ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اس مسئلہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مسیح بن مریم آسمان کو اٹھائے گئے، دوسرا یہ کہ وہ نازل ہونے والے ہیں۔ نزول، رفع جسمانی کی فرع ہے اگر نزول ثابت ہو جائے تو یہ بات خود بخود ثابت ہو جائے گی کہ وہ جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اوررفع ثابت ہو جائے تو نزول وصعود بالمقابل زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔
۱… ’’قرآن شریف کے وہ معانی ومطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوں گے جن کی تائید قرآن شریف ہی (گویا شواہد قرآنی) میں دوسری آیات سے ہوتی ہے۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۷،۱۸، خزائن ج۶ ص۱۷،۱۸)
۲… 2505رسول اﷲ ﷺ کی کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو پھر اس کا نمبر ہے۔ اس لئے کہ قرآن پاک آپ ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ ہی اس کے معانی بہتر جانتے ہیں۔ مرزاجی نے بھی (برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸) میں اس کو تسلیم کیا ہے۔
۳… تیسرے نمبر پر صحابہ کرامؓ کی تفسیر ہے کیونکہ یہ حضرات علم نبوت کے پہلے وارث تھے۔ اس کو بھی مرزاجی نے (برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸) میں تسلیم کیا ہے۔
۴… ’’پاک آدمی کا دل یعنی خود اپنا نفس مطہر وہ بھی سچائی کی پرکھ کے لئے اچھا معیار ہوتا ہے۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸)
۵… اس کی تائید مرزاغلام احمد قادیانی کے مندرجہ ذیل اقوال سے بھی ہوتی ہے:
(۱)… ’’ہر صدی کے سر پر خداتعالیٰ ایک ایسے بندے کو پیدا کرتا رہے گا کہ اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
(فتح الاسلام ص۸، خزائن ج۳ ص۶)
(۲)… ’’مجدد لوگ دین میں کچھ کمی وبیشی نہیں کرتے۔ ہاں گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے۔ اس کو مرزاجی نے ازالہ اوہام حصہ اوّل میں تسلیم کیا ہے۔
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۴۱، خزائن ج۳ ص۳۹۰)
۶… جس حدیث میں قسم ہو اس میں تاویل اور استثناء ناجائز ہے۔ مرزاجی بھی (حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲) میں لکھتے ہیں۔
’’
والقسم یدل علیٰ ان الخبر محمول علی الظاہر لاتاویل فیہ ولااستثناء والّافای فائدۃ فی القسم
‘‘ 2506اور قسم کی حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث کے ظاہری معنی ہی قابل قبول ہیں۔ کوئی تاویل اور استثناء نہیں ہوتی ورنہ قسم کھانے میں کیا فائدہ تھا۔
۷… ’’مومن کا یہ کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘
(ازالہ حصہ اوّل ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
یہ حدیث شریف کا مضمون ہے کہ جس نے قرآن پاک میں اپنی رائے کو دخل دیا تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے اور بعض روایات میں ہے کہ اس نے صحیح بھی کیا تو بھی غلطی کی۔ (اوکما قال)
بہرحال قرآن پاک کی تفسیر وہی معتبر ہوگی جو خود قرآن کی کسی دوسری آیت سے ہو پھر وہ تفسیر قابل اعتماد ہوگی۔ جو خود سرور کائنات ﷺ نے بیان فرمائی ہو۔ تیسرا نمبر صحابہؓ کا ہے جنہوں نے اپنے علوم سرور عالم ﷺ سے حاصل کئے ہیں۔ اس کے بعد ان حضرات کی تفسیر کا نمبر ہے جن کو اﷲتعالیٰ نے دین کے تازہ کرنے کے لئے، ہر صدی میں پیدا کیا ہے۔ ان چار باتوں کے سوا جو تفسیر اپنی رائے سے کی جائے گی۔ یہ قطعاً جائز نہیں نہ مؤمن کا کام ہے۔
اور اگر کسی آیت یا حدیث میں قسم کے لفظ ہوں تو ان کو تاویل واستثناء کے بغیر ظاہری معنوں پر حمل کیا جائے گا۔
۸… ’’انجیل برنباس نہایت معتبر انجیل ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۲۴۰، خزائن ج۲ ص۲۸۸)
ان اصولوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ ان کو مرزاجی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جس کے حوالے ہم نے بتادئیے ہیں۔
ایک کتاب ہے ’’عسل مصفّٰی‘‘ جس کو خدا بخش صاحب (مرزائی) نے لکھا ہے۔ یہ کتاب مرزاجی کو سنائی گئی۔ اس پر مرزائیوں کے خلیفہ دوم اور مولوی محمد علی کی تصدیق وتقریظ 2507درج ہے۔ اس نے تیرہ صدیوں کے مجددین شمار کئے ہیں۔ جو تقریباً اسی(۸۰) ہیں۔ ہم ان میں سے مشہور تیس حضرات کے نام لکھتے ہیں:
۱… امام شافعیؒ مجدد صدی دوم۔
۲… امام احمد بن حنبلؒ مجدد صدی دوم۔
۳… ابوجعفرؒ مجدد صدی سوم۔
۴… ابوعبدالرحمن نسائیؒ مجدد صدی سوم۔
۵… حافظ ابونعیمؒ مجدد صدی سوم۔
۶… امام حاکم نیشاپوریؒ مجدد صدی چہارم۔
۷… امام لبیہقیؒ مجدد صدی چہارم۔
۸… امام غزالیؒ مجدد صدی پنجم۔
۹… امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۰… امام مفسر ابن کثیرؒ مجدد صدی ششم۔
۱۱… حضرت شہاب الدین سہروردیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۲… امام ابن جوزیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۳… حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۴… امام ابن تیمیہ حنبلیؒ مجدد صدی ہفتم۔
۱۵… حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ مجدد صدی ہفتم۔
۱۶… حافظ ابن قیم جوزیؒ مجدد صدی ہفتم۔
۱۷… حافظ ابن حجر عسقلانیؒ مجدد صدی ہشتم۔
۱۸… امام جلال الدین سیوطیؒ مجدد صدی نہم۔
۱۹… 2508ملا علی قاریؒ مجدد صدی دہم۔
۲۰… محمد طاہر گجراتی مجدد صدی دہم۔
۲۱… عالمگیر اورنگزیبؒ مجدد صدی یازدہم۔
۲۲… شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانیؒ مجدد صدی یازدہم۔
۲۳… مرزامظہر جان جاناں دہلویؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۴… حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۵… امام شوکانیؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۶… شاہ عبدالعزیز صاحب دہلویؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۷… شاہ رفیع الدینؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۸… مولانا محمد اسماعیل شہیدؒ مجدد صدی سیزدہم۔
۲۹… شاہ عبدالقادر صاحبؒ مجددی مجدد صدی سیزدہم۔
۳۰… سید احمد بریلویؒ مجدد صدی سیزدہم۔ (عسل مصفّٰی ج۱ ص۱۶۲تا۱۶۵)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد (یہودیوں کا عقیدہ)
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی دے کر قتل کر دیا ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی۔ پھر بادشاہ سے کہہ کر ان کے خلاف حکم جاری کرایا اور پولیس کے ذریعے ان کو اپنے خیال کے مطابق سولی پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ قرآن پاک نے اس کی سختی سے تردید کی۔ بلکہ ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے۔ ان پر لعنت کی اور ظاہر ہے کہ یہود کا دعویٰ یہی تھا کہ ہم نے سولی کے ذریعے ان کو قتل کر دیا ہے۔
2509 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد (عیسائیوں کا عقیدہ)
عیسائیوں نے خود تو دیکھا نہ تھا۔ حواریین موقعہ پر موجود نہ تھے۔ یہودیوں کے کہنے سے انہوں نے بھی یہ مان لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے قتل کر ڈالا۔ پھر کفارے کا عقیدہ گھڑ لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ساری امت اور مخلوق کی نجات کے لئے اپنی قربانی دے دی۔ سب کی طرف سے وہی کفارہ ہوگئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد (مسلمانوں کا عقیدہ)
اس سلسلہ میں مسلمانوں کا عقیدہ وہی ہے جو قرآن پاک نے بیان کیا ہے۔ قرآن پاک اپنے پاک پیغمبروں کے بارہ میں تہمتوں اور غلط بیانیوں کی اصلاح فرمادیتا ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خداتعالیٰ کا بیٹا ہونے کی تردید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کے خدا ہونے کی تردید فرمادی۔ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث (تین خدا مل کر ایک خدا ہونے) کی تردید بھی کر دی اور حضرت مریم علیہا السلام کو صدیقہ کہہ کر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا قصہ بیان کر کے کہ یہ فرشتے کی پھونک مارنے سے، بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام کی صفائی بھی بیان کی ہے۔ قرآن جو صحیح فیصلے کرنے اور اختلافات میں حق کا اعلان کرنے آیا تھا۔ اس نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے قتل اور سولی کی نفی کر دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھالینے کا اعلان فرمادیا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ تمام یہودیوں اور نصرانیوں کو 2510حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لانا ہوگا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ یہود نے بھی ایک تدبیر کی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر قتل کرادیں اور ہم نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ سب مدبروں سے بڑھ کر بہترین تدبیر کرنے والے ہیں۔ یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ ساڑھے تیرہ سو برس سے مسلمان یہی کہتے، لکھتے اور مانتے چلے آئے ہیں کہ یہود نے سولی دینی چاہی۔ مگر اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھالے گئے اور حضرت عیسیٰ کی شکل پر یعنی باتوں اور صورت میں ایک ایسے شخص کو کر ڈالا جس نے حواری ہوکر غداری کی اور اپنی طرف سے پولیس کو لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوانا چاہا۔ جب پولیس آئی تو اس شخص کو گرفتار کر کے سولی دے دی۔ جس کی شکل وصورت اور باتیں ہو بہو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہوچکی تھیں۔ اس طرح یہودیوں کی تدبیر دھری کی دھری رہ گئی۔ غدار کو بھی سزا مل گئی اور اﷲتعالیٰ کی تدبیر غالب آئی۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے درمیان سے اٹھا کر آسمان پر لے گئے۔ یہی فیصلہ قرآن پاک نے دیا اور اسی پر مسلمانوں کا ایمان ہے اور سینکڑوں حدیثوں میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم دوبارہ زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا اور اسی وجہ سے لڑائی ختم ہو جائے گی اور اسی وجہ سے کسی سے جزیہ (غیرمسلموں کا ٹیکس) نہ لیا جائے گا۔ ۴۰برس تک وہ رہیں گے۔ حج کریں گے۔ شادی کریں گے۔ پھر وفات ہوگی اور حضور ﷺ کے روضہ پاک میں دفن ہوں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد(مرزاغلام احمدقادیانی کا عقیدہ)
مرزاقادیانی نے نہ مسلمانوں کے عقیدے کو صحیح قرار دیا نہ یہودونصاریٰ کی بات کو درست مانا۔ بلکہ اس نے چونکہ خود آنے والا مسیح ابن مریم بننا تھا۔ اس لئے پہلے تو یہ کہا کہ اصل عیسیٰ بن مریم فوت ہوچکے ہیں اور فوت شدہ کوئی آدمی دنیا میں دوبارہ نہیں 2511آسکتا۔ اس لئے آنے والا مسیح بن مریم میں ہوں اور اپنی طرف سے مسیح موعود کی اصطلاح گھڑ لی۔ حالانکہ تمام پرانی کتابوں میں مسیح ابن مریم علیہما السلام یا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام مذکور ہے۔ مسیح موعود کا لفظ کہیں نہیں ہے۔
مرزاجی کہتے ہیں کہ یہودی قتل تو نہیں کر سکے مگر سولی پر عیسیٰ علیہ السلام کو ضرور چڑھایا۔ ان کو گرفتار کیا۔ ان کے منہ پر تھوکا، ان کے منہ پر طمانچے مارے، ان کا مذاق اڑایا اور سولی پر چڑھایا۔ ان کے جسم میں میخیں ٹھونکیں اور ان کو مار کر اپنی طرف سے مرا ہوا سمجھ کر سولی سے اتار لیا۔ مگر دراصل اس میں ابھی رمق باقی تھی۔ مرہم لگائے گئے۔ خفیہ علاج کیاگیا اور اچھا ہوکر وہ وہاں سے چپکے سے نکل گئے اور ماں سمیت کہیں چلے گئے۔ جاتے جاتے وہ افغانستان پہنچے۔ وہاں سے پنجاب آئے۔ پھر کشمیر چلے گئے اور سری نگر میں دن گزارے۔ وہیں مر گئے۔ ان کی قبر بھی وہیں ہے۔
اور آنے والا مسیح ابن مریم میں ہوں اور آگیا ہوں۔ مجھ پر ایمان لے آؤ۔ میں کہتا ہوں انگریز سے جہاد حرام ہے۔ اس کی اطاعت آدھا اسلام ہے۔ ۱۸۵۷ء کا جہاد غنڈوں کا کام تھا۔ میرے سارے خاندان نے انگریزی خدمات بجالائیں۔ میں فقیر تھا اور کچھ نہ ہوا تو ممانعت جہاد کی کتابیں لکھ لکھ کر سارے مسلمان ملکوں تک پہنچا دیں۔ خدا قیصرۂ لنڈن کا اقبال ہمیشہ قائم رکھے۔ اس کی سلطنت میں ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ آنے والے مسیح تو پہلے زمانے میں نبی تھے اور اب بھی ان کی شان نبوت اسی طرح رہے گی۔ وہ امت محمدیہ کی خدمت اسی شریعت کی رو سے کر کے اس کو غالب بنائیں گے۔ تو مرزاجی نے کہا میں بھی نبی ہوں اور بے شک نبوت ختم ہوگئی ہے۔ مگر میں فنا فی الرسول ہوکر نبی بنا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت پیران پیرؒ، حضرت خواجہ اجمیریؒ، امام ربانیؒ اور شیخ اکبرؒ کوئی بھی میرے برابر درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ نبوت کا نام صرف مجھے ملا ہے۔ قیامت 2512تک اور بھی امت میں سے کوئی نبی نہ ہوگا۔ میری شان اس پرانے عیسیٰ بن مریم سے ہر طرح بلند ہے۔ بلکہ میرے معجزات اتنے ہیں کہ ایک ہزار پیغمبروں کی پیغمبری ان سے ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ہے مرزاقادیانی اور یہ ہے اس کا عقیدہ۔ اب ہم قرآن وحدیث سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ تمہید میں بیان کئے ہوئے اصول کو پھر پڑھیں اور پیش نظر رکھیں۔ نیز مجددوں کی تفسیر کی اہمیت بھی سمجھ رکھیں۔
پہلی آیت:
’’
واذ قالت الملائکۃ یٰمریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیہا فی الدنیا والآخرۃ(آل عمران:۴۵)‘‘
{اور جب کہا فرشتوں نے اے مریم بے شک اﷲتعالیٰ تم کو خوشخبری سناتا ہے۔ اپنے ایک کلمہ کی (یعنی بچے کی) اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے جو دنیا میں بھی صاحب عزت ووجاہت ہے اور آخرت میں بھی۔}
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیوی وجاہت کا ذکر ہی نہیں کیا۔بلکہ اس کی خوشخبری دی۔ اب یہ وجاہت وہ وجاہت وعزت تو ہے نہیں جو دنیاداروں کو عام طور پر حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ اس کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خاص کر ذکر انعام واکرام کے موقعہ پر؟
روحانی وجاہت بھی مراد نہیں ہے۔ وہ تو حضرت مریم علیہا السلام کو لفظ کلمہ سے اور اُخروی وجاہت سے معلوم ہوسکتا تھا۔ وجیہاً فی الدنیا کے بیان کا کیا مقصد ہے؟ پھر اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی عزت ووجاہت معمولی عزت ووجاہت بھی نہیں ہوسکتی جو خاص طور پر بطور نعمت وبشارت کے ہو۔
2513اب ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلی عمر میں دنیوی وجاہت تو حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ یہود کی مخالفت نے جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہیں۔ لازماً اس سے وہی وجاہت مراد ہے جو نزول کے بعد ہوگی۔ اس وقت تمام اہل کتاب بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی۔ وہ چالیس سال تک دنیا بھر میں شریعت محمدیہ کی روشنی میں دین کی خدمت کریں گے۔ بیوی اور اولاد بھی ہوگی۔ اس سے بڑھ کر دنیوی وجاہت کیا ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں مرزائی حوالہ جات بھی ملاحظہ ہوں۔
۱… رسالہ (مسیح ہندوستان میں ص۵۱، خزائن ج۱۵ ص۵۳) میں مرزاجی کہتے ہیں:
’’دنیا میں مسیح علیہ السلام کو اس زندگی میں وجاہت، عزت، مرتبہ، عظمت وبزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی، اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرودیس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی۔ بلکہ غایت درجہ تحقیر کی گئی۔‘‘
۲… مولوی محمد علی لاہوری (امیر جماعت لاہوری مرزائی) نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود بیت المقدس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘‘
(تفسیر بیان القرآن جلد نمبر۱ ص۲۱۱)
۳… مرزاجی کو جب تک خود عیسیٰ ابن مریم بننے کا شوق نہیں چرایا تھا تو خود انہوں نے بھی (براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) میں لکھا:
’’
ہوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلّہ
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے دوبارہ آنے سے ظہور میں آئے گا۔‘‘
پس مسلمانوں کے اس معنی کو مانے بغیر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آکر دنیوی جاہ وجلال کے مالک ہوں گے چارہ ہی نہیں ہے۔ اس کے سوا سری نگر میں کسی 2514وجاہت کی بات کسی مفسر یا مجدد کے قول سے مرزائی ثابت نہیں کر سکتے۔
دوسری آیت:
’’
فلما احسّ عیسیٰ منہم الکفر قال من انصاری الیٰ اﷲ قال الحواریّون نحن انصار اﷲ آمنا باﷲ واشہد بانا مسلمون ربنا اٰمنا بما انزلت واتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاہدین ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین(آل عمران:۵۲تا۵۴)‘‘
{پھر جب عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کی طرف سے انکار محسوس کیا فرمایا کون کون اﷲ کی راہ میں میرے مددگار ہوں گے۔ حواریین نے کہا ہم اﷲ کے دین کی مدد کریں گے۔ ہم اﷲ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے اس پر جو آپ نے نازل کیا اور پیغمبر کی ہم نے اطاعت کی تو ہم کو گواہوں میں لکھ دے اور انہوں (یہودیوں) نے تدبیر کی اور اﷲ نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (تمام مدبروں سے بڑھ کر)}
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے بتایا کہ یہودیوں نے تدبیر کی اور ہم نے بھی تدبیر کی اور ہماری تدبیر سے کس کی تدبیر بہتر ہوسکتی ہے؟
یہودیوں کی تدبیر یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرا کر سولی پر چڑھادیں کہ بقول مرزاجی تورات کی تعلیم کے مطابق (معاذ اﷲ) وہ لعنتی ہو جائیں۔
اﷲتعالیٰ کی تدبیر یہ تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو فرشتے کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی شکل وصورت کے مشابہ ایک اور آدمی کو کر دیا کہ جس نے جاسوسی کر کے آپ کو پکڑوا کر سولی دلانی تھی۔
چنانچہ وہی (جاسوس) سولی پر چڑھایا گیا۔ اس کا سارا واویلا فضول گیا۔ سب نے اس کو مسیح ابن مریم ہی سمجھا۔ وہ لوگوں کو پاگل سمجھ رہا تھا کہ مجھ بے گناہ کو کیوں قتل کر 2515رہے ہیں اور لوگ اس کو پاگل سمجھتے اور کہتے تھے کہ اب موت سے بچنے کے لئے یہ پاگل بنتا ہے۔ اب آپ مرزاجی کی قابلیت کی داد دیں کہ تورات کی تعلیم یہ تھی کہ جو سولی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔ کیا کوئی بے گناہ سولی پر لٹکائے جانے سے خدا کے ہاں لعنتی ہوسکتا ہے؟ تورات میں بھی گنہگار اور مجرم آدمی کا ذکر ہے۔ بے گناہ تو کتنے پیغمبر خود قرآن کے ارشادات کے مطابق قتل کئے گئے جو شہید ہوئے۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے صدارت چھوڑ دی۔ جسے مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے سنبھال لیا)
----------
مولانا عبدالحکیم: مرزاجی کی دوسری قابلیت کی بھی داددیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گرفتار ہوئے۔ ان کے منہ پر (معاذ اﷲ) تھوکا گیا۔ طمانچے مارے گئے۔ سولی پر چڑھائے گئے۔ میخیں ٹھوکی گئیں۔ خوب مذاق اڑایا گیا اور وہ چیخ چیخ کر خدا کو پکارتے رہے اور آخر کار ان کو مقتول سمجھ کر اتار دیا گیا۔ بھلا یہ خدا کی تدبیر تھی! جو بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اس طرح تو یہود کی تدبیر کامیاب ہوئی اور بقول مرزاجی کے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہر طرح ذلیل کیاگیا اور جو یہودی چاہتے تھے وہ کر گزرے۔ حتیٰ کہ نصرانیوں کو بھی یقین دلادیا کہ ہم نے یسوع مسیح کو قتل کر دیا۔ مرزاجی کہتے ہیں کہ خدا کی تدبیر یہ ہوئی کہ جان نہیں نکلنے دی۔
کیا یہی وہ تدبیر تھی کہ جس کو قیامت میں اﷲتعالیٰ بطور احسان کے جتلائیں گے؟ پس معلوم ہوا کہ جو مسلمان سمجھے ہیں وہ حق ہے۔
اس آیت کریمہ کے ضمن میں مجددینؒ نے کیا لکھا ہے وہ سن لیجئے۔
۱… حضرت مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ نے (تفسیر کبیر ص۶۹،۷۰، ج۴ جز نمبر۸، آل عمران:۵۴) میں لکھا ہے کہ یہود کی تدبیر تو قتل کی تیاری تھی اور خدا کی تدبیر یہ تھی کہ جبرائیل 2516علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مکان کے روزن سے آسمان کو اٹھالے گئے اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل پر کر دیا۔ جس کو یہودیوں نے سولی پر چڑھادیا۔ اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہود کا شران تک نہ پہنچنے دیا۔
۲… (ابن کثیر ص۳۶۵، آل عمران:۵۴) میں انہوں نے بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر لے جایا گیا اور ان کی جگہ اس غدار شخص کو سولی دی گئی۔ جس کی شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کر دی گئی تھی۔
۳… حضرت مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ نے فرمایا کہ یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لئے انتظام کیا۔ مگر اﷲتعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور آدمی کو ان کی شکل پر کر دیا۔ جس کو سولی دے دی گئی۔ (جلالین ص۵۲، آل عمران:۵۴)
۴… یہی تفسیر مجدد صدی دوازدہم حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب دہلویؒ نے کی اور فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آسمان کی طرف اٹھا لیا اور دوسرے آدمی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ اب ان مجددین کی تفسیر کو صحیح نہ ماننے والا کیسے مسلمان ہوگا؟
آیت نمبر۳:
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے اپنی تدبیر کی تفصیل بتاکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اطمینان دلایا۔
’’
واذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ ثم الیّ مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون
(آل عمران:۵۵)‘‘
{جب کہا اﷲ نے اے عیسیٰ علیہ السلام میں تم کو پوری طرح اپنی طرف اٹھاؤں گا اور کافروں سے پاک کردوں گا اور تمہارے متبعین کو کافروں پر (قرب) یوم قیامت تک 2517غالب رکھوں گا۔ پھر میرے پاس آؤ گے اور میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا۔}
یہاں بھی مرزاقادیانی کی جہالت آپ پر خوب واضح ہو جائے گی۔ کیونکہ مرزاجی نے متوفیک کامعنی کیا ہے۔ ’’میں تجھے موت دوں گا۔‘‘
بھلا یہ بھی کوئی تسلی ہے کہ یہودی تو کہیں ہم اس کو قتل کرتے ہیں اور اﷲتعالیٰ تسلی دیتے ہیں کہ میں موت دوں گا۔ یوں تو اور ڈرانا اور پریشان کرنا ہے۔ متوفیک کے معنی میں ان مجددین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں کہ جو مرزائیوں کے ہاں بھی مسلمہ مجدد ہیں۔