حدیث نمبر۱۲: حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں روایت ہے کہ:
’’ لما کانت لیلۃ اسری برسول اﷲ ﷺ لقی ابراہیم علیہ السلام وموسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام فتذاکرو الساعۃ فبدؤابا ابراہیم فسئلوہ عنہا فلم یکن عندہ منہا علم ثم سألوا موسیٰ فلم یکن عندہ علم فرد الحدیث الیٰ عیسی بن مریم فقال قد عہد الیٰ فیما دون اوجبتہا فاما وجبتہا فلا یعلمہا الا اﷲ فذکر خروج الدجال قال فانزل فاقتلہ
(ابن ماجہ باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی ابن مریم ص۲۹۹)‘‘
{حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ صحابی فرماتے ہیں کہ معراج کی رات رسول کریم ﷺ نے ملاقات کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔ پس انہوں نے قیامت کا ذکر چھیڑا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی جواب دیا۔ آخر الامر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرے ساتھ قرب قیامت کا ایک وعدہ کیاگیا تھا۔ اس کا ٹھیک وقت سوائے خدا عزوجل کسی کو معلوم نہیں۔ پس انہوں نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ پھر میں اتروں گا اور دجال کو قتل کروں گا۔ (آخر تک)}
یہ حدیث امام احمد نے مرفوعاً بیان فرمائی ہے کہ یہ تمام الفاظ گویا خود حضور ﷺ کے ہیں۔ امام احمد صدی دوم کے مسلّم مجدد ہیں۔ اس لئے حدیث کی صحت میں بحث ہی 2560نہیں ہوسکتی۔ جیسے کہ اصول تفسیر میں لکھا جاچکا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ دجال کا ایک شخص کا نام ہے۔ پادریوں کے گروہ کا نام نہیں جیسے مرزا نے کہا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں وہی اتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ قتل دجال نے بھی ’’دلائل‘‘ وغیرہ سے قتل کی نفی کر دی۔ جیسے کہ مرزائی ہرزہ سرائی ہے۔ کیا معراج کی رات میں مرزاقادیانی نے اپنے نزول کا ذکر کیا تھا؟ کیا یہی مرزاقادیانی اس آسمان سے اترے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی دجال کو قتل کیا ہے؟
’’ لما کانت لیلۃ اسری برسول اﷲ ﷺ لقی ابراہیم علیہ السلام وموسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام فتذاکرو الساعۃ فبدؤابا ابراہیم فسئلوہ عنہا فلم یکن عندہ منہا علم ثم سألوا موسیٰ فلم یکن عندہ علم فرد الحدیث الیٰ عیسی بن مریم فقال قد عہد الیٰ فیما دون اوجبتہا فاما وجبتہا فلا یعلمہا الا اﷲ فذکر خروج الدجال قال فانزل فاقتلہ
(ابن ماجہ باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی ابن مریم ص۲۹۹)‘‘
{حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ صحابی فرماتے ہیں کہ معراج کی رات رسول کریم ﷺ نے ملاقات کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔ پس انہوں نے قیامت کا ذکر چھیڑا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی جواب دیا۔ آخر الامر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرے ساتھ قرب قیامت کا ایک وعدہ کیاگیا تھا۔ اس کا ٹھیک وقت سوائے خدا عزوجل کسی کو معلوم نہیں۔ پس انہوں نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ پھر میں اتروں گا اور دجال کو قتل کروں گا۔ (آخر تک)}
یہ حدیث امام احمد نے مرفوعاً بیان فرمائی ہے کہ یہ تمام الفاظ گویا خود حضور ﷺ کے ہیں۔ امام احمد صدی دوم کے مسلّم مجدد ہیں۔ اس لئے حدیث کی صحت میں بحث ہی 2560نہیں ہوسکتی۔ جیسے کہ اصول تفسیر میں لکھا جاچکا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ دجال کا ایک شخص کا نام ہے۔ پادریوں کے گروہ کا نام نہیں جیسے مرزا نے کہا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں وہی اتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ قتل دجال نے بھی ’’دلائل‘‘ وغیرہ سے قتل کی نفی کر دی۔ جیسے کہ مرزائی ہرزہ سرائی ہے۔ کیا معراج کی رات میں مرزاقادیانی نے اپنے نزول کا ذکر کیا تھا؟ کیا یہی مرزاقادیانی اس آسمان سے اترے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی دجال کو قتل کیا ہے؟