• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (پندرواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
۱۹۴۸ء کی جنگ کشمیر اور فرقان بٹالین
قیام پاکستان کے تیسرے مہینے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کا مطالبہ کیا اور ۱۹۴۸ء میں جنگ چھڑی تو قادیانی امت نے فرقان بٹالین کے نام سے ایک پلاٹون تیار کی جو جموں کے محاذ پر متعین کی گئی۔ اس سے پہلے اپنی طویل تاریخ میں مرزائیوں کو مسلمانوں کے کسی ابتلاء اور مصیبت میں حصہ لینے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ مگر آج وہ آزادیٔ کشمیر کے لئے فرقان بٹالین کے نام 2091سے جانیں پیش کرنے لگے۔ اس وقت پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی تھے جو نہ تو کشمیر کی لڑائی کے حق میں تھے نہ پاکستانی فوج کو کشمیر میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ یہاں تک ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بعض جنگی معلومات بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل سرآکسن لیگ تک پہنچاتے رہے۔ لیکن دوسری طرف وہی انگریز کمانڈر انچیف، پبلک سے تعلق رکھنے والی ایک آزاد فورس کو اس جنگ میں کھلی اجازت دیتا ہے۔ انہی جنرل گریسی نے بطور کمانڈر انچیف فرقان بٹالین کو داد وتحسین کا پیغام بھی بھیجا جو تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد قادیانی ص۶۷۴ اور نظارت دعوۃ وتبلیغ ربوہ کی شائع کردہ ٹریکٹ میں بھی ہے۔ فرقان فورس نے کشمیر کی اس جنگ کے دوران کیا خدمات انجام دیں۔ یہاں اس کے تفصیلات کی گنجائش نہیں۔ لیکن جب اس جہاد کے بعد اس تنظیم کے کارنامے خلوتوں اور جلوتوں میں زیربحث آنے لگے اور اخبارات میں کشمیری رہنماؤں اﷲ رکھا ساغر اور آفتاب احمد سیکرٹری جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے بیانات آئے۔ اس سے اس وقت کے فوجی سربراہوں اور حکومت میں کھلبلی مچ گئی۔ سردار آفتاب احمد کا اصل بیان یہ تھا: ’’اس فرقان بٹالین نے جو کچھ کیا اور ہندوستان کی جو خدمات سرانجام دیں مسلم مجاہدین کی جوانیوں کا جس طرح سودا چکایا اگر اس پر خون کے آنسو بھی بہائے جائیں تو کم ہیں جو سکیم بنتی ہندوستان پہنچ جاتی جہاں مجاہدین مورچہ بناتے دشمن کو پتہ چل جاتا جہاں مجاہدین ٹھکانا کرتے ہندوستان کے ہوائی جہاز پہنچ جاتے۔‘‘
(ٹریکٹ نظارت دعوت وتبلیغ انجمن احمدیہ ربوہ بحوالہ ٹریکٹ کشمیر اور مرزائیت)
الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۰ء ص۴ کالم۴ کے مطابق مرزابشیرالدین محمود نے ان بیانات اور تقریروں پر واویلا مچایا کہ اگر ہم غدار تھے تو حکومت نے ہمیں وہاں کیوں بٹھائے رکھا اور اس طرح اس وقت کی حکومت اور جنرل گریسی کی غداری کو بھی طشت ازبام کرانے کا سگنل مرزابشیرالدین نے دے دیا۔ چنانچہ اس وقت جنرل گریسی نے ایک تو فرقان فورس کو پراسرار اور فوری طور پر توڑ دیا اور دوسری طرف خود جنرل گریسی نے آفتاب احمد خان کے الزام کی تردید کی ضرورت محسوس کی۔ مگر 2092مرزابشیرالدین کے کہنے کے مطابق حکومت کے دباؤ سے الزام لانے والوں نے گول مول الفاظ میں تردید کر دی۔ مگر ایک ماہ ہوا کہ پھر وہی اعتراض شائع کر دیا۔
(ملاحظہ ہو الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۰ء ص۴، مرزابشیرالدین کی تقریر)
سوال یہ ہے کہ ایسے الزامات اگر غلط تھے تو اتنی جلدی میں فرقان فورس کو توڑ دینے کی ضرورت کیا تھی؟ اور یہ الزامات اگر غلط تھے تو الزام لگانے والے مدتوں برسرعام اس کو دہراتے چلے گئے۔ مگر اس وقت کی حکومت اور کمانڈر انچیف نے اس کی عدالتی انکوائری کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ پاکستانی افواج کے ہوتے ہوئے متوازی فوج کیسے اور کیوں؟ یہ سوالات اب تک جواب طلب ہیں۔ مگر اس وقت آفتاب احمد صاحب سیکرٹری جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے کہے گئے یہ الفاظ اب بھی حقیقت کی غمازی کر رہے ہیں کہ مرزائی ۳۰سال سے (اور اب تو ۵۶سال) آزاد کشمیر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فرقان فورس، ایک احمدی بٹالین اور متوازی فوجی تنظیم
چنانچہ فرقان فورس اس وقت توڑ دی گئی مگر ربوہ کے متوازی حکمران یہی سمجھتے تھے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ حقائق بین نگاہیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اگر چل کر بہت جلد اسے اور شکلوں میں قائم رکھا گیا اور اب یہ فورسیں اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ، انصار اﷲ وغیرہ نیم فوجی تنظیموں کے صورت میں قائم ہیں۔ جسٹس منیر نے فسادات ۱۹۵۳ء کے تحقیقاتی رپورٹ ص۲۱۱ پر فرقان فورس کی موجودگی کے علاوہ مرزائی سٹیٹ کے خود ساختہ سیکرٹریٹ کی خبر ان الفاظ میں دی ہے: ’’احمدی ایک متحد ومنظم جماعت ہیں۔ ان کا صدر مقام ایک خالص احمدی قصبے میں واقع ہے۔ جہاں ایک مرکزی تنظیم قائم ہے جس کے مختلف شعبے ہیں۔ مثلاً شعبہ امور خارجہ، شعبہ امور داخلہ، شعبہ امور عامہ، شعبہ نشرواشاعت یعنی وہ شعبے جو ایک 2093باقاعدہ سیکرٹریٹ کی تنظیم میں ہوتے ہیں۔ وہ سب یہاں موجود ہیں۔ ان کے پاس رضاکاروں کا ایک جیش بھی ہے جس کو خدام دین کہتے ہیں۔ فرقان بٹالین اسی جیش سے مرکب ہے اور یہ خالص احمدی بٹالین ہے۔‘‘
(تحقیقاتی رپورٹ ص۲۱۱)
۱۹۶۶ء میں اس رسوائے زمانہ فرقان فورس کومرزائیوں نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کی غیور پاکستانی افواج اور مجاہدین اور شہداء کے بالمقابل اس طرح پیش کیا کہ جب پاکستانی افواج کے بہادر مجاہدین کو تمغے دئیے جانے لگے تو الفضل میں اس طرح کے اعلانات شائع ہونے لگے۔
’’فرقان فورس میں شامل ہوکر جن قادیانیوں نے ۴۵دن یعنی ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۸ء (فائر بندی کی تاریخ) کشمیر کی لڑائی میں حصہ لیا تھا وہ اب مندرجہ ذیل نمونہ کی رسید بنا کر اس پر دستخط ثبت کر کے مقامی قادیانی جماعت کے امیر کے دستخط کروا کر ملک محمد رفیق دارالصدر غربی ربوہ کو بھجوادیں۔ جس افسر کو ایڈریس کرنا ہے وہ جگہ خالی چھوڑ دی جائے۔ یہ رسیدیں ربوہ سے راولپنڈی جائیں گی۔ راولپنڈی سے ان لوگوں کے کشمیر میڈل ربوہ آئیں گے اور اس کی اطلاع الفضل میں شائع ہوگی اور پھر یہ میڈل ربوہ میں ان قادیانیوں کو تقسیم کئے جائیں گے۔‘‘
(۲۳؍مارچ ۱۹۶۶ء الفضل)
۱۹۶۵ء میں یتیم ہونے والے بچوں، اجڑنے والے سہاگوں کے مقابلہ میں کشمیر میڈل کا قصہ چھیڑنا کیا ۱۹۶۵ء کے شہیدوں اور ان کی قربانیوں سے مذاق نہیں تھا؟
مجاہدین ۱۹۶۵ء کے مقابلہ میں ۱۸؍برس بعد فرقان فورس کے قادیانیوں کو کشمیر میڈل ملنے کا قصہ؟ اس خطرناک سیکنڈل سے پردہ اٹھانا انٹیلی جنس بیورو کا کام ہے۔ ہم محکمہ دفاع کی نزاکت اور تقدس ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ کشمیر کے سلسلہ میں فرقان فورس کا یہ تو ضمنی ذکر تھا۔ اصل مسئلہ کشمیرکے سلسلہ میں بظاہر یہ معمولی باتیں بھی قابل غور ہیں کہ پاک بھارت جنگ کے ہر موقع پر کشمیر وقادیان سے ملحق سرحدات کی کمان عموماً قادیانی جرنیلوں ہی کے ہاتھ میں کیوں رہتی ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ سے پہلے اور اس کے بعد بھی صدر ایوب کے دور میں 2094سرظفراﷲ اور دوسرے مرزائی عمائدین کی طرف سے کشمیرپر چڑھائی اور اس کے لئے موزؤں وقت کی نشاندہی کے پیغامات اور فتح کشمیر کی بشارتیں کیوں دی جاتی رہیں؟
ض… مرزائیوں نے تقسیم کے وقت وزارتی کمیشن سے علیحدہ حقوق طلب کر کے پاکستان سے غداری کی۔
ض… پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جس کی حفاظت اور دفاع کے لئے عقیدۂ جہاد روح کا کام دیتا ہے۔ مگر جو جماعت جہاد پر ایمان نہیں رکھتی۔ وہ پاکستان کی افواج میں مقتدر حیثیت اختیار کرتی گئی اور نتیجتاً پاک بھارت جنگ کے ہر موقعہ پرانہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی سے گریز کیا۔ حالیہ صمدانی ٹریبونل میں قادیانی گواہ مرزاعبدالسمیع وغیرہ کی تصریح آچکی ہے کہ وہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کو جہاد تسلیم نہیں کرتے۔
ض… مشرقی پاکستان کے سقوط میں افواج اور ایوان اقتدار پر فائز مقتدر مرزائیوں کا بنیادی حصہ ہے جس کے بہت سے حقائق اپنے وقت پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سرظفر اﷲ کی جنگ کے ایام میں یحییٰ اور مجیب کے درمیان تگ ودو بے معنی نہ تھی۔
ض… مرزائیوں نے راولپنڈی سازش کیس میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ وہ اس کے بانی مبانی تھے۔ جس کا ثبوت عدالت سے ہوچکا ہے۔
مرزائی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ ۱۹۵۳ء میں ملک کو پہلی بار مارشل لاء کی لعنت کا سامنا کرنا پڑا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
خلاصہ کلام
ان واضح شواہد پر مبنی تفصیلات کو پڑھ کر مرزائیت کے سیاسی اور شرعی وجود کے متعلق کوئی غلط فہمی باتی نہیں رہتی۔ ہر حوالہ اپنی جگہ مکمل اور اس کے عزائم ومقاصد کی صحیح صحیح تصویر پیش کرتا ہے۔ یہی وجوہ ہیں جن کی بناء پر مسلمانوں کے تمام فرقوں نے متفقہ طور پر مرزائیت کو اسلام کا باغی اور ان کے پیروؤں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ اس تحریک کے احوال ونتائج اور آثار ومظاہر تمام مسلمانوں کے علم میں ہیں۔
2095مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ نیا نہیں بلکہ علامہ اقبال نے پاکستان بننے سے کہیں پہلے انگریزی حکومت کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’’ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لئے کیوں مضطرب ہیں؟ ملت اسلامیہ کو اس مطالبے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔‘‘
(اسٹیٹس مین کے نام خط ۱۰؍جون ۱۹۳۵ئ)
علامہ اقبال نے حکومت کے طرز عمل کو جھنجھوڑتے ہوئے مزید فرمایا تھا: ’’اگر حکومت کے لئے یہ گروہ مفید ہے تو وہ اس خدمت کا صلہ دینے کی پوری طرح مجاز ہے۔ لیکن اس ملت کے لئے اسے نظرانداز کرنا مشکل ہے جس کا اجتماعی وجود اس کے باعث خطرہ میں ہے۔‘‘
ان شواہد ونظائر کے پیش نظر آپ حضرات سے یہ گزارش کرنا ہم اپنا قومی وملی فرض سمجھتے ہیں کہ یورپی سامراج کے اس ففتھ کالم کی سرگرمیوں پر نہ صرف کڑی نگاہ رکھی جائے۔ بلکہ اس جماعت کو پاکستان میں اقلیت قرار دے کر بلحاظ آبادی ان کے حدود وحقوق متعین کئے جائیں۔ ورنہ مرزائی استعماری طاقتوں کی بدولت ملک وملت کے لئے مستقلاً خطرہ بنے رہیں گے اور خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک وملت کو ایک ایسے سانحہ سے دوچار ہونا پڑے، جو سانحہ کہ آج ملت اسلامیہ عربیہ کی حیات اجتماعی کے لئے اسرائیلی سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2096آخری دردمندانہ گزارش
معزز اراکین اسمبلی!

ہر چند اختصار کو مدنظر رکھنے کے باوجود مرزائیت کے بارے میں ہماری گزارشات کچھ طویل ہوگئیں۔ لیکن امت اسلامیہ پر مرزائیت کی ستم رانیوں کی داستان اس قدر طویل ہے کہ دو سو صفحات سیاہ کرنے کے باوجود ہمیں باربار یہ احساس ہوتا ہے کہ اس موضوع سے متعلق جتنی اہم باتیں معزز اراکین کے سامنے پیش کرنی ضروری تھیں۔ ان کا بہت بڑا حصہ ابھی باقی ہے۔ ملت اسلامیہ تقریباً نوے سال سے مرزائیت کے ستم سہہ رہی ہے۔ اس مذہب کی طرف سے اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں کاٹنے کی جو طویل مہم جاری ہے اس کی ایک معمولی سی جھلک پچھلے صفحات میں آپ کے سامنے آچکی ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ قرآنی آیات کے ساتھ کھلم کھلا مذاق کیاگیا ہے۔ احادیث نبویؐ کو کھلونا بنایا گیا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہؓ کے مقدس گروہ اہل بیت عظامؓ اور اسلام کی جلیل القدر شخصیتوں پر علانیہ کیچڑ اچھالا گیا ہے۔ اسلامی شعائر کی برملا توہین کی گئی ہے۔ انتہاء یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی جیسے کردار کو اس رحمتہ للعالمینﷺ کے ’’پہلو بہ پہلو‘‘ کھڑا کرنے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جسﷺ کے مقام عظمت ورفعت کے آگے فرشتوں کا سرنیاز بھی خم ہے۔ جسﷺ کے نام نامی سے انسانیت کا بھرم قائم ہے اور جسﷺ کے دامن رحمت کی فیاضیوں کے آگے مشرق ومغرب کی حدود بے معنی ہیں۔
مرزائیت اسی رحمتہ للعالمین(ﷺ) کے شیدائیوں کے خلاف نوے سال سے سازشوں میں مصروف ہے۔ اس نے ہمیشہ اسلام کا روپ دھار کر امت مسلمہ کی پشت میں خنجر بھونکنے اور دشمنان اسلام کے عزائم کو اندرونی اڈے فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے عالم اسلام کے مختلف حصوں میں فرزندان توحید کے قتل عام اور مسلم خواتین کی بے حرمتی پر گھی کے چراغ 2097جلائے ہیں اور اس نے اپنے آپ کو امت مسلمہ کا ایک حصہ ظاہر کر کے اسلام دشمنوں کی وہ خدمات انجام دی ہیں جو اس کے کھلم کھلا دشمن انجام نہیں دے سکتے تھے۔
ملت مسلمہ نوے سال سے مرزائیت کے یہ مظالم جھیل رہی ہے۔ انہی مظالم کی بناء پر تمام مسلمانوں اور مصور پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے اپنے زمانے کی انگریز حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ مرزائی مذہب کے متبعین کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر انہیں مسلمانوں کے جسد ملی سے علیحدہ کر دیا جائے۔ لیکن وہ ایک ایسی حکومت کے دور میں پیدا ہوئے تھے جس نے مرزائیت کا پودا خود کاشت کیا تھا اور جس نے ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر مرزائیت کی پیٹھ تھپکنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ لہٰذا پوری ملت اسلامیہ اور خاص طور سے علامہ اقبال کی درد میں ڈوبی ہوئی فریادیں ہمیشہ حکومت کے ایوانوں سے ٹکرا کر رہ گئیں۔ مسلمان بے دست وپا تھے۔ اس لئے وہ مرزائیت کے مظالم سہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ آج اسی مصور پاکستان کے خوابوں کی تعبیر پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہاں ہم کسی بیرونی حکومت کے ماتحت نہیں تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ ستائیس سال گزرنے کے بعد بھی ہم ملت اسلامیہ کی اس ناگزیر ضرورت اس کے دیرینہ مطالبے اور حق وانصاف کے اس تقاضے کو پورا نہیں کر سکے اور اس عرصہ میں مرزائیت کے ہاتھوں سینکڑوں مزید زخم کھا چکے ہیں۔
معزز اراکین اسمبلی! اب ایک طویل انتظار کے بعد یہ اہم مسئلہ آپ حضرات کے سپرد ہوا ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام کی نگاہیں آپ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ پوری مسلم دنیا آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور ان خلد آشیاں مسلمانوں کی روحیں آپ کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ جنہوں نے غلامی کی تاریک رات میں مرزائیت کے بچھائے ہوئے کانٹوں پر جان دے دی تھی۔ جو حق وانصاف کے لئے پکارتے رہے۔ مگر ان کی شنوائی نہ ہو سکی اور جو ستائیس سال سے اس مسلم ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں جو آزادی کے خوابوں کی تعبیر ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے اور جو دو سوسالہ غلامی کے بعد مسلمانوں کی پناہ گاہ کے طور پر حاصل کی گئی ہے۔
2098معزز اراکین! مسلمان کسی پر ظلم کرنا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اس مرزائی ملت کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ جس نے اسلام سے کھلم کھلا خود علیحدگی اختیار کی ہے جس نے اسلام کے مسلمہ عقائد کو جھٹلایا ہے۔ جس نے ستر کروڑ مسلمانوں کو برملا کافر کہا ہے اور جس نے خود عملاً اپنے آپ کو ملت اسلامیہ سے کاٹ لیا ہے۔ ان کی عبادت گاہیں مسلمانوں سے الگ ہیں۔ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے دونوں طرف سے ناجائز سمجھے جاتے ہیں اور عدالتیں ایسے رشتوں کو غیرقانونی قرار دے چکی ہیں۔ مسلمان مرزائیوں کے اور مرزائی مسلمانوں کے جنازوںمیں شرکت جائز نہیں سمجھتے اور ان کے آپس میں ہم مذہبوں کے سے تمام رشتے کٹ چکے ہیں۔ لہٰذا اسمبلی کی طرف سے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا اقدام کوئی اچنبھایا مصنوعی اقدام نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت کا سرکاری سطح پر اعتراف ہوگا جو پہلے ہی عالم اسلام میں اپنے آپ کو منوا چکی ہے۔ پچھلے صفحات میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی تجویز کوئی ایسی تجویز نہیں ہے جو کسی شخصی عداوت یا سیاسی لڑائی نے وقتی طور پر کھڑی کر دی ہو۔ بلکہ یہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات کا، خاتم الانبیائﷺ کے سینکڑوں ارشادات کا، امت کے تمام صحابہؓ وتابعین اور فقہاء ومحدثینؒ کا، تاریخ اسلام کی تمام عدالتوں اور حکومتوں کا، مذاہب عالم کی پوری تاریخ کا، دنیا کے موجود ستر کروڑ مسلمانوں کا، پاکستان کے ابتدائی مصوروں کا، خود مرزائی پیشواؤں کے اقراری بیانات کا اور ان کے نوے سالہ طرز عمل کا فیصلہ ہے اور اس کا انکار عین دوپہر کے وقت سورج کے وجود کا انکار ہے۔
چونکہ مرزائی جماعتیں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے امت مسلمہ کے مفادات کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ اس لئے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان اس وقت منافرت وعداوت کی ایسی فضا قائم ہے جو دوسرے اہل مذاہب کے ساتھ نہیں ہے۔ اس صورتحال کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے کہ مرزائیوں کو سرکاری سطح پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ اس کے 2099بعد دوسری اقلیتوں کی طرح مرزائیوں کے جان ومال کی حفاظت بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔ مسلمانوں نے اپنے ملک کے غیرمسلم باشندوں کے ساتھ ہمیشہ انتہائی فیاضی اور رواداری کا سلوک کیا ہے۔ لہٰذا مرزائیوں کو سرکاری سطح پر غیرمسلم اقلیت قرار دینے کے بعد ملک میں ان کی جان ومال کا تحفظ زیادہ ہوگا اور منافرت کی وہ آگ جو وقفے وقفے سے بھڑک اٹھتی ہے ملک کی سالمیت کے لئے کبھی خطرہ نہیں بن سکے گی۔ لہٰذا ہم آپ سے اﷲ کے نام پر، شافع محشرﷺ کی ناموس کے نام پر، قرآن وسنت اور امت اسلامیہ کے اجماع کے نام پر، حق وانصاف اور دیانت وصداقت کے نام پر دنیا کے ستر کروڑ مسلمانوں کے نام پر، یہ اپیل کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے اس مطالبے کو پورا کرنے میں کسی قسم کے دباؤ سے متاثر نہ ہوں اور اﷲ اور اس کے رسولa کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر کریں۔ جن کی شفاعت میدان حشر میں ہمارا آخری سہارا ہے۔ اگر ہم نے اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہ کیا تو ملت اسلامیہ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اقتدار واختیار ڈھل جاتا ہے۔ لیکن غلط فیصلوں کا داغ موت کے بعد تک نہیں ہٹتا۔ اﷲتعالیٰ آپ کو صحیح فیصلہ کی توفیق دے۔ (محرکین قرارداد)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2100ضمیمہ نمبر:۱

فیصلہ

مقدمۂ بہاول پور

…محفل ارشادیہ سیالکوٹ…

2101انتساب!

میں اس اشاعت کو حضرت امام ربانی، قیوم دورانی، قطب زمانی، مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی الفاروقی قدس سرہ السبحانی کے نام نامی سے منسوب کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں اور خداوند رب العزت کی بارگاہ اقدس میں نہایت عجز وانکسار کے ساتھ دست بدعا ہوں کہ وہ مالک حقیقی اپنے حبیب کے صدقے اور حضرت مجدد علیہ الرحمتہ کے فیض کی برکت سے جو کہ بزرگوارم حضرت حافظ سید ارشاد حسین سرہندیؒ کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے۔ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم جیسے نااہل حضرت مجددؒ کی اس سنت کو زندہ کر سکیں۔ جس کے لئے آپ اس دنیا میں تشریف لائے اور کفروالحاد، شرک وبدعت جیسی باطل قوتوں سے ٹکرا کر انہیں ریزہ ریزہ کر کے حق وصداقت کی روشنی سے دنیاکے کونے کونے کومنور کر دیا۔ خاکپائے سگان مجدد الف ثانی
سید اختر حسین سرہندی
2102’’ہندوستان کی سرزمین پر بے شمار مذاہب بستے ہیں۔ اسلام دینی حیثیت سے ان تمام مذاہب کی نسبت زیادہ گہرا ہے۔ کیونکہ ان مذاہب کی بناء کچھ حد تک مذہبی ہے اور ایک حد تک نسلی، اسلام نسلی تخیل کی سراسر نفی کرتا ہے اور اپنی بنیاد محض مذہبی تخیل پر رکھتا ہے اور چونکہ اس کی بنیاد صرف دینی ہے۔ اس لئے وہ سراپا روحانیت ہے اور خونی رشتوں سے کہیں زیادہ لطیف بھی ہے۔ اسی لئے مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو۔ لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے، مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۱،۱۲۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2103علماء اور اکابرین ملت کی طرف سے اس فیصلے کا خیرمقدم
2104’’چودھویں صدی کے آغاز میں جب مرزائے قادیان نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مشرق اور مغرب کے علماء نے اس کے کفر اور ارتداد کا فتویٰ دیا۔ اس سلسلہ میں تیس پینتیس سال قبل یہ مسئلہ بہاول پور کی عدالت میں پیش ہوا جس پر حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری سابق صدر المدرس دارالعلوم دیوبند اور دیگر اکابر علماء ہند نے اس سلسلہ میں اپنے بیانات عدالت میں پیش کر کے جس میں مرزائے قادیان کے وجوہ کفر کو بیان کیا جن کا حاصل یہ تھا کہ مرزائے قادیان اگر بالفرض والتقدیر نبوت کا دعویٰ نہ بھی کرتا تب بھی قطعاً وہ دائرہ اسلام سے خارج تھا۔
فاضل محترم جسٹس محمد اکبر صاحب (بہاول پور) نور اﷲ مرقدہ نے نہایت عاقلانہ، عادلانہ اور دانشمندانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ مدعی نبوت اور اس کے پیروکار قطعاً دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور یہ مسلمانوں میں شرعی طور پر کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں کر سکتے۔ بحمدہ تعالیٰ فاضل جج کا یہ فیصلہ قانون شریعت کے بھی مطابق تھا اور قانون حکومت کے بھی مطابق تھا جو شرعی اور قانونی حیثیت سے اس درجہ مستحکم اور مضبوط تھا کہ آئندہ کسی کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس محکم فیصلہ پر کوئی نقد اور تبصرہ کر سکے یا کسی بالائی عدالت میں اس کی اپیل کر سکے۔ اس لئے کہ وہ فیصلہ اس درجہ محکم اور قول فیصل اور اٹل تھا کہ اس میں انگلی رکھنے کی گنجائش نہ تھی۔‘‘
محمد ادریس کاندھلوی!
2105’’مجھے یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوئی ہے کہ جناب محمد اکبر خاں صاحب بی۔اے، ایل۔ایل۔بی ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کا مشہور ومعروف فیصلہ جس میں قادیانیوں کو کافر اور خارج ازدائرہ اسلام قرار دیا گیا تھا۔ دوبارہ اشاعت پذیر ہورہا ہے۔
یہ ایک واشگاف حقیقت ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جو شخص سیدنا محمدﷺ کے بعد منصب نبوت پر فائز ہونے کا مدعی ہو اور جو اس دعوے کو تسلیم کرے وہ دونوں بلاشک وشبہ ادّعائے اسلام کے باوجود کافر ومرتد ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کے دینی وعلمی پہلوؤں کو برابر واضح کیا جاتا رہے۔ عدالت بہاول پور کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت وافادیت کا حامل ہے۔ یہ ارتداد زوج کی بناء پر فسخ نکاح کے ایک استغاثے کا تصفیہ تھا جو تقریباً تین سال زیر سماعت رہا۔ اس میں مسلمانوں اور قادیانیوں کی جانب سے اپنے اپنے مؤقف کو پورے دلائل وشواہد کے ساتھ پیش کیاگیا۔ ان کے مشاہیر علماء وفضلاء بطور گواہ پیش ہوئے اور فاضل جج نے پوری تحقیق وتدقیق کے بعد یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ قادیانی اپنے عقائد واعمال کی بناء پر مسلمان نہیں بلکہ کافر ہیں۔ یہ قیمتی دستاویز طبع ہونے کے بعد ایک عرصہ دراز سے نایاب تھی۔میری دعا ہے کہ یہ سعی مسلمان اور قادیانی سب کے لئے باعث رشد وہدایت ثابت ہو۔ آمین!‘‘
ابوالاعلیٰ مودودی

۵۔اے ذیلدار پارک، اچھرہ
2106’’اس فیصلہ نے مسلمانوں کو قادیانیت کے عزائم وعقائد سے نہ صرف آگاہ کیا ہے بلکہ مرزائیت اپنے حقیقی خط وخال سمیت آشکار ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ برعظیم کے مسلمانوں کی ذہنی سرگذشت میں ہمیشہ یاد گاررہے گا اور جب کبھی پاکستان کے قوانین کی شکل اسلامی ہوگی۔ اس فیصلہ کا بہت زیادہ احترام کیا جائے گا۔ بلکہ یہ فیصلہ مشعل راہ ہوگا۔ ملت اسلامیہ جسٹس محمد اکبر خان مرحوم (بہاول پور) کے اس فیصلہ کی شکر گزار ہے۔ اﷲتعالیٰ ان کی بال بال مغفرت کریں اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں۔‘‘
آغا شورش کاشمیری
’’یہ معرکہ آراء فیصلہ محمد اکبر خاں کا تحریر کردہ ہے۔ اس فیصلہ میں جج صاحب مرحوم نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ مرزائیت کے خارج از اسلام ہونے کے دلائل درج کئے ہیں اور مرزائی لٹریچر سے ان کے کفر وارتداد کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ مرزائیت کے موضوع پر لکھی گئی کئی ایک کتب پر بھاری ہے۔‘‘
احسان الٰہی ظہیر
2107’’تکمیل دین اور ختم نبوت مترادف حقائق ہیں اور اسلام کی ابدیت اور تکمیل کا مدار انہی دواصولوں پرہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جنہوںنے اسلام کے اس بنیادی مسئلہ کے تحفظ کے لئے مختلف ذرائع سے حسب مقدور خدمات انجام دیں۔ اس سلسلہ میں جناب محمد اکبر صاحبؒ ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کا تاریخی فیصلہ اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے مرحوم ومغفور اپنی جرأت ایمانی سے اپنی نجات کا سامان کر گئے اور تاابدامت مسلمہ کے لئے ایسی شمع فروزاں چھوڑ گئے جو انشاء اﷲ العزیز رہتی دنیا تک حق وصداقت کی روشنی پھیلاتی رہے گی۔ ضرورت ہے کہ اس تاریخی فیصلہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔‘‘
سید فیض الحسن
’’ختم نبوت کا مسئلہ ضروریات دین سے ہے۔ افسوس ہے کہ ایسے مسئلہ کو لوگوں نے اخلاقی مسئلہ قرار دے کر اس میں بحث وتمحیص شروع کر دی۔ جس سے گمراہی کا دروازہ کھل گیا اور فتنہ ارتداد زور پکڑ گیا۔ اس ماحول میں اہل علم کی خدمات یقینا قابل قدر ہیں۔ لیکن محترم جج اکبر صاحبؒ کا کارنامہ اس سلسلہ میں بے حد قابل ستائش ہے اور اسلامی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔‘‘
سید احمدسعید کاظمی
2108’’فیصلہ مقدمہ بہاول پور مسلمانوں کے لئے روشنی کا مینار ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا بنیادی تصور ہے اور بے شک جو حضور سرور عالمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ملت اسلامیہ کو اس فتنہ عظیمہ سے بچانا اسلام کی عظیم خدمت ہے۔‘‘
سید محمود احمد رضوی!
’’فیصلہ مقدمہ بہاول پور عہد صادق کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اس مقدمہ کی پیروی سید انور شاہ صاحبؒ، حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ اور سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاریؒ جیسے نامور علماء نے کی۔ ان کی فقید المثال توجہ اور تاریخ ساز کوششوں نے قادیانیت کے سومنات کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ یہ فیصلہ جسٹس محمد اکبر کے مثالی انہماک غیرمعمولی استعداد اور قابل تحسین استقامت کا نتیجہ ہے۔ اس فیصلہ سے قادیانیت کی گمراہ کن حیثیت ہمیشہ کے لئے آشکار ہوگئی ہے۔
برگیڈیئر نذیر علی شاہ
2109’ ’الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ …جج محمد اکبر نور اﷲ مرقدہ کی عدالت میں فسخ نکاح کامقدمہ دائر ہوا۔ جس میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ قادیانی کا نکاح مسلمان عورت سے بوجہ ارتداد قادیانیوں کے واجب الفسخ ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں قادیانیوں کے مرتد ہونے کا مسئلہ زیربحث آیا۔ فریقین کے ماہرین مذہب جمع ہوئے۔ مفصل دلائل نقلیہ وعقلیہ قلمبند ہونے کے بعد قادیانیوں کے ارتداد کا حکم جناب جج صاحب موصوف نے صادر فرمایا اور فسخ کا فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ کا کچھ تعلق انکار ختم نبوت سے تھا۔ جس پر قرآن پاک کی متعدد آیات اور بیشمار احادیث صحیحہ اور اجماع امت کے اس قدر دلائل موجود ہیں کہ توحید باری تعالیٰ کے علاوہ کسی مسئلے پر اس قدر دلائل نہیں۔ اسلام میں سینکڑوں گمراہ اسلامی فرقے پیدا ہوئے۔ لیکن مسئلہ ختم نبوت پر سب کا اتفاق رہا اور اس لئے دشمنان اسلام، اسلام کی اس بنیادی عمارت میں شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حضور علیہ السلام کے وقت سے لے کر اب تک جو ۱۳۹۳ھ ربیع الاوّل اور ۱۹۷۳ء اپریل ہے۔ پوری امت مسلمہ تقریباً چودہ سو سال سے اس عقیدہ پر متفق اور قائم ہے جس کی وجہ سے اسلام کے اصلی عقائد زندہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کے بعد نبوت کا عہدہ دیا جانا بند ہے اور مدعی نبوت اور اس کے ماننے والے مرتد اور خارج از اسلام ہیں۔ چاہے وہ اسلام کا دعویٰ بھی کریں جیسے صرف دعویٰ سے کوئی شخص کمشنر، ڈپٹی کمشنر، تحصیلدار، تھانیدار حتیٰ کہ سرکاری چپڑاسی اگر ان عہدوں کا دعویٰ کرے اور حکومت کی لسٹ میں نام نہ ہو اور حکومت ان دعویٰ داروں کو جھوٹا قرار دیتی ہو (تو جعلی مدعیان منصب دنیوی کا دعویٰ ثابت نہیں ہوسکتا) تو پھر اسلام کے 2110دعویٰ سے ایک آدمی بغیر حقیقت اسلام کے محقق ہونے کے کیسے مسلم ہو سکتا ہے۔ جب کہ حقیقت اسلام کا بنیادی عقیدہ اس میں موجود نہ ہو اور ظاہری اسلام کی کچھ نشانیاں بھی اس میں موجود ہوں۔ جیسے گھوڑے کی تصویر یا فوٹوa حقیقی گھوڑا نہیں ہوسکتا اور نہ بگھی کھینچ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقی گھوڑے کا کام ہے۔ ملت کے عملی اتحاد کے لئے فکری اتحاد ضروری ہے اور مستحکم فکر کی بنیاد عقیدہ ہے۔ جب یہ بنیاد ہل جائے تو مسلم قوم وملت کی عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔ اس لئے وحدت ملت ختم نبوت سے وابستہ ہے۔ اقبال مرحوم نے صحیح فرمایا ہے ؎

لا نبی بعدی زاحسان خداست
پردۂ ناموس دین مصطفیٰ است
تانہ ایں وحدت زدست ماردو
ہستی مابا ابد ہمدم شود
اس سے واضح ہوا کہ استحکام پاکستان کی نظریاتی وحدت اسلام اور ختم نبوت ہے۔ جو ۹۵کروڑ مسلمانوں کے عقیدہ سے الگ دین قائم کریں جس میں قرآن وحدیث خدا اور رسول کی تکذیب اور توہین ہو وہ اسلامی قلعے میں نقب لگانے والے ہیں اور خارج از اسلام ہیں۔ اس سلسلہ میں مقدمہ بہاولپور تاریخی کارنامہ ہے۔‘‘
شمس الحق افغانی عفی عنہ
2111’’فیصلہ مقدمہ بہاول پور امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی متفقہ کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ مولانا سید انور شاہ صاحبؒ، مولانا غلام محمد صاحبؒ گھوٹوی، مولانا محمد صادق صاحبؒ بہاولپور اور جناب جسٹس محمد اکبر صاحبؒ کی ارواح مقدسہ کو اﷲتعالیٰ نے بلاشبہ اعلیٰ علیین میں مقام علیا سے نوازا ہوگا۔ انہوں نے امت مرحومہ پر جو احسان کیا وہ رہتی دنیا کے مسلمانوں پر یکساں ہے۔ اﷲتعالیٰ ہر مسلمان کو خاتم الانبیاء کے خصوصی مقام اور عظمت کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!‘‘
محمد عبدالقادر آزاد

خطیب بادشاہی مسجد ومفتی پنجاب
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ فیصلہ مقدمہ بہاول پور کے متعلق دوسری رائے نہیں رکھ سکتا۔ حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کاشمیریؒ اوردوسرے بزرگوں اور علماء نے اس مقدمہ کی پیروی کر کے دین اسلام کی ایک گرانقدر خدمت انجام دی تھی۔ اﷲتعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
محمد احمد عفی عنہ، میرواعظ کشمیر
2112’’انشاء اﷲ جب یہ فیصلہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں انشراح قلب اور باعث رشد وہدایت ثابت ہو گا۔‘‘
فقیر محبوب الرحمن عفی اﷲ عنہ

عید گاہ، راولپنڈی
’’تمام علمائے اسلام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ حضور اکرم خاتم النّبیینﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسا دعویٰ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ پاک وہند میں مرزاغلام احمد قادیانی کے ماننے والے مسلمانوں سے علیحدہ جماعت ہیں۔ اس کی پوری روئیداد جسٹس محمد اکبر خاں صاحب سابق ریاست بہاول پور کے مفصل ومدلل فیصلہ میں موجود ہے۔ یہ فیصلہ عوام وخواص مسلمین کے لئے مشعل ہدایت ہے۔‘‘
مفتی محمد حسین نعیمی ناظم دارالعلوم

جامع نعیمیہ لاہور
2113بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
ختم نبوت کے متعلق میرا عقیدہ یہ ہے۔ رسول اﷲﷺ کا دین دو پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ ایک ظاہری یعنی عقلی فکری ونظری پہلو ہے اور دوسرا روحانی یعنی عقلی عالم سے بالاتر۔ میرے خیال میں ظاہری پہلو کی بنیاد ہمارے دین میں روحانی پہلو پر ہے۔ ورنہ کسی نبی یا پیغمبر کی شاید ضرورت نہ ہوتی۔ ظاہری پہلو کی حیثیت اسباب سفر کی سی ہے اور روحانی کی حیثیت ایک منزل کی۔ یعنی اسباب سفر کا تعین منزل یا مقصد کے اعتبار سے کیاگیا ہے۔ حضور اکرمﷺ کے آخری نبی ہونے کے بارے میں عقلی استدلال میں شکوک واوہام کا اثر تو ملتا ہے۔ لیکن دوسرے پہلو میں کوئی ایک بھی استثناء موجود نہیں ہے۔ میں نے اس میں جتنا غور کیا ہے میں بلا استثناء ہمیشہ اسی ایک نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو شخص جناب محمد رسول اﷲﷺ کو خدا کا آخری نبی یعنی آپ کے اس ارشاد کو کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ کو دل وجان سے نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ عقلی فتویٰ کچھ ہو لیکن حقیقی بات یہی ہے۔
کتاب زیر نظر میں بھی ایک صاحب عقیدہ مسلمان نے ایمانی جرأت کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ہی عقل وفکر کی رائے کو بھی دریافت کر کے صحیح فیصلہ دیا۔ مرحوم کا یہ فیصلہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اﷲتعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عقیدے کی پختگی عطاء فرمائے۔ آمین!‘‘
محمد عبدالقیوم

صدر آزاد کشمیر، ایوان صدر، مظفر آباد
2114بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’ الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ علیٰ من لا نبی بعدہ …آج سے تقریباً ۴۰سال پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کا دجل وفریب انگریز کے منحوس سایہ میں پروان چڑھ رہا تھا۔ فتنہ قادیانیت سے انگریزی پڑھا لکھا طبقہ نہ صرف یہ کہ ناواقف تھا بلکہ مدعی نبوت مرزغلام احمد قادیانی کی تعریف وتائید کرتا تھا۔ اس کے علاوہ تاج برطانیہ اور وائسرائے ہند کے زیراثر تمام طاقتوں کی سرپرستی اس فتنہ ارتداد کو حاصل تھی۔ ایسے وقت میں محترم محمد اکبر صاحب مرحوم ومغفور (بہاول پور) نے برصغیر کے چوٹی کے علماء خصوصاً محدث اعظم حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے دلائل سننے کے بعد جرأت ایمانی اور عقیدہ ختم نبوت پر کامل ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرزاغلام احمد قادیانی کو کاذب اور اس کے ماننے والوں کو مرتد اور خارج از اسلام قرار دے کر فیصلہ بہاول پور کے نام سے وہ تاریخی فیصلہ کیا ہے جو مسلمانوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا اور جس کی پیروی کرتے ہوئے انہیں کے ہم نام دوسرے محمد اکبر صاحب اور اب سندھ کے کسی جج نے بھی یہی فیصلے کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرحوم محمد اکبر صاحب بہاول پور والے اس تاریخ کے سنہرے باب کے حروف اوّل اور آخر سمجھے جائیں گے۔ اس فیصلے کی دوبارہ اشاعت نہایت مستحسن اقدام ہے۔ قانون دان اور نئی نسل اس سے روشنی حاصل کریں گے۔ خدا مرحوم کو تاجدار مدینہ کے قدموں میں مجھ سمیت جگہ نصیب فرمائے۔ آمین!‘‘
خادم عبدالحکیم عفی اﷲ عنہ، (ممبر قومی اسمبلی پاکستان)

مدرسہ فرقانیہ مدنیہ راولپنڈی
2115بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
حضور سرکار دوعالمﷺ بلاشک وشبہ خاتم النّبیین ہیں اور تمام امت کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ حضور محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی ظلی، بروزی اور کسی بھی قسم کا نبی نہیں آسکتا اور تاقیامت دروازۂ نبوت آپﷺ پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس نازک دور میں جب طرح طرح کے فتنے اسلام کے خلاف سراٹھا رہے ہیں، فتنہ مرزائیت کے لئے اور اس کے سد باب کے لئے اپنا وقت پیسہ اور ہمت کا صرف کرنا باعث اجر ہے۔
حقیر مفتی محمد مختار احمد خطیب سیالکوٹ
2116باسمہ تعالیٰ!
الحمد ﷲ وحدہ لا شریک لہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد خاتم النّبیین الذی لا نبی بعدہ وعلیٰ اصحابہ وازواجہ وذریتہ الذین نشروا ہداہ واتبعوا ہدیہ۰ اما بعد!
ختم نبوت کا عقیدہ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے۔ جس سے انکارکی جرأت فرق باطلہ کو بھی نہ ہوسکی اور چودہ سو برس سے اب تک جتنے اسلامی فرقے وجود میں آئے سب نے اس عقیدہ کا اقرار کیا ہے اور تسلیم کیا ہے۔ اس کا شمار ضروریات دین میں ہے۔ یعنی اس کا اسلامی عقیدہ ہونا اس قدر روشن ہے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک وشبہ نہیں ہو سکتا اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار یا اس میں شک اسلام سے بغاوت اور کفر خالص ہے۔ نیز یہ کہ اس میں تاویل بھی قائل کو کفر سے نہیں بچا سکتی۔ جس طرح اس کا منکر کافر ہے۔ اسی طرح اس کا مؤول بھی کافر ہے۔ سچ یہ ہے کہ ختم نبوت کا مفہوم سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی جو مسلمان ہونے کا مدعی ہے اس کے انکار یا اس کی تاویل کی جرأت نہیں کر سکتا۔ بہت سیدھی سادی بات ہے کہ نبوت کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور محمد مصطفیٰﷺ پر نبوت ختم ہوئی اور اب اس دور میں اس فتنے کا سدباب بھی مسلمانوں کے فرائض میں ایک اہم فریضہ بلکہ راہ نجات یہی ہے اور یہ کتاب جو مسلمانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک 2117صدقہ جاریہ ہے۔ اﷲتعالیٰ جملہ مسلمانوںکو اس فتنہ کو روکنے کے لئے ہمت دے۔ آمین ثم آمین!‘‘
سید محمد شمس الدین
(ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی بلوچستان)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(فیصلہ مقدمہ بہاول پور)

2118مسماۃ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش ذات ملانہ عمر ۱۸،۱۹ سال
سکنہ احمد پور شرقیہ بمختاری الٰہی بخش ولد محمود ذات ملانہ ساکن احمد پور شرقیہ معلم مدرسہ عربیہ
بنام
عبدالرزاق ولد مولوی جان محمد ذات باجہ عمر۲۳سال ساکن موضع مہند
تحصیل احمد پور شرقیہ، حال مقیم میلسی شہر گیج ریڈر سب ڈویژن انہار میلسی، ضلع ملتان
دعویٰ دلاپانے ڈگری استقرایہ مشعر تنسیخ نکاح
فریقین بوجہ ارتداد شوہرم مدعا علیہ

(بنائے مقدمہ)
2119یہ ایک خاص نوعیت اور اہمیت کا مقدمہ ہے۔ جو سال ۱۹۲۶ء میں دائر ہوکر ایک دفعہ انتہائی مراحل اپیل طے کر چکا ہے اور سال ۱۹۳۲ء سے پھر ایک نئی شان اور نئے اسلوب سے ابتدائی حیثیت میں عدالت ہذا میں زیرسماعت چلا آیا ہے۔ واقعات مختصراً یہ ہیں کہ مولوی الٰہی بخش والد مدعیہ اور مولوی عبدالرزاق مدعا علیہ باہمی رشتہ دار ہیں اور ابتداً یہ دونوں علاقہ ڈیرہ غازیخان میں رہتے تھے۔ عبدالرزاق کی ہمشیرہ مولوی الٰہی بخش سے بیاہی ہوئی تھی اور مولوی الٰہی بخش نے اپنی لڑکی مسماۃ غلام عائشہ مدعیہ کا نکاح اس کے ایام نابالغی میں عبدالرزاق مدعا علیہ سے کر دیا تھا۔
یہ لڑکی اس کی ایک سابقہ بیوی کے بطن سے تھی اور اس کا نکاح وہیں فریقین کے ابتدائی مسکن پر ہوا تھا۔ اس کے بعد مولوی الٰہی بخش وہاں سے ترک سکونت کر کے علاقہ ریاست ہذا میں چلا آیا اور سال ۱۹۱۷ء میں اس نے موضع مہند تحصیل احمد پور شرقیہ میں ایک زمیندار کے ہاں عربی تعلیم دینے پر ملازمت اختیار کر لی۔ مدعیہ کی طرف سے کہا جاتاہے کہ اس سے ایک سال کے بعد مدعا علیہ بھی بمعہ اپنی والدہ اور دو ہمشیرگان کے وہاں سے ترک سکونت کر کے مولوی الٰہی بخش کے پاس موضع مہند میں آگیا اور اپنے کنبہ کو وہاں چھوڑ کر خود حصول معاش کے لئے مختلف مقامات پر پھرتا رہا۔ دوران قیام موضع مہند میں اس نے اپنے سابقہ اعتقادات سے انحراف کر کے مرزائی مذہب اختیار کر لیا اور وہاں اپنے قادیانی مرزائی ہونے کا اعلان بھی کرتا رہا۔ اس کے بعد اس نے مولوی الٰہی بخش سے مدعیہ کے رخصتانہ کے متعلق استدعا کی تو اس نے یہ جواب دیا کہ جب تک وہ مرزائی مذہب ترک نہ کرے گا مدعیہ کا بازو اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ مدعا علیہ کچھ عرصہ مدعیہ کے رخصتانہ کے درپے رہا۔ لیکن اسے یہی جواب دیا جاتا رہا کہ اس کے مرزائی مذہب پر قائم رہنے کی صورت میں مدعیہ اس کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔ جب اسے کامیابی کی امید نظر نہ آئی تو وہ پھر ریاست سے ترک سکونت اختیار کر کے علاقہ برٹش انڈیا میں چلا گیا اور حدود ریاست ہذا کے قریب علاقہ تحصیل لودھراں میں سکونت 2120اختیار کر لی۔
ان سوالات پر کہ مدعا علیہ نے حدود ریاست سے سکونت کب ترک کی اور کہ اس نے مرزائی یا احمدی مذہب کہاں اور کب اختیار کیا؟ آگے بحث کی جائے گی۔ یہاں اب صرف یہ درج کیاجاتا ہے کہ مدعیہ کے اس رختصانہ کے سوال پر والد مدعیہ اور مدعا علیہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی اور والد مدعیہ نے مدعیہ کی طرف سے بحیثیت اس کے مختار کے ۲۴؍جولائی ۱۹۲۶ء کو مدعا علیہ کے خلاف یہ دعویٰ بدیں بیان دائر کیا کہ مدعیہ اب تک نابالغ رہی ہے۔ اب عرصہ دو سال سے بالغ ہوئی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(خاوند قادیانی)
مدعا علیہ ناکح مدعیہ نے مذہب اہل سنت والجماعت ترک کر کے قادیانی، مرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس وجہ سے وہ مرتد ہوگیا ہے۔ اس کے مرتد ہو جانے کے باعث مدعیہ اب اس کی منکوحہ نہیں رہی۔کیونکہ وہ شرعا کافر ہوگیا ہے اور بموجب احکام شرع شریف بوجہ ارتداد مدعا علیہ مدعیہ مستحق انفراق زوجیت ہے۔ اس لئے ڈگری تنسیخ نکاح بحق مدعیہ صادر کی جاوے اور یہ قرار دیا جاوے کہ مدعیہ بوجہ مرزائی ہو جانے مدعا علیہ کے اس کی منکوحہ جائز نہیں رہی اور نکاح بوجہ ارتداد مدعا علیہ قائم نہیں رہا۔
مدعا علیہ نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ اس نے کوئی مذہب تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ بلکہ وہ بدستور مسلمان اور احکام شرعی کا پورا پابند ہے۔ احمدی کوئی علیحدہ مذہب نہیں، نہ وہ مرزائی ہے، نہ قادیانی۔ نکاح ہر صورت میں جائز اور قابل تکمیل ہے۔ عقائد احمدیہ کی وجہ سے جو صلاحیت مذہبی کی طرف رجوع دلاتے ہیں وہ مرتد نہیں ہو جاتا۔ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور، مدراس اور دیگر ہائی کورٹوں سے یہ امر فیصلہ پاچکا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مسلمان اصلاح یافتہ فرقہ میں سے ہیں، مرتد یا کافر نہیں ہیں۔ دعویٰ ناجائز اور قابل اخراج ہے اور کہ بناء دعویٰ بمقام مہند ریاست بہاول پور قائم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ نہ فریقین کی وہاں سکونت رہی ہے اور نہ ہی مدعا علیہ نے وہاں سرمیل کی کوئی تحریک کی۔ علاوہ ازیں کسی مقام پر سرمیل کی تحریک کئے جانے سے وہ مقام قانوناً بنائے دعویٰ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ 2121دعویٰ وہاں سماعت ہونا چاہئے جہاں مدعا علیہ کی مستقل سکونت ہو یا بناء دعویٰ پید اہوئی ہو۔ مقدمہ حال میں مدعا علیہ کی مستقل سکونت چونکہ علاقہ ملتان میں ہے اور نکاح ضلع ڈیرہ غازیخان میں ہوا تھا۔ اس لئے دعویٰ حدود ریاست ہذا میں سماعت نہیں ہوسکتا۔
یہ دعویٰ ابتداً منصفی احمد پور شرقیہ میں دائر ہوا تھا۔ منصف صاحب احمدپور شرقیہ نے فریقین کے مختصر سے بیانات قلمبند کرنے کے بعد ۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو حسب ذیل امور تنقیح طلب قرار دئیے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تنقیحات مقدمہ)
۱… کیامدعا علیہ مذہب قادیانی یا مرزائیت اختیار کر چکا ہے اور اس لئے ارتداد لازم آتا ہے۔
۲… اگر تنقیح بالا بحق مدعیہ ثابت ہوتو کیا نکاح فیما بین فریقین قابل انفساخ ہے؟
ان تنقیحات کے ثبوت میں مدعیہ نے مدعا علیہ کو عدالت مذکور میں بحیثیت گواہ خود پیش کیا تو مدعا علیہ نے ۵؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو یہ بیان کیا کہ یہ درست ہے کہ وہ مرزاغلام احمد صاحب کومسیح موعود تسلیم کرتا ہے اور ساتھ ہی انہیں نبی بھی مانتا ہے۔ اس معنی میں کہ مرزاصاحب نبی کریمﷺ (حضرت محمد مصطفیٰﷺ) کے تابعدار ہیں اور آپﷺ کی شریعت کے پیرو ہیں اور آنحضرتﷺ کی غلامی کی وجہ سے آپ نبوت کے درجہ پر فائز ہوئے اور اس وقت تک اس کا یہی اعتقاد ہے۔ گویا وہ سلسلہ احمدیت میں منسلک ہوچکا ہے۔ وہ مرزاصاحب کو ان معنوں میں نبی کہتا ہے جن معنوں میں کہ قرآن کریم نبوت کو پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ دیگرانبیاء علیہم السلام ہیں کہ ان پر وحی اور الہام وارد ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ مرزاغلام احمد صاحب کو نبی تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے وہ یہ بھی مانتا ہے کہ ان پر بمثل دیگر انبیاء علیہم السلام کے نزول ملائکہ وجبرائیل علیہ السلام ہوتا تھا۔
اس بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے منصف صاحب احمدپور شرقیہ نے ۲۰؍جنوری ۱۹۲۷ء کو یہ امر مزید تنقیح طلب قرار دیا کہ کیا اس اعتقاد کی صورت میں جو مدعا علیہ نے بیان کیا ہے کہ وہ مرزاغلام احمد کو نبی تسلیم کرتا ہے۔ اس معنی میں کہ بمثل دیگر انبیاء علیہم السلام مرزاصاحب پر وحی اور 2122الہام وارد ہوتے تھے۔ کوئی شخص مذہب اسلام میں شامل رہ سکتا ہے؟ اور اس کا بار ثبوت مدعا علیہ پر عائد کیا۔ اس کے بعد مدعا علیہ نے ۱۹؍فروری ۱۹۲۷ء کو ایک درخواست پیش کی کہ سابقہ تاریخ پر اس نے جو بیان دیا تھا اس میں اس نے اپنے اعتقادات مذہبی کو بخوبی واضح کر دیا تھا۔ لیکن عدالت نے اس سے جو خلاصہ اخذ کیا ہے وہ اس کے اصلی اعتقاد مذہبی کے مغائر ہے۔ چونکہ اعتقاد مذہبی کی غلط تعبیر سے مقدمہ پر کافی اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اپنے اعتقاد مذہبی کو من مدعا علیہ ذیل میں بیان کرتا ہے تاکہ غلط فہمی نہ رہے۔
میں خداوند تعالیٰ کو واحد لاشریک مانتا ہوں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو خاتم النّبیین تسلیم کرتا ہوں۔ قرآن کریم کو کامل الہامی کتاب مانتاہوں۔ کلمہ طیبہ پر میرا ایمان ہے اور حضرت محمدﷺ کی برکت اور آپﷺ کی توسط سے اور آپﷺ کی شریعت مقدسہ کی اطاعت سے حضرت مرزاصاحب کو امتی نبی تسلیم کرتا ہوں۔ حضرت مرزاصاحب کوئی نئی شریعت نہیں لائے۔ بلکہ شریعت محمدی کے تابع اور اشاعت کرنے والے ہیں۔ ان پر وحی اور الہام بابرکت حضرت نبی کریمﷺ وارد ہوتے تھے۔
اس درخواست میں یہ استدعا کی گئی کہ جو امر تنقیح سابقہ تاریخ پر وضع کیاگیا ہے۔ وہ درست نہیں ہے۔ تنقیح بالفاظ ذیل وضع ہونا چاہئے کہ آیا مدعا علیہ جس کا مذہبی اعتقاد یہ ہوجو کہ اوپر بیان کیاگیا ہے۔ مرتد ہے، اور مسلمان نہیں ہے؟ اور اس کا ثبوت بذمہ مدعیہ عائد کیا جاوے۔ مگر عدالت نے اس درخواست پر کوئی التفات نہ کی اور اسے شامل مسل کر دیا۔
اس کے بعد بحکم ۷؍مئی ۱۹۲۷ء عدالت عالیہ چیف کورٹ یہ مقدمہ عدالت ہذا میں منتقل ہوا اور عدالت ہذا میں ۱۷؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو مدعا علیہ نے اپنے عقائد کی پھر ایک فہرست پیش کی۔ جن کا ذکر مناسب جگہ پر کیا جائے گا۔
یہ مقدمہ عدالت ہذا سے بحکم ۲۱؍نومبر ۱۹۲۸ء اس بناء پر خارج کیاگیا کہ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور سے اس قسم کے ایک مقدمہ بعنوان مسماۃ جندوڈی بنام کریم بخش میں باتباع 2123فیصلہ جات عدالتہائے اعلیٰ مدراس، پٹنہ وپنجاب کے یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں نہ کہ اسلام سے باہر، اور کوئی مرزائی مذہب اختیار کرنے سے کسی سنی عورت کا نکاح اس شخص کے ساتھ جو اس مذہب کو قبول کر لے۔ فسخ نہیں ہو جاتا اور کہ مدعیہ کی طرف سے ان فیصلہ جات کے خلاف کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔
عدالت ہذا کا یہ حکم برطبق اپیل عدالت عالیہ چیف کورٹ سے بحال رہا۔ لیکن اپیل ثانی پر عدالت معلیٰ اجلاس خاص سے یہ قراردیا گیا ہے کہ عدالت ہذا سے فریقین کے پیش کردہ اسناد پر بحث کئے بغیر دعویٰ مدعیہ خارج کر دیا گیا ہے اور فاضل ججان چیف کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ پٹنہ وپنجاب ہائیکورٹوں کے فیصلہ جات مقدمہ ہذا میں حاوی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان میں غیرمتعلق سوال زیربحث رہے ہیں۔ البتہ مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ مندرجہ ۷۱… انڈین کیسز ۶۶میں سوال زیربحث بجنسہ یہی تھا کہ آیا احمدی ہو جانے سے ارتداد واقع ہوتا ہے یانہ۔ لیکن ہم نے اس فیصلہ کو بغور مطالعہ کیا ہے۔ ہم فاضل ججان چیف کورٹ کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں کہ فیصلہ مذکورہ بالا مکمل چھان بین سے طے پایا تھا۔ کیونکہ فاضل ججان مدراس ہائیکورٹ خود فیصلہ میں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی خاص سند اس بات کی پیش نہیں کی گئی کہ فلاں فلاں اسلام کے بنیادی اصول ہیں اور ان سے اس حد یا اس درجہ تک اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا کن اسلامی عقائد کی پیروی یا کن عقائد کے نہ ماننے سے ارتداد واقع ہوتا ہے۔ اس فیصلہ میں پھر فاضل ججان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سوال کو کہ آیا عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا نہ۔ علماء اسلام بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہماری رائے میں فاضل ججان ہائیکورٹ کا فیصلہ سوال زیربحث پر قطعی نہیں ہے اور ہمیں مقدمہ ہذا میں اس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قرارداد کے ساتھ یہ مقدمہ اس ہدایت کے ساتھ واپس ہوا کہ گو مولوی غلام محمد صاحبؒ شیخ الجامعہ،جامعہ عباسیہ بہاول پور کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا قادیانی عقائد کے مطابق یہ ایمان ہو کہ حضرت محمدﷺ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہے اور اس 2124پر وحی نازل ہوئی ہے تو ایسا شخص چونکہ ختم نبوت حضرت رسول کریمﷺ کا منکر ہے اور ختم نبوت اسلام کے ضروریات میں سے ہے۔ لہٰذا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لیکن ہم اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے شیخ الجامعہ صاحب کی رائے کو کافی نہیں سمجھتے۔ جب تک کہ دیگر ہندوستان کے بڑے بڑے علماء دین بھی اس رائے سے اتفاق نہ رکھتے ہوں اس لئے مقدمہ مزید تحقیقات کا محتاج ہے اور مدعا علیہ کو بھی موقعہ دینا چاہئے کہ شیخ الجامعہ صاحب کے بالمقابل اپنے دلائل پیش کرے۔
واپسی پر اس مقدمہ میں فریقین کے ہم مذہب اور ہم خیال اشخاص کی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور تقریباً تمام ہندوستان میں اس کے متعلق ایک ہیجان پیدا ہوگیا اور طرفین سے ان کی جماعت کے بڑے بڑے علماء بطور مختار ان فریقین وبطور گواہان پیش ہونے لگے۔ ان کے اس طرح میدان میں آنے سے قدرتاً یہ سوال عوام کے لئے جاذب توجہ بن گیا اور پبلک کو اس میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہوگئی اور ہر تاریخ سماعت پر لوگ جوق در جوق کمرۂ عدالت میں آنے لگے۔ چنانچہ عوام کی اس دلچسپی اور مذہبی جوش کو مدنظر رکھتے ہوئے حفظ امن قائم رکھنے کی خاطر پولیس کی امداد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عدالت ہذا کی تحریک پر صاحب بہادر کمشنر پولیس کی طرف سے ہر تاریخ پیشی پر پولیس کا خاطر خواہ انتظام کیا جاتا رہا۔ امرمابہ النزاع حل وحرمت سے تعلق رکھنے کے علاوہ ضمناً چونکہ مدعا علیہ کے ہم خیال جماعت کی تکفیر پر بھی مشتمل ہے۔ اس لئے طرفین کو اس مقدمہ میں کھلے دل سے اپنے دلائل سندات اور بحث ہائے تحریری وتقریری پیش کرنے کا کافی درکافی موقعہ دیا گیا۔ حتیٰ کہ مدعا علیہ کی طرف سے ایک ایک گواہ کے بیان اور جرح پر بعض دفعہ مسلسل ایک ایک مہینہ بھی صرف ہوا ہے اور اس کی طرف سے جو بحث تحریری پیش ہوئی ہے۔ وہ کئی سوورق پر مشتمل ہے اور فیصلہ میں تعویق زیادہ تر مسل کے اس قدر ضخیم بن جانے کی وجہ سے بھی ہوئی ہے۔ دوران سماعت مقدمہ ہذا میں مدعا علیہ نے مدعیہ اور اس کے والد مولوی الٰہی بخش کے خلاف ۲۳؍اگست ۱۹۳۲ء کو عدالت سب جج صاحب درجہ دوم ملتان میں دعویٰ اعادہ 2125حقوق زن وشوئی دائر کر کے عدالت موصوف سے ان ہر دو کے خلاف ۱۷؍جون ۱۹۳۳ء کو ڈگری یک طرفہ حاصل کر لی اور اس مقدمہ میں جب کہ شہادت فریقین ختم ہوکر مدعیہ کی طرف سے بحث بھی سماعت ہوچکی تھی۔ مدعا علیہ کی طرف سے یہ عذر برپا کیاگیا کہ عدالت ہذا کو اختیار سماعت مقدمہ ہذا حاصل نہیں۔ کیونکہ بناء دعویٰ حدود ریاست ہذا میں پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی مدعا علیہ کی رہائش عارضی یا مستقل ریاست ہذا کے اندر ہوئی ہے۔
دوسرا عدالت سرکار برطانیہ سے مدعا علیہ کے حق میں ڈگری استقرار حق زوجیت برخلاف مدعیہ والٰہی بخش والدش کے صادر ہوچکی ہے۔ اس لئے بروئے دفعہ ۱۱ضابطہ دیوانی عدالت ہذا کو اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے اور کہ بموجب دفعات ۱۳،۱۴، ضابطہ دیوانی ڈگری مذکور قطعی ہوچکی ہے اور اس کے صادر ہونے کے بعد مقدمہ زیرسماعت عدالت ہذا نہیں چل سکتا۔
مدعا علیہ کے ان عذرات کو بوجہ اس کے کہ وہ عدالت ہذا کے اختیار سماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ اہم سمجھا جاکر اس مقدمہ میں ۸؍نومبر ۱۹۳۳ء کو حسب ذیل مزید تنقیحات ایزاد کی گئیں۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مزید تنقیحات مقدمہ)
۱… کیا مدعا علیہ کی سکونت بوقت دائری دعویٰ ہذا حدود ضلع ہذا میں تھی۔ یا یہ کہ بناء دعویٰ حدود ضلع ہذا میں پیدا ہوئی۔ اس لئے دعویٰ قابل سماعت عدالت ہذا ہے۔
۲… اگر تنقیح بالا بخلاف مدعیہ طے ہوتو کیا عدالت ہذا کے اختیار سماعت کا سوال اس مرحلہ پر جب کہ مقدمہ پہلے عدالت ہائے اعلیٰ تک پہنچ چکا ہے اور مدعا علیہ برابر پیروی کرتا رہا ہے۔ نہیں اٹھایا جاسکتا۔
۳… کیا ڈگری ملک غیر کی بناء پر جو بحق مدعا علیہ برخلاف مدعیہ صادر ہوئی ہے۔ سماعت مقدمہ ہذا میں دفعات ۱۳،۱۴ ضابطہ دیوانی عارض نہیں ہیں۔ ان تنقیحات کے وضع کرنے سے قبل مدعا علیہ کی طرف سے محکمہ معلی وزارت عدلیہ میں پیش گاہ حضور سرکار عالی دام اقبالہ وملکہ میں پیش کئے جانے کے لئے ایک درخواست مشتمل برعذرات مذکورہ بالا موصول ہوئی جو بمراد غور 2126عدالت ہذا میں بھجوا دی گئی۔ اس درخواست کے مطالعہ سے یہ ضروری خیال کیاگیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے بحث پیش ہونے سے قبل ان قانونی عذرات مذکورہ بالا کو طے کر لیا جاوے۔ اس لئے ۳؍نومبر ۱۹۳۳ء کو فریقین کے نام نوٹس بایں اطلاع جاری کئے جانے کا حکم دیاگیا کہ وہ تاریخ مقررہ پر اپنے علماء کو ہمراہ نہ لاویں۔ بلکہ خود حاضر ہوں تاکہ ان قانونی سوالات پر غور کیا جاکر انہیں طے کر لیا جاوے۔ مدعیہ کی طرف سے عدالت ہذا کے اس حکم کی ناراضی سے محکمہ معلی اجلاس خاص میں درخواست نگرانی پیش کی گئی ہے اور محکمہ معلی نے بحکم ۷؍نومبر ۱۹۳۳ء یہ قرار دیا کہ فریق مدعیہ پر تعمیل نوٹس درست نہیں ہوئی۔ لہٰذا یہ ہدایت کی گئی کہ سلسلہ بحث اور جدید امور کی دریافت کو ساتھ ساتھ جاری رکھا جاوے اور اگر کسی فریق کے حق میں التواء مقدمہ ضروری خیال کیا جاوے تو دوسرے فریق کو اس فریق سے مناسب ہرجانہ دلایا جاوے۔ باتباع اس حکم کے فریقین کو جدید تنقیحات کے متعلق اپنا اپنا ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی اور مختاران مدعا علیہ کو حکم دیاگیا کہ وہ اپنی طرف سے سلسلہ بحث کو بھی جاری رکھیں۔ اس کے بعدجب جدید تنقیحات مذکورہ بالا کے متعلق طرفین کی شہادت ختم ہوچکی تو مدعا علیہ نے پھر ۲؍جنوری ۱۹۳۴ء کو ایک درخواست کے ذریعہ یہ عذر برپا کیا کہ امور ذیل کو بھی زیر تنقیح لایا جاوے۔
کہ کیا مدعا علیہ کی وطنیت ریاست بہاول پور میں واقع ہے؟
اگر تنقیح بالا مدعیہ کے خلاف ثابت ہو تو پھر بھی عدالت ہذا کو اختیار سماعت حاصل ہے۔ اس درخواست کو اس بناء پر مسترد کیاگیا کہ مدعاعلیہ کی طرف سے اس قسم کا پہلے کوئی عذر نہیں اٹھایا گیا۔ حالانکہ وہ پہلے قانونی مشورہ حاصل کر کے پیروی کرتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں جہاں تک اس کے اس جدید عذر کا قانونی پہلو ہے۔ اس کے متعلق وہ اپنی بحث کے وقت قانون پیش کر سکتا ہے۔ واقعات کے لحاظ سے فریقین کی طرف سے مسل پر جو مواد لایا جاچکا ہے وہ اس سوال پر بھی بحث کرنے کے لئے کافی ہے۔ لہٰذا کسی مزید تنقیح کے وضع کرنے کی ضرورت خیال نہیں کی جاتی۔
اس سے قبل دوران شہادت میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک حجت یہ بھی پیدا کی گئی تھی کہ 2127مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی۔ اس لئے اب اس سے خود دریافت ہونا چاہئے کہ وہ مقدمہ چلانا چاہتی ہے یا نہ۔ لہٰذا اس سوال کے متعلق بھی یکم؍مارچ ۱۹۳۳ء کو ایک تنقیح بایں الفاظ وضع کیاگیا تھا کہ کیا مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی اور اس کا بار ثبوت مدعا علیہ پر عائد کیاگیا۔ کیونکہ مدعیہ کی طرف سے اسے نابالغ ظاہر کیا جاکر بمختاری والدش دعویٰ دائر کیاگیا تھا۔ لیکن بعد میں اس تنقیح کو بحکم ۲۹؍مارچ ۱۹۳۳ء خارج کیاگیا۔ کیونکہ قانوناً مدعا علیہ کا یہ عذر ناقابل پذیرائی تھا۔ ملاحظہ ہو ۷۴؍انڈین کیسز ص۳۰۹، اب ذیل میں دیگر قانونی سوالات پر بحث کی جاتی ہے۔
مدعا علیہ کا اہم عذر یہ ہے کہ اس نے کبھی حدود ریاست ہذا میں سکونت اختیار نہیںکی اور نہ ہی اس نے یہاں احمدی مذہب قبول کیا ہے۔ بلکہ وہ ۵،۶ سال تک شیخوپورہ میں رہا ہے۔ وہاں سے اس نے سال ۱۹۲۲ء میں ایک خط کے ذریعہ مرزاصاحب کے خلیفہ ثانی کے ساتھ بیعت کی تھی اور بیعت کرنے کے ۵،۶ ماہ بعد اس نے اپنے موجودہ مسکن واقعہ علاقہ لودھراں میں آکر سکونت اختیار کی۔ یہاں اس نے آکر ایک مکان تعمیر کرایا اور اس وقت سے یہاں مقیم ہے۔
مدعیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مدعا علیہ ضلع ڈیرہ غازیخان سے ترک سکونت کرنے کے بعد سیدھا مولوی الٰہی بخش والد مدعیہ کے پاس حدود ریاست ہذا میں آیا اور یہاں بودوباش شروع کی۔ مرزائی مذہب اس نے ایک شخص مولوی نظام الدین کی ترغیب پر قبول کیا جو موضع مہند مسکن والد مدعیہ کے قریب رہتا ہے اور دعویٰ ہذا دائر ہونے کے بعد وہ حدود ریاست ہذا کے باہر چلا گیا ہے۔ ان امور کے متعلق فریقین کی طرف سے جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے حسب ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔
مدعا علیہ کی یہ حجت درست نہیں پائی جاتی کہ وہ کبھی ریاست ہذا میں نہیں آیا۔ بلکہ مدعیہ کی پیش کردہ شہادت سے جس کی کہ مدعا علیہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ تردید نہیں کی گئی۔ یہ ثابت ہے کہ مدعا علیہ مولوی الٰہی بخش کے یہاں آنے کے بعد اپنے مسکن واقعہ علاقہ ضلع ڈیرہ غازیخان 2128سے سیدھا حدود ریاست ہذا میں مولوی الٰہی بخش والد مدعیہ کے پاس آیا اور اپنی والدہ اور ہمشیرگان کو اس کے ہاں چھوڑ کر خود حصول معاش کے لئے حدود ریاست ہذا کے اندر مختلف مقامات پر پھرتا رہا اور کچھ عرصہ کے بعد پھر مولوی الٰہی بخش کے پاس آکر ٹھہرتا رہا۔ اس کے بعد جب مدعیہ کے رخصتانہ کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ ترک سکونت کر کے یہاں سے چلا گیا اور غالباً صحیح یہی ہے کہ وہ مقدمہ ہذا دائر ہونے سے قبل ہی چلا گیا ہے۔ کیونکہ خود مدعیہ نے عرضی دعویٰ میں اس کی سکونت بمقام میلسی درج کرائی ہے۔ چنانچہ اس پتہ پر جب سمن جاری کیاگیا تو مختار مدعیہ نے پھر ۱۴؍اگست ۱۹۲۶ء کو منصفی احمد پور شرقیہ میں ایک درخواست پیش کی کہ مدعا علیہ کی سکونت گو دعویٰ میں مقام میلسی لکھی ہوئی ہے۔ لیکن اب مدعا علیہ یہاں احمد پور شرقیہ میں موجود ہے۔ پھر تعمیل نہیں ہوسکے گی۔ اب اس پتہ پر سمن جاری کیاجاکر تعمیل کرائی جاوے۔ چنانچہ اسی روز عدالت سے سمن جاری کیا جاکر مدعا علیہ کی اطلاعیابی کرائی گئی۔ مدعا علیہ کہتا ہے کہ اسے وہاں دھوکہ سے بلوایا گیا۔ لیکن یہ سوال چنداں اہم نہیں۔ وہ چاہے جس طرح احمد پور شرقیہ میں آیا یہ امر واقعہ ہے کہ سمن پر اس کی اطلاعیابی وہاں کرائی گئی۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ دائری دعویٰ کے وقت اس کی رہائش حدود ریاست ہذا کے اندر نہ تھی۔ لہٰذا اس بناء پر مدعا علیہ کی یہ حجت درست ہے کہ دائری دعویٰ کے وقت چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر اس کی عارضی یا مستقل سکونت نہ تھی۔ اس لئے یہاں اس کے خلاف دعویٰ دائر نہیں ہوسکتاتھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مدعیہ کی پھر یہ حجت ہے کہ مدعا علیہ نے اپنا مذہب چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر تبدیل کیا ہے۔ اس لئے اسے مدعا علیہ کے تبدیل مذہب سے بناء دعویٰ پیدا ہوتی ہے اور اس لحاظ سے مدعا علیہ کے خلاف یہاں دعویٰ درست طور پر دائر کیاگیا ہے۔
مدعا علیہ بیان کرتا ہے کہ اس نے احمدی مذہب شیخواہ ضلع ملتان میں قبول کیا تھا اور کہ ابتداً وہ ضلع ڈیرہ غازیخان سے شیخ واہ میں ہی گیا تھا۔ اس کی طرف سے بیعت کا ایک خط پیش کیاگیا ہے۔ جو ڈاکخانہ دنیاپور سے ۲۱؍جنوری ۱۹۲۲ء کو خلیفہ صاحب ثانی کی خدمت میں بھجوایا 2129گیا اور جس پر بغیر کسی ولدیت، قومیت کے صرف عبدالرزاق احمدی لکھا ہوا ہے۔ اس سے یقینی طور پر یہ قرار دیاجاسکتا ہے کہ یہ خط اسی عبدالرزاق مدعا علیہ کا تحریر شدہ ہے۔ شناخت خط کے بارہ میں مدعا علیہ کی طرف سے دو گواہان پیش ہوئے ہیں۔ جن میں ایک اﷲ بخش بالکل نوعمر لڑکا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ شیخ واہ میں مدعا علیہ کے پاس پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت وہ مدعا علیہ کو لکھتا ہوا دیکھا کرتا تھا۔ شناخت خط کے بارہ میں پہلے تو اس نے یہ کہا کہ شاید وہ نہ پہچان سکے۔ لیکن پھر بیان کیا کہ وہ شناخت کرتا ہے کہ خط مشمولہ مسل مدعا علیہ کا تحریر کردہ ہے۔ لیکن اوّل تو جس وقت یہ گواہ مدعا علیہ کو لکھتا ہوا دیکھنا بیان کرتا ہے۔ اس وقت خود اس کی اپنی عمر کوئی ۱۳،۱۴ سال کے قریب ہوگی۔ غیراغلب ہے کہ اس عمر میں اس نے مدعا علیہ کی طرز تحریر کو بخوبی ذہن نشین کر لیا ہو۔ دوسرا وہ اس خط کی شناخت کے متعلق کوئی خاص وجوہات بیان نہیں کر سکا۔ علاوہ ازیں جب اس کی مذبذب بیانی کو مدنظر رکھا جائے تو اس کی شہادت بالکل ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔ اس طرح دوسرے گواہ کی شہادت بھی سرسری قسم کی ہے اور اس پر بھی پورا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
مدعا علیہ بیان کرتا ہے کہ وہ شیخ واہ میں ۵،۶ سال رہا۔ لیکن وہاں کی سکونت ثابت کرنے کے لئے بھی اس کی طرف سے یہی اﷲبخش گواہ پیش ہوا ہے۔ دیگر گواہان صرف سماعی طور پر بیان کرتے ہیں کہ وہ لودھراں میں وہاں سے آیا تھا۔ لہٰذا اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے مسل پر جو مواد لایا گیا ہے۔ اس سے یہ قرار دینا مشکل ہے کہ مدعا علیہ اپنے موجودہ مسکن پر سکونت پذیر ہونے سے قبل شیخواہ میں رہتا تھا اور کہ اس نے احمدی مذہب بھی وہیں اختیار کیا تھا۔ اس کی طرف سے بیعت کا جو خط پیش کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق قابل اطمینان طریق پر یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ وہ اسی عبدالرزاق مدعا علیہ کا ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مدعا علیہ نے علاقہ لودھراں میں سکونت اختیار کرنے سے قبل جہاں پہلے سکونت اختیار کی ہوئی تھی۔ احمدی مذہب اس نے وہاں قبول کیا۔ مدعا علیہ حسب ادعا خود یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں رہا کہ اس کی یہ سابقہ سکونت شیخواہ میں تھی۔ برعکس اس کے مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت ہے کہ مدعا علیہ 2130اپنی موجودہ سکونت اختیار کرنے سے قبل حدود ریاست ہذا میں سکونت پذیر تھا۔ اس لئے مدعا علیہ کے اپنے بیان سے ہی یہ ثابت قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے احمدی مذہب حدود ریاست ہذامیں اختیار کیا اور اس کی تائید مدعیہ کی پیش کردہ شہادت سے بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ کا مذہب تبدیل کرنا چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر اس کی جائے سکونت موضع مہند میں وقوع میں آیا ہے۔ اس لئے اس بناء پر مدعیہ کو ضلع ہذا کے اندر بنائے دعویٰ پیدا ہوئی ہے۔ لہٰذا عدالت ہذا کو اس مقدمہ کی سماعت کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
مدعا علیہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ اس کی چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر سکونت نہیں رہی۔ اس لئے عدالت ہذا کو اس کے خلاف سماعت مقدمہ ہذا کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ مدعیہ کی طرف سے یہ بھی کہاگیا ہے کہ مدعا علیہ نے گوابتدائً یہ عذر اٹھایا تھا۔ لیکن بعد میں عدالت ہائے اپیل میں جاکر اس نے اسے ترک کر دیا اور شروع سے لے کر آخیر تک وہ برابر اس کی پیروی کرتا رہا۔ اس لئے سمجھاجائے گا کہ اس نے عدالت ہذا کے اختیار سماعت کو قبول کرلیا تھا۔ اس لئے اب وہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ اس بارہ میں فیصلہ ۲۹انڈین کیسز ص۴۵۶ بطور سند پیش کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپیلیں چونکہ مدعیہ کی طرف سے ہوتی رہی تھیں۔ اس لئے اسے اعتراض کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ علاوہ ازیں مقدمہ چونکہ دوبارہ ابتدائی حیثیت میں عدالت ہذا کے زیرسماعت آگیا ہے۔ اس لئے وہ اس سوال پر عدالت کو متوجہ کر سکتا ہے۔ مگر مدعا علیہ کی یہ حجت درست معلوم نہیں ہوتی کہ اسے اپیل میں یہ عذر اٹھانے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ فیصلہ اس کے خلاف ہونا ممکن تھا۔ اس لئے اسے ہر پہلو سے اپنی جوابدہی کرنی چاہئے تھی اور گو کہ مقدمہ اب پھر ابتدائی حیثیت میں سماعت کیاگیا ہے۔ تاہم اس مقدمہ کے سابقہ مراحل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اگر اس حجت کو درست بھی تسلیم کر لیا جاوے تو چونکہ اوپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ مدعا علیہ کے تبدیل مذہب سے بناء دعویٰ حدود ریاست ہذا میں پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے اس سوال پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی اور عدالت ہذا سے مدعا علیہ کے خلاف یہ دعویٰ درست طور سماعت کیاگیا ہے۔
2131اس قرارداد سے ان تنقیحات میں سے پہلے دو کا جو ۸؍نومبر ۱۹۳۳ء کو وضع کی گئی تھیں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ باقی تیسری تنقیح کے متعلق جو ڈگری ملک غیر کی بابت ہے صرف یہ درج کر دینا کافی ہے کہ عدالت صادر کنندہ ڈگری کے روبرو یہ سوال کہ مدعا علیہ تبدیل مذہب کی وجہ سے مرتد ہو چکا ہے اور اس لئے مدعیہ اس کی منکوحہ نہیں رہی۔ زیربحث نہیں آیا اور نہ ہی پایا جاتا ہے کہ اس عدالت کو یہ جتلایا گیا کہ اس نکاح کے بارہ میں مدعیہ کی طرف سے عدالت ہذا میں بھی مقدمہ دائر ہے۔ اس لئے سمجھا جائے گا کہ وہ فیصلہ صحیح واقعات پر صادر نہیں ہوا اور ڈگری دھوکے سے حاصل کی گئی۔ لہٰذا وہ ڈگری بروئے ضمن (ب) و (ہ) دفعہ۱۳ ضابطہ دیوانی قطعی قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح دفعہ۱۱ ضابطہ دیوانی کا اطلاق واقعات مقدمہ ہذا پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر قرار دیا گیا ایک تو وہ ڈگری قطعی نہیں دوسرا وہ کسی عدالت واقع اندرون حدود ریاست ہذا کی صادر شدہ نہیں۔ اس لئے یہ تیسری تنقیح بھی بحق مدعیہ وبرخلاف مدعا علیہ طے کی جاتی ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ فریقین چونکہ درحقیقت اپنی شہریت اور وطنیت کے لحاظ سے برٹش انڈیا سے تعلق رکھنے والے ہیں اور والد مدعیہ نے خود یا اس کے کسی گواہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے برٹش شہریت اور وطنیت چھوڑ چکا ہے۔ کیونکہ شہریت اور وطنیت کو ترک کرنے کے لئے لازمی ہے کہ یہ فعل علانیہ طور پر اورپبلک اظہار کے بعد قانونی حیثیت سے کیا جاوے۔ اس لئے تاوقتیکہ یہ ثابت نہ ہو، ایسے نکاح متنازعہ کے متعلق قانون بین الاقوامی یہ ہے کہ وہ نکاح جو اس ملک کے قانون کے لحاظ سے جائز ہے جہاں سے وہ منعقد ہوا۔ وہ ساری دنیا میں جائز اور درست ہے، اور کوئی دوسرے ملک کی عدالت اسے ناجائز قرار نہیں دے سکتی اور پھر ایسے نکاح کی تنسیخ کے متعلق بھی قانون بین الاقوامی یہ ہے کہ جس ملک میں ہر دو زوجین کو وطنیت حاصل ہو۔ صرف وہیں کی عدالت تنسیخ کا مقدمہ سن سکتی ہے اور اس قانون کی رو سے بیوی کی وطنیت وہی جگہ تصور ہوگی جہاں خاوند کی وطنیت ہو۔
فریقین کی طرف سے جو شہادت پیش ہوئی ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ فریقین اپنی ابتدائی 2132برطانوی شہریت ووطنیت پر قائم ہیں۔
گو حصول معاش کے لئے ایک فریق نے اپنی رہائش بہاول پور میں رکھی ہوئی ہے۔ مگر محض دوسری جگہ رہائش رکھنے سے اصل وطنیت کا ترک ہونا لازم نہیں آتا۔ مدعیہ کا نکاح علاقہ انگریزی میں ہوا۔ جہاں کی مدعیہ کی بیان کردہ وجہ ارتداد کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے علاقہ انگریزی کے قانون کی رو سے یہ نکاح صحیح اور جائز ہے۔
لیکن مدعا علیہ کی یہ حجت اس لئے وزن دار نہیں کہ اوّل تو یہ ثابت ہے کہ مولوی الٰہی بخش بہت مدت سے اپنے سابقہ مسکن سے ترک سکونت کر کے حدود ریاست ہذا میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے کافی مدت کے بودوباش اور دیگر افعال سے یہ بخوبی اخذ ہوتا ہے کہ وہ حدود ریاست ہذا میں مستقل سکونت اختیار کر چکا ہے اور اس کا اپنے سابقہ مسکن پر واپس جانے کا ارادہ نہیں۔ کیونکہ اس بارہ میں جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ علاقہ ضلع ڈیرہ غازیخاں میں اب اس کا اپنا کوئی گھر موجود نہیں۔ مدعیہ چونکہ اس وقت نابالغ تھی اور بطور زوجہ مدعا علیہ کے حوالہ نہ کی گئی تھی۔ اس لئے اس کا اپنے والد کے ہمراہ یہاں چلے آنے اور اس کے ساتھ بودوباش رکھنے سے یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے بھی اب بمثل اپنے والد کے یہاں کی وطنیت اختیار کر لی ہے۔ علاوہ ازیں یہ پایا جاتا ہے کہ جب وہ بالغ ہوئی تو اس نے مدعا علیہ کی زوجیت سے انکار کر دیا اور یہ حجت کی کہ ضلع ڈیرہ غازیخان میں اس کا جو نکاح مدعا علیہ سے ہوا تھا وہ بوجہ آنداد مدعا علیہ قائم نہیں رہا۔ اس لئے کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ مدعیہ کی وطنیت بھی اب وہی شمار ہوگی جو کہ مدعا علیہ نے اختیار کی ہوئی ہے۔ کیونکہ وہ وہاں نہ بطور زوجہ اس کے ساتھ آباد رہی اور نہ اب حقوق زوجیت کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ وہاں آباد ہونے کو آمادہ ہے۔ اس لئے لامحالہ یہ قرار دینا پڑے گا کہ مدعیہ نے بھی اب یہیں وطنیت اختیار کی ہوئی ہے اور اگر بفرض محال مدعا علیہ کی اس حجت کو درست بھی مان لیا جاوے تو بھی مدعا علیہ کامیاب نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس مقدمہ کی کارروائی یہاں بھی اس ضابطہ دیوانی کے تحت کی گئی ہے۔ جو علاقہ انگریزی میں جاری 2133ہے اور نکاح زیربحث کا تصفیہ اسی شخصی قانون کے تحت کیا جا رہا ہے کہ جس کی رو سے قانون مروجہ علاقہ انگریزی کی رو سے تصفیہ کئے جانے کی ہدایت سے یعنی بروئے شرع محمدیؐ، اس لئے کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ریاست ہذا کا قانون جس کے تحت مقدمہ ہذا میں کارروائی کی جارہی ہے وہ برٹش انڈیا کے قانون سے مختلف ہے۔ ہاں قانون کی تعبیر کا سوال دوسرا ہے۔ کسی قانون کی تعبیر اس قانون کا جزو شمار نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کسی عدالت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی خاص قانون کی تعبیر وہی کرے جو دوسری عدالت نے کی ہے۔ تاوقتیکہ وہ اس کی ماتحت عدالت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی مسئلہ پر مختلف ہائیکورٹوں کی مختلف قراردادیں پائی جاتی ہیں۔ مقدمہ حال میں عدالت معلی اجلاس خاص نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو معاملہ زیر بحث کے متعلق قطعی نہ سمجھتے ہوئے قابل پیروی خیال نہیں کیا اور عدالت معلی کی یہ قرارداد قانوناً بالکل درست ہے۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ قانون بین الاقوامی کی اگر یہ سمجھا بھی جاوے کہ ریاست ہذا اور برٹش انڈیا کے مابین حاوی ہے کوئی خلاف ورزی کی گئی۔ کیونکہ یہاں اسی قانون پر عمل کیا جارہا ہے جو برٹش انڈیا میں مروج ہے اور اگر وطنیت کو ہی معیار سماعت دعویٰ قرار دیا جاوے تو چونکہ مدعیہ کی وطنیت حدود ریاست ہذا کے اندر پائی جاتی ہے۔ اس لئے اس لحاظ سے بھی ریاست ہذا کی عدالتوں کو اس مقدمہ کی سماعت کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا یہ مقدمہ عدالت ہذا میں درست طور رجوع ہوکر زیرسماعت لایا گیا ہے۔
 
Top