ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
کف کا معنی عربی میں روکے رکھنے کے ہیں قرآن پاک میں ہے۔
2539
’’
یکفوا ایدیہم (نسائ:۹۱)‘‘
’’فکف ایدیہم عنکم (نسائ:۱۱)‘‘
’’کفوا ایدیہم (نسائ:۷۷)‘‘
’’وکف ایدی الناس عنکم (فتح:۲۰)‘‘
’’الذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم (فتح:۲۴)
‘‘
ان تمام مقامات میں قرآن پاک نے اسی کف کو روکے رکھنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
چونکہ ان جگہوں میں ایک دوسرے کا سامنا ہوا یا مقابلہ کی شکل بنی تو اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایک کے ہاتھ دوسرے تک پہنچنے سے روکے رکھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں یہود اور پولیس سے مقابلے اور آمنے سامنے ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس لئے ایدی نہیں فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو آپ سے روکے رکھا۔ نہ تو وہ آپ تک پہنچنے پائے اور نہ ہی مقابلے کی صورت پیدا ہوئی۔ ایک صورت اعجاز کی یہ بھی ہے۔ اب آپ مجددین کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
۱… مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ تفسیر جلالین زیربحث آیت میں فرماتے ہیں۔
’’
وکھلاً یفید نزولہ قبل الساعۃ لانہ، رفع قبل الکہولۃ کما سبق فی
(آل عمران)‘‘ {وکہلاً سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے نازل ہوں گے اس لئے کہ وہ کہولت سے پہلے ہی اٹھالئے گئے تھے۔}
۲… 2540مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ (تفسیر کبیر ج۸ ج۴ ص۵۵) میں فرماتے ہیں: ’’
نقل ان عمر عیسیٰ علیہ السلام الیٰ ان رفع کان ثلاثاً وثلاثین سنۃ وستۃ اشہر وعلیٰ ہذا التقدیر فہو مابلغ الکھولۃ والجواب من وجہین… والثانی قول الحسین بن الفضل ان المراد بقولہ وکہلاً ان یکون کہلا بعد ان ینزل من السماء فی آخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ہذہ الایۃ نص علیٰ انہ علیہ السلام سینزل الی الارض
‘‘ {نقل ہے جب عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے ان کی عمر ساڑھے تینتیس برس تھی۔ (گویا انہوں نے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں نہیں کیں) حضرت حسین بن الفضل فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ نزول کے بعد کہولت کے زمانہ میں وہ باتیںکریں گے۔ ہزارہا سال کے بعد بوڑھا نہ ہونا پھر ادھیڑ ہوکر باتیں کرنا یہ وہ نعمت ہے جس کو قیامت کے دن اﷲتعالیٰ جتائیں گے۔ حضرت حسین بن فضل فرماتے ہیں کہ آیت میں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عنقریب زمین پر اتریں گے۔}
باقی دوسرا احسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پنگھوڑے میں باتیں کرنا یہ کیا مشکل ہے۔ جب جبرائیل علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے کی مٹی سے سامری کا بچھڑا جو دھات سے بنا تھا بول اٹھا، تو جو بزرگ پیدا ہی جبرائیل علیہ السلام کی پھونک سے ہوئے تھے۔ ان کا بچپن میں باتیں کرنا کیوں تعجب خیز ہے؟ مرزاغلام احمد قادیانی نے تو لکھا ہے کہ ’’میرے اس لڑکے نے دوبارہ ماں کے پیٹ میں باتیں کیں۔‘‘ خدا جانے کہاں کان رکھ کر یہ باتیں سنی گئیں؟ بہرحال یہ اس سے زیادہ مشکل ہے۔
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۷)
آیت نمبر۷: ’’
واذ قال اﷲ یا عیسی ابن مریم أانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اﷲ قال سبحٰنک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق، ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم مافی نفسک انک انت علام الغیوب ما قلت لہم الا ما 2541امرتنی بہ ان اعبدو اﷲ ربی وربکم، وکنت علیہم شہیداً مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علیٰ کل شیٔ شہید ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم
(مائدہ:۱۱۵تا۱۱۸)‘‘ {اور جب کہیں گے اﷲتعالیٰ اے عیسیٰ بن میریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خداتعالیٰ کے سوا معبود بنالو۔ وہ عرض کریں گے کہ اے اﷲ آپ برتر (اور شرک سے) پاک ہیں۔ یہ میرے لئے کیسے ممکن ہے کہ وہ بات کہوں جس کا کسی طرح مجھے حق نہیں۔ اگر میں نے کہا تھا تو آپ اس کو جانتے ہیں۔ آپ میرے دل کی بات جانتے ہیں۔ میں آپ کی بات نہیں جانتا۔ آپ بے شک غیب کی باتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں نے ان کو وہی بات کہی ہے جس کا آپ نے حکم دیا کہ میرے اور اپنے مالک کی عبادت کرو اور میں ان کا نگہبان (یا گواہ) تھا جب تک ان میں رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا۔ آپ خود ہی نگہبان (یا گواہ) تھے اور آپ ہر بات کے گواہ (اور واقف) ہیں اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں۔ (آپ کو حق حاصل ہے) اور اگر آپ ان کو بخشش دیں تو آپ (پوری طرح) غالب اور حکمتوں والے ہیں (سب کچھ) کر سکتے ہیں۔}
یہاں اﷲتعالیٰ قیامت کے دن کا ذکر فرماتے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں کہ اﷲتعالیٰ جانتے نہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نعوذ باﷲ ملزم ہیں۔ بلکہ اہل کتاب کو ذلیل ورسوا اور لاجواب کرنے کے لئے پوچھا جائے گا۔ کیونکہ عیسائی ان کو خدا اسی لئے بناتے تھے کہ 2542ان کا خیال تھا یا جان بوجھ کر جھوٹ گھڑ لیا تھا کہ یہ تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔ اس سوال کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی کچھ کہیں گے جو ایک پیغمبر کی شایان شان ہے۔ آخر میں فرمائیں گے جب تک میں ان میں رہا ان کا نگران تھا۔ مگر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا پھر آپ خود ہی نگران اور گواہ تھے۔ مرزاجی نے یہاں بھی ’’توفیتنی‘‘ کا معنی غلط کیا ہے کہ ’’جب آپ نے مجھے وفات دی۔‘‘ مگر صریحاً غلط ہے کیونکہ مرزاجی تو ستاسی سال واقعہ صلیب کے بعد سری نگر میں ان کو مارتے ہیں اور اس وقت تک بقول ان کے وہ زندہ تھے اور عیسائی ان سے پہلے ہی بگڑ چکے تھے۔
چنانچہ (چشمہ معرفت ص۲۵۴، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶) پر لکھتے ہیں: ’’انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ خدا کی جگہ عاجز انسان کی پرستش نے لے لی۔‘‘
اس طرح بقول مرزاجی کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے اسی نوے سال پہلے عیسائی بگڑ چکے تھے تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مرنے سے پہلے میں گواہ تھا۔ وہ تو دروں، پہاڑوں، دریاؤں اور بیابانوں میں پریشان پھرتے پھراتے سری نگر پہنچے جب کہ اس زمانہ میں وہاں بغیر لشکر کے پہنچنا اور اپنی قوم کے حالات سے واقف ہونا مشکل تھا۔ نیز آیت کریمہ سے مرزائی ترجمہ کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی علیحدگی ان لوگوں سے موت کے ذریعے ہوئی تھی۔ حالانکہ بقول مرزاجی علیحدگی عرصہ دراز پہلے ہوئی اور موت بعدمیں۔
اب آپ آیت کریمہ کا اعجاز ملاحظہ کریں کہ ’’
مادمت فیہم
‘‘ فرمایا ہے۔ ’’مادمت حیا‘‘ نہیں فرمایا کہ جب تک میں زندہ رہا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ جب تک میں ان میں رہا۔ مطلب صاف ہے کہ جب آپ آسمان کی طرف لے جائے گئے تو آپ کی ذمہ داری یا نگرانی کیسے باقی رہی؟
2543مرزاجی لوگوں کو احمق بنانے کے لئے کہتے ہیں کہ جب ان کو دوبارہ آنا ہے تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھے کوئی علم نہیں۔
۱… حالانکہ قرآن پاک میں ایسا نہیں ہے اور اگر یہی مطلب ہو تو سارے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں مرزاجی کا کیا خیال ہے جب ان سے قیامت میں پوچھا جائے گا۔ ’’ماذا اجبتم قالوا لاعلم لنا‘‘ {تمہیں کیا جواب دیا گیا وہ عرض کریں گے ہمیں کوئی علم نہیں۔}
مرزاجی! جو جواب یہاں دیں وہی جواب ہمارا بھی سمجھ لیں۔
۲… دوسرے مرزاجی خود تسلیم کرتے ہیں کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی امت کی بے راہ روی کا علم ہوا تو انہوں نے زمین پر اپنا مثیل اور صفاتی رنگ میں اپنا بروز چاہا۔ جب مرزاجی کو بروزی مسیح بننے کی ضرورت ہوئی تو یہاں تک مان لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان میں ان کی امت کی برائیوں کا علم ہوا اور جب مسلمانوں کو دھوکا دینا ہو تو یوں گویا ہوتے ہیں کہ لاعلمی ظاہر کریں گے؟ حالانکہ آنے سے پہلے ہی ان کو اﷲتعالیٰ نے سب باتوں کا علم دے دیا ہوتا ہے اور غیاب کے زمانہ کی کوئی ذمہ داری ان پر عائد نہیںہوتی نہ وہ نگران ہوتے ہیں۔ باقی انہوں نے علم سے انکار نہیںکیا ہے۔
’’
کنت انت الرقیب علیہم
‘‘ میں شہید کے مقابلہ میں رقیب استعمال کر کے صاف بتادیا کہ یہاں علم کا سوال ہی نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ میں نے ان غلط باتوں کا نہیں کہا اور جب تک میں ان میں رہا میں نگران تھا۔ میرے اٹھائے جانے کے بعد آپ خود ہی نگران تھے۔
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۸)
2544آیت نمبر۸: ’’
وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم
(الزخرف:۶۱)‘‘ {اور یقینا وہ (عیسیٰ علیہ السلام) یقینی نشانی ہیں قیامت کی، سو شک نہ کرو اس میں، اور میری تابعداری کرو۔ یہ سیدھی راہ ہے۔}
اس آیت میں صاف صاف بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دوبارہ تشریف لانا قیامت کی دلیل ہے۔ جس کا ذکر ہم عنقریب کریں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
۱… قرآن پاک کی آیات کی تصریحات کے بعد اس میں کیا شک رہ سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ان کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔
۲… احادیث بھی آگے چل کر آپ پڑھیں گے۔ لیکن یہاں خاص مناسبت کی وجہ سے ایک اور روایت درج کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ’’جس رات حضور ﷺ کو معراج ہوئی اس رات سرور عالم ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ قیامت کا تذکرہ چلا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کر دیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی انکار کر دیا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نمبر آیا انہوں نے فرمایا کہ وقوع قیامت کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو نہیں اور جو عہد میرے ساتھ ہے وہ اتنا ہے کہ قرب قیامت میں دجال خارج ہو گا۔ میں نازل ہو کر اس کو قتل کروں گا۔‘‘ (ابن ماجہ، مسند احمد، حاکم، ابن جریر اور بیہقی بحوالہ درمنثور)
۳… حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ سے درمنثور میں روایت ہے کہ وہ علم للساعۃ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے تشریف لانا مراد لیتے ہیں۔
۴… 2545امام حافظ (ابن کثیرؒ ج۷ ص۴۰۶) نے اپنی تفسیر میں اور امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم نے (تفسیر کبیر جلد نمبر۱۴ جز۱۷ ص۲۲۲) میں اس آیت کریمہ کے تحت انہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع کی اور ان کے نزول کو قرب قیامت کی نشانی قرار دیا۔
انجیل متی باب نمبر۲۴، انجیل مرقس باب نمبر۱۳ اور انجیل لوقا میں ہے کہ: ’’میرے نام سے بہتیرے آئیں گے یقین نہ کرنا۔ یسوع سے پوچھا گیا کہ دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے اور یہ باتیں کب ہوں گی۔ جب کہ وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا۔ اس نے کہا جھوٹے نبی اور جھوٹے مسیح تم کو گمراہ نہ کریں کسی کی بات نہ ماننا، جیسے بجلی کوند کر پورب سے پچھم کو جاتی ہے۔ اسی طرح ابن مریم آئے گا قدرت اور جلال کے ساتھ۔‘‘
اس سے یہ نتائج برآمد ہوئے۔
۱… وہ اپنے تمام مثیلوں سے بچنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا قیامت کی نشانی ہے۔
۳… حضرت مسیح علیہ السلام اچانک (آسمان) سے آئیں گے۔
۴… وہ بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آئیں گے۔
یہی مضمون قرآن وحدیث میں بھی موجود ہے… مرزائیوں کو چاہئے کہ اس پر ایمان لاکر مسلمان ہو جائیں۔
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۹)
آیت نمبر۹: ’’
ویکلم الناس فی المہد وکہلا
(آل عمران:۴۶)‘‘
یہ دراصل وہی پہلی آیت ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے۔ یہاں اس طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ اﷲتعالیٰ خاص طور پر زمانہ ’’کہولت‘‘ (ادھیڑ عمر) میں باتیں کرنے کا ذکر فرماتے ہیں۔ پھر قیامت کے دن اپنے احسانات میں بھی زمانہ کہولت میں باتیں کرنے کا ارشاد ہوتا ہے۔
2546حالانکہ بڑی عمر میں باتیں کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ ان پر احسان جتایا جائے۔ یہ تو سب انسانوں کو حاصل ہے۔ بات یہی ہے کہ چونکہ بڑی عمر میں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کیونکہ وہ آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے۔ اس لئے جب دوبارہ آئیں گے تو وہ زمانہ کہولت میں لوگوں سے باتیں کریں گے۔ یہ خاص اور معجزانہ انداز کی باتیں ہوں گے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ آئیں گے تو چونکہ پہلے ان کی شادی نہ ہوئی تھی۔ اس لئے وہ شادی بھی کریں گے۔ اس ضمن میں مرزاجی لکھتے ہیں: ’’شادی تو ہر شخص کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
اس مقام پر مرزاجی نے محمدی بیگم کے ساتھ اپنے نکاح کے بارہ میں سرور عالم ﷺ کو بھی ملوث کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ اگر حضور ﷺ نے تیرہ سو برس پہلے فرمایا تھا کہ محمدی بیگم سے مرزاجی کی شادی ہوگی اور اس ارشاد کا معنی وفات شریف تک آپ ﷺ پر نہ کھلا تو آپ ﷺ پیغمبر کیسے ہوئے۔ العیاذ باﷲ!
اس طرح جو کہتے ہیں ادھیڑ عمر میں باتیں کرنا کون سا کمال ہے کہ پیدائش کے ذکر میں بھی اﷲتعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہیں اور قیامت میں بھی احسان جتلائیں گے۔ معلوم ہوا کہ یہ کہولت معجزانہ کہولت ہے جو ہزارہا سال گزرنے کے بعد کی ہے۔
قرآن کریم کے فیصلے کے ساتھ انجیل کا فیصلہ بھی ملاحظہ کریں۔
انجیل برنباس جس کو مرزاجی نے اپنی کتاب (سرمہ چشم آریہ ص۲۴۰، خزائن ج۲ ص۲۸۸) میں نہایت معتبر قرار دیا ہے کے فصل نمبر۲۱۴تا۲۱۷۔ اسی طرح فصل ص۲۲۲تا۲۳۲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری برنباس نے تفصیل سے لکھا ہے کہ جب یہود نے حضرت یسوع مسیح کو پکڑ کر سولی کے ذریعے قتل کرنا چاہا اور جاسوسی کا کام یہود ا اسخریوطی سے لیا تو اﷲ نے یہودا کی شکل وصورت اور آواز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بناڈالی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرشتے کے ذریعے چھت کے روزن سے آسمان پر (زندہ جسم سمیت) اٹھا لیا۔ یہودا ہر چند چیخا چلایا مگر سب نے اس کو مسیح ابن مریم ہی سمجھا اور بڑی ذلت سے لے جا کر اس کو سولی پر چڑھایا۔ میخیں ٹھونکیں اور قتل کے بعد لاش کو اتار دیا۔ برنباس کہتا ہے کہ میں اور حضرت یسوع مسیح کی ماں سب یہودا کو اس کی آواز اور صورت وشکل کی وجہ سے مسیح ہی سمجھ رہے تھے۔ اس وقت ہم سولی کے قریب تک گئے وہ تکلیف اور غم بیان سے باہر ہے۔ بعد میں اصل حقیقت کھلی۔ مگر یہودیوں نے مشہور کر دیا کہ ہم نے ان کو قتل کر ڈالا۔ حواری بھاگ گئے تھے اور کوئی موجود نہ تھا۔ بعض عیسائیوں نے تین دن کے بعد آسمان پر زندہ کر کے اٹھانے کا عقیدہ گھڑا حق چھپ گیا اور باطل نے اس کو دبا لیا۔ انجیل برنباس کا یہ بیان قرآن پاک کے بالکل مطابق ہے۔
جب قرآن پاک اصلاح کے لئے نازل ہوا ہے اور اس نے یہودیوں اور عیسائیوں کے غلط عقیدوں کی تردید کر دی ہے تو پھر جب عیسائیوں کی اکثریت ان کے آسمان پر 2548زندہ ہونے کا عقیدہ رکھتی تھی تو قرآن پاک نے ’’رافعک‘‘ اور ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ فرما کر کیوں ان کے غلط عقیدے پر مہر تصدیق ثبت کی؟ قرآن کریم نے تو اس کو اس طرح صاف وصریح بیان کیا کہ تمام صحابہؓ اور تیرہ سو سال کے مجددین ومحدثین نے یہی سمجھا کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں۔ اگر واقعی وہ زندہ جسم سمیت آسمان پر نہ اٹھائے گئے ہوتے تو پہلے تو قرآن پاک واضح طور سے ان کی تردید کرتا۔ ورنہ ایسے الفاظ تو قطعاً استعمال نہ کرتا کہ جس سے ان کی تائید ہوسکتی۔
قرآن کے معانی حضور ﷺ سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا ہے۔ اب ہم آپ کو حضور ﷺ کے بیان کردہ معانی بتاتے ہیں۔
حدیث نمبر۱: ’’
عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا وما فیھا ثم یقول ابوہریرۃؓ فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ
(بخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، مسلم ج۱ ص۷۸، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)‘‘
{حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق ضرور آئیں گے تم میں ابن مریم حاکم وعادل ہوکر، پس صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھادیں گے۔ ان کے زمانہ میں مال اس قدر ہوگا کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہو گا۔ اگر تم چاہو تو (قرآن کی یہ آیت) پڑھو ’’
وان من اہل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ
‘‘} 2549اس ارشاد میں سرور عالم ﷺ نے قسم کھا کر بیان فرمایا ہے اور مرزاجی کے کہنے کے مطابق قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کلام میں کوئی تاویل یا استثناء نہیں ہے۔ ورنہ قسم بے فائدہ ہوجاتا ہے۔ پس یقینی ثابت ہوگیا کہ: ۱… کہ نازل ہونے والے مریم کے بیٹے ہیں۔ (نہ کہ چراغ بی بی کے) ۲… وہ حاکم اور فیصلے کرنے والے ہوں گے۔ (مرزاجی تو انگریزی عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے) ۳… وہ عادل ہوں گے۔ (مرزاجی نے تو محمدی بیگم کے غصہ میں خود اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور اپنے ایک لڑکے کو عاق اور وراثت سے محروم کر دیا تھا اور دوسرے سے بیوی طلاق کروائی تھی) ۴… وہ صلیب توڑیں گے۔ (مرزاجی نے نہ تو صلیب توڑا اور نہ ہی صلیب پرستی میں کمی آئی) ۵… وہ خنزیر کو قتل کریں گے۔ (تاکہ لوگوں کو اس سے نفرت ہو جائے) ۶… جزیہ موقوف کریں گے۔ (ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی پھر جزیہ کس سے لیں گے) ۷… اس قدر مال دیں گے کہ کوئی قبول کرنے والے نہ ہو گا۔ (مرزاجی تو کبھی کتابوں، مہمانوں اور کبھی مینارۃ المسیح کے لئے چند ے کی اپیلیں کرتے کرتے تھک گئے تھے) ۸… اس وقت ایک سجدہ دنیا بھر سے بہتر ہوگا۔ (مرزاجی کے آنے کے بعد تو نمازوں اور سجدوں میں نمایاں کمی آگئی۔ پھر جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو) 2550’’
وان من اہل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ
‘‘ {اور کوئی اہل کتاب نہیں رہے گا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے ان پر ایمان لائے گا۔} آنے والے کو قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرار دیتے اور ان کی زندگی کا اعلان کرتے ہیں۔ باقی ہزاروں کی تعداد میں صحابہؓ موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے بھی تردید نہیں کی اور حدیث ہے بھی بخاری اور مسلم شریف کی۔ ان الفاظ نے تو آیت کا معنی متعین کر کے معاملہ ہی صاف کر دیا۔
بڑی بات
یہ ہے کہ حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے قسم کھائی ہے اور مرزا جی کے مسلّم اصول کے تحت اس میں کوئی تاویل واستثناء نہیں ہوسکتی۔ ورنہ قسم میں فائدہ ہی کیا ہے۔ اب آپ خود اندازہ فرمائیں کہ اس حدیث شریف سے مریم علیہا السلام کے بیٹے کا نزول مراد ہے یا چراغ بی بی کے بیٹے کا اور حدیث میں بیان کی گئیں باقی باتیں بھی مرزاغلام احمد قادیانی پر منطبق ہوتی ہیں؟