے کارندوں کے کام لیتا ہے، حضرت دانیال نے حضرت میکائیل فرشتہ کو بہت بڑے بڑے لقب عطا فرمائے ہیں، نامہ یہو وہ درس اور اول نامہ تھسلینی کے باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسے کہ فرشتے مختلف درجہ رکھتے ہیں صرف یہودیوں کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھی، بلکہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کا بھی یہی خیال تھا، ہاں اس قدر ٹھیک ہے کہ متاخرین یہودیوں نے جو رتبے کی تقسیم فرشتوں میں قائم کی ہے وہ حواریوں کے وقت میں نہ تھی۔
یہودیوں کی کتب مقدسہ میں فرشتے ہمیشہ مجسم ہو کر انسانی صورت میں دکھائی دیتے تھے، اور کسی جگہ اس بات کا اشارہ نہیں ملتا کہ یہ اجسام حقیقی نہ تھے۔ متقدمین یہودی بیشک یہ جانتے تھے کہ ان اجسام کا مادہ ہمارے اجسام کے مادہ کی مانند نہیں ہے، کیونکہ فرشتوں میں یہ قدرت ہے کہ جب چاہیں اپنے تئیں لوگوں کو دکھلادیں اور جب چاہیں نگاہوں سے غائب ہوجاویں، عیسائی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ یقین کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عیہ السلام مصلوب ہونے کے بعد اٹھے تو کبھی ان کا جسم حواریوں کو دکھائی دیتا تھا اور کبھی نگاہ سے غائب ہوجاتا تھا، اگرچہ وہ ہمیشہ انسان ہی کی صورت پر دکھائی دیتے تھے
الم : سورۃ البقرة : آیت 97
یہودیوں نے اس سے یہ بات لازم نہیں تصور کی تھی، کہ فرشتے انسان ہی کی صورت رکھتے ہیں، بلکہ متقدمین یہودی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جو چیز خالص روح نہیں ہے کوئی نہ کوئی شکل ضرور رکھے گے، ممکن ہے کہ ان کی صورت انسان ہی کی سی ہو یا اور کسی شکل کی۔
یہودیوں کی کتب مقدسہ میں اناث ملائکہ کا ذکر نہیں پایا جاتا، اور عیسائی بھی بدلیل انجیل متی باب درس بطور استنباط کے یہی سمجھتے ہیں، کہ فرشتوں میں ذکورا اور اناث کی کچھ تمیز نہیں ہے۔ کتب مقدسہ میں غالباً اس وجہ سے کہ مذکر کا صیغہ زیادہ معزز ہے، فرشتوں کی نسبت مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، مگر اکثریت پرست قومیں فرشتوں کو ذکورا اور اناث قرار دیتی ہیں، اور دیوتا اور دیبی کا ماننا ان خیالات کو ظاہر کرتا ہے۔
عیسائی اور یہودی دونوں، فرشتوں میں ان صفات کو تسلیم کرتے ہیں۔ انسان سے ان میں عقل کا زیادہ ہونا ۔ ان کا قوت اور قدرت میں زیادہ ہونا۔ ان کا پاک اور برگزیدہ ہونا۔ اور یہ بات کہ فرشتے خدا تعالیٰ کے منشا اور مرضی کے اظہار کے درجے ہیں، کتب مقدسہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بخوبی معلوم ہوتی ہے، اور اسی سبب سے بعض کاموں کو ان کتابوں میں بالکل فرشتوں ہی کی طرف منسوب کیا ہے۔ انسانوں کے مقسوم کے متعلق امورات میں بھی ان کی وساطت ہوتی ہے۔ یہودی اور عیسائی یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ گو فرشتوں کی وساطت ہماری نظروں سے پوشیدہ ہو، تب بھی ان کی وساطت تسلیم ہوسکتی ہے، کیونکہ عبرانیوں کے خط کے باب اول درس و زبور داؤد باب درسو باب درس و انجیل متی باب درس میں لکھا ہے، کہ خدا تعالیٰ فرشتوں کو نجات کے وارثوں کی خدمت کے لیے بھیجتا ہے۔
قدیم عیسائی سمجھتے تھے کہ ہر فرد بشر کے ساتھ ایک فرشتہ ہے جو اس کی حفاظت پر متعین ہے، مشرکین کا بھی اسی کے قریب قریب عقیدہ تھا، یونانی اپنے محافظ دیوتا کو ” دیمن “ اور رومی جنییس کہتے تھے، اور یہودی اور قدیم عیسائی یہ بھی سمجھتے تھے، ہر انسان پر دو فرشتے متعین ہوتے ہیں ایک نیکی کا، اور ایک بدی کا، عام یہودی بھی فرشتوں کی نسبت یہی اعتقاد رکھتے ہیں، مگر ایک فرقہ یہودیوں کا جو صدوتی کے نام سے مشہور تھا وہ فرشتوں کا منکر تھا۔
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ یہودیوں کا یہ دستور ہے کہ خدا کی عظمت اور قدرت کے ہر ظہور کو فرشتوں کی وساطت کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور اس لیے وہ فرشتوں کے وجود اصلی کو نہیں مانتے ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی قدرت کی غیر معلوم توتوں کا نام فرشتہ رکھ دیا ہے، جیسا کہ مشرک ہر چیز کو جو عجیب و غریب ہوتی ہے اور جس کی علت ان کی فہم سے باہر ہوتی ہے، دیوتاؤں کے کاموں کی طرف منسوب کرتے ہیں، مگر عیسائی مذہب کے عالم اس کی تردید میں یہودیوں کی کتب مقدسہ اور انجیل کی وہ آیتیں پیش کرتے ہیں ، جنہیں فرشتوں کے ایسے کام بیان کیے گئے ہیں جو کسی طرح اس رائے کے مطابق نہیں ہوسکتے، وہ بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ فرشتوں سے برتر ہیں ، پس اگر فرشتوں کا کوئی وجود اصلی نہ ہو تو یہ کہنا مہمل ہوجاتا ہے۔
اب ہم کو اس بات کی تلاش کرنی ہے ، کہ قدیم مشرکین عرب کا یعنی اس زمانہ کے عربوں کا جبکہ یہودیوں کا میل جول عرب میں نہیں ہوا تھا فرشتوں کی نسبت کیا خیال تھا، اور آیا وہ لفظ ملک اور ملائکہ کو انھیں معنوں میں خیال کرتے تھے جن معنوں میں کہ یہودی خیال کرتے تھے یا نہیں، جہاں تک کہ ہم نے تفتیش کی ہے قدیم عربوں کا لفظ ملک اور ملائکہ کی نسبت ایسا خیال جیسا کہ یہودیوں کا ہی ثابت نہیں ہوا، مشرکین عرب بلاشبہ ارواح فلکی کو یا ارواح فرضی کو یا ارواح اشخاص متوفی کو بطور خدا کے پوجتے تھے اور ان کو مجسم و متخیر سمجھتے تھے، اور ان کے بت اور ان کے نام کے تھان اور ان کے نام سے ہیکل اور مندر بناتے تھے، مگر ان پر کبھی لفظ ملک یا ملائکہ کا اطلاق نہیں کرتے تھے، جہاں تک کہ ہم سے ہوسکا ہم نے اشعار جاہلیت پر بھی جس قدر کہ ہم کو دستیاب ہوئے غور کی، ہم کو کوئی شعر بھی ایسا نہیں ملا جس میں لفظ ملک یا ملائکہ کا ان ارواحوں پر جن کو وہ پوجتے تھے اطلاق کیا گیا ہو، ہم کو قرآن مجید میں بھی کوئی ایسی سند نہیں ملی جس میں منقولاً بزبان مشرکین لفظ ملک یا ملائکہ کا ان ارواحوں پر اطلاق کیا گیا ہو، ہاں یہ بات تو تسلیم (کتاب پیدائش باب درسوہ کتاب قضاۃ باب درس ۔ پخیل متی باب درس ، وباب درسواعمال باب درس) کی جاسکتی ہے کہ لغت کی کتابوں میں لفظ ملک کے معنی ایلچی یا رسول یا پیغامچی کے ہیں مگر یہ تسلیم نہیں ہوسکتا کہ قدیم مشرکین عرب اس کا اطلاق اس قسم کے رسولوں پر کرتے ہیں جن کو یہودی ملک یا ملائک کہتے تھے، ہاں اس قدر بات تسلیم ہوسکتی ہے کہ قدیم عرب اور نیز رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے عرب بھی ملائکہ کا اطلاق ان قوا پر جن سے زروے قدرت دنیا کے امورات انجام پاتے ہیں کرتے تھے، جیسا کہ ابوعبیدہ جابلی کے اس شعر میں ہے :
لست لانسی ولکن لملاک
تنزل فی جو السماء بصوب
صوب کہتے ہیں مینہ کو اس لیے اس شعر سے پایا جاتا ہے کہ مینہ برسانے کی جو قوت ہے اس کو فرشتہ سمجھتے تھے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب فرشتوں کو متخیر بھی سمجھتے تھے جیسے کہ امیتہ ابن صلت جاہلی کے اس شعر میں ہے۔
فکان برقع والملائک حولہ
سدر تواکلہ القوائم اجرب
مگر اسباب کا کہ وہ انہی معنی اور مراد میں استعمال کرتے تھے ، جن میں کہ یہودی استعمال کرتے تھے ہنوز ثبوت طلب ہے، اس خیال کے ثبوت پر ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں کا کوئی نام بھی عربی زبان کا نہیں ہے، اور جبرائیل و میکائیل یہ دو نام جو قرآن میں آئے ہیں وہ عبری ہیں اور عزرائیل و اسرافیل اور نام جو مسلمانوں میں مشہور ہیں سب عبرانی زبان کے ہیں، پس انہی اصول پر جو شارح مواقف اور صاحب مواقف نے قرار دیئے ہیں، اہل لغت کا یہ لکھنا کہ ” الملائک الملک لانہ یبلغ عن اللہ تعالیٰ “ مفید یقین نہیں۔
فقہد الغہ میں ملائکہ کی نسبت اہل عرب کا جو خیال لکھا ہے وہ بالکل ہمارے اس بیان کے مطابق ہے، اس میں ابی عثمان الجاحظہ کا قول لکھا ہے ” کہ عرب جن کے درجے درجے قرار دیتے تھے، جبکہ وہ عام طور پر جن کا ذکر کرتے تھے تو صرف لفظ جن بولتے تھے، اور جب ایسی جن کا ذکر کرتے تھے جو انسانوں کے ساتھ رہتا ہو تو اس کے لیے عامر کا لفظ بولتے تھے، جس کی جمع عمار ہے، اور جب ایسے جن کا ذکر کرتے تھے جو بچوں کو ستاتا ہے تو اس کے لیے اروح کا لفظ بولتے تھے، اور جبکہ وہ خبیث ہوتا اور تکلیف دیتا تھا تو اس پر شیطان کا اطلاق کرتے تھے اور جب اس سے بھی سخت تکلیف دیتا تھا تو اس کو مارد کہتے تھے، اور جو اس سے بھی زیادہ قوی ہوتا تھا اس کو عفریت کہتی تھی، اور اگر وہ پاک ستھرا ہوتا تھا اور بالکل بھلائی اس سے پہنچتی تھی تو اس کو ملک کہتی تھی اور ایک اور (عن ابی عثمان الجاحظہ قال ان لعرب تنزل الجن ھر لتب فاذاذکروا لجنس قالوا جن واذا ارادوانہ یسکن مع الناس قالوا عامر و الجمع عمار فاذاکان ممن تبعرض للصبیان قالوارواح فان حنث وتعرم قالولشیطان فان زاد علی ذلک قالوا سارد قان زاد علی القوۃ قالوا عفریت فان طھرو نطف وصار خیراکلہ قالوا ملک (روفی مقام اخر) دوی الحکم بن ابان عن عکرمۃ عن ابن عباس ان قریشا کانت تقول سروات الجن بنات الرحمن) مقام میں لکھا ہے ، کہ حکم بن ابان نے عکرمہ سے اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے ، کہ قریش جن کے سرداروں کو بنات الرحمن یعنی خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عرب ان غیر مرئی چیزوں کو جن کو نیک و پاکیزہ سمجھتے تھے، اور جن سے خلقت کو بھلائی اور نیکی پہنچنے کا خیال کرتے تھے ان کو ملک کہتے تھے، مگر وہ معنی اور مراد جو ملک کے لفظ سے یہودیوں نے مقرر کیے تھے یا جو زمانہ اسلام کی کئی صدی بعد کی مصنفہ کتب لغت میں لکھ دیئے گئے ہیں اس معنی و مراد میں عرب لفظ ملک کو استعمال نہیں کرتے تھے۔
قرآن مجید میں کلام مقصود میں کسی جگہ لفظ ملک یا ملائکہ کا اس مراد سے استعمال نہیں ہوا ہے جو مراد کہ یہودیوں نے قرار دی تھی ، جس کی تفسیر ہم ہر ایک مقام پر لکھے گے، برخلاف اس کے ملائکہ کا اطلاق ان قدرتی قوا پر جس نے انتظام عالم مربوط ہے، اور ان شیون قدرت کاملہ پروردگار پر جو اس کی ہر ایک مخلوق میں بہ تفاوت درجہ ظاہر ہوتی ہیں ملائکہ کا اطلاق ہوا ہے، سورة والنازعات سے اس کا بخوبی ثبوت ہوتا ہے، اس کے پہلے چار جملوں کی نسبت مفسرین میں اختلاف ہے، مگر پانچویں جملہ ” فالمدبرات امرا “ کی نسبت کسی کو اختلاف نہیں، اور جملہ مفسرین متفق ہیں کہ مدبزات سے ملائکہ مراد ہیں، پس اب غور کرنا چاہیے کہ مدبرات امور کون ہیں ، یہی قوا ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے تمام امور عالم کا مدبر مخلوق کیا ہے۔ ان آیتوں میں جن کی ہم تفسیر لکھتے ہیں کلام مقصود صرف اس قدر ہے، کہ جو شخص اس وحی کا عدو ہو جو خدا نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ڈالی ہے، اور جو کوئی خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا دشمن ہو، تو بیشک اللہ ان کافروں کا دشمن ہے، یہودیوں نے اپنے عندیہ میں دوجداگانہ فرشتے ٹھہرا رکھے تھے، ایک جبرائیل ، اور ایک میکائیل، پچھلے کو اپنا دوست جانتے تھے اور پہلے کو اپنا دشمن، اور جو کہ دین محمدی کو وہ اپنے برخلاف خیال کرتے تھے، تو یہ سمجھتے تھے کہ جبرائیل جو ہمارا دشمن ہے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ باتیں سکھاتا ہے۔ خدا نے پیغمبر سے کہا کہ ” تو کہہ دے کہ ہاں جبرائیل ہی اللہ کے حکم سے میرے دل میں یہ باتیں ڈالتا ہے، مگر جو کوئی ان باتوں کا اور فرشتوں کا اور جبرائیل و میکائیل کا اور رسولوں کا دشمن ہے، خدا اس کا دشمن ہے “۔
فرشتوں کی دشمنی بیان کرنے کے بعد جبرائیل اور میکائیل کا بالتخصیص نام لینا گویا یہود کے خیالات کا اعادہ ہے، اور وہ نام مقصود بالذات نہیں ہیں، کیونکہ اگر یہودیوں کا یہ خیال نہ ہوتا تو غالباً وہ نام نہ لیے جاتے۔ پس ان دونوں کے نام قرآن مجید میں آنے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ درحقیقت اس نام کے دو فرشتے مع تشخصہ ما علیحدہ علیحدہ ایسی ہی مخلوق ہیں جیسے کہ زید وعمر، بلکہ انہی آیتوں سے پایا جاتا ہے کہ جس شے کو یہودی جبرائیل
تعبیر کرتے تھے وہ کوئی جداگانہ مخلوق مع تشخص نہ تھی کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ ” بےشبہ اس نے (یعنی جبرائیل نے) ڈالا ہے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے (وہ کلام جو) سچ بتاتا ہے اس چیز کو جو اس سے پیشتر ہے “ دل میں ڈالنے والی کوئی ایسی مخلوق جو اس شخص سے جس کے دل میں ڈالا گیا ہے، جداگانہ ہو، نہیں ہوتی۔ پس درحقیقت یہودی جس کو جبرائیل کہتے تھے اور جس کا نام حکایتاً خدا نے بیان کیا ہے، وہ ملکہ نبوت خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تھا جو وحی کا باعث تھا، اس سے اگلی آیت میں خدا تعالیٰ نے بلا ذکر جبرائیل کے فرمایا ہے ” کہ بیشک ہم نے بھجی ہیں تیرے پاس کھلی ہوئی نشانیاں “۔ ان وجوہات سے یہ بات کہ جبرائیل درحقیقت کسی فرشتہ کا نام ہی ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں اس قدر تسلیم ہوسکتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت پر جبرائیل کا اطلاق ہوا ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے، کہ باوجودیکہ خدا کے پاس ان دو فرشتوں کے سوا اور بھی بہت سے فرشتے ہیں، مگر بجز دو فرشتوں کے اور سب بےنام ہیں، کیونکہ کسی اور کا نام قرآن میں نہیں آیا۔ حضرت عزرائیل بھی بڑے۔۔۔ مشہور فرشتے ہیں، جو سب کے پاس آوینگے اور کسی کو نہیں چھوڑینگے، اگرچہ ان کا ذکر بلفظ ملک الموت قرآن میں آیا ہے، مگر ان کا کچھ نام نہیں بیان ہوا ہے۔ ان سب باتوں سے صاف پایا جاتا ہے کہ فرشتوں کے نام یہودیوں کے مقرر کئے ہوئے ہیں، جو مختلف قوا کے تعبیر کرنے کو انھوں نے رکھ لیے تھے۔
(واتبعوا) اس آیت سے ستانویں آیت تک دو زمانے کے لوگوں کا ذکر ہے ایک اس زمانہ کے یہودیوں کا جو حضرت سلیمان کے وقت میں اور ان کے بعد تھے، اور ایک ان لوگوں کا جو ہاروت وماروت کے زمانہ میں تھے، مگر سب سے اول پہلی آیت کے معنی سمجھنے چاہئیں، خدا نے فرمایا ” کہ پیروی کی اس چیز کی جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کی نسبت پڑھتے تھے، اور سلیمان نے کفر نہیں کیا “ اس آیت میں تین لفظ ہیں سما۔ تتلو۔ کفر تتلو کے معنی پڑھنے کے ہیں۔ اور اسی لفظ سے بعض مفسرین نے ۔ ما۔ کے لفظ سے جھوٹی کتابیں یا جھوٹی تحریریں مراد لی ہیں، اور کفر کے لفظ سے لکھنا مراد لیا ہے، اور اس تفسیر کے مطابق آیت کا ترجمہ یوں ہوتا ہے کہ ” پیروی کی ان جھوٹی کتابوں یا تحریروں کی جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کی نسبت پڑھتے تھے، اور سلیمان نے کوئی کفر کی بات نہیں لکھی ، بلکہ شیاطین نے کفر کی باتیں لکھی تھیں “ اسی طرح پر آیت کے معنی قرار دینے بالکل صحیح و درست ہیں، مگر جو کہ آیت میں کوئی قید نہیں ہے اور ۔ تتلو۔ کے لفظ سے لکھے ہوئے ہی کا پڑھنا لازم نہیں آتا، بلکہ زبانیں پڑھنے پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے، اس لیے ہم نے ترجمہ بھی اسی طرح عام لفظ سے کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔
لیکن خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ” وما کفر سلیمان “ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ لوگ پڑھتے تھے اس کی نسبت سمجھتے تھے کہ سلیمان نے اس کو کیا یا کہا یا لکھا ہے، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ سمجھتے، بلکہ شیطانوں ہی کا فعل سمجھتے، تو سلیمان کو اس سے بری کرنے کی ضرورت نہ ہوتے، پس تقدیر آیت کی یوں ہوئی کہ ” واتبعوا ما تتلوا الشیاطین علی ملک سلیمان “ سبظنھم انہ من سلیمان۔” وما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا “ یعنی اور پیروی کی اس چیز کی جو شیاطین ملک سلیمان کی نسبت پڑھتے تھے یہ سمجھ کر سلیمان نے اس کو کیا ہے، حالانکہ سلیمان نے کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔
اس کے آگے لفظ ہے ” وماانزل علی الملکین “ مگر بسیاق اس کلام کے جو اس کے اوپر ہے اس کا صاف یہ مطلب پایا جاتا ہے کہ ” واتبعوا ما انزل بظنھم علی الملکین “ یعنی پیروی کی اس چیز کی جس کی نسبت وہ گمان کرتے تھے کہ دو فرشتوں پر اتاری گئی ہے ، پس اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا، کہ درحقیقت خدا کی جانب سے کوئی چیز ان فرشتوں پر اتاری گئی تھی، بلکہ صرف یہ پایا جاتا ہے، کہ جس طرح وہ لوگ ان چیزوں کو سمجھتے تھے کہ وہ سلیمان سے ہیں، حالانکہ سلیمان سے نہیں تھیں، اسی طرح دونوں فرشتوں کی نسبت بھی سمجھتے تھے، کہ خدا کی طرف سے وہ علم ان کو دیا گیا ہے، حالانکہ خدا کی طرف سے کچھ نہیں دیا گیا تھا۔
یہ معنی جو ہم نے بیان کیے ہیں ایسے صاف اور صریح ہیں، کہ کوئی شخص بھی ان کے صاف اور صریح اور سیدھے ہونے میں کلام نہیں کرسکتا، اور کسی قسم کی تاویل بھی اس میں نہیں ہے، لفظوں سے اور عبارت سے وسیاق کلام سے جو صریح معنی نکلتی ہیں، وہ بیان کیے ہیں، پس مخالفین قرآن نے جو یہ اعتراض کیا ہے، کہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے، کہ خدا لوگوں کو جادو بھی سکھاتا ہے، اور ایسا ناپاک کام خدا نازل کرتا ہے، وہ ایک لغو و بیہودہ ناسمجھی کا اعتراض ہے، ہاں اس میں کچھ شک نہیں، کہ ہمارے مفسرین نے بہت سی لغو باتیں اور جھوٹی روایتیں اور یہودیوں اور مجوسیوں کی حکایتیں اپنی تفسیروں میں بھر دی ہیں جن کا الزام خودان مفسروں پر ہے نہ قرآن پر۔
حضرت سلیمان کا زمانہ ایک ابتر حالت میں ہوگیا تھا۔ کافروں کو موافق اپنی مذہب اور عقائد کے پوجا پاٹ اور بت پرستی کرنے سے کچھ ممانعت نہ تھی، خود حضرت سلیمان نے نہایت کثرت سے بیویاں کرلی تھیں، اور بت پرست عورتوں کو بھی اپنی بیویاں بنایا تھا۔ عربی قوم کی اور صوابی قوم کی اور صدوقی قوم کی بیویاں ان کے گھر میں تھیں، اور وہ اپنے محلوں میں بت پرستی کرتی تھیں، اور اس سبب سے گویا شاہی محل میں بت پرستی ہونے لگی تھی، مگر خودحضرت سلیمان خدا کا نہایت ادب کرتے تھے ، اور اس کے نام کی کسی چیز کو بت پرستی کی آلایش میں شریک نہیں ہونے دیتے تھے، یہاں تک کہ اس محل میں جس میں حضرت داؤد رہتے تھے، ایک دفعہ تابوت سکینہ آیا تھا تو اس کے ادب سے انھوں نے اپنی ایک بت پرست بیوی کو وہاں رکھنا پسند نہیں کیا، اور اس کے لیے جدا محل بنایا۔
سلیمان کی سلطنت اگرچہ بہت بڑی اور قوی تھی، لیکن اس میں بھی خرابیاں ہوگئی تھیں، حضرت داؤد جب نہایت ضعیف ہوگئے تو ادونیاہ ان کے بڑے بیٹے نے یواب اور ابیاثار کی سازش سے تخت پر بیٹھنا چاہا، مگر حضرت سلیمان کی ماں نے جاکر حضرت داؤد کو خبر کی، اور سلیمان کو تخت پر بٹھانے کی درخواست کی، اور حضرت داؤد نے سلیمان کو تخت پر بیٹھنے کی اجازت دے دی، اور بنیاہ اور صادوق اور ناثان نبی نے حضرت سلیمان کو تخت پر بٹھا دیا، مگر اودنیاہ اور یواب اور ابیاثا دلوں میں مخالف تھے، اور گویا دو گروہ خدا پرستوں کے ایک دوسرے کے مقابلہ میں قائم ہوگئے تھے، اور تیسرا گروہ بت پرستوں کا موجود تھا، اور گویا حضرت سلیمان کے شریکوں میں یا ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔
یہ سب واقعات تاریخی ہیں، اور ایسے واقعات کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک گروہ کے مجسمے جدا جدا قائم ہوگئے ہوں گے ، اور ایک گروہ دوسرے گروہ سے اپنے رازوں کو مخفی رکھنا ہوگا۔ یہی بنا معلوم ہوتی ہے جس کے سبب حضرت سلیمان کے وقت میں وہ مجمع قائم ہوگیا تھا ، جس کو اس زمانہ میں فریمین کہتے ہیں، اور ہمارے ملک کے لوگوں نے جادو گر اس کا نام رکھا ہے، اس قسم کا مجمع راز حیرام بادشاہ صور کے ہاں بھی تھا۔ یہ بادشاہ حضرت داؤد کا بہت دوست تھا، اور کچھ عجب نہیں کہ وہی سے اس مجمع راز کے قائم کرنے کو اخذ کیا ہو، اور فیثا غورث حکیم نے بھی اسی قسم کا ایک مجمع راز اپنے شاگردوں کے لیے قائم کیا تھا۔ ان تمام حالات کا مقتضا یہ تھا، کہ کچھ پوشیدہ راز آپس میں ہوں، اور کچھ پوشیدہ تحریریں بھی ہوں، اور ان میں کچھ اصلی ہوں، اور کسی وقت میں لوگوں نے جعلی اور مصنوعی باتیں اور تحریریں اس میں ملا دی ہوں، اور ان کو بھی اصلی تحریریں ظاہر کیا ہو۔ جھوٹی تحریروں کے اس اختلاط کا حضرت سلیمان کے گروہ میں پیدا ہونا زیادہ تر احتمال رکھتا ہے، کیونکہ ان کے محل میں بت پرست عورتیں موجود تھیں، اور تمام بت پرست قومیں ان کی حامی اور مددگار تھیں، اور وہ اپنی مذہبی رسم و رواج اور پوجا پاٹ کے قائم رکھنے کو زیادہ راغب ہونگی، اور سلیمان کے بعد ان جھوٹی تحریروں کو جن میں کفر کی باتیں بھی ہونگی لوگوں نے سلیمان کی تحریریں گمان کرکے اختیار کیا ہوگا اور ان کی پیروی کرتے ہوں گے ۔ اسی امر کی نسبت خدا نے فرمایا ہے، کہ وہ سلیمان کی تحریریں نہیں تھیں، بلکہ شیطانوں یعنی کافروں کی تحریریں تھیں۔ اور انھوں نے ہی ان میں کفر کی باتیں لکھی تھیں، سلیمان نے نہیں کہی تھیں، پس یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا اشارہ قرآن میں ہے۔
شیاطین کے معنی ہم نے کافروں کے لیے ہیں ، بیضاوی میں لکھا ہے کہ ” الشیاطین (اس زمانہ میں بھی ایسی تحریریں موجود ہیں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب ہیں، مگر خود یہودی اور عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مصنوعی تحریریں ہیں ، سلیمان کی نہیں ہیں) من الجن والانس اومنھما “ یعنی شیاطین کے لفظ سے یا تو شیاطین جن مراد ہیں یا شیاطین انس یعنی شریر آدمی یا دونوں۔ تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے، کہ اکثر مفسر شیاطین سے شیاطین جن مراد لیتے ہیں، اور معتزلے شیاطین انس، اور بعضے دونوں قرار دیتے ہیں، لیکن ہر ایک سمجھدار آدمی سمجھ سکتا ہے، کہ شیاطین سے شیاطین الجن مراد لینا مذہب کو ایک عجوبہ بنانا ہے، اور شیاطین سے شیاطین الجن مراد لینے پر نہ کوئی تاریخی دلیل ہے نہ کوئی عقل دلیل ہے ، اور نہ اس آیت میں کوئی اس قسم کا اشارہ ہے، بلکہ جو تاریخی واقعہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے، کہ وہی کافر مراد ہیں جنہوں نے کفر کیا جھوٹی تحریریں یا جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔
ہاروت اور ماروت دونوں تاریخی شخص ہیں، یعنی ان کا وجود تاریخ کی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں شخص شام کے رہنے والے تھے، قرآن مجید میں ان کا کوئی قصہ بجز اس کے جو یہاں ہے بیان نہیں ہوا ہے، تمام قصے جو مفسرین نے ان کی نسبت اپنی تفسیروں میں بھر لیے ہیں، ان کی کچھ اصل مذہب اسلام میں نہیں ہے جتنی روائتیں ان کی نسبت مذکور ہیں وہ سب مصنوعی اور جھوٹی ہیں۔ مسٹر ہائڈ کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مجوسیوں کے ہاں ان کی نسبت بہت سے قصے لغو مشہور تھے، ہمارے مفسرین کی یہ عادت ہے کہ کسی کے ہاں کا قصہ ہو جب وہ اپنی تفسیروں میں اس کو داخل کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک ایسی مصنوعی روایت داخل کردیتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ یہ مسلمانی روایت ہے، مگر اس جھوٹ کا جو الزام ہے وہ مفسرین یاراویوں پر ہے قرآن اس سے بری ہے۔
یہ دونوں فرشتے نہیں تھے بلکہ آدمی تھے۔ ہمارے ہاں کے بعض مفسروں نے بھی ان کو آدمی قرار دیا ہے، چنانچہ حسن نے ملکین کے لفظ کو لام کے زیر سے پڑھا ہے، جس کے معنی دو بادشاہوں کے ہیں۔ اور ضحاک سے اور ابن عباس سے بھی لام کے زیر سے پڑھنا روایت کیا گیا ہے۔ پھر انمیں اسبات پر اختلاف ہوا کہ وہ کون ہے۔ حسن کا قول ہے، کہ وہ دونوں بابل میں عجم کے کافروں میں سے تھے، بغیر ختنہ کیے ہوئے، کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، اور یہ بھی کہا گیا ہے، کہ وہ دونوں بادشاہوں میں سے صالح آدمی تھے۔
ہم ملکین کے لفظ کو مطابق قراءت مشہور لام کے زیر سے پڑھتے ہیں، مگر فرشتے مراد نہیں لیتے، بلکہ آدمی ہی مراد لیتے ہیں۔ جس کو لوگ نہایت نیک سمجھتے ہیں، اس پر فرشتہ کا اطلاق کرتے ہیں، قرآن مجید سے بھی کافروں میں اس محاورہ کا ہونا پایا جاتا ہے، جس طرح کہ زلیخا کی سہیلیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر کہا تھا کہ ” ماھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم “ اور مجوسیوں میں بھی ایسا استعمات تھا، اور ہائڈ صاحب کی کتاب سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجوسی ہاروت ماروت کو فرشتہ کہتے تھے۔ پس اس آیت میں جس طرح کہ لوگوں کے اس گمان گو کہ ، جو علم ان کے پاس تھا وہ خدا کی طرف سے اتارا گیا تھا، بیان کیا گیا ہے، اسی طرح پر جس خیال سے کہ وہ ان کو فرشتہ کہتے تھے ملکین کا لفظ لام کے زیر سے لایا گیا ہے، یعنی ان لوگوں نے اس چیز کی پیروی کی جس کی نسبت وہ کہتے تھے کہ بابل میں ہاروت اور ماروت پر جن کو وہ فرشتہ کہتے تھے خدا کی طرف سے اتاری گئی ہے، پس خدا نے یہ فرمایا ہے کہ جو علم ان کے پاس تھا وہ خدا کی طرف سے اتارا ہوا تھا، اور نہ یہ فرمایا ہے ، کہ وہ دونوں فرشتے تھے، بلکہ جو زعم ان دونوں باتوں کی نسبت کافروں یا یہودیوں کا تھا وہ بیان کیا گیا ہے۔
اب ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ جادو سیکھنے والوں کو منع کیوں کرتے تھے کہ تم مت سیکھو، اور کافر مت بنو یعنی برا کام کرنے والے مت بنو۔ یہ بات کچھ تعجب کی نہیں ہے۔ جادو سے اپنے خیال میں نقصان پہنچانا، خواہ فی الحقیقت اس سے نقصان پہنچتا ہو یا نہیں، ہر کوئی یہاں تک کہ جادو گر بھی برا جانتا ہے، اور اسی وجہ سے وہ سیکھنے والے کو منع کرتے تھے، اس زمانہ میں بھی بہت لوگ ایسے ہیں جو کوئی برا کام جانتے ہیں، مگر جب کوئی ان سے سیکھنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں، کہ یہ خراب کام ہے کیوں سیکھتے ہو، لیکن جب سیکھنے والا اصرار کرتا ہے تو سکھا دیتے ہیں، پس ہاروت اور ماروت کا سیکھنے والوں کو ایسا کہنا ایک عام مجراء طبیعی کے موافق تھا۔
اسی آیت میں اس بات پر بھی دلیل ہے کہ سحر باطل ہے، یعنی سحر کچھ موثر نہیں ہے ، کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ کسی کو بسبب اپنے سحر کے کچھ نقصان پہنچانے والے نہ تھے، اور یہ کہنا نص صریح اس بات پر ہے کہ سحر کچھ اثر نہیں رکھتا، اور یہی معنی سحر کے باطل ہونے کے ہیں۔
آگے جو خدا نے فرمایا کہ ” الا باذن اللہ “ اس کے یہ معنی سمجھنا کہ ان کا سحر خدا کے حکم سے اثر کرتا تھا ، محض علتی اور ناسمجھی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عامل یا جادو گر کسی کام کے لیے عمل یا جادو پڑھتا ہے اور وہ کام اتفاقیہ اس کی خواہش کے مطابق ہوجاتا ہے اور شبہ پڑتا ہے کہ عمل یا جادو کے اثر سے ہوا ہے۔ اس شبہ کے مٹانے کو خدا نے فرمایا ” الا باذن اللہ “ یعنی ایسی حالت میں جو کام ہوجاتا ہے وہ خدا کے حکم سے ہوجاتا ہے۔ کچھ جادو یا عمل کے سبب سے نہیں ہوتا۔
ہم نے اوپر بیان کیا تھا کہ ان آیتوں میں دو زمانہ کے لوگوں کا ذکر ہے۔ ایک اس زمانہ کے یہودیوں کا جو حضرت سلیمان کے وقت میں اور ان کے بعد تھے، اور ایک ان لوگوں کا جو ہاروت اور ر ماروت کے زمانہ میں تھے ۔ پس جان لینا چاہیے کہ پچانوے آیت کے شروع سے ان لفظوں تک کہ ” بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتوں پر اتاری گئی ہے “ ان لوگوں کا ذکر ہے، جو حضرت سلیمان کے وقت میں اور ان کے بعد تھے۔ اور ان الفاظ سے کہ ” اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے “ ان الفاظ تک کہ ” اور ان سے سیکھتے تھے وہ چیز جو ان کو نقصان دیتی تھی اور نفع نہ پہنچاتی تھی “ ان لوگوں کا ذکر ہے جو ہاروت و ماروت کے زمانہ میں تھے، اور اس کے بعد عام یہودی مخاطب ہیں جو توراۃ سے جانتے تھے کہ جادو گناہ اور کفر ہے۔
( ماننسخ) اس آیت کی تفسیر میں ہمارے ہاں کے مفسروں نے بےانتہا کج بحثیاں کی ہیں، اور مذہب اسلام کو بلکہ خدا کو بدنام کیا ہے، اور قرآن مجید کو ایک شاعر کی بیاض بنادیا ہے، انہی کج بحثیوں میں بعض مفسروں نے جن کو خدا نے ہدایت کی ہے سیدھی راہ بھی اختیار کی ہے، ہر ایک شخص جس کی مزاج میں کج بحثی نہیں ہے وہ اس آیت کو اور اس سے پہلی آیت کو پڑھ کر سیدھا اور صاف مطلب سمجھ سکتا ہے، اس آیت سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے، کہ اہل کتاب اس بات کو دوست نہیں رکھتے کہ خدا کی طرف سے تم پر کچھ بھلائی اترے ، اور بھلائی سے علانیہ مراد قرآن اور احکام شریعت ہیں۔ اہل کتاب جو اسبات کو دوست نہیں رکھتے تھے اس کی صاف صاف دو وجہیں تھیں۔ اول یہ کہ تمام انبیاء بنی اسرائیل میں گزرے تھے، اور ان کو پسند نہیں تھا کہ بنی اسماعیل میں جن کو وہ بالطبع حقیر بھی سمجھتے تھے کوئی نبی پیدا ہو۔ اس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ اللہ مخصوص کرتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ احکام شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موسوی شریعت کے احکام سے کسی قدر مختلف تھے، اور یہودی اپنی شریعت کی نسبت سمجھتے تھے کہ وہ دائمی ہے، اور کبھی کوئی حکم اس کا تبدیل نہیں ہونے کا۔ اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو آیت کو ہم منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اسی کی مانند یا اس سے بہتر آیت دیتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام میں آیت کے لفظ سے قرآن کی آیت مراد نہیں ہے بلکہ موسوی شریعت کے احکام جو شرع محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تبدیل ہوگئے، یا جن احکام شریعت موسوی کو یہودیوں نے بھلا دیا تھا وہ مرد ہیں۔ ہمارے اکثر مفسرین نے نہایت کج بحثی سے اس آیت میں جو لفظ، آیت ہے اس کو قرآن مجید کی آیتوں پر محمول کیا ہے، اور یہ سمجھا ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوجاتی ہے، اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ ننسہا کے لفظ سے یہ قرار دیا، کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض آیتوں کو بھول بھی گئے تھے، اور ان دو لفظوں یعنی ننسخ اور ننسہا کی بنا پر جھوٹی اور مصنوعی روایتوں کے بیان کرنے سے اپنی تفسیروں کے ورق کے ورق سیاہ کردیئے ہیں ، مگر ان میں کی ایک روایت بھی صحیح نہیں ہے، انہی جھوٹی روایتوں کی بنا پر انھوں نے قرآن کی آیتوں کو چار قسم کی آیتوں پر تقسیم کیا :
اول : وہ آیتیں جن کی تلاوت اور احکام دونوں بحال ہیں اور وہ سب آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔
دوم : وہ آیتیں جن کی تلاوت بحال ہے اور احکام منسوخ ہوگئے ہیں۔ ان آیتوں کی نسبت بھی کہتے ہیں کہ قرآن میں موجود ہیں۔
سوم : وہ آیتیں جن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے مگر احکام بحال ہیں۔
چہارم : وہ آیتیں جن کی تلاوت اور احکام دونوں منسوخ ہوگئے ہیں۔
تیسری اور چوتھی قسم کی آیتوں کی نسبت کہتے ہیں کہ قرآن میں موجود نہیں ہیں، مگر ان جھوٹی روایتوں میں ان کا موجود ہونا بیان کرتے ہیں۔
ہم ان باتوں پر اعتقاد نہیں رکھتے، اور یقین جانتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے اترا اور وہ بےکم وکاست موجودہ قرآن میں جو درحقیقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ حیات میں تحریر ہوچکا تھا موجود ہے، اور کوئی حرف بھی اس سے خارج نہیں ہے، اور نہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ ہے، بلکہ احکام ادیان سابقہ کی نسبت بھی لفظ نسخ کا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے نہ حقیقی معنی میں۔ اس کی تشریح کے لیے ہم کو ننسخ کے معنوں سے بحث کرنی پڑیگی، اور جو احکام کہ تبدیل ہوگئے ہیں ان کی بھی حقیقت بیان کرنی ہوگی، لیکن قبل اس کے ہم کو ان مفسروں کی رائے کا بیان کرنا مناسب ہے، جنہوں نے آیت کے لفظ سے جو اس آیت میں ہے، قرآن کی آیتیں مراد نہیں لی ہیں۔
ابومسلم صرف ایک شخص ہی جو خلاف جمہور مفسرین کے ہماری (قال ابومسلم۔ ان المراد امن الایات المنس ختحی) رائے سے متفق ہے۔ اس کا بھی یہی عقیدہ ہے، کہ قرآن میں ننسخ واقعہ نہیں ہوا، اور اس کا قول ہے کہ آیات منسوخہ سے مراد وہ شریعتیں ہیں، جو کتب مقدسہ یعنی توراۃ اور انجیل میں تھیں، جیسا کہ سبت کا ماننا اور مشرق اور مغرب کی طرف نماز کا پڑھنا، اور اسی قسم کے حکموں کی مانند جو اللہ نے ہم سے دور کردیئے ہیں، اور ہم بغیر اس کے عبادت کرتے ہیں، یہود اور نصاری کہتی تھی کہ بجز اس کے جو ہمارے دین کا تابع ہو اور کسی پر ایمان لاؤ ، پس اللہ نے اس آیت سے اس کو باطل کردیا۔ (الشرایع التی فی الکتب القدیمۃ من التورئۃ والانجیل کا لسبت و الصلوٰۃ الی المشرق و المغرب مما وضعہ اللہ تعالیٰ عناوتعبدما بغیرہ فان الیھود والنصاریٰ کانوا یقولون لا تومنوا الا لمن تبع دینکم تخبطل اتدستلیھم ذلک بھذہ الایۃ)
بعض آدمیوں نے اس کا یہ جواب دیا ہے، کہ آیت کا لفظ جبکہ اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے قرآن ہی کی آیتیں مراد ہوتی ہیں، کیونکہ ہمارے نزدیک وہی آیتیں مقرر ہیں۔ (ومن الناس من اجاب بان الاٰیۃ اذا اطلقت فالمراد بھا ایات القرآن لاتہ ھوا المغھود عندنا)
لیکن کوئی شخص اس کا جواب دے سکتا ہے کہ ہم یہ بات نہیں مانتے، کہ آیت کا لفظ قرآن کی آیتوں سے مخصوص ہے، بلکہ وہ عام ہے اور ہر دلیل پر بولا جاتا ہے۔ (ولقائن لن یقول لا نسلم ان لفظ الایۃ مختص بالقرآن بل ھو عام فی جمیع الدلائل (تفسیر کبیر صفحہ جلد )
امام فخر الدین رازی نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ قرآن مجید میں منسوخ آیتیں ہونے پر اس آیت سے استدلال کرنا ٹھیک نہیں ہے، اور اس لیے انھوں نے اور آیتوں سے استدلال کیا ہے، چنانچہ تفسیر کبیر میں وہ لکھتے ہیں، کہ ہم نے کتاب محصول میں جو اصلو فقہ میں ہے ، تمام بحثیں جو عدم نسخ پر دلالت کرتی (واعلم انا بعدان حردنابہ ھذہ الجملۃ فی کتاب المحصول فی اصول الفقہ تمسکنا فی وقوع النسخ بقولہ تعالیٰ ما ننسخ من ایۃ اوخ تھا نات بخیر منھا اومثلھا الاستدلال بہ ایضا ضعیف لا نما ھھنا قفید الشرط والجزاء و کماان قولک من جاء ک ناکرمہ لا یدل علی حصول المجی بل علی انۃ متی جاء وجب الاکرام فکدناھذہ الایۃ لا تدل علی حصول النسخ بل علی انہ متی حصل النسخ وجب ان یاتی بما ھو خیر منہ فلا قوی ان نقول فی الاثبات علی قولہ تعالیٰ واذا بدلنا ایۃ مکان ایۃ وقولہ یحر اللہ ما یشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب واللہ اعلم۔ تفسیر کبیر جلد صفحہ ) ہیں ، بیان کرکے ، ہم نے وقوع نسخ پر اسی آیت ماننسخ پر استدلال کیا ہے۔ مگر اس آیت پر استدلال کرنا نیک نہیں ہے اس لیے کہ ماکا لفظ اسی جگہ بطور شرط اور جزا کے ہے ، جیسا کہ تم کسی کو کہو، کہ جو شخص تیرے پاس آئے تو اس کی تعظیم کر، تو یہ کہنا کسی شخص کے آنے پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ صرف اتنا نکلتا ہے، کہ جب کوئی آوے تو اس کی تعظیم کرنی واجب ہے۔ اسی طرح یہ آیت بھی حصول نسخ پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ جب کوئی آیت منسوخ ہو، تو اس کے بدلے دوسری آیت جو اس سے اچھی ہو لانی واجب ہے۔ پس ٹھیک بات یہ ہے کہ نسخ کے ثبوت میں ہم اور آیتوں کو اختیار کریں، یعنی اس آیت کو ” واذا بدلناایۃ مکان ایۃ “ اور اس آیت کو ” یحر اللہ مایشاء ویثبت وعندام الکتاب “
ہم امام فخر الدین رازی کا شکر کرتے ہیں، کہ انھوں نے اس قدر تو ہم سے اتفاق کیا، کہ اس آیت سے قرآن مجید میں آیت منسوخہ کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوتا، مگر خدا نے چاہا تو ہم بتادینگے کہ ان آیتوں سے بھی جن پر امام رازی نے منسوخ ہونے کا استدلال کیا ہے حقیقتاً منسوخ ہونا آیتوں کا ثابت نہیں ہوتا۔ ناسخ و منسوخ کی بحث درحقیقت ایک لغو بحث ہے، اس پر بحث کرنے کی ضرورت صرف اس وجہ سے ہوگئی ہے، کہ فقہائے اسلام نے نہایت غلط قیاس اور بیجا استدلال سے اور صرف اپنے دل کے پیدا کیے ہوئے خیالات سے، قرآن کی آیتوں کا اس طرح پر منسوخ ہونا قرار دیا ہے، جو خدا کی شان اور قرآن کے ادب کے بالکل برخلاف ہے، اور ہرگز مذہب اسلام کا وہ مسئلہ نہیں ہے، اور نہ ان فقہا کے استنباط کے لیے کوئی دلیل ہے۔ انھوں نے جو آیات منسوخہ کو تین قسم، یعنی منسوخ الحکم وثابت التلاوت اور منسوخ التلاوت و ثابت الحکم، اور منسوخ التلاوت والحکم قرار دیا ہے، یہ محض جھوٹی تقسیم ہے، اور خود ان کی دل کی بنائی ہوئی ہے، اور مفسرین نے جھوٹی اور بےسند روایتیں اپنی تفسیروں میں بھر دی ہیں، اور اگر ناسخ اور منسوخ کی بحث صرف اتنی بات پر منحصر رہتی، کہ آیا شرایع سابقہ میں کوئی ایسے احکام تھے جو اب شریعت اسلام میں نہیں رہے، یا ان کی عوض دوسرے احکام آئے اور شرایع سابقہ کے احکام منسوخ ہوگئے یا نہیں۔ یا یہ کہ خوداسلام میں کوئی ایسے احکام تھے جو بعد کو قائم نہ رہے، یا اس کے بدلے اور احکام آئے ، اور پہلے احکام منسوخ ہوگئے یا نہیں، تو یہ بحث البتہ دلچسپ اور ذی عقلوں کی سی بحث ہوتی، اور اس پر مباحثہ کرنے کی کچھ ضرورت نہ پڑتی۔ کیونکہ جو لوگ احکام کے منسوخ ہونے قائل ہیں، اور جو ان کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں، جب ان دونوں کی بحثوں پر غور کیا جاوے، تو بجز نزاع لفظی کے یا ناسخ و منسوخ کو بطور ایک علمی اصطلاح کے قرار دینے کے، اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، پس ہم اس بات سے کہ قرآن کی آیتوں میں سے کوئی آیت منسوخ التلاوت و ثابت الحکم، یا منسوخ التلاوت والحکم ہے، انکار کرکے اس بات کی بحث پر متوجہ ہوتے ہیں، کہ آیا قرآن میں ایسی آتیں جن پر ثابت التلاوت و منسوخ الحکم ہونے کا اطلاق ہوسکے موجود ہیں یا نہیں ۔ نتیجہ اس بحث کا صرف یہ ہوگا کہ آیا قرآن میں احکام منسوخہ ہیں یا نہیں، یا ایک آیت کا حکم دوسری آیت کے حکم کو منسوخ کرتا ہے یا نہیں، اور نتیجہ اس بحث کا بجز نزاع لفظی کے اور کچھ نہ ہوگا۔
نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کے دور کردینے کے اور متغیر کردینے اور باطل کردینے کے ہیں خواہ اس کی جگہ کوئی دوسری چیز قائم ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اور نقل و تحویل کے معنی یہی ہیں، اور اس بحث سے کہ ان معنوں میں سے اصلی کون سے ہیں اور مجازی کون سے ہم کو چنداں فائدہ نہیں ہے، مگر جب اس لفظ کو کسی خاص علم میں استعمال کیا جائے گا، مثلاً شرع میں، تو اس کی تعریف میں کچھ ایسے الفاظ بڑھانے ہوں گے جس سے وہ معنی اس علم کے مناسب ہوجاویں، پس شرع میں نسخ کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک شرعی حکم کا کسی دوسرے شرعی حکم سے زائل یا متغیر یا باطل ہونا۔ پہلا حکم منسوخ کہلائے گا اور دوسرا حکم ناسخ۔ ناسخ کے معنی علماء نے یہ قرار دیئے ہیں، کہ ناسخ سے مراد ایک ایسی شرعی قاعدہ سے ہے جو اسبات پر دلالت کرے، کہ اس سے پہلے جو حکم بقاعدہ شرعی ثابت ہوچکا تھا، اس کے بعد نہیں رہا، ایسی حالت میں کہ اگر یہ پچھلا حکم نہ ہوتا تو وہ پہلا حکم ثابت اور قائم رہتا۔ (ان الناسخ فی اصطلاح العلماء عن طریق شرعی یدل علی ان الحکم الذی کان ثبتا بطریق شرعی لا یوجد بعد ذلک مع تراخیہ عنہ علی وجھہ لولاہ لکان ثابتا تفسیر کبیر جلد صفحہ )
اس تعریف میں جو قیدیں کہ علما نے لگائی ہیں اس کے یہ فائدے بتائے ہیں، کہ قاعدہ شرعی کی جو قید لگائی ہے وہ اس لیے لگائی ہے کہ اس میں خدا اور رسول کے قول و فعل شامل ہوجائیں، اور اجماع امت علی احد القولین خارج ہوجاوے کیونکہ جو طریق شرعی کی تفسیر یہاں بیان ہوئی ہے، اس میں اجماع داخل نہیں ہوتا، اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ شرع عقلی حکم کی ناسخ ہو، کیونکہ حکم عقلی کا ثبوت شرعی قاعدہ پر نہیں ہوتا، اور یہ بھی لازم نہیں آتا کہ معجزہ شرعی حکم کا ناسخ ہو کیونکہ وہ معجزہ شرعی طریق سے ثابت نہیں ہوتا۔ اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ حکم کسی مدت یا شرط یا استثنا پر مقید ہو، کیونکہ ایسی حالت کی جو شرط لگائی ہے اس سے یہ سب خارج ہوجاتی ہیں، اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ اگر خدا نے ہم کو کسی ایک کام کرنے کا ایک دفعہ حکم دیا، اور پھر اس کام کی مانند دوسرے کام کرنے کو منع کیا تو یہ حکم اس کا ناسخ ہوگا، کیونکہ اگر یہ منع نہ ہو تائب بھی وہ حکم ثابت نہ تھا۔
یہ تعریف ناسخ کی جو گویا ناسخ و منسوخ دونوں کی تعریف ہے، ظاہر ہے کہ منصوص نہیں ہے یعنی ظاہر ہے کہ یہ تعریف ناسخ و منسوخ کی نہ خدا نے بتائی ہے نہ رسول نے بتائی ہے، بلکہ علما نے خود اپنے قیاس اور خیال اور استنباط سے قائم کی ہے، اور کسی مسلمان پر واجب نہیں ہے ، کہ خواہ مخواہ اس تعریف کو تسلیم کرے ہمارے نزدیک جس وقت نسخ کی شرع سے متعلق کیا جائے گا تو اس وقت حیثیت کو اس کا جزو قرار دینا واجب اور لازم ہوگا، کیونکہ جس قدر احکام شرعی ہیں وہ سب کسی نہ کسی حیثیت پر مبنی ہیں۔ پس اگر باوجود بقا اس حیثیت کے جس پر وہ حکم صادر ہوا تھا، دوسرا حکم برخلاف پہلے حکم کے صادر کیا جاوے ، تو کہا جاویگا کہ دوسرا حکم ناسخ ہے اور پہلا منسوخ، اور اگر وہ حیثیت جس کی بنا پر پہلا حکم صادر ہوا تھا موجود نہ ہے ، تو دوسرا حکم پہلے حکم کا حقیقتاً ناسخ نہیں ہے، گو مجاز ایک کا دوسرے کو ناسخ کہیں۔
ذات باری کے تترہ اور اس کے تقدس اور اس کے علم و دانش میں نقصان اسی وقت لازم آتا ہے، جبکہ ایک حیثیت کے لحاظ سے کوئی حکم دیا ہو، اور پھر باوجود موجود ہونے اسی حالت حیثیت کے دوسرا حکم اس کے مخالف دیا ہو، لیکن اگر حالت اور حیثیت مختلف ہوگئی ہو، تو دوسرا حکم دینا اس کے تقدس کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتا، بلکہ نہ دینا اس کے تقدس اور حلم و دانش کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس ہم قبول کرتے ہیں کہ ایسے احکام بھی موجود ہیں، جو شرایع سابقہ میں مامور بہ تھے اور شرایع مابعد میں مامور بہ نہیں رہے، یا بالفرض ہم تسلیم کرلیں، کہ خود مذہب اسلام ہی میں اول کوئی حکم ماموربہ تھا، اور پھر بعد کو ماموربہ نہیں رہا، اور یہ بھی ثابت ہو کہ حیثیت اور حالت متحد نہیں رہی تھی، تو ہم ایک دوسرے کا ناسخ نہیں قرار دینے کے، اور ہم کیا کوئی ذی عقل بھی ہندو مسلمان یہودی عیاسئی دہریہ، ان میں سے کسی کو ناسخ و منسوخ نہیں کہنے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم مجازا، یا بطور ایک اصطلاح کے ناسخ و منسوخ کہنے لگیں۔ ہم نے تمام قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں پایا، اور اس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ علما اور فقہا نے جن آیتوں کو ایک دوسرے کے مخالف خیال کیا ہے، اور ایک کو ناسخ اور ایک کو منسوخ ٹھہرایا ہے، تو ہم ہر موقعہ پر ثابت کرینگے کہ وہ باہم مخالف نہیں ہیں، اور تفاوت حیثیت بھی ظاہر کردینگے، جس کے بغیر لحاظ کے ناسخ و منسوخ کا قرار دینا محلات سے ہے۔
ناسخ اور منسوخ کے باب میں لوگوں نے بہت سی بحثیں کی ہیں، اور ابو مسلم نے جو ناسخ و منسوخ ہونے کا قائل نہیں ہے، متعدد دلیلیں اس کی امتناع پر پیش کی ہیں، اور اس کے مخالفین نے جو جمہور مفسرین ہیں اس کی تردید کی ہے، اور اثبات نسخ پر دلیلیں پیش کی ہیں، ہماری سمجھ میں وہ سب قشری بحثیں ہیں، مغز سخن تک کوئی نہیں پہنچتی، اور جو اصل بات اتحاد و حیثیت کی ناسخ و منسوخ میں تھی، اس پر کسی کا خیال نہیں گیا ہے، اور اس لیے ہم ان بحثوں کا اپنی تفسیر میں ذکر کرنا محض یہ فائدہ سمجھتے ہیں۔ امام رازی صاحب نے جن دو آیتوں سے اپنی دانست میں قرآن مجید میں نسخ کا ہونا قرار دیا ہے، اگرچہ ان سے بھی نسخ کا ہونا ثابت نہیں ہوتا، جیسا کہ ہم ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں لکھے گے، لیکن ہم ان سے نہایت ادب سے پوچھتے ہیں، کہ آپ نے اتحاد و حیثیت کی شرط کو بھی ملحوظ فرمایا ہے یا نہیں۔ غالباً وہ فرماوینگے کہ نہیں، تو ہم ان سے عرض کرینگے کہ حضرت ناسخ و منسوخ ہونے کا ثبوت بھی نہیں۔
ایک اور بات قابل لکھنے کے ہے کہ حدیث یعنی قول و فعل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم قرآنی کا ناسخ ہے یا نہیں۔ اس میں علما کے مختلف قول ہیں، مگر جبکہ ہم قرآن سے قرآن کا حقیقتاً منسوخ ہونا نہیں تسلیم کرتے، تو حدیث سے اس کا حقیقتاً منسوخ ہونا کیونکر تسلیم کرسکتے ہیں، خواہ وہ حدیث خبراحا دکا درجہ رکھتی ہو، یا حدیث مشہور کا، یا لوگوں نے معناً یالفظاً اس کو متواتر کے درجہ تک سمجھا ہو، باقی رہا یہ کہ جس طرح لوگوں نے مجازاً ناسخ و منسوخ ہونے کا اطلاق کیا ہے، اسی طرح بھی ہم حدیث کو ناسخ قرآن سمجھتے ہیں یا نہیں، تو ہم اس طرح بھی نہیں سمجھتے، بلکہ اس کو حدیث کی نامعتبری کی وجہ قرار دیتے ہیں ، ہاں احادیث صحیحہ کو جن کا درایتاً صحیح ہونا ثابت ہوگیا ہو، مفسر قرآن سمجھتے ہیں۔
( واذا ابتلی) ۔ اب خدا تعالیٰ ان بزرگیوں کا ذکر کرتا ہے جو حضرت ابراہیم کو دی تھیں، اور ان تمام بزرگوں میں سے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دی گئی تھیں سب سے بڑی بزرگی وہ ہے جبکہ انھوں نے کہا ” انی وجھت وجہی للذی فطرالسموات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین “ اسی نعمت کا خدا نے ذکر کیا ہے، کلمات کے لفظ سے عجائب صنع باری تعالیٰ مراد ہیں۔ حضرت ابراھیم ستاروں اور چاند اور سورج کو دیکھ کر عجائب صنع باری تعالیٰ میں متحیر ہوگئے تھے، اور انہی پر خدا ہونے کا گمان کیا تھا، لیکن انھوں نے اس کو غلط سمجھا اور پورے طور پر خدا پر یقین کیا۔ اسی کی نسبت خدا نے فرمایا ” فاتمھن “
کلمات کے لفظ سے ہم نے عجائب صنع الٰہی مراد لی ہے۔ یہ لفظ سورة لقمان میں بھی آیا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” مانفذت کلمات اللہ “ صاحب تفسیر کبیر نے اس مقام پر بھی عجائب صنع الٰہی مراد لی ہے اور یہ بہت درست ہے۔ لفظ کلمہ اور کلمات کا استعمال ان تمام چیزوں پر ہوتا ہے جن کو خدا نے پیدا کیا ہے۔
( واذجعلنا البیت) بعداس کے کہ کعبہ بن گیا تمام لوگوں میں اس کی تعلیم اور اس کی زیارت کو آنا شایع ہوگیا تھا، اور ایک بہت بڑی تجارت گاہ بن گیا تھا، اور تمام قوموں نے آپس میں عہد کرلیا تھا کہ حج کے ایام میں قتل اور غارت اور خونریزی بند رہیگی، اور تمام لوگ جو مکہ میں آتے ہیں امن میں رہینگے۔ انہی دونوں باتوں کا خدا نے اس مقام پر ذکر کیا ہے۔
(واتخذوا من مقام ابراھیم مصلے) یعنی اختیار کرو مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ۔ یہ ایک جملہ معترضہ واقعہ ہوگیا ہے، اور اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، یعنی مسلمان کعبہ کو نماز کی جگہ یعنی مسجد اختیار کریں۔ مقام ابراہیم کی نسبت مفسرون نے بہت بحث کی ہے، اور ایسے اقوال نقل کیے ہیں جن کا کافی ثبوت نہیں ہے، مگر سیاق کلام سے جیسا کہ مجاہد کا بھی قول ہے پایا جاتا ہے ” ان مقام ابراھیم ھو موضع قیامہ “ کہ مقام ابراہیم سے کوئی خاص مقام مراد نہیں ہے ، بلکہ قول مجاہد۔ (تفسیر کبر جلد سے کعبہ مراد ہے صفحہ ) اس جملہ کے بعد پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ کا ذکر ہے، اور ابراہیم اور اسماعیل کو اس گھر کے آنے والوں اور ٹھہرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کے لیے ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔
طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کعبہ کی زیارت اور حج کو آویں، اور عاکفین سے وہ لوگ مراد ہیں جو وہاں رہتے ہوں، یا آکر سکونت اختیار کریں، اور رکوع السجود سے وہ لوگ مراد ہیں جو وہاں نماز پڑھیں۔
مگر یہودیوں نے اس سے یہ بات لازم نہیں تصور کی تھی، کہ فرشتے انسان ہی کی صورت رکھتے ہیں، بلکہ متقدمین یہودی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جو چیز خالص روح نہیں ہے کوئی نہ کوئی شکل ضرور رکھے گے، ممکن ہے کہ ان کی صورت انسان ہی کی سی ہو یا اور کسی شکل کی۔
یہودیوں کی کتب مقدسہ میں اناث ملائکہ کا ذکر نہیں پایا جاتا، اور عیسائی بھی بدلیل انجیل متی باب درس بطور استنباط کے یہی سمجھتے ہیں، کہ فرشتوں میں ذکورا اور اناث کی کچھ تمیز نہیں ہے۔ کتب مقدسہ میں غالباً اس وجہ سے کہ مذکر کا صیغہ زیادہ معزز ہے، فرشتوں کی نسبت مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، مگر اکثریت پرست قومیں فرشتوں کو ذکورا اور اناث قرار دیتی ہیں، اور دیوتا اور دیبی کا ماننا ان خیالات کو ظاہر کرتا ہے۔
عیسائی اور یہودی دونوں، فرشتوں میں ان صفات کو تسلیم کرتے ہیں۔ انسان سے ان میں عقل کا زیادہ ہونا ۔ ان کا قوت اور قدرت میں زیادہ ہونا۔ ان کا پاک اور برگزیدہ ہونا۔ اور یہ بات کہ فرشتے خدا تعالیٰ کے منشا اور مرضی کے اظہار کے درجے ہیں، کتب مقدسہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بخوبی معلوم ہوتی ہے، اور اسی سبب سے بعض کاموں کو ان کتابوں میں بالکل فرشتوں ہی کی طرف منسوب کیا ہے۔ انسانوں کے مقسوم کے متعلق امورات میں بھی ان کی وساطت ہوتی ہے۔ یہودی اور عیسائی یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ گو فرشتوں کی وساطت ہماری نظروں سے پوشیدہ ہو، تب بھی ان کی وساطت تسلیم ہوسکتی ہے، کیونکہ عبرانیوں کے خط کے باب اول درس و زبور داؤد باب درسو باب درس و انجیل متی باب درس میں لکھا ہے، کہ خدا تعالیٰ فرشتوں کو نجات کے وارثوں کی خدمت کے لیے بھیجتا ہے۔
قدیم عیسائی سمجھتے تھے کہ ہر فرد بشر کے ساتھ ایک فرشتہ ہے جو اس کی حفاظت پر متعین ہے، مشرکین کا بھی اسی کے قریب قریب عقیدہ تھا، یونانی اپنے محافظ دیوتا کو ” دیمن “ اور رومی جنییس کہتے تھے، اور یہودی اور قدیم عیسائی یہ بھی سمجھتے تھے، ہر انسان پر دو فرشتے متعین ہوتے ہیں ایک نیکی کا، اور ایک بدی کا، عام یہودی بھی فرشتوں کی نسبت یہی اعتقاد رکھتے ہیں، مگر ایک فرقہ یہودیوں کا جو صدوتی کے نام سے مشہور تھا وہ فرشتوں کا منکر تھا۔
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ یہودیوں کا یہ دستور ہے کہ خدا کی عظمت اور قدرت کے ہر ظہور کو فرشتوں کی وساطت کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور اس لیے وہ فرشتوں کے وجود اصلی کو نہیں مانتے ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی قدرت کی غیر معلوم توتوں کا نام فرشتہ رکھ دیا ہے، جیسا کہ مشرک ہر چیز کو جو عجیب و غریب ہوتی ہے اور جس کی علت ان کی فہم سے باہر ہوتی ہے، دیوتاؤں کے کاموں کی طرف منسوب کرتے ہیں، مگر عیسائی مذہب کے عالم اس کی تردید میں یہودیوں کی کتب مقدسہ اور انجیل کی وہ آیتیں پیش کرتے ہیں ، جنہیں فرشتوں کے ایسے کام بیان کیے گئے ہیں جو کسی طرح اس رائے کے مطابق نہیں ہوسکتے، وہ بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ فرشتوں سے برتر ہیں ، پس اگر فرشتوں کا کوئی وجود اصلی نہ ہو تو یہ کہنا مہمل ہوجاتا ہے۔
اب ہم کو اس بات کی تلاش کرنی ہے ، کہ قدیم مشرکین عرب کا یعنی اس زمانہ کے عربوں کا جبکہ یہودیوں کا میل جول عرب میں نہیں ہوا تھا فرشتوں کی نسبت کیا خیال تھا، اور آیا وہ لفظ ملک اور ملائکہ کو انھیں معنوں میں خیال کرتے تھے جن معنوں میں کہ یہودی خیال کرتے تھے یا نہیں، جہاں تک کہ ہم نے تفتیش کی ہے قدیم عربوں کا لفظ ملک اور ملائکہ کی نسبت ایسا خیال جیسا کہ یہودیوں کا ہی ثابت نہیں ہوا، مشرکین عرب بلاشبہ ارواح فلکی کو یا ارواح فرضی کو یا ارواح اشخاص متوفی کو بطور خدا کے پوجتے تھے اور ان کو مجسم و متخیر سمجھتے تھے، اور ان کے بت اور ان کے نام کے تھان اور ان کے نام سے ہیکل اور مندر بناتے تھے، مگر ان پر کبھی لفظ ملک یا ملائکہ کا اطلاق نہیں کرتے تھے، جہاں تک کہ ہم سے ہوسکا ہم نے اشعار جاہلیت پر بھی جس قدر کہ ہم کو دستیاب ہوئے غور کی، ہم کو کوئی شعر بھی ایسا نہیں ملا جس میں لفظ ملک یا ملائکہ کا ان ارواحوں پر جن کو وہ پوجتے تھے اطلاق کیا گیا ہو، ہم کو قرآن مجید میں بھی کوئی ایسی سند نہیں ملی جس میں منقولاً بزبان مشرکین لفظ ملک یا ملائکہ کا ان ارواحوں پر اطلاق کیا گیا ہو، ہاں یہ بات تو تسلیم (کتاب پیدائش باب درسوہ کتاب قضاۃ باب درس ۔ پخیل متی باب درس ، وباب درسواعمال باب درس) کی جاسکتی ہے کہ لغت کی کتابوں میں لفظ ملک کے معنی ایلچی یا رسول یا پیغامچی کے ہیں مگر یہ تسلیم نہیں ہوسکتا کہ قدیم مشرکین عرب اس کا اطلاق اس قسم کے رسولوں پر کرتے ہیں جن کو یہودی ملک یا ملائک کہتے تھے، ہاں اس قدر بات تسلیم ہوسکتی ہے کہ قدیم عرب اور نیز رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے عرب بھی ملائکہ کا اطلاق ان قوا پر جن سے زروے قدرت دنیا کے امورات انجام پاتے ہیں کرتے تھے، جیسا کہ ابوعبیدہ جابلی کے اس شعر میں ہے :
لست لانسی ولکن لملاک
تنزل فی جو السماء بصوب
صوب کہتے ہیں مینہ کو اس لیے اس شعر سے پایا جاتا ہے کہ مینہ برسانے کی جو قوت ہے اس کو فرشتہ سمجھتے تھے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب فرشتوں کو متخیر بھی سمجھتے تھے جیسے کہ امیتہ ابن صلت جاہلی کے اس شعر میں ہے۔
فکان برقع والملائک حولہ
سدر تواکلہ القوائم اجرب
مگر اسباب کا کہ وہ انہی معنی اور مراد میں استعمال کرتے تھے ، جن میں کہ یہودی استعمال کرتے تھے ہنوز ثبوت طلب ہے، اس خیال کے ثبوت پر ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں کا کوئی نام بھی عربی زبان کا نہیں ہے، اور جبرائیل و میکائیل یہ دو نام جو قرآن میں آئے ہیں وہ عبری ہیں اور عزرائیل و اسرافیل اور نام جو مسلمانوں میں مشہور ہیں سب عبرانی زبان کے ہیں، پس انہی اصول پر جو شارح مواقف اور صاحب مواقف نے قرار دیئے ہیں، اہل لغت کا یہ لکھنا کہ ” الملائک الملک لانہ یبلغ عن اللہ تعالیٰ “ مفید یقین نہیں۔
فقہد الغہ میں ملائکہ کی نسبت اہل عرب کا جو خیال لکھا ہے وہ بالکل ہمارے اس بیان کے مطابق ہے، اس میں ابی عثمان الجاحظہ کا قول لکھا ہے ” کہ عرب جن کے درجے درجے قرار دیتے تھے، جبکہ وہ عام طور پر جن کا ذکر کرتے تھے تو صرف لفظ جن بولتے تھے، اور جب ایسی جن کا ذکر کرتے تھے جو انسانوں کے ساتھ رہتا ہو تو اس کے لیے عامر کا لفظ بولتے تھے، جس کی جمع عمار ہے، اور جب ایسے جن کا ذکر کرتے تھے جو بچوں کو ستاتا ہے تو اس کے لیے اروح کا لفظ بولتے تھے، اور جبکہ وہ خبیث ہوتا اور تکلیف دیتا تھا تو اس پر شیطان کا اطلاق کرتے تھے اور جب اس سے بھی سخت تکلیف دیتا تھا تو اس کو مارد کہتے تھے، اور جو اس سے بھی زیادہ قوی ہوتا تھا اس کو عفریت کہتی تھی، اور اگر وہ پاک ستھرا ہوتا تھا اور بالکل بھلائی اس سے پہنچتی تھی تو اس کو ملک کہتی تھی اور ایک اور (عن ابی عثمان الجاحظہ قال ان لعرب تنزل الجن ھر لتب فاذاذکروا لجنس قالوا جن واذا ارادوانہ یسکن مع الناس قالوا عامر و الجمع عمار فاذاکان ممن تبعرض للصبیان قالوارواح فان حنث وتعرم قالولشیطان فان زاد علی ذلک قالوا سارد قان زاد علی القوۃ قالوا عفریت فان طھرو نطف وصار خیراکلہ قالوا ملک (روفی مقام اخر) دوی الحکم بن ابان عن عکرمۃ عن ابن عباس ان قریشا کانت تقول سروات الجن بنات الرحمن) مقام میں لکھا ہے ، کہ حکم بن ابان نے عکرمہ سے اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے ، کہ قریش جن کے سرداروں کو بنات الرحمن یعنی خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عرب ان غیر مرئی چیزوں کو جن کو نیک و پاکیزہ سمجھتے تھے، اور جن سے خلقت کو بھلائی اور نیکی پہنچنے کا خیال کرتے تھے ان کو ملک کہتے تھے، مگر وہ معنی اور مراد جو ملک کے لفظ سے یہودیوں نے مقرر کیے تھے یا جو زمانہ اسلام کی کئی صدی بعد کی مصنفہ کتب لغت میں لکھ دیئے گئے ہیں اس معنی و مراد میں عرب لفظ ملک کو استعمال نہیں کرتے تھے۔
قرآن مجید میں کلام مقصود میں کسی جگہ لفظ ملک یا ملائکہ کا اس مراد سے استعمال نہیں ہوا ہے جو مراد کہ یہودیوں نے قرار دی تھی ، جس کی تفسیر ہم ہر ایک مقام پر لکھے گے، برخلاف اس کے ملائکہ کا اطلاق ان قدرتی قوا پر جس نے انتظام عالم مربوط ہے، اور ان شیون قدرت کاملہ پروردگار پر جو اس کی ہر ایک مخلوق میں بہ تفاوت درجہ ظاہر ہوتی ہیں ملائکہ کا اطلاق ہوا ہے، سورة والنازعات سے اس کا بخوبی ثبوت ہوتا ہے، اس کے پہلے چار جملوں کی نسبت مفسرین میں اختلاف ہے، مگر پانچویں جملہ ” فالمدبرات امرا “ کی نسبت کسی کو اختلاف نہیں، اور جملہ مفسرین متفق ہیں کہ مدبزات سے ملائکہ مراد ہیں، پس اب غور کرنا چاہیے کہ مدبرات امور کون ہیں ، یہی قوا ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے تمام امور عالم کا مدبر مخلوق کیا ہے۔ ان آیتوں میں جن کی ہم تفسیر لکھتے ہیں کلام مقصود صرف اس قدر ہے، کہ جو شخص اس وحی کا عدو ہو جو خدا نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ڈالی ہے، اور جو کوئی خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا دشمن ہو، تو بیشک اللہ ان کافروں کا دشمن ہے، یہودیوں نے اپنے عندیہ میں دوجداگانہ فرشتے ٹھہرا رکھے تھے، ایک جبرائیل ، اور ایک میکائیل، پچھلے کو اپنا دوست جانتے تھے اور پہلے کو اپنا دشمن، اور جو کہ دین محمدی کو وہ اپنے برخلاف خیال کرتے تھے، تو یہ سمجھتے تھے کہ جبرائیل جو ہمارا دشمن ہے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ باتیں سکھاتا ہے۔ خدا نے پیغمبر سے کہا کہ ” تو کہہ دے کہ ہاں جبرائیل ہی اللہ کے حکم سے میرے دل میں یہ باتیں ڈالتا ہے، مگر جو کوئی ان باتوں کا اور فرشتوں کا اور جبرائیل و میکائیل کا اور رسولوں کا دشمن ہے، خدا اس کا دشمن ہے “۔
فرشتوں کی دشمنی بیان کرنے کے بعد جبرائیل اور میکائیل کا بالتخصیص نام لینا گویا یہود کے خیالات کا اعادہ ہے، اور وہ نام مقصود بالذات نہیں ہیں، کیونکہ اگر یہودیوں کا یہ خیال نہ ہوتا تو غالباً وہ نام نہ لیے جاتے۔ پس ان دونوں کے نام قرآن مجید میں آنے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ درحقیقت اس نام کے دو فرشتے مع تشخصہ ما علیحدہ علیحدہ ایسی ہی مخلوق ہیں جیسے کہ زید وعمر، بلکہ انہی آیتوں سے پایا جاتا ہے کہ جس شے کو یہودی جبرائیل
تعبیر کرتے تھے وہ کوئی جداگانہ مخلوق مع تشخص نہ تھی کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ ” بےشبہ اس نے (یعنی جبرائیل نے) ڈالا ہے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے (وہ کلام جو) سچ بتاتا ہے اس چیز کو جو اس سے پیشتر ہے “ دل میں ڈالنے والی کوئی ایسی مخلوق جو اس شخص سے جس کے دل میں ڈالا گیا ہے، جداگانہ ہو، نہیں ہوتی۔ پس درحقیقت یہودی جس کو جبرائیل کہتے تھے اور جس کا نام حکایتاً خدا نے بیان کیا ہے، وہ ملکہ نبوت خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تھا جو وحی کا باعث تھا، اس سے اگلی آیت میں خدا تعالیٰ نے بلا ذکر جبرائیل کے فرمایا ہے ” کہ بیشک ہم نے بھجی ہیں تیرے پاس کھلی ہوئی نشانیاں “۔ ان وجوہات سے یہ بات کہ جبرائیل درحقیقت کسی فرشتہ کا نام ہی ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں اس قدر تسلیم ہوسکتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت پر جبرائیل کا اطلاق ہوا ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے، کہ باوجودیکہ خدا کے پاس ان دو فرشتوں کے سوا اور بھی بہت سے فرشتے ہیں، مگر بجز دو فرشتوں کے اور سب بےنام ہیں، کیونکہ کسی اور کا نام قرآن میں نہیں آیا۔ حضرت عزرائیل بھی بڑے۔۔۔ مشہور فرشتے ہیں، جو سب کے پاس آوینگے اور کسی کو نہیں چھوڑینگے، اگرچہ ان کا ذکر بلفظ ملک الموت قرآن میں آیا ہے، مگر ان کا کچھ نام نہیں بیان ہوا ہے۔ ان سب باتوں سے صاف پایا جاتا ہے کہ فرشتوں کے نام یہودیوں کے مقرر کئے ہوئے ہیں، جو مختلف قوا کے تعبیر کرنے کو انھوں نے رکھ لیے تھے۔