• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(محترمہ بیگم نسیم جہاں کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
بیگم نسیم جہاں: آپ میرے صبر کی داد دیں۔ ریکارڈ میں خواتین کو اس قدر گالیاں دی گئیں۔ ان کی بابت اس قدر بری باتیں کہی گئیں۔ لیکن چونکہ میجارٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک لفظ نہ بولیں۔ اٹارنی جنرل کے Through (ذریعہ) بولیں۔ میں چپ کر کے بیٹھی رہی، کھڑی نہیں ہوئی۔ میں نے جو سوالات اٹارنی جنرل صاحب کو دیئے۔ وہ سوالات بھی کمیٹی نے نامنظور کئے۔ اس کے بعد جناب والا! آپ جانتے ہیں کہ میں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ کوئسچن کمیٹی (سوالات کمیٹی) میں کوئی خواتین ممبر نہیںہیں تو وہ بھی ماننا ٹھیک نہ سمجھاگیا۔ عورتوں کو اس قدرگالیاں پڑی ہیں۔
جناب چیئرمین: بیگم شیریں وہاب ممبر تھیں۔
بیگم نسیم جہاں: نہیں، جناب! بیگم شیریں وہاب اسٹیرنگ کمیٹی کی ممبر تھیں۔ وہ کوئسچن کمیٹی کی ممبر نہیں تھیں۔
2749جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
میاں محمد عطاء اﷲ: پوائنٹ آف آرڈر۔ جناب والا! میں بیگم صاحبہ کو یقین دلاتا ہوں۔ چونکہ میں بھی اتفاق سے کوئسچن کمیٹی کا ممبر ہوں۔ وہاں دوسرے ممبر صاحبان بھی موجود تھے۔ وہ بھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ خواتین کی بالکل کوئی بے عزتی نہیں کی گئی۔کوئی گالی نہیں دی گئی۔ قطعاً کوئی نازیبا لفظ عورتوں کی نسبت استعمال نہیں کیاگیا۔
بیگم نسیم جہاں: مجھے تو اپنی بات ختم کرنے دیں۔ جناب والا! میں نے چار، پانچ سوالات عورتوں کی بابت کئے۔ وہ بھی کوئسچن کمیٹی نے مناسب نہ سمجھے اور رد کر دیئے گئے۔ میں اب اپنا یہ اعتراض ریکارڈ میں لانا چاہتی ہوں کہ یہ سوالات کوئسچن کمیٹی نے رد کرنے تھے اور وہ سوالات کمیٹی کو کسی صورت میں پسندنہ تھے۔ عورتیں آپ کی بہنیں ہیں۔ بیویاں ہیں، مائیں ہیں، دادیاں ہیں،نانیاں ہیں۔ جناب سپیکر صاحب! آپ میرے صبرکی داد دیں۔ میں نے اپنے منہ سے ایک لفظ نہ بولا، اور اب بھی آپ نے بلایا ہے اس لئے کھڑی ہوئی ہوں۔ میں اپنے اس اعتراض کو بالکل جائز سمجھتے ہوئے کہتی ہوں کہ عورتوں کی جو بے عزتی ہوئی ہے۔ اگر اس کا ریکارڈ کبھی باہر نکلا تو کوئی عورت بھی اسے برداشت نہیں کرے گی۔ اس اعتراض کے ساتھ میں بیٹھ جاتی ہوں۔
Mr. Chairman: Thank you very much.
(جناب چیئرمین: بہت بہت شکریہ)
پروفیسر غفور احمد: جناب والا! میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن ممبران کے سوالات شامل نہیں کئے گئے تھے۔ ان کو رہبر کمیٹی میں Invite (مدعو) کیاگیا تھا تاکہ وہ اپنااطمینان کر لیں۔ اگر محترمہ بیگم نسیم جہاں صاحبہ کو عورتوں کے ساتھ اتنی ہی ہمدردی تھی تو پھر کمیٹی میں حاضر کیوں نہ ہوئیں؟ میں کمیٹی میں موجود تھا۔ چیئرمین راہبر کمیٹی نے کئی مرتبہ ان کا نام پکارا۔ لیکن وہ وہاں موجود نہ تھیں۔ اس لئے اب ان کی شکایت جائز نہیں۔
2750دوسری بات جناب والا! یہ ہے کوئسچن کمیٹی راہبر کمیٹی نے ہی ایلیکٹ کی، جس میں خواتین کی نمائندگی تھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ میں یہاں کمیٹی میں موجود رہا ہوں۔ یہاں خواتین کی کوئی بے عزتی نہیں کی گئی۔ بلکہ ان کی عزت کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں جس نے بتایا ہے غلط بتایا ہے اوربیگم صاحبہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ممبران کمیٹی نے ہر موقع پرخواتین کی عزت کو ملحوظ رکھا ہے۔
بیگم نسیم جہاں: جناب والا!
جناب چیئرمین: ایک منٹ ٹھہریں۔
پروفیسر غفور احمد: آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟ راہبر کمیٹی میں عورتوں کی نمائندگی تھی۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم عورتوں کی عزت کریں۔ عورتیں ہماری بہنیں ہیں، مائیں ہیں۔
(محترمہ نے اپنے زور کلام میں بیویاں بھی کہہ دیا)
بیگم نسیم جہاں: جناب والا! مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔ مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ کوئسچن کمیٹی اور راہبر کمیٹی میں کوئی فرق ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اس لئے میں نے یہ سمجھا کہ وہاں راہبر کمیٹی میں بیگم شیریں وہاب موجود ہیں، وہ نمائندگی کر رہی ہیں۔ انشاء اﷲ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جناب چیئرمین! میرا ریکارڈ شاہد ہے کہ میں نے پورے ہاؤس میں یہ احتجاج کیا کہ کوئسچن کمیٹی میں ہمارے سوالات کو رد کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا ریکارڈ شاہد ہے کہ میں نے روزانہ اس اسپیشل کمیٹی میں شرکت کی اور پوری توجہ سے ایک ایک بات کو سنتی رہی۔ آج بھی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے بخار ہے۔ ڈاکٹر نے مجھے ریسٹ کرنے کو کہا ہے۔ لیکن میں اپنے بھائیوں کی باتیں سننے کے لئے آئی ہوں۔ پروفیسر غفور احمد صاحب میرے آئینی کمیٹی میں پرانے کولیگ تھے۔ اب اسمبلی میں بھی اکٹھے ہیں۔ مجھے ان کا بڑا احترام ہے۔ میں نے وہ چار سوالات دیئے تھے 2751مگر رد کر دیئے گئے۔ کمیٹی میں جو گواہ (قادیانی ولاہوری) آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے عورتوں کے متعلق جو بھی بری باتیں کی تھیں۔ یہ تو اٹارنی جنرل صاحب کو چاہئے تھا کہ انہیں روک دیتے۔ میں تو ان سے پروٹسٹ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ تو آپ لوگوں نے یعنی میجارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم چپ رہیں۔ میں کوئی نکتہ اعتراض نہیں اٹھا سکتی تھی۔ لیکن جو میرے بھائی کوئسچن کمیٹی کے ممبر تھے۔ ان کا فرض تھا کہ اگر وہ عورتوں کی بے عزتی نہیں چاہتے تھے تو وہ اعتراض کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں یہ کہتی ہوں کہ عورتیں آپ کی بیٹیاں بھی ہیں۔ آپ کی مائیں بھی ہیں۔ آپ کی بیویاں بھی ہیں اور عورت کا جو رتبہ ماں کی حیثیت سے ہے۔ وہ مردوں سے بھی اونچا رتبہ ہے۔ کیونکہ ان کے پاؤں تلے جنت ہے۔ اس لئے ان ممبروں کا فرض تھا جو کہ ہمارے محترم نمائندے تھے۔ جو کہ کوئسچن کمیٹی کے ممبر تھے کہ یہ کوئسچن باہر نکال دیتے لیکن پھر بھی میں جناب سپیکر! چپ کر کے رات کے دس بجے تک بیٹھی رہی ہوں۔ بالکل منہ بند کئے ہوئے۔ اٹھی بھی نہیں۔ لیکن میرے بھائیوں نے کئی دفعہ اعتراض کیا ہے۔محترم پروفیسر غفور احمد نے بھی ایک اعتراض اٹھایا ہے اور محترم بھائیوںنے بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ لیکن میں نے نہیں اٹھایا۔ میں وقت پر بات کرتی ہوں۔ آج آپ نے مجھے بلایا تو میں نے بات کی۔ لیکن اب بھی کہتی ہوں کہ میں اپنا نکتہ اعتراض ریکارڈ پر لانا چاہتی ہوں اور انشاء اﷲ آپ کی وساطت سے ریکارڈ پر آ گیاہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں سے گالیاں پڑتی رہیں؟)
جناب چیئرمین: بیگم صاحبہ! تشریف رکھیں۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ عورتوں کو Representation (نمائندگی) نہیں مل سکی۔ لیکن بات یہ ہے کہ کوئسچن کمیٹی کے صرف پانچ ممبر تھے Out of twenty (بیس میں سے)اسٹیرنگ کمیٹی میں عورتوں کی نمائندگی تھی اور وہ نمائندگی بیگم شیریں وہاب کر رہی تھیں۔ تو باقی جو سوال گالیوں کا رہ گیا وہ تو سب نے کھائیں۔ عورتیں ہماری عزت ہیں، ہماری بیٹیاں، بہنیں ہیں۔ لیکن گالیاں تو یہاں سب کھاتے رہے۔ If you separate yourself from the general body of 2752Muslims (اگر آپ اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے الگ سمجھتی ہیں تو پھر آپ کی Complaint شکایت جائز ہے) لیکن جب سب کو بے نقط گالیاں پڑتی رہی ہیں تو you are not separate from us. If you are part and parcel of us, you should also have the patience of hearng the abuses. (آپ ہم سے الگ نہیں ہیں۔ اگر آپ ہمارا حصہ ہیں تو آپ کو گالیاں سنتے وقت حوصلہ رکھنا چاہئے) دیکھئے میری بات سنئے…
بیگم نسیم جہاں: جناب والا! ہم بھی ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں۔
Mr. Chairman: If you want to be separate from the general body of Muslims your complaint is justified.
(جناب چیئرمین: اگر آپ مسلمانوں سے اپنے آپ کو الگ سمجھتی ہیں تو آپ کی شکایت جائز ہے)
بیگم نسیم جہاں: جناب سپیکر! میں آپ کا احترام کرتی ہوں۔ خدانخواستہ میری زبان سے کبھی ناشائستہ الفاظ نکلیں۔ میں وہ دن نہیں دیکھنا چاہتی۔ میں آپ کو کہتی ہوں کہ ہم نے تو اپنے آپ کو علیحدہ نہیں سمجھا۔ عورتوں کی بابت علیحدہ سوالات کئے بھی گئے ہیں اور سنے بھی گئے ہیں۔ میں یہ سوالات آپ کو بتا بھی سکتی ہوں اور جواب بھی بتا سکتی ہوں۔ محضر نامہ بھی دکھا سکتی ہوں کہ کس جگہ حوالے سے ہمارا ذکر آیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میںآپ کو اتنے ریفرنس پیش کر سکتی ہوں جہاں عورتوں کو علیحدہ کیاگیا ہے اور ان کو گالیاں دی گئی ہیں۔
Mr. Chairman: No, no, The ladies are part and parcel of us. (جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، عورتیں بھی ہمارا ہی حصہ ہیں)
بیگم نسیم جہاں: ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہم part and parcel (لازمی حصہ) ہیں۔ ہم ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں۔ لیکن آپ ہم کو ان سوالوں کی بناء پر علیحدہ کر رہے ہیں۔
Mr. Chairman: No,They are part and parcel.
(جناب چیئرمین: نہیں وہ بھی ہم میں شامل ہیں)
شہزادہ سعید الرشید عباسی: جناب والا! میں یہ عرض کروں گا کہ آپ نے یہاں فیصلہ کیاتھا…
2753Mr. Chairman: That is all. I am sorry for anything.
(جناب چیئرمین: یہ مکمل ہوا۔ میں کسی بھی چیز کے لئے معذرت خواہ ہوں)
Sardar Moula Bakhsh Soomro: Sir, It should be decided which section has abused the lady. If those people who came here as witnesses, they have abused our mothers also, that this was not Qadiani, this was no Ahmedi, so and so.
(سردار مولا بخش سومرو: جناب والا! اس کا فیصلہ ہونا چاہئے کہ کس گروہ نے عورت کو گالی دی ہے۔ اگر وہ لوگ جو یہاں بطور گواہ کے آئے تھے تو انہوں نے ہماری ماؤں کو بھی گالیاں دی ہیں۔ کیونکہ وہ قادیانی اور احمدی نہیں ہیں)
Mr. Chairman: We are all part and parcel of the same body. (جناب چیئرمین: ہم سب جسد واحد کا حصہ ہیں)
Sardar Moula Bakhsh Soomro: But I want to know from Begum Sahiba to whom she refers.
(سردار مولا بخش سومرو: لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ بیگم صاحبہ کن کا حوالہ دے رہی ہیں)
Mr. Chairman: She is just raising her resentment. That is all.
(مسٹر چیئرمین: وہ صرف اپنی آزردگی کا اظہار کر رہی ہیں۔ بس!)
Mian Muhammad Ataullah: I want to bring one thing on record that as a member it is my duty…
(میاں محمد عطاء اﷲ: میں یہ بات ریکارڈ پرلانا چاہتا ہوں کہ بطور ممبر میرا فرض ہے کہ…)
جناب چیئرمین: کوئی ضرورت نہیں ریکارڈ پر لانے کی۔
Mian Muhammad Ataullah: …To infrom Begum Sahiba, through you, that we disallowed all question concerning Muhammadi Begum and the Attorney-General did not put that question. only in the Mahzar Nama of Maulana Abdul Hakim he brought out this matter and he dealt with it at lenght.
(میاں محمدعطاء اﷲ: میں آپ کی وساطت سے بیگم صاحبہ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ہم محمدی بیگم سے متعلق سوالات کی اجازت نہیں دی اور اٹارنی جنرل نے یہ سوالات نہیں کئے۔ صرف مولانا عبدالحکیم نے اپنے محضر نامہ میں یہ مواد پیش کیا اوراس پر تفصیلی بات کی)
Begum Nasim Jahan: Mr. Chairman, Sir, my question did not concern Muhammadi Begum, Now I am forced that my revered collegue does not know what question I asked.
(بیگم نسیم جہاں: جناب چیئرمین! میرا سوال محمدی بیگم سے متعلق نہیں ہے اور میرے محترم ساتھی کو یہ تک پتہ نہیں کہ میں نے کیا سوال کیا)
Mr.Chairman: I am sorry, I appologise.
(مسٹر چیئرمین: میں معذرت خواہ ہوں۔ میں معافی چاہتاہوں)
Begum Nasim Jahan: Sir, let us clarify this point. My question concern did not Muhammadi Begum. I will now tell you what my question was. Sir,before you, I raised the question that the witness…and this answers our friend on the other side…raised the important point.
(بیگم نسیم جہاں: جناب والا! ہمیں اس نکتہ کی وضاحت کرلینی چاہئے۔میرے سوال کا محمدی بیگم سے کوئی تعلق نہیں۔ میں بتاتی ہوں کہ میرا سوال کیاتھا۔ جناب والا! میں نے یہ سوال کیاتھا کہ گواہ اور دوسری طرف میرے دوست کے جواب سے ایک اہم نکتہ پیدا ہواتھا)
میں اردو بولتی ہوں۔ Witness (گواہ) کا مؤقف یہ تھا کہ چونکہ آنحضرتﷺکی مرد اولاد نہیں تھی اور عورت اولاد تھی۔ روحانی طور پر عورت اولاد ان کا 2754پیغام بقاء کے لئے نہیں بن سکتی۔ اس لئے ہمیں ایک مرد روحانی پیغمبر کی ضرورت تھی۔ اس پر میں نے چار پانچ سوالات کئے تھے۔ پانچ سوالات کئے تھے کہ کیا آپ کے فرقے کے ممبر مولانا محمد علی تھے۔ انہو ں نے یہ نہیں مانا کہ عورت پر بھی وحی آتی تھی۔ میں نے آیات قرآن کریم پیش کی تھیں اس سلسلے میں۔ میں نے یہ کوئسچن کئے تھے۔ چونکہ ان کی بنیاد یہی ہے اور وہ شروع سے عورتوں کو ان کا مقام نہیں دیتے اور U.N. Human right (اقوام متحدہ کے انسانی حقوق) کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہتے اس میں عورتوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ہیں۔ خدانخواستہ، خدانخواستہ (نعوذ باﷲ من ذالک) رسول ﷺ کی چونکہ عورت اولاد تھی۔ اس لئے روحانی مقام نہیں حاصل کر سکی۔ اسی Base (بنیاد) پر میں نے کوئسچن کئے تھے۔ ان سوالوں میں محمدی بیگم کا ذکر نہیں تھا۔ میں ایسی انسان نہیں ہوں کہ ان چیزوں میں پڑ جاؤں کیونکہ مجھے Basic (بنیادی) چیز سے اختلاف ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی رو سے مرد اور عورت مساوی حقوق رکھتے ہیں۔
جناب چیئرمین: میاں عطاء اﷲ صاحب اور کچھ کہنا ہے تو کہہ لیں۔
Yes, if there is any other point, any other clarification, you can say it.
(ہاں ،اگر کوئی اور نکتہ ہے یا کوئی وضاحت ہے تو آپ بات کر سکتے ہیں)
Mian Muhammad Attaullah: One word will make half an hour speech, Sir.
(میاں محمد عطاء اﷲ: ایک لفظ آدھ گھنٹہ کی تقریر بن جائے گا)
Mr. Chairman: You can clarify your position.
(مسٹر چیئرمین: آپ اپنی پوزیشن واضح کر سکتے ہیں)
خواجہ غلام سلیمان تونسوی صاحب! آپ نے اس موضوع پر کہنا ہے؟
خواجہ غلام سلیمان : جناب والا! میں لکھ کر دوں گا۔ کافی سارا لکھا ہوا ہے۔ اس پر وقت ضائع ہوگا۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔ کل تک دے دیں۔
So nobody is prepared now, So, we will meet at 5:30 in the evening. Thank you very much.
(اس وقت کوئی تیار نہیں ہے۔ لہٰذا شام ساڑھے پانچ بجے ملیں گے۔ بہت بہت شکریہ!)
2755[The Special Committee adjourned for lunch break to meet at 5:30 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کااجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے لئے شام ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کردیاگیا)
[The Special Committee met after lunch break. Mr.Chairman (Sahibzada Farooq Ali)in the Chair.]
(دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد خصوصی کمیٹی کااجلاس شروع ہوا۔ جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کررہے ہیں)
Mr. Chairman: Should we start?
(جناب چیئرمین: ہم شروع کریں؟)
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری!آپ کی وہ ۳۷ دستخطوں والی کتاب ہے میرے پاس۔ جن کے دستخط ہیں ناں جی، وہ ممبران صرف پانچ دس منٹ تقریر فرمائیں گے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: بہت اچھا جی۔
جناب چیئرمین: یہ ممبران جنہوں نے دستخط کئے ہیں۔ یہ پابند ہیں دو Choices (اختیار) تھے۔ یا تو لکھ کر دے دیں یا زبانی۔ جو زبانی کہیں گے ان پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ اچھا جی، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب!I will request the honourable members to be attentive. (میں معزز ممبران سے گزارش کروں گا کہ وہ متوجہ ہو جائیں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: محترم چیئرمین صاحب! یہ بحث جس سلسلہ میں چل رہی ہے۔ آج تک اﷲ کے حبیب محمد رسول اﷲ ﷺ کے خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی میں کوئی اشتباہ کبھی نہیں رہا او ر امت مسلمہ اس مسئلہ کو یقینی طور سے ہمیشہ ہمیشہ سے جانتی ہے۔ لیکن یہاں چند دنوں تک مرزائیوں نے جو اپنے محضرات اور اپنے مضامین پیش کئے۔ ان میں اور جرح کے دوران بار بار یہ بات آئی کہ مرزا صاحب پر وحی ہوتی تھی اور پھر اس کے بعد یہ بھی کہتے تھے کہ وہ نبی تھے۔ رسول بھی تھے۔ لیکن امتی نبی تھے۔ اس قسم کی باتیں آتی رہیں۔ اس سلسلہ میں تین چار موضوعات پر گفتگو کروںگا۔
2756پہلی بات یہ ہے کہ وحی کا لفظ قرآن کریم میں کئی معنوں میں مستعمل ہے۔ وحی کے اصل معنی عربی زبان میں خفیہ اشارہ کے ہوتے ہیں۔ پوشیدہ اشارہ کے ہوتے ہیں اور اس اعتبار سے یہ لفظ عربی زبان کے اعتبار سے قرآن مجید میں اس معنی میں مستعمل ہے۔ اشارے کے معنی میں، جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ انہوں نے باہر نکل کر اپنی قوم سے یہ کہا۔ ’’ فخرج علیٰ قومہ من المحراب فاوحیٰ الیہم ان سبحوا بکرۃ وعشیا (مریم:۱۱)‘‘
کہ تم صبح شام تسبیح الٰہی کرو۔ یہ اشارہ کیا انہوں نے۔ اس طریقے سے سورئہ مریم میں ہے۔’’ فاوحیٰ الیہم ان سبحوا بکرۃ وعیشیا (مریم:۱۱)‘‘
کہ انہوں نے اشارہ کیا۔ کبھی کبھی وحی کا لفظ بمعنی دل میں القاء کے بھی آتا ہے۔ جیسے کہ ’’ واوحینا الیٰ ام موسیٰ (قصص:۷)‘‘
کہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرف ہم نے وحی کی۔ حالانکہ خو د قرآن حکیم میں یہ بتا چکے ہیں کہ کوئی عورت جو ہے، وہ نبی نہیں ہو سکتی۔ یہ قرآن مجید ہی نے بتایا۔ باوجود اس کے اس کا تذکرہ کیا۔ اسی طریقے سے وحی کے معنی کسی چیز کے دل میں کسی چیز کو ڈال دینا ہے۔ جیسا کہ’’ واوحیٰ ربک الی النحل (نحل:۶۸)‘‘
شہد کی مکھی کو اﷲ نے وحی کی۔ بلکہ آسمان و زمین کے اوپر بھی وحی الٰہی کا تذکرہ ہے۔ لیکن تمام چیزیں لغوی معنوں کے اعتبار سے وحی کہلاتی ہیں۔
جناب چیئرمین: آپ نے بھی لغت شروع کردی! یہاں سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی ہے۔ ایک سوال ان سے پوچھا تھا۔ اب لغت کو جانے دیں۔ ایک مسلمان کے جو عام تاثرات ہیں وہ بتائیں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: یہ علمی بات ہے۔
جناب چیئرمین: یہ علمی بات اس میں آنی چاہئے تھی۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: اس انداز میں سن لیں۔
2757جناب چیئرمین: نہیں جی، میں اسی انداز میں سنوں گا جو کتاب ہے۔ جو دستخط کی ہوئی کتاب ہے۔ ورنہ آپ کے دستخط کاٹ دیئے جائیں گے۔ جو وضاحت ہے اس میں کر دی ہے۔ اب آپ ان ریزولیوشن کے متعلق بات کریں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: جناب چیئرمین!میں عرض کرتاہوں کہ جہاں تک وحی نبوت اور رسالت کا تعلق ہے، اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو اس کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ اﷲ فرماتا ہے۔ ’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام:۱۲۴)‘‘
اﷲ ہی جانتا ہے وہ کس کو رسول بناتا ہے اور اﷲ تبارک تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی جیسے کہ نوح علیہ السلام اور ان نبیوں کی طرف وحی بھیجی جو ان کے بعد ہیں۔ اسی طریقے سے قرآن کریم میں فرمایاگیا مسلمانوں کے لئے: ’’ یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک (البقرہ)‘‘
کہ مسلمان وہ ہیںجو ایمان ایک بار لاتے ہیں۔ جو آپﷺ پر نازل کیاگیا اور اس پر جو پہلے نازل کیاگیا۔ معلوم یہ ہوا کہ اﷲ کے حبیب محمدﷺ کے بعد اب وحی کے نزول کا کوئی سلسلہ نہیں اور اس چیز کو قرآن کریم کی بے شمار آیات نے بتایا ہے۔ جیسے کہ پہلے کتاب میں لکھ کر دیا جا چکا ہے۔ بہت سی آیتیں ہیں جو اس موضوع کو بیان کرتی ہیں۔ تو اس لئے وحی نبوت ہے گویا وہ صرف نبی کو آ سکتی ہے۔ غیر نبی کو نہیں آسکتی۔ البتہ علماء کرام نے یہ بتایا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ چونکہ پہلے نبی ہو چکے ہیں۔ سارے مسلمان اس بات کو جانتے ہیں۔ کہ نبوت کبھی منسوخ نہیں ہوتی۔ و ہ دنیا میں جب تشریف لائیں گے، آسمان سے جب اتریں گے تو ان کی نبوت منسوخ نہیں ہوگی۔ لیکن حضرت محمدﷺ کے زمانے میں آنے کے وقت وہ نبی غیر تشریعی ہوں گے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جو عمل 2758کریں گے۔ وہ شریعت محمدﷺ پر عمل کریں گے۔ جیسے کہ دوسری حدیث میں فرمایا:’’اگر موسیٰ زندہ ہوتے ‘‘؎
’’ لوکان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی (الحدیث)‘‘
ان کو سوامیرا اتباع کرنے کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ تو یہ معنی علماء لیتے ہیں غیر تشریعی نبی کا۔ تو یہ نہیں کہ کوئی شخص کھڑا ہوکر دعویٰ کرے کہ میں نبی ہوں غیر تشریعی۔ یہ مرزا صاحب اور مرزا صاحب کو نبی ماننے والوں کا ایک دھوکہ ہے۔ اب بھی مسلمان اس بات کے قائل نہیں ہو سکے اور نہ ہو سکتے ہیں کہ نبی کریمa کے بعد کسی قسم کی نبوت کسی کو دی جائے۔
جناب چیئرمین: باقی انشاء اﷲ آئندہ نشست میں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: میری عرض سنیں۔ آپ گھبراکیوں گئے ہیں؟ آخر سارا دن پڑا ہوا ہے۔ کل بھی کرنا ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، آپ لکھ کر بھی دے چکے ہیں۔ آپ میں اوردوسروں میں فرق ہے۔ آپ توسارے دلائل لکھ کر دے چکے ہیں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: وہ تو لکھ کر دیئے۔
جناب چیئرمین: وہ ، یہ کی بات نہیں ہے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: ایک مثال یہ تھی کہ کسی مسلمان کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔
جناب چیئرمین: مثالوں کا جواب دیں گے تو دس دن لگیںگے۔ دس دن میں نئے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔اس ریزولیوشن کے متعلق بات کریں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: اسی ریزولیوشن کے متعلق ہی عرض کروں گا۔ ہم نے ریزولیوشن میں یہ کہا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کافر ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اسی سلسلے میں کئی دفعہ یہاں پر ناصر نے بھی اور اس کے بعد آنے والوں نے بھی یہ بتایا کہ 2759نہیں، ہم مسلمان ہیں۔ ہم کسی صورت میں کافر نہیں ہو سکتے۔ اس لئے کہ جب ایک شخص مسلمان ہو گیا تو اس پر اب کفر نہیں آ سکتا۔اس کے بعد انہوں نے قرآن مجید کی بعض آیات اور احادیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ اگر کوئی شخص تمہیں مل جائے اور تمہیں السلام علیکم کہے تو اسے کافر نہیں کہنا چاہئے۔ اصل میں ناصر نے یہاں دھوکہ دیا ہے۔ اصل آیت یہ نہیں ہے جو انہوں نے پیش کی ہے۔ بلکہ اصل آیت پیش کرتاہوں تاکہ یہ مسئلہ باالکل واضح ہو جائے۔ میں اس کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ آیت یہ ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم اﷲ تعالیٰ کے راستے میں سفر کرو تو غور کرو اور نہ کہو ان کو جو تمہیں سلام کہے کہ تم مومن نہیں ہو۔ تمہارا مقصد ان سے دنیا وی مال لینا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ آخر میں فرمایا کہ پہلے تم اس قسم کے لوگ تھے کہ لوگوں کو مال لوٹنے کے لئے لوگوں کو قتل کر دیتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ جائز نہیں ’’فتبینوا‘‘ اس آیت میں دو جگہ یہ فرمایا گیا۔ یہ ہوا تھا کہ ایک بدو چلا جارہا تھا۔ اس کے پاس بکریاں تھیں۔ مسلمانوں کے سامنے سے گزرا تواس نے کہا السلام علیکم۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ کافر ہے، خواہ مخواہ سلام کر کے اپنی بکریاں بچانا چاہتا ہے۔ اس کو قتل کرکے بکریاں چھین کر لے آئے۔ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ راستے میں اگر کوئی سلام کہے تو اسے کافر مت سمجھو۔ بلکہ اس پر اچھی طرح غور و خوض کر لو اور ایسا نہ ہو کہ مال کے لالچ میں ایک آدمی کو کافر کہہ کر قتل کر دو۔ حالانکہ وہ مومن ہو۔ یہاں پر یہ نہیں کہا کہ جو السلام علیکم کہے وہ مومن ہے۔ بلکہ فرمایاگیا کہ اس معاملے میں غور وخوض کرلو اور سوچو۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ محض یہ بات نہیں کہ جو آدمی السلام علیکم کہے، وہ مومن ہو جاتا ہے۔ بلکہ اس کے بارے میں حالات پر غور کرنا پڑے گا اور مرزائیوں کے حالات پر تمام پوری کتابوں پر غور کرنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ وہ حضور ﷺ کے بعد نئی نبوت کے قائل ہیں۔ اس لئے وہ مسلمان نہیں ہوسکتے۔
2760دوسری بات انہوں نے ایک حدیث پیش کی ہے جو مرزا ناصرا حمد نے غلط پیش کی ہے۔ آپ ان کے الفاظ دیکھ لیں۔ اس میں یہ ہے کہ کسی نے کسی کو کافر کہا وہ کافر ہے۔ وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ حدیث یوںنہیں ہے۔ بلکہ مسلم شریف کے الفاظ اور اس کامفہوم یہ ہے: (عربی)
’’جس نے کسی دوسرے کو کافر کہا ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ اسی مسلم شریف کی ایک دوسری روایت یہ ہے کہ: (عربی)
’’اگر وہ شخص جس نے دوسرے کو کافر کہا، اگر وہ واقعی کافر ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ ورنہ وہ کفر اس کی طر ف لوٹ کر آئے گا۔ یہ یقینی ہے۔ ‘‘
اس لئے علماء بھی صلحاء بھی انبیاء اور خود سید الانبیاء بلکہ قرآن کریم نے یہ بات فرمائی ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے مسلمان ہوئے، پھر کافر ہو گئے۔ اس قسم کی بے شمار آیتیں ہیں۔ یہاں پر میں نے صرف گیارہ آیتیں لکھی ہیں۔ (عربی)
’’بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم یوم آخرت اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مومن نہیں۔ محض کسی کا کہہ دینا کہ میں مومن ہوں، اس سے وہ مومن نہیں ہو جاتا۔‘‘ بلکہ یہاں فرمایاگیا: (عربی)
’’پہلے وہ مسلمان تھے، پھر انہوں نے کفر کیا۔‘‘ (عربی)
’’اگر پھر کفربڑھتا ہی رہے تو ان کی توبہ قبول نہیں ہے۔‘‘ اس قسم کی بے شمار آیتیں ہیں۔ جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک آدمی پہلے مسلمان ہوتا ہے، پھر کافر ہو جاتا ہے۔ (عربی)
2761ان لوگوں نے زبان سے کلمہ کفر بکا۔ پہلے مومن تھے پھر کافر ہو گئے۔ جو آدمی اپنی زبان سے کلمہ کفر ادا کرتا ہے۔ اگر وہ اس سے توبہ نہ کرے تو یقینا کافر ہو جاتاہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس کے قائل ہیں۔ حتیٰ کہ خود مرزائیوں نے کہا، اگرچہ وہ غلط بات کہی تھی۔ لیکن یہ کہا کہ اگر کسی پر حجت تمام ہو جائے اور پھر وہ نہ مانے تو کافر ہو جاتاہے۔ حالانکہ ہم سب مسلمان تھے۔ ظاہر ہے یہ بات انہوں نے نہیں کہی۔ اتمام حجت کا مطلب انہوں نے کیا لیاہے؟
Sardar Moula Bakhsh Soomro: It was said here by the delegation that if anybody recites 99 times "Kufr" and there is only one ingredient of Islam. he is not a "Kafir", if he has said anything which is Un-Islamic. But it was said here if 99 times he does anything contrary to Islam, But one ingredient indicated that he is Muslim, "Kufr" does not in any way come on him. I will request this also be explained for me.
(سردار مولا بخش سومرو: یہاں ان کے (احمدیوں) کے نمائندگان کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ اگر کوئی شخص ننانوے مرتبہ کفریہ بات کہتا ہے اور اس میں اسلام کا صرف ایک حصہ ہے۔ تو وہ کافر نہیں ہے۔ اگر اس نے کوئی غیر اسلامی بات کہی ہے۔ لیکن یہاں کہا جارہاتھا کہ اگر کوئی ننانوے مرتبہ اسلام مخالف بات کرتا ہے۔ صرف ایک بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ تو پھر اس پر کفر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ میری درخواست ہوگی کہ اس کی وضاحت کر دی جائے)
مولانا عبدالمصطفیٰ الاازہری: بہت اچھا۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ جس پر اتمام حجت ہو جائے، مفہوم جو بھی لیا ہے انہوں نے،وہ ہے، پھر انکار کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔
جناب چیئرمین: مولانا! باقی تقریر لال مسجد میں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: سومرو صاحب نے ایک بات کہی وہ میں نے بتا دی۔
جناب چیئرمین: یہ سلسلہ تو پھر ختم ہی نہیں ہوگا۔ بھٹی صاحب اعتراض کریں گے۔ پھر حاجی صاحب کوئی اوربات پوچھ لیںگے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: ایک آدمی کی اگر ۹۹ وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ ایمان کی ہو، وہ مسلمان ہو، یہ فقہاء نے نہیں لکھا۔ یہ کہیں بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ قوم کہ کسی شخص نے ایک بات کہی ۔ اس بات میں ۹۹ وجوہ کفر کی نکلی ہیں۔ ایک وجہ اسلام کی نکلتی 2762ہے، ایک گفتگو ہے۔ اگر اس کے بعد ۹۹ تفاسیر کی جائیں تو وہ سب کفر ہوں گی۔ ایک کفر ایسا ہے جس میں اسلام ہو۔ اس قول کو کافر نہیں کہا جائے گا۔ یہ مفہوم ہے۔ گفتگو میں یہ نہیں کہ کوئی آدمی ایک دفعہ مسلمان ہو گیا تو وہ لوہے اور پہاڑ سے زیادہ مضبوط ہو گیا۔ کتنا ہی کفر کیوں نہ کرے، اﷲ اور رسول ﷺ کو گالیاں دیتا رہے۔ یہ مفہوم نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہی رہے گا۔ چونکہ صدر صاحب میری تقریر سے زیادہ محظوظ نہیں ہو رہے۔ اس لئے میں تقریر ختم کرتاہوں۔
جناب چیئرمین: میں نے اسی واسطے عرض کیا ہے کہ باقی لال مسجد میں۔ وہاں سب جا سکتے ہیں۔ یہاں میں ان سے پہلے سنوں گا جو لال مسجد نہیں جا سکتے۔ سید حیدر عباس گردیزی۔ We are not entering into these intricacies. (ہم ان پیچیدگیوں میں نہیں پڑنا چاہتے)
شہزادہ سعید الرشید عباسی: جناب والا! صبح انہوں نے پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا تھا کہ آپ کو چیئرمین ایڈریس نہیں کیا جاتا۔اب خود صدرکہہ رہے ہیں۔
Mr. Chairman: There are certain admitted facts.
(مسٹر چیئرمین: کچھ مسلمہ حقائق ہیں)
جناب عبدالعزیز بھٹی: جناب چیئرمین!
جناب چیئرمین: بھٹی صاحب!ان کے بعد۔
سید عباس حسین گردیزی: جناب والا! میری تقریر دس صفحوں کی ہے۔ اس لئے اگر مجھے ٹوکا نہ جائے توتسلسل قائم رہے گا۔
جناب چیئرمین: آپ شروع کریں انشاء اﷲ دس کے دو صفحے ہی رہ جائیں گے۔ اب ایک صفحہ پڑھ دیں۔ باقی سائیکلو اسٹائل کرا لیں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سید عباس حسین گردیزی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

2763سید عباس حسین گردیزی:

’’ الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علے خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا و نبینا ورسولنا المطلق وھادینا الی طریق الحق وشفیعنا یوم القیامۃ ابی القاسم محمدن المصطفیٰ و الہ الطیبین الطاہرین واصحابہ الاخیار المکرمین۔ اما بعد۔ فقد قال اﷲ تبارک وتعالیٰ وقولہ الحق۔یاایھاالذین امنو اتقواﷲ حق تقتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون (آل عمران:۱۰۲)‘‘
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ ایمان لانے کے بعد پوری طرح تقویٰ اختیار کرو اور مرنے سے پہلے یقین کر لو کہ تم مسلمان ہو؟ حکم باری کا لفظی ترجمہ یہ ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو اﷲ سے تقویٰ اختیار کرو جو حق ہے تقویٰ الٰہی کا اور ہرگز نہ مرنا تم مگر مسلمان۔‘‘ …یہ پیغام ہم سب کے لئے ہے۔ جو قرآن مجید کو آخری آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ اس پیغام کا لانے والا وہ صادق و امین رسول(ﷺ) جس کا نام نامی خدا تعالیٰ نے یوں لیا۔ ’’ وما محمد الا رسول ‘‘اور محمدﷺ نہیں ہیں مگر رسولﷺ، اوردوسری جگہ ارشاد ہوا:
2764’’ ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین و کان اﷲ بکل شی ء علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘
{اور نہیں تھے محمدﷺ باپ تمہارے مردوںمیں سے کسی کے لیکن وہ تو اﷲ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں اور اﷲ ہر چیز کا پہلے ہی سے اچھی طرح علم رکھنے والاہے۔}
پہلی آیت میں آنحضرتﷺ کی حیثیت متعین کی گئی ہے اور معجز نما طریقے سے کہا گیا ہے کہ ’’محمد مصطفیﷺ تو صرف رسول ہیں۔‘‘ اور دوسری آیت میں اس بات کو پھر دھرایا اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپﷺ کے بعد نبوت ختم ہے۔ آپ رسول اﷲ اور خاتم النّبیین ہیں… اسی کے ساتھ ارشاد ہوا اور اﷲ ہمیشہ سے ہر نکتے ہر بات ،ہرمسئلے کا علیم ہے…
اسے انسان کے ماضی اورحال اور مستقبل کے تمام معاملات و مسائل کا علم تھا اور اب بھی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کیا۔ اس نے اپنے رسول کو وحی کے ذریعے ’’قرآن مجید‘‘ عطاء کر کے آخری کتاب نازل کی۔ جس میں ہر خشک و تر کا علم ہے اور ہم سے کہاکہ میرا نبی اپنے ارادہ و خواہش سے کچھ نہیں بولتا۔ جب وہ بولتا ہے تو میری وحی اور میرے اشارے سے بولتا ہے۔ ’’ والنجم اذاھوی ماضل صاحبکم وماغویٰ ‘‘{قسم ہے ستارے کی، جب وہ جھکا تمہارا آقا، تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا نہ بہکا۔}
’’ما ینطق عن الھویٰ‘‘{اور وہ اپنی خواہش نفسانی سے کچھ بولتا ہی نہیں۔} ’’ ان ھو الا وحی یوحی ‘‘{وہ تو صر ف وحی ہوتی ہے جو انہیں کی گئی ہے۔}اس معصوم اور بلند مرتبہ رسول پاک ﷺ نے اﷲ کے تمام احکام بلاکم و کاست انسانوں تک پہنچائے اورتمام اوامر پر کامل و مکمل عمل کیا۔ ایسا عمل جس کی سند میں قرآن مجید نے فرمایا:’’ ولکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ ‘‘{رسول اﷲ کی سیرت اسوۃ حسنہ ہے} اور آنحضرت کامل و مکمل نظام زندگی لا چکے اور 2765انسان کے فلاح و بہبود کا قانون پہنچا چکے تو آیت اتری:
’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ‘‘{میں نے آج تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کر لیا۔}
قرآن مجید کی ان آیات سے ثابت ہوا۔
۱… دین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں کامل و مکمل ہوگیا۔ اﷲ کی نعمتیں تمام ہو گئیں اور اسلام بحیثیت دین کے اﷲ کا پسندیدہ دین ہے۔
۲… ہمیں حکم ہے کہ ہم دین اسلام پر ہی زندہ رہیں اور اسی دین پر دنیا سے اٹھیں۔
۳… اﷲ کا آخری رسول اور نبیوں میں آخری نبی ایک ہی ہے جس کا نام اور اسم گرامی محمد مصطفی ﷺ ہے۔
۴… آنحضرت ﷺ کا اسوئہ حسنہ ہی قابل اتباع ہے اور اس کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کے سوا کسی غیر کو مقتدأ مانتا ہے اور اس کے طریقہ کو اسوئہ حسنہ پیغمبر سے بہتر جانتا ہے تو وہ مذکورہ بالا حقائق کا منکر ہے۔ اس کے نزدیک نہ محمدمصطفی ﷺ آخری رسول ہیں، نہ قرآن مجید آخری کتاب۔ نہ محمدمصطفی ﷺ کا دین اسلام کامل و مکمل دین ہے، نہ وہ اس دین پر مرنا چاہتا ہے۔ اس شخص کو مسلمان کہنا اسلام کی توہین، قرآن مجید کی توہین اور رسول پاک ﷺ ،خاتم النّبیین، خاتم المرسلین کی توہین ہے۔ اس بناء پر علماء اسلام نے ایسے شخص کو کافر کہا ہے اور ہمارے نزدیک جو بھی آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کونبی مانے اور کسی کتاب کو کتاب وحی خدا جانے۔ وہ اس طرح کافر و نجس ہے۔ جس طرح دوسرے مشرک اور کافر نجس ہیں۔ نہ اس کے ہاتھ پاک، نہ ان سے رشتہ جائز، نہ ان سے معاشرت درست ہے۔ ہمارے مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے۔ حضرت شہید ثالث قاضی نور اﷲ شوستری نے ’’احقاق الحق‘‘ عقیدئہ نبوت کا آغاز ہی ان لفظوں میں کیا ہے: 2766’’ الاول فی نبوۃ محمد ﷺ اعلم ان ہذا اصل عظیم فی الدین وبہ یقع الفرق بین المسلم والکا فر‘‘ (احقاق الحق جلد دوم ص۱۹۰ طبع ۱۳۸۸ھ)
مسئلہ نبوت کے مباحث میں پہلی بحث نبوت حضرت محمد ﷺ پر گفتگو ہے۔ یاد رہے کہ دین کی یہ اصل عظیم ہے۔ اسی بنیاد پر مسلم اور کافر میں فرق قائم ہوتاہے۔
محمدمصطفی ﷺ کو نبی و رسول ماننے کا مطلب یہ ہے کہ بالفاظ قرآن کریم :’’ ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا ‘‘{جو تمہیں رسول حکم دیں اسے قبول کرو اور جس سے رسول روک دیں اس سے باز آ جاؤ۔}
اسی بناء پر مسلمان کا اعلان اور اس کا پہلا کلمہ ہے:’’ لاالہ الا اﷲ محمدرسول اﷲ ‘‘ ہم اس میں مزید کسی دعوے دار نبی ورسول کے لئے راستہ بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ علی ولی اﷲ ووصی رسول اﷲ ‘‘
جناب چیئرمین: میں عرض کرتاہوں کہ باقی سائیکلو سٹائل کرا کے ہم تقسیم کرا دیں گے۔
سید عباس حسین گردیزی: میرے خیال میں جناب!مجھے پڑھنے دیں۔
جناب چیئرمین: ابھی ایک صفحہ پڑھا گیا ہے۔
سید عباس حسین گردیزی: تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ میں کتنا جلدی پڑھ رہا ہوں۔
جناب چیئرمین: ہمارا ایمان بہت مضبوط ہے۔ یہ کمزور ایمان والوں کے لئے ہے۔
سید عباس حسین گردیزی: آگے بڑی اہم چیزیں ہیں۔ مجھے پڑھنے دیں۔ میں نے بڑی محنت کی ہے اور دیکھئے اس نے ہمارے فرقے پر جتنے attack (حملے) کئے ہیں۔ ان کاجواب لازمی ہے۔
2767ہم رسول اورنبی کو معصوم مانتے اور عصمت کو شرط نبوت مانتے ہیں۔ ہمارے علماء نے بالتفصیل لکھا ہے کہ نبی ہو یا رسول وہ آغاز عمر سے آخر زندگانی تک کوئی گناہ صغیرہ یا کبیرہ نہیں کرتا۔ سہو و نسیان،بھول چوک، غفلت اور جھوٹ، بلکہ کوئی اخلاقی یا کردار کی گراوٹ بھی اس کی ذات اس کے عمل اس کی ضمیر اس کی نیت اور ارادے سے دور رہتی ہے۔(دیکھئے سید مرتضیٰ علم الھدیٰ کی کتاب تنزیہہ الانبیاء کا مقدمہ ص۱) وہ ہر اعتبار سے سچا وہ ہر پہلو سے صادق ہوتا ہے اور ہر قسم کے جھوٹے سے مباہلہ کے لئے یہ کہہ سکتا ہے کہ:’’فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ یعنی دعوت و دین، عقیدہ و عمل جو بھی جھوٹا ہو اس پر ہم اﷲ کی لعنت سے دعا کریں۔
واقعہ مباہلہ سے ثابت ہے کہ رسول مقبول ﷺ ہر لحاظ سے طیب و طاہر،پاک و پاکیزہ اور معصوم تھے۔ اگر نبی معصوم نہ ہو، اگر وہ کفار کا حلیف ہو، اگر وہ دشمنان دین کا معاون ہو۔ اگر نبی و رسول اسلام کے مخالفوں سے مفاہمت کر لے، اگر اس کا کردار داغی ہو تو اس کی وحی پر بھروسہ اور اس کے قول پر اعتماد نہ رہے گا اور اس کا پیغام غلط و مشتبہ ہو جائے گا۔ تاریخی شواہد اور دوست دشمن اور معاصر گواہوں نے بلکہ مکے کے پورے معاشرے نے گواہی دی کہ محمد مصطفی ﷺ صادق و امین تھے۔ میں ان گواہیوں میں سے سب سے پہلے حضرت ابو طالب کا نام لیتا ہوں کہ وہ خاتم المرسلین ﷺ کے پہلے محافظ اور آنحضرت ﷺ کے مربی تھے۔ حضرت ابوطالب کا شعر ہے:
لقد علموا ان ابننا لا مکذب
لدیھم، ولا یعنی بقول الا باطل
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Dr.Mrs.Ashraf Khatoon Abassi.]
(اس مرحلہ پر جناب چیئرمین کی جگہ ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
2768سید عباس حسین گردیزی: ان سب لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمارا فرزند (محمد ﷺ ) جھوٹا نہیں ہے، نہ غلط باتوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ (دیوان شیخ الابطح ص۱۱)
او ر حضرت علیؓ نے فرمایا ہے: ’’اﷲ نے پیغمبروں کو بہترین سونپے جانے کی بہترین جگہوں میں رکھا او ر بہترین ٹھکانوں میں ٹھہرایا۔ وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی گزرنے والا چلا گیا تو دین خدا کو دوسرا لے کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ یہ اﷲ کا اعزاز محمد ﷺ تک پہنچا جنہیں پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین معدن اور نشوونما کے لحاظ سے بہت باوقار اصولوں سے پیدا کیا ۔ اسی شجرہ سے جس سے سب نبی پیدا کئے اور انہی میں سے اپنے امین منتخب فرمائے۔ آپ ﷺ کی عترت سب سے بہتر عترت اور قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ، جو سرزمین حرم میں ابھرا۔ بزرگی کے سایے میں بڑھا، جس کی شاخیں لمبی اور پھل لوگوں کی دسترس سے باہر۔ آپ ﷺ متقی لوگوں کے امام اور ہدایت حاصل کرنے والے کے لئے بصیرت۔ وہ چراغ جس کی لوضوفشاں اور ایسا ستارہ جس کی روشنی چھائی ہوئی ہے۔ ایسی چقماق جس کا شعلہ لپکتا ہوا۔ آپ کا کردار معتدل، آپ کا راستہ ہدایت۔‘‘
(نہج البلاغہ خطبہ ۹۳ حاشیہ محمد عبدہ طبع مصر ص۲۰۱)
حضرت علی علیہ السلام نے رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کے لئے اصل لفظیں یہ فرمائی تھیں’’سیرتہ القصد‘‘قصد کے معنی ہیں افراط تفریط سے بچا ہوا راستہ۔ اس سے مراد ’’عصمت‘‘ ہے کہ اس میں نہ گناہ اور نہ لغزش کی افراط ہے، نہ بے عملی او ر کاہلی کی تفریط۔ اسی اخلاق معتدل اور عصمت حقیقی کو قرآن مجید نے ’’خلق عظیم‘‘ سے یاد کیا ہے۔ ’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ اوربیشک آپ عظیم اخلاقی قدروں کے 2769مالک ہیں۔ آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے اسی عظمت کردار کو ’’عصمت‘‘ سے یاد کیا ہے اور علماء حدیث و عقائد نے نبی کے لئے عصمت کو شرط مانا ہے۔ مولانا دلدار علی لکھنوی کی ’’عماد الاسلام‘‘ جلد سوم میں اس مسئلے پر سب سے زیادہ تفصیل سے بحث ہے اور سید مرتضیٰ علم الہدیٰ نے ’’تنزیھہ الانبیائ‘‘ اسی مسئلہ پر لکھی ہے۔ علم کلام کی سینکڑوں کتابوں میں ہمارے علماء نے اس پربحث کی ہے اور انبیاء کی عصمت ثابت کر کے مضبوط عقیدے کی بنیاد استوار کی ہے۔ اس لئے ایک شخص کو نبی ماننا جو غلطی در غلطی کرتا ہو۔ اصول اسلام سے انحراف اور سنت اﷲ کی تردید ہے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ پر نبوت و رسالت اس لئے ختم ہے کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ کی تعلیم میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہوسکا۔ آپ ﷺ کی شریعت سے زیادہ جامع شریعت پیش نہ ہو سکی۔ آپ کی تعلیم میں کسی بات کو دلیل سے باطل نہ کیاجاسکا۔ بلادلیل معقول اور نافہمی سے کسی بات کا انکار در اصل ضد اور ’’ما اتاکم الرسول فخذوہ‘‘کی مخالفت ہے اور اسی غلط مخالفت کا نام کفر ہے۔ مثلاً کوئی نماز کی فرضیت کا انکار کر دے ، کفر ہے۔ کوئی روزے کے وجود کو نہ مانے کفر ہے اور کوئی جہاد کو فرض و واجب ماننے سے سرتابی کرے ، کفر کا مرتکب ہوگا۔
قرآن مجید، رسول اﷲ ﷺ کا زندہ معجزہ اور آپ ﷺ کے خاتم النّبیین ﷺ ہونے کی دلیل محکم ہے۔ یہ مقدس کتاب وحی کا معیار معیّن کرتی ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت اس کا علمی مرتبہ، اس کی دعوت کا اسلوب لاجواب ہے اور اس کی وحی کے بعد وحی کا دعویٰ، قرآن مجید کا تمسخر ہے۔ لطف یہ ہے کہ قرآن مجید نے انبیاء کے لئے ایک اصول بتایا ہے۔ ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ اور ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔
سورہ ابراہیم کی اس آیت میں ’’بلسان قومہ‘‘ کہہ کر ہمیں ایک ضابطہ دے دیا گیا ہے۔ اگر 2770اب سے تقریباً سو برس پہلے پنجاب میں مرزا غلام احمد نے جو وحی کا دعویٰ کیا اور بقول اس کے یکے بعد دیگرے کتابیں آئیں تو انہیں پنجابی میں آنا چاہئے تھا۔ یہ بات کیا ہے کہ وہ کتابیں اردو میں آتی ہیں۔ عربی و فارسی میں آتی ہیں اور کبھی انگریزی میں اﷲ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک ہندو لڑکے سے سمجھنے کے لئے مدد لیتا ہے اور اگر اس کی قومی زبان اس وقت بھی اردو تھی تو پھر وحی کا معیار کم از کم میرا من کی ’’باغ و بہار‘‘ یا رجب علی بیگ کے ’’فسانہ عجائب‘‘ اور مرزا غالب کے خطوط کی زبان سے تو کمتر نہ ہوتا…
کتنی عجیب بات ہے کہ قوم کی زبان نبی کی زبان سے بہتر ہے اور نبی صاحب کی زبان کا کوئی معیار ہی نہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ اس مدعی نے اردو میں اپنے خیالات لکھ کر خود اپنے دعوے کا بھرم کھو دیا اور عقل مندوں کے لئے خدا کی حجت تمام ہو گئی کہ جو شخص بات کا سلیقہ اور ادب کا رشتہ نہ رکھتا ہو اس کی بات کا اعتبار کیا اور جس کی بات بے وقار ہو اس کا دعویٰ جھوٹ کے سوا کیا ہوگا اور جو اتنا بڑاجھوٹ بولے، جو اﷲ اور رسول ﷺ پر زندگی بھر افتراء کرتا رہے۔ جو اپنی گڑھنت کو خدا کی طرف منسوب کرے۔ اس کی سزا کم از کم یہ ہے کہ اﷲ کے ماننے والوں کے زمرے میں اس کا شمار جرم قرار دیا جائے۔
میں یہ عرض کررہا ہوں کہ نبوت ایک الٰہی منصب ہے۔ جسے خدا ہر ایک کے حوالے نہیں کرتا۔ قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے اور قیامت تک کے لئے اعلان فرما دیا ہے کہ:’’ لا ینال عھدی الظالمین ‘‘ میرا عہد ظالموں کے ہاتھ نہیں آسکتا اور ظالم کون ہے، قرآن مجید نے فرمایا ہے: ’’ ومن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شی ومن قال سانزل مثل ما انزل اﷲ، ولو تری اذاالظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوا ایدیہم اخرجو انفسکم الیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق وکنتم عن ایاتہ تستکبرون (الانعام:۹۳)‘‘
2771’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا، جو خدا پر جھوٹ موٹ افتراء کرے یا کہے مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس پر وحی ذرا سی بھی نہ آئی ہو اور وہ جو کہے تجھ پر ویسی ہی کتاب نازل کئے دیتے ہوں جیسے اﷲ نازل کر چکا ہے۔ کاش تم دیکھتے یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف جان نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور نکالو، اپنی جانیں، آج تم کوذلیل کن عذاب کا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ تم کہتے تھے اﷲ پر خلاف حق اور تم اس کی آیتوں سے اکڑا کرتے تھے۔‘‘
غور کیجئے مرزا جی اپنے آپ کو کبھی مریم کہتا ہے۔ پھر وہی اپنے آپ کو ابن مریم کہتا ہے اور وہی’’ اسے شراب خور بتاتا ہے۔‘‘(کشتی نوح ص۶۶،خزائن ج۱۹ص۷۱حاشیہ) انصاف کیجئے کہ ایسے افتراء پرداز اور اﷲ جیسی عظیم و اکبر ذات پر اس قدر بہتان باندھنے والے کی سزا کتنی سخت ہونا چاہئے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسی کو ارتداد کہتے ہیں اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
جناب عالی! اسی ماہ شعبان یعنی اگست ۱۹۷۴ء کے ’’کویتی ماہ نامہ الداعی الاسلامی‘‘ میں ص۱۰۶ پر،وزارت اوقاف و شؤن اسلامیہ کویت کے ترجمان نے مرزا غلام احمد کے دعویٰ ’’مسیح منتظر‘‘…روح مسیح اس میں اتر آئی ہے۔‘‘…’’اس پر وحی ہوتی ہے۔‘‘ان جیسے چند نکتوں کو پیش نظر رکھ کر ’’نفی جہاد‘‘ اور ’’انگریزوں کی غیر مشروط حمایت‘‘ کے پس منظر میں اس شخص اور اس کی جماعت کو اسلام کے خلاف منظم سازش اور اسلام کی جگہ ایک دین جدید بتایا گیا ہے اور یقینا ہر صاحب عقل و ہوش اس سازش کا قلع قمع کرنا چاہتا ہے اور میں سمجھتاہوں کہ یہ ایوان، علماء اسلام کے اس متفق علیہ فیصلے کونافذ العمل قرار دے گا کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کے دونوں گروہ جو مرزا غلام احمد کو صاحب وحی مانتے ہیں، اپنے اس عقیدے میں باطل پر ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے اس عقیدے کو صحیح مانتے ہیں۔ تو بقول علماء یہ سب کافر ہیں اور ایک ایسے دین کے پرستار ہیں جن کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں… یہ ایک اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے اور اقلیتیں ہمارے ملک میں رہتی ہیں یہ بھی ایک اقلیت ہے اور ملک میں رہتی ہے۔
نبی اور رسول ہونے کا یہ دعویٰ دار اور اس کی جماعت واضح طور پر اپنے ملفوظات، اپنے عقائد، اپنے اعمال، اپنے خود ساختہ نظام میں خود ہی ہم سے الگ ہے اور ہمیں کافر سمجھتی ہے اور حقیقی مسلمان نہیں جانتی۔ یہ لوگ کبھی رسولوں کی توہین کرتے ہیں۔ کبھی بزرگان دین کو سبک کرتے ہیں۔ ان کی مسلسل یہی کوشش ہے کہ کسی طرح مسلمان ذلیل ہو جائیں۔ مسلمان مشتعل ہو کر یا ان سے دست و گریبان ہوں یا آپس میں کٹ مریں۔ شیعہ سنی اختلاف ہو، شیعہ ہوں یا دیوبندی اور بریلوی، اہل حدیث ہوں یا حنفی۔ ایک گھر کے افراد، ایک سماج کے رکن، ایک دین کے پرستار ہیں۔ یہ فرزندان اسلام ناموس توحید و رسالت پرجان نثار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ سب توحید و رسالت و قرآن پر یکساں عقیدہ رکھتے ہیں۔ انہو ں نے قرآن کے مقابلے میں کبھی کسی کتاب کو رکھنے کی جسارت نہیں کی۔ انہوں نے نبی کے برابر کسی کونہیں مانا۔ ان کا ملجا ؤ ماویٰ ایک، ان کا مرنا جینا ایک، ان کا دستور ایک، یہ دونوں اسلام کی قدیم ترین تشریحیں ہیں۔ یہ دونوں دین اسلام کے دفتر کے دو صفحے ہیں۔ ان دونوں نے ہمیشہ دین پر جان قربان کی ہے۔ یہ دونوں ایک ساتھ مرے ہیں۔ انہوں نے اپنی موت گوارہ کی ہے۔ مگر ایک دوسرے کو موت سے بچایا ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام، رسول پاک ﷺ کے بھائی ہیں اور پروردئہ آغوش بھی، داماد بھی ہیں اورجاں نثار بھی۔ ان کے والد بزرگوار نے سب سے پہلے اﷲ کے آخری رسول ﷺ اور ان کے منصب کی حفاظت میں غیر معمولی جان فروشی اور بے مثال قربانی دے کر مسلمانوں کو سبق دیا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی جان اور آبرو، پیغام اور حقانیت پر آنچ نہ آنے دینا۔ مکے میں 2773جب تک ابوطالب زندہ رہے، آنحضرت ﷺ پر آنچ نہ آنے پائی۔ جب دیکھا کہ قریش نہیں مانتے تو اﷲ کے آخری نبی ﷺ کواپنے قلعے میں لے کر چلے گئے اور ’’شعب‘‘ میں اتنی سختیاں اٹھائیں کہ جب محاصرہ ختم ہوا اور اس کے دروازے کھلے تو ابوطالب فاقوں کی زیادتی اور غموں کی فراوانی سے اتنے کمزور و ناتواں، ضعیف و نیم جاں ہو چکے تھے کہ زیادہ دن دنیا میں نہ رہ سکے اور چند دنوں میں سفر آخرت فرما گئے۔
علیؓ اس عظیم باپ کے فرزند تھے۔ آپ نے شب ہجرت سے لے کر احد و بدر وحنین، خیبر و خندق بلکہ مباہلے تک ہر معرکے میں حق خدمت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اسی بناء پر رسول اﷲ ﷺ نے دعوت ذوالعشیرہ سے حجتہ الوداع تک ہر موقع پراپنا بھائی اور امت کا مولا کہا۔ حد یہ ہے کہ خود سرور عالم خاتم النّبیین ﷺ نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تشبیہہ حضرت ہارون نبی سے یوں دی ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘{تم مجھ سے وہی نسبت رشتہ اور وہی درجہ رکھتے ہو، تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون تھے۔} میں قربان ہوں حکمت و نگاہ نبوت پر۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جملہ اس پر تمام نہیں کیا بلکہ فرمایا:’’ الّا انہ لا نبی بعدی ‘‘{مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}اس لئے کہ کوئی علیؓ کو نبی نہ مان لے۔
رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق ہم مسلمان کسی ایسے شخص کو مسلمان نہیں مانتے جو علیؓ کو نعوذ باﷲ من ذالک، اﷲ یا اﷲ کے برابر مانتا ہو۔ یا جو شخص بھی حضرت علی علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کا حریف یا ہم منصب و ہم رتبہ سمجھتا ہو۔ وہ لوگ مشرک و کافر ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ سے مقابلہ، معاذ اﷲ!ہم تواتنا جانتے ہیں کہ اب تک نہج البلاغہ یعنی حضرت کے خطبوں کا مجموعہ بڑے بڑے عربوں کو حیران کئے ہوئے ہے اور صدیاں گزر گئی ہیں۔ مگر وہ خطبے ادب و فکر و فلسفہ اسلام میں اپنا جواب دیکھنے سے محروم ہیں۔ صدیوں سے پڑھنے والے پڑھتے اور شرحیں لکھتے چلے آئے ہیں۔ 2774مگر کسی نے کہیں نہ سنا نہ پڑھا کہ امیر المومنین یا ان کے ماننے والے اثنا عشری آپ کوصاحب وحی مانتے ہوں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: گردیزی صاحب کتنے Pages (صفحات) اور ہیں؟
سید عباس حسن گردیزی: بس جناب تین Pages (صفحات) اور ہیں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: تو پھر آپ نماز کے بعد پڑھنا۔ نماز کا ٹائم ہو رہا ہے۔
We break for Maghrib Prayers and then we will meet at 7:20 p.m. again.
(ہم نماز مغرب کے لئے وقفہ کرتے ہیں۔ سات بج کر بیس منٹ پر دوبارہ ملیں گے)
[The Special Committee adjourned for Maghrib prayers to meet at 7:20 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس نماز مغرب کے لئے سات بج کر بیس منٹ تک کے لئے ملتوی کر دیاگیا)
[The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers, Mr.Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس نماز مغرب کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ مسٹرچیئرمین صاحبزادہ فاروق علی صدارت کررہے ہیں)
جناب چیئرمین: کتنے صفحے باقی رہ گئے ہیں؟
سید عباس حسین گردیزی: جناب کوئی چارصفحے باقی ہیں۔
جناب چیئرمین: چار صفحے باقی ہیں، یعنی آدھا گھنٹہ لگے گا۔
Sayed Abbas Hussain Gardezi: It is a matter of little more than ten minutes.
(سید عباس حسین گردیزی: یہ دس منٹ سے کم کا مواد ہے)
Dr. Muhammad Shafi: We all agree that he should be given time.
(ڈاکٹر محمد شفیع: ہم سب متفق ہیں کہ انہیں وقت ملنا چاہئے)
Mr. Chairman: I will agree to what you agree.
(جناب چیئرمین: جس پر آ پ متفق ہیں۔ میں بھی اس سے اتفاق کروں گا) میں نے یہ پوچھا ہے کہ کتنے صفحے باقی رہ گئے ہیں۔
Dr. Muhammad Shafi: Thank you very much.
(ڈاکٹر محمد شفیع: بہت بہت شکریہ!)
2775مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: جناب والا! ہم سب لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ یہ باقاعدہ پورا پڑھیں۔
جناب چیئرمین: اچھا، آپ کو ایک موقع اور ملے گا۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: ضرور دیں۔
جناب چیئرمین: لازماً۔ آپ تو موجود نہیں تھے جب میری اور ان کی…
مولانا شاہ احمد نورانی: جناب والا! دیکھئے، بات یہ ہے کہ آپ ہمارے حقوق کے کسٹوڈین ہیں۔ ہمارے ساتھ اس ملک میں بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ بخدا میں نماز پڑھ کر آ رہا ہوں اور صحیح عرض کرتا ہوں کہ ہم نے رات دو گھنٹے تک پی آئی اے آفس میں مسلسل کوشش کی کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے والی فلائٹ پر ہمیں سیٹ مل جائے۔
جناب چیئرمین: آپ نے مجھ سے کیوں نہیں بات کی۔ آپ ٹیلی فون کرتے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ ایسا ہوتا۔
مولانا شاہ احمد نورانی: مولانا ظفر احمد انصاری کو اور مجھ کو دونوں کو انہوں نے آج صبح کی سیٹ نہیں دی اور ہم نے کہا کہ صاحب ہمیں ایم این اے کے کوٹہ میں سے سیٹ دے دیں تو انہوںنے کوٹہ سے سیٹ نہ دی۔ بارہ بجے کی فلائٹ پر انہوں نے سیٹ دی۔ اگر سیشن جاری ہو تو تمام سیٹیں کینسل کر کے ایم این اے کو پہلے سیٹ دینی چاہئے۔ مولانا انصاری صاحب کو بھی سیٹ نہیں دی آٹھ بج کر بیس منٹ کے plane (جہاز) پر اور مجھ کو بھی نہیں دی اور سوا بارہ بجے سیٹ دی۔
جناب چیئرمین: میری بات سنیں کہ کوٹے کے علاوہ M.N.A.'s should be given preference.(ممبران قومی اسمبلی کو ترجیح دینی چاہئے)
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: صبح کی 8:20 کے Plane (طیارہ) کی سیٹیں خالی تھیں۔ لیکن ہمیں سیٹ نہیں دی گئی۔
2776جنا ب چیئرمین: آپ مجھے لکھ کر دیں۔ میں باقاعدہ شکایت کرتا ہوں۔ You should have contacted me.
دوسری بات یہ ہے کہ رول یہ ہے کہ M.N.A's should be given preference while going to attend the session. (دوران اجلاس ممبران قومی اسمبلی کو ترجیح دینی چاہئے)
Maulana Shah Ahmad Noorani Sdiddiqi: Yes, during the session.
(مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: ہاں، دوران اجلاس)
Mr. Chairman: That I will do.
(جناب چیئرمین: یہ میں کرو ں گا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سید عباس حسین گردیزی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب) بقیہ
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: جناب والا!میں ابھی لکھ کر دیتاہوں۔ اس لئے تاخیر ہو گئی کہ…
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں۔ I am sorry (میں معذرت خواہ ہوں) مولانا سے میں نے یہی عرض کیا تھا۔ یہ تقریر کر رہے تھے تو میں نے کہا کہ آپ نے یہ سب کچھ لکھ کر دیا ہوا ہے۔ ۳۷کہیں اورجنہوں نے لکھ کر نہیں دیا ان کو زیادہ موقع ملنا چاہئے۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: دو چار باتیں جو اس نے بعد میں اٹھائیں… یہ ذرا پہلے تیار ہو گیا تھا…اس کی وضاحت علامہ صاحب فرمانا چاہتے تھے۔ ویسے یہ بیان متفقہ ہے۔
جناب چیئرمین: باقی میں نے کہا کہ کچھ فرمادیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: دو تین وضاحتیں رہ گئی تھیں، جو مرزا ناصر احمد نے جرح میں کیں۔ وہ باتیں اس میں آ نہ سکیں۔ کیونکہ یہ ذرا پہلے تیار ہو گیاتھا۔
جناب چیئرمین: میں نے عرض کیاتھا کہ کچھ یہ بیان فرما دیں۔ باقی لال مسجد میں ہم سن لیں گے۔ یہی بات میں نے کی تھی۔ سید عباس حسین گردیزی!
سید عباس حسین گردیزی: جناب والا!مجھے ہدایت ہوئی ہے ممبر صاحبان کی طرف سے کہ میں ذرا آہستہ آہستہ پڑھوں۔
2777جناب چیئرمین: نہیں، نہیں۔ یہ ہدایت بالکل غلط ہے۔ آپ تیزی سے پڑھیں۔
سید عباس حسین گردیزی: اصول دین و عقائد امامیہ کا طویل و ضخیم دفتر اس عقیدے سے خالی اور تمام شیعہ اس عقیدے سے بری ہیں۔ دراصل یہ الزامی جواب اور ڈوبتے میں تنکے کا سہارا ان لوگوں کی طرف سے ہے۔ جن کے دینی رہنماء نے اپنی تالیف (آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ص۵۶۴) پرلکھا ہے: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں، میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۴، خزائن ج۲۲ص۱۵۸)پرلکھا ہے:’’ھل ینظرون الّا ان یایتھم اﷲ فی ظلل من الغمام‘‘ یعنی ’’اس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا۔‘‘ یعنی انسانی مظہر(مرزا) کے ذریعے اپنا جلال ظاہر کرے گا۔ اور (حقیقت الوحی ص۱۰۵،خزائن ج۲۲ص۱۰۸)کی یہ بات :’’انما امرک اذ اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون‘‘یعنی’’ اے مرزا، تیری یہ شان ہے کہ تو جس چیز کو ’’کن‘‘ کہہ دے وہ فوراً ہو جاتی ہے۔‘‘
حضرت علی علیہ السلام کے خطبات کا مجموعہ ’’نہج البلاغۃ‘‘ امام زین العابدین کی دعاؤں کا مجموعہ’’ صحیفہ کاملہ‘‘ امام علی رضا علیہ السلام کی ’’فقہ الرضا‘‘ اور بعض آئمہ کی طرف سے منسوب کتابیں موجود ہیں۔ ان کے مطالعے سے اسلامی عقائد اور مسلمہ مسائل دین کے علاوہ، اﷲ کی عظمت، توحید کی جلالت اور حقیقت عبدیت و کمال بندگی کے سوا کوئی بات ثابت نہیں کی جا سکتی۔ یہ کتابیں تعلیمات رسول ﷺ کی ترجمان اور آنحضرت ﷺ کے دین حق کا اثبات ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت یہ ہے کہ خود رسول اﷲ ﷺ کی احادیث اور آپ کی ان قربانیوں پر قائم ہے جس پر طنز کرنے والا اسلام کا مذاق اڑاتا ہے۔
(ملفوظات احمدیہ ج۲ص۱۴۲ طبع ربوہ ۱۹۶۰ئ) کایہ جملہ کس قدر 2778مجرمانہ ہے:’’اب نئی خلافت لو، ایک زندہ علیؓ (مرزا) تم میں موجود ہے، اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔‘‘ یہ دریدہ دہنی اس علی علیہ السلام کے بارے میں ہے جس کے لئے رسول ﷺ نے فرمایا’’من کنت مولاہ، فہذا علی مولاہ‘‘ جس کا مولا میں ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں۔
مرزاناصراحمد نے اپنے محضر نامے میں جن غیر مستند اور بعض غیر شیعہ اثناء عشریٰ کتابوں کے حوالے دے کر شیعہ سنی اختلاف کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ وہ دراصل اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے۔ ان کے حوالے ناقص و غلط ہیں۔ ’’تذکرۃ الائمہ‘‘ نامی بے شمار کتابیں ہیں۔ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے محضر نامے کے صفحہ ۱۸۳ پر حوالہ در حوالہ جن کتابوں کو استعمال کیا ہے۔ نہ ان کے مؤلف کا نام ہے۔ نہ کتابوں کے صحیح نام۔ نیز ان میں سے کوئی کتاب نہ وحی ہے، نہ الہام، نہ شیعوں پر ان کتابوں پر ایمان لانا واجب ہے، نہ ان کی مندرجات کو صحاح کا درجہ اور نعوذ باﷲ قرآن مجید کا مقابل تصور کیاگیا ہے۔ امام کی ذات و صفات کی شرطیں سخت اور بالکل واضح ہیں۔
علم و عصمت کی شرط پر نبوت کے دعوے یا اس کی مماثلت کا شبہ کرنا ہی بے معنی ہے۔ حسن مجتبیٰ جنہوں نے حکومت پر اس لئے ٹھوکر ماری کہ نانا کا دین ان کی جنگ و جہاد سے کمزور نہ ہو جائے۔ جن کا فیصلہ تھا کہ میں رہوں یا نہ رہوں، رسول ﷺ اﷲ کا نام تو رہ جائے۔ جانشینی رسول ﷺ کا تقاضا ہی یہ تھا کہ حضرت امام حسنؓ ذاتی مسئلہ کو نظر انداز کرکے اسلام اور رسول اسلام کے مفادات کو وسیع تر معیار سے دیکھتے۔ امام حسن علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام امام ہوئے اور رسول اﷲ ﷺ کے جانشینی کا تاج امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک پر ضؤفگن ہوا۔

2779آں امام عاشقاں پور بتول سرد آزادے زبستان رسول
اﷲ اﷲ بائے بسم اﷲ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری ست
بہر حق در خاک و خون غلطیدہ ست پس بنائے لا الہ گردیدہ است
خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد
تیغ لاچوں از میاں بیرون کشید از رگ ارباب باطل خوں چکید
نقش الا اﷲ برصحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشت
رمز قرآن از حسین آموختیم زاتش او شعلہ ھا اندوختیم
تارما زخمہ از اش لرزاں ھنوز تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز

سید سرداران جنت، سید الشہداء علیہ السلام جن کے احسان سے مسلمانوں کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ کہہ رہے ہیں:

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین

اس عظیم امام کے لئے یہ مصرع کس قدر توہین خیز ہے کہ:

کربلا ئیست سیرہر آنم
صد حسین است در گریبانم

(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ص۴۷۷)
رسول آخر الزمان ﷺ تو فرمائیں ’’حسین منی وانا من الحسین‘‘{حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔}
’’احب اﷲ من احب حسینا وابغض اﷲ من ابغض حسینا‘‘{اﷲ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے جو حسین سے بغض رکھے۔}
اس کے بعدمرزا غلام احمد کی جسارت دیکھئے۔ دراصل ان کو اپنا منہ دیکھنے کے لئے گریبان کا رخ کرنا چاہئے۔
2780بات پنجتن تک آ پہنچی ہے تومرزا غلام احمد نے گل سرسبد، چمن رسالت، نور چشم ختمی مرتبت حضرت سیدہ کبریٰ فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی ہے۔ وہ ہر مسلمان کے لئے دل آزار ہے اور اسی گستاخی کی وجہ سے خدا نے مرزا جی کو بدترین موت دی۔ محترم حضرات! قادیانی اور لاہوری حضرات نے اپنے بیانات میں اقرار کیا ہے۔ دونوں کا اظہار ہے کہ غلام احمد پر وحی ہوتی تھی۔ ان کی بہت سی کتابیں آسمانی مانی جاتی ہیں۔ اس سے صاف صاف عیاں ہے کہ قادیانی اور لاہوری صاحبان براہ راست ایک ایسے شخص کی امت میں ہیں جو صاحب وحی ہے اور صاحب رسالت کبریٰ۔ حضرت محمدمصطفی ﷺ کو مجبوری کے طور پر یا ضمنی حیثیت سے جو بھی مانتے ہیں، وہ مانتے ہیں۔ ورنہ مرزا صاحب تو بقول خود نعوذ باﷲ مسیح زماں، کلیم خدا اور نقل کفر کفر نباشد۔ محمد و احمد تک بن بیٹھے ہیں۔ شاید موصوف کو ہندوؤں کا فلسفہ تناسخ یا آواگون کا یقین ہو گیا تھا۔ جبھی تو کہا ہے:

منم مسیح زمان ومنم کلیم خدا
منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد

(تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ص۱۳۴)
اور تو اور مرزا غلام احمد تو اپنے جھوٹ پر یہاں تک دلیری کر چکا ہے کہ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ص۲۳۱) میں کہہ دیا ہے: ’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
شاید ایسے ہی موقع کے لئے یہ محاورہ ہے’’ایاز قدر خود بشناس‘‘ میں اب زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا۔ صرف دو باتوں کی طرف ایوان کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
۱… 2781قرآن مجید کا حکم ہے :’’ واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘{اﷲ کی رسی سے وابستہ ہو جائیے اور انتشار سے بچئے}دشمنان اسلام مسلمانوں کو خانہ جنگی، اندرونی اختلاف اور فکری پریشانیوں میں الجھا کر ہم سے ایمان کی دولت چھیننا چاہتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ سے ہمارا رشتہ توڑنے کی فکرمیں ہیں۔ ہماری قوت کا سرچشمہ توحید و نبوت ہے۔ ہمار امرکز اتحاد قرآن ہے۔ ہمارا معاشرہ اسلام پرمبنی ہے۔ ہم نے ان مرزائیوں کی ریشہ دوانیاں بچشم خود دیکھ لی ہیں۔ جو قادیان سے کشمیر اور انڈونیشیا سے افریقہ تک اپنا نظام فکر و عمل پھیلا چکے ہیں۔ جو ہندوستان اور فلسطین میں منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ ہم ان سے محتاط رہیں اوراسلام کے قلعے میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیں۔ کافر کو کافر کہتے نہ ڈریں اور برطانوی استعمار کے سیاسی ہتھکنڈوں سے اپنا پیچھا چھڑائیں۔ آپس کی لڑائیوں کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ ’’دشمن رانتواں حقیر و بے چار شمرد۔‘‘
شیعہ سنی اپنے گھر میں لڑے، باہر والوں نے دونوں کی باتوں کو ریکارڈ کر کے ہماری تاریخ، ہمارے روابط، ہمارے معاملات سمجھے بغیر ہم دونوں کو غیر مسلم کہہ کر اسلام کے نام پر دعویٰ کر دیا۔ اگر اس دعوے کے فیصلے میں ذرا بھی غلطی ہوئی۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش سے کام نہ لیا۔ اگر خدانخواستہ پیر لڑکھڑاگئے تو کل تاریخ کہے گی:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آپ کے لئے مسئلہ صاف ہے۔ آپ نے دودھ میں پانی کی آمیزش دیکھ لی۔ آپ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ’’برعکس نہنند نام زنگی کافور۔‘‘
آپ نے تمام دنیا کے بڑے بڑے علماء کے فتوے پڑھ لئے۔ تمام مسلمانوں کے عقائد سمجھ لئے۔ آپ نے مرزا غلام احمد اور اب مرزا ناصر احمد اور ان کے ساتھیوں کے دعوے اور دلیل کا وزن پرکھ لیا۔ آپ نے ملک کے عوام کا مطالبہ سن لیا۔ اب دیر نہ کیجئے۔ مسلمانوں کو ان کے عقیدے اور ان کے دین سے محروم کرنے یا اس میں دخل دینے کے 2782بجائے، قادیانی یا بقول غلام احمد’احمدی‘‘ جماعت یا جماعتوں کو خارج از اسلام ماننے کا اعلان کر دیں۔
۲… عالم اسلام اور مسلمان مملکتوں سے اتحاد، مسلمان عوام سے برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا ہماری خارجہ سیاست کی اساس ہے۔ ہماری حکومت کسی پاکستانی شہری کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کرتی۔ نہ ہمارے عوام کسی پاکستانی شہری کو دکھ پہنچانے یا پریشان کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان حالات میں اگر قادیانی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے تو آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان کے عین مطابق ہو گا اور ہمارا ایوان اپنے ایک فرض کو پورا کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ اس سلسلے میں شیعہ علماء وفقہاء کے فتوے حاضر ہیں:
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مسئلہ ختم نبوت اور شیعہ
حضور ﷺ کا آخری نبی ہوناقرآن اور سنت اجماع و عقل سے ثابت ہے۔ قرآن پاک میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضور ﷺ کو خاتم النّبیین یعنی آخری نبی فرمایا ہے۔ خود حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس دجال آئیں گے۔ وہ دجال اس لئے ہوں گے کہ ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ میں نبی ہوں، حالانکہ میں آخری نبی ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (حدیث متفق علیہ)
حضور ﷺ کا انتقال ہو گیا۔ مولائے کائنات حیدر کرار علیہ السلام پرنم آنکھوں سے آپ کو غسل دے رہے ہیں اورفرماتے جاتے ہیں، یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ ﷺ کی وفات سے کچھ ایسی چیزیں منقطع ہو گئی ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی کی وفات سے منقطع نہیںہوئی تھیں۔ یعنی نبوت، احکام الٰہی اور اخبار آسمانی۔‘‘ (نہج البلاغت)
2783حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اب اﷲ تعالیٰ نے نہ قرآن پاک کے بعد کوئی کتاب بھیجی کیونکہ اس نے قرآن پاک کو آخری کتاب قرار دیا اورنہ ہی کوئی نبی۔ کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کو آخری نبی فرمایا۔ (اصول کافی)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد کو شیعی عقائد تعلیم فرمائے۔ نبوت کی وضاحت کرتے ہوئے کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں۔ (صفات الشیعہ صدوق)
ہر دور میں شیعہ علماء کا اس بات پر اجماع رہا کہ رسول اﷲ ﷺ خاتم النّبیین یعنی آخری نبی ہیں اور یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اس کا منکر مرتد ہے۔ اگر اسلامی حکومت ہو تو واجب القتل۔ چنانچہ حضرت مولانا شیخ محمدحسین نجفی مرحوم جو اس صدی کے شیعہ علماء میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اپنی کتاب اصل و اصول شیعہ جس کا ترجمہ علامہ ابن حسن صاحب نجفی نے کیا ہے۔ رضا کار بکڈپو لاہور سے شائع کیا ہے۔ صفحہ ۷۲ پر نبوت کے بیان میں فرماتے ہیں: ’’شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ راسخہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت یا نزول وحی کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے اور واجب القتل۔‘‘
ادارہ تبلیغ شیعہ راولپنڈی اور اسلام آباد نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے فوراً بعد مختلف شیعہ علماء سے ان لوگوں کے بارے میں جو رسول اﷲ ﷺ کے بعد کسی کو نبی مانیں کے بارے استفسار کیا۔ ان میں سے بعض کے بیانات درج ذیل ہیں:
حضرت مولانا سید نجم الحسن کراروی (پشاور) جو اسلامی مشاورتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کونسل میں شیعوں کے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں: 2784’’نبوت اصول دین کا جز ہے۔ ختم نبوت ضروریات دین میں داخل ہے۔ ضروریات دین کا منکر مرتد یا کافر ہے۔ جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو وہ کافر ہے اور کافر کی نجاست مسلم ہے۔ اسی طرح جو لوگ کسی شخص کو نبی مانتے ہیں حضرت نبی کریم ﷺ کے بعد وہ ہمارے نزدیک کافر ہیں۔ اس زمرہ میں مدعی نبوت بھی ہے۔‘‘
نوٹ از ادارہ… سابق مجتہد اعظم حضرت آقائے محسن الحکیم توضیح المسائل مفید صفحہ ۴۳ میں تحریر فرماتے ہیں:’’وہ مسلمان جو اﷲ یا پیغمبر خاتم النّبیین کا انکار کر دے یا ایسے حکم کا جس کو تمام مسلمان دین کا جز سمجھتے ہوں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ حکم ضروری نہیں ہے، انکار کر دے تو وہ مرتد ہو جائے گا۔‘‘
حضرت مولانا شیخ محمد حسین صاحب فاضل عراق( سرگودھا) جواب میں تحریر فرماتے ہیں:’’جو شخص ضروریات دین میں سے کسی امر کا انکار کرے وہ بالاتفاق دائرہ دین سے خارج متصور ہوتا ہے۔ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں جن پر اس دین کے پیروؤں کا باوجود اپنے کئی ایک داخلی اختلافات کے اتفاق و اجماع ہو اور منجملہ ان ضروریات کے ایک یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ لہٰذا جو شخص ان کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے یا جو شخص ایسے مدعی کی تصدیق کرے اس کے لئے دین اسلام کے دائرہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
حضرت مولاناحسین بخش صاحب قبلہ فاضل عراق پرنسپل دارالعلوم محمدیہ سرگودھا تحریر فرماتے ہیں: ’’حضور نبی کریم ﷺ کے بعد نبو ت کا دعویٰ کرنے والا کافر ہے اور کاذب نبی کو نبی ماننا بھی کفر ہے۔‘‘
2785حضرت مولانا ملک اعجاز حسین صاحب قبلہ فاضل عراق پرنسپل دارالعلوم جعفریہ خوشاب تحریر فرماتے ہیں:’’بالاتفاق مسلمین کاذب دعویٰ نبوت کرنے والا اور اس کو برحق نبی ماننے والا کافر ہے۔ کیونکہ معیار کفر فقط اﷲ اوراس کے رسول کا انکار ہی نہیں بلکہ ضروریات دین کا انکار بھی کفر ہے۔ اسی طرح چونکہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے۔ یعنی اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ لہٰذا اس کا منکر اور حضور ختمی مرتبت ﷺ کے بعد کسی کو نبی ماننے والا کافر ہے۔ مذکورہ حکم پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔‘‘
حضرت مولانا محمد جعفر صاحب خطیب مسجد شیعہ اور مولانا سید مرتضیٰ حسین صاحب صدر الافاضل لاہور تحریر فرماتے ہیں: ’’چونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت کا اقرار از روئے قرآن و حدیث ضروریات دین اور ارکان اسلام میں سے ہے۔ لہٰذا آنحضور ﷺ کی ختم نبوت کا منکر اپنی نبوت کا مدعی نہ بھی ہو، کافر و نجس العین ہے۔ چہ جائیکہ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے انکار کے ساتھ کوئی اپنی نبوت کا مدعی ہو۔ شیطان نے محض انکار نبوت کیا تھا۔ قدرت نے اس کو ملعون و کافر قرار دیا۔ حالانکہ اس نے انکار نبوت کے ساتھ اپنے نبی ہونے کا دعویٰ نہ کیاتھا۔ یہ ظاہر بلکہ اظہر ہے کہ اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ نے جب آنحضور ﷺ پرختم نبوت کا صریحی اعلان کر دیا تو ختم نبوت کا انکار حقیقتاً آنحضور ﷺ کی نبوت اور صداقت کا انکار ہے۔‘‘
حضرت مولانا مرزا یوسف حسین صاحب(میانوالی) تحریر فرماتے ہیں: ’’جمہور مسلمین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو شخص اصول دین یا ضروریات دین میں سے کسی جز کا منکر ہو وہ اسلام سے خارج ہے۔ آنحضرت ﷺ کا خاتم النّبیین ہونا اور آخری پیغمبر ہونا متفق علیہ ہے اورضروریات دین سے ہے۔ اس لئے 2786جو شخص آنحضرت ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے کسی کاذب مدعی نبوت کو مدعی تسلیم کرے وہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
حضرت مولانا سید گلاب حسین شاہ صاحب نقوی، پرنسپل مدرسہ مخزن العلوم الجعفریہ ملتان تحریر فرماتے ہیں: ’’نزد علمائے شیعہ امامیہ جھوٹا نبی کافر ہے اور اس کی نبوت پر ایمان رکھنے والا بھی یہی حکم رکھتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔‘‘
مولانا محمد بشیر صاحب انصاری فرماتے ہیں: ’’بعد حضرت ختمی مرتبت کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ جو دعویٰ کرے وہ کافر ہے اور اس کے ماننے والے بھی کافر ہیں۔‘‘
جناب چیئرمین: مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کل صبح۔ عبدالعزیز بھٹی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب عبدالعزیز بھٹی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

جناب عبدالعزیز بھٹی: جناب چیئرمین!اس معزز ایوان کی اسپیشل کمیٹی کے سامنے جو قراردادیں زیرغور ہیں۔ ان میں جو خاص بات زیرغور ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان میں پاکستان کے شہری ہیں اور وہ حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر یقین نہیں رکھتے، ان کا اسلام میں کیا مقام ہے۔ یہ مسئلہ زیرغور ہے۔ اس ضمن میں جو شہادت یہاں مرزا ناصر احمد صاحب نے دی اور اس کے بعد لاہوری جماعت کے صدر مولانا صدر الدین صاحب نے دی اور ان پر جرح ہوئی۔ بہت سے ایسے مقامات پر انہیں ہر طرح کا موقع دیا گیا کہ وہ اپنا پوائنٹ آف ویو پیش کریں۔ اس تمام جرح اور ان کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کچھ گزارشات کروںگا۔
میں لمبی چوڑی تقریر نہیں کرنا چاہتا۔ پہلی بات جو انہوں نے اعتراض کیا ہے وہ یہ تھا کہ اس اسمبلی کو ان قراردادوں پر غور کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس ضمن میں، میں ایک دو باتیں آئین کے حوالے سے عرض کروں گا۔ وہ یہ ہیں کہ جہاں تک پاکستان کے آئین کا تعلق ہے، اس میں آرٹیکل ۲ اس طرح کا ہے:
2787"Islam shall be the state relegion of Pakistan."
(اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا)
جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستا ن ایک ایسی اسٹیٹ ہے۔ جو مذہبی نظریات پر مبنی ہے۔ نہ کہ یہ کوئی غیر مذہبی سٹیٹ ہے۔ اس لحاظ سے میں سمجھتاہوں کہ ا س حکومت کی یہ ذمہ داری ہے اور یہ فرض بنتا ہے فیڈرل گورنمنٹ کا کہ وہ اسلام کے بارے میں، اسلام کی protection (حفاظت) کے لئے، اسلام کی ان متعین حدود کے لئے، اسلام کی بھلائی کے لئے، اسلام کو برقرا ر رکھنے کے لئے وہ ہر طرح کا قانون بنائے اور اس کی نگہبانی کرے اور اس ضمن میں اگر کوئی فرقہ کوئی جماعت، کوئی مذہب پاکستان کے اندر یا پاکستان کے باہر مذہب اسلام کے خلاف کسی قسم کی کوئی بات کرے، تو میں سمجھتا ہوں اس کا چیلنج اسے قبول کرنا چاہئے اوراس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں یہ ایک ذمہ داری بنتی ہے پاکستان کی حکومت پر۔
نمبر دو اس میں آرٹیکل ہے ۲۰۔اس میں ہے:
"Subject to law, public order and morality,
(اگر قانون، امن عامہ اور اخلاقیات اجازت دیں)
(a) every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion, and
(a)ہر شہری کو اپنے مذہب کو ظاہر کرنے، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہو گا اور…
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions.
(b)ہر مذہبی گروہ اور فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، انہیں برقرار رکھنے او ر انتظام کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
جہاں تک اس آرٹیکل کا تعلق ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکومت کو اور حکومت کی اتھارٹی جیسا کہ یہ ہاؤس ہے۔ لیجسلیٹیو باڈی کو یہ مکمل طور پراختیار ہے کہ وہ کچھ کسی حد تک قانون یہ بنائے کہ جس میں Public order and morality (امن عامہ اور اخلاقیات) جو ہے۔ وہ قائم ہو سکے اور اس ضمن میں یہ اسمبلی اگر کوئی قانون بنانا چاہے تو اسے پورا اختیار ہو۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آیا پاکستان کے لوگوں کو جو مسلمان ہیں وہ اگر یہ محسوس کرتے ہیں 2788کہ ان کے مذہب پر، ان کے Faith (عقیدہ) پر، ان کے ایمان، پر ایک ایسا فرقہ یا کچھ لوگ اس ملک کے اندر اس طرح سازشیں کر رہے ہیں جس سے ان کے مذہب کو، ان کے بنیادی حقوق کو، ان کے اپنے Faith (عقیدہ) کو، ان کے ایمان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تو کیا اس اسمبلی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی قانون بنائے کہ ان کے حقوق پر، ان کے Faith (عقیدہ) ایمان پر کوئی آنچ نہ آئے؟ ان کے Faith (عقیدہ) ایمان کا کوئی نقصان نہ ہو۔ یہ بات درست ہے کہ Fundamental rights (بنیادی حقوق) میں ہر کسی کو یہ حق ہے کہ اس کے معاملات ذاتی جو ہیں۔ اس طرح کے اس میں کوئی دخل نہ دے۔ لیکن یہ حق دوسروں کو بھی پہنچتا ہے اور یہ حق دوسرے کو بھی دینا چاہئے کہ انہیں کوئی حق نہیں۔
میں اس میں یہ وضاحت کرتا ہوں کہ اگر مرزائیت کے لوگ مرزائی جو ہیں یا قادیانی جو ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اپنے اس طرح کے Faith (عقیدہ) میں کوئی دخل اندازی نہ کرے تو انہیں بھی یہ حق دینا چاہئے ہم لوگوں کو یا دوسرے لوگوں کو، مسلمانوں کو، کہ ان کا جو حق ہے، ان کی جو سوچ ہے، ان کا جو faith (عقیدہ)ہے، وہ ان میں دخل اندازی نہ کریں۔ اسے خراب کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسے خلط ملط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مذہب اسلام مرز اصاحب کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ مذہب اسلام کی جو حدود ہیں۔ یہ جو کچھ اس کے اصول ہیں وہ اﷲ تعالیٰ نے متعیّن کئے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کا تعیّن کیا گیا ہے۔ اس میں اگر کوئی تبدیلی کرے گا تو یہاں جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ اسے چیلنج کریں کہ یہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہو اور یہ ذمہ داری ہے اس حکومت کی، اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ اعتراض جو ہے وہ قابل قبول نہیں اور اس اسمبلی کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسے چیلنج کرے۔
پھر ایک آرٹیکل ۳۱ جس میں یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ:
(1) 2789Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah."
(ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے کہ پاکستانی مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کے بنیادی تصورات اور بنیادی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں اور انہیںاس قابل بنایا جائے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کے معنی سمجھ سکیں)
اس سے بھی مطلب بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کے لوگوں کو جو مسلمان ہیں، انہیں اس طرح کی Facilities provide (سہولیات فراہم) کی جائیں، خواہ وہ قانون بنانے سے ہوں، خواہ کسی اور طریقے سے ہوں کہ وہ اس طرح کے حالات پیدا کریں کہ لوگ صحیح اسلام کو اپنائیں اور صحیح اسلامی زندگی جو ہے، اسے اپنا کر اپنی منزل تک پہنچیں۔ نہ کہ اس طرح کے لوگو ں کو اجازت دیں کہ جو مرضی ہے وہ چاہے اسلام کو بگاڑیں۔ طرح طرح کی تاویلیں کریں، طرح طرح کے معانی اور طرح طرح کی قرآن مجید کی وہ تاویلیں کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں۔ تو اس لحاظ سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اس طرح کی بات کرنے کی کوشش کرے تو یہ اسمبلی دخل اندازی کر سکتی ہے، قانون بنا سکتی ہے۔ انہیں منع کرنا چاہئے۔جو کچھ بھی Merit (میرٹ) پر فیصلہ ہوگا،وہ انہیں اپنانا چاہئے۔
ایک اور بات، انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ فیڈرل گورنمنٹ کی جو فیڈرل لسٹ ہے۔ یہاں کانسٹی ٹیوشن نے دی ہے اس میں یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ کوئی قانون بنائے یا اگر یہ کوئی سبجیکٹ تھا تو یا تو یہ اس صورت میں Residuary powers (باقی ماندہ اختیارات) میں آنا چاہئے اور وہ صوبائی حکومتوں کا ہے۔ میں اس ضمن میں یہ عرض کروں گا کہ فیڈرل لسٹ میں سیریل نمبر ۵۸ پر یہ فیڈرل گورنمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ ایسی کوئی چیز جو فیڈرل گورنمنٹ سے متعلقہ ہو،اس ضمن میں قانون بنائے۔ میں یہ اس لئے ریفر کر رہا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس دستور کو Amend (ترمیم) کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر (معیارات) 2790Merits پر کوئی فیصلہ ہو تو اس میں دستور کو Amend (ترمیم) کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک Simple (سادہ) یہ نیشنل اسمبلی یا پارلیمنٹ جوائنٹ سیشن میں یہ کسی طریقے سے قانون بن سکتا ہے اور وہ یہ ہے:
Serial No.58 of the Federal legislative list.
(وفاقی قانون سازی فہرست کا سیریل نمبر۵۸)
"Matters which under the Constitution are within the legislative competence of Parliament or relate to the Federation.
(ایسے معاملات جو آئین کے تحت پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار یا وفاق سے متعلق ہوں)
تو آرٹیکل ۲ اور ۲۰ اور۳۱ کے تحت یہ مسئلہ جو ہے، یہ فیڈرل گورنمنٹ سے متعلقہ ہے۔ اس لحاظ سے اس فیڈرل لسٹ کے اس سیکشن ۵۸ کے تحت یہ قانون بنایا جا سکتا ہے۔ اور آخری بات کہ آیا یہ اسمبلی مجاز ہے یا نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق چونکہ انہوں نے خود نیشنل اسمبلی کو، سپیکر نیشنل اسمبلی کو یہ لکھا کہ ہمیں بلایا جائے، ہمیں سنا جائے۔ انہوں نے By conduct surrender (عملی طور پر تسلیم کرنا) کیاہے۔ یہاں آکر انہوں نے سٹیٹمنٹ دی ہے اور انہوں نے اس بات کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ یہ اسمبلی مجاز ہے تو اب وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ اس اسمبلی کو اختیار نہیں۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک ان کے اس اعتراض کا تعلق تھا یہ رد ہوتا ہے۔
اب رہا مسئلہ Merit (معیار) پر کہ آیا وہ لوگ عقیدے کے لحاظ سے مسلمان ہیں یا نہیں ہیں، ان کامذہب کیا ہے۔ ان کا ایمان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں بے شمار اس پر تقریریں بھی ہوئیں، شہادت بھی لی گئی ہے۔ جرح بھی ہوئی ہے اور معزز ایوان کے بے شمار ممبران نے طرح طرح کے حوالے بھی یہاں ہاؤس میں پیش کئے ہیں۔ تو ایک بات میں بڑے واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوںکہ اس کا وہ بھی انکار نہیں کرتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم مرزاغلام احمد کو نبی مانتے ہیں۔ کس طرح کا نبی مانتے ہیں یہ ایک تاویل کی بات ہے۔ یہ ایک ان کے اپنے مطلب کی بات ہے۔ کبھی ظلی کہتے ہیں، کبھی بروزی 2791کہتے ہیں۔ کبھی چھوٹا کہتے ہیں، کبھی بڑا کہتے ہیں۔ بہر حال یہ بات طے شدہ ہے اور جب خود انہوں نے مانا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاؤس کے ممبران کو اس طرح کے حوالے پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ نبی مانتے ہیں یا نہیں مانتے۔ یہ انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنی جرح کے دوران یہ بات کہی ہے کہ ہم انہیں نبی مانتے ہیں۔ لیکن کیا کہتے ہیں کہ وہ چھوٹے قسم کے، کبھی کہتے ہیں ظلی ہیں، کبھی کہتے ہیں بروزی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ہمارے آئین کے تحت آرٹیکل (۴۲)اور (۴)۹۱ کے تحت ایک بات یہ مکمل طور پر اس ملک کا بڑا ادارہ پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے کہ اس ملک کے لوگوں کا، مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ کسی قسم کا کوئی نبی اور نہیں آئے گا۔ آخری نبی ہمارے رسول مقبول ﷺ ہیں۔ اگر یہ بات فیصلہ شدہ ہے۔ ہم اس طرح کی بات کر چکے ہیں۔ تو اس پر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بالکل وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیا اور کوئی نبی آ سکتا ہے یا نہیں۔ یہ صحیح بات ہے، یقینی بات ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے۔ کم از کم اس ملک کے لوگوں کا یقینا ایمان ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے تو اس پر مزید دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اب رہایہ سوال کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نبی مانتے ہیں تو اس بارے میں کیا ہمیں کرنا چاہئے۔ اگر وہ نبی کہتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے بیان میں یہ کہا کہ مانتے ہیں، تو آیا کسی اور کو نبی کہنے سے ان کا Status (مقام) کیا رہتا ہے۔ سیدھی بات جو ہے وہ یہ ہے، اس پر ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔ یقینا یہ بات درست ہے کہ بعض مسلمان… شاید اس میں میں بھی شامل ہوں… کہ کئی ہم سے گناہ سرزد ہوتے ہیں، گناہ گار ہیں۔ اسلام کی ساری چیزیں تو شاید ہم سے پوری نہیں ہو سکتیں۔ لیکن بعض Fundamentals (بنیادی باتیں) ایسے ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی خلاف ورزی، جن سے انکار کرنا جو ہے وہ اتنا بڑا کفر ہے کہ وہ آدمی دائرہ اسلام او ر ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ جو انہوں نے 2792تاویلیں کی ہیں۔ یہ ساری کی ساری جو ان کی غلط نیت ہے، میں سمجھتا ہوں اس کو چھپانے کی وہ کوشش کر رہے تھے۔ لیکن موٹی بات یہ ہے کہ Fundamental principles (بنیادی اصول) کچھ ایسے ہیں جنہیں نہ مانا جائے تو یقینا جو مسلمان ہیں وہ مسلمان نہیں رہتے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو Fundamentals (بنیادی امور) میں شامل ہے۔ جس طرح کہ مولانا ہزاروی صاحب نے اور مولانا مفتی محمود صاحب نے یہ فرمایاتھا کہ اگر اس بات کی اجازت دی جائے کہ چھوٹے پیغمبر بھی آ سکتے ہیں تو پھر وہ اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ چھوٹے خدا بھی آ سکتے ہیں۔ اگر اس طرح کی تعبیروں کی اجازت دی جائے تو یقینا میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا جو شیرازہ ہے، وہ بکھر جائے گا اور ہم لوگ بڑے قصور وار ہوں گے۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ اس ملک کی اس اسمبلی کو میں مبارک باد دیتا ہوں کہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ اتنے بڑے مسئلے کو جس کو نوے سال پہلے کوئی حل نہیں کر سکا۔ اس کو ہم حل کرنے کے لئے بیٹھے ہیں اور یقینا ہم اس کو حل کر کے اٹھیں گے(انشاء اﷲ)۔ تو جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کا یہ Faith (عقیدہ) ہے کہ وہ چھوٹا نبی یا جس طرح کا وہ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں ان کا یہ ایک رسول پاک ﷺ کے اس Status (مقام) کا کہ وہ آخری نبی ہیں، اس کامنکر ہونا، اس کے خلاف جانا اس بات کی دلیل ہے۔ یہ واضح بات ہے کہ وہ دائرہ اسلام میں نہیں رہے۔ ملت اسلامیہ بھی اسے کہیں یا دائرہ اسلام دونوں سے یقینا خارج ہیں۔
تو میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں اور ایک بات اور ہے۔ اس ضمن میں بے شمار Quotations (اقتباسات) ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات اتنی نہیں ہے کہ وہ انہوں نے ظلی، بروزی کی باتیں کیں۔ بے شمار ایسی چیزیں جو میرا خیال ہے کہ عام آدمی تک نہیں پہنچتیں۔ میں یہ بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اس فرقے سے منسلک ہیں۔ وہ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ صرف وہ باتیں پیش کی جاتی ہیں۔ جو سچی باتیں نہیں ہوتی 2793ہیں۔ کیونکہ آج صحیح طریقہ سے ان لوگوں کو باہر کسی نے Expose (واضح) نہیں کیاتھا۔ ایک دو اور Quotations (اقتباسات) ہیں۔ اگر اجازت ہو تو میں عرض کردوں گا۔
وہ یہ ہے کہ ’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ یقینا وہ مرزا غلام احمد کے لئے۔ اب رہا سوال کہ نہیں، مطلب یہ تھا، اس کا مطلب وہ تھا۔ خدا کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہاں تو بڑے سیدھے سادھے مسلمان ہیں۔ ان کے ایمان سے کھیلنا لفظوں کی ہیراپھیری سے یہ ایک ان کا طریقہ کار ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیونکہ ہم نے یہاں آکر طرح طرح کی ان کی تاویلیں دیکھیں۔ کفر کا، کبھی منکر کا، کبھی چھوٹا کفر، کبھی بڑا کفر، دائرہ اسلام میں، کبھی ملت اسلام میں، اس طرح کی باتیں تھیں۔ یہ کیا بات ہے۔ میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ساری باتیں مسلمانوں کے ایمان کو خراب کرنے کی تھیں اور یہ محض انگریزوں کے اشارے پر، انگریزوں کے کہنے پر یہ سب کچھ شروع کیا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی مسلمان کے جذبے کو صرف وہی ختم کر سکتا ہے۔ جو ان کے سامنے ایک پیغمبر کی صورت میں آئے۔ کیونکہ یہ پیغمبر پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے لئے واضح ثبوت ہیں جو کہ انہیں پیش کئے گئے تھے۔مرزاناصر احمد کو Confront کیا گیا۔ وہ اس کا جواب نہیں دے سکے۔ Throughout (مسلسل) انہوں نے کوشش کی جہاں بھی انہیں جواب نہیں ملتا تھا تو انہوں نے پس و پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کنڈکٹ اپنا، ان کاطریقہ کار اپنا۔ ان کا جواب کو ٹالنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کا اپنا جو کیس ہے، وہ ٹھیک نہیںہے۔ اس لئے ایک بات تو یہ آ جاتی ہے کہ Fundamentals Important ہیں، وہ اس کے منکر ہیں۔ اس لحاظ سے ہم نے جو فیصلہ کیا وہ پہلے ہی اس آئین کے تحت جو رسول اﷲ ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہیں رکھتے ہم انہیں مسلمان نہیں مانتے۔ یہ فیصلہ شدہ بات ہے۔ چونکہ وہ نہیں مانتے،میں سمجھتا ہوں کہ انہیں دائرہ اسلام میں اس لحاظ سے تصور نہیں کرنا چاہئے۔
2794جو دوسری بات ایک تحریک تھی مفتی صاحب اور باقی چند ممبران کی طرف سے اور کچھ اس طرف سے شاید اس میں شامل تھے۔ جنہوں نے پیش کی تھی۔ اس میں چند اورباتیں بھی تھیں۔ ایک یہ کہ اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جو خاص خاص posts (عہدوں) پر ہیں۔ ان سے ہٹایا جائے۔ اس ضمن میں میں یہ گزارش کروں گا کہ پاکستانی ہیں، وہ کہتے ہیں پاکستانی، پاکستان میں وہ رہ رہے ہیں۔ اس لئے اگر یہ اسمبلی فیصلہ کرے کہ اس طرح انہیں یہ حق نہیں دینا چاہئے تو اس صورت میں ہمیں دستور میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ جو میں سمجھتا ہوں ممکن ہے کچھ دوست مجھ سے اس با ت پر ناراض ہوں۔ لیکن یہ قانونی ایک بات ایسی ہے کہ جس میں ہمیں دشواری ضرور ہو گی۔ جہاں تک اس دوسری بات کا تعلق ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس میں وہ بیشک ساری دنیا میں جاکر کچھ بھی کہیں، اس میں ہمارا کیس اتنا سٹرانگ ہے، مسلمانوں کا کیس اتنا سٹرانگ ہے کہ ہم پورے طریقے سے Defend (دفاع) کر سکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ غلط بات کہتے ہیں۔
لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انہیں posts (عہدے) نہ دیئے جائیں۔ وہ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی پالیسی کا مسئلہ ہے۔ وہ بعد کی باتیں ہیں۔ اگر حکومت کے ذمہ دار لوگ چاہیں تو وہ کسی مقام پر کسی کو رکھ سکتے ہیں۔ کسی مقام پر نہ چاہیں تو نہ رکھیں۔ لیکن اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ اس میں پاکستان کی بدنامی ہے۔ اس ضمن میں میں اپنے معزز ممبران اسپیشل کمیٹی سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ یہ باتیں اپنے ذہن میں ضرور رکھیں۔
ساتھ بات ایک اور بھی ہے کہ اگر انہیں مائینارٹی Declare (اقلیت قراردینا) کیا جائے۔ غیر مسلم Declare (قراردینا)کیا جائے۔ تو یقینا پاکستان کے لئے خطرات بھی ہیں۔ یہاں جو دوست اور معزز ممبرا ن بیٹھے ہیں،سارے کے سارے، میرا ایمان ہے کہ وہ پاکستان کو قائم اور دائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان برقرار رہے اور پاکستان کی آزادی پر کوئی آنچ نہ آئے اور جو خطرات انہیں منیارٹی Declare (قراردینا)کرنے میں ہمیں در پیش ہوں گے۔ انہیں بھی 2795مدنظر رکھنا چاہئے۔ ا س کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ ان کے نظریات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اگر صرف یہ بات ہو کہ ہم مائینارٹی Declare (اقلیت قراردینا)کر دیں، قانون بنا دیں گے اور اس کے بعد اپنی سیاسی مصلحتیں سامنے رکھ کر جو بھٹو صاحب کی پارٹی کے مخالف ہیں۔ وہ نعرہ بازی کریں کہ ٹھیک ہے کہ اب داؤ پر لگا ہوا ہے۔ حالات خراب ہیں۔ ہم توتماشائی بن کر بیٹھیں یا جو اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کچھ اس طرح کے طریق کار کو اختیار کریں تو یقینا میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اتنا بڑا نقصان ہو گا اور جس مقصد کو ہم یہاں لے کر بیٹھے ہیں،شاید وہ بھی ضائع ہو جائے۔ شاید وہ حقیقی مسلمان جس کے لئے آج آپ جن کے حقوق کی خاطر یہاں بیٹھ کر سوچ بچار کر رہے ہیں شاید ان کی وہ بات بھی نہ بن سکے۔ اس لئے اس بات کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا اور ساتھ ساتھ یہ بھی اگر تصور کرلینا کہ جتنے احمدی ہیں سارے کے سارے وہ اچھے پاکستانی نہیں ہو سکتے۔ یہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ بات غلط ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ، جس طرح میں نے پہلے کہا ہے کہ انہیں صحیح طریقے سے علم نہیں تھا، انہیں حالات سے صحیح واقفیت نہیں تھی، ان کے لئے مجبوریاں تھیں۔
میں اپنے حلقہ انتخاب کا ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں۔ ایک گاؤں کے سارے کے سارے لوگ قادیانی تھے۔ سوائے ایک گھر کے باقی قادیانی تھے۔ لیکن سوائے ایک گھر باقی سارے کے سارے مسجدوں میں جا کر جمعہ کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ غلطی ہوئی ہے۔ یہ ان سے گناہ ہوا ہے،بھول ہو ئی ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اسٹیج اس طرح کی آ سکتی ہے کہ ان لوگوں سے بھی کوئی طریقہ کا ر ایسا Adopt (اختیار) کیا جائے۔ کسی ایسی تجویز کو عملی جامہ پہنایا جائے جس سے ان لوگوں کو جو واپس آنا چاہتے ہیں، انہیں بھی موقع ملنا چاہئے۔ تو ایسا کوئی قانون نہیں ہونا چاہئے جس سے یہ دروازے بند ہو جائیں۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ جو بھول سے یا کسی غلط 2796فہمی کی بدولت یا کسی ذاتی لالچ کی بدولت ان سے اس طرح کا گناہ ہوگیا ہے۔ وہ ممکن ہے کہ وہ واپس آ جائیں۔
اور آخری بات جو میں آپ کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آئین بھی ہم نے بنا دیا۔ وہاں بھی ہم نے لکھ دیا اسلامک رپبلک آف پاکستان، لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ اسلام کو Defend (دفاع) کرنے کے لئے، اسلام کو کامیاب کرنے کے لئے، اسلامی نظریات کو بڑھانے کے لئے آج تک اس ملک کے لوگوں میں ایک یک جہتی پیدا نہ ہو سکی۔ کوئی تو نعرے لگاتے ہیں اسلام کے، کوئی نعرے لگاتے ہیں کسی اور قسم کے، اور کچھ لوگ محض تو اس قسم کے نعرے لگاتے ہیں کہ اپنے ذاتی مفادات کو اپنے ذاتی نقصان کو، اپنے ذاتی کسی وقار کو سامنے رکھ کر جب یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں نقصان ہو رہا ہے، تو یہ جس طرف کی بھی ہوا کو دیکھتے ہیں، اس طرح کے نعرے لگاتے ہیں۔ جیسا کہ میری ذات کو نقصان پہنچا تو کوئی تو بن جاتا ہے بابائے سوشلزم او ر کوئی بن جاتا ہے کسی اور قسم کا بابا۔ تو ایسی باتیں جب تک اس قوم میں رہیں گی، تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان…
Mr. Chairman: This is not relevant.
(مسٹرچیئرمین: یہ مکمل طور پر غیر متعلقہ باتیں ہیں)
جناب عبدالعزیز بھٹی: …اوراسلام کو نقصان پہنچتا رہے گا۔ اس لئے میں گزارش کرتا ہوں کہ ایک راستہ تعین کر دیا جائے تا کہ ہم صحیح منزل کی طرف چل سکیں۔
Mr. Chairman: This is totally irrelevant.
(جناب چیئرمین: یہ غیر متعلقہ باتیں ہیں)
یہ تو لازم ہے کہ تقریر کا اختتام Personal basis (ذاتی بنیادوں) پر ہوتا ہے۔ جب پہلی دفعہ Clapping (تالیاں بجانا) ہوئی تھیں تو آپ کو بیٹھ جانا چاہئے تھا۔
چوہدری غلام رسول تارڑ: یہ پرسنل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایسے آدمی نہیں ہونے چاہئیں۔
2797جناب عبدالعزیز بھٹی: جو نیک نیت ہیں، ان پر کوئی شبہ نہیں کرتا۔ لیکن کوئی آدمی ایسا جو بدنیت ہے…
جناب چیئرمین: سات تاریخ کو پھر Open (کھلا) ہو رہا ہے۔ اس کے بعد چوہدری ممتاز صاحب! آپ پہلے تقریر کریں گے یا رندھاواصاحب؟ رندھاوا صاحب! اگر آپ چوہدری ممتاز صاحب کے خیال سے مستفید ہوں تو اچھا ہے۔ اس کے بعد آپ اچھی تقریر کریں گے۔ اچھا، چلئے، محمد افضل رندھاوا صاحب تقریر فرمائیے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب محمد افضل رندھاوا کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب محمد افضل رندھاوا: جناب چیئرمین! یہ فتنہ قادیان کے مسئلہ پر گذشتہ دنوں جو بیان اور Cross examination (جرح) اور جو تقاریر ہوئیں۔ وہ جناب والا! ہمارے سامنے ہیں اور جناب! میں تو ایک سیدھا سادہ سا مسلمان ہوں۔ جو شاید صرف اس لئے مسلمان ہے کہ مسلمان کی اولاد ہے۔ میں تو زیادہ آئینی یا مذہبی تاویلیں نہیں جانتا۔
متعدد اراکین: آواز نہیں آ رہی۔ (مداخلت)
جناب محمد افضل رندھاوا: تو جناب والا! اس سلسلہ میں دو چار موٹی موٹی گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آئینی موشگافیوں کا ذکر اورواسطہ ہے۔ جناب! اس ملک میں کہ جسے اسلام کے نام پر لیا گیا اور جب یہ ملک لیاگیا تو اس کے لئے جو سب سے بڑا سلوگن تھا وہ یہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااﷲ۔ تو جناب! ایک ایسے ملک میں کہ جسے اسلام کے نام پر لیا گیا ہے۔ اس طرح کا فتنہ اور تمام عالم اسلام کے ساتھ گذشتہ اسی (۸۰) یا نوے(۹۰) سال سے ایک حادثہ ایک سانحہ ہوا ہے اور جس کو مضبوط سے مضبوط تر ایک گروپ کر رہا ہے۔ اس فتنہ کے لئے کم سے کم مجھے کسی آئینی موشگافیوں میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کا بنیادی آئین وہ ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے آیا جس پر ہمارا ایمان ہے اور اسی میں سب کچھ ہے او ر جناب والا! اس ضمن میں موجودہ ملکی آئین کو نہ پچھلے آئینوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جناب والا! جو کچھ ہے سامنے ہے اور یہ دیوار پر لکھا ہوا ہے۔
2798تو جناب والا! اس مسئلے کے جو دو پہلو میر ی سمجھ میں آتے ہیں، سیاسی اور مذہبی۔ سیاسی طور پر یہ عالم اسلام کو کمزور کرنے کی سامراجی سازش تھی۔ جس کی طرف راؤ خورشید علی خان نے ارشاد فرمایا۔ جناب والا! اس کی شہادت ہمیں اس سے بھی ملتی ہے۔ خلیفہ سوم جناب مرزا ناصر احمد مسلمانوں کی اس براعظم میں سب سے پہلی جنگ آزادی یعنی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کو ’’غدر‘‘کہتے ہیں۔ تو جناب فتنہ قادیان ایک سازش تھی جو مسلمانوں کے شعور کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لئے کی گئی۔ جناب والا! انگریزوں نے اس وقت اس بوٹے کو لگایا اور اس کو سینچا او ر پھر ایک ایسا خنجر جیسا کہ انگریزوں نے عرب عالم کے سینے میں اسرائیل کی ریاست کی صورت میں ٹھونکا ہوا تھا۔ اس طرح کا ایک خنجر براعظم کے مسلمانوں کی چھاتی میں قادیانیوں کے نام پر ٹھونک دیا گیا۔
جناب والا! مذہبی طور پر تاویلیں لکھی ہیں۔ ایک مصرع ہے:
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
[At this stage Mr.Chairman vacated the Chair which was occupied by prof.Ghafoor Ahmad.]
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین کی جگہ پروفیسر غفور احمد نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
جناب محمد افضل رندھاوا: جناب!میری اس سے پہلے تو خوش قسمتی رہی کہ میں نے نہ قادیانیوں کی کوئی کتاب پڑھی، نہ میرے حلقہ احباب میں اس طرح کا کوئی بزرگ تھا جس سے واقفیت حاصل ہوتی۔ لیکن یہاں جو کچھ عقل نے دیکھا، عقل شرمسار ہے، عقل شرمندہ ہے۔ کس طرح ایک غلط بات کی تاویلیں، پھر تاویلیں اورتاویلوں میں سے ایک تاویل۔ کس طرح ایک جھوٹ چھپانے کے لئے ہزارہا جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ جناب والا! جب گواہ (مرزا ناصر اور لاہوری گروپ) پر Cross examination (جرح) کیا جاتا ہے تو صرف یہ نہیں 2799دیکھا جاتا کہ اس نے جواب میں کیا کہا ہے۔
لیکن جناب والا!یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اور یہ انتہائی اہم ہوتا ہے کہ گواہ کس طرح سے جواب دے رہا ہے۔ کیا وہ اس طرح کی گواہی دے رہا ہے۔ جیسے ایک سچا آدمی دیتا ہے، یا وہ اس طرح کی گواہی دیتا ہے جس طرح ایک جھوٹا آدمی گواہی دیتا ہے۔ جناب! ہم سب لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں۔ میں تمام فاضل ممبران کو اپنے آپ سے زیادہ افضل علم میں اور رتبہ میں بڑا سمجھتا ہوں۔ جناب! میری ناقص سمجھ میں تو یہ بات آئی ہے کہ یہ جھوٹ ایک فراڈ ہے جس کو یہ مرزائی ادھر ادھر سے سچا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک ایسی بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس پر تمام عالم اسلام نہ صرف یہ کہ عالم دین حضرات بلکہ لچے لفنگے، چور، اٹھائی گیرے حتیٰ کہ دنیا میں سب سے برے مسلمان بھی نام رسول ﷺ اور نام رسالت پر قربان ہونا سب سے بڑا فخر سمجھتے ہیں، اور وہ ہمیں اس بارے میں تاویلیں سنا رہے ہیں۔
میں لمبی باتوں میں نہیں جاؤں گا۔ میرا تو سیدھا سادہ سا یہ مطلب ہے کہ ایک بات ہے جس میں میں جناب عبدالعزیز بھٹی صاحب سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہم گناہ گاروں کو یہ عظیم سعادت ملی ہے کہ ہم ناموس رسول ﷺ کی حفاظت کریں اور یہ ہمارے ہاتھ سے مسئلہ حل ہو جائے اور میرا بالکل پختہ ایمان ہے کہ دنیاوی دولت ، دنیاوی حشمت یا عہدے یا رتبے یا ممبریاں، یہ حضور پاک خاتم الانبیاء جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کے خادموں کے خادموں کے پاؤں کی جو مٹی ہے۔ یہ اس سے بھی کم رتبہ ہیں۔ اس کے لئے ممبریاں جائیں، عہدے چلے جائیں، بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ بھی قربان ہوں،ہم خود بھی رسالت پر قربان ہوں۔ ہمارے بچے بھی قربان ہوں، ہم اس سے بڑا اور کوئی فخر نہیں سمجھتے۔
تو جناب! بڑی سیدھی بات ہے۔ سیاسی طور پر تو یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ فوری طور پر اس پرایک سخت قسم کی پابندی لگائی جائے اور ان کامحاسبہ کیا جائے اور 2800دوسری بات یہ ہے کہ ان کے جتنے فنڈز ہیں۔ مختلف ذرائع سے خواہ وہ اسرائیل سے ملے یا وہ یہاں سے ملے۔ ان کا حساب کیا جائے اور ضبط کریں اور تیسرے جناب والا! شہر ربوہ ہے۔ جس کو وہ شہر ظلی کہتے ہیں۔ اس کو Open city (کھلا شہر) قرار دیاجائے۔ جہاں لوگ آ جاسکیں۔ ان کی ریشہ دوانیاں عوام کے سامنے آنی چاہئیں۔
کلیدی اسامیوں سے نکالنے کے بارے میں میں اپنے فاضل دوست جناب عبدالعزیز بھٹی صاحب سے اختلاف کروں گا۔ جناب والا! اگر اس ملک کا آئین اور ملت اسلامیہ انہیں اقلیت قرار دیتی ہے اور یہ اسلام کا حکم ہے جس سے روگردانی کسی طور پرممکن نہیں۔ ایسے لوگوں کو کلیدی اسامیوں سے نکال دینے میں کیا حرج ہے؟ اور پھر یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’اچھے مسلمان نہ سہی اچھے پاکستانی ہوسکتے ہیں۔‘‘ جس طرح کہ جناب والا! وہ اچھے مسلمان نہیں، تو اچھے پاکستانی کیسے ہو سکتے ہیں؟
ملک کی بدنامی سے زیادہ ہمیں ملک کی سلامتی کی ضرورت ہے۔ بدنامی تو ایسی چیز ہے جس کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ ہم جس کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ بدنامی کے داغوں کوصاف کر سکتے ہیں۔ لیکن جناب والا! یہاں تو ملک کی سلامتی کا سوال ہے۔ ہم کسی طرح ملک کو اس قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کے بالکل قائل نہیں ہیں۔ اگر ان کو اقلیت قرار دیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ان کو کلیدی نوکریوں سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔ اگر ایک آدمی اچھا مسلمان نہیں ہے تومیرے نقطہ نظر سے وہ کبھی اچھا پاکستانی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس ملک کابنیادی فلسفہ جس کے تحت اس ملک کو ہم نے حاصل کیا ہے،وہ اسلام ہے۔
دوسرا پہلو جناب والا! مذہبی پہلو ہے اور اس سلسلے میں میں یہ مطالبہ کروں گا۔ جیسا کہ میرے دوست فاضل ممبران مطالبہ کر چکے ہیں کہ ان کو آپ کافر کہیں، ان کو اقلیت قرار دیں، ان کو مرتد کہیں، ان کو جھوٹا کہیں، جتنے الفاظ ڈکشنری میں ہوں، جن کے بارے میں وہ حضرت خلیفہ صاحب فرماتے رہے ہیں کہ ہر لفظ کے پندرہ معانی نکلتے ہیں۔ اگر 2801ایک لفظ کے دو سو معانی نکلتے ہیں تو میں تمام کے تمام ایسے معانی ان کے لئے استعمال کرناچاہتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے۔ شکریہ۔
جناب قائم مقام چیئرمین(پروفیسر غفور احمد): چوہدری ممتاز احمد!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب چوہدری ممتاز احمد کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
چوہدری ممتاز احمد: جناب چیئرمین! قادیانیوں کا یہ پرانا مسئلہ ہے اس ہاؤس کے سامنے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ جب مسلمانوں کے منتخب نمائندے جو اس اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ ان کو موقع ملا ہے کہ وہ اسلام کو Purify (خالص) کریں اور وہ، جو مذہب کے نام پر، میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں فراڈ بنے ہوئے ہیں اور جنہوں نے بزنس کے اڈے بنائے ہوئے ہیں، ان کو ختم کیا جائے۔ میں کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ کہنا چاہتاہوں کہ میں بالکل سیدھا سادہ مسلمان ہوں اور غیر مذہبی آدمی ہوں۔ میرا صرف دین اسلام پر ایمان ہے۔ میں اپنے دوستوں سے عرض کروں گا کہ اگر میں بات کرتے ہوئے، چونکہ میں غیر مذہبی آدمی ہوں، کوئی ایسی بات کہہ دوں تو میں اپنی گستاخی کی معافی چاہوں گا۔
جناب چیئرمین: غیر مذہبی تو نہ کہیں۔
چوہدری ممتاز احمد: یہ میرا اپنا خیال ہے۔ میں دین اور اسلام پر ایمان رکھتا ہوں۔ ایک خدا، ایک رسول ﷺ یہ میرا ایمان ہے۔ بہرحال ہمیں یہ کہا گیا کہ آپ پہلے سب نبیوں پر ایمان لائیں،کتابوں پر ایمان لائیں، فرشتوں پر ایمان لائیں اورجتنی بھی باتیں ہیں۔ نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں، ان سب کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں اسلام بڑھے اور لوگوں اور انسانیت کی بھلائی ہو اور یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال نے یہ فرمایا تھا کہ اسلام کی جتنی بھی تعلیم و تبلیغ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ نیک ہوں۔ ایک دوسرے کی مدد کریں اور پھر جو معاشرہ پیدا ہو وہ:
2802درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اور پھر اسلامی تعلیم پر عمل کرنے سے ایسا معاشرہ بنا جس میں اسلام چمکتا رہا اور بڑھتا رہا اور آج بھی میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تمام دوسرے مذاہب کے لوگوں سے زیادہ ہے اور جتنے بھی ہیں وہ اپنے مسلک پرقائم ہیں۔ لیکن پھرجب اسلامی گرفت کمزور ہونے لگی۔ لوگوں کے عقائد کمزور پڑ گئے اور مادیت کا دور آگیا۔ جب بادشاہت کا دور آگیا۔ لوگوں نے بیچ میں اپنے اپنے قصے کھڑے کرنے شروع کر دیئے۔ جعلی پیغمبر بھی بنے۔ اس کے علاوہ علماء حق کو چھوڑ کر صحیح تعلیم وتبلیغ کرنے والے لوگوں نے تعلیم و تبلیغ چھوڑ کر پیسہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں کو انہوں نے اسلام سے دور کیا۔ اسی طرح بنتے بنتے میری رائے کے مطابق ۷۲ فرقے اسلام میں بن گئے۔ پھر ان کے آپس میں مباحثے اور مناظرے ہونے لگے اور وہ بھی فروعی باتوں پر۔ اصل چیز اسلام کو دنیا میں صحیح شکل میں قائم رکھنا تھا۔ وہ اس کو بھول گئے اور اس طرح مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچا۔ مسلمانوں کازوال شروع ہوا۔ جب سائنس نے ترقی کی اور دوسری قومیں اٹھیں تو انہوں نے اپنے مذہب کو بھی مد نظر رکھا اوراسلام پر ہر طرح کے حملے کئے۔ یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں نے۔ جیسے جیسے مسلمانوں میں نفاق بڑھتا گیا ویسے ویسے فرقے بنتے گئے۔ اس طرح اسلام کمزور ہوتاگیا۔
اب چونکہ قادیانی ہندوستان میں سے تھے۔ اس لئے اب میں اس طرف آ رہا ہوں۔ یہاں بھی چونکہ غیر ملکی حکومت تھی اور پھر مسلمانوں کی حکومت رہی تھی۔ چنانچہ ان کو خطرہ تھا۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمانوں میں نفاق ڈالو۔ مسلمان خطرناک ہیں۔ چونکہ ان کے پاس جہاد کاجذبہ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں میں فسادات اورفرقہ بندی کرانا شروع کر دی۔ انہوں نے کہاکہ ایسا شوشہ چھوڑا جائے جس سے ملت اسلامیہ کمزور ہو جائے۔ 2803لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انگریز نے ایک آدمی کو جو کہ میرے علم کے مطابق،کیونکہ میں بھی ضلع امرتسر کا رہنے والا ہوں،مرزا صاحب کا دین وہاں سے چلا۔ وہ پئی کے رہنے والے تھے۔ مرزا صاحب کا دین وہاں سے نکلا۔ یہ پئی کے رہنے والے تھے۔ پئی ایک قصبہ ہے اوریہ وہاں کے مغل تھے۔ چونکہ مغل تھے اس لئے حکومت کرنے کا جذبہ تھا۔ میری ان سے ذاتی واقفیت بھی ہے۔ یہ Intelligent (ذہین) آدمی تھے۔
دین کے معاملے میں انہوں نے عیسائیوں سے مباحثے کئے اور سنا ہے کہ عیسائیوں کو کافی شکست ہوئی۔ انگریز نے سوچا کہ کسی طرح سے ان کو قابو کرو۔ تو ہم نے سنا ہے کہ ان کو قابو کیا گیا اور انہوں نے رضا مندی ظاہر کردی اوران کے جو پہلے خلیفہ تھے نور الدین، ان کے ساتھ مل کر یہ داغ بیل ڈالی کہ چلو، ایک نیا فرقہ بناتے ہیں۔ پھر اس فرقے کے بنتے بنتے انہوں نے کہا کہ پہلے ۷۲ فرقے ہیں،۷۳ سہی۔ پھر انہوں نے دعویٰ نبوت کر دیا۔ یہ سب انوکھی چیزیں ہیں۔ جب سے اسلام آیا کسی نے اس کے بعد دعویٰ نبوت نہیں کیاتھا۔ انہوں نے آہستہ آہستہ تبلیغ شروع کر دی۔ ہم تو اس زمانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ جب وہ فوت ہو گئے ہیں۔
اب جو کچھ Cross examination (جرح) ہوا ہے۔ دونوں فرقوں کے جواب آئے ہیں۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اس بات کو صاف طور پر مانا ہے کہ مرزا صاحب پیغمبر تھے۔ جب ان سے کہا گیا کہ کیا ثبوت ہے کہ وہ پیغمبرتھے۔ تو یہ کہا گیا کہ خدا سے پوچھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے۔ فیصلہ تو واقعی قیامت کے دن خدا نے ہی کرنا ہے کہ سچ کیا ہے اورجھوٹ کیا ہے۔ دنیا میں شاید یہ فیصلہ نہ ہوسکے۔ لیکن چونکہ استحصال کی تمام شکلیں ختم کرنے کا نعرہ تھا۔ جیسا کہ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں فیصلہ ہوا۔ اسی طرح مذہب میں بھی استحصال کی شکلیں ہیں۔ ان کو Purify ہوناچاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ۷۲ فرقے بنے ہوئے تھے۔ ان کو حوصلہ ہوا کہ ایک نئی دکان کھولیں۔
انہوں نے پھر 2804اضافہ یہ کیا کہ پیغمبری کا دعویٰ کردیا۔ تو اب انہوں نے کہاکہ خدا سے پوچھیں۔ خدا کا فیصلہ تو قیامت کے روز ہو گا۔ لوگ آج چاہتے ہیں کہ فیصلہ ہو۔ میری ایمانداری سے رائے ہے کہ پاکستان کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ دین Purify (خالص) ہو۔ ایسے ہر آدمی کو جو صرف اپنے آپ کو بڑھانے کے لئے اسلام کا نام لیتا ہے یا اس سے فرقہ بنایا ہوا ہے یا اس نے جماعت بنائی ہوئی ہے۔ پیسے اکٹھے کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، یا باہر سے Aid (امداد) لیتا ہے۔ یا پاکستان کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو صحیح معنوں میں Purify (خالص) کیا جانا چاہئے۔ میری رائے کے مطابق جتنی بھی دکانداریاں اور جتنے بھی فراڈ ذاتی ناموں سے اور فرقوں کے ناموں سے بنے ہوئے ہیں۔ ان سب کو ختم کرنے سے پہلے جو جعلی نبی کا فراڈ ہے۔ اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔
جناب والا! میں اس بارے میں زیادہ عرض نہیں کرناچاہتا۔ چونکہ میرے دوستوں نے کافی کچھ کہا ہے۔ ہم نے قرآن پاک کو جو پڑھا ہے اور انبیاء کی زندگیوں کا مطالعہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ انہوں نے کس طرح دین کو پھیلایا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی ریفارمر آیا۔ جس علاقے میں بھی وہ پیدا ہوا۔ اس نے عوام میں جا کر اس کی تبلیغ کی۔ یہ پیغمبری شان ہوتی ہے۔ انہوں نے بڑوں بڑوں کو نہیں دیکھا۔ لیکن یہاں میں دیکھتا ہوں کہ جو بھی جماعت بنی ہے اور جو بھی فرقہ بنا ہے وہ صرف بڑوں بڑوں کو تبلیغ کرتا ہے۔ بڑوں پر جال ڈالتا ہے۔ بڑے افسروں، فوجیوں، صنعت کاروں، تاجروں اورلیڈروں کو اپنے فرقے میں شامل کرتا ہے۔ عوام کی طرف کوئی نہیں جاتا۔ بڑوں بڑوں پر جال ڈالتے ہیں۔ موجودہ دور کے جو فرقے ہم نے دیکھے ہیں۔ شاید وہ دین کی خدمت کرنے میں سچے نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر دین کی خدمت کرنے میں سچے ہوں تو ہمارے نبی کریم ﷺ جن پر ہمارا ایمان ہے کہ وہ آخری پیغمبر ہیں۔ ان کے بعد کوئی اور کسی قسم کا سوال ہی پیدا نہیں 2805ہوتا آنے کا۔ انہوں نے تو عوام میں جاکر تبلیغ کی اور تبلیغ کے صلے میں پتھر بھی کھائے۔
تو اب اس دور میں جس کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا یا کوئی دعویٰ کر کے بیٹھا ہے اور وہ اپنے آپ مجدد بنا بیٹھا ہے۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ پیغمبری تو صرف خدا کی طرف سے ملتی ہے اور پیغمبر اعلان کرتا ہے کہ میں پیغمبر ہوں۔ دوسرا کوئی اعلان نہیں کرتا۔ لوگ اس کو خطاب دیتے ہیں کہ یہ ولی ہیں، یہ مجدد ہیں، یہ نیک آدمی ہیں، یہ عالم ہیں،یہ پیر ہیں، اور کوئی اپنے آپ نہیں بنتا۔ لیکن یہاں تو ہم نے اپنے آپ ہی بنتے دیکھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو اپنے آپ بنتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ جس کو مخلوق خدا کہتی ہے، جس کو خدائی کہتی ہے یہ ہے، وہ سچا ہے۔
تو اب ساری مخلوق کہہ رہی ہے کہ یہ جو نبی والی بات ہے یہ غلط ہے۔ ہم اس کو نہیں مانتے۔ کیونکہ یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پھر یہ ایسی بات نہیں۔ انہوں نے خود بھی کراس ایگزامینیشن میں صاف صاف کہا ہے کہ جو مرزا صاحب کو اتمام حجت کے باوجود نبی نہیں مانتا، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ فیصلہ توانہوں نے خود کر دیا ہے۔ اب تو فیصلہ اسمبلی کو کرنا ہے اور میں اپنی طرف سے کوئی رائے نہیں دوں گا۔ لیکن چند ایک باتیں ضرور عرض کروں گا۔ انہوں نے عوام میں تبلیغ نہیں کی۔ اس لئے میرے خیال کے مطابق وہ سچے نبی نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ خدا فیصلہ کرے گا کہ انہوں نے تو یہاں کہہ دیا ہے کہ وہ نہیں مانتے ہیں وہ کافر ہیں۔ اب وہ دوزخ میں جائیں گے۔ ٹھیک ہے پھر جب خدا کے پاس جائیں گے۔ اگر سارے دوزخ میں جائیں گے تو ہم بھی چلے جائیں گے۔ اگر وہ سچے ہوں گے تو تھوڑے سے رہ جائیں گے جنت میں۔ اس پر ہمیں کوئی گلے والی بات نہیں ہے۔ ہم وہ نہیں بننا چاہتے کسی صورت میں۔
جناب والا! اب ہے کہ ان کو کیا قرار دیا جائے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسمبلی کے معزز ممبران جو بیٹھے ہیں،وہ عوام کے نمائندے ہیں۔ ان میں عالم بھی ہیں، فاضل بھی 2806ہیں،پیر حضرات بھی ہیں اور ہمیں اب مذہب پر کافی عبور ہو گیا ہے۔ جیسے مرزا صاحب کا کراس ایگزامینیشن ہوا۔ دوسرے صاحبان نے بھی اپنے اپنے محضر نامے پڑھے ہیں۔
اس کے علاوہ آپ بنیادی طور پر مسلمان ہیں۔ تھوڑا بہت تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ اسلام کے بنیادی اصول کیا ہیں۔ تو اس پر جو رائے سب دوستوں کی ہوگی۔ میری بھی وہی ہو گی۔ جو پبلک کی رائے ہوگی اس پر ہمیں چلنا پڑے گا۔ کیونکہ اب پاکستان کی سیاست عوام کے ہاتھ میں ہے اور جو فیصلہ عوام چاہیں گے، وہی ہوگا۔ کوئی اس سے روگردانی نہیں کرے گا اور میں اس بارے میں پورا پر یقین ہوں کہ ہمارے ملک کے سربراہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی عوام کی رائے پر یقین رکھیں گے۔ عوام کی رائے کے مطابق اس کے متعلق سب دوست مل کر فیصلہ کریںگے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی آخری طور پر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہتر اسلام کی خدمت، اگر ہم نے صحیح اسلامی نظام اس ملک میں لانا ہے تو کس طرح کی جائے۔ جناب! میں یہ صاف کہوں گا کہ پھر اس کے بعد کسی قسم کی فرقہ بندی کا جھگڑا نہیں رہنا چاہئے۔ جو بنیادی چیزہے۔ اس پر سب متفق ہیں توپھر جھگڑا کس بات کا ہے۔ مجھے یہ بتایا جائے کہ اس کے بعد میں اپنے علماء کرام کی خدمت میں عرض کروں گا اور عام مسلمانوں کو بھی یہ کہوں گا کہ پھر اس کے بعد ہم فروعی جھگڑوں میں رہے تو پھر جو یہ موقع ہاتھ آیا ہے دین اسلام کو purify (خالص) کرنے کا، اس کو ترقی اور عروج پر لے جانے کا، وہ جاتا رہے گا اور قیامت کے دن پھر جو غریب مسلمان ہیں، وہ آپ کو پکڑیں گے اور یہاں بھی پکڑیں گے۔ میں یہ بھی کہوں گا کیونکہ اسلام میں ہر پہلو ہے۔ اسلام میں ترقی پسند پہلو بھی ہے۔ سوشلزم کا لفظ اس دور میں بنا ہے اور کہتے ہیں کہ اسلام نے ۱۴۰۰ سال پہلے لوگوں کو Socialise (اشتراکیت کا تصور دیا) شروع کر دیا تھا اور اگر ہم اس پر صحیح عمل کریں تو کوئی شخص بھوکا نہیں رہ سکتا۔ کوئی شخص ننگا نہیں رہ سکتا، کوئی شخص بے عزت نہیں ہو سکتا اور 2807انصاف ملے گا اور جو محنت کرے گا، اسے اس کا معاوضہ ملے گا اور اسلام نے توبنیاد قرار دیا ہے محنت کی کمائی کو کہ رزق حلال صرف محنت کی کمائی ہے۔ صرف محنت کی کمائی ہے۔ لیکن اب ایسے حضرات بھی ہیں جو اسلام کا دعویٰ تو کرتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کیپٹلسٹ سسٹم ٹھیک ہے کیونکہ اس میں سود خوری ہے۔
جناب قائم مقام چیئرمین: ممتاز صاحب! یہ بات زیر بحث نہیں ہے۔
چوہدری ممتاز احمد: میں نے تھوڑا سا ضمناً ذکر کیا ہے۔
تو جناب! آخر میں میں صرف یہ عرض کروں گا کہ اب جو مسجدوں کی ویرانی ہے۔ اب جو اسلام سے نوجوان نسل دور ہے۔ اب جو اسلام پرعمل کم ہو رہا ہے۔ اگرچہ انکار نہیں کرتے ہیں، لیکن عمل کم ہو رہا ہے۔ اگر اس کو آپ نے صحیح رکھنا ہے تو اس میں زیادہ ذمہ داری ہمارے دینی سربراہوں کی ہے اور میں یہ کہوں گا، مجھے شک ہے، مجھے شبہ ہے کہ پھر آپس میں جھگڑے ہوں گے۔ رات بادشاہی مسجد میں، میں ذکر تو نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن سنا ہے وہاں مخالفانہ شخصیتوں پر نعرے لگے۔ اسلام کسی شخص کی جاگیر نہیں ہے۔ اسلام کسی جماعت کی جاگیر نہیں ہے۔ اسلام کسی فرقے کی جاگیر نہیں ہے۔ اسلام، اسلام اور صرف اسلام جاگیر ہے توصرف خدا کی ہے۔ خدا کے رسول ﷺ کی ہے۔ قرآن کی ہے اور سب مسلمین کی۔ خدارا ان دکانداریوں کو چھوڑ دو۔ ان ذاتی بتوں کو ڈھا دو۔ اگر ایک خدا کو ماننا ہے، ایک رسول ﷺ کو ماننا ہے تو پھر سب جعلی دکانداریاں ختم کرو۔ جعلی نبی والیاں بھی ختم کرو اور یہ جو جعلی مجدد بنے بیٹھے ہیں ان سب کو ختم کرکے صرف لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ پر یقین رکھ کر اور قرآن پر یقین رکھ کر اور قیامت پر ایمان لا کر نیک کام کرو۔ غریبوں کی خدمت کرو، ملک کی ترقی کرو، اسلام کی ترقی کرو تو انشاء اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن بھی سرخرو ہوں گے اوردنیا میں بھی سرخرو ہوں گے۔
2808جناب قائم مقام چیئرمین: جناب غلام نبی چوہدری! صبح9بجے شروع کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی صاحب اوربولنا چاہیں گے؟ اس لئے کہ کل شاید شام میں کوئی سیشن نہ ہوں۔
No reply (کوئی جواب نہیں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب چوہدری غلام نبی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

جناب غلام نبی چوہدری: جناب چیئرمین! آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق جو تحاریک اس خصوصی کمیٹی میں پیش ہوئی ہیں۔ ان پر مجھے اپنے افکار اور اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کے افکار کو پیش کرنے کا موقع بہم پہنچایا ہے۔ جناب والا! میں ایک سیدھا سادہ سا مسلمان ہوں۔ کوئی مذہبی رہنماء نہیں ہوں۔ لہٰذا میں اس مسئلے کے عام پہلوؤں تک اپنی بات محدود کرنے کی کوشش کروں گا۔
جناب والا! قادیانی تحریک نہایت منظم تحریک تھی اور اس کو آگے بڑھانے والے لوگ بہت بااثر رہے ہیں۔ اس وقت انگریز حکومت نے اس کی بہت پذیرائی کی اور اس پودے کو اس ملک کی سرزمین میں، بالخصوص پنجاب میں بڑھنے اور پھولنے کے مواقع انگریز حکومت نے بہم پہنچائے۔
جناب والا! قادیان کے مقام سے میرا آبائی گاؤں بہت نزدیک فاصلہ پر ہے۔ لہٰذا مجھے اس تحریک کو ۱۹۵۵ء سے پھلنے پھولنے اور بڑھنے کا جس انداز سے دیکھنے کا اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس تحریک سے جہاں عالم اسلام کو بیشتر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہاںپنجاب کی سرزمین کو او ر پنجاب کے عوام کو جنہیں آزادی کے متوالے ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کو اس تحریک سے سب سے زیادہ نقصانات پہنچے ہیں۔ اس تحریک سے پنجاب کے گھر گھر میں دشمنیاں، رشتہ داروں میں بغاوت، عزیزوں میں دشمنیاں، فسادات اور ایک صدی سے بیشتر مرتبہ معصوم جانیں فسادات کی نذر ہوتی رہی ہیں اور ایک صدی سے پنجاب اس تباہ کن تحریک کی آگ میں جل رہا ہے۔
جناب والا! 2809گورداس پور ضلع کی تقسیم کا مسئلہ اس وجہ سے پیدا ہوا کہ ان لوگوں نے جیسے اس ایوان میں اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے اپنی اقلیت ہونے کے متعلق برٹش گورنمنٹ کو لکھا ہے جس انداز میں ہم ایک پارسی کے مقابلے میں دو احمدی پیش کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے گورداس پور کا وہ ضلع جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ان(قادیانیوں) کے نکل جانے کی وجہ سے وہ اقلیت میں تبدیل ہو گئے اور ضلع گورداس پور کی تقسیم ہوئی۔ جس کے نتیجے میں برصغیر کو مسئلہ کشمیر ملا اور اس مسئلے کے نتیجے میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تقسیم ہوئی اور ہندوستان کے ساتھ برابر جنگیں ہوئیں۔ جس سے اتنے خون اور اتنے نقصانات معاشی طور پر دونوں ملکوں کو برداشت کرنے پڑے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی ڈائریکٹ ذمہ داری جو ہے،وہ اس تحریک (قادیانیوں) پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے ضلع گورداس پور کی تقسیم کے مواقع بہم پہنچائے اور ۵۲ فیصد مسلمانوں کو ۴۹ یا ۴۸ فیصد میں تبدیل کر دیا۔ جس سے ریڈ کلف کمیشن کو گورداس پور کے ضلع کو تقسیم کرنے اور ہندوستان کے لئے گیٹ وے مہیا کرنے کا موقع ملا۔ تو یہ خدمات ہیں اس تحریک(قادیانی) کی برصغیر کے لئے اوربالخصوص اس ملک کے لئے،پاکستان کے لئے کہ کس انداز میں اس تحریک نے اگر ایک جانب جہاں اس کی روح کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردارادا کیا تو دوسری جانب اس ملک کے لئے بار بار جنگ کی آگ کو آگے بھڑکانے کی ذمہ دار یہ تحریک ہے۔
جناب والا! پھر دنیائے اسلام کو اس تحریک سے جو نقصانات ہوئے، جب کبھی بیت المقدس کا Fall (سقوط) ہوا۔ قسطنطنیہ میں مسلمانوں کونقصان پہنچا۔ بغداد میں کوئی Fall (سقوط) ہوا تو اس تحریک کے دعوے داروں نے چراغاں کیا۔ خوشیاں کیں کہ عالم اسلام جو ہے وہ کمزور ہو رہا ہے اور عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور مسلمانان عالم کو شکست ہو رہی ہے۔ یہ اس انداز میں اس تحریک کے حامل لوگوں کا جو کردار ہے۔ ان کی جو اسلام دشمنی ہے، وہ کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اس امر کا پورے طور پر اندازہ ہو چکا ہے کہ ان لوگوں کو 2810اسلام سے کتنی محبت ہے یا کس حد تک وہ پورے عالم اسلام اور ملت اسلامیہ سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔
جناب والا! پاکستان میں انہوں نے جس انداز میں کلیدی اسامیوں پر قبضہ کیا۔ معیشت کونقصان پہنچایا۔ State within a state (ریاست کے اندر ریاست) کے تصور کو جس انداز میں ہوا دی اور ربوہ کے شہر کو جس اندا زمیں پاکستان کے دوسرے لوگوں پر بند کر کے پاکستان میں ایک اسٹیٹ قائم کی، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور یہ باتیں اس ایوان میں کھل کر تسلیم کی جا چکی ہیں۔ پھر خویش پروری اورکنبہ پروری کی بدترین مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ اس سے آپ کو یہ انداز ہو گا کہ پاکستان کی ایڈمنسٹریشن کو اس تحریک سے کس حد تک نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ سابقہ حکومتیں اس طاقت کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کر سکیں اور یہ شرف اور یہ سعادت عوامی حکومت اور اس قومی اسمبلی کو میسر آئی کہ انہوں نے اتنا جرأت مندانہ اقدام اٹھا کر جب یہ آئین کی تیاری کر رہے تھے تو مسئلہ ختم نبوت کی جانب صدر اور وزیراعظم کے لئے جو عہد تھا۔ اس میں اس بات کی ضمانت مہیا کر دی کہ جو لوگ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے، وہ نہ اس ملک کے صدر بن سکتے ہیں اور نہ اس ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم رہے گی اس اسمبلی کے ممبروں کو اور بالخصوص عوامی حکومت کو اس بات کا شرف اور اس بات کی سعادت جو ہے، وہ ان کے لئے برقرار رہے گی کہ انہوں نے پہلی مرتبہ اس ملک کی تاریخ میں جرأت مندانہ اقدام کیا کہ جو لوگ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے، ان لوگوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔
جناب والا! میری دانست کے مطابق اور میرے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی نصائح کے مطابق جو انہوں نے مجھے بلا کر ذہن نشین کرائیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے، اگر اس ملک کی فوج کو نت نئی سازشوں سے بچانا ہے، اگر اس ملک میں ایک غیر جانبدار ایڈمنسٹریشن قائم کرنی ہے، کنبہ پروری سے بچانا ہے اور اس ملک کے 2811دفاتر میں اور اس ملک کی فیکٹریوں میں پرسکون ماحول قائم کرنا ہے۔ اس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنا ہے اور جائیدادوں کو، مکانوں کو، دکانوں کو، محلوں کو، بازاروں کو اگر آگ کے شعلوں سے بچانا ہے اور پنجاب کے سادہ لوح مسلمانوں کو اگر خون کی ہولی سے بچانا ہے۔ جنرل اعظم کے زمانے کی ۱۹۵۳ء کی تاریخ کو دہرانے سے اجتناب کرنا ہے تو ہمیں اس مسئلے کا صحیح اور مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس میں عالم اسلام کی بہتری ہے۔ اس میں پاکستان کی بہتری ہے۔
----------
[At this stage Prof.Ghafoor Ahmad vacated the Chair which was occupied by Mr.Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس مرحلہ پر پروفیسر غفور احمد کی جگہ جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
----------
جناب غلام نبی چوہدری: اس میں پاکستان کی بہتری ہے اور بالخصوص اس مسئلے کے مستقل حل میں پنجاب جو ہے،اس کی بہتری ہے۔ اس کو امن کا مسئلہ در پیش ہے۔
جناب والا!یہ سعادت خدائے عزوجل کی جانب سے اس خصوصی کمیٹی کو اور اس ملک کی قومی اسمبلی کے ممبروں کو میسر آئی ہے کہ وہ جرأت کے ساتھ، سچائی کے ساتھ اور ایک مومن کی فراست کے ساتھ اس مسئلے کا یک بارگی حل تلاش کریں۔ اس ملک میں جو فضا اس وقت اس نازک مسئلے کے متعلق پائی جاتی ہے، وہ نہ حکومت سے ڈھکی چھپی ہے اور نہ اس ایوان کے ممبروں سے وہ مسئلہ اور وہ بات ڈھکی چھپی ہے۔ اس ملک کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو یک بارگی حل کر دیا جائے۔ جس مسئلے کی وجہ سے بار بار اس ملک میں فسادات، جنگیں، آگ، گولیاں، چھرے اور سب کچھ چلتاہے۔ اس مسئلے کو یہ اسمبلی،یہ خصوصی کمیٹی جو ہے وہ یک بارگی حل کرے۔
آپ کے توسط سے اس کمیٹی کے معزز ممبران سے میری استدعا ہے کہ جس بات کو سو سال اور پوری صدی سے برصغیر کے مسلمان اور علماء اپنی تمام آٹھ، آٹھ، بارہ بارہ گھنٹوں 2812کی تقریروں کے بعد حل نہ کر سکے۔ اس کو حل کرنے کی سعادت آپ کے حصے میں آئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس انداز میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کس انداز میں اس ملک کے عوام اور عالم اسلام پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اس بات کے اہل ہیں کہ اس نازک مسئلے کو جو کہ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کو گھن کی طرح لگا ہواہے۔ اس مسئلے کو کس بہتر انداز میں حل کرتے ہیں جس سے صرف اس ملک کے لوگوں کو ہی Pacify (نرم)نہ کیا جاسکے۔ بلکہ گلوب پربسنے والے دوسرے ممالک جو ہیں، وہ بھی یہ محسوس نہ کریں کہ اس ملک میں کوئی تنگ نظری ہے اوراس ملک میں کوئی ایسے لوگ ہیں جو مسائل کو بہت تنگ نظری کے ساتھ حل کرتے ہیں۔
جناب والا! میری یہ استدعا ہے کہ ہمیں اس بات کا فیصلہ، ایک مسلمان کی Definition (تعریف) کا فیصلہ جو ہمارے ذمہ ہوا ہے۔ اس کو ہم انشاء اﷲ نہایت بہتر اور اس انداز میں اس کمیٹی سے اس ایوان سے کر کے اٹھیں گے جس اندازمیں ہم نے اس ملک کے کروڑوں عوام کو مشترکہ طور پر، متحدہ طور پر ایک کانسٹی ٹیوشن دیا ہے۔ اسی سپرٹ کے ساتھ اس ختم نبوت کے مسئلے کو بھی حل کرنے میں انشاء اﷲ ہم کامیاب ہوںگے۔ میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ جل شانہ ہمیں طاقت بخشے اور ہماری روحوں کو مضبوط کرے۔ ہمارے دلوں کو مضبوط کرے۔ ہماری فراست جو ہے ، ہمیں وہ فراست دے جس سے ہم آئندہ آنے والے ۲،۳ روز میں اس مسئلے کو بہتر انداز میں حل کر سکیں۔
Mr. Chairman: Thank you very much. Malik Karam Bakhsh Awan.
(جناب چیئرمین: بہت بہت شکریہ، ملک کرم بخش اعوان)
ملک کرم بخش اعوان: جناب! مجھے صبح ٹائم دیا جائے۔
جناب چیئرمین: ابھی تقریر کر لیتے تو ٹھیک تھا۔ ویسے آپ دستخطی ممبر ہیں۔ آپ کو تھوڑا ٹائم ملے گا۔ آپ کے دستخط ہیں اس پر۔
2813جناب غلام حسن خان ڈھانڈلہ: ہم سب کو ٹائم ملنا چاہئے۔
جناب چیئرمین: آپ تقریر کر لیں۔ آپ بھی دستخطی ممبر ہیں۔ جو دستخطی ممبر ہیں، ان کو پانچ پانچ منٹ ٹائم ملے گا۔
جناب غلام حسن خان ڈھانڈلہ: جناب والا! پانچ منٹ تو بہت کم ہیں۔
جناب چیئرمین: یہاںپر آپ کا نام ڈھانڈلہ غلط پرنٹ کر دیا ہے۔
جناب غلام حسن خان ڈھانڈلہ: جناب اب تو اسے درست کر دیا جائے۔
جناب چیئرمین: میں نے نہیں لکھا، مولانا شاہ احمد نورانی نے لکھا ہے۔
 
Top