ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے اس کا ذِکر کردیا تھا، کشمیر کمیٹی کا، اگر آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیجئے۔
مرزا ناصر احمد: ممکن ہے ایک آدھ فقرہ ہو، یہ میں مختصراً پھر کردیتا ہوں۔ اس کی اِبتدا اس طرح شروع ہوئی، کشمیر کمیٹی، کشمیر کمیٹی کے نام سے جو کمیٹی بنی، کہ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو ریاستی 1262پولیس کی فائرنگ سے ۲۱مسلمان شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو جب ڈوگرہ حکومت نے ۲۱مسلمان کو جب شہید کیا تو اس وقت ان کے لئے ریاست سے باہر نکلنا بھی بڑا مشکل تھا، تو انہوں نے ایک سمگل آؤٹ کیا، مسلمانانِ کشمیر نے، ایک آدمی، اور سیالکوٹ پہنچ کر انہوں نے مختلف جگہوں پر تاریں دیں، اور ہمارے خلیفہ ثانی کو بھی تار دیں۔ اس کے نتیجے میں پہلا کام یہ ہوا ہے کہ خلیفہ ثانی نے وائسرائے ہند کو تار دی، دُوسرے صوبوں کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان بھی، ان کو کہا کہ تم اکٹھے ہوجاؤ، یعنی شروع کا کام شروع کیا۔ اس وقت جب یہ اعلان ہوا تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے ایک خط لکھا حضرت خلیفہ ثانی کو، اور یہ کہا کہ آپ نے یہ اعلان کیا، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اور یہ کام ہمیں، سب مسلمانوں کو مل کر یہ کام کرنا چاہئے۔
Mr. Chairman: We break for Maghreb.
(جناب چیئرمین: نمازِ مغرب کے لئے ہم وقفہ کرتے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: I think let them conclude it, Sir. (جناب یحییٰ بختیار: میرا خیال ہے انہیں اسے مکمل کرنے دیں)
جناب چیئرمین: ہاں؟
Mr. Yahya Bakhtiar: It will take two or three minutes, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: جناب! اس میں دو یا تین منٹ لگیں گے)
Mr. Chairman: Alright, then not more than five minutes. (جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، پھر ۵منٹ سے زیادہ نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Not more than five minutes.
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، ختم کرلیں۔
مرزا ناصر احمد: تو اِعلان وغیرہ، خط وکتابت ہوئی ہے۔ اس کے بعد آل انڈیا تنظیم کے قیام کے لئے مسلمانانِ ہند سے اپیل کی گئی پہلے اور اس کے بعد۔ پھر کشمیریوں سے اپیل کی گئی، ابنائے کشمیر سے، یعنی وہ کشمیری خاندان جو باہر آکر آباد ہوگئے تھے اور اس میں آپ نے لکھا کہ: ’’اُمید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، شیخ دین محمد صاحب، سیّد محسن شاہ صاحب اور اسی طرح سے دُوسرے سربراہ آوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت 1263میں کسی دُوسرے سے کم نہیں، اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہوجائے گی اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔‘‘
اس پر ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ کے مقام پر نواب ذُوالفقار علی خان صاحب کی کوٹھی "Fair View" میں مسلم اکابرینِ ہند کا اِجلاس ہوا، جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو اس سارے کام کو اپنے ذمہ لے کر پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور اس وقت تک یہ مہم جاری رہے، جب تک ریاست کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق نہ حاصل ہوجائیں۔ اس اِجلاس میں اِمام جماعت احمدیہ کے علاوہ مندرجہ ذیل لیڈروں نے شرکت کی:
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب،
حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب،
سیّد محسن شاہ صاحب،
نواب سر ذُوالفقار علی صاحب،
نواب محمد اِسماعیل صاحب آف گنج پورہ،
خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب،
مولانا نورالحق صاحب، مالک انگریزی روزنامہ "Muslim Out Look"،
مولانا سیّد حبیب صاحب، مالک روزنامہ ’’سیاست‘‘،
عبدالرحیم صاحب درد،
مولانا اِسماعیل صاحب غزنوی، امرتسر کے تھے، غزنوی خاندان کے، نمائندہ مسلمانانِ صوبہ جموں،
مسلمانانِ صوبہ کشمیر کے نمائندے، اور صوبے سرحد کے نمائندے۔
یہ سب کے سب اکابرین آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قائم ہوتے ہی اس اِجلاس میں اس کے ممبر بن گئے، کام شروع ہوگیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت بعض دوستوں نے کہا خلیفہ ثانی 1264کو کہ آپ اس کے صدر بنیں، اور آپ نے اِنکار کیا کہ: ’’مجھے صدر نہ بنائیں، میں ہر خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں، مگر مجھے صدر کا عہدہ نہ دیں۔‘‘ کوئی مصلحتیں سمجھائیں وہاں۔ اس پر سارے جو تھے، انہوں نے زور ڈالا وہاں، جن میں سر محمد اقبال صاحب بھی تھے، کہ آپ کو ہی بننا چاہئے۔ چنانچہ آپ کو مجبور کیا کہ اس عہدے کو قبول کرلیں۔ قبول ہوگیا۔ شروع ہوا کام ،اور بہت سے مراحل میں سے گزرا، اس کے آگے میں اپنی طرف سے کروں گا، ذرا مختصر کردوں گا۔ ایک تھا پیسہ، اس وقت ہندوستان میں کام کرنے کے لئے بھی پیسے کی ضرورت تھی، اور کشمیریوں کی مدد کرنے کے لئے پیسے کی ضرورت، چنانچہ ساروں نے Contribute کئے ہوں گے۔ لیکن اپنی بساط سے زیادہ جماعت کی طرف سے کشمیریوں کی اِمداد کے لئے رقم دی گئی۔ اس وقت سوال پیدا ہوا رضاکاروں کا کہ جاکر ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کو آرگنائز کریں۔ خود کشمیر کی حالت تنظیم کے لحاظ سے بہت پس ماندہ تھی، ہر ایک کو پتا ہے، ہمارے، یعنی اس وقت کے ہندوستان کے حالات سے بھی زیادہ وہ پیچھے تھے۔ اس کے مہاراجہ کا Hold بڑا سخت تھا۔ خیر! وہ گئے، ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے بڑے ظالمانہ طور پر مقدمے بنانے شروع کردئیے، یعنی کوئی ان کا گناہ نہیں ہوتا تھا اور مقدمہ بن جاتا تھا۔ تو اس وقت انہوں نے کہا: تار دی کہ ہمیں وکیل بھیجو، ہمارے پاس۔ بڑے سخت ان کو پریشانی تھی۔ یہاں سے گیارہ بارہ وکیل گئے۔ ان میں سے ایک صاحب (اپنے وفد کے ایک رُکن کی طرف اِشارہ کرکے) یہ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مہینوں وہاں کام کیا اور میرا خیال ہے کہ قریباً سارے مقدموں میں فتح جو ہوئی وہ کشمیری مسلمانوں کی ہوئی۔ ان میں ہمارے، فوت ہوچکے ہیں، شیخ بشیر احمد صاحب، جو ہائی کورٹ کے جج بھی رہے ہیں، اس وقت وکیل تھے، وہ گئے۔ ان کے لئے ساری دُنیا میں پروپیگنڈا ہوا، خصوصاً انگلستان میں۔ تو ایک لمبی Struggle (تگ ودو) ان کے لئے ۔۔۔۔۔۔ (اپنے ساتھیوں سے کہا) اس میں ہے نا فہرست شہداء کی؟ جو رضاکار گئے ان پر؟ (اٹارنی جنرل سے) ہمارے یہاں سے جو رضاکار گئے، دُوسرے بھی جو گئے، ان پر وہ سختیاں کی گئیں، ساروں پر، یہاں، وہاں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہاں، یہ احمدی، یہ وہابی ہے یا یہ ہے، وہ ہے۔ مسلمانانِ کشمیر کی جدوجہد میں سارے شامل ہیں، ساتھ۔ یہی میرا ان اِشاروں میں تھا کہ ہمارے تو کبھی علیحدہ ہوئی ہی نہیں۔
1265Mr. Chairman: The Delegation is premitted to withdraw for Maghreb to report break at 7:30.
(جناب چیئرمین: وفد کو مغرب کی نماز کے لئے ۳۰:۷بجے تک وقفہ کی اجازت ہے)
مرزا ناصر احمد: میں اس کو ختم کرتا ہوں۔ یہ آکر داخل کردیں گے۔
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد باہر چلاگیا)
جناب چیئرمین: ساڑھے سات جی!
The House is adjourned to meet at 7:30
(ایوان کا اِجلاس ۳۰:۷بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
[The Special Committee adjourned for Maghreb Prayers, to re-assemble at 7:30 p.m.]
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghreb Prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in Chair.]
(مغرب کی نماز کے بعد کمیٹی کا اِجلاس صاحبزادہ فاروق علی کی صدارت میں دوبارہ شروع ہوا)
جناب چیئرمین: (سیکرٹری سے) ڈیلی گیشن کو بلالیں، یہاں باہر بٹھادیں، ہاں کیونکہ پھر پونے آٹھ، نوبجے، پونے نو تک کریں گے، ایک گھنٹہ۔ پھر تو دس منٹ کا بریک، پھر Nine to Ten۔
جی، مولانا عبدالحق صاحب!
----------
INTRODUCTION OF EXTRANEOUS MATTERS BY THE WITNESS
مولانا عبدالحق: جی، گزارش یہ ہے کہ کل دو گھنٹے تقریباً اس نے تقریر کی، اور آج بھی وہ تو اپنی تاریخ وہ پیش کر رہے ہیں یا ریکارڈ کر رہے ہیں۔ ہمارا تو اٹارنی جنرل صاحب کا یہ سوال تھا کہ انگریزوں کی وفاداری کی، جو تم نے پیش کیا ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ یا مسلمانوں کو تم کافر اور پکا کافر کہتے ہو، جنازے کی نماز میں شرکت نہیں کرتے، شادی نہیں کرتے، عبادت میں شریک نہیں ہوتے۔ اب وہ کہتے ہیں، ہم نے مسلمانوں کے ساتھ نہیں کہا۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسا ایک 1266شخص کسی کو کہے کہ: ’’یہ چیز کیا ہے؟‘‘ وہ کہتا ہے: ’’کتا!‘‘ اب وہ کہتا ہے کہ: ’’میں پانی بھی اس کو دیتا ہوں، روٹی بھی دیتا ہوں، جگہ بھی دیتا ہوں۔‘‘ مقصد تو اَصل وہی ہے کہ جو چیز ان سے پوچھی جائے، ہمارے اٹارنی جنرل صاحب، اس کا جواب دے دیں اور بس۔ باقی وہ دوگھنٹہ باتیں جو کرتے ہیں تو خدا معلوم اس میں کیا حکمت ہے؟
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General to satisfy all the honourable members.
(جناب چیئرمین: ہاں جناب اٹارنی جنرل صاحب، معزز ارکان کو آپ مطمئن کریں)
Mr. Yahya Bakhtiyar: I will try, Sir.
مولانا! بات یہ تھی کہ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ علیحدگی پسند ہیں، آپ مسلمانوں سے علیحدہ رہتے ہیں، ان کو کئی حوالے دئیے، حوالوں کے تو انہوں نے جوابات نہیں دئیے، مگر یہ کہا کہ نہیں، ہم سے اکٹھے جدوجہد کرتے رہے ہیں، آزادی کی۔ اس واسطے میں نے کہا کہ اچھا بولنے دیں ان کو۔ یہ اس ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ تو ٹھیک ہے، ابھی ختم ہوگیا بہت لمبا تھا۔
جناب چیئرمین: ہاں، بلالیں۔ بلالیں، باہر ہی بیٹھے ہیں، بلالیں جی، بلائیںجی۔
مولانا عبدالحق: میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ بات میں بات کریں۔
جناب چیئرمین: آگئے؟
مولانا عبدالحق: کل آپ نے فرمایا تھا کہ اس میٹنگ کے بعد ہم پوچھ لیں گے۔
جناب چیئرمین: وہ کل آیا ہوں تو ہاؤس ایڈجرن ہوگیا۔ آج کرلیں گے۔
مولانا عبدالحق: نوٹ کرکے رکھ لیں۔
جناب چیئرمین: آج کرلیں گے جی۔ After this آپ کی اِنتظار ہو رہی تھی، نورانی صاحب کی، خاص طور سے۔
ہاں، بلوائیں انہیں۔
1267Mr. Chairman: Yes the Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی، اٹارنی جنرل صاحب)
----------
CROSS-EXAMINATION OF
THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ ختم کرچکے ہیں اسے؟
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں، چونکہ ٹائم کم ہوتا جارہا ہے اس لئے میں بالکل مختصر کرنا چاہتا ہوں۔ جو باتیں آگئی ہیں، آپ نے کئی باتیں کہی ہیں، اس آزادی کی جدوجہد کے بارے میں۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: آزادی کی جدوجہد کے بارے میں آپ نے کافی کچھ کہا ہے، میں اس کی تفصیل میں بہت نہیں جانا چاہتا، یہ جو باؤنڈری کمیشن تھا، اس کے بارے میں آپ نے منیر صاحب کا کمیٹی کی رپورٹ سے ایک حوالہ پڑھا ہے کہ اس میں چوہدری صاحب نے بہت کوشش کی۔ وہ تو سب نے پڑھا ہوا ہے، وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے، اور اس میں کچھ شک نہیں کہ انہوں نے بڑی کوشش کی۔ اس پر میں نے نہ کوئی سوال پوچھا ہے اور نہ کوئی Dispute ہے ہمیں اس پر۔ مگر ایک چیز جو منیر صاحب نے بعد میں کہی، ممکن ہے آپ نے وہ پڑھا ہو، ’’پاکستان ٹائمز‘‘ ۲۴؍جون ۱۹۶۴ء میں، انہوں نے کوئی دوتین آرٹیکل لکھے تھے، اس دوران میں ۔۔۔۔۔۔۔ "Days I Remember" (میرے یادگار دِن)۔
مرزا ناصر احمد: جی، میں نے وہ نہیں پڑھے۔
جناب یحییٰ بختیار: جی، وہ آپ کو یاد نہیں ہوگا، پڑھے بھی ہوں تو۔
مرزا ناصر احمد: ہوں، میں نے نہیں پڑھا ہے، دس بارہ سال پہلے ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہوں، دس سال کی بات ہے، تو وہاں وہ منیر صاحب کہتے ہیں کہ:
1268"In connection with this part of the case. I cannot reframe from mentioning an extremely unfortunate circumstance. I have never understood why the Ahmadis submitted a separate representation. The need for such representation could arise only if the Ahmadis did not agree with the Muslim League's case-it self a regrettable possibility. Perhaps, they intended to reinforce the Muslim League's Case; but in doing so, they game the facts and figures for different parts of Gash Shankar, thus giving prominence to the fact that, in the areas between the river Bein and the river Basantar, the non-Muslims Constituted a majority and providing argument for the Contention that if the area between the rivers Ujh and Bein went to India. The area between the Bein river and Basantar river would automatically go to India. As it is, this area has remaind with us. But the stand taken by the Ahmadis did create considerable embarrassment for us in the case of Gurdaspur."
(’’معاملے کے اس حصے کے متعلق میں ایک نہایت ہی ناخوش گوار واقعے کا ذِکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ احمدیوں نے الگ عرض داشت کیوں دی تھی؟ اس قسم کی عرض داشت کی ضرورت تبھی ہوسکتی تھی جب احمدی، مسلم لیگ کے نقطئہ نظر سے متفق نہ ہوتے، جو کہ بذاتِ خود ایک افسوسناک صورتِ حال ہوتی۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح احمدی مسلم لیگ کے نقطئہ نظر کی تائید کرنا چاہتے ہوں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے گڑھ شنکر کے مختلف حصوں کے بارے میں اعداد وشمار دئیے، جن سے یہ بات نمایاں ہوئی کہ بین دریا اور بسنتر دریا کے مابین کا علاقہ غیرمسلم اکثریت کا علاقہ ہے، اور یہ بات اس تنازعے کی دلیل بنتی تھی کہ اگر آج دریا اوربین دریا کا درمیانی علاقہ ہندوستان کو دِیا جائے تو بین دریا اور بسنتر دریا کا درمیانی علاقہ خودبخود ہندوستان کو چلا جاتا ہے، جیسا کہ حقیقتِ حال ہے۔ یہ علاقہ ہمارے پاس رہا، مگر احمدیوں نے جو رویہ اِختیار کیا تھا، وہ ہمارے لئے گورداسپور کے بارے میں خاصا پریشان کن ثابت ہوا۔‘‘)
آپ نے یہ فرمایا۔
مرزا ناصر احمد: یہ اپنی کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں لکھا انہوں نے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کہتا ہوں کہ ایک آرٹیکل انہوں نے ۱۹۶۴ء جون میں لکھا ہے اس کا میں کہہ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہوں، سترہ سال بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: کافی عرصہ بعد، دس سال کے بعد۔
مرزا ناصر احمد: سترہ سال بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس میں دراصل میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ آپ نے مسلم لیگ سے آپ یہ کہتے ہیں کہ تعاون کیا، اور یہ ایک ایسا اسٹیج تھا کہ برٹش گورنمنٹ اور کانگریس بھی اس بات کو تسلیم کرچکی تھی کہ یہ واحد نمائندہ جماعت ہے مسلمانوں کی، مسلم لیگ ۔۔۔۱۹۴۶ئ،۱۹۴۷ء کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔ واحد نمائندہ تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک مسلمان اس میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
1269مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مگر یہ کہ Represent (نمائندگی) کر رہی تھی، واحد آواز یہ تھی، This was the most representative body واحد نمائندہ جماعت وہ Accept کرلی تھی۔ جب انہوں نے میمورنڈم دیا تو یہ Separate (الگ) میمورنڈم دینے کی، یہاں بھی منیر صاحب کہتے ہیں: ’’ہمیں سمجھ نہیں آئی، اس سے بلکہ ہمیں خدشات پیدا ہوئے Enbarrassement (پریشانی) ہمیں ہوئی۔‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ ۱۹۴۷ء کے سترہ سال کے بعد انہوں نے اس بات کا اِظہار کیا کہ: ’’مجھے سمجھ نہیں آئی۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاں!
مرزا ناصر احمد: لیکن اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا۔
جناب یحییٰ بختیار: اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا۔
مرزا ناصر احمد: تو، وہ تو منیر صاحب تو نہیں، آپ نے تو ان کی رپورٹ پڑھی ہے ناں، تو میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں جی کہ ایک آدمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ جو کہ باؤنڈری کمیشن کا بھی جج تھا، تو اس رپورٹ میں بھی وہی جج تھا۔ پھر رپورٹ میں انہوں نے چوہدری صاحب کو اچھا سرٹیفکیٹ دیا ہے کہ انہوں نے بڑی محنت سے، بڑی جانفشانی سے کیس Plead کیا پاکستان کا، اس کے بعد، سات سال یا دس سال کے بعد، جیسے ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، ۱۹۶۴ئ، ۱۹۵۷ئ، ۱۹۴۷ئ۔
1270جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہی کہہ رہا ہوں جی، ۱۹۴۷ء میں باؤنڈری کمیشن میں تھے وہ، پھر اس کے بعد ۱۹۵۳ئ، ۱۹۵۴ء میں وہ انکوائری ہو رہی ہے۔ تو چوہدری صاحب نے جو ۱۹۴۷ء میں خدمت کی اس کا حوالہ، اس کا ذِکر کرتے ہوئے اس میں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ میرا مطلب ہے کہ یہ جو ہے کہ یہ واقعہ کے سترہ سال بعد کا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہ ان کے بعد یہ پھر یہ ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، سترہ سال کے بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ ہے، یہ ۱۹۶۴ء میں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، تو پھر یہ سترہ سال کی خاموشی کے بعد، جب وہ کافی بوڑھے بھی ہوچکے تھے، تو شاید ممکن ہو بڑھاپے کی وجہ سے وہ بات جو اس وقت جوانی میں سمجھ آگئی ہو، وہ نہ سمجھ آئی ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ اچھا جواب ہے! یہ خیر میں اسے بس پھر آپ کی توجہ دِلانا چاہتا تھا کہ۱؎…
مرزا ناصر احمد: بات یہ ہے ۔۔۔اگر آپ کہیں تو میں بتاؤں آپ کو ۔۔۔ انہوں نے، ہندوؤں نے ایک بڑی سخت شرارت کی اور شرارت یہ کی ۔۔۔ میں نے آپ کو کہا کہ میں ان دنوں میں کام کرتا رہا ہوں ۔۔۔ ایک پہلے یہ شرارت کی کہ جماعت احمدیہ جو ہے، اس کو دُوسرے مسلمان کافر کہتے ہیں، اس لئے ان کی تعداد گورداسپور کے مسلمان میں شامل نہ کی جائے اور گورداسپور ضلع میں ۵۱ اور ۴۹ کا فرق تھا، یعنی مسلمانوں کی ۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو میں جانتا ہوں، ہم جانتے ہیں۔
1271مرزا ناصر احمد: نہیں، میں آپ کو اندر کی ایک بات بتاؤں ۔۔۔ دُوسری شرارت۔ دُوسری شرارت اپنوں نے یہ کی کہ اگرچہ مسلمانوں کی آبادی گورداسپور میں ۵۱فیصد ہے، لیکن چھوٹے، نابالغ بچے ہیں، Adult (بالغ) نہیں ہیں، وہ تو ووٹر نہیں ہیں، ان کے اُوپر فیصلہ نہیں ہونا چاہئے اور ویسے ہی ہوائی چلادی کہ ہندوؤں کی Adult (بالغ) آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ میں چونکہ مختلف مضامین پڑھتا رہا ہوں اپنی زندگی میں، میں نے یہ Offer کی مسلم لیگ کو کہ اگر مجھے Calculating مشین تین دے دی جائیں تو میں ایک رات میں ۱۹۳۵ء کی Census (مردُم شماری) لے کے، علیحدہ علیحدہ ضلعوں کی ہوتی ہیں ناں ۔۔۔ تو کل آپ کو یہ Data (تفصیل) یہ دے سکتا ہوں کہ Adult (بالغ) بھی مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ Census (مردُم شماری) کی جو ہے رپورٹ، اس وقت تفصیلی ہوتی تھی۔ بعد پتا نہیں کیوں، اس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ صرف ’’اچھا جواب‘‘۔۔۔؟ بلکہ اتنا اچھا جواب ہے کہ مرزائی دجل میں اسے ’’اے گریڈ‘‘ دیا جاسکتا ہے۔۔۔!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کو چھوڑ دیا۔ ۱۹۳۵ء کی Census (مردُم شماری) رپورٹ مختلف Age (عمر) گروپ کی Mortality دی ہوئی ہے، Percentage یعنی چار سال کا جو بچہ ہے، وہ چار سال کی عمر کے جو بچے ہیں ان میں اتنے فیصد موتیں ہوجاتی ہیں، جو پانچ سال کے بچے ہیں، ان کی اتنی فیصد موتیں ہوجاتی ہیں۔ تو ہزارہا ضربیں، تقسیمیں لگانی تھیں، کیونکہ ہر Age گروپ کی جو ۱۹۳۵ء کی Census (مردُم شماری) تھی ہمارے پاس، تو ۱۹۴۷ء تک پہنچانا تھا Adult (بالغ) بنانے کے لئے کچھ جو Adult (بالغ) تھے وہ تو تھے ہی۔ تو یہ ہزارہا وہ نکال کے، ساری رات لگ کے، تین چار اور آدمیوں نے ساتھ کام کیا۔ Calculating (حساب کتاب) مشین خود مسلم لیگ کے یعنی Offices سے آئیں اور صبح کو ایک گوشوارہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو دے دیا گیا کہ یہ غلط بات کر رہے ہیں اور جس وقت یہ آگے پیش ہوا، ہندو بالکل سٹپٹاگیا۔ ان کو خیال ہی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان دماغ حساب میں بھی یہ Calculation کرسکتا ہے اتنا۔ اس قسم کی وہ شرارتیں تھیں اور اس قسم کا ہمارا تعاون تھا مسلم لیگ کے ساتھ اور ان کی خاطر ان کے مشورے کے ساتھ یہ سارا کچھ ہوا۔ تو جب بوڑھے ہوگئے جسٹس منیر صاحب وہ بھول گئے، ان کو وہ سمجھ نہیں آئی، ہم پر کوئی اِعتراض نہیں۔
(کیا مسلم لیگ کے مشورے سے علیحدہ میمورنڈم دیاگیا؟)
1272جناب یحییٰ بختیار: میں مرزا صاحب! اس بات پر ذرا آپ سے گزارش کروں گا کہ یہ آپ نے کہا کہ مسلم لیگ کے مشورے سے یہ بات ہوئی کہ علیحدہ میمورنڈم دیں۔
مرزا ناصر احمد: کیا؟
جناب یحییٰ بختیار: کیا علیحدہ میمورنڈم مسلم لیگ کے مشورے سے دیا گیا؟
مرزا ناصر احمد: ان کے مشورے سے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Mirza Sahib, you will have to prove this, because every ......
(جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا)
Mirza Nasir Ahmad: Have you got a proof against this?
(مرزا ناصر احمد: کیا آپ کے پاس اس کے برعکس ثبوت ہے؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: No, you should show some documents that Quaid-e-Azam or somebody consented.
مرزا ناصر احمد: جب میں ۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: قائداعظم کا تو Protest (اِعتراض) ہی یہی تھا کہ مسلمان علیحدہ علیحدہ جارہے ہیں اور اپنے اپنے میمورنڈم دے رہے ہیں اور ہمیں تکلیف پہنچتی ہے اس سے اور منیر صاحب کہتے ہیں ہمیں Embarrassment (پریشانی) اس بات کی ہوئی ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور اس Embarrassment (پریشانی) کا انہوں نے اعلان کیا ہے سترہ سال کے بعد!
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یعنی آپ اس زمانے کا کوئی اخبار بتادیں جس میں یہ ہو کہ قائداعظم یا مسلم لیگ کی تائید سے یہ میمورنڈم داخل کیا گیا؟
مرزا ناصر احمد: ’’نوائے وقت‘‘ میں اس وقت یہ اعلان ہوا ہے کہ مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے وقت دیا احمدیوں کو میمورنڈم پیش کرنے کے لئے۔ کیا یہ ثبوت نہیں ہے کہ مسلم لیگ کے مشورے سے یہ کیا گیا؟ ورنہ ان کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ جماعت احمدیہ کے میمورنڈم کے لئے اپنے وقت میں سے وقت دیتے۔
1273جناب یحییٰ بختیار: یہ ان کی Representation (نمائندگی) کس نے کی؟
مرزا ناصر احمد: ہیں جی؟
جناب یحییٰ بختیار: کس نے Representation (نمائندگی) کی ان کی؟
مرزا ناصر احمد: کس کی؟
جناب یحییٰ بختیار: جماعت احمدیہ کی؟
مرزا ناصر احمد: شیخ بشیر احمد صاحب تھے۔ لیکن اصل یہی تھا کہ سارے اکٹھے جارہے تھے۔ یہ میرا پوائنٹ آپ سمجھ گئے ناں، اگر وقت جماعت احمدیہ کے میمورنڈم کے لئے مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے دیا ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مسلم لیگ کا وقت تو چوہدری صاحب کے ہاتھ میں تھا۔
مرزا ناصر احمد: اور چوہدری صاحب باغی تھے، جناح کے؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، جی، بالکل، میں اس سے بالکل اِنکار نہیں کرتا کہ قائداعظم نے ان کو Appoint (مقرّر) کیا تھا، ان کے نمائندے تھے۔
مرزا ناصر احمد: یہ چوہدری ظفراللہ ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں، دیکھئے ناں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: چوہدری ظفراللہ خان صاحب ۔۔۔ اب آپ نے اس ہاؤس میں یہ دوچار دفعہ کہا، مجھے سمجھانے کے لئے، ذرا لتاڑنے کے لئے، کہ ’’میں ہوں، I represent my client, I represent this House as Attorney-General".
(میں اپنے مؤکل کا نمائندہ ہوں، میں اس ایوان کی نمائندگی بطور اٹارنی جنرل کرتا ہوں)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، I said I said that (میں نے کہا)
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، میری بات تو سن لیں۔ چوہدری ظفراللہ خان صاحب اپنے طور پر، اپنی طرف سے، یہ فیصلہ کرہی نہیں سکتے تھے۔ سمجھ گئے ناں۔ کسی انسان کے دِماغ میں آہی نہیں سکتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو اپنی طرف سے کہ مسلم لیگ کے وقت میں سے جماعت احمدیہ کو وقت دیا جائے، اور اس وقت Protest (اِعتراض) نہ ہوا ہو۔
1274جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہتا ہوں کہ آپ اس سے یہ Inference Draw (نتیجہ نکالا) کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کی تائید حاصل ہوگئی؟
مرزا ناصر احمد: نہیں میں اس سے یہ Inferenc Draw (نتیجہ نکالتا ہوں) کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کے مشورے کے ساتھ سر جوڑ کے بالکل ایک Effort (کوشش) تھی۔
جناب یحییٰ بختیار: اس کا ثبوت نہیں سوائے اس کے کہ ٹائم دیا؟
مرزا ناصر احمد: اس کا ثبوت ایک تو میں دے رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ کہ مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے وقت دیا، اور میرے نزدیک یہ کافی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: اگر حوالے کی ضرورت ہو تو میں دے دُوں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں اگر ۔۔۔۔۔۔ آپ وہ بھیج دیجئے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، اگر آپ کو ضرورت ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، آپ نے کہہ دیا اور ریکارڈ پر آگیا، بے شک آپ فائل کرنا چاہتے ہیں تو کردیجئے۔
مرزا ناصر احمد: ’’نوائے وقت‘‘ لاہور کی یکم؍اگست ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں ہے یہ۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ فائل کردیجئے۔
مرزا ناصر احمد: اچھا۔ یہ ایک تھوڑا سا ہے۔ (اپنے وفد کے ایک رکن سے) کہاں ہے وہ بہاولپور کا؟ (اٹارنی جنرل سے) یہ ہے۔
حدبندی کمیشن کا اِجلاس ہوا۔ سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے ہم نہ اِجلاس کی کارروائی چھاپ 1275سکے۔ نہ اب اس پر تبصرہ ہی ممکن ہے۔ کمیشن کا اِجلاس دس دن جاری رہا۔ ساڑھے چار دِن مسلمانوں کی طرف سے بات کے لئے مخصوص رہے، مخصوص کئے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے وقت میں سے ہی ان کے دُوسرے حامیوں کو بھی وقت دیا گیا۔ یہ میمورنڈم ہم نے جو فائل کیا ہے، اس کے اندر اندرونی شہادت ہے، اندرونی شہادت وہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو ٹھیک ہے، The document speaks for itself (دستاویز خود منہ بولتا ثبوت ہے)، اب آپ نے چوہدری صاحب کی خدمات کا بھی ذِکر کیا ہے، اور حال ہی میں چوہدری صاحب کا ایک بیان بھی شائع ہوا تھا، ممکن ہے، آپ نے دیکھا ہو، جس میں انہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں اسے دیکھنا پسند کروں گا۔