• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۹: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا۔
’’ والذی نفسی بیدہ لیہلن ابن مریم بفج الروحاء حاجاً او معتمراً اولیشنّینہما
(رواہ مسلم فی صحیحہ ج۱ ص۴۰۸)‘‘
{مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔} ’’ابن مریم فج روحائ‘‘ میں حج کے لئے لبیک کہیں گے یا عمرے کے لئے یا دونوں کی نیت کر کے۔
اس حدیث میں بھی سرور عالم ﷺ نے قسم کھائی ہے۔اس لئے تمام الفاظ حدیث کو ظاہر پر ہی محمول کرنا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود حج کریں گے۔ (کوئی اور ان کی طرف سے نہیں کرے گا) اور فج روحاء سے مراد وہی روحاء کی گھاٹی ہوگی۔ نزول سے مراد نیچے اترنا ہی ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۱۰: حضرت ربیع سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصاریٰ حضور ﷺ کے پاس آئے اور جھگڑنے لگے عیسیٰ ابن مریم کے بارہ میں
’’ وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبہتان فقال لہم النبی ﷺ الستم تعلمون انہ لا یکون ولد الا وھو یشبہہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء فقالوا بلیٰ
(درمنثور ج۲ ص۳)‘‘
ربیع کہتے ہیں کہ نجران کے عیسائی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے 2558حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون ہے۔ (مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹے میں باپ کی مشابہت ہوتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر تمہارا رب زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام پر یقینا موت آئے گی تو انہوںنے کہا کیوں نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے تھے تو یہاں پر بہت آسان تھا کہ آپ ﷺ الوہیت مسیح کے ابطال کے لئے فرمادیتے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو مر گئے وہ کیسے خدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ابطال الوہیت اورابنیت پر زیادہ صاف دلیل ہو جاتی یا یوں ہی فرمادیتے کہ تمہارے خیال میں تو وہ مرگئے ہیں تو پھر خدایا خدا کے بیٹے کس طرح ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی بہترین دلیل تھی۔ مگر ممکن تھا کہ کوئی مرزائی چودھویں صدی میں اپنی کور چشمی سے اس سے موت مسیح ثابت کر دیتا۔ سرور عالم ﷺ نے نہایت صفائی سے حق اور صرف حق فرمایا کہ خداتعالیٰ حی ہیں جو کبھی نہیں مرتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آئے گی۔ یعنی بجائے ماضی کے مستقبل کا صیغہ استعمال فرمایا۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہوتے تو یقینا اس بحث میں یہی بہتر تھا کہ ان ’’ عیسیٰ قداتیٰ علیہ الفنائ ‘‘ فرمادیتے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۱۱: ’’ عن الحسنؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ
(درمنثور جلد دوم ص۳۶)‘‘
یہ راوی حضرت حسن بصریؓ ہیں جو سرتاج اولیاء ہیں اور جو تابعی ہوکر فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا۔ گویا یقینا انہوں نے حدیث کسی صحابی سے حاصل فرمائی۔ یوں بھی مرسل حدیث کوجو کسی صحابیؓ کے توسط کے بغیر حضور ﷺ کی طرف منسوب ہوگئی۔ حضرت ملا علی قاریؒ نے فرمایا کہ حجت ہے (شرح نخبہ) حضرت ملا علی قاریؒ صدی دہم کے مسلم مجدد تھے۔ ان کا قول کون رد 2559کر سکتا ہے۔ بہرحال اس حدیث نے تصریح کر دی کہ ’’ ان عیسیٰ لم یمت ‘‘ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ لوٹ کر دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔
لفظ لم یمت بھی ہے اور راجع بھی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۱۲: حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں روایت ہے کہ:
’’ لما کانت لیلۃ اسری برسول اﷲ ﷺ لقی ابراہیم علیہ السلام وموسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام فتذاکرو الساعۃ فبدؤابا ابراہیم فسئلوہ عنہا فلم یکن عندہ منہا علم ثم سألوا موسیٰ فلم یکن عندہ علم فرد الحدیث الیٰ عیسی بن مریم فقال قد عہد الیٰ فیما دون اوجبتہا فاما وجبتہا فلا یعلمہا الا اﷲ فذکر خروج الدجال قال فانزل فاقتلہ
(ابن ماجہ باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی ابن مریم ص۲۹۹)‘‘
{حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ صحابی فرماتے ہیں کہ معراج کی رات رسول کریم ﷺ نے ملاقات کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔ پس انہوں نے قیامت کا ذکر چھیڑا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی جواب دیا۔ آخر الامر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرے ساتھ قرب قیامت کا ایک وعدہ کیاگیا تھا۔ اس کا ٹھیک وقت سوائے خدا عزوجل کسی کو معلوم نہیں۔ پس انہوں نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ پھر میں اتروں گا اور دجال کو قتل کروں گا۔ (آخر تک)}
یہ حدیث امام احمد نے مرفوعاً بیان فرمائی ہے کہ یہ تمام الفاظ گویا خود حضور ﷺ کے ہیں۔ امام احمد صدی دوم کے مسلّم مجدد ہیں۔ اس لئے حدیث کی صحت میں بحث ہی 2560نہیں ہوسکتی۔ جیسے کہ اصول تفسیر میں لکھا جاچکا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ دجال کا ایک شخص کا نام ہے۔ پادریوں کے گروہ کا نام نہیں جیسے مرزا نے کہا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں وہی اتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ قتل دجال نے بھی ’’دلائل‘‘ وغیرہ سے قتل کی نفی کر دی۔ جیسے کہ مرزائی ہرزہ سرائی ہے۔ کیا معراج کی رات میں مرزاقادیانی نے اپنے نزول کا ذکر کیا تھا؟ کیا یہی مرزاقادیانی اس آسمان سے اترے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی دجال کو قتل کیا ہے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۱۳: ’’ عن جابرؓ قال رسول اﷲ ﷺ … فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرہم تعال صلّ لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذہ الامۃ
(مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)‘‘
مرزاجی ’’ وامامکم منکم ‘‘ سے ثابت کرتے ہیں کہ نماز بھی یہی پڑھائیں گے۔ یہ امت محمدیہ میں سے ہوں گے۔ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔ ’’وامامکم منکم‘‘ کا معنی اگر مرزاجی کے بیان کے مطابق لیں تو یہ عطف بیان ہوگا۔ جس کے لئے واؤ نہیں لائی جاتی جو یہاں موجود ہے۔ یہ تو عربی قواعد کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ حدیث مذکور نے صاف کر دیا ہے کہ امیر قوم (یعنی مہدی علیہ السلام) کہیں گے آؤ آگے ہوکر نماز پڑھاؤ۔ وہ انکار کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ اﷲ نے اس امت کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اب مرزائی اگر ایمان چاہتے ہیں تو ان کو مرزا کے معنوں کی بجائے سرور عالم ﷺ کے بیان کردہ معنوں کو قبول کرلینا چاہئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2561حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کا ارشاد اور حضرت حسن بصریؒ کی قسم
(فتح الباری ج۶ ص۴۹۳، مطبوعہ دہلی) میں ہے کہ امام ابن جریرؒ نے اسناد صحیح کے ساتھ سعید بن جبیرؓ سے حضرت ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس پر جزم فرمایا ہے کہ لیؤمننّ بہ قبل موتہ میں دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ایمان لے آئیں گے اور اسی کتاب میں اسی صفحہ پر حضرت حسن بصریؒ سے جو اولیاء کے سرتاج ہیں نقل کیا ہے کہ انہوں نے بھی قبل موتہ کا معنی قبل موت عیسیٰ کیا پھر قسم کھائی اور کہا:
’’ واﷲ انہ الأن لحی ولکن اذا انزل آمنوا بہ اجمعین ‘‘ {خداکی قسم کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام اس وقت زندہ موجود ہیں۔ جب نازل ہوں گے وہ سب ان پر ایمان لے آئیں گے۔} یہاں تک آپ کو احادیث سے تفسیر کا علم ہوا جس کا انکار ایک صحابی نے بھی نہیں کیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نزول مسیح ابن مریم علیہ السلام کی نشانیاں
پیغمبر اعظم علیہ الصلوٰۃ والسلام بے ضرورت بات نہیں فرماتے تھے۔ جو بات فرماتے تو وہ مختصراً مگر جامع اور تمام امور کو صاف کرنے والی ہوتی تھی۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے نزول کے سلسلے میں آپ ﷺ نے نشانات کا اتنا اہتمام فرمایا کہ اس سے بڑھ کر مشکل ہے تا کہ کوئی نادان مسیحیت کا جھوٹا دعویٰ کر کے امت کو گمراہ نہ کرے۔ 2562آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۱… آخری زمانہ میں مسیح نازل ہوں گے۔ (مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ نزول صعود کی فرع ہے۔ جب نزول تواتر سے ثابت ہوگیا تو صعود وعروج خود ہی ثابت ہو گیا)
۲… آپ نے بیہودہ اعتراض کرنے والوں کا منہ بندکرنے کے لئے رجوع کا لفظ بھی استعمال فرمایا۔ راجع الیکم کہ وہ تمہارے پاس دوبارہ آئیں گے۔
۳… آپ ﷺ نے تمام وسوسوں کو دور کرنے کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔
۴… آپ ﷺ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ زمین کی طرف آئیں گے اور زمین کی طرف وہی آتا ہے جو پہلے زمین پر نہ ہو۔
۵… آپ ﷺ نے فرمایا کہ آنے والے کا نام عیسیٰ ہوگا۔
۶… کہیں آپ ﷺ نے مسیح فرمایا۔
۷… ان کی والدہ کا نام مریم ہوگا۔ (چراغ بی بی نہ ہوگا)
۸… باربار ماں کا نام لے کر بتادیا کہ کسی مرد۔ حکیم غلام مرتضیٰ کا بیٹا نہ ہوگا۔ بلکہ وہی عیسیٰ ہوگا جو بن باپ پیدا ہوا اور قرآن نے ان کوماں ہی کے نام سے پکارا۔
۹… وہ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔
۱۰… وہ رسولاً الیٰ بنی اسرائیل تھے۔ کلمتہ اﷲ تھے۔ روح اﷲ تھے۔ وجیہاً فی الدنیا والآخرۃ تھے۔ نفخ جبرائیل سے پیداہوئے تھے۔ ان کو زبردست معجزات دئیے گئے تھے۔ بنی اسرائیل نے پھر بھی نہ مانا تو وہ آکر بنی اسرائیل اور ان کے دجال سے جنگ کریں گے۔ 2563دجال کو قتل کریں گے اور تمام اہل کتاب مسلمان ہو جائیں گے۔ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا اور ان کے شایان شان تمام باتیں ہو جائیں گی جو پہلے نہ ہوئی تھیں۔
۱۱… اوروں کی ہجرت ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجرت ساری زمین سے تھی۔ اس لئے وہ واپس زمین میں آکر ساری زمین میں عادلانہ نظام قائم فرمائیں گے۔
۱۲… وہ دمشق میں اتریں گے۔
۱۳… دمشق کے مشرق کی طرف منارہ کے پاس۔
۱۴… ان پر دوزرد چادریں ہوں گی۔
۱۵… ان کے سر سے موتیوں کی طرح پانی ٹپکے گا۔
۱۶… فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے نازل ہوں گے۔
۱۷… اس وقت صبح کی نماز کے لئے اقامت ہوگئی ہوگی۔
۱۸… وہ اس وقت پہلے ہی امام کو نماز پڑھانے کا کہیں گے۔
۱۹… فارغ ہوکر وہ دجال سے لڑیں گے۔ اس کو قتل کر دیں گے۔
۲۰… یہودیوں کو شکست فاش ہو جائے گی۔
۲۱… اگر کسی درخت یا پتھر کے پیچھے کوئی یہودی چھپا ہوگا وہ بھی مسلمانوں کو اطلاع دیں گے تاکہ اس کو قتل کر دیا جائے۔
۲۲… پھر باقی تمام یہود اور عیسائی مسلمان ہو جائیں گے۔ دنیا بھر میں اسلام پھیل جائے گا۔
۲۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنگ بند کر دیں گے۔ کیونکہ ساری دنیا اسلام کے تابع ہوگئی ہوگی۔
۲۴… 2564وہ غیرمسلموں سے جزیہ (ٹیکس) لینا بند کر دیں گے۔ دو وجہ سے ایک تو غیرمسلم ہی نہ رہیں گے۔ دوسرے مال کی سخت بہتات ہوگی۔
۲۵… مال کثرت سے لوگوں کو دیں گے۔ یہاں تک کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔
۲۶… اس وقت ایک سجدہ ساری دنیا سے زیادہ بہتر ہوگا۔
۲۷… یہ نازل ہونے والا وہی عیسیٰ علیہ السلام ہوگا جن سے معراج میں قیامت کی باتیں ہوئی تھیں اور انہوں نے کہا تھا کہ میں اتر کر دجال کو قتل کر دوں گا۔
۲۸… وہ ضرور فوت ہوں گے۔ مگر ابھی تک ان پر فنا نہیں آئی۔
۲۹… وہ چالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے۔
۳۰… وہ حج کریں گے۔
۳۱… فج روحا کی گھاٹی سے لبیک کہیں گے۔
۳۲… پہلے شادی نہ ہوئی تھی اب شادی کریں گے۔
۳۳… وہ پرانے اور اپنے وقت کے رسول تھے اور اب شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) پر عمل کریں گے اور کرائیں گے۔
۳۴… جب ان کی وفات ہوگی۔ مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے۔
۳۵… وہ حضور ﷺ کے روضہ مبارک میں دفن ہوں گے۔
۳۶… جب وہ نازل ہوں گے ایک حربہ (ہتھیار) لے کر دجال کو قتل کریں گے۔
۳۷… ان کے زمانہ میں اتنا عدل ہوگا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔
۳۸… یہ وہی عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے جو حضور ﷺ سے چند صدیاں پہلے تھے اور ان کے اور حضور ﷺ کے درمیان کوئی پیغمبر نہ تھا۔
۳۹… 2565یہ وہی ہوں گے جن کا نام روح اﷲ بھی تھا۔
۴۰… ان سے پہلے مرد صالح ہوں گے جو نماز پڑھائیں گے۔ وہی مہدی ہوں گے۔
۴۱… وہ اہل بیت سے ہوں گے۔
۴۲… ان کا نام حضور ﷺ کے نام کے مطابق ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور ﷺ کے والد کے نام کی طرح ہوگا۔
۴۳… وہ جس دجال کو قتل کریں گے وہ کانا ہوگا۔ اس کے ماتھے پر ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوگا۔ یعنی کافر۔
۴۴… وہ بھی طرح طرح کے عجائبات دکھائے گا۔ جس سے لوگوں کے کفر اور ایمانی پختگی کا پتہ لگے گا۔
۴۵… وہ ساری دنیا کا چکر لگائے گا۔ مگر اس دن مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر فرشتوں کے پہرے ہوں گے ان دو شہروں میں داخل نہ ہو سکے گا۔
۴۶… یہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کا پیچھا کر کے اس کو باب لد میں قتل کریں گے۔
۴۷… ان کے زمانے میں یاجوج وماجوج خروج کریں گے۔ لوگ بڑے تنگ ہوں گے۔ آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے لئے بددعا فرمائیں گے اور لڑ بھڑ کر مر جائیں گے۔
۴۸… عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں جہاں نازل ہوں گے وہ افیق نام کا ٹیلہ ہوگا۔
۴۹… ان کی آمد معلوم کر کے مسلمان مارے خوشی کے پھولے نہ سمائیں گے۔ جس کی طرف حضور ﷺ نے کیف انتم سے اشارہ فرمایا ہے۔
۵۰… وہ روضۂ اطہر پر حاضر ہوکر سلام پیش کریں گے۔ حضور ﷺ ان کا جواب دیں گے۔
۵۱… 2566آپ ﷺ نے حلف اٹھا کر حضرت عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبر دی۔
۵۲… ان کا نزول قیامت کی (بڑی) نشانی ہوگی۔
۵۳… وہ حاکم (حکم) ہوں گے۔
۵۴… عادل اور مقسط ہوں گے۔
۵۵… حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عروہ بن مسعودؓ کی طرح ہوں گے۔
۵۶… ان کا رنگ سفیدی وسرخی کی طرف مائل ہوگا۔
۵۷… وہ صلیب کو توڑدیں گے جس کی پوجا ہوتی تھی یا جو پجاریوں کی نشانی تھی۔
۵۸… خنزیر کو قتل کریں گے۔ یہ نجس العین ہے اور عیسائی اس کو شیرمادر سمجھ کر کھاتے ہیں۔ نفرت دلانے کے لئے ایساکیا جائے گا۔ آج کل بھی یہ فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو لوگ جمع ہوکر ان کے قتل کا انتظام کرتے ہیں۔
۵۹… دجال کے پاس اس وقت ستر ہزار یہودی لشکر ہوگا۔
۶۰… یاجوج ماجوج کے باہمی مقاتلے اور مرنے سے بدبو ہوگی۔ پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کو لے کر پہاڑ پر چڑھیں گے۔ پھر دعا فرمائیں گے۔ بارش ہوگی وہ بدبو دور کر دی جائے گی۔ (اوکماقال)
کیا سرور عالم ﷺ جیسی ہستی نے کسی اور بات کے لئے بھی اتنا اہتمام فرمایا ہے۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ کوئی اور دجال مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہ کر بیٹھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اب اگر ایک احمق
کہے کہ عیسیٰ سے مراد… غلام احمد ہے۔
مریم سے مراد… چراغ بی بی ہے۔
2567دمشق سے مراد… قادیان ہے۔
باب لد سے مراد… لدھیانہ ہے۔
قتل سے مراد… مباحثہ میں غالب آنا ہے۔
مسیح سے مراد… مثیل مسیح ہے۔
زرد چادروں سے مراد… میری دو بیماریاں ہیں۔
دجال سے مراد… پادری ہیں۔
خردجال سے مراد… ریل ہے۔ جس پر وہ خود بھی سوار ہوا ہے۔
مہدی سے مراد… بھی غلام احمد ہے۔
حارث سے مراد… بھی غلام احمد ہے۔
رجل فارس سے مراد… بھی غلام احمد ہے۔
منارۃ سے مراد… قادیان کا منارہ ہے جو بعد میں مرزاجی نے بنایا۔
نزول سے مراد… سفر کر کے کہیں اترنا ہے۔
آسمان سے مراد… آسمانی ہدایتیں ہیں۔
عیسیٰ بن مریم سے مراد… غلام احمد قادیانی ہے۔
غلام احمد عیسیٰ علیہ السلام سے متحد ہے۔
غلام احمد عین محمد ہے۔
غلام احمد آنے والا کرشن اوتار ہے۔
غلام احمد، حضور ﷺ ہی کی بعثت ثانیہ ہے۔
غلام احمد کے زمانہ میں وہ عالمگیر غلبۂ اسلام ہوا۔ جو حضور ﷺ کے زمانہ میں نہ ہوسکا۔
نماز میں جو دعا مانگی گئی ہے۔ (غیر المغضوب علیہم) اس میں مرزاقادیانی کو دکھ دینے والوں سے علیحدگی کی دعا ہے۔
2568میری وحی قرآن کے برابر ہے۔
مجھ میں تمام پیغمبروں کے کمالات جمع ہیں۔
میں حضرت حسینؓ سے واقعی افضل ہوں۔ وہ کیا ہیں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہوں۔ ان کا بروز اور مثیل ہو کر بھی ان سے آگے نکل گیا ہوں۔
بلکہ تمام انبیاء سے میرے معجزے زیادہ ہیں اور میں معرفت میں کسی پیغمبر سے کم نہیں ہوں۔ پھر وہ اپنے بیٹے کو کہے یہ گویا خدا آسمان سے اتر آیا ہے اور وہ بیٹا کہنے لگے۔ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ سکتا ہے۔
اور اس کے چیلے اکمل کے اشعار ذیل کے مطابق حضور ﷺ سے افضل ہے۔ (معاذ اﷲ)
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
پھر ان شعروں کو مرزاجی سن کر تحسین کریں اور جزاک اﷲ کہیں۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ یہ شخص اور اس کو مسلمان جاننے والے کیسے مسلمان رہ سکتے ہیں؟
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2569متفرقات
2570خودکاشتہ پودا

مرزائی نمائندہ (امام جماعت مرزائیہ) مرزاناصر احمد صاحب نے خود کاشتہ پودے کے بارے میں کہا کہ خاندان کو کہاگیا ہے۔ مگر اٹارنی جنرل صاحب نے (ان کے مرید قادیانی) ممبروں کی لکھی ہوئی فہرست بتائی جو مرزاجی نے وہیں لکھی ہے۔ گویا مرزاجی اس فرقہ کو خود کاشتہ پودا کہہ رہے ہیں۔
ہم کہتے ہیں چلو مرزاجی کا خاندان ہی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوا تو مرزاجی اسی انگریزی پودے کی شاخ ہوئے۔ اگر وہ پودا پلید ہے تو پودے کی شاخیں کس طرح پاک ہوسکتی ہیں؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اتمام حجت
مرزاناصر احمد صاحب نے عام مسلمانون کو بڑا کافر کہنے سے گریز کر کے چھوٹا کافر قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان پر اتمام حجت نہیں ہوئی۔ کیونکہ مرزاناصر احمد صاحب کے ہاں اتمام حجت کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے کا دل یہ مان جائے کہ بات تو سچی ہے پھر انکار کرے تو دنیا کے ستر کروڑ مسلمان تو مرزاجی کو کاذب ومفتری سمجھتے ہیں۔ ان پر ان کے ہاں اتمام حجت نہیں ہوئی۔ اس لئے یہ ملت اسلامیہ سے خارج یعنی بڑے کافر نہیں ہیں۔
لیکن خود کاشتہ پودا نے بڑی احتیاط سیکھی تھی۔ پہلے (ازالۃ الاوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) پر لکھ دیا کہ: ’’میں مثیل مسیح موعود ہوں۔ کم فہم لوگ مجھے مسیح موعود خیال کر کے بیٹھے ہیں۔‘‘ پھر بعد میں بڑے زور شور سے خود ہی مسیح موعود بن گئے اور جب دیکھا کہ علماء کرام کے سامنے دال نہیں گلتی تو فنافی الرسول کی آڑ لی اور عین محمد ہونے کا دعویٰ کر ڈالا۔
 
Top