• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (پندرواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2042سامراجی عزائم کی تکمیل
سابقہ تفصیلات کے علاوہ مرزاغلام احمد اور اس کی جماعت نے پورے عالم اسلام کے ساتھ استعماری عزام کی تکمیل کی خاطر جو رویہ اختیار کیا اس کی چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے فیصلہ خودہر انصاف پسند شخص پر چھوڑا جاتا ہے کہ کیا ایسی جماعت سامراجی جماعت کہلانے کی مستحق نہیں اور یہ کہ اس نے پورے عالم اسلام کے اتحاد اور سلامتی کو برباد کرنے کی کوششیں کیں یا نہیں؟… اور یہ کہ عالم اسلام کو نوآبادیاتی نظام میں جکڑنے اور انگریزوں کا غلام بنانے میں قادیانیوں کی تمام تر ہمدردیاں انگریزوں کے ساتھ تھیں یا نہیں؟ وہ انگریزوں کے فتح پر چراغاں مناتے خوشی کے جشن برپا کرتے انگریزی فوج کو ’’ہماری فوج‘‘ اور مقابلہ میں مسلمانوں کو دشمن کی فوج قرار دیتے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عراق وبغداد
جب انگریزوں نے عراق پر قبضہ کرنا چاہا اور اس غرض کے لئے لارڈ ہارڈنگ نے عراق کا دورہ کیا۔ تو مشہور قادیانی اخبار الفضل نے لکھا۔ ’’یقینا اس نیک دل افسر (لارڈ ہارڈنگ) کا عراق میں جانا عمدہ نتائج پیدا کرے گا۔ ہم ان نتائج پر خوش ہیں۔ کیونکہ خدا ملک گیری اور جہان بانی اسی کے سپرد کرتا ہے جو اس کی مخلوق کی بہتری چاہتا ہے اور اسی کو زمین پر حکمران بناتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے۔ پس ہم پھر کہتے ہیں کہ ہم خوش ہیں کیونکہ ہمارے خدا کی بات پوری ہوتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ برٹش حکومت کی توسیع کے ساتھ ہمارے لئے اشاعت اسلام کا میدان بھی وسیع ہو جائے گا اور غیرمسلم کو مسلم بنانے کے ساتھ ہم مسلمان کو پھر مسلمان کریں گے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۲، نمبر۱۰۳، مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۱۵ئ)
2043پھر اس واقعے کے آٹھ سال بعد انگریزوں نے بغداد پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کو شکست ہوئی تو الفضل نے لکھا: ’’حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ میں مہدی معہود ہوں اور گورنمنٹ برطانیہ میری وہ تلوار ہے جس کے مقابلہ میں ان علماء کی کچھ نہیں جاتی۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ پھر ہم احمدیوں کو اس فتح سے کیوں خوشی نہ ہو۔ عراق عرب ہو یا شام ہم ہر جگہ اپنی تلوار کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
(الفضل قادیان ج۶ نمبر۴۲، ۷؍دسمبر ۱۹۱۸ء ص۹)
یہ بات جسٹس منیر نے بھی لکھی ہے کہ: ’’جب پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو شکست ہوگئی تھی۔ بغداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تھا تو قادیان میں اس فتح پر جشن منایاگیا۔‘‘
(تحقیقاتی رپورٹ ص۲۰۸،۲۰۹ مرتبہ جسٹس محمد منیر)
یہ بات بھی جسٹس منیر ہی نے لکھی کہ: ’’بانی قادیانیت نے اسلامی ممالک کا انگریزی حکومت کے ساتھ توہین آمیز مقابلہ وموازنہ کیا۔‘‘
(تحقیقاتی رپورٹ ص۲۰۸، مرتبہ جسٹس محمد منیر)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فتح عراق کے بعد پہلا مرزائی گورنر
سقوط بغداد میں مرزائیوں کے اس انگریز نوازی کا اتنا حصہ تھا کہ جب انگریزوں نے عراق فتح کیا تو مرزابشیرالدین محمود احمد کے سالے میجر حبیب اﷲ شاہ کو ابتداً عراق پر اپنا گورنر نامزد کیا، میجر حبیب اﷲ شاہ پہلی جنگ عظیم میں بھرتی ہو کر عراق گئے تھے اور وہاں فوج میں ڈاکٹر تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2044مسئلہ فلسطین اور قیام اسرائیل سے لے کر اب تک
اخبار الفضل قادیان ج۹ نمبر۳۶ رقمطراز ہے: ’’اگر یہودی اس لئے بیت المقدس کی تولیت کے مستحق نہیں ہیں کہ وہ جناب مسیح اور حضرت نبی کریمa کی رسالت ونبوت کے منکر ہیں… اور عیسائی اس لئے غیرمستحق ہیں کہ انہوں نے خاتم النّبیین کی رسالت کا انکار کر دیا تو یقینا یقینا غیراحمدی (مسلمان) بھی مستحق تولیت نہیں۔ اگر کہا جائے کہ حضرت مرزاصاحب کی نبوت ثابت نہیں تو سوال ہوگا، کن کے نزدیک؟ اگر جواب یہ ہے کہ نہ ماننے والوں کے نزدیک، تو اس طرح یہود کے نزدیک مسیح اور آنحضرت کی، اور مسیحوں کے نزدیک آنحضرت کی نبوت اور رسالت بھی ثابت نہیں۔ اگر منکرین کا فیصلہ ایک نبی کو غیر ٹھہراتا ہے تو کروڑوں عیسائیوں اور یہودیوں کا اجماع ہے کہ نعوذ باﷲ کہ آنحضرت منجانب اﷲ رسول نہ تھے۔ پس اگر غیراحمدی بھائیوں کا یہ اصل درست ہے کہ بیت المقدس کی تولیت کے مستحق تمام نبیوں کے ماننے والے ہی ہوسکتے ہیں تو ہم اعلان کرتے ہیں کہ احمدیوں کے سوا خدا کے تمام نبیوں کا مومن اور کوئی نہیں۔‘‘
صرف یہی نہیں بلکہ جب فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے صدیوں پرانے وطن سے نکال کر عربوں کے سینے میں مغربی سامراجیوں کے ہاتھوں اسرائیل کی شکل میں خنجر بھونکا جا رہا ہے تو قادیانی امت ایک پورے منصوبہ سے اس کام میں صیہونیت اور مغربی سامراجیت کے لئے فضا بنانے میں مصروف تھی ایک قادیانی مبلغ لکھتا ہے: ’’میں نے یہاں کے ایک اخبار میں اس پر آرٹیکل دیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ وعدہ کی زمین ہے جو یہودیوں کو عطا کی گئی تھی۔ مگر نبیوں کے انکار اور 2045بالآخر مسیح کی عداوت نے یہود کو ہمیشہ کے واسطے وہاں کی حکومت سے محروم کر دیا اور یہودیوں کو سزا کے طور حکومت، رومیوں کو دے دی گئی اور بعد میں عیسائیوں کو ملی۔ پھر مسلمانوں کو، اب اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے وہ زمین نکلی ہے تو پھر اس کا سبب تلاش کرنا چاہئے۔ کیا مسلمانوں نے کسی نبی کا انکار تو نہیں کیا۔ سلطنت برطانیہ کے انصاف اور امن اور آزادیٔ مذہب کو ہم دیکھ چکے ہیں۔ آزما چکے ہیں اور آرام پارہے ہیں۔ اس سے بہتر کوئی حکومت مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔ بیت المقدس کے متعلق جو میرا مضمون یہاں (انگلستان) کے اخبار میں شائع ہوا ہے۔ اس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ اس کے متعلق وزیراعظم برطانیہ کی طرف سے ان کے سیکرٹری نے شکریہ کا خط لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسٹر لائڈ جارج اس مضمون کی بہت قدر کرتے ہیں۔‘‘
(الفضل قادیان ج۵ نمبر۷۵، مورخہ ۱۹؍مارچ ۱۹۱۸ئ)
فلسطین کے قیام میں مرزائیوں کی عملی کوششوں کے ضمن میں مولوی جلال الدین شمس اور خود مرزابشیرالدین محمود کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غالباً ۱۹۲۶ء میں مولوی جلال الدین شمس مرزائی مبلغ کو شام بھیجا گیا۔ وہاں کے حریت پسندوں کو پتہ چلا تو قاتلانہ حملہ کیا۔ آخر تاج الدین الحسن کی کابینہ نے شام بدر کر دیا۔ جلال الدین شمس فلسطین چلا آیا اور ۱۹۲۸ء میں قادیانی مشن کیا اور ۱۹۳۱ء تک برطانوی انقلاب کی حفاظت میں عالمی استعمار کی خدمت بجالاتا رہا۔ تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد قادیانی سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۱۷ء میں قیام فلسطین کے برطانوی منصوبے کے اعلان کے بعد مرزابشیرالدین محمود نے ۱۹۲۴ء میں فلسطین میں قیام کیا اور فلسطین کے ایکٹنگ گورنر سرکلٹین سے سازباز کر کے ایک لائحہ عمل مرتب کیا اور جلال الدین شمس قادیانی کو دمشق میں یہودی مفادات کا نگران مقرر کیاگیا۔
(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ج۹ نمبر۲ ص۲۴،۲۵، ملخص نومبر، دسمبر ۱۹۷۳ئ، از تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد)
2046۱۹۴۷ء تک قادیانی سرگرمیاں فلسطین میں پھلتی پھولتی رہیں۔ مولوی اﷲ دتہ جالندھری، محمد سلیم چوہدری، محمد شریف، نور احمد، منیر رشید احمد چغتائی جیسے معروف قادیانی تبلیغ کے نام پر عربوں کو محکوم بنانے کی مذموم سازشیں کرتے رہے۔ ۱۹۳۴ء میں مرزامحمود خلیفہ قادیان نے اپنے استعماری صیہونی مقاصد کی تکمیل کے لئے تحریک جدید کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی اور جماعت سے سیاسی مقاصد کے لئے اس تحریک کے لئے بڑی رقم کا مطالبہ کیا۔ (تاریخ احمدیت ص۱۹) تو بیرون ہند قادیانی جماعتوں میں سب سے زیادہ حصہ فلسطین کی جماعت نے لیا اور تاریخ احمدیت کے مطابق فلسطین کے جماعت حیفہ اور مدرسہ احمدیہ کبائبیر نے قربانی اور اخلاص کا نمونہ پیش کیا اور مرزامحمود نے اس کی تعریف کی (ایضاً ص۴۰) بالآخر جب برطانوی وزیر خارجہ مسٹر بالفور کے ۱۹۱۷ء کے اعلان کے مطابق ۱۹۴۸ء میں بڑی ہوشیاری سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو چن چن کر فلسطین کے اصل باشندوں کو نکال دیا گیا۔ مگر یہ سعادت صرف قادیانیوں کو نصیب ہوئی کہ وہ بلاخوف وجھجھک وہاں رہیں اور انہیں کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ خود مرزابشیرالدین محمود نہایت فخریہ انداز میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عربی ممالک میں بے شک ہمیں اس قسم کی اہمیت حاصل نہیں جیسی ان (یورپی اور افریقی) ممالک میں ہے۔ پھر بھی ایک طرح کی اہمیت ہمیں حاصل ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ فلسطین کے عین مرکز میں اگر مسلمان رہے تو وہ صرف احمدی ہیں۔‘‘
(الفضل لاہور ص۵، مورخہ ۳۰؍اگست ۱۹۵۰ئ)
’’مرزامحمود کی جماعت کو اس طرح کی اہمیت کیوں نہ ملتی۔ جب کہ مرزامحمود خلیفہ دوم نے فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام واستحکام میں صیہونیوں سے بھر پور تعاون کیا۔‘‘
(ماہنامہ الحق ج۹ ش۲، نومبر دسمبر ۱۹۷۳ئ، بحوالہ تاریخ احمدیت از دوست محمد شاہد قادیانی)
’’اور جب عربوں کے قلب کا یہ رستا ہوا ناسور اسرائیل قائم ہوا۔ تمام مسلمان ریاستوں نے اس وقت سے اب تک اس کا مقاطعہ کیا۔ پاکستان کا کوئی 2047سفارتی یا غیرسفارتی مشن وہاں نہیں۔ اس لئے کہ اسرائیل کا وجود بھی پاکستان کے نزدیک غلط ہے۔ پاکستان عربوں کا بڑا حمایتی ہے۔ مونٹ اکرمل کبائبیر وغیرہ میں ان کے استعماری اور جاسوسی سرگرمیوں کے اڈے قادیانی مشنریوں کے پردے میں قائم ہوئے۔ یہ تعجب اور حیرت کی بات نہیں تو کیا ہے؟ کافی عرصہ تک جس اسرائیل میں کوئی عیسائی مشن قائم نہیں ہوسکا اور بعد میں کچھ عیسائی مشنیں قائم ہوئیں۔ اسرائیل کے سب سے بڑی ربی شلوگورین نے آرچ بشپ آف کنٹربری، ڈاکٹر ریمزے اور کارڈینل پادری ہی نان سے خصوصی ملاقات کر کے ان پر زور دیا کہ اسرائیل میں عیسائی مشنریوں پر پابندی عائد کریں۔‘‘
(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ج۹ ش۲ ص۲۶، بحوالہ مارننگ نیوز کراچی، مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۷۳ئ)
عیسائی مشنوں کے خلاف اسرائیل میں منظم تحریک چلی۔ عیسائی مراکز پر حملے ہوئے دکانوں اور بائبل کے نسخوں کا جلانا معمول بن گیا۔ مگر ۱۹۲۸ء سے لے کر اب تک ۴۶سال میں یہودیوں نے قادیانیوں کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی، نہ ان کے لٹریچر کو روکا، نہ کوئی معمولی رکاوٹ ڈالی۔ جو اس کا واضح ثبوت ہے کہ وہ مرزائیوں کو اپنے مفادات کی خاطر تحفظ دے رہے ہیں۔
اسلام کی تبلیغ کے نام پر مسلمانوں اور پاکستان کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل میں قادیانیوں کا مشن ایک لمحہ فکر یہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس لمحہ فکریہ کا عربوں کے لئے مختلف وقفوں سے بے چینی اور اضطراب اور پاکستان سے سؤظن کا باعث بن جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مشن عرب ریاستوں کی جاسوسی، فوجی راز معلوم کرنے، عالم اسلام کے معاشی، اخلاقی حالات اور دینی جذبات معلوم کرنے عرب گوریلوں کے خلاف کارروائیاں کرنے اور عالمی استعمار اور یہودی استحصال کے لئے راہیں تلاش کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2049تفصیل آمد خرچ مشن ہائے بیرون

(۱۲) حیفا (اسرائیلی پونڈ)
۶۷۰ء ۲روپے
kharach.jpg

احمدیہ تحریک جدید کے سالانہ بجٹ ۶۷۔۱۹۶۶ء کے صفحہ۲۵ کا عکس۔
2050[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)]
(اس مرحلہ پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے سنبھال لیا)
مولوی مفتی محمود:
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اسرائیل مشن
ہم یہاں اسرائیل میں قادیانی مشن کا ایک اور ثبوت مع اصل عبارت پیش کرتے ہیں۔ یہ اقتباس قادیانیوں ہی کی شائع کردہ کتاب ’’اور فارن مشن‘‘ مؤلفہ مبارک احمد ص۷۸ شائع کردہ احمدیہ فارن مشن ربوہ سے لیاگیا ہے۔ مؤلف کتاب مرزاغلام احمد کے پوتا ہیں۔
’’احمدیہ مشن اسرائیل میں حیفہ (ماؤنٹ کرمل) کے مقام پر واقع ہے اور وہاں ہماری ایک مسجد، ایک مشن ہاؤس، ایک لائبریری، ایک بک ڈپو اور ایک سکول موجود ہے۔ ہمارے مشن کی طرف سے ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے ایک ماہانہ عربی رسالہ جاری ہے۔ جو تیس مختلف ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔ مسیح موعود کی بہت سی تحریریں اس مشن نے عربی میں ترجمہ کی ہیں۔ فلسطین کے تقسیم ہونے سے یہ مشن کافی متأثر ہوا۔ چند مسلمان جو اس وقت اسرائیل میں موجود ہیں ہمارا مشن ان کی ہر ممکن خدمت کر رہا ہے اور مشن کی موجودگی سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے مشنری کے لوگ حیفہ کے میئر سے ملے اور ان سے گفت وشنید کی، میئر نے وعدہ کیا کہ احمدیہ جماعت کے لئے کبابیر میں حیفہ کے قریب وہ ایک سکول بنانے کی اجازت دے دیں گے۔ یہ علاقہ ہماری جماعت کا مرکز اور گڑھ ہے۔ کچھ عرصہ بعد میئر صاحب ہماری مشنری دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ حیفہ کے چار معززین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان کا پروقار استقبال کیاگیا۔ جس میں جماعت کے سرکردہ ممبر اور اسکول کے طالب علم بھی موجود تھے۔ ان کی آمد کے اعزاز میں ایک جلسہ بھی منعقد ہوا۔ جس میں انہیں سپاسنامہ پیش کیاگیا۔ واپسی سے پہلے میئر صاحب نے اپنے تاثرات مہمانوں کے رجسٹر میں بھی تحریر کئے۔ ہماری جماعت کے مؤثر ہونے کا ثبوت ایک چھوٹے سے مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں جب ہمارے مبلغ چوہدری محمد 2051شریف صاحب ربوہ پاکستان واپس تشریف لارہے تھے اس وقت اسرائیل کے صدر سے ہماری مشنری کو پیغام بھیجا کہ چوہدری صاحب روانگی سے پہلے صدر صاحب سے ملیں۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر چوہدری صاحب نے ایک قرآن حکیم کا نسخہ جو جرمن زبان میں تھا صدر محترم کو پیش کیا۔ جس کو خلوص دل سے قبول کیاگیا۔ چوہدری صاحب کا صدر صاحب سے انٹرویو اسرائیل کے ریڈیو پر نشر کیاگیا اور ان کی ملاقات اخبارات میں جلی سرخیوں سے شائع کیاگیا۔
This substract has been taken from Page 79 of the fourth revised edition of the book styled as "Our Foreign Mission" written by Mirza Mubarak Ahmad son of Late Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad and Grandson of Mirza Ghulam Ahmad which published in 1965 by Ahmadiyya Muslim foreign Missions Rabwah, West Pakistan, and printed at Nusrat Art Press, Rabwah.
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ISRAEL MISSION
The Ahmadiyya Mission in Israel is situated in Haifa at Mount Karmal. We have a mosque there, a Mission House, a library, a book depot, and a school. The mission also brings out a monthly, entitled Al- Bushra which is sent out to thirty different countries accessible through the medium of Arabic. Many works of the Promised Massih have been translated into Arabic through this mission.
In many ways this Ahmadiyya Mission has been deeply affected by the Partition of what formerly was called Palestine. The small number of Muslims left in Israel derive a great deal of strength from the presence of our mission which never misses a chance of being of service to them. Some time ago, our missionary had an interview with the Mayor of Haifa, when during the discussion on many points, he offered to build for us a school at Kababeer, a village near Haifa, where we have strong and 2052well- established Ahmadiyya community of Palestinian Arabs. He also promised that he would come to see our missionary at Kababeer, which he did later, accompanied by four notables from Haifa. He was duly received by members of the community, and by the students of our school, a meeting having been held to welcome the guests. Before this return he entered his inpressions in the Visitors' Book.
Another small incident, which would give readers some idea of the position our mission in Israel occupies, is that in 1956 when our missionary Choudhry Muhammad Sharif, returned to the Headquarters of the movement in Pakistan, the President of Israel sent word that he (our missionary) should she him before embarking on the journey back; Choudhry Muhammad Sharif utilized the opportunity to present a copy of the German translation of the Holy Quran to the President, which he gladly accepted. This interview and what transpired at it was widely reported in the Israeli Press, and a brief account was also broadcast on the radio. (Our Foreign Missions)
(by Mirza Mubarak Ahmad)
یہودیوں اور قادیانیوں کے نظریاتی مماثلت اور اشتراک کا تجزیہ کرتے ہوئے آج سے ۲۸سال قبل علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’مرزائیت اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہیں کہ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۳)
مگر ۱۹۳۶ء میں تو یہ ایک نظری بحث تھی۔ جس پر رائے زنی کی گنجائش ہوسکتی تھی۔ لیکن بعد میں علم ونظر کے دائرہ سے لے کر سعی وعمل کے میدان میں دونوں یعنی قادیانیت اور صیہونت کا باہمی اشتراک اور تماثل ایک بدیہی حقیقت کی شکل میں سامنے آیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2053مرزائیت اور یہودیت کا باہمی اشتراک
یہ باہمی ربط وتعلق کن مشترکہ مقاصد پر مبنی ہے۔ اس کے لئے ہمیں زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں۔ انگریزی سامراج کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور صیہونی استعمار بھی مغرب کا آلہ کار بن کر مسلمان بالخصوص عربوں کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ دونوں کے مقاصد اور وفاداریاں اسلام سے عداوت پاکستان دشمنی کامنطقی نتیجہ قادیانیوں اور اسرائیل کے باہمی گہرے دوستانہ تعلقات کی شکل میں برآمد ہوا۔ عالم عرب کے بعد اگر اسرائیل اپنا سب سے بڑا دشمن کسی ملک کو سمجھتا تھا تو وہ پاکستان ہی تھا۔ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گوریان نے اگست ۱۹۶۷ء میں سارابوں یونیورسٹی پیرس میں جو تقریر کی وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ بن گوریان نے کہا: ’’پاکستان دراصل ہمارا آئیڈیالوجیکل چیلنج ہے۔ بین الاقوامی، صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے اور نہ ہی پاکستان کے خطرہ سے غفلت کرنی چاہئے۔‘‘
(آگے چل کر پاکستان اور عربوں کے باہمی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا) کہ:
’’لہٰذا ہمیں پاکستان کے خلاف جلد سے جلد قدم اٹھانا چاہئے۔ پاکستان کا فکری سرمایہ اور جنگی قوت ہمارے لئے آگے چل کر سخت مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان سے گہری دوستی ضروری ہے۔ بلکہ ہمیں اس تاریخی عناد ونفرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے جو ہندوستان، پاکستان کے خلاف رکھتا ہے۔ یہ تایخی عناد ہمارا سرمایہ ہے۔ ہمیں پوری قوت سے بین الاقوامی دائروں کے ذریعہ سے اور بڑی طاقتوں میں اپنے نفوذ سے کام لے کر ہندوستان کی مدد کرنی اور پاکستان پر بھرپور ضرب لگانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ یہ کام نہایت رازداری کے ساتھ اور خفیہ منصوبوں کے تحت انجام دینا چاہئے۔‘‘
(یروشلم پوسٹ ۱۹؍اگست ۱۹۶۷ئ، از روزنامہ نوائے وقت لاہور ص۱، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۲ئ، ۳؍ستمبر ۱۹۷۳ئ)
2054بن گوریان نے پاکستان کے جس فکری سرمایہ اور جنگی قوت کا ذکر کیا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے اس کا جواب ہمیں مشہور یہودی فوجی ماہر پروفیسر ہرٹر سے مل جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’پاکستانی فوج اپنے رسول محمدﷺ سے غیرمعمولی عشق رکھتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے پاکستان اور عربوں کے باہمی رشتے مستحکم کر رکھے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی یہودیت کے لئے شدید خطرہ رکھتی ہے اور اسرائیل کی توسیع میں حائل ہورہی ہے۔ لہٰذا یہودیوں کو چاہئے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے پاکستانیوں کے اندر سے حب رسول کا خاتمہ کریں۔‘‘
(نوائے وقت ص۶، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۲ئ، نیز جزائر برطانیہ میں صیہونی تنظیموں کا آرگن جیوئش کرائیگل ۱۹؍اگست ۱۹۶۷ئ)
بن گوریان کے بیان کے پس منظر میں یہ بات تعجب خیز ہو جاتی ہے کہ پاکستان سے اس شدت سے نفرت کرنے والے اسرائیل نے ایسی جماعت کو سینے سے کیوں لگائے رکھا۔ جن کاہیڈ کوارٹر یعنی پاکستان ہی ان کے لئے نظریاتی چیلنج ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی فوج کے فکری اساس رسول عربیﷺ سے غیرمعمولی عشق اور جنگی قوت کا راز جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے جو جماعت نظریہ انکار ختم نبوت اور ممانعت جہاد کی علمبردار بن کر اٹھی تھی وہی پورے عالم اسلام اور پاکستان میں ان کی منظور نظر بن سکتی تھی۔ واضح رہے کہ بہت جلد جب سامراجی طاقتوں اور صیہونیوں کو مشرقی پاکستان کی شکل میں اپنے جذبات عناد نکالنے کا موقعہ ہاتھ آیا تو اسرائیل وزیرخارجہ ابا ایبان نے نہ صرف اس تحریکِ علیحدگی کو سراہا۔ بلکہ بروقت ضروری ہتھیار بھی فراہم کرنے کی پیش کش کی۔
(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ج۷ ش۹ ص۸، بحوالہ ماہنامہ فلسطین بیروت جنوری ۱۹۷۲ئ)
اس تاثر کو موجودہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیان سے اور زیادہ تقویت ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان کے عام انتخابات ۱۹۷۰ء میں اسرائیلی روپیہ پاکستان 2055آیا اور انتخابی مہم میں اس کا استعمال ہوا۔ آخر وہ روپیہ مرزائیوں کے ذریعے نہیں تو کس ذریعے سے آیا اور پاکستان کے وجود کے خلاف تل ابیب میں تیار کی گئی سازش جس کا انکشاف بھٹو صاحب نے الاہرام مصر کے ایڈیٹر حسنین ہیکل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ کیسے پروان چڑھی جب کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سوائے قادیانی مشنوں کے اور کوئی رابطہ نہیں تھا؟
اگر قادیانی جماعت بین الاقوامی صہیونت کی آلہ کار نہ ہوتی اور عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف اس کا کردار نہایت گھناؤنا نہ ہوتا تو کبھی بھی اسرائیل کے دروازے ان پر نہ کھل سکتے۔ قادیانی اس بارہ میں ہزار مرتبہ تبلیغ ودعوت اسلام کے پردہ میں پناہ لینا چاہیں۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ اسرائیل میں کیا یہ تبلیغ ان یہودیوں پر کی جارہی ہے جنہوں نے صیہونیت کی خاطر اپنے بلاد اور اوطان کو خیرباد کہا اور تمام عصبیتوں کے تحت اسرائیل میں اکٹھے ہوئے یا ان بچے کھچے مسلمان عربوں پر مشق تبلیغ کی جارہی ہے جو پہلے سے محمد عربیﷺ کے حلقہ بگوش ہیں اور صیہونیت کے مظالم سہ رہے ہیں۔
اسرائیل نے ۱۹۶۵ء اور پھر ۱۹۷۳ء میں عربوں پر مغربی حلیفوں کی مدد سے بھرپور جارحانہ حملہ کیا۔ جنگ چھڑی تو قادیانیوں کو اسرائیل سے باہمی روابط وتعلقات کے تقاضے پورا کرنے اور حق دوستی ادا کرنے کا موقعہ ملا اور دونوں نے عالم اسلام کے خلاف جی بھر کر اپنی تمنائیں نکالیں۔ قادیانیوں کی وساطت سے عرب گوریلا اور چھاپہ مار تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی رہیں۔ ان تنظیموں میں مسلمان ہونے کے پردہ میں قادیانی اثر ورسوخ حاصل کر کے داخلی طور پر سبوثاژ کرتے رہے اور حالیہ عرب اسرائیل جنگوں میں وہ صیہونیوں کے ایسے وفادار بنے جیسے کہ برطانوی دور میں انگریز کے اور یہ اس لئے بھی کہ عربوں کی زبردست تباہی کے بارے میں مرزاغلام احمد کا وہ خود ساختہ الہام بھی پورا ہو جس میں عربوں کی تباہی کے بعد سلسلہ احمدیہ کی ترقی وعروج کی خبر ان الفاظ میں دی گئی جو درحقیقت الہام نہیں بلکہ الہام کے پردہ میں اپنے بیٹے کو 2056آئندہ اسلام اور عرب دشمن سازشوں کی راہ دکھائی گئی تھی۔
’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ… ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور اس تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا۔ صاحبزادہ صاحب (یعنی ان کے مخاطب پیر سراج الحق قادیانی) اس وقت میرا لڑکا موعود ہوگا۔ خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے۔ ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تم اس موعود کو پہچان لینا۔‘‘
(تذکرہ مرزا کا مجموعہ وحی والہام مطبوعہ ربوہ ص۷۹۹، طبع سوم)
علامہ اقبال نے ایسے ہی الہامات کے بارے میں کہا تھا ؎

محکوم کے الہام سے اﷲ بچائے
غارتگر اقوام ہے وہ صورت چنگیز
مولوی مفتی محمود: جناب والا! مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
جناب چیئرمین: 7:20 پر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔ آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے۔
----------
[The Special Committee adjourned for Maghrib Prayers to re-assemble at 7:20 pm.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے لئے شام سات بج کر بیس منٹ تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں)
----------
جناب چیئرمین: مولانا مفتی محمود!
2057مولوی مفتی محمود:
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
خلافت عثمانیہ اور ترکی
(قادیان جماعت کا ایڈریس بخدمت ایڈورڈ میکلیگن لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اخبار الفضل ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۹ء ج۷ نمبر۴۸)
’’ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ مذہباً ہمارا ترکوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنے مذہبی نقطہ خیال سے اس امر کے پابند ہیں کہ اس شخص کو اپنا پیشوا سمجھیں جو مسیح موعود کا جانشین ہو اور دنیاوی لحاظ سے اس کو اپنا بادشاہ اور سلطان یقین کریں، جس کی حکومت کے نیچے ہم رہتے ہیں۔ پس ہمارے خلیفہ حضرت مسیح موعود (مرزاصاحب) کے خلیفہ ثانی ہیں اور ہمارے بادشاہ حضور سلطان ملک معظم ہیں۔ سلطان ترکی ہر گز خلیفۃ المسلمین نہیں۔‘‘
(صیغہ امور عامہ قادیان کا اعلان مندرجہ الفضل قادیان ج۷ نمبر۱۶۱، ۱۶؍فروری ۱۹۲۰ئ)
اخبار لیڈر آلہ آباد مجریہ ۲۱؍جنوری ۱۹۲۰ء میں خلافت کانفرنس کا ایڈریس: ’’بخدمت جناب وائسرائے شائع کیا گیا۔ فہرست دستخط کنندگان میں مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے نام سے پہلے کسی شخص مولوی محمد علی قادیانی کا نام درج ہے۔ مولوی محمد علی کے نام کے ساتھ قادیانی کا لفظ محض اس لئے لگایا گیا کہ لوگوں کو دھوکہ دیاجائے۔ ورنہ قادیان سے تعلق رکھنے والا احمدی نہیں ہے جو سلطان ترکی کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کرتا ہو… معلوم ہوتا ہے یہ مولوی صاحب لاہوری سرگروہ کے غیرمبائع ہیں۔ لیکن وہ لفظ قادیان کے ساتھ لکھنے کے ہرگز مستحق نہیں۔ نہ اس لئے کہ وہ قادیان کے باشندے ہیں اور نہ اس لئے کہ مرکز قادیان سے رکھنے والے کسی احمدی کا یہ عقیدہ نہیں کہ سلطان ترکی خلیفۃ المسلمین ہے۔‘‘
خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور عربوں کو ترکوں سے لڑانے میں قادیانی انگریز کے شانہ بشانہ شریک رہے ہیں۔ اس کا ایک اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو دمشق کے ایک مطبوعہ رسالہ القادیانیۃ میں مرزائیوں کے سیاسی خط وخال اور استعماری فرائض ومناسب کی نشاندہی 2058کے بعد لکھا گیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں نے مرزابشیرالدین محمود احمد کے سالے ولی اﷲ زین العابدین کو سلطنت عثمانیہ بھیجا۔ وہاں پانچویں ڈویژن کے کمانڈر جمال پاشا کی معرفت ۱۹۱۷ء میں قدس یونیورسٹی میں دینیات کا لیکچرر ہوگیا۔ لیکن جب انگریزی فوجیں دمشق میں داخل ہوگئیں تو ولی اﷲ نے اپنا لبادہ اتارا اور انگریزی لشکر میں آگیا اور عربوں کو ترکوں سے لڑانے بھڑانے کی مہم کا انچارج رہا۔ عراقی اس سے واقف ہوگئے تو گورنمنٹ انڈیا نے وہاں ان کے ٹکے رہنے پر زور دیا۔ لیکن عراقی حکومت نہ مانی تو بھاگ کر قادیان آگیا اور ناظر امور عامہ بنادیا گیا۔
(عجمی اسرائیل ص۲۷، بحوالہ القادیانیہ طبع دمشق)
یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد رسالہ القادیانیہ نے لکھا ہے کہ کسی بھی مسلمان عرب ریاست میں مرزائیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ بلکہ ان کے ایسے کارناموں کی بدولت پاکستان کو عربوں میں ہدف بنایا جاتا ہے۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مصطفی کمال کے دورمیں بھی مرزائیوں کی سازشیں جاری رہیں اور یہ روایت عام ہے کہ ترکی میں دو قادیانی مصطفی صغیر کی ٹیم کا رکن بن کر گئے۔ مصطفی صغیر کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ قادیانی تھا اور مصطفی کمال کو قتل کرنے پر مامور ہوا تھا۔ لیکن راز فاش ہونے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
افغانستان

گورنمنٹ افغانستان کے خلاف سازشی خطوط اور جہاد کے جذبہ کی مخالفت کا ذکر پہلے مدلل طور پر آچکا ہے۔ چند مزید حقائق سنئے۔

جمیۃ الاقوام سے افغانستان کے خلاف مداخلت کی اپیل

’’جماعت احمدیہ کے نام مرزابشیرالدین محمود صاحب خلیفۃ المسیح الثانی نے ’’لیگ اقوام‘‘ سے پرزور اپیل کی کہ حال میں پندرہ پولیس کانسٹیبلوں اور 2059سپرنٹنڈنٹ کے روبرو دواحمدی مسلمانوںکو محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے حکومت کابل نے سنگسار کر دیا ہے۔ اس لئے دربار افغانستان سے بازپرس کے لئے مداخلت کی جائے۔ کم ازکم ایسی حکومت اس قابل نہیں کہ مہذب سلطنتوں کے ساتھ ہمدردانہ تعلقات رکھنے کے قابل سمجھی جائے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۱۲ نمبر۹۵ مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۲۵ئ)
 
Top