ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ویٹیکن سٹیٹ کا مطالبہ … پاکستان کی حد بندی کے موقع پر غداری
جماعت احمدیہ تقسیم کی مخالف تھی۔ لیکن جب مخالفت کے باوجود تقسیم کا اعلان ہوگیا تو احمدیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ایک اور زبردست کوشش کی جس کی وجہ سے گورداسپور کا ضلع جس میں قادیان کا قصبہ واقع تھا پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حد بندی کمیشن جن دنوں بھارت اور پاکستان کی حد بندی کی تفصیلات طے کر رہا تھا کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے دونوں اپنے اپنے دعاوی اور دلائل پیش کر رہے تھے۔ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنا الگ ایک محضر نامہ پیش کیا اور اپنے لئے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے الگ مؤقف اختیار کرتے ہوئے قادیان کو ویٹی کن سٹی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اس محضر نامہ میں انہوں نے اپنی تعداد اپنے علیحدہ مذہب، 2077اپنے فوجی اور سول ملازمین کی کیفیت اور دوسری تفصیلات درج کیں۔ نتیجہ یہ ہوا احمدیوں کا ویٹی کن سٹیٹ کا مطالبہ تو تسلیم نہ کیاگیا۔ البتہ باؤنڈری کمیشن نے احمدیوں کے میمورنڈم سے یہ فائدہ حاصل کر لیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں سے خارج کر کے گورداسپور کو مسلم اقلیت کا ضلع قرار دے کر اس کے اہم ترین علاقے بھارت کے حوالے کر دئیے اور اس طرح نہ صرف گورداسپور کا ضلع پاکستان سے گیا۔ بلکہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کر لینے کی راہ مل گئی اور کشمیر پاکستان سے کٹ گیا۔
چنانچہ سید میر نور احمد سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ اپنی یادداشتوں ’’مارشل لاء سے مارشل لاء تک‘‘ اس واقعہ کو یوں تحریر کرتے ہیں: ’’لیکن اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایوارڈ پر ایک مرتبہ دستخط ہونے کے بعد ضلع فیروزپور کے متعلق جس میں ۱۹؍اگست اور ۱۷؍اگست کے درمیان عرصہ میں ردوبدل کیاگیا اور ریڈکلف سے ترمیم شدہ ایوارڈ حاصل کیاگیا۔ کیا ضلع گورداسپور کی تقسیم اس ایوارڈ میں شامل تھی۔ جس پر ریڈکلف نے ۸؍اگست کو دستخط کئے تھے یا ایوارڈ کے اس حصہ میں بھی ماؤنٹ بیٹن نے نئی ترمیم کرائی۔ افواہ یہی ہے اور ضلع فیروز پور والی فائل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر ایوارڈ کے ایک حصہ میں ناجائز طور پر ردوبدل ہوسکتا تھا تو دوسرے حصوں کے متعلق بھی یہ شبہ پیدا ہوتا ہے۔ پنجاب حد بندی کمیشن کے مسلمان ممبروں کا تاثر ریڈکلف کے ساتھ آخری گفتگو کے بعد یہی تھا کہ گورداسپور جو بہرحال مسلم اکثریت کا ضلع تھا قطعی طور پر پاکستان کے حصے میں آرہا ہے۔ لیکن جب ایوارڈ کا اعلان ہوا تو نہ ضلع فیروز پور کی تحصیلیں پاکستان میں آئیں اور نہ ضلع گورداسپور (ماسوائے تحصیل شکرگڑھ) پاکستان کا حصہ بنا۔ کمیشن کے سامنے وکلا کی بحث کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کمیشن کے سامنے کشمیر کے نقطہ نگاہ سے ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھان کوٹ کی اہمیت کا کوئی ذکر آیا تھا یا نہیں، غالباً نہیں آیا تھا۔ کیونکہ یہ پہلو کمیشن کے نقطہ نگاہ سے قطعاً غیر متعلق تھا۔ ممکن ہے ریڈکلف کو اس نقطے کا کوئی علم ہی نہ ہو۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن کو معلوم تھا کہ تحصیل پٹھان کوٹ کے ادھر 2078ادھر ہونے سے کن امکانات کے راستے کھل سکتے ہیں اور جس طرح کانگریس کے حق میں ہر قسم کی بے ایمانی کرنے پر اتر آیا تھا۔ اس کے پیش نظریہ بات ہرگز بعید از قیاس نہیں کہ ریڈ کلف عواقب اور نتائج کو پوری طرح سمجھا ہی نہ ہو اور اس پاکستان دشمنی کی سازش میں کردار عظیم ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا ہو۔
ضلع گورداسپور کے سلسلے میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ اس کے متعلق چوہدری ظفر اﷲ خان جو مسلم لیگ کی وکالت کر رہے تھے خود بھی ایک افسوسناک حرکت کر چکے ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ عام مسلمانوں سے (جن کی نمائندگی مسلم لیگ کر رہی تھی) جداگانہ حیثیت میں پیش کیا۔ جماعت احمدیہ کا نقطۂ نگاہ بے شک یہی تھاکہ وہ پاکستان میں شامل ہونا پسند کرے گی۔ لیکن جب سوال یہ تھا کہ مسلمان ایک طرف اور باقی سب دوسری طرف۔ تو کسی جماعت کا اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ ظاہر کرنا مسلمانوں کی عددی قوت کو کم ثابت کرنے کے مترادف تھا۔ اگر جماعت احمدیہ یہ حرکت نہ کرتی۔ تب بھی ضلع گورداسپور کے متعلق شاید فیصلہ وہی ہوتا جو ہوا۔ لیکن یہ حرکت اپنی جگہ بہت عجیب تھی۔‘‘ (روزنامہ مشرق ۳؍فروری ۱۹۶۴ئ)
اب اس سلسلہ میں خود حدبندی کمیشن کے ایک ممبر جسٹس محمد منیر کا ایک حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں: ’’اب ضلع گورداسپور کی طرف آئیے۔ کیا یہ مسلم اکثریت کا علاقہ نہیں تھا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ضلع میں مسلم اکثریت بہت معمولی تھی۔ لیکن پٹھان کوٹ تحصیل اگر بھارت میں شامل کر دی جاتی تو باقی ضلع میں مسلم اکثریت کا تناسب خود بخود بڑھ جاتا۔ مزید برآں مسلم اکثریت کی تحصیل شکر گڑھ کو تقسیم کرنے کی مجبوری کیوں پیش آئی۔ اگر اس تحصیل کو تقسیم کرنا ضروری تھا تو دریائے راوی کی قدرتی سرحد یا اس کے ایک معاون نالے کو کیوں نہ قبول کیاگیا۔ بلکہ اس مقام سے اس نالے کے مغربی کنارے کو سرحد قرار دیا گیا۔ جہاں یہ نالہ ریاست کشمیر سے صوبہ پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ کیا گورداسپور کو اس لئے بھارت میں 2079شامل کیاگیا کہ اس وقت بھی بھارت کو کشمیر سے منسلک رکھنے کا عزم وارادہ تھا۔
اس ضمن میں میں ایک بہت ناگوار واقعہ کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے لئے یہ بات ہمیشہ ناقابل فہم رہی ہے کہ احمدیوں نے علیحدہ نمائندگی کا کیوں اہتمام کیا۔ اگر احمدیوں کو مسلم لیگ کے مؤقف سے اتفاق نہ ہوتا تو ان کی طرف سے علیحدہ نمائندگی کی ضرورت ایک افسوسناک امکان کے طور پر سمجھ میں آسکتی تھی۔ شاید وہ علیحدہ ترجمانی سے مسلم لیگ کے مؤقف کو تقویت پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن اس سلسلے میں انہوں نے شکرگڑھ کے مختلف حصوں کے لئے حقائق اور اعداد وشمار پیش کئے اس طرح احمدیوں نے یہ پہلو اہم بنادیا کہ نالہ بھین اور نالہ بسنتر کے درمیانی علاقے میں غیرمسلم اکثریت میں ہیں اور اس دعویٰ کے لئے دلیل میسر کر دی کہ اگر نالہ اچھ اور نالہ بھین کا درمیانی علاقہ بھارت کے حصہ میں آیا تو نالہ بھین اور نالہ بسنتر کا درمیانی علاقہ از خود بھارت کے حصہ میں آجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ علاقہ ہمارے (پاکستان) کے حصے میں آگیا ہے۔ لیکن گورداسپور کے متعلق احمدیوں نے اس وقت سے ہمارے لئے سخت مخمصہ پیدا کر دیا۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت مورخہ ۷؍جولائی ۱۹۶۴ئ)
اس معاملہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف قادیانی ریڈکلف کمیشن کو الگ سٹیٹ کا میمورنڈم دے رہے تھے اور دوسری طرف وہی چوہدری ظفر اﷲ خان کمیشن کے سامنے پاکستانی کیس کی وکالت کر رہے تھے جو بقول ان کے اپنی جماعت کے اس خلیفہ کو مطاع مطلق کہتے تھے۔ جن کا عقیدہ یہ تھا کہ اکھنڈ بھارت اﷲ کی مشیت اور مسیح موعود کی بعثت کا تقاضہ ہے۔ ایک ایسے شخص کو پاکستانی وکالت سپرد کر دینا جس کا ضمیر ہی پاکستان کی حمایت گوارہ نہ کر سکے نادانی نہیں تو اور کیا تھا؟ اور خود چوہدری ظفر اﷲ کا ایسے درپردہ خیالات ومقاصد کے ہوتے ہوئے پاکستانی کیس کو ہاتھ میں لینا منافقت نہیں تھی تو اور کیا تھا؟ بہرحال ادھر چوہدری صاحب ریڈکلف کے سامنے پاکستانی کیس لڑ رہے تھے۔ ادھر ان کے امیر اور مطاع مطلق مرزامحمود احمد نے علیحدہ میمورنڈم پیش کر دیا اس طرح یہ دودھاری تلوار کی جنگ گورداسپور ضلع کی تین تحصیلوں کو پاکستان 2080سے کاٹ کر بھارت جانے پر ختم ہوئی اور کشمیر کو پاکستان سے کاٹ دینے کی راہ بھی ہموار کر دی گئی۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)]
(اس مرحلہ پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی کی جگہ مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
----------
مولوی مفتی محمود:
سیاسی عزائم اور منصوبے … ملک دشمن سیاسی سرگرمیاں
اب ہم اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ بظاہر ایک خالص مذہبی جماعت کہلانے والی تنظیم اور تحریک کے سیاسی عزائم اور مساعی کیا ہیں۔
مرزائی حضرات بیک وقت کئی کھیل کھیلتے ہیں۔ ایک طرف مذہب اور اس کی تبلیغ کی آڑ لے کر ایک خالص مذہبی جماعت ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے سیاسی عزائم اور منصوبے نہایت شدت سے اور منظم طریقے سے جاری رہتے ہیں اور اگر کہیں مسلمانوں کی اکثریت ان کے سیاسی مشاغل اور ارادوں کا محاسبہ کرے تو ایک مظلوم مذہبی اقلیت کا رونا رو کر عالمی ضمیر کو معاونت کے لئے پکارا جاتا ہے۔ حالیہ واقعات میں لندن میں بیٹھ کر چوہدری ظفر اﷲ خان کا واویلا اور اس کے جواب میں مغربی دنیا کی چیخ وپکار اسی تکنیک کی واضح مثال ہے۔
مذہب اور سیاست کے اس دو طرفہ ناٹک میں اصل حقیقت نگاہوں سے مستور ہو جاتی ہے اور حقائق سے بے خبر دنیا سمجھتی ہے کہ واقعی پاکستان کے ’’مذہبی جنونی‘‘ ایک بے ضرر چھوٹی سی 2081اقلیت کو کچلنا چاہتے ہیں۔ لیکن واقعات اور حقائق کیا ہیں اس کا اندازہ حسب ذیل چند حوالوں اور پاکستانی سیاست میں اس جماعت کے عملی کردار سے لگانا چاہئے۔ مرزامحمود احمد صاحب نے ۱۹۲۲ء میں خطبہ جمعہ کے دوران کہا تھا۔
’’نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍فروری، ۲۹؍مارچ ۱۹۲۲ئ)
اس سے پہلے ۱۴؍فروری ۱۹۲۲ء کو الفضل میں خلیفہ محمود احمد کی یہ تقریر شائع ہوئی۔
’’ہم احمدی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
۱۹۳۵ء میں کہا: ’’کہ اس وقت تک کہ تمہاری بادشاہت قائم نہ ہو جائے تمہارے راستے سے یہ کانٹے ہر گز دور نہیں ہوسکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۳۵ئ)
۱۹۴۵ء میں انہوں نے اپنے سیاسی عزائم کا اظہار اس طرح کیا کہ: ’’جب تک جماعت احمدیہ نظام حکومت سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتی اس وقت تک ضروری ہے کہ اس دیوار (انگریزی حکومت) کو قائم رکھا جائے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۴۵ئ)
۱۹۴۵ء کے بعد حصول اقتدار کے یہ ارادے تحریروں میں عام طور پر پائے جانے لگے۔ جسٹس منیر نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ: ’’۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کے آغاز تک ان کی بعض تحریروں سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ انہیں پہلے انگریزوں کا جانشین بننے کی توقع تھی۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ص۲۰۹)
ان سیاسی عزائم سے مزید پردہ ۱۹۶۵ء میں لندن میں منعقد ہونے والی جماعت احمدیہ کے پہلے یورپی کنونشن سے اٹھ جاتا ہے جس کا افتتاح سرظفر اﷲ نے کیا۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی 2082 ۴؍اگست ۱۹۶۵ء جلد۷ ص۳۰۹ فرسٹ ایڈیشن میں خبر دی گئی ہے کہ: ’’لندن ۳؍اگست (نمائندہ جنگ) جماعت احمدیہ کا پہلا یورپی کنونشن جماعت کے لندن مرکز میں منعقد ہورہا ہے۔ جن میں تمام یورپی ممالک کے احمدیہ مشن شرکت کر رہے ہیں۔ کنونشن کا افتتاح گزشتہ روز ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے جج سرظفر اﷲ خان نے کیا یہ کنونشن ۷؍اگست تک جاری رہے گا۔ جماعت نے مختلف ۷۵ممالک میں اپنے مشن قائم کر لئے ہیں۔ برطانیہ میں جماعت کے ۱۸مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ کنونشن میں شریک مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ اگر احمدی جماعت برسراقتدار آجائے تو امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں اور دولت کو ازسرنو تقسیم کیا جائے۔ ساہو کاری اور سود پر پابندی لگادی جائے اور شراب نوشی ممنوع قرار دی جائے۔‘‘
اس خبر کے خط کشیدہ الفاظ میں احمدی جماعت کے برسراقتدار آنے کی صورت میں مجوزہ اصلاحات کا ذکر ہے کیا کوئی غیرسیاسی جماعت اس قسم کے امکانات اور اصلاحات پر غور کر سکتی ہے؟
مرزامحمود نے ۱۹۵۲ء کے شروع میں یہ اعلان کرادیا تھا کہ: ’’اگر ہم ہمت کریں اور تنظیم کے ساتھ محنت سے کام کریں تو ۱۹۵۲ء میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ (آگے چل کر کہا) ۱۹۵۲ء کو گزرنے نہ دیجئے۔ جب احمدیت کا رعب دشمن اس رنگ میں محسوس نہ کرے کہ اب احمدیت مٹائی نہیں جاسکتی اور وہ مجبور ہوکر احمدیت کی آغوش میں آگرے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
واضح رہے کہ یہ اعلان ربوہ میں قادیانی فرقہ کے سیاسی فوجی اور کلیدی ملازمتوں پر فائز 2083اہم عہدہ داروں کے اہم اجتماع اور مشورہ کے بعد کرایا گیا تھا اور ابھی پندرہ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ اس اعلان انقلاب کی ایک صورت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی شکل میں ظاہر ہوگئی۔
اس سلسلہ میں موجودہ مرزاناصر احمد کے اعلانات دس ہزار گھوڑوں کی تیاری اور اس طرح کے کئی منصوبے اس کثرت سے ان کے اخبارات میں آتے رہے ہیں کہ سب پر عیاں ہیں۔
سیاسی عزائم کی یہ ایک معمولی سی جھلک تھی اور قیام پاکستان کے فوراً بعد مرزائیوں کے حصول اقتدار کا رجحان ابھر کر بڑی شدت سے حسب ذیل صورتوں میں سامنے آنے لگا۔
۱… کسی نہ کسی طرح پورے ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے۔
۲… بصورت دیگر کم ازکم ایک صوبہ یا علاقہ کو قادیانی سٹیٹ کی حیثیت دی جائے۔
۳… ملک کی داخلی اور بیرونی تمام اہم شعبوں، وسائل اور ذرائع کو اپنے عزائم کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے۔
۴… تمام کلیدی مناصب پر قبضہ کیا جائے۔
اس پروگرام اور سیاسی عزائم کے حصول کا آغاز چوہدری ظفر اﷲ خاں نے اپنے دور وزارت میں بڑے زور وشور سے کیا۔ چوہدری صاحب بڑے فخر سے کہا کرتے کہ وہ چین جائیں یا امریکہ ہر جگہ مرزائیت کی تبلیغ کریں گے۔ وہ اپنی جماعت کے امیر کو مطاع مطلق سمجھتے تھے وہ نہ صرف احمدیت کو خدا کا لگایا ہوا پودا سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہ مرزاغلام احمد کے وجود کو نکال دیا جائے تو اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت نہیں ہوسکتا ایسے خیالات کا اظہار وہ نہ صرف نجی مجالس بلکہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے احمدیت کے تبلیغی اجتماعات میں بھی برملا کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۵۲ء کراچی کے احمدی اجتماع کی تقریر)
پاکستان بننے کے بعد ایسے شخص کو جب وزارت خارجہ جیسا اہم عہدہ دیا گیا جس کی نگرانی میں تمام دنیا میں سفارتخانوں کا قیام اور پاکستان سے روابط قائم کرانے کا کام بھی تھا تو 2084شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے اس وقت کے وزیراعظم کو لکھا کہ اگر کلیدی مناصب پر ایسے لوگوں کو فائز کرنے کا یہ تلخ گھونٹ آج گلے سے اتار لیا گیا تو آئندہ زہر کا پیالہ پینے کو تیار رہنا چاہئے۔
مگر یہ نصیحت بوجوہ کارگر نہ ہوسکی اور ہمیں زہر کا ایک پیالہ نہیں کئی کئی پیالے پینے پڑے۔
چوہدری صاحب موصوف تقسیم سے پہلے بھی اپنی سرکاری پوزیشن سے سراسر ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی مفادات کے لئے کام کرتے رہے۔ مگر تقسیم کے بعد اس میں بڑھ چڑھ کر اضافہ کردیا۔ وزارت خارجہ کے سہارے سے انہوں نے غیرممالک میں قادیانی تحریک کو تقویت پہنچائی اور اس وقت سے لے کر اب تک یہ لوگ پاکستان کے سفارتی ذرائع سے اپنی باطل تبلیغ کے نام پر عالم اسلام کے خلاف سیاسی، جاسوسی اور سامراجی مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے قادیانی حاشیہ برداروں نے ملکی زرمبادلہ اتنی بے دردی سے ضائع کیا کہ جب بھی اس طرح کی خبریں آئیں مسلمانوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑی اور قومی اسمبلی تک میں اس بارہ میں آوازیں اٹھائی گئیں۔
۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی افسوسناک صورت ایسے مطالبات ہی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی جس میں سواد اعظم نے دیگر مطالبوں کے علاوہ سرظفر اﷲ اور دیگر مرزائیوں کا کلیدی مناصب سے علیحدگی پر زور دیا گیا تھا۔ مگر ہم ان کے بیرونی آقاؤں مغربی سامراج کے ہاتھوں اتنے بے بس ہوچکے تھے کہ سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد بھی ’’اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے سرظفر اﷲ کی علیحدگی کے بارہ میں یہ قطعی رائے ظاہر کی کہ وہ اس اہم معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔‘‘ (منیر انکوائری ص۳۱۹)
وزارت خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز یہی شخص تھا جس کے افسوسناک کردار کا ایک رخ حال ہی میں لندن میں ان کے پریس کانفرنس مورخہ ۵؍جون ۱۹۷۴ء کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ 2085پریس کانفرنس پاکستانی اخبارات میں آچکی ہے۔ مغربی پریس، بی بی سی اور آکاش وانی بھارت نے اس پریس کانفرنس کے عنوان سے اسی پروپیگنڈہ کی مہم چلائی۔ جس قسم کی مہم المیہ مشرقی پاکستان سے پہلے چلائی گئی تھی۔
بہرحال یہ ایک مثال تھی اس بات کی کہ کلیدی مناصب پر فائز ہونے کی شکل میں ان لوگوں کے ہاتھوں ملک وملت کے مفادات کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تمام محکموں اور کلیدی مناصب پر قبضہ کرنے کا منصوبہ
مرزائیوں کے ذہن میں کلیدی مناصب کی یہی مہم اور نازک پوزیشن پہلے سے موجود ہے اور ان کی تحریرات، اعلانات اور سرکاری محکموں پر منظم قبضہ کرنے کے پروگرام کا واضح ثبوت مل جاتا ہے۔
مرزامحمود نے اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’جب تک سارے محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں ان سے پوری طرح کام نہیں لے سکتے۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں سے فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فائننس ہے، کسٹمز ہے، انجینئرنگ ہے۔ یہ آٹھ دس موٹے موٹے صیغے ہیں جن کے ذریعے سے جماعت اپنے حقوق محفوظ کراسکتی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور ہم اس سے اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں۔ لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔ پیسے بھی اس طرح کمائے جائیں کہ ہر صیغے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہر جگہ ہماری آواز پہنچ سکے۔‘‘ (خطبہ مرزا محمود احمد مندرجہ الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
2086کلیدی مناصب کی اہمیت اور مطالبہ علیحدگی کے دلائل
اس واضح پروگرام اور منصوبوں کو دیکھ کر اور سرکاری محکموں میں مرزائیوں کا اپنی آبادی سے بدرجہا بڑھ کر قبضہ کرنے پر مسلمان بجا طور پر بے چین ہیں۔ ان کی سابقہ روش کو دیکھ کر اگر وہ یہ مطالبہ کرتے کہ آئندہ دس سال میں ملک کے ہر محکمے میں کسی بھی مرزائی کی بھرتی بند کر دی جائے۔ تب بھی یہ مطالبہ عین قرین انصاف تھا۔ مگر مسلمان اس سے کم تر مطالبہ یعنی قادیانیوں کو کلیدی مناصب سے ہٹانے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں جس کی معقولیت کی بنیاد صرف یہ مذہبی نظریہ نہیں کہ کسی اسلامی سٹیٹ میں قرآن وسنت کی واضح ہدایات کی بناء پر کسی بھی غیرمسلم کو کلیدی مناصب پر مامور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اس کے علاوہ یہ مطالبہ اس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ:
۱… یہ لوگ پچھلے انگریزی دور میں مسلمانوں کی غفلت اور انگریزوں کی غیرمعمولی عنایات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے نام پر مسلمانوں کی ملازمتوں کے کوٹہ کا استحصال کرتے آئے ہیں۔
۲… قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں کی غفلت یا بے حسی سے فائدہ اٹھا کر اس معمولی اقلیت نے شرح آبادی کے تناسب سے بدرجہا زیادہ ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
۳… اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اہم مناصب پر فائز افراد نے اپنے ہم مذہبوں کو بھرتی کر کے اور اپنے ماتحت اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔
۴… اس کے نتیجے میں ملک کے تمام اہم شعبوں فوجی، صنعتی، معاشی، اقتصادی، انتظامیہ، مالیات، منصوبہ بندی، ذرائع ابلاغ وغیرہ پر انہیں اجارہ داری حاصل ہوگئی اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ایک مٹھی بھر غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
۵… اس گروہ کے سرکردہ افراد نے اپنے دائرہ اثر میں اپنے عہدہ اور منصب کو قادیانیت کی 2087تبلیغ واشاعت کے لئے استعمال کیا اور انہی ہدایات پر عمل کیا جو ان کے امام اور خلیفہ نے ۱۹۵۲ء میں انہیں دی تھیں اور کہا تھا کہ ’’مرزائی ملازمین اپنے محکموں میں منظم صورت میں مرزائیت کی تبلیغ کریں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
۶… کلیدی مناصب پر فائز مرزائیوں کے ذمہ دار افراد ملک وملت کے مفادات سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے۔ اس سلسلہ میں ائیرمارشل ظفر چوہدری اور کئی دوسرے جرنلوں کا کردار قوم اور حکومت کے سامنے آچکا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاک بھارت جنگ کے سلسلہ میں ان لوگوں کا کردار موضوع عام وخاص ہے۔
ان چند وجوہات کی بناء پر مرزائیوں کا کلیدی مناصب پر برقرار رہنا صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ملک کی اکثریت کے معاشی، سماجی، سیاسی، معاشرتی مفادات کے تحفظ اور ملک وملت کی سالمیت کا بھی تقاضا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد احمدی جماعت کی سیاسی تنظیم نے حکومت پاکستان کے مقابلے میں ایک متوازی نظام حکومت قائم کر لیا ہے۔ ربوہ کے مقام پر خالص احمدیوں کی بستی آباد کر کے اس نظام حکومت کا مرکز بنا لیا گیا۔ جماعت کا لیڈر ’’امیرالمؤمنین‘‘ کہلاتا ہے۔ جو مسلمانوں کے فرمانروا کا معیّن شدہ لقب ہے۔ اس امیرالمؤمنین کے ماتحت ربوہ میں مرزائی سٹیٹ کی نظارتیں باقاعدہ قائم ہیں۔ نظارت امور داخلہ ہے، نظارت نشر واشاعت ہے، نظارت امور عامہ ہے، نظارت امور مذہبی ہے۔ یہ نظارتیں کسی ریاست یا سلطنت کے نظام کے شعبوں کی طرح کام کر رہی ہیں۔ اس نظام حکومت نے خدام الاحمدیہ کے نام سے ایک فوجی نظام بھی بنارکھا ہے۔ خدام الاحمدیہ میں ’’فرقان بٹالین‘‘ کے سابق سپاہی اور افسر شامل ہیں۔
2088احمدی لیڈروں کو یقین ہے کہ اب ان کے لئے پاکستان کا حکمران بن جانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ سابقہ خلیفہ ربوہ مرزابشیرالدین محمود نے اپنے سالانہ جلسہ میں اعلان کیا تھا ہم فتح یاب ہوں گے اور تم مجرموں کے طور پر ہمارے سامنے پیش ہووگے۔ اس وقت تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو فتح مکہ کے دن ابوجہل اور اس کی پارٹی کا ہوا تھا۔
ابھی قیام پاکستان کو اک برس بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ۲۳؍جولائی ۱۹۴۸ء کو قادیانی خلیفہ نے کوئٹہ میں ایک خطبہ دیا جو ۱۳؍اگست کے الفضل میں ان الفاظ میں شائع ہوا۔
’’برٹش بلوچستان جواب پاکی بلوچستان ہے کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے۔ مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جیسے افراد کی قیمت ہوتی ہے یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی کانسٹیٹیوشن ہے۔ وہاں اسٹیٹس سینٹ کے لئے اپنے ممبر منتخب کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاسکتا کہ کسی اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے۔ سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لئے جاتے ہیں۔ غرض پاکی بلوچستان کی آبادی ۵،۶ لاکھ ہے اوراگر ریاستی بلوچستان کو ملالیا جائے تو اس کی آبادی ۱۱لاکھ ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے۔ اس لئے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے۔ لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلدی احمدی بنایا جاسکتا ہے۔ یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو۔ پہلے Base مضبوط ہو تو پھر تبلیغ پھیلتی ہے۔ بس پہلے اپنی Base مضبوط کر لو کسی نہ 2089کسی جگہ اپنی Base بنالو کسی ملک میں ہی بنالو۔ اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنا لیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہو جائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔‘‘
مرزائی حضرات جس قادیانی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں اس کی تعبیر کے لئے انہوں نے ابتداء ہی سے کشمیر کو بھی مناسب حال سمجھا۔ اس دلچسپی کی بعض وجوہات کو تاریخ احمدیت کے مؤلف دوست محمد شاہد نے کتاب کی جلدششم ص۳۴۵تا۴۷۹ میں ذکر بھی کیا ہے۔
الف… قادیان ریاست جموں وکشمیر کا ہم آغوش ہے جو ان کے ’’پیغمبر‘‘ کا مولد دارالامان اور مکہ ومدینہ کا ہم پلہ بلکہ ان سے بھی افضل قرار دیتے ہیں۔ (الفضل مورخہ ۱۱دسمبر ۱۹۳۲ئ، تقریر مرزامحمود صاحب وحقیقت الرؤیا ص۴۶، از مرزامحمود)
اور قادیان کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ مرزاغلام احمد کی پیشین گوئی کے مطابق قادیان قادیانیوں کو ضرور ملے گا وہ اپنے چھوٹے بچوں کو ابتدائی نصاب میں یہی بات راسخ کرتے رہتے ہیں کہ: ’’(قادیان سے ہجرت) کی حالت عارضی ہوگی آخر ایک وقت آئے گا کہ قادیان جماعت احمدیہ کو واپس مل جائے گا۔‘‘ (راہ ایمان ص۹۸، بچوں کی ابتدائی دینی معلومات کا مجموعہ)
قادیان اور جموں وکشمیر کے جغرافیائی اتصال کو برقرار رکھنے کی کوششوں سے باؤنڈری کمیشن کو احمدی میمورنڈم کی وجہ سے ضلع گورداسپور کو پاکستان سے کاٹنے اور بھارت کو کشمیر ہڑپ کر لینے کی راہ مل گئی۔
ب… 2090قادیانیوں کا زعم ہے کہ کشمیر میں قادیانی اثرات پہلے سے زیادہ ہیں۔ مرزامحمودکے بقول وہاں تقریباً اسی ہزار احمدی ہیں۔
ج… کشمیر ان کے مسیح موعود کے بقول مسیح اوّل (حضرت عیسیٰ) کا مدفن ہے اور مسیح ثانی کے پیروکاروں کی بڑی تعداد وہاں آباد ہے اور جس ملک میں دو مسیحوں کا دخل ہو وہاں کی حکمرانی کا حق صرف قادیانیوں کو مل سکتا ہے۔
د… مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نواب امام الدین کو کشمیر بطور گورنر بھیجا تو مرزاغلام احمد کے والد بھی ان کے ساتھ تھے۔
ہ… مرزاغلام احمد کے خلیفہ اوّل حکیم نورالدین جو خلیفہ ثانی مرزامحمود کے استاد اور خسر تھے۔ مدتوں ہی کشمیر میں رہے۔ بہرحال جس طرح بلوچستان پر ان کی نظر افرادی آبادی کی قلت کی وجہ سے پڑی تو کشمیر پر ہر دور میں ان کی نظر کسی عام انسانی ہمدردی اورمسلمانوں کی خیرخواہی کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ سابقہ شخص اور عصبیتی مفادات کی وجہ سے پڑتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں کشمیر کو قادیانی سٹیٹ بنانے کی پہلی سازش ۱۹۳۰ء میں برطانوی آقاؤں کے اشارے پر کی گئی۔ مرزابشیرالدین کی کشمیر کمیٹی سے دلچسپی انہی سیاسی عزائم کی پیداوار تھی جسے ڈاکٹر اقبال مسلمان زعماء اور عام مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں نے ناکام بنادیا اور علامہ اقبال نے یہیں سے ان کے سیاسی عزائم بھانپ کر اس تحریک کا سختی سے مقابلہ شروع کیا۔