ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
۸… ’’صحیح بخاری کی ایک حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی جب مسیح آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۱۵)
جہاد کی شدت کم ہوتے ہوتے مرزاجی کے وقت قطعاً موقوف ہو گیا
۱۰… ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیرخوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی ﷺ کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیاگیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘
(حاشیہ اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
2482ان عبارات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرزاجی نے قرآن وحدیث کا ایک حکم منسوخ کیا۔ جب کہ حدیث میں ہے۔ الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ
! جہاد قیامت تک باقی رہے گا۔
مرزاجی نے بخاری سے بھی استدلال کیا ہے۔ جہاں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے لئے فرمایا۔ ویضع الحرب بعض میں ویضع الجزیۃ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کفار مغلوب ہو جائیں گے اور جو باقی ہوں گے وہ بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے تو جزیہ کافر رعایا سے لیا جاتا ہے۔ اب جب سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے تو جزیہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح جب اہل عالم مسلمان ہو جائیں گے تو لڑائی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ مرزاجی نے شریعت کا حکم منسوخ کر دینے کا معنی سمجھا۔ یا جان بوجھ کر دھوکہ دیا۔
۱… مرزاجی نے اپنے نزول کا وقت برطانوی عہد قرار دیا ہے اور وہ بھی قادیان میں۔ مگر مرزاجی کو خبر نہیںکہ آخری زمانہ میں دمشق میں زبردست جنگیں ہوں گی۔ جس کی تیاری مہدی علیہ السلام کر رہے ہوں گے۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ ہر درخت آواز دے گا کہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ جب تمام مخالف ایمان لے آئیں گے تو لڑائی بند ہو جائے گی اور جزیہ بھی نہ رہے گا۔
۲… مرزاقادیانی نے جابجا خونی مہدی اور خونی مسیح لکھ کر مسلمانوں کو پریشان کیا ہے اور کیا جہاد پہلے سے شائع نہ تھا۔ کیا خود مرزاجی نے حوالہ نمبر۷ میں نہیں کہا کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔ گویا پہلے تھا۔ اب یہ پیغام لے کر مرزاجی منسوخ کرنے آئے ہیں۔
2483اور حوالہ نمبر۱ کے مطابق ’’نزول مسیح کا وقت ہے۔ اب جنگوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ گویا پہلے سے جنگیں جاری تھیں۔ اب مسیح نے آکر بند کرادیں۔‘‘ ان حوالوں میں ایک طرح اقرار ہے کہ جہاد پہلے صحیح اور جاری تھا۔ مگر افسوس کہ جابجا مرزاجی نے لکھا ہے کہ ’’دین کے لئے تلوار اٹھانا غلط ہے۔ اسلام کو پھیلانے کے لئے جہاد کرنا خطا ہے اور سرحدی وکوہستانی علاقوں میں علماء جہالت سے لوگوں کو ان غلط کاموں میں لگاتے ہیں۔ یہ کوئی جہاد نہیں ہے اور حضور ﷺ نے جو تلوار اٹھائی تھی وہ ان لوگوں کے مقابلہ میں اٹھائی تھی۔ جنہوں نے پہلے مسلمانوں پر بڑا ظلم روا رکھا تھا۔ ورنہ اسلام میں تلوار کا جہاد نہیں ہے۔‘‘
حالانکہ یہ صدیوں پہلے کے مسلمانوں کے دین وفہم پر بڑا حملہ ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی غلط ہے۔ قریش نے ہمیشہ پہل کی اور اسلام اور مسلمانوں کے استحصال کے درپے رہے۔ پھر روم وایران نے مسلمانوں کو پریشان کیا۔ سلطنت عثمانیہ (ترکی) کے وقت یورپ ترکی کے خلاف نبرد آزما تھا اور ترکی کی حکومت کو وہ مرد بیمار کہتے رہے۔ یہاں تک کہ طرابلس اور بلقان کی ریاستیں مسلمانوں سے چھین لیں۔
آخر میں انگریز نے ہندوستان کی مسلم حکومت کو دجل وفریب اور خاص چالبازیوں سے تباہ کیا۔ حتیٰ کہ قبائلی علاقوں تک جا پہنچا۔ قبائل اور پہاڑی علاقے کے لوگ کیا کرتے وہ جانتے تھے کہ نرمی اختیار کرنے سے انگریز سب کو ہڑپ کر جائے گا۔ وہ بھی جنگ کے لئے مجبور تھے۔ مرزاجی کو معلوم ہے کہ مدافعانہ جنگ کیا ہوتی ہے؟
۱… دفاعی جنگ ایک تو وہ ہوتی ہے کہ دشمن حملہ کر دے اور ہم اس کا جواب دیں۔
۲… 2484حملہ تو نہیں کیا لیکن وہ طاقت اور قوت بنا رہا ہے تاکہ موقعہ ملتے ہی مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیں۔ اس وقت بھی ان کی قوت کو توڑنا اور ان کو پہل کر کے کمزور کرنا دفاعی جنگ ہے۔
۳… جب دو حکومتوں میں کوئی معاہدہ نہ ہو اور مسلمان خطرہ محسوس کریں تو بھی یہ دونوں فریق جنگ میں ہیں۔
۴… اگر دو حکومتوں میں معاہدہ ہے تو اگر مسلمان اس کو مضر سمجھتے ہیں اور خطرہ محسوس کرتے ہیں تو معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں۔ اس دشمن کو معاہدہ کی منسوخی کی اطلاع کر دینی چاہئے۔ پھر دونوں حکومتیں ہوشیار رہیں گی۔ اگر مسلمان اپنی بقاء اور اسلامی تبلیغ کی حریت وآزادی کے لئے ضروری تصور کریں تو بے شک اعلان جنگ کر دیں۔ مگر پہلے فسخ کا معاہدہ کرنا ہوگا۔ یہ تمام باتیں دراصل اپنا دفاع ہیں اور کافر، اسلام کی قدرتی کشش اور روز افزوں پھیلاؤ دیکھ کر حسد یا ڈر سے مسلمانوں کی بیخ کنی کے درپے ہوتے تھے۔ مگر مدینہ منورہ کا کرنٹ جب تک باقی تھا اور مسلمان اپنی جانیں محض خدا کے لئے قربان کرتے تھے۔ اس وقت تک اسلام آگے ہی کو جاتا رہا۔ مگر جب معاملہ برعکس ہوا۔ دوسری طرف ملک کی توسیع ہوئی تو قدرتاً مخالفین نے حملے شروع کئے۔ تمام صلیبی لڑائیاں اسی طرح ہوئیں ربعے مسکون کا بڑا حصہ جو مسلمانوں کے زیرنگین تھا۔ اسی طرح دشمنوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ خداخدا کر کے اب دوبارہ انفرادی طور سے سہی مگر پھر بھی مسلمانوں نے کروٹ لی ہے اور تقریباً سارے ملک آزاد ہو گئے ہیں۔ خدا کرے اگر ایک خلافت قائم نہیں ہوتی تو نہ سہی۔ مگر سب کا آپس میں معاہدہ اور تعاون رہے تو پھر بھی غنیمت ہوگا۔
2485یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی تبلیغ کے لئے تلوار اٹھائی یا کسی کو جبراً مسلمان کیا۔ لیکن ضروری دفاع اور اپنی بقاء کے لئے اﷲتعالیٰ نے کسی حیوان کو پنجے دئیے، تو کسی کو سینگ، کسی کو ڈاڑھیں، کسی کو لاتیں لمبی دے دئیے ہیں۔ اگر مرزائی یہ چاہیں کہ مسلمان خرگوش بن کر بھاگتے ہی رہیں تو یہ مذہب ان کو مبارک ہو۔ ہم جہاد اور جہادی قوۃ کو اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور یہی اسلام کا حکم ہے۔
اگر کوئی مرزائی یہ کہے کہ دراصل جہاد کی ضرورت نہ تھی اس لئے مرزاجی نے اس کو حرام کیا۔ تو یہ قطعاً غلط ہے۔ مرزاجی نے انگریز کی اس قدر تعریفیں اور خوشامدیں کیں کہ اس سے بڑھ کر کوئی ٹوڈی نہیں کر سکتا۔ مگر یہ سب تعریف وتوصیف اور وفاداری محض اس لئے تھی کہ انگریزوں کی سرپرستی اور پہرے میں مرزاجی اپنی کفریات خوب پھیلاتے اور روپیہ کماتے رہے۔ ورنہ کیا انگریز کے زمانہ میں کسی کو یہ طاقت تھی کہ زنا یا چوری کی شرعی سزا جاری کرتا اور کیا انگریزی حکومت باقی دنیا کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ نہیں توڑ رہی تھی؟ اور کیا فارورڈ پالیسی کے تحت سرحد کی مسجدیں اور عورتوں، بچوں کو شہید نہیں کر رہی تھی؟ کیا جب تم پر انگریز نے احسان کیاتو اس کو اجازت ہونی چاہئے کہ وہ قسطنطنیہ میں داخل ہوکر عراق پر قبضہ کرے؟ وہ پارس کے حلیف مسلمان بچوں اور عورتوں کو قتل کرے اور اس کے حلیف یونانی سمبرنا میں مسلمان عورتوں کی چھاتیاں کاٹیں اور عسکی شہر پر قبضہ کر کے انقرہ پر چڑھائی کی تیاریاں کریں تاکہ ترکوں کو بالکل ختم کر دیا جائے؟ کیا انگریزوں کو مرزاجی پر احسان کرنے کے عوض ہم اجازت دیں کہ وہ دنیا بھر سے یہود کو جمع کر کے فلسطین میں بسائے اور عربوں کے سینے پر مونگ دلے؟ کیا عدن ویمن کی 2486جنگ آزادی ظلم تھا؟ کیا نہر سویز کو واپس لینا ظلم تھا؟ کیا موپلہ قوم کو انگریزوں نے زمانہ خلافت میں سارے ہندوستان کی جیلوں میں تقسیم کرکے پھانسیاں دے کر ظلم نہیں کیا؟
مرزائی دوسرا وہم یہ پیش کرتے ہیں کہ بعض دوسروں نے بھی جہاد کے بارے میں یا انگریز سے جنگ نہ کرنے کے بارے میں یوں کہا…
۱… اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ کسی کا انفرادی قول ہوسکتا ہے۔ مستقل کسی مسلمان فرقے نے یہ فیصلہ نہیں کیا۔
۲… دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی نے ’’الا ان تتقوا منہم تقٰۃ‘‘ کے تحت صرف اپنے بچاؤ کے لئے کیا ہے تو اس کی حیثیت اور ہے اور مرزاجی نے بحوالہ عبارت نمبر۱۰ صاف صاف نہیں لکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جہاد میں بڑی شدت تھی۔ سرورعالم ﷺ نے اس میں بہت سی نرمی کی، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل سے روک دیا اور مسیح (یعنی مرزاجی) کے وقت بالکل ہی موقوف ہوگیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرزاجی انگریز کے لئے اسلام کا مسئلہ جہاد بالکل ختم کرنا چاہتے تھے۔ جو فرض ہے کبھی تو فرض عین اور کبھی فرض کفایہ۔
۳… مرزاقادیانی نے انگریزی نبی بن کر فتویٰ دیا۔ نبوت کے نام سے بلکہ عیسیٰ ابن مریم کے نام سے مسلمانوں کو دھوکہ دینے والے کو دوسروں پر قیاس کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟
۴… بعض فتوے جو انگریز سے جہاد کرنے کے خلاف ہیں وہ کوئی اتھارٹی نہیں ہیں۔ ان کی مثال مرزاقادیانی اور چوہدری ظفر اﷲ ہیں۔
۵… پھر فتویٰ دینے والوں نے صرف مسلط حکومت کے بارے میں فتویٰ دیا ہے۔ جہاد کو حرام یا موقوف نہیں کیا۔ (ان میں بڑا فرق ہے)
مرزائیوں اور ان کے نمائندوں نے مسئلہ جہاد اور اسلام بالجبر کو ملا کر غلط طور پر خلط مبحث کیا ہے۔ کیا آج یہود اور شام کی جنگ جہاد نہیں؟ کیا اس میں مسلمان ظلم کر رہے ہیں۔ کیا خدانخواستہ اگر دمشق میں عظیم نقصان ہو جائے اور مسلمانوں کی باگ ڈور کوئی اﷲ والا سنبھال کر تمام مشرق وسطیٰ کو دوبارہ منظم کر دے۔ پھر یہودی کوئی بڑی طاقت مقابلہ کے لئے آجائے تو یہ غلط ہوگا کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام ہمارے اجماعی عقیدے کے مطابق نازل ہوکر اس یہودی طاقت کو تہس نہس کر دیں؟
کیا حالیہ عرب واسرائیل جنگ میں عرب لیڈروں کو خونی لیڈر کہہ سکتے ہیں
کیا یہ جنگ عرب اس لئے لڑ رہے ہیں کہ یہود ونصاریٰ کو جبراً مسلمان کر دیں۔ اگر یہ جنگ جائز ہے تو اس کی امداد بھی جائز ہے اور کمزوری کی صورت میں فرض ہے۔ کیا مرزائی ابھی تک نہیں سمجھے کہ مشرق وسطیٰ میں یہود نے مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر کتنے انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi.]
(اس موقع پر مسٹر چیئرمین نے صدارت چھوڑ دی اور ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لی)
----------
2488مولانا عبدالحکیم:
’’اور یہ نوشتہ ایک ہدیہ شکر گزاری ہے کہ جو عالی جناب قیصرہ ہند ملکہ معظمہ والی انگلستان ہند دام اقبالہا بالقابہا کے حضور میں بتقریب جلسہ جوبلی شست سالہ بطور مبارکباد پیش کیاگیا۔ مبارک، مبارک، مبارک۔‘‘
(تحفہ قیصریہ ص۱، خزائن ج۱۲ ص۲۵۳)