ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اس آیت کا معنی اور مطلب مجدد صدی ششم امام رازیؒ (تفسیر کبیر ج۴ جز۸ ص۷۱،۷۲، آل عمران:۵۵) میں وہی لکھتے ہیں جو ہم نے یہاں بیان کیا۔ فرماتے ہیں توفی کے معنی ہیں ’’اخذ الشییٔ وافیاً‘‘ یعنی کسی چیز کو ہر لحاظ سے اپنے قابو میں کر لینا۔ اے عیسیٰ میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا میں ان یہود کو تیرے قتل کے لئے نہیں چھوڑوں گا۔ بلکہ تجھے آسمان کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچالوں گا۔ اﷲتعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض لوگ خیال کریں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم نہیں بلکہ روح اٹھائی گئی تھی۔ اس لئے متوفیک فرمایا تاکہ معلوم ہو کہ روح اور جسد دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔ اگر کہا جائے کہ جب توفی کے معنی پوری طرح قابو کر لینا ہے تو پھر اس کے بعد رافعک کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوری طرح قابو کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک توفی موت کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک بمعہ جسم آسمان کی طرف اٹھا لینے سے، ورافعک نے دوسرے معنی کو متعین کر دیا۔ (یہ سارا بیان حضرت امام رازیؒ کا تھا)
امام جلال الدین سیوطیؒ ’’جو قادیانی، لاہوری دونوں کے ہاں مجدد صدی نہم ہیں اور ان کو اس دجہ کا آدمی سمجھتے ہیں کہ وہ متنازعہ فیہ مسائل میں آنحضرت ﷺ سے بالمشافہ پوچھ لیتے تھے۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷) وہ فرماتے ہیں: ’’
یا عیسیٰ انی متوفیک (قابضک) ورافعک الیّ
(من الدنیا من غیر موت) (تفسیر جلالین ص۵۲، آل عمران۵۵)‘‘
ہم نے قرآن پاک کے وہ معانی کئے جن کی تائید دوسری آیات بھی کرتی ہیں۔ پھر حضور ﷺ قسم کھا کر نزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا ذکر کرتے ہیں جو بلحاظ اصول مذکورہ ظاہر پر محمول ہے۔ پھر صحابہؓ نے یہی فرمایا اور دو مجددوں کی تفسیر بھی آپ کے سامنے ہے۔ مگر مرزائی ایک ہی رٹ لگاتے چلے جاتے ہیں اور اس مقولے پر عمل کئے ہوئے ہیں کہ جھوٹ اتنا بولو کہ اس کے سچ ہونے کا گمان ہونے لگے۔ مرزائی ہلدی کی گرہ لے کر پنساری بننے کی کوشش کرتے ہیں اور خاص کر ابن عباسؓ کے معنی کو لے کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ توفی کے معنی اور حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر پر ذرا تفصیلی روشنی ڈالیں۔
توفی کا لغوی معنی اخذ الشییٔ وافیاً۔ یعنی کسی چیز کو پوراپورا قابو کر لینا یا پورا پورا لے لینا۔ یہ وفاء سے ہے فوت سے نہیں۔ اس کا اصلی معنی وہی ہے جو دو مجددین نے بیان کر دیا۔
اب ان مجددین کے مقابلہ میں ہم انگریز کے خاص وفادار مرزاقادیانی کی بات کیسے مان سکتے ہیں؟
امام ابن تیمیہؒ مجدد صدی ہفتم اپنی کتاب (الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح جلدنمبر۲ ص۲۸۰) پر لکھتے ہیں: ’’
لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذالک ثلثۃ انواع احدہا توفی النوم والثانی توفی الموت والثالث توفی الروح والبدن جیمعاً فانہ بذالک خرج عن حال اہل الارض
‘‘
{توفی کا معنی لغت عرب میں استیفاء اور قبض (یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا اور اس کو اپنے قابو میں کر لینا ہے) اس کی پھر تین قسمیں ہیں۔ ایک نیند کی توفی ایک موت کی توفی اور ایک جسم اور روح دونوں کی توفی اور عیسیٰ علیہ السلام اسی تیسرے طریقہ سے اہل زمین سے جدا ہوگئے ہیں۔}
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! دو منٹ کے لئے ریسٹ کر لیں۔ باقی تقریباً ۸۰صفحے رہتے ہیں۔ دو گھنٹے میں ختم ہو جائیں گے۔ (وقفہ)
مولانا عبدالحکیم: جناب! اجازت ہے؟
جناب چیئرمین: پھر دو بجے تک جاری رکھیں۔ شام کو ایک گھنٹہ میں ختم ہو جائے گا۔
مولانا عبدالحکیم: جناب اجازت ہے؟
جناب چیئرمین: ایک سیکنڈ۔ پھر ہم ڈیڑھ بجے تک جاری رکھتے ہیں، پھر شام کو ساڑھے پانچ بجے دوبارہ شروع کریں گے اور نماز مغرب تک ختم کر دیں گے۔
2520میاں محمد عطاء اﷲ: جناب والا! میری رائے میں جو میٹریل اب باقی رہ گیا ہے وہ ایک گھنٹہ میں آسانی سے مولانا صاحب پڑھ سکتے ہیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، آدھ گھنٹہ ٹھیک ہے۔ پھر اس کے بعد ریویو کریں گے۔
مولانا عبدالحکیم: جناب اجازت ہے؟
ترجمہ: اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی دلیل یہ آیت ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل… اور حق یہ ہے کہ وہ جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور اس بات پر ایمان لانا واجب ہے۔‘‘
۲… مجدد صدی ہفتم امام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب (الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح جلد دوم ص۲۸۱) میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’الا لیؤمننّ بہ میں ایمان نافع مراد ہے جو قبل از موت ہے۔ موت کے وقت غرغرے اور نزع کے وقت کا ایمان نہیں ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں اور تمام کافروں کے لئے ہے اور تمام باتوں کے مان لینے کے لئے ہے۔ جس سے بھی انکار کرتے تھے۔ اس میں حضرت مسیح کو کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ لیؤمننّ مستقبل ہی میں مستعمل ہوتا ہے اور سب اہل کتاب حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے ایمان لے آئیں گے۔‘‘
۳… حضرت ابوہریرہؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ انہوں نے ایک حدیث بیان کر کے یہ آیت کریمہ پڑھی اور بتایا کہ اس آیت کریمہ میں اسی مسیح علیہ السلام کی زندگی کا ذکر کیا ہے جن کے نزول کی خبر سرور عالم ﷺ نے دی ہے۔ ہزاروں صحابہؓ میں سے کسی نے انکار نہیں کیا اور اس طرح اس مسئلہ پر اجماع صحابہؓ منعقد ہوگیا۔
2521جناب چیئرمین: ڈیڑھ بج گیا ہے۔ آپ کا کتنا Stamina (قوت برداشت) ہے؟
مولانا عبدالحکیم: بیجان ہوگیا ہوں بالکل۔
جناب چیئرمین: کیا رائے ہے آپ کی؟
Members: Monday. (ممبران: بروز پیر)
جناب چیئرمین: منڈے نہیں۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کل صبح نہیں، آج شام کو ایک گھنٹہ لگے گا۔ ساڑھے پانچ بجے۔ اس کے بعد اگر کوئی ممبر صاحبان مختصر بحث کرنا چاہیں تو بیشک شام تک کرلیں۔ اس کے بعد جب کتاب ختم ہو جائے گی تو پھر جنرل ڈیبیٹ منڈے مارننگ سے شروع ہوگی۔
The Committee of the whole House is adjourned to meet at 5:30 pm. today.
(کل ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس شام ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
The Special Committee adjourned for lunch break to re-assemble at 5:30 pm.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے لئے شام ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
The Special Committee re-assemble after lunch break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) صدارت کر رہے ہیں)
----------
Mr. Chairman: Yes, Maulana Abdul Hakim.
(جناب چیئرمین: ہاں جی! مولانا عبدالحکیم صاحب)
جناب چیئرمین: ہاں جی! شروع کریں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was accupied by Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi.]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے اجلاس کی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
----------
مولانا عبدالحکیم: قرآن پاک میں لفظ توفی بائیس مقامات پر آیا ہے۔ اگر توفی کا حقیقی معنی بقول مرزاجی کے موت دینے کے مانے جائیں تو بعض مقامات پر معنی ہی نہیں بنتا۔
۱… ’’
اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمٰی
(الزمر:۴۲)‘‘ {اﷲتعالیٰ قابو کر لیتا ہے روحوں کو ان کی موت کے وقت جو مری نہیں ان کو قابو کر لیتا ہے نیند میں، پھر جن کا فیصلہ موت کا کیا اس کو روک دیتے ہیں اور دوسری روحوں کو واپس کر دیتے ہیں معیّن میعاد تک۔} اگر موت دینا مراد لیں تو معنی یہ ہوگا کہ اﷲتعالیٰ روحوں کو موت دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ بلکہ معنی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ روحوں کو قابو کر لیتے ہیں موت کے وقت بھی اور نیند کے وقت بھی۔
۲… ’’
وھوالذی یتوفاکم باللیل ویعلم ماجر حتم بالنہار
(آل عمران:۶۰)‘‘
{خدا وہ ہے جو تم کو رات کے وقت قابو کر لیتا ہے اور جو تم دن کو کرتے ہو اس کو جانتا ہے۔}
یہاں بھی توفی سے مراد نیند ہے۔ ورنہ لازم آئے گا کہ رات کو سارے لوگ مرجایا کریں۔
۳… ’’
والذین یتوفون منکم
(بقرہ:۲۳۴)‘‘ {اور وہ لوگ جو تم میں سے اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں۔}
جب قرأت زبر کے ساتھ ہو تو پھر یہاں موت دینے کے معنی بن ہی نہیں سکتے ورنہ معنی یہ ہوگا جو لوگ اپنے کو موت دیتے ہیں۔
2523توفی کااصلی اور لغوی معنی تو یہ ہوا اور چونکہ موت میں بھی روح قابو (قبض) کی جاتی ہے۔ اس لئے اس کو توفی کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح نیند میں بھی روح کو ایک طرح قبض کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس کو بھی توفی کہہ دیا جاتا ہے۔ مگر اصلی معنی کے سوا باقی معانی کے لئے قرینے اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے قرآن پاک کی بعض دوسری آیات میں قرینے موجود ہیں۔ جن کی وجہ سے وہاں موت کا معنی ہوتا ہے۔
باقی رہا یہ مسئلہ کہ کسی لفظ کا استعمال زیادہ تر اس کے اصل معنی کی بجائے شرعی معنی یا عرفی معنی میں ہونے لگے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب اصلی معنی میں یہ لفظ کبھی استعمال نہ ہوگا۔ یہ قطعاً غلط ہے۔ پہلی مثال
مثلاً صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ مگر شرعی اصطلاح میں صلوٰۃ ایک خاص عبادت ہے جس میں رکوع اور سجدے وغیرہ ہوتے ہیں اور قرآن پاک میں اس اصطلاحی معنی میں سینکڑوں جگہ صلوٰۃ کا استعمال ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً قرآن پاک میں ہے۔
’’
وصلّ علیم ان صلوتک سکن لہم
(التوبہ:۱۰۳)‘‘ {اور آپ ان کے لئے دعا کریں ۔اس لئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے باعث سکون ہے۔} دوسری مثال
اسی طرح زکوٰۃ کا لفظ ایک خاص معنی میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مالی عبادت کا ایک مخصوص طریقہ۔ مگر اصلی معنی میں بھی بلاروک ٹوک استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’
وحناناً من لدناوز کوٰۃ وکان تقیاً
(مریم:۱۳)‘‘ {اور یحییٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی طرف سے شوق دیا اور ستھرائی اور تھاپرہیزگار۔}
یہاں زکوٰۃ اپنے اصلی معنی پاکی میں مستعمل ہوا۔ یعنی ستھرائی اور پاکیزگی۔ اسی 2524طرح توفی کا لفظ ہے۔ زیادہ تر اس کا استعمال روح کو قبض کرنے میں ہوتا ہے۔ چاہے نیند کی صورت میں ہویا موت کی صورت میں۔ لیکن کبھی اس کا استعمال روح اور جسم دونوں کے قبض کرنے میں بھی ہوتا ہے اور یہی اس کے اصل معنی ہیں۔ یعنی: ’’
اخذ الشیٔ وافیا
‘‘ {کسی چیز کو پوری طرح تو قابو کر لینا۔} جیسے کہ اہل لغت اور مجددین نے کہا ہے۔
مرزاقادیانی اور اس کے پیرو کہہ دیا کرتے ہیں کہ توفی کا فاعل خدا ہو اور مفعول کوئی ذی روح ہو تو اس کا معنی قبض روح اور موت ہی کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک دھوکہ یا ڈھکوسلہ ہے۔ ہم کہتے ہیں توفی کا فاعل خدا ہو مفعول ذی روح ہو اور اس کے بعد رفع کا ذکر ہو تو توفی کا معنی جسم وروح دونوں کا اٹھایا جانا مراد ہوتا ہے۔
ایک اور دھوکہ (کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وفات مسیح کے قائل تھے (معاذاللہ))
مرزائیوں بلکہ خود مرزاجی نے حضرت ابن عباسؓ کے اس قول سے مسلمانوں کو بڑا دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے بخاری میں ’’متوفیک‘‘ کا معنی ’’ممیتک‘‘ کیا ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں… گویا وہ وفات مسیح کے قائل ہیں۔ یہ قطعاً دھوکہ اور غلط ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے ’’متوفیک‘‘ کا معنی ’’ممیتک‘‘ کیا ہے۔ یہ تو تسلی اور وعدہ ہے کہ میں تجھے توفی کر کے اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اب یہ بات کہ یہ وعدہ کب خدا نے پورا کیا ہم کہتے ہیں کہ جب وہ سولی پر چڑھانے کا ارادہ کرنے لگے۔ اﷲتعالیٰ نے وعدہ کے مطابق ان کو پوری طرح قبض کر کے آسمان کی طرف اٹھالیا۔ مرزائی کہتے ہیں کہ پوری پوری تکلیف اور ایذاؤں کے بعد سال گزار کر موت دی۔ موت تو ہر شخص کو دی جاتی ہے یہ کیا وعدہ تھا۔ کیا اﷲتعالیٰ کے شایان شان یہی تھا؟
2525’’مگر اماتت کا معنی صرف موت دینا نہیں بلکہ سلانا اور بے ہوش کرنا بھی ہے۔‘‘
(دیکھو مرزاجی کی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم ص۹۴۳، خزائن ج۳ ص۲۶۱)
تومعنی یہ ہوا کہ اے عیسیٰ میں تجھے سلا کر یا بے ہوش کر کے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں۔ تو اب تمام آیات اور تفسیریں ایک طرح ہوگئیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ’’ممیتک‘‘ کا معنی وہی موت دینے کے لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے موت دوں گا یہ نہیں دے سکتے، اور فی الحال آسمان کی طرف اٹھاتا ہوں اور ان لوگوں سے تم کو پاک کرتا ہوں۔ گویا آیت میں وہ تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں کہ موت میں دوں گا۔ لیکن بعد میں، اور فی الحال تم کو اٹھاتا ہوں۔
یہ معنی ہم اپنی طرف سے، مرزائیوں کی طرح نہیں کرتے۔ بلکہ مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ نے خود حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ تابعی ضحاکؒ حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ مراد اس جگہ یہ ہے کہ میں تجھے اٹھاؤں گا اور پھر آخری زمانہ میں فوت کروں گا۔
(درمنثور)
اسی طرح مجدد صدی دہم حضرت علامہ محمد طاہر گجراتی مصنف مجمع البحار نے فرمایا کہ:
’’
انی متوفیک ورافعک الیّ علی التقدیم والتاخیر ویجییٔ فی اٰخرالزمان لتواتر خبر النزول
‘‘ {یہ متوفیک اور رافعک الیّ تقدیم وتاخیر کے ساتھ ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں آئیں گے۔ کیونکہ ان کے نزول کی خبر متواتر ہے۔}
امام رازیؒ نے ’’تفسیر کبیر جلد دوم سورۃ آل عمران‘‘ میں لکھا ہے کہ یہاں واؤ سے ترتیب ثابت نہیں ہوتی کہ پہلے وفات ہو پھر رفع۔ بلکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ 2526یہ کام کریں گے۔ باقی کب کریں گے؟ کس طرح کریں گے؟ تو یہ بات دلیل پر موقوف ہے اور دلیل سے ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور حضور ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔ پھر ان کو اﷲتعالیٰ اس کے بعد وفات دیں گے اور یہ تقدیم وتاخیر قرآن میں بہت ہے۔ مثلاً:
۱… ’’
یامریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی
(آل عمران:۴۳)‘‘ {اے مریم اپنے رب کی عبادت کر اور سجدہ اور رکوع کر۔} تو یہاں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رکوع سے سجدہ پہلے کرے۔ کیونکہ سجدے کا ذکر پہلے آگیا ہے۔
۲… اسی طرح ’’
واوحینا الیٰ ابراہیم واسماعیل واسحٰق ویعقوب والاسباط وعیسیٰ وایوب ویونس وہارون وآتینا داؤد زبورا
(نسائ:۱۶۳)‘‘
اس آیت میں بھی واؤ سے ترتیب ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مذکور باقی انبیاء علیہم السلام سے بعد میں آئے ہیں۔ مگر آیت میں ان کا ذکر پہلے ہے۔
۳… اگر ہم کہیں کہ یہاں زید، عمر، بکر اور خالد آئے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ پہلے زید آیا پھر عمر آیا پھر بکر اور آخر میں خالد آیا۔ واؤ ترتیب کے لئے نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سب حضرات آئے۔ باقی کس طرح اور کس ترتیب سے آئے اس کا ذکر نہیں ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابن عباسؓ کے لفظوں کا معنی موت دینا ہی لے لیں تو بھی وہ حیات مسیح کے قائل ہیں اور آیت میں تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں۔
۱… جب توفی کے بعد رفع ہو اور رفع کا وقوع بھی بعد میں ہو تو اس کا معنی یقینا موت نہ ہوں گے۔ ایسی کوئی مثال (اس کے خلاف) نہیں ہے۔
۲… 2527اس سے پہلے کی آیت میں ہے کہ یہودیوں نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ نے بھی تدبیر فرمائی اور اﷲتعالیٰ کی طرح کون بہتر تدبیر کر سکتا ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ اگر مرزاغلام احمد قادیانی کی تفسیر مان لیں اور متوفیک کا مفہوم ہم تیرہ سو برسوں کے مجددین ومحدثین کے مطابق نہ لیں تو پھر کس کی تدبیر غالب آئی۔ یہود کی یا خداتعالیٰ کی۔ بقول مرزاجی کے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوایا، مذاق اڑایا، منہ پر تھوکا، منہ پر طمانچے مارے، سولی پر چڑھایا، ان کے اعضاء میں میخیں ٹھونکیں اور جو کچھ کر سکتے تھے کیا۔ آخر کار مرا ہوا سمجھ کر سولی سے اتارا۔ حالانکہ ان میں ابھی جان تھی۔ خفیہ علاج کیا گیا وہ بچ گئے اور زخم اچھے ہونے کے بعد ماں سمیت وہاں سے چلے گئے اور دو ہزار سال پہلے کے جنگلوں، صحراؤں، دریاؤں، بیابانوں کو طے کرتے کرتے افغانستان پہنچے۔ خدا جانے کس طرح پھر پنجاب آئے۔ کسی نہ کسی طرح سری نگر جا پہنچے وہاں ساری عمر گمنامی میں گزاری اور مر گئے۔ یہودیوں نے اپنی طرف سے قتل کر کے ان کو لعنتی قرار دے دیا، عیسائیوں کو جو موقع پر موجود نہ تھے یقین دلا دیا۔ جنہوں نے کفارہ کا عقیدہ گھڑ لیا۔ اﷲتعالیٰ اتنا ہی کر سکے کہ سولی پر جان نہ نکلنے دی۔
کیا یہ خداتعالیٰ کی بہترین تدبیر تھی۔ پھر اسی تدبیر کا قیامت کے دن احسان جتائیں گے کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روکے رکھا کیا یہی روکنا تھا؟
۳… کیا موت کے بعد اوروں کا رفع روحانی نہیں ہوتا۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کون سی تخصیص ہے؟
۴… اگر متوفیک کا معنی موت دینا ہے اور رافعک کا معنی بھی روح کا اٹھانا ہے تو پھر رافعک کا لفظ زائد اور بے سود ہو جاتا ہے۔ جس سے قرآن کی بلاغت 2528قائم نہیں رہتی۔ جس کی شان سب سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اور نہ عربی میں ایسا ہوتا ہے۔
۵… خداتعالیٰ کی یہ تدبیر تو فتنہ صلیب کے وقت کے لئے تھی۔ اسی وقت کی تسلی کے لئے انی متوفیک فرمایا گیا۔ مرزاجی کے مطابق یہ رفع روحانی اس وقت ہوا اور موت اس وقت واقع ہوئی جب کہ تمام طرح کی تکالیف گزر چکی تھیں۔ اچھی تسلی دی گئی؟
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۴)
آیت نمبر۴: ’’
وبکفرہم وقولہم علی مریم بہتانا عظیماً وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالہم بہ من علم الاتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما
(نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ {(اور ہم نے ان یہود پر لعنت کی) ان کے کفر اور مریم پر بڑا بہتان باندھنے کی وجہ سے اور کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا ہے جو اﷲ کے رسول ہیں۔ حالانکہ انہوں نے ان کو نہ قتل کیانہ سولی پر چڑھایا۔ البتہ ان کے لئے (ایک آدمی) مشابہ کر دیا گیا اور اس میں اختلاف کرنے والے (خود) شک کے اندر ہیں۔ ان کو اس واقعہ کا کوئی قطعی علم نہیں ہے۔ صرف ظن (تخمین) کی پیروی ہے اور انہوں نے اس (عیسیٰ علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیا۔ بلکہ اس کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں۔}
اس آیت کریمہ نے اصل مسئلے کا بالکل فیصلہ کر دیا کہ نہ تو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا اور نہ ہی سولی چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ 2529مرزاجی کبھی کہتے ہیں کہ روح کو اٹھایا کبھی کہتے ہیں اٹھانا بمعنی عزت دی۔ بھلا آپ خود غور کریں۔
۱… کہ قرآن پاک میں اسی ذات کے اٹھانے کا ذکر ہے جس کے قتل کا یہودی دعویٰ کرتے تھے تو کیا وہ روح کو قتل کرتے تھے۔ یا جسم اور روح دونوں پر قتل کا فعل واقع ہونا تھا۔ اس سے صاف وصریح معلوم ہوا کہ رفع اس کا ہوا جس کو وہ قتل کرنا یا سولی پر چڑھانا چاہتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم اور روح دونوں تھے۔ صرف روح نہ تھی۔
۲… ’’
وما قتلوہ وما صلبوہ
‘‘ اور پھر ’’
وما قتلوہ
‘‘ میں جب تمام ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں تو پھر رفعہ اﷲ کی ضمیر کیوں ان کی طرف راجع نہیں؟
۳… بات یہ بھی قابل غور ہے کہ رفع کا ذکر اسی وقت کا ہے جس وقت وہ قتل کرنا چاہتے تھے۔ مرزاجی روح کا رفع مراد لے کر ۸۷سال بعد کشمیر میں رفع روحانی کہتے ہیں۔
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند
۴… یہود مطلق قتل کے قائل نہ تھے۔ بلکہ وہ سولی پر چڑھا کر سولی کے ذریعے قتل کے قائل تھے تو جب اﷲتعالیٰ نے فرمایا ’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ ان یہودیوں نے ان کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھایا۔ مرزاجی کا ترجمہ یوں ہے کہ نہ ان کو قتل کیا نہ سولی پر قتل کیا۔ (کتنا بھدا ترجمہ ہے)
۵… آیت میں ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ ہر عقلمند جانتا ہے کہ بل کے بعد والی بات، بل سے پہلے والی بات کی ضد ہوتی ہے۔ جیسے کہا جائے کہ زید لاہور نہیں گیا، 2530بلکہ سیالکوٹ گیا۔ یا یوں کہیں زید مسلمان نہیں بلکہ مرزائی ہے تو اس کا یہی معنی ہے کہ دوسری بات پہلی بات کے خلاف ہے۔
اب اﷲتعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ان کو قتل نہیں کیاگیا۔ بلکہ میں نے اپنی طرف اٹھالیا تو یہ تب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ رفع جسمانی مراد ہو۔ ورنہ مرزاجی کا معنی یہ ہوگا کہ انہوں نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو موت دے دی تو قتل اور موت میں کوئی تضاد نہیں۔ کیونکہ قتل میں بھی موت ہوتی ہے۔
اس ’’بل‘‘ نے بھی مرزائیوں کا بل نکال دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قتل میں بھی موت خدا ہی دیا کرتے ہیں تو اس کاکیا مطلب ہوا کہ انہوں نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ خدا نے موت دے دی۔ (معاذ اﷲ)
۶… آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے ارادے کے وقت خداتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا کر بچا لیا اور مرزاجی کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے ۸۷سال بعد سری نگر میں گمنامی کی موت مرے۔ (معاذ اﷲ)