ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
انگریز نے جب برصغیر اور عالم اسلام میں اپنا پنجہ استبداد جمانا شروع کیا تو اس کی راہ میں دو باتیں رکاوٹ بننے لگیں۔ ایک تومسلمانوں کی نظریاتی وحدت دینی معتقدات سے غیر متزلزل وابستگی اور مسلمانوں کا وہ تصور اخوت جس نے مغرب ومشرق کو جسد واحد بنا کے رکھ دیا تھا۔ دوسری بات مسلمانوں کا لافانی جذبہ جہاد جو بالخصوص عیسائی یورپ کے لئے صلیبی جنگوں کے بعد وبال جان بنا ہوا تھا اور آج ان کے سامراجی منصوبوں کے لئے قدم قدم پر سدراہ ثابت ہورہا تھا اور یہی جذبہ جہاد تھا جو مسلمانوں کی ملی بقاء اور سلامتی کے لئے گویا حصار اور قلعہ کا کام دے رہا تھا۔ انگریزی سامراج ان چیزوں سے بے خبر نہ تھی۔ اس لئے اپنی معروف ابلیسی سیاست لڑاؤ اور حکومت کرو (Divide and Rule) سے عالم اسلام کی جغرافیائی اور نظریاتی وحدت کو ٹکڑے کرنا چاہا۔ دوسری طرف عالم اسلام بالخصوص برصغیر میں نہایت عیاری سے مناظروں اور مباحثوں کا بازار گرم کر کے مسلمانوں میں فکری انتشار اور تذبذب پیدا کرنا چاہا اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں پر سلطان ٹیپو شہیدؒ، سید احمد شاہ شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے بعد جماعت مجاہدین کی مجاہدانہ سرگرمیاں علماء حق کا ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر جہاد کا فتویٰ دینا اور بالآخر ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی نہ صرف ہندوستان بلکہ باہر عالم اسلام میں مغربی استعمار کے خلاف مجاہدانہ تحریکات سے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہوکر سامنے آگئی کہ جب تک مسلمانوں کے اندرجذبہ جہاد قائم ہے، سامراج کبھی بھی اور کہیں بھی اپناقدم مضبوطی سے نہیں جما سکے گا۔ مسلمانوں کی یہ چیز نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں یورپ کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی۔
2020مرزاصاحب کے نشوونما کا دور اور عالم اسلام کی حالت
انیسویںصدی کا نصف آخر جو مرزاصاحب کے نشوونما کا دور ہے۔ اکثر ممالک اسلامیہ جہاد اسلامی اور جذبہ آزادی کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ برصغیر کے حالات تو مختصراً معلوم ہو چکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جب برصغیر کے باہر پڑوسی ممالک افغانستان میں ۱۸۷۸، ۱۸۷۹ء میں برطانوی افواج کو افغانوں کے جذبہ جہاد وسرفروشی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو بالآخر انگریزوں کی شکست اور پسپائی پر ختم ہو جاتا ہے۔
ترکی میں ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۸۷۸ء تک انگریزوں کی خفیہ سازشوں اور درپردہ معاہدوں کو دیکھ کر جذبہ جہاد بھڑکتا ہے۔ طرابلس الغرب میں شیخ سنوسی، الجزائر میں امیر عبدلقادر (۱۸۸۰ئ) اور روس کے علاقہ داغستان میں شیخ محمد شامل (۱۸۷۰ئ) بڑی پامردی اور جانفشانی سے فرانسیسی اور روسی استعمار کو للکارتے ہیں۔ ۱۸۸۱ء میں مصر میں مصری مسلمان سربکف ہوکر انگریزوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔
سوڈان میں انگریز قوم قدم جمانا چاہتی ہے تو ۱۸۸۱ء میں مہدی سوڈانی اور ان کے درویش جہاد کا پھریرا بلند کر کے بالآخر انگریز جنرل گارڈن اور اس کی فوج کا خاتمہ کرتے ہیں۔
اسی زمانہ میں خلیج عرب، بحرین، عدن وغیرہ میں برطانوی فوجیں مسلمانوں کے جہاد اور استخلاص وطن کے لئے جان فروشی اور جان نثاری کے جذبہ سے دوچار تھیں۔
مسلمانوں کی ان کامیابیوں کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ مسلمانوں میں دینی سرگرمی بھی کام کرتی تھی، کہتے تھے کہ فتح پائی تو غازی مرد کہلائے، حکومت حاصل کی، مر گئے تو شہید ہوگئے۔ اس لئے مرنا یا مارڈالنا بہتر ہے اور پیٹھ دکھانا بیکار۔ (تاریخ برطانوی ہند ص۳۰۲، مطبوعہ ۱۹۳۵ئ)
ایک برطانوی دستاویز ’’دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا‘‘ میں ہے اور بیرونی تمام شواہد بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ ۱۸۶۹ء میں انگلینڈ سے برطانوی مدبروں اور مسیحی رہنماؤں کا ایک وفد اس بات کا جائزہ لینے برصغیر آیا کہ مسلمانوں کو رام کرنے کی ترکیب اور برطانوی سلطنت سے وفاداری کے راستے نکالنے پر غور کیا جائے۔ اس وفد نے ۱۸۷۰ء میں دو رپورٹیں پیش کیں۔ جن میں کہاگیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو (APOSTOLIC PROPHET) اپاسٹالک پرافٹ (حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو بہت سے لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو جائیں گے۔ لیکن مسلمانوں میں ایسے کسی شخص کو ترغیب دینا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو پھر ایسے شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں بطریق احسن پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ اب کہ ہم پورے ہندوستان پر قابض ہیں تو ہمیں ہندوستانی عوام اور مسلمان جمہور کی داخلی بے چینی اور باہمی انتشار کو ہوا دینے کے لئے اس قسم کے عمل کی ضرورت ہے۔ (The Arrival Of British Empire in India (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد)، بحوالہ عجمی اسرائیل ص۱۹)
یہ ماحول تھا اور سامراجی ضرورتیں تھیں جس کی تکمیل مرزاغلام احمد کے دعویٰ نبوت اور تنسیخ جہاد کے اعلان نے کی اور بقول علامہ اقبال یہ حالات تھے کہ ’’قادیانی تحریک فرنگی انتداب کے حق میں الہامی سند بن کر سامنے آئی۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۴۵)
انگریز کو مرزاغلام احمد سے بڑھ کر کوئی اورموزوں شخص ان کے مقاصد کے لئے مل بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لئے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کی حمایت اور مسلم دشمنی اس کو خاندانی ورثہ میں ملی تھی۔
2022مرزا کا والد غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں داخل ہوا اور سکھوں کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ پہلے سکھوں سے مل کر مسلمانوں سے لڑا جس کے صلہ میں رنجیت سنگھ نے ان کو کچھ جائیداد واگزار کر دی۔
مرزاصاحب کی سیرت میں ہے کہ: ’’۱۸۴۲ء میں ان کا والد ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاورروانہ کیا گیا اور ہزارہ کے مفسدے (یعنی سید احمد شہیدؒ اور مجاہدین کے جہاد) میں اس نے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ (آگے ہے) کہ یہ تو تھا ہی سرکار کا نمک حلال۔ ۱۸۴۸ء کی بغاوت میں ان کے ساتھ اس کے بھائی غلام محی الدین (مرزاغلام احمد کے چچا) نے بھی اچھی خدمات انجام دیں۔ ان لوگوں نے سکھوں کے باغیوں سے مقابلہ کیا ان کو شکست فاش دی۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۵، مرتبہ مرزابشیرالدین محمود مطبوعہ اﷲ بخش سئیم پریس قادیان)
۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی میں مرزاغلام احمد کے والد مرزاغلام مرتضیٰ نے انگریز کا حق نمک یوں ادا کیا کہ خود مرزاغلام احمد کو اعتراف ہے کہ: ’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن کے تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔‘‘ (اشتہار واجب الاظہار منسلک کتاب البریہ ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴، از مرزاغلام احمد)
اس کے بعد مرزاغلام احمد کے والد اور بھائی غلام قادر کو انگریزی حکام نے اپنی خوشنودی کے اظہار اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر جو خطوط لکھے ان خطوط کا تذکرہ بھی محولہ بالا کتاب میں مرزاغلام احمد نے کیا ہے کہ مسٹر ولسن نے ان کے والد مرزاغلام مرتضیٰ کو لکھا ہے کہ: ’’ میں خوب جانتا ہوں بلاشبہ آپ اور آپ کا خاندان سرکار انگریزی کا جان نثار وفادار اور ثابت قدم خدمت گار رہا ہے۔‘‘ (خط ۱۱؍جون ۱۹۴۹ئ، لاہور مراسلہ نمبر۳۵۳، کتاب البریہ ص۴، خزائن ج۱۳ ص۴)
2023مسٹر رابرٹ کسٹ کمشنر لاہور بنام مرزا غلام مرتضیٰ اپنے خطوط مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۸۸۵ء میں ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی میں انگریز کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف اور اس کے بدلے خلعت اور خوشنودی سے نوازنے کی اطلاع دیتے ہیں۔
یہ خاندانی اطاعت جس شخص کی گھٹی میں شامل تھی اس نے اپنی وفاشعاریوں کا یوں اعتراف کیا ہے۔ ستارۂ قیصرہ میں مرزاصاحب لکھتا ہے: ’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک میں اور نیز دوسرے بلاد اسلام میں ایسے مضمون شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گذار اور دعاگو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو، فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں اور یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکے اور مدینے میں بھی بخوشی شائع کر دیں اور روم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا۔‘‘ (ستارہ قیصرہ ص۳،۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
یہی نہیں بلکہ پورے برٹش انڈیا میں اتنی بے نظیر خدمت کرنے والے شخص نے بقول خود انگریزی اطاعت کے بارہ میں اتنا کچھ لکھا کہ ’’پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
2024مرزاصاحب سرکار برطانیہ کے متعلق لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ایک چٹھی میں اپنے خاندان کو پچاس برس سے وفادار وجان نثار اور اپنے آپ کو انگریز کا خود کاشتہ پودا لکھتا ہے اور اپنی ان وفاداریوں اور اخلاص کا واسطہ دے کر اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص نظر عنایت کی التجا کرتا ہے۔ (تبلیغ رسالت ج۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
Mr. Chairman: Thank you very much. We meet at 5:30 pm.
(جناب چیئرمین: بہت بہت شکریہ! ہم شام ساڑھے پانچ بجے پھر ملیں گے)
[The Special Committee adjourned for lunch break to meet at 5:30 pm.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوپہر کے کھانے کے لئے شام ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں)
----------
جناب چیئرمین: مولانا مفتی محمود!
مولوی مفتی محمود: ہو اگر قوت فرعون کی درپردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللّٰہی (اقبال: ضرب کلیم)
انگریز کی ان وفاشعاریوں کا نتیجہ تھا کہ مرزاقادیانی نے کھلم کھلا جہاد کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دیا۔ جہاد اسلام کا ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کا دارومدار اسی پر ہے۔ شریعت محمدی نے اسے قیامت تک اسلام اور عالم اسلام کی حفاظت اور اعلاء کلمتہ اﷲ کا ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن کریم کی بے شمار آیات اور حضور اقدسﷺ نے بے شمار احادیث اور خود حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرامؓ کی عملی زندگی ان کا جذبہ جہاد وشہادت یہ سب باتیں جہاد کو ہر دور میں مسلمانوں کے لئے ایک ولولہ انگیز عبادت بناتی رہیں۔ اﷲتعالیٰ کا واضح ارشاد ہے۔
’’
وقاتلوہم حتٰی لا تکون فتنۃ ویکون الدین ﷲ (بقرہ:۱۹۳)
‘‘ {اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فتنہ کفر وشرارت باقی نہ رہے اور دین اﷲ کا ہو جائے۔}
حضورﷺ نے ایک حدیث میں فریضہ جہاد کی تاقیامت ابدیت اس طرح ظاہر فرمائی ہے۔ ’’
لن یبرح ہذا الدین قائماً یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ
‘‘ (مسلم ج۲ ص۱۴۳، باب قول لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق، مشکوٰۃ ص۳۳۰، کتاب الجہاد)
’’حضورﷺ نے فرمایا ہمیشہ یہ دین قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔‘‘
لیکن مرزاغلام احمد نے انگریز کے بچاؤ اور تحفظ اور عالم اسلام کو ہمیشہ ان کی طوق غلامی میں باندھنے اور کافر حکومتوں کے زیرسایہ مسلمانوں کو اپنی سیاسی اور مذہبی سازشوں کا شکار بنانے کی خاطر نہایت شدومد سے عقیدۂ جہاد کی مخالفت کی اور نہ صرف برصغیر میں بلکہ پورے عالم اسلام میں جہاں جہاں بھی اس کو ظاہر اور خفیہ سرگرمیوں کا موقعہ مل سکا جہاد کے خلاف نہایت شدت سے پروپیگنڈہ کیا گیا۔ مرزاصاحب کو جہاد حرام کرانے کی ضرورت کیا تھی۔ اس کا جواب 2026ہمیں لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کے نام قادیانی جماعت کے ایڈریس مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۲۱ء سے نہایت واضح طو پر مل سکتا ہے جس میں کہاگیا: ’’جس وقت آپ (مرزاغلام احمد) نے دعویٰ کیا اس وقت تمام عالم اسلام جہاد کے خیالات سے گونج رہا تھا اور عالم اسلامی کی ایسی حالت تھی کہ وہ پٹرول کے پیپہ کی طرح بھڑکنے کے لئے صرف ایک دیا سلائی کا محتاج تھا۔ مگر بانی سلسلہ نے اس خیال کی لغویت اور خلاف اسلام اور خلاف امن ہونے کے خلاف اس قدر زور سے تحریک شروع کی کہ ابھی چند سال نہیں گزرے تھے کہ گورنمنٹ کو اپنے دل میں اقرار کرنا پڑا کہ وہ سلسلہ جسے وہ امن کے لئے خطرہ کا موجب خیال کر رہی تھی اس کے لئے غیرمعمولی اعانت کا موجب تھا۔‘‘ (حوالہ بالا)
جہاد منسوخ ہونے اور دنیا سے جہاد کا حکم تاقیامت اٹھ جانے پر مرزاصاحب کس شدومد سے زور دیتے ہیں۔ ان کا اندازہ ان کی حسب ذیل عبارات سے لگایا جاسکتا ہے۔
اپنی کتاب اربعین نمبر۴ میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت۱؎ میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی اس سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیرخوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیاگیا اور پھر مسیح موعود (یعنی بزعم خود مرزاصاحب) کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘ (کتاب اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳ حاشیہ)
2027’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرمادیا ہے۔ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ نعوذ باﷲ! یہ ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتنا صریح بہتان ہے۔ مومنوں اور شیرخوار بچوں کو اگر قتل کرنا تھا تو فرعون اور اس کا لشکر۔ مرزاصاحب نے اس انداز میں یہ بات پیش کی گویا ایمان لانے کے باوجود ان شیرخوار بچوں کی بھی شریعت موسوی میں بچنے کی گنجائش نہیں تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا۔‘‘ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ اشتہار چندہ منارۃ المسیح ص ذ، خزائن ج۱۶ ص۲۸،۲۹)
ضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں مرزاصاحب کا یہ اعلان درج ہے کہ:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶،۲۷، خزائن ج۱۷ ص۷۷،۷۸)
نیز انگریزی حکومت کے نام ایک معروضہ میں جو ریویو آف ریلیجنز میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’یہی وہ فرقہ (یعنی مرزاصاحب کا اپنا فرقہ) ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں سے جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ج۱ ص۴۹۵)
رسالہ گورنمنٹ انگریز اور جہاد میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’دیکھو میں (غلام احمد قادیانی) ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں، وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۳۲)
2028ان تمام عبارات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب کے نزدیک جہاد کی مخالفت کا حکم خاص حالات سے مجبوریوں کا تقاضا نہیں بلکہ اب اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منسوخ، حرام اور ختم سمجھا جائے۔ نہ اس کے لئے شرائط پوری ہونے کا انتظار رہے، اور کسی پوشیدہ طور پر بھی اس کی تعلیم جائز نہیں۔
تریاق القلوب میں لکھتے ہیں کہ: ’’اس فرقہ (مرزائیت) میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں۔ نہ اس کا انتظار ہے۔ بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر نہ پوشیدہ طور جہاد کی تعلیم ہرگز ہرگز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب اشتہار واجب الاظہار ص۱، خزائن ج۱۵ ص۵۱۸)
’’اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا۔‘‘ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
’’سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔‘‘ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
نسخ جہاد کے بارے میں ان واضح عبارات کے باوجود مرزائیوں کی دونوں جماعتیں آج کہتی ہیں کہ چونکہ ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی سلطنت قائم ہوگئی اور وسائل جہاد مفقود تھے۔ اس لئے وقتی طور پر جہاد کو موقوف کیا گیا۔ آئیے ہم اس تاویل اور مرزا کی غلط وکالت کا جائزہ لیں۔
الف… پچھلی چند عبارات سے ایک منصف مزاج شخص بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مرزاصاحب کے ہاں جہاد کی ممانعت ایک وقتی حکم نہیں۔ نہ وہ کچھ وقت کے لئے موقوف بلکہ وہ مکمل طور پر جہاد کے خاتمہ اس کی انتظار تک کی نفی اور ظاہری اور پوشیدہ کسی قسم کی تعلیم کو بھی ناجائز اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دین کے لئے لڑنا ممنوع اور منسوخ قرار دیتے ہیں۔
ب… اگر مرزاصاحب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی سلطنت کے قدم جمانے کی وجہ سے مجبوراً جہاد 2029کی مخالفت کرتے ہیں تو ۱۸۵۷ء اور اس سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے فوراً بعد مجاہدین سید احمد شہیدؒ کے جہاد میں مرزاصاحب اور ان کا پورا خاندان سکھوں اور انگریزی استعمار کے لئے میدان ہموار کرنے کے لئے جانی اور مالی قربانیاں دیتے رہے۔ جس کا مرزاصاحب نے انگریزی حکام کے نام خطوط اور چٹھیوں میں بڑے فخر سے اعتراف کیا ہے اور ان مساعی کی نہ صرف تائید کی بلکہ تحسین بھی کی ہے۔ ان کے خاندانی بزرگوں نے سکھوں سے مسلمانوںکے جہاد میں سکھوں کی حمایت کی۔ مرزا کے والد نے ۱۸۵۷ء میں پچاس سوار سرکار انگریزی کی امداد کے لئے فراہم کئے۔ مرزاغلام احمد نے ۱۸۵۷ء میں جہاد آزادی کے غیور اور جان نثار مجاہدین کو ’’جہلاء اور بدچلن کہا۔‘‘ (براہین احمدیہ ج۱ ص الف، خزائن ج۱ ص۱۳۸، اشتہار اسلامی انجمنوں سے التماس، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۵)
انگریز کے ہاتھوں ہندوستان میں مسلمانوں کی مظلومیت پر ہند کا ذرہ ذرہ اشکبار تھا۔ اسلامیان ہند کی عظمیتں لٹ رہی تھیں۔ ہزار سالہ عظمت رفتہ پاش پاش ہورہی تھی۔ علماء اور شرفاء ہند کو سور کے چمڑوں میں سی کر اور زندہ جلا کر دہلی کے چوکوں میں پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا اور انگریزوں کا شقی القلب نمائندہ جنرل نکلسن، ایڈورڈ سے ایسے آئینی اختیارات مانگ رہا تھا کہ مجاہدین آزادی کے زندہ حالت میں چمڑے ادھیڑے جاسکیں اور انہیں زندہ جلایا جاسکے۔ مگر وہ شقی اور ظالم نکلسن اور مرزاغلام احمد اور اس کے خاندان کو ہندوستان میں اپنے مفادات کا نگران اور وفادار ٹھہرارہا تھا۔ جنرل نکلسن نے مرزاغلام قادر کو سند دی جس میں لکھا کہ: ’’۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۵،۶، از مرزابشیرالدین محمود، طبع قادیان)
اور وہی مرزاصاحب جو ابھی تک اپنے تشریعی نبی ہونے کی حیثیت میں سامنے نہیں آئے تھے خود براہین احمدیہ اور دیگر تحریروں میں جہاد کے فرض واجب اور غیر منقطع ہونے کا اعتراف کر چکے تھے۔ دعویٰ نبوت کے بعد ایک 2030قطعی حکم کو حرام قرار دیتے ہوئے عملاً بھی قرآن کریم کی تمام آیات جہاد خمس وفئی کو منسوخ قرار دے کر تشریعی نبی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ لیکن جس دور میں وہ جہاد کو فرض کہتے ہیں کیا مرزاصاحب خود عملی طور پر بھی اس پر عمل پیرا رہے۔ اس کا جواب ہمیں انگریز لیفٹیننٹ گورنر کے نام چٹھی سے مل جاتا ہے، وہ اس درخواست میں اپنی اصل حقیقت کو اس طرح واشگاف الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
مولوی مفتی محمود: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک (گویا ۱۸۳۹ء سے لے کر جو ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے کا زمانہ ہے) جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں۔ اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں۔ تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کو دور کروں جو ان کی دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
۳… تیسری بات یہ ہے کہ بالفرض ہم تسلیم کئے دیتے ہیں کہ مرزاصاحب نے برصغیر میں انگریزی سلطنت کی وجہ سے بعض مجبوریوں کی بناء پر اتنی شدومد سے جہاد کی مخالفت کی۔ لیکن اگر حقیقت یہی ہوتی تو مرزاصاحب کی ممانعت جہاد اور اطاعت انگریز کی تبلیغ صرف برٹش انڈیا تک محدود ہوتی۔ مگر یہاں تو ایسے کھلے شواہد اور قطعی ثبوت موجود ہیں کہ مرزاصاحب کی تحریک وتبلیغ کا اصل محرک نہ صرف انڈیا بلکہ پورے عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں سے جذبۂ جہاد نکالنا اور انگریزوں کے لئے یا کسی 2031بھی کافر سلطنت کے لئے راستہ ہموار کرنا تھا۔ تاکہ اس طرح ایک نئی امت اور نئے نبی کے نام سے پوری ملت مسلمہ اور امت محمدیہ کا سارا نظام درہم برہم کیا جائے اور پورے عالم اسلام کو انگریز یا ان کے حلیفوں کے قدموں میں لاگرایا جائے۔ اس لئے مرزاصاحب نے مخالفت جہاد کی تبلیغ صرف برٹش انڈیا تک محدودنہ رکھی اور نہ صرف اردو لٹریچر پر اکتفا کیا بلکہ فارسی، عربی، انگریزی میں لٹریچر لکھ لکھ کر بلاد روم، شام، مصر، ایران، افغانستان، بخارایہاں تک کہ مکہ اور مدینہ تک پھیلاتا رہا۔ تاکہ بخارا میں اگر زار روس کے لشکر آئیں تو کوئی مسلمان ہاتھ مزاحمت کے لئے نہ اٹھے۔ فرانس، تیونس، الجزائر اور مراکش پر لشکر کشی ہو تو مسلمان جہاد کو حرام سمجھیں۔ عرب اور مصری دل وجان سے انگریزکے مطیع بن جائیں اور ترک وافغان کی غیرت ایمانی ہمیشہ کے لئے جذبہ جہاد سے خالی ہوکر سرد پڑ جائے۔
اس سلسلہ میں مرزاصاحب کے اعترافات دیکھئے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میں نے نہ صرف اس قدر کام کیا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلینڈ کی سچی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطیع کیا۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، بنام لیفٹیننٹ گورنر، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
اسی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’ان نادان مسلمانوں کے پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل وجان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکر گزاری کے لئے ہزارہا اشتہارات شائع کئے گئے اور ایسی کتابیں بلاد عرب وشام وغیرہ تک پہنچا دی گئیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۵)
’’اس کے بعد میں نے عربی اور فارسی میں بعض رسائل تالیف کر کے بلاد شام وروم اور مصر اور بخارا وغیرہ کے اطراف روانہ کئے اور ان میں اس گورنمنٹ کے اوصاف حمیدہ درج کئے اور بخوبی ظاہر کیا کہ اس محسن گورنمنٹ کے ساتھ جہاد حرام ہے اور بعض شریف عربوں کو وہ 2032کتابیں دے دے کر بلاد شام وروم کی طرف روانہ کیا۔ بعض عربوں کو مکہ اور مدینہ کی طرف بھیجا گیا۔ بعض بلاد فارس کی طرف بھیجے گئے اور اسی طرح مصر میں بھی کتابیں بھیجی گئیں اور یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ تھا جو محض نیک نیتی سے کیاگیا۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۲ ص۱۶۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۷)
اور یہ سب کچھ مرزاصاحب نے اس لئے کیا کہ: ’’تاکہ کج طبیعتیں ان نصیحتوں سے راہ راست پر آجائیں اور وہ طبیعتیں اس گورنمنٹ کا شکر کرنے اور اس کی فرمانبرداری کے لئے صلاحیت پیدا کریں اور مفسدوں کی بلائیں کم ہو جائیں۔‘‘ (نور الحق حصہ اوّل ص۳۰، خزائن ج۸ ص۴۱) (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷) میں اس ساری جدوجہد کا حاصل مرزاصاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
گورنمنٹ انگریزی اور جہاد (ضمیمہ ص۷) میں لکھتے ہیں: ’’ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعی حرام ہے۔ کیونکہ مسیح آچکا خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیرخواہ اس کو بننا پڑتا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۷)
یہ حقیقت کہ مرزائی تبلیغ وتلقین اور تمام کوششوں کے محرکات اور مقاصد کیا تھے۔ مرزائی مذہب کے بانی کے مذکورہ اقوال سے خود ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس پر بھی اگر تاویل کے پردوں میں اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے تو آنکھیں کھولنے کے لئے حسب ذیل واقعات اور اعترافات کافی ہیں: ’’کہ مرزاصاحب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ آزاد اسلامی ممالک میں بھی 2033کسی قسم کے جہاد کے روادار نہ تھے۔ افغانستان کے امیر امان اﷲ خان کے عہد حکومت میں نعمت اﷲ خان مرزائی اور عبداللطیف مرزائی کو علماء افغانستان کے متفقہ فتویٰ سے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے محرکات یہی تھے کہ یہ لوگ مبلغین کے پردہ میں جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اور یہ محض اس لئے کہ انگریزوں کا اقتدار چھا جائے۔ حالانکہ افغانستان میں جہاد اسلامی کی شرائط مکمل موجود تھیں۔‘‘
اس سلسلہ میں مرزابشیرالدین محمود احمد کا خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل مورخہ ۶؍اگست ۱۹۳۵ء ملاحظہ کیجئے: ’’عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً ایک لائبریری میں ایک کتاب ملی جو چھپ کر نایاب بھی ہوگئی تھی۔ اس کتاب کا مصنف ایک اطالوی انجینئر جو افغانستان میں ذمہ دار عہدہ پر فائز تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف (قادیانی) کو اس لئے شہید کیاگیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے تو حکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اس سے افغانوں کا جذبہ حریت کمزور ہو جائے گا اور ان پر انگریزوں کا اقتدار چھا جائے گا۔ ایسے معتبر راوی کی روایت سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر صاحبزادہ عبداللطیف خاموشی سے بیٹھے رہتے اور جہاد کے خلاف کوئی لفظ بھی نہ کہتے تو حکومت افغانستان کو انہیں شہید کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔‘‘ اخبار الفضل بحوالہ امان افغان مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۲۵ء نے افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ کے حوالہ سے مندرجہ ذیل بیان نقل کیا: ’’کابل کے دو اشخاص ملا عبدالحلیم وملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہوچکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں راہ سے بھٹکا رہے تھے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے 2034پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے۔‘‘
خلیفہ قادیان اپنے ایک خطبہ جمعہ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ یکم؍نومبر ۱۹۳۴ء میں اعتراف کرتا ہے کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ غیرمسلم ممالک اور اقوام بھی مرزائیوں کو آلہ کار سمجھتے تھے۔ دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ چنانچہ جب قبرص میں احمدیہ عمارت کی افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن انگریز نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جو انگریزوں کی ایجنٹ ہے۔
۴… یہ امر حیرت اور تعجب کا باعث ہے کہ ایک طرف تو قادیانیوں نے جہاد کو اتنی شدومد سے منسوخ اور حرام قرار دیا۔ مگر دوسری طرف انگریزوں کی فوج میں شامل ہوکر مسلمانوں کے ساتھ لڑنا نہ صرف ان کے لئے جائز بلکہ ضروری تھا۔ گویا ممانعت جہاد کی یہ ساری جدوجہد صرف انگریزوں اور کافروں کے ساتھ مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کے لئے تھی کہ وہ نہ تو اپنی عزت وناموس اور نہ ملک وملت کی بقاء کے لئے لڑیں۔ نہ اپنے دین، اسلامی شعائر معاہد ومساجد کے لئے علم جہاد بلند کریں۔ لیکن انگریزی اقتدار کے فروغ وتحفظ کے لئے ان کی فوجوں میں شامل ہوکر بلاد اسلامیہ پر بمباری ایک مقدس فریضہ تھا۔ مرزامحمود احمد نے کہا:
’’صداقت کے قیام کے لئے گورنمنٹ کی فوج میں شامل ہوکر ان ظالمانہ روکوں کو دفع کرنے کے لئے گورنمنٹ کی مدد احمدیوں کا مذہبی فرض ہے۔‘‘ (خطبہ مرزا محمود احمد الفضل مورخہ ۲؍مئی ۱۹۱۹ئ)
قادیانی جماعت نے لارڈ ریڈنگ کو اپنے ایڈریس میں بھی اپنی جنگی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کابل سے جنگ میں ہماری جماعت نے علاوہ ہر قسم کی مدد کے ایک ڈبل کمپنی اور 2035ایک ہزار افراد کے نام بھرتی کے لئے پیش کئے اور ہمارے موجودہ امام کے چھوٹے بھائی چھ ماہ تک ٹرانسپورٹ کور میں رضاکارانہ کام کرتے رہے۔ (الفضل مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۳۱ئ)
ایک اور خطبہ جمعہ میں مرزامحمود احمد نے کہا کہ: ’’شاید کابل کے ساتھ ہمیں کسی وقت جہاد ہی کرنا پڑتا (آگے چل کر کہا) کہ پس نہیں معلوم کہ ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍فروری، ۲؍مارچ ۱۹۲۲ئ)
امن وآشتی اور اسلامی نظریہ جہاد کو ملاؤں کے وحشیانہ اور جاہلانہ بیہودہ خیالات قرار دینے والے مرزائیوں کے حقیقی خدوخال مرزامحمود احمد خلیفہ ثانی کے ان الفاظ سے اور بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ: ’’اب زمانہ بدل گیا ہے۔ دیکھو پہلے جو مسیح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا۔ مگر اب مسیح اس لئے آیا ہے کہ اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دے۔‘‘ (عرفان الٰہی ص۹۳،۹۴)
’’پہلے عیسیٰ کو تو یہودیوں نے صلیب پر لٹکایا۔ مگر اب (مرزاغلام احمد)‘‘ اس زمانے کے یہودی صفت لوگوں کو سولی پر لٹکائیں گے۔‘‘ (تقدیر الٰہی ص۲۹، مصنفہ مرزامحمود احمد)
اس سے اندازہ ہوا کہ اسلام کے نظریہ جہاد کو منسوخ قرار دینے اور سارے عالم اسلام میں اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے بعد اپنے لئے اور سامراجی مقاصد کے لئے جہاد اور قتال کو جائز قرار دینے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جارہا تھا۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ مرزائیوں کے نزدیک مسلمانوں کا کافروں یا خود ان کے خلاف لڑنا تو ہمیشہ کے لئے حرام تھا، مگر عیسائیت کے جھنڈے تلے یا کسی کافر حکومت کے مفاد میں یا خود مرزائیوں کے لئے جہاد اور قتال اور لڑنا لڑانا سب جائز ہے۔
2036مرزاغلام احمد اور مرزائیوں کی تبلیغی خدمات کی حقیقت
افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں قادیانیوں کے تبلیغ کے نام پر استعماری سرگرمیوں سے ان کے تبلیغ اسلام کی خدمات کی قلعی تو کھل جاتی ہے، مگر بہت سے لوگ مرزاصاحب کی خدمات کے سلسلہ میں ان کے مدافعت اسلام میں مناظرانہ بحث ومباحثہ اور علمی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آریہ سماج اور عیسائیوں سے اسلام کے دفاع میں بڑے معرکے سر کئے اور اب بھی قادیانی دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ غیرمسلموں جیسا سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے ہم اس غلط فہمی کو جس میں بالعموم تعلیم یافتہ افراد بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ مرزاصاحب کی ایک دو عبارتوں ہی سے دور کرنا چاہتے ہیں جو بانی قادیانیت کے تبلیغی مقاصد اور نیت کو خود ہی بڑی خوبی سے عیاں کر رہی ہیں کہ انہوں نے عیسائی مشزیوں کی اشتعال انگیز تحریروں اور اسلام پر ان کے جارحانہ حملوں سے مسلمانوں کے اندر انگریزوں کے خلاف پرجوش ردعمل کا خطرہ محسوس کیا تو اس عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی کی بناء پر عیسائیوں کا کسی قدر سختی سے جواب دیا اور سخت کتابیں عیسائیوں کے خلاف لکھیں۔ تریاق القلوب مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ضمیمہ ۳ بعنوان گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست میں مرزاغلام احمد اپنے بیس برس کی تمام علمی اور تصنیفی کاوش کا خلاصہ مسلمانوں کے دل سے جہاد اور خونی مہدی وغیرہ کے معتقدات کا ازالہ اور انگریز کی وفاداری پیدا کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتاہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش 2037نہیں کر سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانے تک جوبیس برس کا زمانہ ہے۔ ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکورہ بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کا کام نہیں ہے۔ بلکہ ایسے شخص کا کام ہے۔ جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی ہے۔ ہاں میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحث بھی کیا کرتا ہوں… جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیa کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور باایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو، تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔‘‘ (تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص ب، ج، خزائن ج۱۵ ص۴۸۹،۴۹۰)
2038چند سطور کے بعد لکھتے ہیں:
’’سومجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوںکو خوش کیاگیا اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں سے اوّل درجے کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریز کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اوّل درجے پر بنادیا ہے۔ (۱)اوّل والد مرحوم کے اثر نے، (۲)دوسرا اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے، (۳)تیسرے خداتعالیٰ کے الہام نے۔‘‘ (تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۱)
دوسری بڑی وجہ مرزاصاحب کے ایسے علمی تحریرات اور مناظروں کی یہ تھی کہ وہ ابتداً اس طرح عام مسلمانوں کی عقیدت اور توجہات اپنی طرف مبذول کراتے چلے گئے اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے دفاع میں جن مسائل پر بحث کا بازار گرم کرتے۔ اسی میں آئندہ اپنے دعویٰ نبوت ورسالت کے لئے فضا بھی ہموار کرتے چلے گئے اور اسلام کی تبلیغ کے نام پر شکر میں لپٹی ہوئی زہر کی ایک مثال آریہ سماج سے معجزات انبیاء کے اثبات پر مرزاصاحب کا مناظرہ ہے۔ جس میں اثبات معجزات کے ضمن میں انہوں نے یہ بھی ثابت کرنا چاہا ہے کہ ہر دور اور ہرزمانہ میں معجزات کا صدور متوقع ہے۔ ظاہر ہے کہ معجزہ بنیادی طور پر نبوت ورسالت کا لازمہ ہے اور جب نبوت ورسالت حضور نبی کریمﷺ پر ختم ہوچکی تھی تو اس کے لوازمات، معجزات، وحی وغیرہ کا ہردور میں متوقع ہونا بحث ومناظروں کے پردہ میں اپنی جھوٹی نبوت کے پیش بندی نہ تھی… تو اور کیا چیز تھی؟
----------
درحقیقت جب ہم مرزاغلام احمد کی ربع صدی کی تصنیفی وعلمی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی تمام تحریری اورتقریری سرگرمیوں کا محور صرف یہی ملتا ہے کہ انہوں نے چودہ سوسال کا ایک متفقہ، طے شدہ اجماعی ’’مسئلہ حیات ونزول مسیح‘‘ کو نشانہ تحقیق بنا کر اپنی ساری جدوجہد وفات مسیح اور مسیح موعود ہونے کے دعویٰ پر مبذول کر دی۔ مسلمانوں کو عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث اور ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کی طرح ظلی وبروزی اور مجازی گورکھ دھندوں میں الجھانا چاہا۔ جدلیات اور سفسطوں کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر۔ یہ مرزاصاحب کے علمی وتبلیغی خدمات کا دوسرا نام ہے۔ اگر ان کی تصنیفات سے ان کے متضاد دعویٰ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ومباحث نکال لئے جائیں تو جو کچھ بچتا ہے وہ جہاد کی حرمت اور حکومت انگلشیہ کی اطاعت دلی وفاداری اور اخلاص کی دعوت ہے۔ جب کہ ہندوستان پہلے سے ذہنی وفکری اور سیاسی انتشار کا مرکز بنا ہوا تھا اور عالم اسلام مغرب مادہ پرست تہذیب اور خود فراموش تمدن کی لپیٹ میں تھا۔ مگر ہمیں مرزاصاحب کی تصانیف اور ’’علمی خدمات‘‘ میں انبیاء کرام کے طریق دعوت کے مطابق کوئی بھی وقیع اور کام کی بات نہیں ملتی۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے قلم اور زبان کے ذریعہ مذہبی اختلافات اور دینی جھگڑوں کے شکار ہندوستانی مسلمانوں کو مزید ذہنی انتشار اور غیرضروری مذہبی کشمکش میں ڈال کر ان کا شیرازۂ اتحاد پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔
2040 ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد (اقبال: ضرب کلیم)
2041مرزائیت اور عالم اسلام
اسلامی وحدت ختم نبوت ہی سے استوار ہوتی ہے
’’ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بنیاد نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت ہی سے استوار ہوتی ہے۔ قادیانیت باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔ یہ اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہے۔ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۲، ۱۲۳)