ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ان حوالہ جات سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ باالفاظ مولوی مرتضیٰ حسن صاحبؒ گواہ مدعیہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جناب مرزاصاحب اور مرزامحمود صاحب اور ان کے تمام متبعین کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد نبوۃ تشریعی کا دروازہ بند ہے۔ آپﷺ کے بعد جو نبوت تشریعی کا دعویٰ کرے وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے۔ قول نمبر۶ میں مرزاصاحب نے اپنی تشریعی نبوت کا کھلے الفاظ میں دعویٰ کیا ہے اور اس میں چند باتوں کی تشریح مرزاصاحب نے خود فرمائی۔ ایک یہ کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس کی وحی میں امر یا نہی ہو۔ 2150جس نے اپنی امت کے لئے کوئی قانون مقرر کیا ہو وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ یہ تعریف کر کے مرزاصاحب اپنا صاحب شریعت ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب اپنے اقرار سے خود کافر ہوگئے۔ مرزاصاحب نے یہ بھی صاف فرمادیا ہے کہ وحی میں جو حکم یا نہی ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ حکم نیا ہو۔ بلکہ اگر پہلی شریعت کا بھی حکم اس کے پاس بذریعہ وحی کے آئے تو بھی یہ صاحب شریعت ہونے کے لئے کافی ہے۔ مرزاصاحب نے اپنی بہت سی وحی وہ بیان کی ہے جو کہ آیات قرآنی ہیں۔ اس لئے وہ بھی مرزاصاحب کی شریعت ہوگئی۔ مرزاصاحب نے اس شبہ کا بھی جواب دے دیا کہ صاحب شریعت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی شریعت میں نئے احکام ہوں۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن پہلی کتابوں میں بھی ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی۔ اب اگر شریعت جدید کے لئے یہ ضروری ہو کہ اس نبی کی شریعت اور وحی اور کتاب میں سب نئے احکام ہوں تو لازم آتا ہے کہ رسول اﷲﷺ بھی صاحب شریعت نہ ہوں۔ کیونکہ قرآن میں سارے احکام نئے نہیں۔ اس کلام کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء رسول اﷲ صاحب شریعت نبی ہیں۔ ویسے ہی مرزاصاحب بھی صاحب شریعت نبی ہیں۔
مرزاصاحب نے یہ بھی صاف کر دیا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ شریعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام اوامر ونواہی اس شریعت اور کتاب اور وحی میں پورے پورے بیان ہونے چاہئیں تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ تمام احکام تورات اور قرآن مجید میں بھی مذکور نہیں اگر تمام احکام قرآن مجید میں مذکور ہوتے تو پھر اجتہاد کی گنجائش باقی نہ رہتی۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی مدعی نبوت ایک امرونہی کا بھی دعویٰ کرے اگرچہ وہ امر ونہی پرانی ہو تو وہ نبی صاحب شریعت کہلایا جائے گا اور اس میں اور رسول اﷲﷺ میں بایں معنی کچھ فرق نہیں کہ یہ دونوں صاحب شریعت ہیں۔
یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اگر کسی نبی کو خدا کا بھی حکم آوے کہ تجھ کو ہم نے نبی کر کے 2151بھیجا ہے اور تو لوگوں پر اس حکم کی تبلیغ کر اور جو کوئی اس حکم کو نہ مانے گا وہ کافر ہے۔ تو وہ نبی بھی صاحب شریعت اور نبی تشریعی ہوگیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو نبی حقیقی ہے اور جو نبی شرعی ہے اس کے لئے نبی تشریعی ہونا ضروری ہے۔ اس لئے مرزاصاحب اپنی تحریر اور اس اقرار کے مطابق کافر ہوئے۔ اس کے علاوہ مرزاصاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میری کشتی کو کشتی نوح قرار دیا گیا ہے۔ جو اس میں ہوگا وہ نجات پائے گا اور جو ایسا نہ ہوگا وہ ہلاک ہو گا۔ یہ مرزاصاحب کی شریعت کا نیا حکم ہے جس نے شریعت محمدیہ کو منسوخ کیا۔ مرزاصاحب نے ایک نیا حکم یہ بھی دیا ہے کہ ان کی عورتوں کا نکاح غیراحمدیوں سے جائز نہیں۔ یہ بھی حکم شریعت محمدیہ کے خلاف ہے۔
(یہ نتیجہ بحوالہ کتاب انوار الخلافۃ مرتبہ مرزامحمود صاحب ص۹۳،۹۴ اخذ کیا گیا ہے)
مرزاصاحب کی شریعت میں ایک نیا حکم اور یہ بھی ہے جو تمام اسلام کے خلاف ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے مریدوں سے چندہ کی تحریک فرما کر یہ حکم فرمایا ہے کہ جو کوئی چندہ تین ماہ تک ادا نہ کرے گا وہ میری بیعت سے خارج ہے اور بیعت سے خارج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہے اور کافر ہے۔ حالانکہ زکوٰۃ کے لئے بھی خدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ اگر تین ماہ تک کوئی زکوٰۃ نہ دے تو وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ یہ حوالہ مرزاصاحب کے ایک فرمان سے جو لوح ہدیٰ میں قادیان سے دسمبر ۱۹۲۰ء میں شائع ہوئی، دیا گیا ہے۔ اس فرمان کے چیدہ چیدہ الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میری انہی سے پیوند ہے۔ یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں… ہر ایک شخص جو مرید ہے۔ اس کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس پر کچھ ماہوار مقرر کر دے… جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا… وہ منافق ہے۔ اب اس کے بعد وہ اس سلسلہ میں نہیں رہ سکے گا… اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا۔‘‘
(اشتہار لنگر خانہ کے انتظام کے لئے، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۶۸،۴۶۹)
2152اس کے آگے گواہ مذکورہ آیت ’’
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین
‘‘ کے حوالہ سے بیان کرتا ہے کہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب کوئی نبی آپﷺ کے بعد نہیں تو کوئی رسول بھی آپﷺ کے بعد بطریق اولیٰ نہیں۔ کیونکہ رسول نبی ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو نبی ہو وہ رسول بھی ہو اور اس کی تائید میں احادیث متواترہ ہیں۔ جن کو صحابہؓ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ایسی احادیث کا انکار کرنے والا ویسا ہی کافر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کا انکار کرنے والا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ختم نبوت کا انکار کرتا ہے وہ قرآن کا منکر ہو کر بھی کافر ہوا۔ اس کی تائید میں انہوں نے چند ائمہ دین کے اقوال نقل کئے ہیں اور ان سے یہ دکھلانا چاہا ہے کہ احادیث متواترہ میں یہ خبر درج ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے اور کہ ہر وہ شخص جو آپﷺ کے بعد اس مقام نبوۃ کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہے۔ دجال اور گمراہ کرنے والا ہے۔ اگرچہ شعبدہ بازی کرے۔ قسم قسم کے جادو اور طلسم اور نیرنگیاں دکھلائے اور کہ جو شخص دعویٰ نبوت کرے وہ کافر ہے اور پھر ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ عقیدہ کہ رسول اﷲﷺ خاتم النّبیین ہیں، یقینی ہے اور اجماعی ہے کسی کا اس میں اختلاف نہیں ہے۔ کتاب اور سنت سے ثابت ہے اور آپﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کی نبوۃ میں نبی نہ بنے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام کا آنا اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ وہ پہلے نبی بن چکے ہیں۔ خاتم الانبیاء کے معنی بھی یہی ہیں کہ اپنے عموم سے کسی نبی کو نبوت آپﷺ کے بعد نہیں مل سکتی۔ اس کی تائید میں چند دیگر آیات قرآنی اور احادیث بھی پیش کی گئی ہیں۔ جن کی یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں اور ان کا حوالہ دیا جاکر یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ انکار ختم نبوت کفر، ادعا نبوت بھی کفر، اور ادعاء وحی بھی کفر ہے۔ البتہ ایک حدیث کا یہاں حوالہ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جس پر آگے مدعا علیہ کے جواب کے وقت بحث کی جاوے گی۔ وہ حدیث بایں مطلب ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری مثال اور ان انبیاء کی مثال جو مجھ سے پہلے تھے اس شخص کی سی ہے کہ جس نے ایک مکان تعمیر 2153کیا اور بہت اچھا اور بہت خوبصورت اس کو بنایا۔ مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہی۔ لوگ اس مکان کو دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کی جگہ خالی ہے۔ اس کو کیوں پر نہ کر دیا گیا۔ سو میں ہوں وہ اینٹ، اور میں ہوں خاتم النّبیین۔ اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ تعمیر بیت نبوت جو ابتدائے آفرنیش سے ہوئی تھی۔ وہ بدوں سرور عالمﷺ کے ناقص تھی۔ سرور عالمﷺ کے وجود باجود سے وہ مکمل ہوگئی اور بیت النبوۃ میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ اب اگر کوئی اینٹ ہوگی تو وہ بیت النبوۃ سے نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی شخص مدعی نبوت ہو گا تو خدا نے جو نبوت کا گھر تعمیر کیا ہے وہ اس کا جزو نہیں ہوسکتی۔
مرزاصاحب کے قول نمبر۱۵ سے یہ استدلال کیاگیا ہے کہ قرآن کریم سے صراحتاً یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اس کو کہتے ہیں جس نے احکام وقواعد دین جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔ اگر مرزاصاحب نے احکام وعقائد اس ذریعہ سے حاصل نہیں کئے تو دعویٰ نبوت جھوٹ ہوا اور جھوٹا مدعی نبوت باتفاق کافر ہوتا ہے۔
مرزاصاحب کے قول نمبر۱۳ سے مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرزاصاحب اپنے پر جبرائیل علیہ السلام کے نزول کے مدعی ہیں اور صرف دعویٰ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی شان نبوت ورسالت کا سکہ جمانے کے لئے تمام خصوصیات نبوۃ ولوازمات رسالت کو نہایت جزم اور وثوق کے ساتھ اپنی ذات کے لئے ثابت کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ جن خصوصیات کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جماعت دوسرے مقربان بارگاہ الٰہی سے ممتاز ہوسکتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام پر بھی نزول جبرائیل ہوا کرتا ہے اور ان کے وحی والہام قطعی ویقینی ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح مرزاصاحب بھی اپنی وحی کو خدا کا کلام کہتے ہیں اور قرآن شریف کی طرح قطعی کہتے ہیں۔ یہ خصوصیات مذکورہ ایسی ہیں جو سوائے انبیاء علیہم السلام اصحاب شریعت کے اور کسی دوسرے مقرب بارگاہ الٰہی میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ مرزاصاحب حقیقی نبوت کے مدعی تھے اور اپنے آپ کو اس معنی میں نبی اور رسول 2154ظاہر کرتے تھے جس معنی میں دوسرے انبیاء علیہم السلام کو نبی یا رسول کہاگیا ہے۔
گواہان مدعیہ نے خود مرزاصاحب کی اپنی تحریرات سے بھی یہ دکھلایا ہے کہ وہ خود قبل از دعویٰ نبوت یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور کہ آپa آخری نبی ہونے کے معنوں میں خاتم النّبیین ہیں۔ چنانچہ (ازالۃ الاوہام ص۵۲۳، خزائن ج۳ ص۳۸۰) پر مرزاصاحب لکھتے ہیں کہ: ’’مسیح کیونکر آسکتا ہے اور خاتم النّبیین کی دیوار روئیں اس کو آنے سے روکتی ہے۔‘‘
آگے اس کتاب کے (ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۷) پر لکھتے ہیں: ’’لیکن وحی نبوۃ پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ چکی۔ کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی۔‘‘
اور کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰) میں آیت ’’ماکان محمد… خاتم النّبیین‘‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے نبیﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ بغیر کسی استثناء کے اور ہمارے نبیﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہمارے نبیﷺ کے بعد اگر ہم کسی نبی کے ظہور کے مجوز بنیں گے تو نبوت کا دروازہ بند ہونے کے بعد اس کو کھولنے کے قائل ہو جائیں گے اور یہ اﷲ کے وعدہ کے خلاف ہے۔ ہمارے نبیﷺ کے بعد کس طرح کوئی نبی آسکتا۔ حالانکہ آپﷺ کے بعد وحی کا انقطاع ہوچکا ہے اور نبی آپﷺ کے ساتھ ختم ہوچکے ہیں۔‘‘
پھر اس کتاب کے (ص۲۱، خزائن ج۷ ص۲۰۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہزارہا سال کے گزرنے کے بعد کسی ایسی حالت کا انتظار کیا جاسکتا ہے جس میں دین کی تکمیل ہو۔ اگر یہ مانا جائے تو دین کی تکمیل اور اس کے کمال سے فراغت کا سلسلہ بالکل غلط ہو جاتا ہے اور اﷲتعالیٰ کا یہ قول کہ ’’
الیوم اکملت لکم دینکم
‘‘ جھوٹی خبر ہوگئی اور خلاف واقع ہوگئی۔‘‘
اسی کتاب کے (ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)کے ایک حوالہ سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ مرزاصاحب بھی پہلے دعویٰ نبوت کو کفر سمجھتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے نکل جاؤں اور قوم کافرین کے ساتھ مل جاؤں۔‘‘
(ازالۃ الاوہام ص۵۸۳، خزائن ج۳ ص۴۱۴) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النّبیین کے بعد پھر جبرائیل کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمدورفت شروع ہو جائے۔ ایک نئی کتاب اﷲ گو مضمون قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو پیدا ہو جائے۔ جو امر مستلزم 2155محال ہے۔ وہ محال ہو جاتا ہے۔‘‘
لیکن اس کے بعد پھر (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۵، خزائن ج۲۱ ص۱۱۱) میں یہ تحریر فرمایا کہ: ’’میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا اور باوجود اس بات کے کہ خداتعالیٰ نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیش گوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کر دیں اور یہ فرمایا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور میری آنکھیں اس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے باربار کھول کر مجھ کو نہ سمجھایا کہ عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی تو فوت ہوچکا اور وہ واپس نہیں آئے گا۔‘‘
ایک اور جگہ (ایک غلطی کا ازالہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آنحضرتﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النّبیین تھے مجھے نبی اور رسول کے لفظ سے پکارا جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت ’’وآخرین منہم لمّا یلحقوا بہم‘‘ بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔‘‘
آگے (ایک غلطی کا ازالہ ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۱۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ممکن ہے کہ آنحضرتﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہدہ تھا۔‘‘
پھر (حوالہ ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی رنگ کی نبوۃ مجھے عطاء کی گئی ہے اور اس نبوۃ کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔‘‘
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ’’کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب حضرت رسول 2156کریم میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم سے ظلی طور پر ہم کو عطاء کئے گئے ہیں… پہلے تمام انبیاء ظل تھے۔ نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں۔‘‘ (ملفوظات ج۳ ص۲۷۰) اس عبارت سے نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ظل اور بروز کے الفاظ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ مراد ان سے حقیقت کاملہ نبوۃ ہے۔
ان تصریحات سے مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ کا یہ استدلال ہے کہ مرزاصاحب نے قرآن حکیم کی آیات اور احادیث نبوی سے اپنی نبوۃ کے لئے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ محض لاطائل اور بے معنی سعی ہے۔ کیونکہ مرزاصاحب براہین احمدیہ کے لکھتے وقت اور اس سے مدتوں پہلے اپنی قرآن دانی اور حکم فہمی کے مدعی تھے۔ اگر ان کو اس سے پہلے قرآن کی رو سے کسی نئے نبی کے آنے کا انکار تھا تو بعد میں قرآن کی کون سی آیت اتری یا نبی کریمﷺ کی کون سی حدیث پیدا ہوئی جس کی بناء پر مرزاصاحب نے نبوت کا ادعاء کیا۔ خاتم النّبیین کی آیت ’’الیوم اکملت لکم‘‘ کی آیت اس وقت بھی قرآن میں موجود تھیں۔ یہ ہر دو آیتیں قسم اخبار میں سے ہیں اور اوامر ونہی کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ادعائے نسخ سے پناہ لے کر کوئی تاویل کی جاوے تو اوامر ونواہی میں جاری ہوسکتی ہے۔ اخبار میں نہیں ہوسکتی۔ یہ مسئلہ تمام اہل اسلام کے نزدیک مسلمہ اور متفق علیہ ہے۔ پھر کیونکر ازروئے قرآن یا حدیث اپنے کو ادعاء نبوۃ میں صادق کہہ سکتے ہیں۔
ختم نبوت کے معنی کو جیسا کہ عام عقیدہ ہے مرزاصاحب تسلیم کرتے ہیں اور اپنے کلام میں اس طرح اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن صرف اپنی خوش خیالی کو باقی رکھنے کے لئے بے محل اور خلاف محاورات عرب تاویل کر کے جان بچانے کی کوشش کی ہے۔
آگے وہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب نے خاتم النّبیین کے بعد بروزی طور پر اپنے آپ کو نبی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خود انہی کے کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص خاتم ہو اس کا 2157بروز بھی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب (تریاق القلوب ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷ حاشیہ) پر لکھتے ہیں: ’’مگر مہدی معہود بروزات کے لحاظ سے بھی دنیا میں نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ خاتم الاولاد ہے۔‘‘
اس کتاب (تریاق القلوب ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۸ حاشیہ) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ بعض اکابر اولیاء کے مکاشفات ہیں اور اگر احادیث نبویہ کو بغور دیکھا جاوے تو بہت کچھ ان سے ان مکاشفات کو مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ قول اس حالت میں صحیح ٹھہرتا ہے جب کہ مہدی معہود اور مسیح موعود کو ایک ہی شخص مان لیا جاوے۔‘‘
اس حوالہ سے مرزاصاحب کا بروزی اور ظلی نبی ہونے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہوتا ہے اور یہ ثابت ہے کہ حضرت محمد رسول اﷲa خاتم النّبیین والمرسلین ہیں۔ آپa کے بعد جو شخص اپنے لئے ادعا نبوت کرے یا کسی دوسرے کو نبی مانے تو وہ تمام اہل اسلام کے نزدیک کافر، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ اس کی تائید کہ ظلی اور بروزی الفاظ محض الفاظ ہی ہیں اور کہ دراصل مرزاصاحب کی مراد حقیقی نبوت سے ہے۔ مرزاصاحب کے صاحبزادے بشیرمحمود صاحب کی ایک تحریر سے ہوتی ہے۔ جو اخبار الفضل مورخہ ۲۶؍نومبر ۱۹۱۳ء کے حوالہ سے مدعیہ کے گواہ مولوی مرتضیٰ حسن صاحبؒ نے نقل کی ہے اور جو باالفاظ ذیل ہے: ’’ہم جیسے خداتعالیٰ کی دوسری وحیوں میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس علیہم السلام کونبی پڑھتے ہیں۔ ایسے ہی خدا کی آخری وحی میں مسیح موعود کو بھی یا نبی اﷲ کے خطاب سے مخاطب دیکھتے ہیں اور اس نبی کے ساتھ کوئی لغوی یا ظلی یا جزوی کا لفظ نہیں پڑھتے کہ اپنے آپ کو خود بخود ایک مجرم فرض کر کے اپنی بریت کرنے لگ جائیں۔ بلکہ جیسے اور نبیوں کی نبوۃ کا ثبوت ہم دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر کیونکہ ہم چشم دید گواہ ہیں۔ مسیح موعود کی نبوت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے صاف لفظوں میں آپ کا نام نبی اور رسول رکھا اور کہیں بروزی اور ظلی نبی نہیں کہا۔ پس ہم خدا کے حکم کو مقدم کریں گے اور آپ کی تحریریں جن میں انکساری اور فروتنی کا غلبہ ہے اور جو نبیوں کی شان ہے اس کو ان الہامات کے تحت کریں گے۔‘‘
2158اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ الفاظ انکساری اور تواضع کے طور پر لکھ دئیے ہیں۔ ورنہ ان کے معنی مراد نہیں ہیں۔ مرزاصاحب جہاں اپنے آپ کو بروزی یا ظلی یا مجازی نبی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف حقیقی نبی سمجھنا چاہئے۔
اسی طرح خلیفہ دوم اخبار الفضل مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۱۵ء ہینڈ بل ص۳ کی سطر۱ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’مسیح موعود کو نبی اﷲ تسلیم نہ کرنا اور آپ کو امتی قرار دینا یا امتی گروہ میں سمجھنا گویا آنحضرتﷺ کو جو سید المرسلین وخاتم النّبیین ہیں۔ امتی قرار دینا ہے اور امتیوں میں داخل کرنا ہے جو کفر عظیم اور کفر بعد کفر ہے۔‘‘
ختم نبوت اور انقطاع وحی پر مولوی محمد حسین صاحب گواہ مدعیہ نے ایک اور دلیل پیش کی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن شریف پر مجموعی طور پر نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ جس کی توجیہ یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ نے آدم علیہ السلام سے وحی نبوت کے جاری ہونے کے سلسلہ کی خبر دی ہے۔ یہ ابتداء وحی اور آغاز وحی ہے۔ اس کے بعد ہم نوح علیہ السلام کے زمانہ تک پہنچتے ہیں۔ قرآن شریف سے پتہ لیتے ہیں کہ آیا سلسلہ نبوت جاری ہے یا نہ، جواب ملتا ہے کہ ہاں جاری ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ’’ولقد رسلنا نوحا وابراہیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ذریت میں سلسلہ نبوت جاری ہے اور ذریت ابراہیم علیہ السلام میں بھی ابھی سلسلہ نبوت جاری ہے۔ دوسری بات اس سے یہ ثابت ہوئی کہ نبوۃ کا ظرف اور محل اٰل ابراہیم ہی ہے۔ جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ اﷲ عزاسمہ نے حضرت ابراہیم کی اولاد میں دو شعبہ قرار دیتے ہیں۔ ایک ’’بنی اسحاق‘‘ جن میں پہلے نبوت کا سلسلہ جاری رہا اور بہت انبیاء ان میں آئے اور یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا۔ دوسرے ’’بنی اسماعیل‘‘ جن میں آنحضرتﷺ تک کوئی نبی نہ آیا۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام 2159کے زمانہ کی طرف نگاہ کی جائے تو قرآن شریف سے یہ معلوم ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’
ولقد ایتنا موسی الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل
‘‘ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے اور کئی ایک رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ لفظ ’’الرسل‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وقت آتا ہے تو قرآن کریم سے سوال ہوتا ہے کہ آیا بکثرت انبیاء بھی آئیں گے؟ یاکیا ہوگا؟ تو خداوند تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’واذ قال عیسی ابن مریم‘‘ خداوند سبحانہ تعالیٰ نے یہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر اسلوب جواب کا بالکل بدل دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اے بنی اسرائیل میں اﷲ کا رسول تمہاری طرف ہوکر آیا ہوں مجھ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب تورات جو خدا کی طرف سے ان کو عطاء ہوئی ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور خوشخبری دیتا ہوں ایک رسول کی کہ جو میرے بعد آئے گا۔ نام اس کا احمد ہوگا۔ قرآن کریم نے اس سے پہلے رسل کے لفظ سے عام طور پر رسولوں کے آنے کی خبر دی تھی اور یہاں ایک خاص رسول کی خبر دے کر اس کے نام سے مشخص اور معین فرمایا۔ یہ اسلوب صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خداوند تعالیٰ احمدﷺ پر نبوت کو ختم کر رہا ہے اور عام طور پر جو رسولوں کے آنے کا اسلوب تھا۔ اس کو بدل کر ایک خاص معین شخص کے آنے کی اطلاع دیتا ہے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ کا زمانہ آتا ہے تو ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے آنے کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے یا بند ہو جاتا ہے؟ تو قرآن کریم فرماتا ہے۔ ’’
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین
‘‘ یہ بات قابل غور ہے کہ خداوند تعالیٰ نے مختلف انبیاء کے زمانہ میں سلسلہ نبوت جاری رہنے اور رسل کے آنے کی اطلاع دی اور آنحضرتﷺ پر آکر اس اطلاع کے برخلاف جوبصورت اجراء نبوت بمثل سابق ایسی اطلاع دی جانی ضروری تھی۔ جیسا کہ پہلے دی 2160گئی۔ ختم نبوت کا اعلان کر دیا۔ جس سے قطعاً اور یقینا یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کریم مجموعی طور پر ختم نبوت کا اعلان کر رہا ہے۔‘‘
اس ضمن میں دو احادیث کا حوالہ جو گواہ مذکور نے دیا ہے اور دیگر گواہان مدعیہ کے بیانات میں بھی موجود ہے۔ دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ فریق ثانی کے جواب میں یہ حدیثیں بحث طلب ہیں۔ ایک حدیث یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں انبیاء آتے رہے۔ جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی آجاتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں اور خلیفہ ہوں گے۔ پس بہت ہوں گے۔
دوسری حدیث یہ ہے کہ جنگ تبوک پر جاتے ہوئے آپﷺ نے جب حضرت علیؓ کو اہل بیت کی نگرانی کے لئے چھوڑا تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ آپ(ﷺ) مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’تو مجھ سے وہی نسبت رکھتا ہے، جیسا کہ ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔ البتہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوسکتا۔‘‘ اگر نبوت آنحضرتﷺ کے بعد اور تشریعی یا غیرتشریعی جاری ہوتی تو حضرت علیؓ کو رسول اﷲﷺ ’’لا نبی بعدی‘‘ کہہ کر اس وصف سے محروم نہ کرتے۔ گواہ مذکور نے قرآن مجید سے ختم نبوت کی ایک اور یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ سورۂ آل عمران پارہ تیسرا کی آیت ’’
قل اٰمنا باﷲ وما انزل الینا… الخ!
‘‘ سے اﷲتعالیٰ نے یہ ظاہر فرمایا کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کی گئی وہ زمانہ ماضی میں ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں انہی انبیاء پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ جو آنحضرتﷺ سے پہلے ہوچکے ہیں اور کسی ایسے نبی کے لئے ایمان لانے کی تاکید نہیں کی جو آپ کے بعد ہو۔ اگر کوئی نبی آنحضرتﷺ کے بعد آنے والا ہوتا تو ضرور اﷲتعالیٰ ہمیں اس پر ایمان لانے کی تاکید فرماتا۔ سورۂ بقرہ کی ایک اور آیت ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک… الخ!‘‘ میں بھی خداوند تعالیٰ نے انہی کو ہدایت پر قائم رہنے والا اور ’’مفلحون‘‘ فرمایا ہے۔ جو آنحضرتﷺ کی وحی پر اور آپ سے 2161پہلے انبیاء علیہم السلام کی وحی پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور قرآن کریم نے یہ التزام کیا ہے کہ ہر جگہ وحی کے ساتھ لفظ قبل کو ملایا ہے تاکہ یہ بات ثابت نہ ہو کہ آنحضرتﷺ سے پہلے ہی وحی نبوت اور انبیاء علیہم السلام آئے ہیں۔ چنانچہ اس کی تائید میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے سورہ سبا پارہ نمبر۲۲ کی آیت ’’وما ارسلنک الا کافۃ للناس… الخ!‘‘ سے یہ استدلال کیا ہے کہ متقی بننے کے لئے صرف ان چار چیزوں کی ضرورت ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو وہ وحی ہے جو آنحضرتﷺ کی طرف نازل کی گئی۔ دوسری وہ جو آپ سے پہلے لوگوں پر نازل کی گئی۔ اگر آنحضرتﷺ کے بعد بھی کسی وحی پر انسانوں کی نجات اور ارتقاء کی مدار ہوتی تو اﷲتعالیٰ اسے بھی یہاں ذکر فرمادیتا۔ مگر ایسا نہیں کیاگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور نئی بات کی، یا نئی وحی کی، متقی بننے کے لئے حاجت نہیں اور نہ ہی اس کے آنے پر یا اس کے ماننے پر انسانوں کی نجات کا دارومدار ہے۔
ختم نبوت کے بارہ میں مرزاصاحب کی ایک اور تحریر بہت واضح ہے جس کا ذکر مولوی مرتضیٰ حسن صاحبؒ گواہ مدعیہ کے بیان میں ہے۔ مرزاصاحب اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۵۴۴، خزائن ج۳ ص۳۹۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ بات ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ خاتم النّبیین کے بعد مسیح ابن مریم رسول کا آنا فساد عظیم کا موجب ہے۔ اس سے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وحی نبوت کا سلسلہ پھر جاری ہو جائے گا یا قبول کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ مسیح ابن مریم کو لوازم نبوت سے الگ کر کے اور محض ایک امتی بنا کر بھیجا اور یہ دونوں صورتیں ممتنع ہیں۔‘‘
اس طرح (ازالہ اوہام ص۵۷۶، خزائن ج۳ ص۴۱۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہوکر نہیں آتا۔ بلکہ وہ مطاع صرف اور اپنی اس وحی کا مبتع ہوتا ہے جو اس پر بذریعہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتی ہے۔ اب یہ سیدھی سیدھی بات ہے کہ جب حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوئے اور حضرت جبرائیل لگاتار آسمان سے وحی لانے لگے اور وحی کے ذریعہ انہیں تمام اسلامی عقائد اور 2162صوم صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور جمیع مسائل فقہ کے سکھلائے گئے۔ تو پھر بہرحال یہ مجموعہ احکام دین کا کتاب اﷲ کہلائے گا۔ اگر یہ کہو کہ مسیح کو وحی کے ذریعہ صرف اتنا کہا جائے گا کہ تو قرآن پر عمل کر اور پھر وحی مدت العمر تک منقطع ہو جائے گی اور کبھی جبرائیل نازل نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ مسلوب النبوۃ ہوکر امتیوں کی طرح بن جائیں گے تو یہ طفلانہ خیال ہنسی کے لائق ہے۔ ظاہر ہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ وحی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرائیل لائیں اور پھر چپ ہو جائیں۔ یہ امر بھی ختم نبوت کے منافی ہے۔ کیونکہ جب ختمیت کی مہر ہی ٹوٹ گئی اور وحی رسالت پھر نازل ہونی شروع ہوگئی تو پھر تھوڑا بہت نازل ہونا برابر ہے۔ ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداوند تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النّبیین میں وعدہ دیاگیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیاگیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲa ہمیشہ کے لئے وحی نبوۃ لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبیﷺ کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
اس سے مدعیہ کی طرف سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے اس کی تصریح کر دی ہے کہ کوئی نبی مطیع یعنی امتی نہیں بن سکتا۔ بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جو اس پر بذریعہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مرزاصاحب نبی ہوئے تو انہوں نے اس وحی کی اتباع کی۔ جو ان پر نازل ہوئی یا قرآن کی، اگر قرآن کی اتباع کی تب بھی مرزاصاحب کافر۔ کیونکہ ان کو اپنی وحی کی اتباع کرنی چاہئے تھی اور اگر اپنی وحی کی اتباع کی تب بھی کافر کیونکہ قرآن کو چھوڑا۔ کتاب ازالۃ الاوہام مرزاصاحب کے دعویٰ کے کچھ عرصہ بعد تحریر ہوئی اور اس وقت تک وہ خاتم النّبیین کے وہی معنی سمجھتے رہے جو ساری دنیا نے سمجھے اور ایک نبی کا آنا اور ایک دفعہ جبرائیل علیہ السلام کا اترنا اور ایک فقرہ کہنا کہ تم قرآن کا اتباع کرو۔ یہ سب چیزیں مرزاصاحب کے نزدیک ختم نبوۃ کے مخالف تھیں اور اس سے مہر نبوت ٹوٹتی تھی۔
2163ہر صدی میں کم ازکم ایک مجدد آتا ہے۔ ان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ دنیا میں جو لوگوں سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس پر لوگوں کو متنبہ کریں اور بالخصوص ایسے امور اور عقائد کی نسبت کہ جن سے انسان کافر ہو جائے۔ علاوہ ازیں امت میں بے شمار اولیائ، ابدال اقطاب گزرے اور تمام صحابہ کرامؓ ان میں سے کسی نے خاتم النّبیین کے یہ معنی نہیں کئے۔ جو مرزاصاحب نے اب بیان کئے ہیں۔ اس لئے جو معنی ختم النبوۃ کے اب تجویز کئے ہیں۔ جس کی بناء پر نبوت کا جاری رہنا اور وحی نبوت کا جاری رہنا ضروری ہے اور جس مذہب میں وحی نبوت نہ ہو۔ وہ مذہب مرزا صاحب کے نزدیک لعنتی اور شیطانی مذہب کہلانے کامستحق ہے۔
اس بناء پر اگر یہ معنی صحیح ہیں تو جب تک مرزاصاحب کا مذکورہ بالا عقیدہ رہا۔ مرزاصاحب بھی کافر ہوئے اور ان سے پہلے جتنے مسلمان اس عقیدہ پر گزرے وہ سب کے سب کافر ہوئے اور اگر مسلمانوں کا اور مرزاصاحب کا عقیدہ سابقہ صحیح تھا تو پہلے لوگ تو مسلمان اور مرزاصاحب اس عقیدہ کے بدلنے کے بعد کافر ہوگئے۔ یہ نتائج مولوی مرتضیٰ صاحبؒ کے بیان سے اخذ ہوتے ہیں۔ آگے وہ یہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب نے یہ کہا ہے کہ جو امر مستلزم محال ہے وہ محال ہوتا ہے۔ اس سے اگر مراد محال عقلی ہے تو اس کا اخفاء ناجائز ہے۔ بالخصوص تیرہ سو برس تک جب کہ صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور ائمہ فقہائے کہ جنہوں نے عقلی امور کی بال کی کھال نکال دی ہے اور اگر محال سے مراد شرعی ہے تو وہ بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔ بالخصوص اتنے زمانہ تک اور اتنے علمائے متبحرین پر اور مجددین پر۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاصاحب کا اس کلام کے لکھنے تک یہی عقیدہ تھا کہ خاتم النّبیین کے معنی یہ ہیں کہ کوئی جدید یا قدیم نبی آہی نہیں سکتا۔ علماء امت نے جو مسئلہ ختم النبوۃ پر اجماع بیان کیا ہے اور جس آیت کے معنی لکھے ہیں اور وہ معنی مرزاصاحب کے مسلمات میں سے ہیں۔ وہی حق ہے اور اب جو اس معنی سے انکار کرے وہ کافر اور بے شک کافر ہے ایک اور کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰،۲۰۱) پر مرزاصاحب نے جو 2164کچھ لکھا ہے اس کا مطلب یہ بیان کیاگیا ہے کہ: ’’عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارہ میں کسی مسلمان کوجائز نہیں کہ اس کلام کو جو احادیث میں آیا ہے ظاہر معنی پر حمل کرے۔ اس واسطے کہ یہ آیت ’’ماکان محمد ابا احد‘‘ خاتم النّبیین کے مخالف ہے۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اورا س میں کسی کی استثناء نہیں کی اور پھر اس خاتم الانبیاء کی خود اپنے کلام میں تفصیل فرمائی۔ ’’لا نبی بعدی‘‘ سے جو سمجھنے والوں کے لئے بیان واضح ہے اور اگر ہم یہ جائز رکھیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے تو لازم آتا ہے کہ دروازہ وحی نبوت کا بعد بند ہونے کے کھل جائے اور آپ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے۔ حالانکہ وحی منقطع ہوچکی ہے اور اﷲتعالیٰ نے آپ کے ساتھ تمام نبیوں کو ختم کر دیا ہے۔ کیا ہم اس کا اعتقاد رکھیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور خاتم الانبیاء وہ بنے نہ ہمارے رسول مقبولﷺ۔‘‘
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے اس میں اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ خاتم الانبیاء کی تفسیر بغیر کسی استثناء کے رسول اﷲﷺ نے اس کلام میں فرمائی کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ اور معلوم ہوا کہ مرزاصاحب کے نزدیک خاتم النّبیین کی تفسیر ’’لا نبی بعدی‘‘ ہے اور خاتم النّبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس میں کسی نبی بروزی ظلی وغیرہ کی قید نہیں اور اب لا نبی بعدی کا یہ معنی لینے کہ اس سے مراد خالص وہ نبی ہے جو مستقل نبی ہو اور رسول اﷲﷺ سے الگ ہوکر اس نے نبوت حاصل کی ہو۔ کیونکہ یہ معنی مرزاصاحب کے نزدیک بھی غلط ہیں اور اب یہ معنی کرنے ہرگز قابل پذیرائی نہیں۔ مرزاصاحب خاتم کے یہ معنی کرتے ہیں کہ رسول کریم مہر ہیں اور آپ کے منظور کرنے سے نبی بنتے ہیں۔ کتاب (حقیقت النبوۃ ص۲۶۶ حصہ اوّل ضمیمہ نمبر۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں۔ پس اس طور سے خاتم النّبیین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمدﷺ کی نبوت محمدﷺ تک ہی 2165محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمدﷺ ہی نبی رہا۔ نہ کوئی اور۔‘‘
سید انور شاہ صاحب گواہ مدعی اس سے یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ میں آئینہ بن گیا ہوں۔ محمد رسول اﷲﷺ کا اور مجھ میں تصویر اتر آئی ہے رسول کریمﷺ کی۔ اس سے مہر نبوت نہ ٹوٹی۔ یہ تمسخر ہے خدا اور خدا کے رسولﷺ کے ساتھ۔
اب باقیماندہ وجوہات تکفیر میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین۔ آنحضرتﷺ کی توہین اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی توہین کے بارہ میں گواہان مدعیہ کے بیانات کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرزاغلام احمد صاحب کی حسب ذیل تحریروں پر اعتراض کیاگیا ہے۔مرزاصاحب اپنی کتاب (دافع البلاء ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۰۰) پر لکھتے ہیں: ’’لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس پر عطر ملا تھا یا اپنے ہاتھوں یا سر کے بالوں سے اس کو چھوا تھا۔ یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اس وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ علیہ السلام کا نام ’’حصور‘‘ رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۴، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’پس اس نادان اسرائیلی نے ان معمولی باتوں کا پیش گوئی نام کیوں رکھا۔‘‘
آگے (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔‘‘
اس (حوالہ ایضاً) پر آگے کہتے ہیں کہ: ’’میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) ہے کہ: ’’یہ بھی یاد رہے کہ آپ کوکس قدر جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) پر ہے کہ: ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور تین نانیاں آپ کی 2166زنا کار اور کسبی تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اس وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے۔‘‘
آگے ہے کہ: ’’سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘
یہ گالیاں یسوع کا نام لے کر ضمیمہ انجام آتھم میں درج کی گئی ہیں۔ لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے نزدیک یسوع اور مسیح ایک تھے۔ کیونکہ مرزاصاحب اپنی کتاب (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) پر فرماتے ہیں کہ: ’’مسیح ابن مریم جس کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اپنی کتاب (کشتی نوح ص۶۵ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یورپ کے لوگوں کوجس قدر شراب سے نقصان پہنچا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے۔ اے مسلمانو! تمہارے نبیa تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) پر ہے: ’’جن جن پیشین گوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توراۃ میں پایا جانا آپ نے بیان فرمایا۔ ان کتابوں میں ان کا نام ونشان بھی نہیں پایا جاتا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) پر لکھتے ہیں: ’’اور نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب ’’طالمود‘‘ سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا میری تعلیم ہے۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) پر ہے کہ: ’’آپ کے حقیقی بھائی آپ کی ان حرکات سے آپ سے سخت ناراض رہتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے۔‘‘
(کتاب ست بچن ص۱۷۱ حاشیہ، خزائن ج۱۰ ص۲۹۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ درخواست بھی صریح اس بات پر دلیل ہے کہ یسوع درحقیقت بوجہ بیماری مرگی کے دیوانہ ہوگیا تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) پر ہے کہ: ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
اور (انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱ حاشیہ) پر ہے کہ: ’’آپ 2167نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی ایسی بیماریوں کا علاج کیا۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اس تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اس تالاب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا ہو تو وہ معجزہ آپ کا نہیں ہے۔ بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھوں میں سوائے مکروفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
اسی کتاب (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۹، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳) پر آگے مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں کہ: ’’خداوند تعالیٰ نے قرآن شریف میں کوئی خبر نہیں دی کہ یسوع کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا کہ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹ مار رکھا اور آنے والے نبی کے مقدس وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راست بازوں کے دشمن کو ایک بھلے مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں۔‘‘
اور کتاب (ست بچن ص۱۶۷،۱۶۸، خزائن ج۱۰ ص۲۹۱) پر لکھتے ہیں: ’’اور بالخصوص یسوع کے دادا صاحب داؤد نے تو سارے برے کام کئے۔ ایک بیگناہ کو اپنی شہوت رانی کے لئے فریب سے قتل کرایا اور دلالہ عورتوں کو بھیج کر اس کی جورو کو منگوایا اور اس کو شراب پلائی اور اس سے زنا کیا اور بہت سا مال حرام کاری میں ضائع کیا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۴، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱)پر ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشین گوئیوں کو غلط قرار دیا گیا ہے۔‘‘
(ازالتہ الاوہام ص۳۰۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴) پر درج ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس سال تک نجاری کا کام کرتے رہے ہیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم 2168تورات عین حمل میں کیونکر نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی… مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے۔ نہ قابل اعتراض۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۱ ص۷، خزائن ج۳ ص۱۰۶) پر مرزاصاحب مولویوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ: ’’اس سے زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ اس قدر صحیح نکل نہیں سکیں۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘
پھر (حقیقت الوحی ص۱۵۵، خزائن ج۲۲ ص۱۵۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جب کہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو ان کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ وسوسہ شیطانی ہے کہ کہا جائے کہ کیوں تم اپنے تئیں مسیح ابن مریم سے افضل قرار دیتے ہو۔‘‘
مولوی انور شاہ صاحبؒ نے لفظ یسوع کی اصل یہ بتائی ہے کہ یہ دراصل عبرانی لفظ ہے اور عبرانی میں ایشوع بمعنی نجات دہندہ تھا۔ ایشوع سے یسوع بنا اور زبان عربی میں آکر لفظ عیسیٰ بنا اور یہ تعریب قرآن سے شروع نہیں ہوئی۔ بلکہ نزول قرآن سے پہلے عرب کے نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ ہی بولتے تھے۔
(ازالۃ الاوہام ص۳۰۴، ۳۰۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۵،۲۵۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل ترب یعنی مسمریزمی طریق سے بطور لہوولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں۔ کیونکہ عمل ترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں۔ ایسے ایسے عجائبات ظہور میں آتے رہتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اﷲتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے۔‘‘
2169ان عبارات سے یہ نتائج نکالے گئے ہیں کہ مرزاصاحب یہ بخوبی جانتے تھے۔ یسوع مسیح ایک ہی شخص ہے جیسا کہ ان کی اپنی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے یسوع کے نام سے جو کچھ کہا ہے اس سے عیسیٰ علیہ السلام مراد نہیں ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے بعض فقرات عیسائی پادریوں کے جوابات میں الزامی صورت میں بیان کئے گئے ہیں تو یہ جواب بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان فقرات میں اس قسم کے الفاظ کہ ’’حق بات یہ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ! الزامی جوابات نہیں ہوسکتے۔ بلکہ مرزاصاحب کی اپنی تحقیق کا نتیجہ شمار ہوں گے۔ نیز دافع البلاء کے حوالہ سے جو عبارت نقل کی گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے نزدیک بھی عیسیٰ علیہ السلام کو حصور نہ کہنے کے لئے مذکورہ بالا قصے مانع تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بھی جو عالم الغیب ہے یہ بات محقق تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں یہ عیوب موجود ہیں۔ اس لئے اس کا نام ’’حصور‘‘ نہ رکھا اور جو گالیاں مرزاصاحب نے پہلے ’’انجام آتھم‘‘ میں عیسیٰ علیہ السلام کو دی تھیں وہی یہاں مذکور ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکبازی اور راست گوئی کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے اور قرآن نے ان کی شان میں کہا ہے کہ ’’وجیہاً فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین‘‘ رسولوں کو دنیا میں صرف اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی اطاعت کریں۔ مرزاصاحب نے عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں نہایت گستاخانہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ان کے معجزات کو مسمریزم کہا ہے۔ حالانکہ مسمریزم اقسام سحر اور توجہ نفسانی کا ایک شعبہ ہے کہ جس کا کسی پاکباز یا نیک آدمی کے ساتھ اختصاص نہیں کیا جاسکتا۔ ہر بداخلاق بلکہ کافر تک اس کا عمل کر سکتا ہے اور پھر ایسے معجزات کو جس کو قرآن کریم نے نہایت شان اور عظمت سے ذکر فرمایا ہے۔ عمل ترب یا مسمریزم کہنا نہایت گستاخی اور بے ادبی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جومعجزات ثابت کئے گئے ہیں ان کو آج تک تمام علمائے امت اور عامتہ المسلمین قبول کرتے رہے ۔ مرزاصاحب نے ان کو مسمریزم وغیرہ کی طرف منسوب کر کے خواہ مخواہ ایک 2170رخنہ اندازی فرمائی۔ ان کا عیسیٰ علیہ السلام کی اس طرح توہین کرنی ایک وجہ کفر ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب نے بھی اپنی کتاب (ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۸، خزائن ج۲۳ ص۳۹۰) پر جو عبارت بالفاظ ذیل: ’’شاید کسی صاحب کے دل میں یہ بھی خیال آوے… تاموجب نزول غضب الٰہی‘‘ درج کی ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ’’اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کفر ہے اور سب پر ایمان لانا فرض ہے اور کسی نبی کا اشارہ سے بھی تحقیر کرنا سخت معصیت ہے اور موجب نزول غضب الٰہی۔‘‘
اس کی تائید میں منجانب گواہان مدعیہ چند سندات قرآن واحادیث اور اقوال بزرگان پیش کئے گئے ہیں۔ جن کی یہاں تفصیل درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف مختصراً یہ درج کیا جاتا ہے کہ سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے یہ کہا ہے کہ سب اور ناسزا کہنا۔ پیغمبروں کو اور طعن کہنا سرچشمہ ہے جمیع انواع کفر کا اور مجموعہ ہے جملہ گمراہیوں کا اور ہر کفر اس کی شاخ ہے اور کسی نبی کی ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے، اور کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ جس نے ناسزا کہا نبی کریم کو یا تنقیص کی مسلمان ہو یہ شخص یا کافر۔ سزا اس کی قتل ہے اور علماء نے کہا ہے کہ تعریض کرنا خدا کی سب کا،یا رسول کی سب کا، ارتداد ہے اور موجب قتل ہے۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ علماء نے جب توراۃ اور انجیل محرف سے کوئی چیز محرف نقل کی ہے۔ ان سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ کتابیں تحریف شدہ ہیں۔ مرزاصاحب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نالائق تھے۔ علماء کے طریق میں اور مرزاصاحب کے طریق میں کفر اور اسلام کا فرق ہے۔
مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے بیان کیا ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے آپ کو یوسف علیہ السلام سے بھی افضل کہا ہے اور کتاب (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر مرزاصاحب کہتے ہیں کہ: ’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔‘‘
اور یہ کہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔ کتاب (ازالتہ الاوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰) سے مرزاصاحب کا ایک اور شعر نقل کیاگیا ہے جو بالفاظ ذیل ہے:
’’ اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجا است تابنہد پابمنبرم
‘‘
مولوی انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن شریف نے یہود اور نصاریٰ کے عقائد کی بیخ کنی کی ہے اور ایک حرف موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام کی ہتک کا اشارۃً یا کنایتہ نہیں فرمایا۔ 2171اب اس عنوان توہین انبیاء کے دوسرے ہیڈنگ پر گواہان مدعیہ کے پیش کردہ دلائل بیان کئے جاتے ہیں۔
توہین انبیاء کے تحت گواہان مدعیہ نے یہ دکھلایا ہے کہ مرزاصاحب نے نہ صرف عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے۔ بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی توہین کی ہے۔ بحوالہ کتاب (حقیقت النبوۃ ص۲۶۵،۲۶۶) مرزاصاحب کے اس قول سے کہ: ’’میں بروزی طور وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔‘‘
یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مرزاصاحب کو نبوت ملنے سے خاتمیت محمدیہ میں فرق نہ آنے کے یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ مرزاصاحب اور سرور عالمﷺ ایک ہوں جو عقلاً اور نقلاً باطل ہے اور اگر رسول اﷲﷺ بطریق تناسخ معاذ اﷲ مرزاصاحب ہوئے تو تناسخ کفر اور اگر یہ معنی ہیں کہ سایہ ذی سایہ کا عین ہوتا ہے تو یہ ایسی باطل بات ہے کہ دنیا جانتی ہے۔ کسی شخص کا سایہ ذی سایہ نہیں ہوسکتا تو اب مرزاصاحب کانبی ہونا۔ رسول اﷲﷺ کا نبی ہونا نہیں ہے۔ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ سایہ اور ذی سایہ ایک ہوتا ہے تو رسول اﷲﷺ ظل اﷲ ہیں اور اس طرح وہ نعوذ باﷲ عین خدا ہیں اور مرزاصاحب عین محمد(ﷺ) ہیں تو اس سے صاف یہ نتیجہ ہے کہ مرزاصاحب عین خدا ہوئے۔ اگر ظل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ذی ظل کی کوئی صفت اس میں آجائے تو ایسی ظلیت تمام دنیا کو حاصل ہے۔ بہرحال مرزاصاحب کا دعویٰ اتحاد رسول اﷲﷺ کے ساتھ۔ رسول اﷲﷺ کی کھلی توہین ہے۔
مرزاصاحب کے اس قول سے کہ ’’تمام کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں۔ نبی کریم کے ظل ہیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ بروزی اور ظلی نبوت کوئی کم یا گھٹیا درجہ نبوت نہیں ۔ کیونکہ ظل اور بروز کے لفظ سے یہ دھوکا پڑ سکتا تھا کہ مرزاصاحب کی مراد یہ ہوگی کہ آئینہ میں جیسے کسی شخص کا عکس پڑتا ہے۔ اسی طرح مرزاصاحب میں بھی کمالات محمدیہ اور نبوت کا عکس 2172پڑا ہے۔ مگر مرزاصاحب نبی نہیں ہے۔ اس واسطے کہ کسی شخص کا عکس جو آئینہ میں ہے اس ذی عکس کی کوئی حقیقی صفت نہیں ہوسکتی۔ مرزاصاحب کی اس عبارت نے اس شبہ کو ایسا صاف اور حل کر دیا ہے کہ شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزاصاحب کا لفظ ظل عکس اور بروز کا ہے۔ مگر مراد ہے۔ حقیقت کاملہ نبوت۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ سب رسول اﷲﷺ کی ایک ایک صفت میں ظل تھے اور باوجود اس ایک صفت میں ظل ہونے کے وہ مستقل نبی صاحب شریعت تھے اور حقیقی نبی تھے اور مرزاصاحب تمام صفات میں ظل ہیں تو ثابت ہو گیا کہ مرزاصاحب تمام نبیوں سے بڑے تھے اور یہ ایک بہت بڑا کفر ہے۔ مرزاصاحب باربار تحریر کرتے ہیں کہ پہلے نبیوں کی نبوت براہ راست اور میری نبوت فیض محمدی کا اثر ہے۔ ان کا یہ قول بھی غلط ہو جاتا ہے اس واسطے کہ جب ہر ایک نبوت ان کے نزدیک آپ کا فیض تھا۔ اس طرح مرزاصاحب کی نبوت بھی آپ کا فیض ہے۔ لہٰذا یہ فرق کرنا بھی باطل ہوا۔
مرزاصاحب کے ایک اور قول سے جو (تریاق القلوب حاشیہ ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷) سے نقل کیاگیا ہے اور جو بالفاظ ذیل ہے۔
’’غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دو رویہ ہیں۔ اسی طرح ابراہیم نے اپنی خو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکارا گیا۔‘‘
سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ:
الف… اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ سرور عالمﷺ کوئی چیز نہیں رہتے اور آپ کا تشریف لانا بعینہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تشریف لانا ہے۔ گویا کہ ابراہیم علیہ السلام کے یہ دور ہیں۔ گویا اصل ابراہیم علیہ السلام رہے اور آئینہ رسول اﷲﷺ ہوئے اور چونکہ ظل اور صاحب ظل میں مرزاصاحب کے نزدیک عینیت ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے کو عین محمد کہتے ہیں تو جب محمدﷺ بروز ابراہیم علیہ السلام 2173ہوئے تو عین ابراہیم علیہ السلام ہوئے۔ اس سے صاف لازم آتا ہے کہ معاذ اﷲ رسول اﷲﷺ کا کوئی وجود بالاستقلال نہیں اور نہ ان کی نبوت کوئی مستقل شی ٔ ہے۔
ب… رسول اﷲﷺ ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے اور خاتم النّبیین آپ ہوئے کہ خاتم بروز اور ظل ہوتا ہے۔ صاحب ظل اور اصل نہیں ہوتا۔ اس طرح مرزاصاحب آنحضرتﷺ کے بروز ہوئے تو خاتم النّبیین مرزاصاحب ہوئے نہ کہ آنحضرتﷺ۔
ج… جب رسول اﷲﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے تو جملہ کمالات نبوت اگر مجتمع ہوں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام میں ہوں گے نہ کہ آنحضرتﷺ میں۔ یہ باطل اور بے معنی ہے۔
اس کے علاوہ یہ مضمون بھی فی نفسہ کہ آنحضرتﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوں اور ابراہیم علیہ السلام آنحضرت کے بروز ہوں۔ بے معنی اور فضول ہے اسلام میں جنم کا عقیدہ کفر ہے اور یہ ہے حقیقت مرزاصاحب کے نزدیک مجازی اور ظلی اور بروزی کی۔ رسول اﷲﷺ کی توہین کے سلسلہ میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے حسب ذیل مزید واقعات بیان کئے ہیں۔
کسی کے توہین کرنے کے یہ معنی ہیں کہ یا تو اس میں کوئی عیب جسمانی ظاہر کیا جائے یا کسی بداخلاقی کے ساتھ اس کو متہم کیا جائے یا کسی کے لقب کو جس کے ساتھ اﷲتعالیٰ نے اسے سرفراز فرمایا ہے۔ اس کا اپنے لئے دعویٰ کیا جائے یا کوئی ایسی چیز اس کے سامنے یا اس کی شان میں کہی جائے۔ جس سے اس کی دل آزاری ہو۔ چنانچہ چند آیات قرآنی جن میں اﷲتعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ نے نبی پاک محمدﷺ کو چند مراتب اور مقامات عالیہ سے مشرف فرمایا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اوپر چسپاں کرے تو لامحالہ رسول اﷲﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سمجھی جائے گی۔
2174چنانچہ آیات ذیل آیت ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ… الخ!‘‘ جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے شان معراج کا ذکر فرمایا گیا۔
دوسری آیت ’’ثم دنیٰ فتدلیٰ… الخ!‘‘ جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے جو قرب الٰہی جناب رب العزت سے حاصل ہوا تھا۔ یا بقول دیگر جبرائیل علیہ السلام سے ذکر ہوا ہے۔
وآیت ’’انا فتحنالک فتحاً مبینا… الخ!‘‘
وآیت ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ… الخ!‘‘
وآیت ’’انا اعطیناک الکوثر… الخ!‘‘
مرزاصاحب نے اپنے اوپر نازل ہونی بیان کی ہیں اور مقام محمود کو بھی اپنے حق میں تجویز کیا ہے اور ان اشعار میں جو آگے بیان کئے گئے ہیں کسی نبی کی استثناء نہیں کی گئی۔ ہمارے نبی کریم بھی انبیاء کی جماعت میں داخل ہیں۔ لفظ انبیاء کسی خاص نبی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ تمام پر حاوی اور مشتمل ہے۔ دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں اپنی افضلیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲) پر لکھتے ہیں:
’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘ اس میں بھی رسول اﷲﷺ کی توہین ہے۔
مرزاصاحب کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبیﷺ سے ظہور میں آئے۔‘‘
اور (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲) میں لکھتے ہیں کہ: ’’ان چند سطروں میں جو پیشین گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زائد ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اوّل درجہ پر خرق عادت ہیں۔‘‘
ان عبارات سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے معجزات کو تین ہزار قرار دینا اور اپنے معجزات دس لاکھ۔ کیونکہ معجزہ خرق عادت ہوتا ہے۔ مرزاصاحب نے رسول اﷲﷺ پر اپنی کتنی بڑی فضیلت بیان 2175کی؟ اس قسم کی توہین کو توہین لزومی کہا گیا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ عبارت اس لئے نہیں لائی گئی کہ تنقیص کرے۔ مگر وہ عبارت صادق نہیں آتی۔ جب تک تنقیص موجود نہ ہو۔ مذکورہ بالا عبارات میں اس قسم کی تنقیص پائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں مرزاصاحب کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۶، خزائن ج۲۲ ص۵۷۴) جو بالفاظ ذیل ہے۔ ’’ہاں اگر یہی اعتراض ہو کہ اس جگہ وہ معجزات کہاں ہیں تو میں صرف یہی جواب نہیں دوں گا کہ میں معجزات دکھلا سکتا ہوں۔ بلکہ خدا کے فضل وکرم سے میرا جواب یہ ہے کہ اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھلائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھلائے ہوں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) پر مرزاصاحب کا ایک شعر ہے جو الفاظ ذیل سے شروع ہوتا ہے۔ ’’
لہ خسف القمر المنیر وان لی
‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج کا اس میں شق القمر کے معجزہ کو چاند گرہن سے تعبیر کیاگیا ہے۔ اس میں رسول اﷲﷺ کی توہین اور شق القمر کا انکار ہے۔ زیادہ تر توہین لفظ لہ کے استعمال اور طرز خطاب سے اخذ کی جاتی ہے جس سے صاف طور پر تقابل دکھا کر اپنی فضیلت دکھلائی گئی ہے۔
اس طرح (خطبہ الہامیہ ص ت حاشیہ، خزائن ج۱۶ ص۳۱۲) ’’
ما الفرق بین آدم والمسیح
‘‘ کے ایک مقولہ سے ظاہر کیاگیا ہے کہ اس میں آدم علیہ السلام کی توہین کی گئی ہے اور اس میں جو یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ وعدہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ مسیح موعود شیطان کو شکست دے گا۔ یہ بالکل خلاف واقع جھوٹ ہے۔ قرآن شریف میں اس قسم کی کوئی آیت نہیں ہے۔
اشعار محولہ بیان مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ حسب ذیل ہیں: آنچہ داد است ہر نبی راجام
داد آن جام را مرابتمام
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے
کم نیم زاں ہمہ بروے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست ولعین
(نزول المسیح ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷،۴۷۸)
2176اور جو مضمون ان اشعار میں اداکیاگیا ہے۔ اس کے متعلق سید انور شاہ صاحبؒ گواہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ باہمی فضیلت کا باب انبیاء میں فرق مراتب کا ہے اور جو پیغمبر افضل ہے وہ کسی قرینہ سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ کسی دوسرے سے افضل ہے اور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کویہ پہنچایا ہے۔ مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس سے فوق متصور نہیں اور ایسی فضیلت دینا ایک پیغمبرکو اگرچہ واقعی ہو کہ جس میں دوسرے کی توہین لازم آتی ہو کفر صریح ہے۔
چھٹی وجہ تکفیر میں مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مرزا صاحب (ازالتہ الاوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’تواتر کی جو بات ہے وہ غلط نہیں ٹھہرائی جاسکتی اور تواتر اگر غیرقوموں کا ہو تو وہ بھی قبول کیا جائے گا۔‘‘
پھر اس کے ساتھ اگلے صفحہ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) پر جو کچھ لکھتے ہیں اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی پیشین گوئی : ’’ایسی متواتر پیشین گوئیوں سے جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھی اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھی اور یہ اوّل درجہ کی پیشین گوئی ہے جس کو سب نے قبول کر لیا تھا اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی اس کے ہم پہلو نہیں۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔‘‘
مگر اس کے بعد جب مرزاصاحب کو اس پیشین گوئی کا انکار مطلوب ہوا تو انہوں نے یہ کہا کہ ’’یہ بہت بے ادبی کی بات ہے کہ یہ کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے۔ یہ نہیں ہے مگر شرک عظیم یہ عقیدہ حیات کا مسلمانوں میں نصرانیوں سے آیا ہے۔ پھر اس عقیدہ کو انصاریٰ نے بہت مال خرچ کر کے مسلمانوں میں شائع کیا۔ شہروں میں اور گاؤں میں اس وجہ سے کہ ان میں کوئی شخص عقلمند نہ تھا اور پہلے مسلمانوں سے یہ قول نہیں صادر ہوا۔ مگرلغزش کے طور پر وہ لوگ معذورہیں۔ اﷲ کے نزدیک اس واسطے کہ وہ لوگ گنہگار تھے۔ مگر قصداً نہ تھے اور خطا کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ سادہ لوح آدمی تھے۔ اگر کوئی مجتہد خطا کر دے تو اﷲ اس کی غلطی کو معاف بھی کرتا ہے۔ ہاں جن کے پاس امام آیا۔ حکم بینات کے ساتھ اور جس نے رشد کو گمراہی سے ظاہر کر دیا اور پھر بھی انہوں نے اعتراض کیا وہ لوگ ماخوذ ہوں گے۔‘‘
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزا2177صاحب حیات عیسیٰ علیہ السلام کو شرک نہیں بلکہ شرک عظیم فرماتے ہیں اور وعدہ الٰہی کے مطابق بمنشاء آیت ’’
ان اﷲ لا یغفر ان یشرک… الخ!
‘‘ شرک کا معاف ہونا قطعاً محال ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ مرزاصاحب کے اس قول کی بناء پر ساری امت گمراہ تھی اور ساری امت مشرک وکافر تھی اور جو شخص تمام امت کو گمراہ اور کافر کہے وہ خود کافر ہوتا ہے۔ مرزاصاحب کے اس قول سے اسلام پر اتنا بڑا حملہ ہوا ہے کہ اسلام کی ایک ذرہ بھر وقعت نہیں رہ سکتی۔ جب کہ یہ ثابت بھی ہوگیا کہ یہ عقیدہ بطریق تواتر تمام ممالک اسلام میں پھیل گیا تھا اور سب نے قبول بھی کر لیا اور کسی چھوٹے بڑے کو اس کی برائی کی اطلاع نہ ہوئی۔ اگر مرزاصاحب تشریف نہ لاتے تو جیسے پہلی ساری امت معاذ اﷲ شرک عظیم میں مبتلا تھی۔ آگے اسی طرح شرک عظیم میں مبتلا رہتی اور ممکن ہے کہ آئندہ کوئی اور شخص مجدد یا رسول اﷲﷺ کا بروز بن کر ۲۰،۲۵ اور شرک ثابت کر دے تو جب قرآن اور حدیث اور مسلمانوں کا ایسا مذہب ہے کہ شرک عظیم کا اس میں تیرہ سو برس تک پتہ نہ لگا تو پھر اس مذہب کا کیا اعتبار رہے گا؟
چنانچہ مرزاصاحب ایک اور استفتاء (ضمیمہ حقیقت الوحی ص۴۴، خزائن ج۲۲ ص۶۶۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص بالقصد اس کا خلاف کرے اور یہ کہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہے۔ پس ان لوگوں میں سے ہے کہ جو قرآن کے کافر ہیں۔ ہاں جو لوگ مجھ سے پہلے گزر گئے وہ اپنے اﷲ کے نزدیک معذور ہیں۔‘‘
دوسری کتاب (دافع البلاء ص۱۵، خزائن ج۱۸ ص۲۳۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں کہ تاکہ کسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کو موت سے بچالیں اور دوبارہ اتار کر خاتم الانبیاء بنا دیں۔ بڑی جانکاہی سے کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
(الفضل ج۳ نمبر۳، مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۱۵ئ، ص۷) پر درج ہے: ’’پس ان معنوں میں مسیح موعود جو آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی کے ظہور کا ذریعہ ہے۔ اس کے احمد اور نبی اﷲ ہونے سے انکارکرنا گویا آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی اور نبی اﷲ ہونے سے انکار کرنا ہے۔ جو منکر کو دائرہ اسلام 2178سے خارج اور پکا کافر بنادینے والا ہے۔‘‘
اس ضمن میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے ایک وجہ کفر یہ بیان کی ہے کہ مرزاصاحب نے تمام مسلمانان عالم کو جوان کی جماعت میں داخل نہیں خواہ وہ ان کو کافر کہیں یا نہ کہیں اور بقول خلیفہ ثانی ان کو دعوت پہنچے یا نہ۔ خارج از اسلام قرار دیا ہے۔ جو شخص تمام امت محمدیہ کو اسلام سے خارج کہتا ہے وہ کس طرح خود کو کفر کی زد سے بچا سکے گا۔
ان وجوہ کفر کے علاوہ مرزاصاحب کے حسب ذیل اعتقادات بھی عامتہ المسلمین کے اعتقادات کے خلاف بیان کئے گئے ہیں۔
مرزاصاحب یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے معنی جو مسلمان اب تک سمجھتے تھے اس معنی پر قیامت نہیں ہونے کی۔ قرآن میں جو نفخ صور آیا ہے نہ اس سے یہ مراد ہے کہ واقعی کوئی نفخ صور ہے اور نہ یہ مراد ہے کہ قیامت قائم ہوگی۔ بلکہ اس سے مراد مرزاصاحب کا تشریف لانا ہے۔ قیامت کے متعلق جتنی آیات قرآن مجید میں ہیں اور جتنی احادیث میں ہیں ان تمام امور کا انکار ہے۔ صرف لفظوں کا انکار نہیں۔ مگر جن معنوں سے قرآن اور حدیث قیامت کو بیان کرتے ہیں۔ ان چیزوں کا انکار ہے۔ مردوں کا قبروں سے اٹھنا جو بہت سی آیات میں مذکور ہے اس کا بھی انکار ہے۔ وغیرہ وغیرہ!
مولوی غلام محمد صاحب شیخ الجامعہ گواہ مدعیہ نے مرزا صاحب کے چند دیگر اقوال بھی خلاف شریعت بیان کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
مثلاً مرزاصاحب اپنی کتاب (آئینہ کمالات ص۵۶۴، ۵۶۵، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے خواب میں اپنے آپ کو اﷲ کا عین دیکھا اور یقین کیا کہ میں وہی ہوں اور خدائی والوہیت میرے رگ وریشہ میں گھس گئی اور میں نے اس حالت میں دیکھا کہ ہم نیا نظام بنانا چاہتے ہیں۔ نئی زمین، نیا آسمان۔ پس پہلے میں نے آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ جس میں کوئی تفریق وترتیب نہ تھی۔ پھر میں نے ان کو مرتب کیا اور میں اپنے دل سے جانتا تھا کہ 2179میں ان کے پیدا کرنے پر قدرت رکھتا ہوں۔ پھر میں نے سب سے قریبی آسمان کو پیدا کیا۔ پھر میں نے کہا کہ ’’
انا زینا السماء الدنیا بمصابیح… الخ!
‘‘ پھر میں نے کہا کہ ہم انسان کو کیچڑ میں سے پیدا کریں گے۔‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے الوہیت کا دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو خالق جانا اور کوئی شخص جب خدائی کا دعویٰ کرے اور اپنے آپ کو خالق جانے تو وہ اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’خدا نے مجھے فرمایا کہ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔‘‘
اس کتاب (حقیقت الوحی ص۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دوں گا۔ کبھی خطا کروں گا کبھی ثواب کو پہنچوں گا۔‘‘
اس سے خدا کو غلطی کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔
اسی کتاب (حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۷۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ جیسے زمین وآسمان ہمارے ساتھ اسی طرح تمہارے ساتھ بھی ہے۔‘‘ اس سے مرزاصاحب نے اﷲتعالیٰ کی طرح اپنے آپ کو حاضر وناظر جانا۔
اسی کتاب (حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ تو جس چیز کو بنانا چاہے۔ پس ’’کن کہہ دے‘‘ وہ ہوجائے گی۔‘‘
(البشریٰ ج دوم ص۷۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں (اﷲتعالیٰ) نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ جس طرح میں ازلی ہوں۔ اس طرح تیرے لئے بھی میں نے ازلیت کے انوار کر دئیے ہیں اور تو بھی ازلی ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰) پر لکھتے ہیں کہ: ’’قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے کہ جس کے بے شمار ہاتھ اور بے شمار پیر ہیں اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہاء عرض وطول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مرزاصاحب خداوند تعالیٰ کو تیندوے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔
کتاب (ضمیمہ نمبر۳ تریاق ص س، خزائن ج۱۵ ص۴۹۷) پر مرزاصاحب لکھتے ہیں کہ: ’’نئی زندگی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جب 2180تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب تک موسیٰ مسیح اور یعقوب اور محمد مصطفیٰﷺ کی طرح نئے معجزات نہ دکھلائے جائیں۔ نئی زندگی انہی کو ملتی ہے جن کا خدا نیا ہو۔‘‘
اس سے مرزاصاحب نے خدا کو حادث بتلایا اور یہ عقائد وہ ہیں جو مرزاصاحب نے اﷲ تعالیٰ کے متعلق رکھے ہیں اور ان سے یقینا ایک مسلمان مرتد ہو جاتا ہے۔
قرآن شریف کے متعلق مرزاصاحب کا عقیدہ حسب ذیل ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷) پر لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔ ’’ان دلائل کے علاوہ مدعیہ کی طرف سے چند نظائر بمثل مسیلمہ کذاب وغیرہ کے بھی پیش کی گئی ہیں کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کیا تھا اور اس بناء پر انہیں قتل کیاگیا ان کی زیادہ تفصیل درج کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
اس تمام بحث سے جو اوپر بیان ہوئی حسب ذیل نتائج برآمد کئے گئے ہیں۔
۱… مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت شرعیہ تشریعہ کیا جو باتفاق امت اور باتفاق مرزا صاحب کفر ہے۔ مرزاصاحب نے اپنے کلام میں شریعت کی تشریح بھی کر دی ہے۔
۲… مرزاصاحب نے اقرار فرمایا کہ خاتم النّبیین کے بعد مطلق نبوت منقطع ہے اور جو دعویٰ نبوت کرے وہ کافر ہے۔ مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت کیا اس لئے کافر ہوئے۔
۳… مرزاصاحب نے یہ بھی فرمایا کہ خاتم النّبیین کے بعد کوئی نبی جدید یا قدیم نہیں آسکتا اور اس کو قرآن کا انکار کرنا بتلایا ہے۔ لیکن پھر خود دعویٰ نبوت کیا۔
۴… مرزاصاحب نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ آپ کا خاتم الانبیاء ہونا۔ خاتم النّبیین اور ’’لا نبی بعدی‘‘ سے ثابت ہے اور پھر اس کے بعد یہ کہا کہ جو ایسا کہے کہ آپ کے بعد نبوت نہیں آسکتی وہ خود کافر ہے۔ اس لئے بھی مرزاصاحب کافر ہوئے۔
2181۵… مرزاصاحب نے جواز نبوت کو رسول اﷲﷺ کے بعد کفر قرار دیا ہے۔ اب مرزاصاحب اس نبوت کو فرض قرار دیتے ہیں اور ایمان قرار دیتے ہیں۔ یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے۔
۶… مرزاصاحب دروازہ نبوت کو کھول کر اپنے ہی تک محدود نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ قیامت تک کھلا رہے گا۔ اس وجہ سے بھی کافر ہوئے۔
۷… مرزاصاحب یہ نہیں کہتے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی دوسرا نبی آئے گا۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہزار بار محمد رسول اﷲﷺ ہی خود بروز فرمائیں۔ گویا رسول اﷲﷺ جیسے ہزاروں لوگ یا ہزاروں نبی اب واقع ہوسکتے ہیں۔ امکان ذاتی نہیں بلکہ امکان وقوعی ہے۔ پھر مرزاصاحب نے یہ کہا کہ سرور عالم کی ایک بعثت پہلے تھی۔ ایک بعثت ثانیہ ہوئی اس کا حاصل تناسخ ہے جو تناسخ کا قائل ہے وہ کافر ہے۔
۸… مرزاصاحب کہتے ہیں کہ میں عین محمد ہوں۔ اس میں سرور عالم کی توہین ہے۔ اگر واقعی عین ہیں تو کھلا ہوا کفر۔ اگر عین محمد نہیں ہیں تو ان کے بعد دوسرے نبی ہوئے اورختم نبوت کی مہر ٹوٹ گئی۔ یہ اور وجہ کفر کی ہوئی۔
۹… مرزاصاحب نے دعویٰ وحی کیا اور ساتھ ہی دعویٰ وحی نبوت کیا جو کفر ہے۔
۱۰… مرزاصاحب نے اس وحی کو قرآن ،تورات اور انجیل کے برابر کہا۔ اس بناء پر قرآن آخر الکتب باقی نہیں رہتا۔ یہ بھی وجہ کفر ہے۔
۱۱… مرزاصاحب نے اپنے اقرار سے اور تمام علماء نے اس کی تصریح کی کہ جو شخص کسی نبی کو گالی دے یا توہین کرے وہ کافر ہے۔ مرزاصاحب نے عیسیٰ علیہ السلام کی کئی وجوہ سے توہین کی۔ ہر توہین موجب کفر ہے۔ علاوہ ازیں مرزا صاحب نے آدم علیہ السلام کی، سرور عالم کی توہین کی۔ اس لئے بھی کافر ہوئے۔
2182۱۲… مرزاصاحب نے احکام شریعت کو بدلا۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی مرزاصاحب پر کفر لازم آتا ہے۔ مرزاصاحب نے فرمایا کہ کسی احمدی عورت کا غیراحمدی سے نکاح جائز نہیں۔ نیز یہ کہ کسی غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ نیز فرمایا کہ ’’پس یاد رکھو کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔‘‘
(اربعین نمبر۳ حاشیہ ص۲۸، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
مرزاصاحب نے فرمایا ہے کہ ’’جو مجھے نہ مانے وہ کافر ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
۱۳… مرزاصاحب نے نفخ صورکا انکار کیا۔ مردوں کے قبروں سے اٹھنے سے انکار ہے۔ جس طریق سے قیامت کی خبر قرآن اور حدیث میں آئی۔ ان سے بالکل انکار ہے۔ صرف ظاہری الفاظ ہی رکھے۔ مگر معنی الٹ بیان کئے۔ یہ وجوہ بھی مرزاصاحب کی تکفیر کے ہیں۔ لہٰذا ان وجوہ پر کسی مسلمان مردوعورت کا کسی احمدی مرد عورت سے نکاح جائز نہیں۔ اگر نکاح ہوگیا تو اور نکاح کے بعد کوئی اس مذہب میں داخل ہو جائے تو نکاح فوراً فسخ ہو جائے گا۔
اور اپنے اس ادعا کی تائید میں چند دیگر علماء کے فتاوے بھی پیش کئے گئے ہیں جو مسل کے ساتھ شامل ہیں اور سید انور شاہ صاحب گواہ نے مصر اور شام کے دو مطبوعہ فتوؤں کا حوالہ بھی اپنے بیان میں دیا ہے۔
تحریری فتوے جو مسل پر لائے گئے ہیں حسب ذیل مقامات کے علماء کے ہیں۔ مکہ معظمہ، ریاست رام پور، دارالافتاء ریاست بھوپال، ہمایوں (سندھ) بریلی۔ ڈابھیل، دہلی سہارن پورتھانہ بھون ملتان علماء کی فہرست میں شیخ عبداﷲ صاحب رئیس القضاۃ مکہ معظمہ، مفتی کفایت اﷲ صاحب صدر جمعیت علماء ہند اور مولوی اشرف علی صاحب کے اسماء بھی ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے ان دلائل کا جو مرزاصاحب کی تکفیر کے متعلق مدعیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں۔ تین طریق پر جواب دیا گیا ہے۔
اوّل! یہ کہ مرزاصاحب کی جن عبارات سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان سے ان کے عقائد کفریہ ظاہر ہوتے ہیں۔ ان عبارات کے ماسبق اور مابعد کی عبارات کو مدنظر نہیں رکھاگیا اور نہ ہی سیاق وسباق عبارت کو زیرغور لایا گیا ہے اگر ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ان عبارات پر غور کیا جاوے تو ان سے وہ نتائج اخذ نہیں ہوتے جو گواہان مدعیہ نے بیان کئے ہیں۔
دوسرا! یہ کہ مرزاصاحب نے خود دیگر مقامات پر ان عبارات کی تشریح کر دی ہے۔ اس لئے ان عبارات سے وہی مفہوم لیا جائے گا جو انہوں نے خود بیان کیا اور کہ دیگر مقامات پر ایسی عبارات بھی موجود ہیں کہ جن کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کہا جاسکتا کہ ان عبارات زیر اعتراض سے مرزاصاحب کا وہی مدعا تھا جو گواہان مدعیہ نے اخذ کیا۔
تیسرا! یہ کہ مرزاصاحب کے اقوال زیر بحث میں سے بعض اقوال ایسے ہیں جو دیگر بزرگان دین سے بھی سرزد ہوئے۔ لیکن فریق مدعیہ کے نزدیک وہ بزرگان مسلمان تھے اس لئے ان اقوال کی بناء پر مرزاصاحب کے خلاف کیونکر فتویٰ تکفیر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام امور تشریح طلب ہیں اور اپنے اپنے موقعہ پر ان کی تفصیل بیان کی جائے گی اور وہاں ان کا پورا جواب بھی دیا جائے گا۔ یہاں ان کے متعلق مختصراً یہ درج کیا جاتا ہے کہ عبارات زیربحث میں سے بعض ایسی ہیں کہ جو اپنے اندر ایک مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی ایسا ابہام نہیں ہے کہ جو کسی تشریح یا توجیہ کا محتاج ہو۔ اس لئے ایسی عبارات کے نہ ماسبق اور مابعد دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ سیاق وسباق معلوم کرنے کی۔ لہٰذا ان فقرات کی اپنی ترتیب سے ہی جو مفہوم اخذ ہوگا وہی مراد لیا جائے گا۔
امر دوم! کے متعلق اوّل تو مرزاصاحب کی کتابوںکے مطالعہ سے یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے بہت سے اقوال میں تعارض ہے اور اس تعارض کو کسی صاف تشریح یا وضاحت سے رفع نہیں کیا گیا۔ دوسرا جیسا کہ اوپر درج کیاگیا ہے بعض عبارات فی نفسہ ایسے مستقل جملے ہیں کہ جو اپنے مفہوم کی خود وضاحت کر رہے ہیں۔ اس لئے تاوقتیکہ یہ نہ دکھلایا جاوے کہ یہ کلمات واپس لئے 2183گئے۔ دیگر کلمات نہ ان کے قائمقام تصور ہوسکتے ہیں اور نہ ان کی تشریح بن سکتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ان اقوال کو ان اقوال کے تحت سمجھا جاوے۔ جو مرزاصاحب نے دوسری جگہ بیان کئے ہیں۔ کیونکہ وہ اقوال اقوال زیر بحث کو مسترد نہیں کرتے۔ بلکہ جیسا کہ مدعیہ کے گواہ سید انور شاہ صاحب نے بیان کیا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ روش مرزا نے عمداً اختیار کی تاکہ نتیجہ گڑ بڑ رہے اور ان کو بوقت ضرورت مخلص اور مفرباقی رہے۔
امر سوم! کے متعلق اوّل تو ان بزرگان کے اقوال بعینہ ان الفاظ میں نہیں جو مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں۔ دوسرا مقدمہ ہذا میں ان بزرگان کے مسلمان یا نہ مسلمان ہونے کا سوال زیربحث نہیں ہے اور نہ ہی ان کے دیگر حالات پیش نظر ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب کے مقابلہ میں ان کے الفاظ پیش کرنا ایک سعی لاحاصل ہے۔
علاوہ ازیں سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ صوفیاء کے ہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ان پر حالات گزرتے ہیں اور ان حالات میں کوئی کلمات ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں جو ظاہری قواعد پر چسپاں نہیں ہوتے اور بسا اوقات غلط راستہ لینے کا سبب ہو جاتے ہیں۔ صوفیاء کی تصریح ہے کہ ان پر کوئی عمل پیرا نہ ہو اور تصریحیں کرتے ہیں کہ جس پر یہ احوال نہ گذرے ہوں۔ وہ ہماری کتاب کا مطالعہ نہ کرے۔ مجملاً ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص جو کسی حال کا مالک ہوتا ہے دوسرا خالی آدمی ضرور اس سے الجھ جائے گا۔ لیکن دین میں کسی زیادتی کمی کے صوفیاء میں سے بھی کوئی قائل نہیں اور ایسے مدعی کو کافر بالاتفاق کہتے ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے مرزاصاحب کی کتابوں سے ان کے چند عقائد بیان کئے جاکر یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث وفقہ کی رو سے جن باتوں کو ایک شخص کے مؤمن اور مسلمان ہونے کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے وہ سب مرزاصاحب میں ان کی جماعت میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان سب پر خلوص دل اور صمیم قلب سے یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں اور جن 2185اعمال صالحہ کے بجالانے کا حکم دیاگیا ہے۔ وہ سب بجا لاتے ہیں اور ان کا دین وہی ہے جو آنحضرتa خدا کی طرف سے لائے اور وہ ایمان رکھتے ہیں کہ دین اسلام کے سوا اگر کوئی شخص کوئی اور دین اختیار کرے تو وہ عند اﷲ ہر گز مقبول نہیں ۔ گواہان مدعیہ نے انہیں کافر، مرتد، ضال اور خارج از اسلام قرار دیا ہے اور ضروریات دین کا منکر ٹھہرایا ہے۔ لیکن جن امور کی بناء پر انہوں نے کافر اور مرتد کہاہے۔ ان کا ضروریات دین سے ہونا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے اپنے فتویٰ تکفیر کی بناء بعض علماء کے اقوال پر رکھی ہے اور اس ضمن میں ان علماء کے طرز افتاء پر اعتراض کرتے ہوئے چند کتب فقہ کے حوالوں سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اگر ان امور کو جو ان حوالہ جات میں درج ہیں مدنظر رکھا جاوے تو اس سے بڑے بڑے بزرگ اور تمام شیعہ اور وہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان جو یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اگر جنت میں ان موجودہ مولویوں نے بھی جانا ہے تو ہمیں ایسی جنت نہیں چاہئے اور وہ تمام مسلمان جو سرکاری دفتر میں ملازم ہیں اور اپنے ہندو یا عیسائی افسران کو تحائف دیتے ہیں کافر ہیں اور ان عورتوں کے لئے جو اپنے خاوندوں کی بدسلوکی سے تنگ ہیں اور ان کے عقد نکاح سے نکلنا چاہتی ہیں یہ اچھی ترکیب بتلائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت یہ کہہ دے کہ میں کافر ہوئی ہوں تو معاً وہ کافر ہو جائے گی اور اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور وہ تمام مسلمان جو گاندھی ٹوپی یا ہیٹ لگاتے ہیں کافر ہیں اور اس طرح وہ مسلمان بھی جو ہندو اور انگریز افسروں کو سلام کرتے ہیں اور اس طرح سکول اور کالجوں کے وہ مسلمان طلباء جو اپنے ہندو یا عیسائی استادوں کو تعظیماً سلام کرتے ہیں اور اس طرح ہزارہا وہ تعلیم یافتہ اشخاص جو مولویوں کی دقیا نوسی باتوں پر جنہیں یہ لوگ علم اور دین خیال کرتے ہیں ہنستے ہیں کافر ہیں اور اس طرح وہ مسلمان جو کسی غیرمسلم کو اس کے سوال کرنے پر کہ مجھ پر اسلام کی صداقت بیان کر، کسی مولوی کے پاس برائے جواب لے جاتے ہیں کافر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ!
2186پس اگر ان علماء اور مولویوں کے کہنے پر کسی کو کافر بنایا جاسکتا ہے تو مذکورہ بالا امور کے تحت تمام ایسے مسلمان جو اوپر بیان کئے گئے ہیں کافر ہیں اور ان کا نکاح فسخ ہونا چاہئے۔ لیکن اصول مذکورہ بالا پر علماء کا موجودہ زمانہ میں عمل نہیں ہے اور ان امور کو جو ان حوالہ جات میں درج ہیں۔ ضروریات دین میں سے سمجھا گیا ہے اور ان کے منکر کو کافر اور مرتد کہا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیاگیا ہے کہ گواہان مدعیہ نے اپنے بیانات کی تائید میں چند مفسرین کے اقوال نقل کئے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ مفسرین کے اقوال کو بلا سوچے سمجھے من وعن تسلیم کر لیا جاوے اور جو کچھ وہ اپنے خیال وعقیدہ کے مطا بق لکھ گئے اسے حرف بحرف مان لیا جاوے۔ اس لئے ہمیں حسب تعلیم قرآن مجید ضروری ہوا کہ ہم خود بھی قرآن مجید کی آیات میں غور وتدبر کریں اور تحقیق کے بعد جو اقرب الی الصواب ہو اس کو اختیار کریں۔ پس مفسرین کے اقوال پر عقائد کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہے۔ علماء اور ائمہ کی اندھی تقلید نہایت مذموم ہے۔ پس یہ ضروری نہیں کہ پہلے علماء جو کچھ تفسیروں میں لکھ گئے ہم آنکھ بند کر کے ان پر ایمان لے آویں۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان فتوؤں اور اقوال کو کتاب اﷲ، سنت رسول اﷲﷺ اور عقل سلیم کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو قرآن اور سنت سے صحیح ثابت ہو، اسے اختیار کریں اور مخالف کو چھوڑ دیں اور امت کے ان علماء کے متعلق ہمارا مذہب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نیک نیتی سے جو باتیں موافق اور مخالف پائیں یا جو وہ سمجھ سکے وہ ہم تک پہنچادیں۔ جس کے لئے وہ تمام ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔
اس کے آگے پھر وجوہات تکفیر کا جواب شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے تحت میں اس بحث کا جواب درج کیا جاتا ہے۔
مرزاصاحب کے عقائد کے متعلق سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے نہایت عمدہ جواب دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب چونکہ مادر زاد کافر نہ تھے اور ابتداًء ان کی تمام اسلامی عقائد پر نشوونما ہوئی۔ اس لئے انہی کے وہ پابند تھے اور وہی کہے پھر تدریجاً ان سے الگ ہونا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ آخری اقوال میں بہت سی ضروریات دین کے قطعاً مخالف ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ 2187انہوں نے باطل اور جھوٹ دعوؤں کو رواج دینے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ اسلامی عقائد کے الفاظ وہی قائم رکھے جو قرآن اور حدیث میں مذکور ہیں اور عام وخاص مسلمانوں کی زبانوں پر جاری ہیں۔ لیکن ان کے حقائق کو ایسا بدل دیاجس سے بالکل ان عقائد کا انکار ہوگیا۔ اس لئے مرزاصاحب کی کتابوں سے ایسے اقوال پیش کرنا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعض عقائد میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ شریک ہیں۔ ان کے اقوال وافعال کفریہ کا کفارہ نہیں بن سکتے۔ جب تک اس کی تصریح نہ ہو کہ ان عقائد کی مراد بھی وہی ہے جو جمہور امت نے سمجھی اور پھر اس کی تصریح نہ ہو کہ جو عقائد کفریہ انہوں نے اختیار کئے تھے۔ ان سے توبہ کر چکے ہیں اور جب تک توبہ کی تصریح نہ ہو چندعقائد اسلام کے الفاظ کتابوں میں لکھ کر کفر سے نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ زندیق اس کو کہا جاتا ہے کہ جو عقائد اسلام ظاہر کرے اور قرآن وحدیث کے اتباع کا دعویٰ کرے۔ لیکن اس کی ایسی تاویل اور تحریف کر دے، جن سے اس کے حقائق بدل جائیں۔ اس لئے جب تک اس کی تصریح نہ دکھلائی جاوے کہ مرزاصاحب ختم نبوت اور انقطاع وحی کے ان معنی کے لحاظ سے قائل ہیں جس معنی سے کہ صحابہ، تابعین اور تمام امت محمدیہ قائل ہے۔ اس وقت تک ان کی کسی ایسی عبارت کا مقابلہ میں پیش کرنا مفید نہیں ہوسکتا۔ جس میں خاتم النّبیین کے الفاظ کا اقرار کیا۔ اسی طرح نزول مسیح وغیرہ عقائد کے الفاظ کا کسی جگہ اقرار کر لینا یا لکھ دینا بغیر تصریح مذکور کے ہر گز مفید نہیں ہے۔ خواہ وہ عبارت تصنیف میں مقدم ہو یا مؤخر۔
یہ بات ثابت ہوچکی کہ مرزاصاحب اپنی اخیر عمر تک دعویٰ نبوت پر قائم رہے اور اپنے کفریہ عقائد سے کوئی توبہ نہیں کی۔ علاوہ ازیں اگر یہ ثابت بھی نہ ہو تو کلمات کفریہ اور عقائد کفریہ کہنے اور لکھنے کے بعد اس وقت تک ان کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ جب تک ان کی طرف سے ان عقائد سے توبہ کرنے کا اعلان نہ پایا جاوے اور یہ اعلان ان کی کسی کتاب یا تحریر سے ثابت نہیں پایا گیا۔
عدالت ہذا کی رائے میں مرزاصاحب کے عقائد کی بابت یہ جواب بہت جامع اور مدلل ہے اور گو کہ مختار مدعیہ نے اپنی بحث میں ان کے ہر عقیدہ پر تفصیلی بحث بھی کی ہے۔ لیکن اس کی 2188موجودگی میں ان عقائد پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ مختار مدعیہ نے بحث کی ہے کہ مرزاصاحب کا خود کلمہ طیبہ پر بھی پورا ایمان نہ تھا۔ کیونکہ اس کلمہ پر اس صورت میں ہی مکمل ایمان تصور ہوسکتا ہے۔ جب کہ خداوند تعالیٰ کی صفات اور رسول اﷲﷺکی خصوصیات پر پورا ایمان ہو۔ مرزاصاحب کے بعض اقوال سے یہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اندر الوہیت کو موجزن پایا اور اپنے آپ میں خدائی طاقتیں اور صفتیں موجود دیکھیں اور اپنے آپ کو رسول اﷲﷺ کی خصوصیات اور مدارج میں شریک بتلاتے ہیں اور انہیں خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتے۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پر انہیں لوازم کے تحت ایمان رکھتے ہیں۔ جیسا کہ دیگر مسلمان۔ اس لئے بھی انہیں مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن عدالت ہذا کی رائے میں ایسی تفصیلی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب کی تکفیر کا سوال مقدمہ ہذا میں اصل سوال مابہ النزاع نہیں بلکہ ایک ضمنی سوال ہے۔ اصل سوال مدعا علیہ کے ارتداد اور تکفیر کا ہے۔ اس لئے مرزاصاحب کے اعتقادات کے متعلق صرف اس حد تک بحث کی ضرورت ہے جس حد تک کہ مدعا علیہ کے خلاف امور مذکورہ بالا کے تصفیہ کے لئے روشنی پڑ سکتی ہے۔
علاوہ ازیں اگر اس بحث کو بفرض محال صحیح بھی تسلیم کر لیا جاوے تو پھر یہ دکھلانا پڑے گا کہ مدعا علیہ کا کلمہ طیبہ پر بھی ویسا ہی ایمان ہے۔ جیسا کہ مرزاصاحب کا، اور اس کا حل مشکلات سے خالی نہیں ہوگا۔ کیونکہ مدعا علیہ کی نیت کا اندازہ پورے طور نہیں لگایا جاسکتا۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جن امور کی بناء پر مرزاصاحب اور ان کی جماعت کو ضروریات دین کا منکر قرار دیا جاکر کافر اور مرتد کہاگیا ہے ان کا ضروریات دین سے ہونا قرآن مجید یا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں کیاگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ کی طرف سے یاتو مدعیہ کی پیش کردہ شہادت اور بحث کو بغور ذہن نشین نہیں رکھاگیا یا دیدہ دانستہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گواہان مدعیہ نے بہت تکرار اور شدومد کے ساتھ اور خود مرزاصاحب کے 2189اپنے حوالوں سے یہ دکھلایا ہے کہ رسول اﷲa کے خاتم النّبیین ہونے کا عقیدہ بایں معنی کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔ نص قرآن سے اور احادیث متواترہ سے اور اجماع امت سے ضروریات دین سے ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے بہت سی آیات قرآن اور احادیث پیش کی ہیں کہ جن میں سے بعض کی صحت کے متعلق جیسا کہ آگے دکھلایا جائے گا۔ خود مدعا علیہ کو بھی انکار نہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کیونکر یہ کہاگیا ہے کہ انہوں نے قرآن یا حدیث سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ البتہ اگر یہ کہا جاتا کہ وہ ثبوت قوی نہیں۔ توکچھ بات بھی تھی۔ لیکن یہ کہنا بالکل خلاف واقع ہے کہ ان کی طرف سے قرآن اور احادیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ مدعیہ کی طرف سے بیان کردہ وجو ہات تکفیر اوپر درج کی جاچکی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض کے متعلق (گو کہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ آگے دکھلایا جائے گا) یہ کہا جاسکے کہ وہ ضروریات دین میں سے نہیں ہیں۔ مگر مسئلہ ختم نبوت کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ضروریات دین سے نہیں۔ ضروریات دین کی اگرچہ ایک وسیع اصطلاح ہے اور ممکن ہے کہ بعض علماء نے اس کے تحت میں اپنی دانست کے مطابق بہت سے ایسے امور بھی داخل کر دئیے ہوں کہ جو بحث طلب ہوں۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل سے ہے۔ ضروریات دین کا مفہوم گواہان مدعیہ نے اپنے بیانات میں ظاہر کر دیا ہے۔ جو اوپر گزر چکا ہے۔ اگر اس اصطلاح کے لفظی معنی بھی مراد لئے جاویں تو ان الفاظ کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ امور جو کسی دین میں داخل رہنے کے لئے ضروری ہوں اور جن کے نہ ماننے سے وہ شخص اس دین کا پیرو نہ سمجھا جاسکے۔ ضروریات دین سے ہوتے ہیں رسول اﷲﷺ کا خاتم النّبیین ماننا بایں معنی کہ آپ آخری نبی ہیں۔ مذہب اسلام میں داخل رہنے کے لئے ضروری اور لابدی ہے۔ کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی اور نبی مانا جائے تو مدعیہ اور اس کے گواہان کے نزدیک نہ یہ صرف نص قرآن اور احادیث متواترہ کا انکار ہوگا بلکہ معمول بہ اس نئے نبی کی وحی ہو جائے گی نہ کہ قرآن اور اس سے وہ شخص مذہب اسلام سے خارج ہو جائے 2190گا اور یہ بات کہ رسول اﷲﷺ کا آخری نبی ماننا نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک ان کے مذہب کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ بلکہ اس کی نظیر دیگر مذاہب میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً یہود اور نصاریٰ جن کے مذاہب کی تفریق محض اس بناء پر ہے کہ وہ اپنے اپنے پیشواؤں کے بعد اور کسی نبی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح مسلمانوں کا یہ عقیدہ چلا آیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں اب اگر کوئی مسلمان کسی اور کو نبی مانے تو وہ مذہب اسلام کا پیرو نہیں سمجھا جائے گا۔ اس لئے ختم نبوت سے بڑھ کر اور کون سا مسئلہ ضروریات دین میں سے ہوسکتا ہے۔ یہ آگے دکھلایا جائے گا کہ اس بارہ میں جو اسناد پیش کی گئی ہیں وہ کس فریق کی معتبر اور زیادہ وزن دار ہیں۔
یہاں میں یہ درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں۔ اس لئے بھی ان کے دلوں میں یہ مسئلہ گھر نہیں کر سکتا کہ مرزا صاحب کو نبی ماننے میں کیا قباحت ہوتی ہے کہ جس پر اس قدر چیخ وپکار کی جارہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی کچھ تھوڑی سی حقیقت بیان کر دی جاوے۔
مدعیہ کی طرف سے نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا رہا ہے اور نبی اور رسول میں فرق بیان کیاگیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو۔ فریق ثانی نے بحوالہ نبر اس ص۸۹۔ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اﷲتعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے۔ بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے۔ کتاب لائے یا نہ لائے۔ رسول کے لئے کتاب لانا شرط ہے۔ اس طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ جو صاحب کتاب ہو۔ یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے۔
یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں۔ اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو۔ اس سلسلہ میں مجھے مولا نا محمود علی صاحب پروفیسر راندھیر کالج کی کتاب ’’دین وآئین‘‘ 2191دیکھنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے معترضین کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت کی حقیقت یہ بیان کی کہ جس شخص کے دل میں کوئی نیک تجویز بغیر ظاہری وسائل اور غور کے پیدا ہو۔ ایسا شخص پیغمبر کہلاتا ہے اور اس کے خیالات کو وحی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی۔ آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکائیکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے۔ میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جاسکتی اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور ایک مصلح قوم ہوتا ہے۔ جو اپنی قوم کی نکبت اور زبوں حالی سے متاثر ہوکر انہیں فلاح وبہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کے اندر انضباط وایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنادیتا ہے۔ اس کی حقیقت قوم کے ایک امیر کے قسم کی ہوتی ہے۔ جن کے ہر حکم کا اتباع اسلئے لازمی ہوتا ہے کہ انحراف سے قوم کی اجتماعی قوت میں انتشار پیدا ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور وہ دنیاوی نعمتیں جو اس کے حسن تدبیر سے حاصل ہوئی تھیں۔ ان کے چھن جانے کا احتمال ہوتا ہے۔
اس کا حسن تدبر، عقل حکمت ذہنی انسان کے ارتفاع کی بہترین کڑی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے ماحول کا بہترین مفکر شمار کیا جاتا ہے۔ کثرت ریاضت سے برائی کی قوتیں اس سے سلب ہو جاتی ہیں اور نیکی کی قوتیں نمایاں طور پر ابھرآتی ہیں۔ انہی قوتوں کا نام ان کے نزدیک ابلیس اور ملائکہ ہے۔ اس کا جواب پھر انہوں نے بحوالہ آیات قرآنی یہ دیا ہے۔
2192کہ رسول بلاشبہ مصلح اور مدبر ملت ہوتا ہے۔ لیکن اس کی حقیقت دنیاوی مصلحین اور مدبرین سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔ دنیاوی مفکرین ومدبرین اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں اور ان کا فلسفہ اصلاح وبہبود ان کی اپنی پرواز فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جو کبھی صحیح اور کبھی غلط ہوتا ہے۔ برعکس اس کے انبیاء کرام علیہم السلام مامور من اﷲ ہوتے ہیں اور ان کا سلسلہ اس دنیا میں خاص مشیت باری تعالیٰ کے ماتحت چلتا ہے۔ وہ نہ اپنے ماحول سے متاثر اور نہ احوال وظروف کی پیداوار ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کا انتخاب مملکت ایزدی سے ہوتا ہے اور ان کا سرچشمہ علوم وہدایت علم باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ جس میں کسی ہود خطا کی گنجائش نہیں۔ ان کا سینہ علم لدنی سے معمور اور ان کا قلب تجلیات نور ازلی سے منور ہوتا ہے۔
دنیاوی سیاست وتفکر صفت ہے جو اکتساباً حاصل ہوتی ہے اور مشق ومہارت سے یہ ملکہ بڑھتا ہے۔ لیکن نبوت ایک موہبت ربانی اور عطائے یزدانی ہے۔ جس میں کسب ومشق کو کچھ دخل نہیں۔ قوم وامت کی ترقی ان کے بھی پیش نظر ہوتی ہے۔ لیکن سب سے مقدم اخلاق انسانی کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ اس کا پیغام زمان ومکان کی قیود سے بالا ہوتا ہے اور وہ تمام انسانوں کو راستہ دکھلانے والا اور ان کا مطاع ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت میں خدا کی اطاعت اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے اور جو لائحہ حیات اس کی وساطت سے دنیا کو ملتا ہے اس میں کوئی دنیاوی طاقت ردوبدل نہیں کر سکتی۔ بلکہ دنیا بھر کی عقول میں جہاں کہیں اختلاف ہو اس کا فیصلہ بھی اس کی مشعل ہدایت سے ہوسکتا ہے۔ ان کو خدائی پیغام ملائکہ کی وساطت سے ملتے ہیں جو اگرچہ عالم امر سے متعلق ہونے کی وجہ سے سرحد ادراک انسانی سے بالا تر ہیں۔ لیکن ان کا وجود محض انسان کی ملکوتی قوتیں نہیں ہیں۔
اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کسی دوسرے نبی کو تسلیم کرنے سے کیا قباحت لازم آئے گی۔ تصریحات قرآنی کی رو سے نیا نبی مطاع ہو جائے گا۔ اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کی ہر بات 2193کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔ وہ جو حکم دے گا اس کی تعمیل لازمی ہوگی۔ ورنہ اعمال کے خبط ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ اس کی شان میں ذرا بھر گستاخی نہیں کی جاسکے گی۔ بلکہ اس کے سامنے اونچا بولنا بھی گناہ ہوگا۔ اس کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہوگی اور اس سے روگردانی ایمان سے خارج ہونے کا باعث اور موجب عذاب الٰہی ہوگی۔
اس لئے مدعیہ کی طرف سے بحوالہ آیات قرآنی واحادیث یہ کہاگیا ہے کہ رسول اﷲa کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور کوئی مسلمان کسی اور شخص کو نبی مانے تو دائرہ اسلام میں داخل نہیں رہ سکتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کتب فقہ سے جن عبارات کا حوالہ دیا جاکر علماء کے طرز افتاء پر اعتراض کیاگیا ہے۔ ان کے متعلق ایک تو خود مدعا علیہ کے اپنے گواہان کا بیان ہے کہ فی زمانہ ان پر علماء کا عمل نہیں۔ دوسرا مدعیہ کی طرف سے ان حوالہ جات کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کلمات کفر ہیں۔ نہ کہ فتاویٰ تکفیر، کلمہ کفر اور چیز ہے اور فتویٰ کفر اور چیز۔ کسی شخص پر ان کلمات کی بناء پر محض ان الفاظ کے استعمال سے ہی فتویٰ نہیں لگا دیا جائے گا۔ بلکہ فتویٰ ان اصولوں کے تحت لگایا جائے گا جو اس غرض کے لئے مجوز ہیں۔
عدالت ہذا کی رائے میں مدعیہ کا یہ جواب وزن رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں علماء کے اقوال سند کے لحاظ سے وہ حیثیت نہیں رکھتے جو متواترات کی بیان کی گئی ہے۔ کلمات زیربحث کو ریکارڈ پر لانے اور اپنے خیال کے مطابق ان کی تشریح کرنے سے گواہان مدعا علیہ کا منشاء سوائے اس کے اور کوئی معلوم نہیں ہوتا کہ مسئلہ زیربحث کی نوعیت اور اہمیت کو خفیف کر کے دکھلایا جاوے۔ حالانکہ مسئلہ ختم نبوت کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ جن پر اعتراض کیاگیا ہے۔
اور غالباً وہ یہ چاہتے ہیں کہ عام لوگوں کے دلوں میں علماء کے متعلق ایک حقارت پیدا کی جا کر ان کے طرز افتاء کی مذمت ظاہر کی جاوے اور ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے جذبات ان کے خلاف ابھارے جاویں اور موجودہ زمانہ کے روشن خیال طبقہ کی جو اپنے آپ کو ہر اصلاح کا علمبردار سمجھتا ہے۔ ہمدردی حاصل کی جاوے۔
2194مذہب کے متعلق فی زمانہ جو بے اعتنائی برتی جارہی ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ قرآن مجید کے نزول کے زمانہ میں جو لوگ اس پر ایمان نہیں لائے تھے وہ اسے اضغاث احلام اور اساطیر الاولین کہا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ کہ مذہب کا جوا، اپنی گردن سے نہیں نکال پھینکنا چاہتے۔ وہ گو ان الفاظ کو اپنے منہ سے نکالنے کی تو جرأت نہیں کرتے۔ لیکن حقائق ومعارف قرآنی پر اپنے دل میں پورا یقین نہیں رکھتے اور بقول مولانا محمود علی صاحب یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اسلام میں زمانہ کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور انقلاب حالات سے جو جدید ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں اور جن کی وجہ سے اقوام عالم کو اپنی طرز وروش میں تغیر وتبدل کرنا پڑتاہے۔ اسلام ایسے انقلابوں کے اندر اپنی روش کو بدل کر دوسری روش پر چلنے کی قابلیت نہیں رکھتا اور اس کے ماننے والے اپنے حالات کے اندر کوئی اصلاح یا ترمیم نہیں کر سکتے اور کسی تہذیب جدید کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
ان کے اسی اعتراض کا جواب تو مولانا صاحب موصوف نے اپنی کتاب ’’دین وآئین‘‘ میں دے دیا ہے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں صرف یہ دکھلانا مقصود تھا کہ اس قسم کے خیالات آج کل عام ہیں اور چونکہ فریق مدعا علیہ کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اس طبقہ کے خیالات کی رو سے اسلام میں اصلاح کرنے کی کافی وسعت ہے۔ اس لئے مدعا علیہ کی طرف سے علماء کے خلاف بدظنی پیدا کی جا کر اس طبقہ کے دل میں ان کے خلاف حقارت اور نفرت پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس مقدمہ میں مدعیہ کی طرف سے جو علماء پیش ہوئے ہیں انہیں دقیانوسی خیالات کا پیرو اور مرض تکفیر میں مبتلا دکھلایا جاکر ان کی بیان کردہ وجوہات تکفیر کو تمسخر میں اڑا دیا جاوے اور یہ دکھلایا جاوے کہ ان کی بیان کردہ وجوہات تکفیر کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اور انہوں نے محض اس وجہ سے کہ جماعت احمدیہ کے اصول چونکہ صلاحیت مذہبی کی طرف رجوع دلاتے ہیں۔ اپنی پرانی عادت سے مجبور ہوکر براہ بغض اور کینہ انہیں کافر کہا ہے۔ ورنہ دراصل ان کا کوئی عقیدہ یا عمل کفر کی حد تک نہیں پہنچتا۔ حالانکہ مسئلہ زیربحث ایسا نہیں 2195کہ اسے اس طرح مذاق میں اڑا دیاجاوے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علماء غلطی نہیں کرتے یا یہ کہ وہ انسانی کمزوریوں سے پاک ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کسی رائے کو وقعت کی نگاہ سے نہ دیکھا جاوے اور ان کی کسی بات پر کان نہ دھرا جاوے۔ بلکہ چاہئے کہ ان کے اقوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جاوے اور یہ دیکھا جاوے کہ کہاں تک راستی پر ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت کے بارہ میں انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صداقت سے خالی نہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے کتب تفاسیر کے حوالوں پر جو اعتراض کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ ان حوالوں کو نہ یہاں درج کیاگیا ہے اور نہ ہی اس فیصلہ کا انحصار ان حوالوں پر رکھا گیا ہے اور سند کے اعتبار سے صرف قرآن مجید اور احادیث کو ہی معیار تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور یہ عمل اس لئے اختیار کرنا پڑا ہے کہ فریقین کی طرف سے اپنے اپنے ادعا کی تائید میں بے شمار کتابیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے۔ پیش کی گئیں ہیں۔ مدعا علیہ نے مدعیہ کی پیش کردہ کتب میں سے کسی کو بھی اپنے اوپر حجت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں کے اور اسے اپنے اعتقاد کے مطابق ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جب وہ مرزاصاحب کونبی مانتا ہے تو اس کے لئے معمول بہ مرزاصاحب کی وحی کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے اس کا دوسری کتابوں کو بطور حجت تسلیم نہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ باقی قرآن اور احادیث کے متعلق اس نے یہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے کہ آیات قرانی کا جو مفہوم مدعیہ کی طرف سے بیان کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق اس نے یا تو یہ بیان کیا ہے کہ وہ درست نہیں ہے یا اس کی کوئی اور تاویل کر دی ہے اور احادیث کے بارہ میں بھی جو حدیث اس کے مفید مطلب تھی وہ تو لے لی اور جو اس کے خلاف تھی اس کی صحت کے متعلق یا تو اس نے انکار کر دیا ہے یا اس کی بھی کوئی تاویل کر دی اور اس کا یہ عمل بھی مرزاصاحب کی تعلیم کے خلاف نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب فرماتے ہیں کہ جو حدیث میری وحی کے معارض ہے وہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ مدعا علیہ نے جن دیگر مصنّفین کی کتابوں کے حوالے پیش 2196کئے ہیں۔ ان کے متعلق بھی اس کا یہ ادعا ہے کہ وہ چونکہ مدعیہ کے ہم مذہب اشخاص کی تصنیف شدہ ہیں۔ اس لئے اس نے انہیں مدعیہ کے خلاف بھی بطور حجت پیش کیا ہے۔ اس کے لئے وہ کوئی حجت نہیں۔ اس لئے ان حوالوں پر بحث کرنی نہ صرف غیرضروری خیال کی گئی ہے۔ بلکہ اسے مشکلات سے بھی خالی نہیں پایا گیا۔ کیونکہ فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف خیانت کے بھی الزام لگائے ہیں اور یہ بھی اعتراض کئے ہیں کہ بعض مصنّفین کی کتابیں انہیں مسلم نہیں ہیں۔ اس لئے یہ طے کرنے کے لئے کہ کہاں تک خیانت ہوئی اور کس کس مصنف کی کتاب فریقین کے عقائد کے مطابق ہے اور آیا وہ فریقین کے مسلمات میں سے بھی ہیں یا نہ اور کہ ان سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ درست ہیں یا نہ اور کہ فریقین کو ان کی رائے کا پابند قرار دیا جاسکتا ہے یا نہ۔ بہت وقت وسیع مطالعہ اور کافی محنت کی ضرورت ہے اور پھر اس سے نتیجہ کے بھی پورے طور واضح اور عام فہم ہونے کی توقع نہیں۔ اس لئے ایک طرف قرآن مجید اور احادیث پر اور دوسری طرف مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں پر حصر رکھا جا کر دیگر تمام حوالہ جات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ گواہان مدعیہ کا یہ کہنا کہ ادعا وحی کفر ہے اور اگر کوئی شخص مطلق وحی کا دعویٰ کرے خواہ نبوت کا مدعی نہ بھی ہو، تب بھی وہ کافر ہے اور کہ بنی آدم میں وحی پیغمبروں کے ساتھ مختص ہے اور غیر کیلئے کشف، الہام یا وحی معنوی ہوسکتی ہے۔ درست نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیت ’’وما کان لبشر… الخ!‘‘ میں اﷲتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ صرف پیغمبروں کے ساتھ ہی ان تین طرق مندرجہ آیت مذکور سے کلام کرتا ہے اور غیرپیغمبروں سے نہیں کرتا۔ بلکہ اس آیت میں بشر کا لفظ رکھا ہے۔ جس میں نبی اور غیر نبی دونوں داخل ہیں۔
سورہ قصص رکوع نمبر۱، آیت ’’
واوحینا الیٰ ام موسیٰ… الخ!
‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وحی صرف پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہوتی تو ام موسیٰ پر خدا کی طرف سے یہ وحی نازل نہ ہوتی۔
اس طرح سورہ مریم کی آیت ’’
فارسلنا الیہا روحنا… الخ!
‘‘ اور آیت ’’
واذ قالت الملائکۃ… مع الراکعین۰ واذ قالت الملائکۃ2197… مقربین‘
‘ اور سورۂ کہف رکوع نمبر۱۱ کی آیت ’’
قلنا یا ذوالقرنین… حسنا
‘‘ کے حوالہ جات پیش کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ:
۱… وحی انبیاء سے مخصوص نہیں، بلکہ غیر انبیاء پر بھی وحی ہوسکتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
۲… جن طریقوں سے اﷲتعالیٰ انبیاء علیہم السلام سے کلام کرتا ہے، انہی طریقوں سے غیرانبیاء یعنی اولیاء وغیرہ کے ساتھ بھی ہم کلام ہوتا ہے جیسا کہ آیت نمبر۱ سے ظاہر ہوتا ہے۔
۳… فرشتوں کا نزول انبیاء علیہم السلام سے خاص نہیں، بعض اوقات غیرانبیاء پر بھی ایسی وحی نازل ہو جاتی ہے جس میں امر ونہی ہوتے ہیں اور کہ غیر انبیاء کی وحی بھی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کے آگے مدعا علیہ کے گواہ کا یہ بیان ہے کہ مدعیہ کے گواہان نے جو یہ کہا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی پر وحی نہیں ہوسکتی جو اس کا دعویٰ کرے وہ کافر اس کی انہوں نے قرآن مجید یا احادیث سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ ہاںصرف ایک گواہ نے بحوالہ آیت ’’
والذین یؤمنون… من قبلک
‘‘ پیش کر کے کہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد بھی کوئی وحی نازل ہونی ہوتی تو اس آیت میں ضرور اس کا ذکر کر دیا جاتا۔ چونکہ ذکر نہیں کیاگیا۔ اس لئے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد وحی نہیں ہوسکتی۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس آیت میں تشریعی وحی کا ذکر ہے اور چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد ایسی وحی جو آپﷺ کی شریعت کی ناسخ ہو، منقطع تھی۔ اس لئے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی تائید میں پھر چند علماء کے اقوال نقل کئے جاکر یہ کہاگیا ہے کہ علماء کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی خبر نہیں آئی جس سے معلوم ہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد وحی تشریعی ہوگی۔ بلکہ وحی الہام ہوگی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اکابر علماء لکھ چکے ہیں کہ مسیح موعود پر وحی ہوگی اور حدیث میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مسیح موعود پر خدا کی طرف سے وحی ہوگی۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسیح موعود آئے گا تو ان پر وحی ہوگی تو اسے 2198خدا کی طرف سے یقین کرے گا۔ پس اس لحاظ سے یہ آیت تشریعی وحی کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔ غیرتشریعی وحی کے انقطاع پر دلالت نہیں کرتی۔ اس امر کی دلیل میں کہ آنحضرتﷺ کے بعد غیرشریعت والی وحی ہوسکتی ہے اور آنحضرتﷺ کے کامل متبعین پر اس کا دروازہ بند نہیں ہے۔ آیات ذیل ’’الم یرو انہ… سبیلا‘‘ پارہ۹، رکوع۸ اور ’’افلا یرون… قولا‘‘ پارہ۱۶، رکوع۱۳، کے حوالے دیا جاکر یہ کہاگیا ہے کہ ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندوں سے خدا کا کلام کرنا ضروری ہے۔ پس کیونکر مان لیا جاوے کہ حرم کعبہ کا رب اور قرآن کے اتارنے والا خدا جو بچھڑے کی عبودیت اور الوہیت کا ابطال اس کے عدم تکلم کی وجہ سے کرتا ہے۔ خود اپنے پیارے بندوں سے ویسا سلوک کرے نیز آیت ’’
ومن اضل ممن… غافلون
‘‘ سورۂ احقاف رکوع نمبر۱، سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار سنتا اور ان کو جواب دیتاہے اور آیت ’’
قل ان کنتم تحبون اﷲ… الخ!
‘‘ آل عمران رکوع نمبر۴ سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ خدا اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور یہ بدیہی بات ہے کہ محب اپنے محبوب سے ہم کلام ہو اور اس کی باتیں سنے اور اپنی کہے ورنہ عدم کلام نقص محبت پر دلیل ہوگا۔ کیونکہ محبوب کا کلام نہ کرنا دلیل ناراضگی ہے اور خدا جو اپنے بندوں پر ماں باپ سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ضرور اپنے پیارے بندوں سے کلام کرتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ اپنے پیاروں سے کلام کرتا تھا تو اب نہ کرے۔ اﷲتعالیٰ کی ایک صفت جو اس کی خدائی پر ایک اعلیٰ دلیل ہے وہ اس کا متکلم ہونا ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اب قیامت تک اس صفت کا تعطل مان لیا جاوے اور کہا جاوے کہ اس کی صفت تکلم زائل ہوچکی۔ یعنی کہ وہ اب کسی سے کلام نہ کرے گا تو اس کا سمیع ہونا کیونکر معلوم ہوگا۔ کہنے والے پھر بھی کہہ دیں گے کہ وہ پہلے سمیع تھا اور اب نہیں۔ اس کی تائید میں پھر یہ ایک دنیاوی مثال دی گئی ہے۔ اگر کوئی عاشق اپنے کسی محبوب کے دروازہ پر آہ وبکا اور گریہ زاری کرتے ہوئے بیقراری کی حالت میں جائے۔ مگر محبوب نہ دروازہ کھولے اور نہ اندر سے کوئی آواز آوے تو یقینا وہ عاشق نا امید ہوکر لوٹے گا اور خیال کرے گا کہ یا تو میرا محبوب مر چکا یا مجھے دھوکا 2199دیا گیا۔ پس اس طرح اﷲتعالیٰ جس کا دیدار بوجہ اس کے وراء الورا اور لطیف ہونے کے ہم نہیں کر سکتے۔ اگر وہ گفتار سے بھی اپنے عشاق کو تسلی نہیں دے سکتا تو آخر وہ ایک دن ناامید ہوکر اسے چھوڑ دیں گے۔ تعشق اور محبت کا مادہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیاگیا ہے اور وہ ایسے محبوب کو جس کے دیدار اور گفتار سے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے محروم سمجھے اسے کبھی اپنے عشق کا محل نہیں ٹھہراتا حقیقی عاشق اپنے محبوب سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے دل میں ازحد تڑپ رکھتا ہے اور اس کے کلام کو اپنے لئے تریاق اور آب حیات سمجھتا ہے۔ پس وہ علیم خبیر ہستی جو انسانوں کے اندر احساسات وجذبات کا پیدا کرنے والا ہے کس طرح اپنے عشاق کو اپنی ہم کلامی سے محروم رکھ سکتا ہے اور ا س کی تائید میں آیات ذیل ’’واذا سألک عبادی عنی فانی قریب… الخ!‘‘ اور ’’
ان الذین قالوا… تتنزل الملائکۃ
‘‘ حم سجدہ رکوع نمبر۴ پیش کی گئی ہیں۔ اس کے بعد پھر آیات ’’
رفیع الدرجات ذوالعرش… یوم التلاق
‘‘ سورہ مؤمن رکوع نمبر۲ اور ’’
تنزل الملائکۃ بالروح من امرہ علی من یشائ… فاتقون
‘‘ سے یہ استدلال کیاگیا ہے کہ جس طرح اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کو از منۂ سابقہ میں اپنے وحی سے مشرف کرتا رہا ہے۔ آئندہ بھی کرے گا۔ کیونکہ آیت میں نزول وحی کا موجب اﷲتعالیٰ کا رفیع الدرجات وذوالعرش ہونا ہے اور ضرورت انداز قرار دیا گیا ہے۔ پس جب کہ اﷲتعالیٰ اب بھی رفیع الدرجات اور ذوالعرش ہے۔ اس میں تغیر نہیں آیا اور لوگ بھی بلحاظ روحانیت مردہ ہوگئے تو پھر وحی کا انقطاع کیونکر مان لیا جاوے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس… الخ!
‘‘ یعنی امت محمدیہ تمام امتوں سے بہتر ہے اور نعمت بھی اس پر پوری ہوچکی اور دعا بھی خدا نے ہمیں یہ سکھلائی کہ ’’
صراط الذین انعمت علیہم
‘‘ کہ اے خدا تو ہمیں اپنے پیارے اور مقرب بارگاہ بندوں یعنی انبیاء صدیقین اور شہدائے اور صالحین کے راستہ پر چلا تو عقل سلیم کیونکر تسلیم کر سکتی ہے کہ امت محمدیہ جو سب امتوں سے بہتر ہو لیکن انعامات الٰہیہ سے محروم ہو پہلی امتوں کے مردوں کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی اپنے کلام سے مشرف کیا اور ان پر فرشتے نازل ہوئے۔ لیکن امت محمدیہ 2200کے بڑے سے بڑے درجہ کے مرد کو بھی یہ انعام نہ ملے۔ پس یہ کہنا کہ امت مرحومہ پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے اور خدا اس سے کلام نہیں کرتا تو پھر یہ خیر الامم کیسے ہوئی؟ اور یہ کہنا غلطی ہے کہ خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے بعد جو تمام عالم کے لئے رحمت ہوکر آئے تھے اس انعام کو لوگوں سے چھین لیا ہے اور امت میں سے کسی ایک فرد کو بھی اپنے ہم کلام ہونے کے مبارک شرف سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ اور اس کا پاک رسول اور اولیاء امت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیضان الٰہی اس امت پر بند نہیں ہیں اور آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے پہلے قوم بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ باوجود یہ کہ وہ نبی نہ تھے۔ لیکن اﷲتعالیٰ ان سے کلام کرتا تھا۔ میری امت میں ایسے لوگوں میں اگر کوئی ہے تو عمرؓ ہے۔ دوسری روایت میں محدث کالفظ آیا ہے۔ صحابہؓ نے حضورﷺ سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اﷲ محدث سے کیا مراد ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ فرشتے اس کی زبان پر کلام کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت شیخ ابن عربیؒ، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ اور مولانا رومؒ کی کتابوں کے حوالوں سے یہ بیان کیاگیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ پایا جاتا ہے کہ تمام اقسام وحی کی جو قرآن میں مذکور ہیں خدا کے بندوں اولیاء اﷲ سب میں پائی جاتی ہیں اور وحی جو نبی میں ہے وہ خاص ہے اور شریعت والی وحی ہے اور کہ جو وحی انبیاء علیہم السلام کو ہوتی ہے۔ وہ اس امت کے بعض کامل افراد کو بھی ہوتی ہے اور جیسا کہ مولانا رومؒ نے کہا ہے ہوتی تو وہ وحی حق ہے۔ لیکن صوفیائے عام لوگوں سے پردہ کرنے کی خاطر اسے وحی دل میں کہہ دیتے ہیں اور کہ جن طریق سے انبیاء علیہم السلام کو وحی الہام ہوتا ہے انہیں طرق سے اولیاء اﷲ کو ہوتا ہے۔ اگرچہ اصطلاحاً ان کا نام رکھنے میں فرق کیاگیا ہے اور یہ علماء کی اپنی اصطلاح ہے اور اصطلاح فرق مراتب کے لحاظ سے قرار پاگئی ہے کہ انبیاء کی وحی کو وحی اور اولیاء کی وحی کو الہام کہتے ہیں اور کہ ولی پر بھی وحی بواسطہ ملک ہوتی ہے اور مدعیہ کے اعتقاد کے مطابق عیسیٰ کے نزول پر ان پر وحی نازل ہوگی اور اس کے متعلق علماء کا قول ہے کہ وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی زبان پر ہوگی اس 2201کے آگے یہ کہاگیا ہے کہ مرزا صاحب کی کتب سے جو یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ بھی آنحضرتﷺ کے بعد سلسلہ وحی کو منقطع مانتے ہیں تو وہاں ان کی مراد وحی شریعت سے ہے نہ کہ دوسری وحی سے جسے وہ جاری سمجھتے ہیں ان تصریحات سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد ایسی وحی کہ جس میں نئے اوامر ونواہی نہ ہوں جاری ہے اور جن علماء نے یہ کہا ہے کہ آپﷺ کے بعد وحی اور الہام کا سلسلہ بند ہے تو اس سے مراد ایسی وحی ہے جو شریعت محمدیہ کے مخالف نئے اوامر ونواہی پر مشتمل ہو۔ نہ مطلق وحی جس کا امت محمدیہ میں باقی رہنا قرآن مجید، حدیث وبزرگان دین کے اقوال سے ثابت ہے۔ اس کے آگے پھر دوسرا ہیڈنگ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے تحت میں اس بحث کا جواب درج کیا جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے جس وحی کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اس کا ادّعا کفر ہے۔ اس سے مراد وحی نبوت سے ہی ہے۔ فریق مدعیہ کے نزدیک وحی کا لفظ صرف انبیاء کے لئے ہی مختص ہے اور وہ اس امر کے قائل نہیں کہ جو وحی نبی کی ہوتی ہے وہ غیرانبیاء کو بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اب مدعا علیہ کے بحث سے ہی یہ طے کرنا ہے کہ آیا اس قسم کی وحی جو انبیاء کو ہوتی ہے غیرانبیاء کو بھی ہوسکتی ہے یا نہ۔ اس کے متعلق جن آیات قرآنی کا حوالہ مدعا علیہ کی طرف سے پیش کیاگیا ہے۔ ان کے ظاہری الفاظ سے یہ پایا جاتا ہے کہ حضرت ام موسیٰ پر وحی ہوئی۔ حضرت مریم پر فرشتے اترے، اور ذوالقرنین سے اﷲتعالیٰ نے کلام فرمایا۔ لیکن اگر یہ نتیجہ محض ان الفاظ ’’اوحینا قالت الملائکۃ‘‘ اور ’’قلنا‘‘ کے استعمال سے اخذ کیا جاتا ہے تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ وحی کا لفظ قرآن مجید میں نہ صرف ذوی العقول کی بابت استعمال فرمایا گیا ہے۔ بلکہ غیرذوی العقول کی بابت بھی جیسا کہ سورۂ نحل میں ہے کہ شہد کی مکھی کو وحی کی گئی۔ یہاں میرے خیال میں مدعا علیہ کے نزدیک بھی وحی سے مراد وہ وحی نہیں ہوسکتی جو انبیاء کو ہوتی ہے۔ یہاں یقینا اس کے کوئی اور معنی بمثل فطرت میں داخل کرنا یا اسے سوجھانا کئے جائیں گے۔ اس طرح قرآن مجید میں وحی کا لفظ اور بھی کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ جس کے سیاق وسباق سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ وہاں اس لفظ 2202سے مراد اس قسم کی وحی ہے جو انبیاء کو ہوتی ہے اور غالباً اس شبہ کو زائل کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق قرآن مجید میں بتصریح یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تیری طرف اس قسم کی وحی بھیجی ہے جیسا کہ حضرت نوح، ابراہیم، اسحق، اسماعیل، یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف بھیجی گئی۔ سورۂ نساء پارہ۶، رکوع نمبر۳ آیت ’’
انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح… زبوراً
‘‘ اس لئے ان مواقعات پر جہاں کہ لفظ وحی کے استعمال سے وحی نبوت کے معنی اخذ نہیں ہوسکتے۔ اس لفظ سے مراد جیسا کہ علماء نے لی ہے القاء کرنا یا دل میں ڈالنا ہی لی جائے گی۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور جگہ ہے ’’وان الشیٰطین لیوحون الیٰ اولیاء ہم‘‘ تو کیایہاں بھی لفظ وحی کے استعمال سے وحی انبیاء لی جاسکے گی۔
قرآن مجید میں اس قسم کے اور بھی کئی الفاظ ہیں کہ جن کے ظاہری معنی مراد نہیں لئے گئے۔ مثلاً فتنہ کا لفظ جس کے معنی عام طور پر آزمائش کے لئے گئے ہیں اس طرح اس کی سند بیان نہیں کی گئی کہ فرشتے ہر حال میں ذات باری کی طرف سے ہی بحیثیت رسول اترتے اور کلام کرتے رہے۔ ممکن ہے کہ نیک آدمیوں پر ان کا اترنا عام انتظام کائنات کے سلسلہ میں ہو یا روحانی ترقی کے مدارج میں داخل ہو۔ اس لئے حضرت مریم پر فرشتوں کے اترنے سے یہ نتیجہ لازمی طور پر برآمد نہیں ہوتا کہ اﷲتعالیٰ غیر انبیاء سے اس طریق پر کلام کرتا ہے۔ جیسا کہ انبیاء کے ساتھ، باقی رہی وہ آیت جو ذوالقرنین کے متعلق ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک وہ نبی تھے۔ اگر نبی تھے تو انہیں وحی نبوت ہوئی ہوگی اور اگر نبی نہ تھے تو ان کے متعلق محض لفظ قال کا استعمال عمومیت کے طور پر یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کافی نہیں کہ غیر انبیاء کے ساتھ بھی اﷲ تعالیٰ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ مان بھی لیا جاوے کہ حضرت ام موسیٰ اور حضرت مریم کو ایسی ہی وحی ہوئی جیسا کہ انبیاء کو ہوتی ہے تو اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ایسی وحی ہر غیرانبیاء کو ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ بیبیاں پیغمبروں کی مائیں تھیں اور ان ہر دو پیغمبروں کے متعلق یہ خطرہ تھا کہ انہیں پیدا ہونے کے بعد ہلاک نہ کر دیا جاوے۔ اس لئے ان کی ماؤں کو تسکین دینے 2203کے لئے اگر اﷲتعالیٰ نے اپنی ہم کلامی سے مشرف فرمادیا ہو تو کوئی عجب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ واقعات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے قبل کے ہیں۔ ممکن ہے کہ خاص حالات کے تحت خاص خاص اشخاص کے ساتھ ہم کلام ہونا مشیت ایزدی سے ضروری سمجھا گیا ہو اور ا س کی تائید خود مدعا علیہ کی اپنی بحث سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے کہ آنحضرتa نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ باوجود یہ کہ وہ نبی نہ تھے اﷲتعالیٰ ان سے کلام کرتا تھا۔ چنانچہ ذوالقرنین بھی اسی ذیل میں داخل سمجھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے سوائے مبشرات کے اور کچھ باقی نہیں تو پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ غیر انبیاء کو بھی وہی وحی ہوتی ہے جو انبیاء کو ہوتی ہے۔ اس حدیث کو فریق مدعا علیہ نے صحیح تسلیم کیا ہے۔ لیکن اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ عام اشخاص کے متعلق ہے۔ خواص کے لئے نہیں اگر خواص اس سے مستثنیٰ تھے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ رسول اﷲa اس کی تصریح نہ فرمادیتے۔ یہ حدیث حضرت عائشہؓ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
باقی رہے صوفیائے کرام کے اقوال اور تحریریں، ان کے متعلق ایک جواب تو اوپر سید انور شاہ صاحب کے بیان کے حوالہ سے دیاجاچکا ہے کہ انہوں نے ان اشخاص کو جو ان کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں، اپنی کتابوں میں نظر کرنے سے منع فرمایا اور اس کا دوسرا جواب بھی شاہ صاحب مذکور کے الفاظ میں نقل کیاجاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صوفیائے کرام نے نبوۃ کوبمعنی لغوی لے کر مقسم بنایا اور اس کی تفسیر خدا سے اطلاع پانا۔ دوسرے کو اطلاع دینا کی، اور اس کے نیچے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام دونوں کو داخل کیا اور نبوت کو دو قسم کر دیا۔ نبوت شرعی اور نبوت غیر شرعی، نبوت کے نیچے وحی اور رسل دونوں درج کر دئیے اور اب ان کے لئے نبوت غیر شرعی اولیاء کے کشف اور الہام کے لئے نکھر گیا اور مخصوص ہوگیا۔ صوفیائے کرام کی تصریح ہے کہ کشف کے ذریعہ مستحب کا درجہ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ صرف اسرار معارف، مکاشف اس کا دائرہ ہیں اور تصریح فرماتے ہیں کہ ہمارا کشف دوسرے پر 2204حجت نہیں۔ ہمارا کشف ہمارے لئے ہے۔ گواہ مذکور نے کشف، الہام اور وحی کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ کشف اسے کہتے ہیں کہ کوئی پیرایہ آنکھوں سے دکھلایا جس کی مراد کشف والا خود نکالے۔ دل میں کچھ مضمون ڈال دیا اور سمجھا دیا جاوے یہ الہام ہے۔
خدا نے پیغام بھیجا۔ اپنے ضابطہ کا وہ وحی ہے۔ وحی قطعی ہے اور کشف والہام ظنی ہیں۔ بنی نوع آدم میں وحی پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ غیروں کے لئے کشف یا الہام ہے یا معنوی وحی ہو سکتی ہے، شرعی نہیں۔
وحی کے شرعی یا غیرشرعی ہونے کی جو تفریق مدعا علیہ کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس کی تائید میں اس نے سوائے اقوال بزرگان کے اور کوئی سند پیش نہیں کی اور ان اقوال کی گومدعیہ کی طرف سے توجیہ اور تشریح کی گئی ہے اور یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان بزرگان کی ان اقوال سے کیا مراد ہے اور ان کے دیگر صریح اقوال پیش کئے گئے ہیں کہ جن میں وہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم کرتے ہیں اور آپﷺ کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں سمجھتے۔ لیکن ان پر اس لئے بحث کی ضرورت نہیں کہ وہ قرآن مجید اور احادیث کے مقابلہ میں کوئی حجت نہیں ہوسکتے اور مدعا علیہ کی طرف سے جو اعتراض مدعیہ پر عائد کیاگیا تھا کہ اس نے وجوہات تکفیر کے ضروریات دین ہونے کے متعلق قرآن یا حدیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا وہ بدرجہ اولیٰ خود مدعا علیہ پر وارد ہوتا ہے کہ اس نے شرعی اور غیر شرعی وحی کی جو تقسیم کی ہے اس کے متعلق کوئی ثبوت قرآن واحادیث سے پیش نہیں کیا۔ محض قیاسات سے ہی یہ کہاگیا کہ جس آیت کا حوالہ مدعیہ کی طرف سے دیاگیا ہے۔ اس میں آئندہ وحی کا ذکر نہیں، وہ شریعت والی وحی کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔
مدعیہ کی طرف سے درست طور پر یہ کہاگیا ہے کہ صوفیائے کرام نے نبوت کی جو قسمیں بیان کی ہیں وہ ان کی اپنی قائم کردہ اصطلاحات کے مطابق ہیں۔ اس لئے ان کی قائم کردہ اصطلاحات کو عام امت کے مقابلہ میں حجت قرار دینا درست نہیں ہے۔ مسیح موعود پر وحی کا ہونا مستثنیات سے ہے۔ جس کی استثناء خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کر دی اس سے وحی نبوت کے اجراء کا عمومیت کے ساتھ نتیجہ نکالنا ایک غلطی ہے۔
2205آیت ’’
وما کان لبشر… الخ!
‘‘ میں بشر کے لفظ کے متعلق مدعیہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ’’مراد انبیاء علیہم السلام سے ہے۔‘‘ لیکن اگر عام بشر بھی مراد لئے جاویں تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا بالعموم آدمیوں سے کلام کرتا رہتا ہے۔ بلکہ اس میں اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کے طریق بتلائے ہیں۔ باقی کلام کا کرنا یا نہ کرنا اس کی اپنی مشیت پر منحصر ہے۔ لہٰذا گواہان مدعیہ نے یہ درست کہا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد وحی نبوت جاری ہوتی تو قرآن مجید میں ضرور اس کی صراحت فرمادی جاتی۔ کیونکہ اس پر امت کی فلاح کا دارومدار تھا۔ باقی مولانا روم کی کتاب مثنوی کے حوالے سے جو یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ اولیاء کو جو وحی ہوتی ہے وہ دراصل وحی حق ہوتی ہے اور اولیاء عام لوگوں سے پردہ کرنے کی خاطر اسے وحی دل کہہ دیا کرتے ہیں۔ یہ ان کے شاعرانہ خیالات ہیں، اور شاعر کی نیت میں جیسا کہ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے کہا ہے۔ منوانا اس کا عالم کو منظور نہیں ہوتا اور پھر جہاں انہوں نے وحی حق کے الفاظ لکھے ہیں ان کے ساتھ ہی واﷲ اعلم بالصواب کا جملہ بھی موجود ہے۔ اس سے ان کے مفہوم کا خود اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ پارہ نمبر۹، رکوع نمبر۸ اور پارہ۱۶، رکوع نمبر۱۳ کی آیات محولہ بالا سے بھی یہ استدلال درست نہیں کیاگیا کہ آنحضرتa کے بعد غیرشریعت والی وحی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اوّل تو آیات اس زمانہ اور ان حالات سے تعلق رکھتی ہیں جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور ان میں ان لوگوں کو خطاب ہے جو عبادت الٰہی سے ناآشنا اور غافل ہوں اور اب رسول اﷲa کی تعلیم کے بعد کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہوسکتا کہ خداتعالیٰ سمیع، بصیر اور علیم نہیں۔ باقی رہا اس کا آدمیوں سے کلام کرنا وہ اس کی مشیت پر منحصر ہے۔ اسے کسی کی آہ وبکا، فریاد فغاں سے کلام کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دنیاوی عاشق ومعشوق کی مثال عشق الٰہی پر نہایت ہی نازیبا طریق پر عائد کی گئی۔ تاہم اس مثال کو بھی اگر مدنظر رکھا جاوے تو رسول اﷲa کی تعلیم ایسی ناقص نہیں کہ عاشقان الٰہی اگر فی الحقیقت وہ پورے معنوں میں عاشقان الٰہی بن چکے ہیں۔ خداوند تعالیٰ کے دروازہ سے نا امید ہوکر لوٹیں۔ یا نعوذ باﷲ 2206یہ تصور کریں کہ ان کا محبوب مرچکا یا انہیں دھوکا دیا گیا۔ دنیاوی معشوق بھی اگر اپنے عاشق کی آہ وبکا سن کر اندر سے اسے کوئی تحفہ بھیج دے یا اس کی بات کو سن کر اس کا کوئی کام سرانجام کر دے تو باوجود اس کے کہ وہ اس سے ہم کلام نہ ہو یا اپنا دیدار نہ کرائے۔ اس کا عاشق ضرور سمجھ لے گا کہ اس کا معشوق زندہ ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ دنیا میں عاشقان الٰہی کی تعداد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آج تک کوئی تھوڑی نہیں سمجھی جاسکتی اور ویسے تو ایسے عشاق نہ صرف مذہب اسلام میں بلکہ ہر مذہب میں سینکڑوں کی تعداد میں پائے جائیں گے۔ اگر اﷲتعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا ذریعہ اس کے عشاق کے دل کی تڑپ ہی قرار دی جاوے تو ضرور ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس عرصہ میں ہر ایک عاشق سے نہ سہی سوویں ہزارویں سے سہی۔ دس پندرہ بیس سال کے بعد نہ سہی، سو ہزار سال کے بعد سہی کسی نہ کسی ایک سے تو ہم کلامی فرمائی ہوتی؟ نہ یہ کہ تیرہ سو سال تک یک دم خاموشی اختیار کئے رکھنے کے بعد صرف ایک شخص سے ہم کلام ہونا منظور فرمایا گیا اور وہ بھی زیادہ تر پرانی تیرہ سو سال والی زبان میں گویا اب اس کے پاس الفاظ اور معانی کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ اگر نعوذ باﷲ خدا کے پاس ہم کلامی کے لئے نہ کوئی اور نیا مواد ہے اور نہ نئے الفاظ۔ تو پھر بیچارے مولویوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں پرانی لکیر کا فقیر قرار دیا جاکر کوسا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے خدا کے اس پرانے کلام کی تعبیر وہی کرنی ہے جو پہلے سے ہوتی آئی ہے۔
اگر عشاق کی تسلی محض گفتگو سے ہوتی اور وجود باری تعالیٰ کے علم کا ذریعہ بھی یہی ہوتا کہ جب کبھی اس کا کوئی عاشق بیقراری کی حالت میں آہ وبکا کرتا ہوا اس کے دروازہ پر پہنچے تو اسی کے لئے فوراً دروازہ کھل جائے۔ تو اسلام صفحۂ ہستی سے کبھی کانابود ہوچکا ہوتا۔ کیونکہ تیرہ سو سال کا زمانہ ایسا نہیں کہ عشاق نعوذ باﷲ خداوند تعالیٰ کی اس بے اعتنائی کو دیکھ کر اس کے دروازہ پر پڑے رہتے۔ بلکہ بقول گواہ مدعا علیہ عرصہ سے ناامید ہوکر لوٹ چکے ہوتے اور پھر اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اﷲتعالیٰ صرف ان عشاق سے ہی گفتگو کرتا ہے کہ جو مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہوں اور دوسرے سے نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں عشاق کی تسلی محض گفتگو سے نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ 2207جیسا کہ مدعا علیہ کے گواہ نے بھی ظاہر کیا ہے۔ دیدار یاران کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عشاق جب گفتگوئے یار سے بہرہ اندوز ہوں تو پھرکبھی اپنے عشق کی مستی میں قوم موسیٰ کی طرح ’’
ارنا اﷲ جہرۃ
‘‘ کی رٹ لگانی شروع کر دیں اور بجائے اس کے کہ دیداریار سے لذت اندوز ہوں۔ اپنا بیڑہ بھی غرق کر بیٹھیں۔ شک نہیں کہ حقیقی عشاق کے دلوں میں ضرور اپنے محبوب کے متعلق ایک تڑپ ہوتی ہے۔ اس تڑپ کے فرو کرنے کا علاج یہ نہیں کہ محبوب سے ضرور ہم کلامی ہو۔ ’’باری عزاسمہ‘‘ نے اپنے عشاق کی تڑپ فرو کرنے کا علاج خود ہی اپنے زندہ کلام قرآن پاک میں یہ فرمایا ہے۔ ’’
الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب
‘‘ یعنی خدا کی یاد سے دل مطمئن ہوتے ہیں اور زیادہ اضطراب پیدا ہونے کی صورت میں فرمایا۔ ’’
واذا سالک عبادی عنی فانی قریب… الخ!‘‘
گواہ مدعا علیہ نے اس آیت کو بقاء وحی پر دلیل پکڑا ہے۔ لیکن وحی سے مراد اگر اس قسم کی استجابت لی جاوے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ تو پھر خداوند تعالیٰ کا ہر فرد بشر کے ساتھ کلام کرنا ممکن ہوسکتا ہے اور ہر شخص محل وحی بھی بن سکتا ہے۔ اس قسم کے استدلال اختیار کرنے سے مذہب کی کوئی عظمت ووقعت ظاہر نہیں ہوسکتی اور نہ اس کی کوئی حقیقت منکشف کی جاسکتی ہے۔ گواہ مدعا علیہ نے بیان کیا ہے کہ خدا کا کلام نہ کرنا غضب اور ناراضگی کی علامت ہے تو کیا اس سے سمجھا جائے گا کہ جن لوگوں سے پہلے خداوند تعالیٰ نے کلام نہیں کی۔ کیا ان سب پر خداوند تعالیٰ ناراض رہا ہے اور وہ مورد عتاب الٰہی ہیں۔ استغفراﷲ!
بقاء وحی کے سلسلہ میں باقی ماندہ جن دو آیات سورۂ مومن اور پارہ ۱۴، رکوع۷ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان سے بھی وحی کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ آیات مدعا علیہ کی اپنی تقسیم کے مطابق وحی تشریعی ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان میں یہ مذکور ہے کہ جس شخص کو وحی کی جاتی ہے۔ اس کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرائے۔ اس لئے اس قسم کی وحی کو مدعا علیہ کی اپنی تعریف کے مطابق وحی تشریعی ہی سمجھا جائے گا اور یہ سلسلہ مدعیہ کے ادعا کے 2208مطابق اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲﷺ پر آکر ختم فرمادیا، اور مدعا علیہ کے نزدیک بھی اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے ان آیات سے وحی مطلق کے اجراء کا استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ باقی رہی مدعا علیہ کی یہ حجت کہ اﷲتعالیٰ نے جب ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اے اﷲ ہمیں راہ مستقیم پر چلا اور ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنے انعام کئے ہیں اور پھر دوسری سورت میں اس کی تشریح فرمائی کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر خدا کا انعام ہوا۔ اس کے متعلق فرمایا کہ وہ نبی، صدیق، شہید اور صالح ہیں۔ اس سے یہ تلقین کی گئی کہ اﷲاور اس کے رسول محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی سے یہ چاروں مراتب تم کو حسب حیثیت مل سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ امت محمدیہ تین مراتب کا تو انعام پائے اور چوتھے مرتبہ یعنی نبوت کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو۔ حالانکہ اس سے پہلی امتوں نے اس انعام کو باربار حاصل کیا۔ پھر یہ خیرالامم کس طرح ہوئی؟ اور نہیں کہا جاسکتا کہ امت مرحومہ پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے اور آنحضرتﷺ کے بعد جو تمام عالم کے لئے رحمت ہوکر آئے۔ اس انعام کو لوگوں سے چھین لیاگیا۔
اس کا جواب مدعیہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ آیت ’’
من یطع اﷲ والرسول… والصالحین
‘‘ میں الفاظ ’’مع الذین‘‘ سے مراد رفاقت سے ہے نہ کہ عطائے درجہ۔ مدعا علیہ کے اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی کے علاوہ دیگر مدارج جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ رسول اﷲﷺ کی پیروی سے مل سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نبوت کا درجہ نہ مل سکے۔ اگر اس بحث کو بفرض محال صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے جو اتباع سنت اور ریاضت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ قرآن شریف کی نصوص سے یہ ثابت ہے کہ نبوت کسبی نہیں اور مرزاصاحب (کے مرید اعظم) نے بھی اسے مانا ہے۔ چنانچہ وہ (محمد علی لاہوری) اپنی کتاب (ضمیمہ النبوۃ فی الاسلام ص۷،۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’نبوت موہبت اکتساب سے نہیں ملتی… پس نبوت کا اکتساب یا کسی کی پیروی سے حاصل ہونا تمام آیات قرآنی اور احادیث کے صاف مفہوم کے خلاف ہے۔‘‘
اگر نبوت حضور علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہو سکتی تھی تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ آج تک جس قدر اولیاء ابدال، اقطاب گزرے ہیں۔ ان 2209میں سے کسی کو بھی یہ مرتبہ حاصل نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں اگر یہ سمجھا جاوے کہ حضور کے کمال اتباع اور فیض سے یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے اور حضور بھی اسے جائز سمجھتے تھے تو ضرور ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں کئی دیگر مراتب اور مدارج کے حصول کے لئے اپنی امت کو ادعیات اور اوراد کی تلقین فرمائی ہے اور وہاں اس مرتبہ کے لئے بھی کوئی دعا وغیرہ بھی تلقین فرماتے۔ تاکہ امت کے افراد کو اس کے حاصل کرنے میں کوئی آسانی میسر آتی۔ کیونکہ حضورﷺ کی شفقت سے یہ بعید تھا کہ وہ امت کو اس قدر پریشانی اور محنت شاقہ میں ڈالتے کہ مدت مدید کا انتظار اور عبادات کے بعد صرف ایک ہی فرد کو جاکر یہ نعمت عطاء ہوتی۔ اگر کوئی دعا وغیرہ تلقین کرنا آپa کے نزدیک مناسب نہ تھا تو کم ازکم اس کی صراحت تو فرمادیتے کہ تم کو یہ درجہ مل سکتا ہے۔ تمہیں اس کے حصول کے متعلق کوشاں رہنا چاہئے۔ آپ نے نہ اس قسم کی کوئی صراحت فرمائی۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی راستہ بتلایا بلکہ یہی فرماتے رہے ہیں کہ ’’لا نبی بعدی وانا اٰخر الانبیائ‘‘ وغیرہ گویا کہ امت کو نعوذ باﷲ از دست دھوکے میں رکھتے رہے۔ تاکہ وہ کہیں یہ درجہ حاصل کر کے آپ کے مقابلہ میں نہ کھڑے ہو جاویں۔
بلکہ آپ کا رحمتہ اللعالمین ہونا اس بات کا متقاضی تھا کہ آپ سابقہ انبیاء کے مقابلہ میں اپنی امت میں سے زیادہ انبیاء پیدا کر کے اپنے افضل الانبیاء ہونے کا ایک اعلیٰ اور بین ثبوت بہم پہنچاتے۔ لہٰذا قرآن شریف کی دیگر تصریحات کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت محولہ بالا کا مفہوم یہی لیا جائے گا کہ وہ لوگ انبیاء کی رفاقت میں ہوں گے اور چونکہ مدعا علیہ کو دنیاوی امثال کا بہت شوق ہے۔ اس لئے اس کی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے حکومت کسی شخص کو اس کی ذاتی وجاہت اور مرتبہ کے لحاظ سے اپنے دربار میں اپنے کسی ممتاز عہدہ دار کے ساتھ جگہ دے دے۔ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس شخص نے اس عہدہ دار کا رتبہ حاصل کر لیا ہے یا یہ کہ وہ اس کا رتبہ حاصل کرنے کا اہل بنادیا گیا ہے۔ اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ لوگ جن کی آیات ماسبق میں فضیلت بیان کی گئی ہے۔ انبیاء شہداء صدیقین اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔ اس لئے مدعا علیہ کا یہ استدلال کوئی 2210وقعت نہیں رکھتا کہ اگر امت محمدیہ کو نبوت کا درجہ نہ ملے تو وہ خیرالامم نہیں رہتی۔ اس کے خیرالامم ہونے کے لئے خدا نے اسے اور کئی مدارج عطاء فرمائے ہیں۔ قرآن مجید نے اسے اس بات کا محتاج نہیں رہنے دیا کہ وہ نبوت کو حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی غلامی پر ترجیح دے بلکہ بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء آپ کی امت میں داخل ہونے کے متمنی رہے ہیں۔ افسوس کہ قرآن کی تعلیم کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھاگیا۔ ورنہ یہ اعتراض نہ کیا جاتا۔
قرآن حکیم میں حیات انسانی کی پوری انتہاء واضح نہیں فرمائی گئی اور جیسا کہ چوہدری غلام احمد صاحب پرویز مضمون محولہ بالا میں لکھتے ہیں۔جنت بھی جو بالعموم منزل مقصود سمجھی جاتی ہے۔ درحقیت اصل منزل مقصود نہیں بلکہ راستہ کا ایک خوشنما منظر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں جنتیوں کی اس دعا سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’’یقولون ربنا اتمم لنا نورنا‘‘ اس منتہٰی کو ایک راز رکھا گیا۔ نہ معلوم کے حضور کے فیض سے امت کو کیا کچھ عطاء فرمایا جائے گا۔ لہٰذا مدعا علیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں رہا کہ جو وحی انبیاء علیہم السلام کو ہوتی ہے وہ اس وقت تک جاری ہے۔ بلکہ صرف الہام اور کشف وغیرہ باقی ہیں۔ جیسا کہ مدعیہ کا ادعا ہے اور ان کو لغوی طور وحی کہا جاسکتا ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلہ کادارومدار زیادہ تر رسول اﷲﷺ کے خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی ماننے کے عقیدہ پر ہی ہے۔ مدعیہ کی طرف سے جیسا کہ اوپر درج کیاگیا۔ بحوالہ آیات قرآنی واحادیث واجماع امت یہ دکھلایا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ بجز اس کے کہ اس کی استثناء حضورﷺ نے خود کر دی۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کہ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل اور اب بھی سوائے مرزاصاحب کے پیروؤں کے دیگر جملہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انبیاء کی تعداد اور بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مسلمان کسی اور کو نبی مانے تو وہ کافر اور مرتد ہوجاتا ہے۔