ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اس سلسلہ میں مرزاجی کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ مسیح کے آنے کی پیش گوئی کو مشہور ومعروف اور متواتر بھی قرار دیا اور (ازالۃ الاوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) پر صاف لکھ دیا کہ: ’’یہ اوّل درجہ کی 2572پیش گوئی ہے۔ اس کو تواتر کا اوّل درجہ حاصل ہے۔‘‘
مگر یہ لکھ مارا کہ ’’خدا نے قرآن کے معنے لوگوں سے چھپا دئیے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۴۲۶، خزائن ج۵ ص ایضاً)
حتیٰ کہ مرزاجی کو مامور ومجدد بناکر ان پر دس سال تک نہ کھولے اور یہ بھی لکھ مارا کہ ’’حیات مسیح کا عقیدہ شرک عظیم ہے۔‘‘
اور بچنے کے لئے پرانے اولیاء صلحاء اور صحابہؓ کو معذور قرار دے دیا کہ ان سے اجتہادی غلطی ہوئی۔ پھر کبھی یہ کہا کہ پہلا اجماع وفات مسیح پر ہوا تو پھر مسئلہ مسلمانوں سے کیسے چھپا رہا؟ کبھی شرک عظیم کہہ کر خود بھی مشرک بنے رہے اور کبھی اپنی ضرورت کے لئے تیرہ سو سال بعد قرآن دانی کا دعویٰ کر کے خود مسیح ابن مریم بن بیٹھے۔ بھلا جو چیز شرک عظیم ہے جس کے ماننے سے آدمی مشرک اعظم بنتا ہے۔ خداایسے قرآنی مسئلے کو لوگوں سے چھپا سکتا ہے۔ پھر قرآن کے نزول کا فائدہ کیا ہوا۔
کیا یہ ہوسکتا ہے کہ خداتعالیٰ قرآن کے بعض معانی قرون اولیٰ سے چھپا دیں اور صدیوں کے مجددین، اولیاء کرام اور علماء کرام مشرکانہ معنی پر جمے رہیں۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی مجدد ومامور ہوکر بھی دس سال تک عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے رہے اور کیا شرک عظیم کو اجتہاد کی وجہ سے برداشت کیا جاسکتا ہے؟
کیا خود قرآن پاک نے ’’
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون
‘‘ نہیں فرمایا کہ ہم ہی نے قرآن (ذکر) اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ کیا حفاظت کا یہ مطلب ہے کہ اس کے معانی کو صدیوں تک بہترین حضرات کی آنکھوں سے خود خدا اوجھل کر دے۔ حالانکہ خود مرزانے بھی کہا کہ ’’قرآن پاک ذکر ہے اور ذاکر قیامت تک رہیں گے۔ اس کا مفہوم دلوں میں رہے گا۔ اس کے مقاصد ومطالب کی حفاظت اصل کام ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۵۴، ۵۵، خزائن ج۶ ص۳۵۱)
اگر کوئی ایسا نبی آنا تھا جس کا انکار کرکے ساری امت کافر ہوجاتی تو کیا سرور عالم ﷺ نے جہاں اور خبریں مستقبل کی دیں۔ وہاں پہ ضروری نہ تھا کہ ستر کروڑ آدمیوں کی امت کو کفر سے بچانے کے لئے کچھ فرمادیتے؟
کیا لا نبی بعدی فرماکر اور عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا ذکر کر کے اور مریم کے بیٹے کے نازل ہونے اور دوبارہ آنے کی متواتر خبریں دے کر خود آپ ﷺ نے امت کے لئے سامان کفر العیاذ باﷲ تجویز نہیں کیا؟
مرزاناصر صاحب نے اتمام حجت کے ساتھ دل سے صحیح مان لینے کی دم لگا کر ایجاد بندہ کا کام کیا ہے۔ خود مرزا کا قول ہے۔ ’’اور خدا نے اپنی حجت پوری کر دی ہے۔ اب چاہے کہ کوئی قبول کرے چاہے نہ کرے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۶، خزائن ج۲۲ ص۵۷۴)
دیکھئے اس عبارت میں مرزاجی نے بھی اتمام حجت کے ساتھ دل سے سچا سمجھ کر انکار کرنے کی دم نہیں لگائی۔
اس سے ظاہر ہے کہ اگلا مانے یا نہ مانے سمجھے یا نہ سمجھے جب اس کے سامنے دلیل سے بات ہوگئی۔ دعوت حق پہنچ گئی اب اس پر اتمام حجت ہوگیا چاہے مانے چاہے نہ مانے۔
2574اگر اس طرح نہ کیا جائے تو دنیا کے زیادہ تر کافر جو حضور ﷺ کو نبی نہیں سمجھتے ان کے انکار سے وہ کیوں بڑے کافر ہوئے؟
مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ مرزاقادیانی کے انکار سے خدا آخرت میں سزا دے گا۔ دنیا میں یہ مسلمانوںہی میں شمار ہیں اور ان سے ملکی وسیاسی سلوک مسلمانوں کی طرح ہوگا۔ اس طرح وہ اپنی تکفیر پر پردہ ڈالتے ہیں۔ مگر ان کو معلوم ہو کہ دل کی بات خداجانتا ہے۔ یہاں قاضی اور عدالت بھی ظاہر پر فیصلہ کریں گے۔ اگر مرزانبی ہے تو اس کا انکار کفر ہے۔ پھر کوئی آدمی جو مرزاجی کو نہ مانے مسلمان نہیں رہ سکتا اور اگر نبوت ختم ہے تومرزاجی اور اس کے ماننے والے سب قطعی کافر ہیں۔
دوسری طرح سنئے قرآن پاک میں ہے۔ ’’ماکنّا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً‘‘ {کہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں دیتے۔}
یہاں صرف رسول کے بھیجنے کا ذکر ہے۔ اس کو دل سے سچا سمجھ کر انکارکا ذکر نہیں ہے اور رسول بھیجنے کے بعد منکر رسول کو صرف عذاب اخروی نہیں دیا جاتا۔ بلکہ وہ مسلمان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ پھر قرآن نے صرف یہ بتایا ہے کہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ ’’
ماجاء نا من نذیر
‘‘ کہ ہمارے پاس کوئی نذیر نہیں آیا۔ اس میں سمجھنے نہ سمجھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ صرف ایجاد مرزا ہے۔ ہاں بعض کافر ایسے بھی ہیں جو دل سے سچا سمجھنے کے باوجود انکار کرتے ہیں۔ مگر بعض دوسرے بھی ہیں۔
مرزاجی اور اس کے متبعین نے عام مسلمانوں کو کافر کہا۔ لیکن اپنی اس تکفیر کو عجیب طریقہ سے چھپایا کہ چونکہ دوسروں نے مجھے کافر کہا اور مسلمان کو کافر کہنے سے وہ خود ہی کافر ہوگئے۔ یا انہوں نے قرآن وحدیث کے بیان کردہ مسیح موعود کا انکار کیا اس لئے وہ خود ہی کافر ہوگئے۔
2575واہ جی مرزاصاحب واہ جی! آپ اگر خدا بن بیٹھیں تو آپ کو لوگ گلے لگائیں گے یا کافر مطلق کہیں گے؟ پھر آپ کہیں گے کیا کروں یہ لوگ مجھے کافر کہنے کی وجہ سے خود کافر ہو گئے؟ آپ نبی بنیں، پیغمبروں کی توہین کریں، مسلمان مجبوراً آپ کو کافر کہیں گے۔ پس آپ کے لئے یہ بہانہ کافی ہے کہ یہ لوگ مجھے کافر کہنے سے کافر ہو گئے۔
اور سچ پوچھیں تو آپ ڈبل کافر ہو جاتے ہیں۔ ایک غلط دعوؤں کی وجہ سے اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی منطق کے لحاظ سے کافر بن جانے کا سبب بننے سے۔
کیا قتل کا واقعہ شام میں ہوا اور گواہ لدھیانہ کا کہے! وہ گواہ مردود نہ ہوگا؟
کیا دعویٰ زید بن عمر پر ہوتو اس کی جگہ خالد بن سلیم کو پکڑا جاسکتا ہے؟
کیا واقعہ لاہور کا ہو اور ہم لاہور کا معنی تاویلیں کر کے راولپنڈی کریں تو اس طرح دنیا کے کام چل سکتے ہیں؟
کیا نکاح احمد خان ساکن ہری پور کا ہو اور عورت کے پاس غلام احمد ساکن کراچی آدھمکے اور کہے کہ احمد خان سے مراد غلام احمد خان ہی ہے اور ہری پور سے کراچی ہی مراد ہے؟
کیا اس قسم کی باتیں مان لی جائیں تو نظام عالم درہم برہم نہ ہو جائے گا؟
کیا مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹے اور مرزائیوں کے خلیفہ دوم مرزامحمود نے (حقیقت النبوۃ حصہ اوّل ص۱۸۸) پر یہ نہیں لکھا کہ: ’’قرآن میں ’’ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ میں مرزاقادیانی ہی کو رسول کہاگیا ہے۔‘‘
اور کیا اس طرح وہ احمد کا بھی مصداق نہ ہو جائے گا؟
کیا یہ قرآن پاک سے تلعب اور مذاق نہیں ہے؟
کیا مرزاقادیانی کے سامنے یہ اشعار نہیں پڑھے گئے اور اس نے تحسین نہیں کی تھی۔ (اخبار البدر قادیان مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ، الفضل قادیان مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ئ) محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
جناب چیئرمین: یہ تین دفعہ پڑھ چکے ہیں۔ دوبارہ نہ پڑھیں۱؎۔
مولانا عبدالحکیم: میں سمجھا نہیں۔
جناب چیئرمین: آپ تین دفعہ یہ اشعار پڑھ چکے ہیں۔
مولانا عبدالحکیم: کتاب میں چھپا ہوا ہے وہ تو پڑھنا ہی ہے۔
مرزاناصر احمد نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کے بعد والا شعر اس کا جواب ہے۔ شعر یہ ہے ؎
غلام احمد مختار ہو کر
یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں
خوب، غلام، غلام کہہ کر عیسیٰ علیہ السلام سے افضل بنو، حضور ﷺ سے اپنی شان بڑھالو، غلام بن کر حضور ﷺ کی ۷۰کروڑ امت کو کافر کر ڈالو، نسخہ اچھا ہے۔ مرزاناصر احمد صاحب یہ شعر سن کر پہلے تو بڑے پریشان ہوئے اور پھر اس کے بعد (جب اخبارات پیش ہوئے) یہ جواب گھڑ لیا۔ کیا مرزاناصر صاحب اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کی دو بعثتیں مانی ہیں اور دوسری بعثت کو پہلی سے اکمل بتایا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ (قادیانی حضرات توجہ کریں کہ قادیانی کفریات جو بھی سنتا ہے وہ سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ اے کاش قادیانی بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزائی فرقہ کے لوگوں اور مرزاناصر احمد صاحب نے کوشش کی ہے کہ شیخ اکبرؒ کے نام سے مسلمانوں کو دھوکہ دیا جائے کہ وہ غیرتشریعی نبوت کو باقی سمجھتے تھے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ شیخ اکبرؒ اور بعض دوسرے اولیاء نے جو کہا ہے کہ غیرتشریعی نبوت باقی ہے وہ صرف مکالمات ومبشرات (سچی خوابیں) اور ولایت ہے۔ نبی تشریعی مستقل صاحب کتاب جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام انبیاء غیرتشریعی جیسے دوسرے انبیاء بنی اسرائیل اس سے ان کے کلام کا تعلق ہی نہیں ان دونوں کو وہ شرعی نبوت کہتے ہیں جس میں کسی کو نبی کہا جائے یا نبوت کا دعویٰ کیا جائے وہ جانتے ہیں کہ منصب نبوت، ولایت، قابلیت اور روحانی ارتقاء سے نہیں ملتا۔ یہ خدا کی دین ہے۔ ورنہ تیرہ سو سال میں کوئی صحابیؓ، مجدد، محدث اور ولی بھی دعویٰ نبوت نہ کرتا یا نبی نہ کہلاتا؟
دوسرے ان کے پیش نظر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا تھا کہ ان کی حیات اور آمد ثانی سے انکار کر کے کوئی کافر نہ ہو جائے۔ اس لئے وہ لکھتے رہے کہ وہ جب آئیں گے تو نہ اپنی پرانی شریعت پر عمل کریں گے نہ کوئی نئی شریعت لائیں گے۔ بلکہ شریعت محمدیہ پر ہی عمل کریں گے۔ کرائیں گے، یہی مقصد شیخ اکبر کا اور یہی مقصد ملا علی قاریؒ اور دوسرے حضرات کا ہے۔
۱… امام ابن عربی شیخ اکبرؒ نے حدیث معراج کے ضمن میں فرمایا۔
ترجمہ: ’’جب سرور عالم ﷺ دوسرے آسمان میں داخل ہوئے۔ وہاں عیسیٰ علیہ السلام بعینہ جسم وجسد کے ساتھ موجود تھے۔ اس لئے کہ وہ ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ ان کو اﷲتعالیٰ نے اس آسمان تک اٹھا کر وہاں سکونت بخشی۔‘‘
(فتوحات مکیہ ج۳ ص۳۴۱)
مولانا عبدالحکیم: نماز پڑھ لیں۔
جناب چیئرمین: میں عرض کروں آپ پڑھتے جائیں۔ تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ چند چیزیں ہیں وہ رہ سکتی ہیں۔ عدالتوں کے حوالے ہیں وہ رہ سکتے ہیں۔
مولانا عبدالحکیم: ابھی کافی صفحے رہتے ہیں۔
جناب چیئرمین: پانچ منٹ کی بات ہے، ختم کر دیں۔
مولانا نے پڑھنا شروع کیا اور پھر اسی دوران۔
مولانا عبدالحکیم: صاحب نماز پڑھ لیں۔
جناب چیئرمین: آگے عدالتوں کے حوالے ہیں، وہ آگے آچکے ہیں۔ ان کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مولانا عبدالحکیم: صاحب! آپ چائے پی لیں، ہم نماز پڑھ لیں گے اور پھر یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈا کریں گے۔
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! میں التماس کرتا ہوں آپ اسے ختم کریں۔
مولانا عبدالحکیم:
۲… اور یہی مطلب ہے کہ حضور ﷺ کے اس فرمان کا کہ رسالت ونبوت ختم ہوگئی ہے۔ نہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا نہ رسول جو میری شریعت کے خلاف شریعت جاری کرے۔ 2579(اس کے بعد لکھا ہے) اس لئے کہ اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (یہ اجماعی عقیدہ ہے) کہ عیسیٰ علیہ السلام نبی اور رسول ہیں اور یہ بھی امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ وہ آخر زمانے میں نازل ہوں گے۔ بڑے عدل وانصاف سے ہماری شریعت محمدی پر عمل کریں گے اور کرائیں گے۔ کسی دوسری شریعت اور اپنی سابق شریعت پر بھی عمل نہ کریں گے۔ (فتوحات مکیہ ج۲ ص۳)
۳… مرزامحمود نے اپنی کتاب (حقیقت النبوۃ ص۲۴۸) میں لکھا ہے کہ ابن عربی نے مسیح موعود کے بارے میں لکھا ہے پھر ان کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’مسیح موعود کے قیامت کے دن دو حشر ہوں گے۔ ایک رسولوں کے ساتھ بحیثیت رسولوں کے اور ایک ہمارے ساتھ بحیثیت ولی کے جو تابع ہوگا محمد ﷺ کے۔‘‘ اس طویل عبارت میں شیخ اکبرؒ نزول عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ اور پھر قیامت میں ان کے علیحدہ جھنڈے اور رسول اﷲ ﷺ کے عام جھنڈے جس کے نیچے سارے پیغمبر ہوں گے۔ پھر حضور ﷺ کے خاص جھنڈے جس کے نیچے امت اور امت کے اولیاء ہوں گے۔ اب فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس جھنڈے کے نیچے بھی ان کا حشر ہوگا۔ جس میں وہ تمام اولیاء امت کے سردار ہوں گے اور اپنا علیحدہ جھنڈا بھی ہوگا۔ جس کے نیچے ان کے امتی ہوں گے۔
یہاں مرزے کا کون سا ذکر ہے؟ مگر مرزامحمود نے مسیح موعود کا لفظ ترجمہ میں بڑھا کر خیانت کی ہے۔