(قادیانیوں کی تعداد کا مسئلہ)
دوسرا معاملہ جناب! پھر ترامیم کا آتا ہے۔ تقریباً تین ماہ اس کام کو کرنے کے بعد، ختم نبوت کی مضحکہ خیز تاویلات سننے کے بعد، اب اس ملک کا کوئی آدمی اس بات سے مطمئن نہیں ہو سکتا کہ دستور میں ختم نبوت کے عقیدے کو مزید توضیح کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔ میرے خیال میں یہ بات ہرگز ہرگز کافی نہیں ہوسکتی۔ تین مہینے کی اس تمام انتھک جدوجہد کے بعد قوم کا یہ خیال ہے کہ یہ بات بالکل ناگزیر ہے کہ دستور میں ایک ترمیم کے ذریعہ صراحت کے ساتھ یہ درج کیا جائے کہ مرزا کو ماننے والے خواہ وہ اسے کسی صورت میں مانتے ہوں۔ یعنی چاہے اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہوں، مسیح موعود مانتے ہوں، مجدد مانتے ہوں، محدث مانتے ہوں یا کچھ بھی مانتے ہوں۔ ایسے لوگ غیرمسلم ہیں اور وہ مسلمان نہیں۔ اس لئے کہ مرزا پر ایمان نہ لانے کے باعث وہ ہمیں خود کافر کہتے ہیں۔ اس بناء پر میرا خیال یہ ہے کہ نام لئے بغیر اگر محض تعریف کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسے ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں تو شاید معاملہ مزید پیچیدہ اور سنگین بن جائے گا اور نہ اس سے قوم مطمئن ہوگی۔ تیسرے یہ کہ ملک کے دستور میں ترمیم کے بعد ضروری قانون سازی کی جائے اور دیکھا جائے کہ کس کس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ کیونکہ اسمبلی کی رہبر کمیٹی بھی اس معاملہ میں رہنمائی کرے گی۔ لیکن میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اس کے بعد متعدد قوانین میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی اور دستور میں ترمیم 2848کے بعد اس بات کا فوری بندوبست کرنا لازمی ہے کہ ان کی مردم شماری کی جائے اور بلاتاخیر کی جائے۔ کیونکہ لاہوری جماعت اور ربوہ والے دونوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں اپنے پیروکاروں کی تعداد کا صحیح علم نہیں۔ گویہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی منظم جماعت کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے پیروکار کتنے ہیں۔ گو ان کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد پاکستان میں پینتیس یا چالیس لاکھ ہے اور پوری دنیا میں ایک کروڑ کے لگ بھگ۔ جناب والا! گروہ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں تیس چالیس لاکھ ہیں اور دنیا میں ایک کروڑ ہیں تو دنیا سے تو ہمیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن ہم یہ بات ضرور جاننا چاہیں گے کہ پاکستان میں ان کی صحیح تعداد کیا ہے؟ اس مقصد کے لئے ان کی مردم شماری کی جائے اور یہ بغیر کسی تاخیر کے کی جائے۔ یہ بنیادی چیز ہے جو بغیر کسی پس وپیش کے ہونی چاہئے۔
جناب والا! چوتھا مرحلہ انتظامی معاملات کا ہے جو حکومت کو حل کرنا ہوگا۔ میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم مرزا کے ماننے والوں کے جائز حقوق چھیننا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ وہ آج پوری دنیا میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ بلین آف ڈالرز کی وہ جائیدادیں جو پاکستان میں انہوں نے کمائی ہیں۔ وہ پاکستان کے مسلمان ان سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ ان کو غصب کرنا چاہتے ہیں۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ وہ ان کی املاک بغیر کسی حق کے چھینے۔ پاکستان کے دستور کا مطالعہ دنیا کا ہر انسان کر سکتا ہے اور میں یہ بات بلاخوف تردید کہتا ہوں کہ دستور پاکستان نے اقلیتوں کی حفاظت کے لئے ان کو قانون کے سامنے یکساں قرار دیا ہے۔ ان کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لئے ہم نے جو آرٹیکل اور جو پروویژن دستور میں رکھے ہیں اس میں دنیا کی متمدن ترین ملک کا دستور بھی ہمارے دستور کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور پھر جناب والا! میں دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں 2849کہ دستور میں کسی چیز کے لکھنے ہی کا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں تک عمل کا تعلق ہے تمام غیرمسلم اقلیتیں اس بات کی شہادت دینے پر مجبور ہوں گی کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ صرف منصفانہ ہی نہیں بلکہ فیاضانہ سلوک کیا جارہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ اس لئے کہ ہمارا دین ہمیں یہی بات سکھاتا ہے کہ ہم اقلیتوں کی حفاظت کریں اور ان کے ساتھ فیاّضانہ سلوک کریں۔
اصل میں ہم جو بات کہنا چاہتے ہیں وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مرزا کے ماننے والوں نے ماضی میں اپنے حقوق سے بڑھ کر جو چیزیں حاصل کی ہیں اور جس طریقے سے انہوں نے مستحقین کے حقوق کو پامال کیا ہے اس کی پورے طریقے سے چھان بین کی جائے اور جو چیزیں ان کے پاس بغیر کسی حق کے موجود ہیں مکمل تحقیقات کرنے کے بعد حکومت ان سے ایسی چیزوں کو واپس لے لے۔ اس لئے کہ ان کا ان پر کوئی حق نہیں بنتا۔ اصل میں یہ گروہ یہ چاہتا تھا کہ وہ بادشاہ گر بن جائے اور ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے اوپر قانون لاگو نہ ہو۔
جناب والا! ہمیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ زرعی اصلاحات کا قانون پاس ہونے کے بعد چونکہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا تھا۔ لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ زرعی اصلاحات کا قانون ان کی زمینوں کے اوپر جاری نہ کیا جائے اور اسی طرح کا ایک اور مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کو جس طریقے سے قومیا یا گیا ہے اور ان میں اصلاحات کی گئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے مدارس کو سکولوں کو، کالجوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ربوہ کے اندر ان کی ریاست درریاست موجود رہے۔ بلکہ پاکستان میں جس جگہ بھی مرزا کے ماننے والے موجود ہوں ان کو اچھی پوزیشن حاصل ہو اور ملک کے جو عام قوانین ہیں ان کے اوپر جاری نہ ہوں۔ جناب والا! اس لئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو ان کو استحقاقی پوزیشن حاصل ہے یہ غلط طریقے سے حاصل ہے۔ اس کو ختم کیاجائے۔ اس پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے ہم یہ بات کہتے ہیں کہ ان کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔ ملازمتوں میں ان کو اتنا حصہ دیا جائے جتنی ان کی آبادی کا تناسب تقاضا کرتا ہے۔
2850آخر میں میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ ہمین بصیرت دے اور اس بات کی ہمت دے کہ اس معاملے کو اس طریقے سے پورا کر سکیں کہ ہم اﷲتعالیٰ کے سامنے بھی سرخرو ہو سکیں اور قوم بھی مطمئن ہو جائے۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Thank you very much.
(جناب چیئرمین: آپ کا بے حد شکریہ!)
ڈاکٹر محمد شفیع: مولانا! آپ کی باری بھی آجائے گی۔ آپ نے کتاب سے پڑھنا ہے اور یہ بغیر کتاب کے ہیں اور بغیر کتاب کے جو ہیں ان کو زیادہ ٹائم ملے گا۔ چوہدری جہانگیر علی صاحب! آپ بھی آج بولیں گے کارڈر کی بنیاد پر یا ویسے ہی؟
چوہدری جہانگیر علی: جناب! کارڈر کی بنیاد پر۔
Mr. Chairman: Thank you very much. Dr. Mohammad Shafi.
(جناب چیئرمین: آپ کا بے حد شکریہ! ڈاکٹر محمد شفیع)
Dr. Mohammad Shafi: Mr. Chairman, Sir, the issue started as "Khatm-i-Nabuwwat" but during our deliberations I think we have surveyed whole of the Mirzaiyat vis-a-vis Islam, and I being by nature inclined towards religion, have attended these meetings regularly and I have listened to them very attentively and I have drawn my own conclusions which may not be acceptable to other members. I do not know. In my opinion, they do not believe that Muhammad (Peace be upon him) is the last and the greatest Prophet. Both the groups believe Ghulam Ahmad as the last and the greatest prophet. This is my own reading. And, therefore, they do not take the life of Muhammad (Peace be upon him) as the model for them; they take the life of Ghulam Ahmad as the model for them. That means that they have got their own Sunnah which has nothing to do with our Sunnah. The story does not end there. They have got their own "Kalima", their own "Darood", their own Masjid-i-Aqsa and therefore their own "Qibla", and they have got their own site for Haj, and everything is different from us. They do not join us in the prayers; they do not join us even in "Janaza" prayers; they do not like to offer their daughters for marriage to us, although very cleverly they accept our daughters for their marriage. 2851Now what is the end result of that: That clearly means that they have themselves dissociated from the Muslims since the last 75years, and it is a reality which already exists and we only have to recognize it. And you know, Sir, we all are very fond of recognizing the realities and let us recognize this reality also.
Now, this is one aspect of the issue. The other is that they do not stop there. They have got a parallel Government running in Rabwa which in my opinion is virtually Vatican. They have got their own Ministries under the name of I think "Nazirs" or some such thing -Nazir-i-Umoor -i-Kharja and -Nazir-i-Umoor -i-Dakhila and such like things. They call themselve Nazirs. Now this thing is being helped by thier hidden employees which we do not know in most cases. They are helped by the Qadiyanis who serve in our Departments. All the statistics and all the data are provided by them to that Government.
----------
[At this stage Mr. Speaker vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
----------
Dr. Mohammad Shafi: They have boasted that they are serving Islam in foreign countries. One example that they have given for that is that they saved the Muslims in Israel when the Israelis captured that territory. Well that may be so that they saved the Muslims there. But the question arises: who saved the Qadiyanis there? Well, somebody must have saved them. If the Jews have saved them, even they must have done so with certain motives, and those motives are to be judged by us.
Having drawn these conclusions, what is the solution for that? The solution is, in which the whole House is unanimous, that we recognize the reality which is already existing they have dissociated themselves from us, and we only have to declare it to be so. But, In this case, I would leave it to the Government to take the national and international factors into consideration and then take the appopriate steps. Thank you.