• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (سولہواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مجددین امت کے بیانات
۱… اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں۔ ’’اور نہ قتل کر سکے یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور نہ پھانسی پر ہی لٹکا سکے۔ بلکہ بات یوں ہوئی کہ یہود کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ بنادی گئی اور وہی قتل کیاگیا اور سولی دیا گیا۔‘‘
(تفسیر جلالین ص۹۱، زیر آیت کریمہ)
۲… مجدد صدی سیزدہم حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب دہلویؒ اپنے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’نہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی چڑھایا۔‘‘ (ترجمہ شاہ عبدالقادرؒ)
۳… 2531’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘ اس پر آیت ختم کر دی گئی کہ اﷲتعالیٰ کو کمال قدرت اور کمال علم حاصل ہے تو اﷲتعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا سے آسمانوں کی طرف اٹھانا اگرچہ آدمیوں کے لئے تعذر رکھتا ہے۔ مگر میری قدرت وحکمت کے لحاظ سے اس میں کوئی تعذر نہیں ہے۔ یہ تفسیر حضرت امام رازی صاحبؒ مجدد صدی ششم نے بیان فرمائی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پہلی بات
یہاں پانچ باتیں ہیں۔ اگر صلیب کا معنی سولی پر قتل کرنا ہے تو سولی پر چڑھانے کے لئے عرب میں کون سا لفظ ہے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دوسری بات
یہ ہے کہ اگر سولی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چڑھایا تھا تو بجائے اس کے کہ لعنت کی وجہ ان کے قتل کا قول بتاتے۔ یوں فرماتے ’’ وبصلبہم ‘‘ یعنی ان پر لعنت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صولی پر چڑھانے کی وجہ سے ہوئی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تیسری بات
یہ ہے کہ یہودی تو قائل ہی اس بات کے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر قتل کیا ہے۔ تو پھر وہ ماقتلوہ کافی تھا۔ ما صلبوہ کی کیا ضرورت تھی؟ معلوم ہوا کہ صرف سولی پر چڑھانے کو صلیب کہتے ہیں اور اﷲتعالیٰ مکمل طور پر حقیقت آشکار کرنا چاہتے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
چوتھی بات
یہ ہے کہ واقعہ صلیب کا ضرور ہوا تھا۔ لاکھوں لوگوں کو علم تھا۔ ایک آدمی کو سولی دی گئی تھی اور مشہور کیاگیا تھا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام تھے 2532تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ سولی دی گئی تھی۔ اگر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تھے تو پھر کون تھا؟ اس کا جواب قرآن پاک نے دیا ’’ بل شبہ لہم ‘‘ کہ ایک شخص پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ ڈال دی گئی (یہی غدار یہودا تھا) اس کو سولی پر لٹکا کر کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پانچویں بات
یہ ہے کہ پھر مسیح علیہ السلام کدھر گئے۔ اس کا جواب دیاگیا کہ ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۹)‘‘ کہ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
آخر میں ’’عزیزاً حکیما‘‘ فرما کر مسلمانوں کے عقیدے کو مضبوط سے مضبوط فرما دیا۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے اجلاس کی صدارت چھوڑ دی جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لیا)
----------
مولانا عبدالحکیم:
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۵)
آیت نمبر۵: ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیم شہیدا (النسائ:۱۵۹)‘‘ {جتنے فرقے ہیں اہل کتاب کے سو عیسیٰ علیہ السلام پر یقین لاویں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا ان پر گواہ۔}
مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب سارے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے پہل ایمان لے آئیں گے اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔ اس آیت کریمہ نے تو بہت ہی صفائی سے اعلان کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ ان کے مرنے سے پہلے یہود ونصاریٰ ان پر ایمان لائیں گے۔ گویا وہ بیسیوں حدیثیں اس آیت کی 2533شرح ہیں۔ جن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عادل، حاکم (فیصلے کرنے والے) ہوکر نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ اس وقت اسلام تمام اکناف عالم میں پھیل جائے گا اور جو یہود ونصاریٰ بچیں گے سب ان پر ایمان لے آئیں گے اور ایسے معجزات اور فتوحات دیکھنے کے بعد جو اسلامی روایات کے عین مطابق ظہور پذیر ہوں گے کیوں ایمان نہ لائیں گے۔ اب آپ ذرا چوتھی اور پانچویں آیت کا ترجمہ ملا کر پھر پڑھیں۔
۱… مرزاجی اس آیت کے ترجمے اور مطلب میں بری طرح پھنسے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ تو قیامت تک باقی رہیں گے۔ حالانکہ صور پھونکنے (بگل بجانے) کے بعد کون زندہ رہے گا۔ ایسی تمام آیتوں میں مراد قرب قیامت ہوتی ہے۔ ورنہ عام محاورہ ہے۔ مثلاً یہ کہیں کہ مرزائی قیامت تک مرزاغلام احمد کو مسلمان ثابت نہیں کر سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارا مناظرہ قیامت تک جاری رہے گا۔
۲… کبھی مرزاجی کہتا ہے کہ مرنے سے پہلے سارے یہود ونصاریٰ صحیح بات پر ایمان لے آتے ہیں۔ کیونکہ موت کے وقت ان کو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ ان باتوں سے مرزاجی اپنے مریدوں کو قابو رکھنے اور سادہ لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ ورنہ سب سمجھ سکتے ہیں کہ آیت کریمہ میں ’’لیؤمنّن‘‘ کے صیغے نے اس بات کو مستقبل کے ساتھ خاص کر لیا ہے کہ آئندہ ایسا ہوگا کہ وہ ضرور ایمان لائیں گے۔ مگر مرزاجی اس کا معنی لیؤمنن کہ جگہ لیؤمن کرتے ہیں کہ تمام اہل کتاب ایمان لے آتے ہیں۔ حالانکہ یہ گرائمر (صرف نحو کے) قواعد کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔
۳… 2534پھر مرزاجی یہاں ایمان کامعنی وہ ایمان کرتے ہیں جو آخری وقت (غرغرہ اور نزع کے وقت) کا ایمان ہے جو ایمان مقبول نہیں جیسے فرعون کا ایمان ڈوبتے وقت کا نامنظور تھا۔ حالانکہ قرآن پاک میں صرف ایک سورۃ بقرہ میں ایمان یا اس کے مشتقات تقریباً پچاس جگہ ذکر ہوئے ہیں۔ ان سب مقامات پر بلکہ قرآن پاک کی دوسری سینکڑوں جگہوں پر ایمان سے مراد ایمان مقبول ہے۔
جب مرزاجی کسی آیت کے معنی میں دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو لکھ مارتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں اتنی جگہ اس معنی میں استعمال ہوا ہے مگر یہاں سینکڑوں مقامات پر ایمان کے معنی ایمان مقبول سے گریز کر کے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔
۴… اگر ایمان سے، ایمان مردود اور نامقبول ہی مراد ہوتا ہے تو پھر لیؤمننّ بہ قبل موتہ نہ کہا جاتا۔ کیونکہ مرنے سے پہلے کا ایمان تو مقبول ومنظور ہے۔ وہاں موت کے وقت یعنی غرغرے کا ایمان مقبول نہیں ہوتا تو قبل موتہ کی جگہ عند موتہ ہونا چاہئے تھا کہ ان اہل کتاب کو موت کے وقت حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک جیسی فصیح وبلیغ کتاب عند موتہ نہیں فرماتی بلکہ قبل موتہ فرماتی ہے۔
۵… کبھی مرزائی آڑ لیتے ہیں کہ قبل موتہ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع نہیں ہے اور ایک شاذ قرأت کا سہارا لیتے ہیں۔ جس میں قبل موتہ کی جگہ قبل موتہم آیا ہے۔ حالانکہ پہلے تو قرأت متواترہ کے مقابلہ میں قرأت شاذہ کا کیا اعتبار ہے۔ جب کہ وہ کمزور ہے؟ پھر اگر مان لیا جائے تو اس صورت میں معنی اس طرح کریں گے جو قرأت متواترہ کے مطابق ہوں۔ اس طرح معنی 2535یوں ہوں گے کہ جب (عیسیٰ علیہ السلام) دوبارہ آئیں گے تو اس وقت کے بچے ہوئے سارے اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے اور یہ معنی ان بیسیوں حدیثوں کے عین مطابق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا۔
۶… اب آیت نمبر۴ اور آیت نمبر۵ کو ملا کر پھر پڑھیں۔ یہاں ذکر ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ ان کو قتل نہیں کیا۔ ان کو سولی نہیں دی۔ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔ ان پر ان کے مرنے سے پہلے تمام اہل کتاب کو ایمان لانا ہوگا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔ تمام ضمیریں عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ انہیں کا ذکر ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معنی کرنا قرآن پاک سے مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کا فیصلہ بالکل صاف ہے۔
۷… اب آپ مرزاقادیانی کا ترجمہ دیکھ کر ذرا لطف اٹھائیں۔ وہ اس کا معنی (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱) میں یوں لکھتے ہیں: ’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیںجو ہمارے اس بیان مذکورہ پر جو ہم نے (خدا نے) اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کئے ہیں۔ ایمان نہ رکھتا ہو۔ قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لاوے۔ جو مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔‘‘
پہلے تو مرزاجی کے اس ترجمے کا مطلب ہی کوئی نہ سمجھے گا اگر سمجھ بھی جائے تو مرزاناصر احمد اور سارے مرزائی بتائیں کہ یہ الفاظ جو مرزاجی نے ترجمہ میں گھسیٹے ہیں۔ قرآن پاک کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے؟ ورنہ پھر حدیث رسول ﷺ کے مطابق جہنم کے لئے تیار رہیں۔ خود مرزاجی نے لکھا ہے کہ 2536’’مؤمن کا کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
اگر ایمان ہے تو تیرہ سو سال کے مجددین یا کسی حدیث سے یہ معنی ثابت کریں۔ اس آیت کریمہ کا مطلب بالکل صاف ہے۔ مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مزید وضاحت یا تائید کے لئے بعض بزرگان سلف کے ارشادات بیان کر دئیے جائیں۔
(امام شعرانی الیواقیت والجواہر جلد نمبر۲ ص۱۴۶) میں لکھتے ہیں: ’’ الدلیل علیٰ نزولہ قولہ تعالیٰ وان من اہل الکتب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ اے حین ینزل… والحق انہ رفع بجسدہ الی السماء والایمان بہ واجب ‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک چیلنج
مولانا عبدالحکیم: مسلمانوں کے معنی کے لحاظ سے لکھیں تو معنی ظاہر ہیں مگر مرزائی بتائیں کہ ’’ یوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا ‘‘ کا کیا معنی ہے وہ کس بات کے گواہ ہوں گے؟ حق وناحق کو تو تمام کافر موت کے وقت پہچان لیں گے۔ تو وہ کس پر گواہی دیں گے اور کس بات کی دیں گے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دوسرا چیلنج
کیا کسی ایک محدث، مفسر اور مجدد کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے اس آیت کا وہ معنی کیا ہو جو مرزاجی نے کیا ہے۔ اگر یہ من گھڑت معنی ہے تو مرزاجی کے اس قول کو یاد رکھیں کہ ’’ایک نیامعنی اپنی طرف سے گھڑنا الحاد دو زندقہ ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۴۵، خزائن ج۳ ص۵۰۱)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۶)
آیت نمبر۶: ’’ اذ قال اﷲ یا عیسی ابن مریم اذکر نعمتی علیک وعلیٰ والدتک اذ ایدّتک بروح القدس تکلم الناس فی المہد وکہلا واذ علمتک 2537الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل واذ تخلق من الطین کہیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیراً باذنی واتبرئی الاکمہ والابرص باذنی واذ تخرج الموتیٰ باذنی واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ جئتہم بالبینات فقال الذین کفروا منہم ان ہذا الا سحر مبین (مائدہ:۱۱۰)‘‘ {اور جب کہے گا اﷲ اے عیسیٰ بیٹے مریم کے میری مہربانی یاد کر جو تم پر اور تمہاری والدہ پر میں نے کی۔ جب میں نے تمہاری مدد روح القدس سے کی۔ تم گود میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب وحکمت اور تورات وانجیل کی تعلیم دی اور جب تم گارے سے پرندے کی طرح شکل میرے حکم سے بنا کر اس میں پھونک دیتے تھے تو وہ پرندہ ہو جاتا میرے حکم سے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو روکے رکھا تم سے۔ جب تم ان کے پاس کھلے دلائل لائے تو کافروں نے ان میں سے کہا یہ تو بس صاف صاف جادو ہے۔}
اس آیت کریمہ میں اﷲتعالیٰ نے قیامت کا ذکر فرمایا ہے کہ اس دن اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے علاوہ اور احسانات کے یہ بھی فرمائیں گے کہ میں نے ان کو تم سے روکے رکھا۔ یعنی دست درازی اور ہاتھوں کو روکنا تو درکنار ہم نے ان کو آپ تک پہنچنے بھی نہ دیا۔ اس میں کمال حفاظت کی نعمت کا ذکر ہے اور اسی صورت میں یہ اﷲتعالیٰ کی نعمت اور احسان ہے۔ ورنہ جس طرح مرزاقادیانی نے بیان کیا۔ وہ ایک مذاق ہی ہے۔
یہاں مرزائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ وعدۂ عصمت کے بعد رسول اﷲ ﷺ کو جنگ احد میں تکلیف پہنچی۔ 2538پہلے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عصمت اور بچانا اور چیز ہے اور کف بمعنی روکے رکھنا اور چیز ہے۔
پھر یہ آیت کریمہ سورۂ مائدہ کی ہے جو ۵ھ اور ۷ھ کے درمیان نازل ہوئی۔ مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور نے اپنی تفسیر (بیان القرآن مطبوعہ ۱۳۴۰ھ ص۵۸۸) میں اس بات کااقرار کیا ہے اور خاص کر یہ آیت کریمہ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ دوران سفر ذات الرقاع غزوۂ انمار میں نازل ہوئی تھی۔ جو ۵ھ میں واقع ہوا۔ یہ بات مرزائیوں کے مسلمہ مجدد صدی نہم امام سیوطیؒ نے (تفسیر اتقان جزو اوّل ص۳۲) میں لکھی ہے۔ پس (نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۹) میں مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ ’’وعدہ عصمت کے بعد حضور کو جنگ احد میں تکلیف پہنچی تھی۔‘‘ بالکل جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے۔ اب مجددین کی رائے ملاحظہ ہوں۔
اس میں اﷲتعالیٰ نے اپنے احسانات میں صفائی سے یہ بیان کیا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو تم سے روکے رکھا۔ جب کہ مرزاجی کے ہاں تو خداتعالیٰ نے ان یہود کو اس طرح روکے رکھا کہ وہ پکڑ کر لے گئے۔ منہ پر تھوکا، طمانچے مارے۔ مذاق اڑایا۔ سولی پر چڑھایا اعضاء میں میخیں ٹھونکیں۔ وہ چیختا رہا کہ اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ پھر یہودیوں نے اس کو مردہ سمجھ کر اتار دیا۔ خفیہ علاج ہوا۔ مرہم رکھتے رہے آخر اچھا ہو کر وہ وہاں سے بھاگے اور پہاڑوں، دریاؤں، بیابانوں کو طے کرتے ہوئے سرحد پنجاب پہنچے۔ پھر کسی طرح کشمیر پہنچ گئے اور سری نگر میں (توبہ کر کے) خاموش زندگی گزادی اور وہیں مر گئے۔ مرزائیوں کے ہاں یہ اﷲتعالیٰ کی کامیاب تدبیر تھی اور اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہود کو عیسیٰ علیہ السلام تک نہیں پہنچنے دیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
 
Top