• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (پندرواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(نبوت جاری کے مؤقف کا تجزیہ)
مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے نبوت کا مرتبہ عطا ہوسکتا ہے اور وہ خاتم النّبیین کے معنی عام مسلمانوں کے اعتقاد کے خلاف یہ کرتا ہے 2211کہ اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر عطاء کی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ ﷺ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ ﷺ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور قرآن مجید کی جس آیت میں یہ الفاظ درج ہیں اس کے معنی مدعا علیہ کی طرف سے یہ کئے گئے ہیں کہ اس آیت میں رسول اﷲ ﷺ کے بعد الفاظ خاتم النّبیین اس لئے لائے گئے کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا تھا۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ آپ بحیثیت رسول اپنی امت کے باپ ہیں۔ آپ کی دوسرے رسولوں پر کوئی فضیلت ظاہر نہ ہوتی تھی۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے آپ ﷺ کو خاتم النّبیین فرما کر آپ کو دوسرے رسولوں سے ممتاز فرمادیا کہ اور نبی تو اپنی امت کے صرف مؤمنوںکے باپ تھے۔ مگر آپ ایسے عظیم الشان اور جلیل القدر نبی ہیں کہ انبیاء کے بھی باپ ہیں۔ یعنی آپ کی اتباع اور توجہ روحانی کمالات نبوت بخشتی ہے اور اگر اس کے معنی آخر کے لئے جاویں تو اس میں آپ ﷺ کو کوئی فضیلت نہیں ہے۔
اس تصریح سے اس حد تک تو مدعا علیہ کی یہ توجیہ درست ہے کہ اﷲتعالیٰ کو چونکہ دیگر انبیاء سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل دکھلانا مقصود تھا۔ اس لئے الفاظ خاتم النّبیین استعمال فرمائے گئے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ محض لفظ خاتم کے استعمال سے آپ کا نبی تراش ہونا کس طرح مفہوم لے لیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر خاتم کے معنی مہر بھی کئے جاویں تو اس کے یہ معنی کرنے سے بھی آپ ﷺ انبیاء سابقہ پر مہر ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت نمایاں ہوسکتی ہے اور محض یہ توجیہ بھی کہ آپ ﷺ انبیاء کے باپ ہیں۔ آپ کی فضیلت ظاہر کر دینے کے لئے کافی ہے۔ پھر معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ کے اس تفصیلی علاقۂ ابوت سے آئندہ توالد انبیاء کا سلسلہ جاری ہونا کس طرح اخذ کیاگیا ہے اور پھر تولد بھی صرف ایک نبی کا اس میں شک نہیں کہ خاتم کے معنی مہر دیگر علماء نے بھی کئے ہیں اور حال ہی میںقرآن مجید کا جو ترجمہ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ کا شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی خاتم کے معنی درج ہیں اور خاتم النّبیین کے معنی انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ ’’مہر 2212ہیں تمام نبیوں پر‘‘ اور میری رائے میں سیاق وسباق عبارت سے یہی معنی درست معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مدعا علیہ کا یہ اعتراض ہوگا کہ پھر رسول اﷲ ﷺ کا آخری نبی ہونا کہاں سے اخذ کیا جائے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو رسول اﷲﷺکا آخری نبی ہونا احادیث سے اور امت کے اجماعی عقیدہ سے اخذ کیا جائے گا۔ امت آج تک آپﷺ کو آخری نبی سمجھتی آئی اور جیسا کہ مولوی مرتضیٰ حسن صاحب گواہ مدعیہ نے بیان کیا ہے۔ آج تک جس قدر اولیاء ابدال، اقطاب، مجتہدین مجدد ہوتے آئے ہیں۔کسی نے اس عقیدہ کی تغلیط نہیں کی۔ دوسرے مدعا علیہ کو بھی اس سے انکار نہیں کہ خاتم النّبیین کے معنی آخری بھی ہیں اور اس معنی پر امت کا اجماع چلا آیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس اجماع کی حقیقت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل جمہور امت کا عقیدہ اس طرح چلا آیا ہے۔ اس لئے ایک امر واقع کو غلط کہنا ایک بے جا حجت ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے لغت اور عربی زبان کے محاورات سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ لفظ خاتم جب ’ت‘ کی زبر سے پڑھا جاوے تو انگوٹھی یا مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر زیر سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ختم کرنے والا۔ دوسرا مہر لگانے والا ہوتے ہیں اور خاتم کا لفظ کمال کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتا اور کہ خاتم کے اصل معنی آخر کے نہیں ہیں۔ اگر آخر کا معنی بھی لئے جائیں تو پھر لازم معنی کہلائیں گے، نہ اصل معنی اور جب اصل معنی لئے جاسکتے ہیں تو لازم معنی کیوں لئے جائیں۔ خاتم اگر کہیں آخر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تو لازم معنی لے کر کیا جاتا ہے اور جب کہ قرآن مجیدمیں کوئی ایسا صریح قرینہ موجود نہیں جو لازم معنی لینے پر ہی دلالت کرے تو اس کے باقی سب معنی چھوڑ کر صرف آخر کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں۔ لیکن مقدمہ ہذا میں سوال زیر بحث عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ کے معنی یا مراد سے تعلق نہیں رکھتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کس 2213معنی پر قائم ہوا۔ جب مدعا علیہ کے نزدیک خاتم کے معنی آخر کے ہوسکتے ہیں اور عقیدہ بھی تیرہ سو سال تک اس پر قائم رہا ہے تو اب ان الفاظ پر بحث کرنا کہ ان کے معنی آخرکے نہیں بلکہ مہر کے ہیں۔ سوائے ایک علمی دلچسپی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں جو علماء اس کے معنی قبل ازیں آخر کے کرتے آئے ہیں۔ ان کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس کی لغت یا اصل سے واقف نہ تھے۔ اس لئے اس لفظ کے معنی پر بحث لاحاصل ہے۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب بھی اپنے دعویٰ سے قبل خاتم النّبیین کے معنی آخری کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ مدعیہ کے گواہان کے بیانات میں دکھلایا جاچکا ہے۔ بعد کے معنی محض تاویلی ہیں اور اپنے دعویٰ کو رنگ دینے کی خاطر کئے گئے ہیں اور اب مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہنا کہ مرزاصاحب نے جہاں جہاں آنحضرت ﷺ کے بعد سلسلہ وحی کومنقطع مانا ہے وہاں ان کی مراد وحی شریعت سے ہے۔ نہ کہ دوسری وحی سے درست نہیں ہے، کیونکہ جہاں انہوں نے وحی کو منقطع مانا ہے۔ وہاں انہوں نے اس کی تصریح نہیں کی اور سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر قسم کی وحی کے انقطاع کے متعلق کہہ رہے ہیں۔ ان کے یہ اقوال اس قسم کے ہیں جن کے متعلق کہ مدعا علیہ کی بحث کے شروع میں فقرہ نمبر۲ میں تشریح کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب کے دیگر اقوال ان کی توضیح یا تشریح نہیں بن سکتے۔ اس قسم کے اقوال جن سے مرزاصاحب انقطاع وحی کے قائل پائے جاتے ہیں گواہان مدعیہ کے بیانات میں مفصل درج ہیں جو اوپر درج کئے جاچکے ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس مسئلہ ختم نبوت کے متعلق پھر یہ کہا گیا ہے کہ احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آیت خاتم النّبیین سے نبوت کو بکلی مسدود نہیں سمجھا۔ جیسا کہ حدیث ’’لوعاش ابراہیم لکان صدیقاً نبیاً‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ آیت خاتم النّبیین کے نزول سے پانچ سال کے بعد حضور نے یہ فرمایا ہے۔ لیکن اوّل تو اس حدیث کے صحیح ہونے میں شبہ ہے۔ جس کا اظہار خود گواہ مدعا علیہ نے کر دیا ہے۔ دوسرا اس میں لوکا ایک شرطیہ لفظ موجود 2214ہے اور قواعد عربی کی رو سے مدعا علیہ کی طرف سے یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ جہاں لوداخل ہو وہاں وقوع نہیں ہوتا۔ تیسرا اس میں نبوت کی کوئی تفصیل نہیں کہ کیسی نبوت ہوگی۔ چوتھا نبوت کاامکان حضرت ابراہیم کی زندگی پر تھا جب وہ وفات پاگئے۔ نبوت کا امکان بھی چلا گیا۔ اس سے کسی طرح بھی آئندہ نبوت جاری رہنے کا نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے حضرت عائشہ کا ایک قول ’’قولوا خاتم النّبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘ نقل کیا جاکر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس قول سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو الفاظ خاتم النّبیین اور لا نبی بعدی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا غلطی پر ہیں۔ اس ضمن میں پھر یہ کہاگیا ہے کہ دوسری شہادت حضرت علیؓ کی ہے جو یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے استاد کے پاس بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ایک دفعہ اتفاقاً حضرت علیؓ وہاں سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں کو خاتم النّبیین کا لفظ ’’ت‘‘ کی زبر سے پڑھاؤ۔ دوسری قرأت میں خاتم ’ت‘ کی زیر سے بھی آیا ہے۔ پس اگر حضرت علیؓ کے نزدیک ’ت‘ کی زیر سے بھی خاتم کے معنی آخری نبی کے بنتے تھے تو آپ نے زیر کے پڑھانے سے منع کیوں کیا۔ کیونکہ زیر سے ختم کرنے کے معنی زیادہ واضح ہو جاتے تھے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ دونوں میں آپ فرق سمجھتے تھے اور زیر پڑھانے سے آپ کو اس کا خطرہ تھا کہ کہیں بچوں کے ذہن میں نبوت کے متعلق خلاف عقیدہ نہ بیٹھ جائے۔
حضرت علیؓ کے متعلق جو حدیث لا نبی بعدی والی بیان کی گئی ہے اور جو مولوی محمد حسین صاحب گواہ مدعیہ کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے۔ اسے مدعا علیہ کی طرف سے صحیح مانا گیا ہے۔ مگر اس کی تاویل یہ کی گئی ہے کہ بعدی سے مراد یہاں موت کے بعد نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے۔ بلکہ بعدی سے مراد جنگ تبوک کا عرصہ ہے۔ یعنی اس عرصہ میں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور اس سلسلہ میں ایک اور حدیث کا حوالہ دیا جاکر یہ بیان کیاگیا ہے کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اے علیؓ تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے خلیفہ بنو۔ جیسے ہارون، موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ مگر ہاں تم نبی نہیں ہوگے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ اس جملہ کے فرمانے کی ضرورت یہ تھی 2215کہ جب حضرت علیؓ کو ہارون علیہ السلام سے مشابہت دی گئی تو شبہ پڑ سکتا تھا کہ آپ حضرت ہارون کی طرح نبی بھی ہوں گے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ تم میرے بعد خلیفہ ہوگے۔ نبی نہیں ہوگے۔
یہ تمام دلائل محض قیاسی ہیں اور کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کا جواب بھی قیاس ہوسکتا ہے۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادوں کا جو قصہ بیان کیاگیا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت علیؓ نے ’’ت‘‘ کی زیر سے اس لئے پڑھانا منع کیاہو کہ زیر سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت کا پہلو پوری طرح سے ظاہر نہیں ہوتا اور زبر سے پڑھانے سے دونوں پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں اور اگر یہ سمجھا جاوے کہ اس وقت حضرت علیؓ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ زیر سے پڑھانے سے نبوت کے منقطع ہونے کا مغالطہ پڑتا ہے کہ ان کے نزدیک حضور کے بعد نبوت جاری رہے گی تو جنگ تبوک کے موقعہ پر جب حضور ﷺ نے انہیں ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دے کر یہ فرمایا تھا کہ لا نبی بعدی۔ تو وہ عرض کر سکتے تھے کہ حضور ﷺ جب آپ مثل موسیٰ ٹھہرے اور میں مثل ہارون علیہ السلام تو میں بھی آپ کا چچازاد بھائی ہوں اس لئے آپ موسیٰ علیہ السلام کی طرح کیوں میرے حق میں دعا نہیں فرمادیتے کہ خدا مجھے بھی نبی بنادے اور باہمی مماثلت کی بناء پر کوئی عجب نہ تھا کہ حضور ﷺ کی دعا سے خدا انہیں بھی نبوت کا مرتبہ عطاء فرمادیتا۔
یہ محض ایسے قیاسات ہیں کہ جو ظنیات کی حد تک بھی نہیں پہنچتے اورمذہب میں جیسا کہ خود مدعا علیہ کی طرف سے تسلیم کیاگیا ہے قطعیات کا اعتبار ہوتا ہے۔ نہ ظنیات یا قیاسات کا۔ باقی رہا حضرت عائشہؓ کا قول اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے تین جواب دئیے گئے ہیں ایک! تو یہ ’’لا نبی بعدہ‘‘ کے کہنے سے چونکہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی بدعقیدہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے انکار نہ کر دے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم النّبیین کہو۔ ’’لا نبی بعدہ‘‘ نہ کہو۔ دوسرا! یہ کہ خاتم النّبیین کے کہنے سے چونکہ دونوں مدعا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری اور افضل ہونا ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے آپؓ نے فرمایا کہ لا نبی بعدہ، نہ کہو بلکہ خاتم النّبیین کہو۔
2216تیسرا! یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے یہ حدیث خود روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نبوت ختم ہوچکی۔ سوائے اس کے اب مبشرات ہوں گے اور مبشرات کی تشریح آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ اچھی خوابیں اس لئے مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کو خود اس حدیث کا علم تھا تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ’’لا نبی بعدہ‘‘ کہنے سے اس لئے منع کیا کہ وہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کو جاری سمجھتی تھیں۔ یہ ایک بہت معقول جواب ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو آپ نے منع کیا ہوگا کہ وہ لا نبی بعدہ نہ کہیں۔ تو انہوں نے آخر کوئی وجہ تو دریافت کی ہوگی۔ کیونکہ اس سے شبہ پڑ سکتا تھا کہ کیا آپ کے بعد نبوت جاری ہے۔ جو وہ ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ایسی کوئی تفصیل بیان نہیں کی جاتی۔ اس لئے ان کے اس قول سے یہ کوئی دلیل نہیں پکڑی جاسکتی کہ وہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری سمجھتی تھیں۔
اس سلسلہ میں پھر مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ بھی واضح رہے کہ قرآن مجید میں الفاظ خاتم النّبیین ہیں آخر النّبیین نہیں۔ آخر کچھ تو بھید ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کے لئے آخر النّبیین نہیں کہا بلکہ خاتم النّبیین کہا۔
اس میں اوّل تو کوئی بھید نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ آخر النّبیین کا لفظ خاتم النّبیین کے مقابلہ میں زیادہ فصیح معلوم نہیں ہوتا اور قرآن مجید میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں ہوا جو غیر فصیح ہو۔ دوسرا اﷲتعالیٰ کو چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دونوں فضیلتیں یعنی آپ ﷺ کا آخر ہونا اور افضل ہونا دکھلانا مقصود تھیں۔ اس لئے خاتم النّبیین کا لفظ استعمال فرمایا گیا۔
اور اگر اﷲتعالیٰ کو اس میں کوئی بھید رکھنا منظور تھا تو پھر اس بھید کا کیا حل ہے کہ اﷲتعالیٰ نے جب قرآن مجید کو نور ہدایت اور فرقان فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کرنے میں تمہاری فلاح ہے اور گزشتہ بہت سے انبیاء کی تفصیل بھی بیان فرمادی۔ لیکن آئندہ آنے والے نبیوں کے متعلق نہ کوئی صراحت فرمائی اور نہ یہ فرمایا کہ ان پر بھی ایمان لانا فرض ہوگا تو پھر قرآن کیونکر نور اور ہدایت ٹھہرا۔
2217مدعا علیہ کے ایک گواہ کا بیان ہے کہ جس حدیث میں آخر الانبیاء کا لفظ آیا ہے وہ خبر واحد ہے جو ظن کا مرتبہ رکھتی ہے اور عقائد میں ظنیات کام نہیں دیتے۔ لیکن افسوس کہ یہ کہتے وقت اسے شاید اپنے طریق استدلال پر نظر نہیں رہی کہ وہ کہاں تک قطعیات کی رو سے بحث کر رہا ہے۔
اس طرح اس نے ان احادیث کی بہت سی تاویلیں کی ہیں جن میں حضور ﷺ کے متعلق آخر کے الفاظ پائے جاتے ہیں اور عربی، فارسی، اردو شعراء اور مصنّفین کے اقوال کے حوالوںسے یہ دکھلایا ہے کہ لفظ آخر اکثر، بمعنی کمال استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر درج کیاگیا ہے یہ تمام بحث ایک علمی دلچسپی کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہاں بحث عقائد سے ہے نہ کہ الفاظ کے معنی سے اور چونکہ الفاظ زیر بحث سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ اس لئے اس معنی پر ہی آج تک امت کا عقیدہ چلا آیا ہے اور یہ عقیدہ جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے۔ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے۔ اس لئے اس عقیدہ کو تبدیل کرانا کسی ادیب عالم مفتی یا قاضی کا کام نہیں بلکہ یہ عقیدہ سوائے اس شخص کے جو مامور من اﷲ ہو اور کوئی تبدیل نہیں کراسکتا۔ اس پر پیچھے کافی بحث ہوچکی ہے کہ آیا مرزاصاحب نبی اور مامور من اﷲ ہیں یا نہ اور آخیر نتیجہ میں بھی اس پر بحث کی جائے گی۔
مدعا علیہ کی طرف سے شیخ محی الدین ابن عربیؒ اور دیگر بزرگان کے اقوال نقل کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی نبوت مرتفع ہونے سے یہ مراد ہے کہ شریعت والی نبوت مرتفع ہوگئی نہ کہ مقام نبوت اور کہ وہ حضور ﷺ کے قول لا نبی بعدی کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ آپ کے بعدکوئی ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کے خلاف ہو۔ بلکہ جب بھی ہو گا آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔
مدعیہ کی طرف سے ان اقوال کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں اور ان بزرگان کے دیگر اقوال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آخری نبی ہونے کے قائل تھے۔ لیکن قطع 2218نظر اس کے یہ ممکن ہے کہ یہ اقوال لکھتے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ان لوگوں کے ذہن میں ہو اور اس لئے یہ کہا گیا ہو کہ آپ ﷺ کے بعد جب بھی کوئی نبی ہوگا وہ آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔ اس کا فیصلہ تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے پوری طرح کیا جاسکتا ہے۔ ان حوالوں کو چونکہ اس فیصلہ میں بحث سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس لئے ان پر زیادہ رائے زنی کی ضرورت نہیں اور اگر ان تحریروں کا مطلب مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق بھی صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ ان کی ذاتی رائے ہے یا امت کا عقیدہ۔ اگر ان تحریروں کے بعد امت نے اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کیا اور ان کا عقیدہ جوں کا توں رہا ہے اور اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تو پھر یہ تحریریں ان کی ذاتی اور شخصی رائے کے سوا اور کوئی وقعت نہیں رکھتیں اور اگر ان کے یہ اقوال ان کا کشف بھی سمجھے جاویں تو بھی جیسا کہ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے کہا ہے۔ دین کے معاملہ میں وہ دوسروں پر کوئی حجت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ دینی معاملات میں سوائے نبی کی وحی کے اور کوئی بات قطعی نہیں ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کی دوسری حدیث پر جس میں آپ ﷺ نے بنی اسرائیل کے نبیوں کے متعلق کہا ہے کہ جب ان میں ایک نبی فوت ہوتا تھا تو فوراً اس کا خلیفہ نبی ہوتا تھا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہاں حضور ﷺ کی مراد بعدیت متصلہ ہے۔ یعنی آپ کے فوراً بعد ایسا نہیں ہوگا اور امت محمدیہ میں فوراً نبی کی ضرورت نہ ہوگی۔ لیکن اوّل تو اس حدیث کے یہ معنی تاویلی ہیں۔ دوسرا نہیں کہا جاسکتا کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں ایسا کوئی زمانہ نہیں آیا کہ جس میں نبی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب کے لئے مدعا علیہ جس قسم کی نبوت ثابت کرنا چاہتا ہے اس کی اس معنی سے تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کے نزدیک مرزاصاحب کو جو نبوت ملی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کمال اتباع اور فیض سے ملی ہے اور یہ پایا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں ہی حضرت عمرؓ حضور ﷺ کے ایسے متبعین میں سے تھے کہ جن کی زبان پر فرشتے کلام کرتے تھے اور ان کی بابت حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتے اور یہ بھی کہا کہ 2219اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو حضرت عمرؓ مبعوث ہوتے۔ تو کیا حضرت عمرؓ سے بڑھ کر اس وقت حضور ﷺ کی اتباع کی لحاظ سے کوئی شخص نبوت کا مستحق ہوسکتا تھا؟ لیکن مدعا علیہ کی مذکورہ بالا صراحت کے مطابق وہ حضور ﷺ کے بعد اس لئے نبی نہ بنے کہ اس وقت نبی کی ضرورت نہ تھی۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے اتباع سے نبوت ملنے کے ساتھ مشیت میں یہ بھی مقدر ہے کہ اس قسم کے نبوت اس وقت دی جاوے جس وقت کہ اس کی ضرورت ہو اور اس سے مدعا علیہ کے اس اصول کی نفی ہو جاتی ہے کہ حضور ﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے نبوت مل سکتی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور ہے کہ حضرت عمرؓ کو نبوت عطا ہو جاتی۔ کیونکہ وہ نہ صرف کامل متبعین میں سے تھے۔ بلکہ حضور ﷺ کے خاص مورد الطاف تھے اور جیسا کہ حضور ﷺ کے الفاظ سے اخذ ہوتا ہے حضور ﷺ یہ چاہتے تھے کہ وہ نبی ہوں۔ لیکن چونکہ آپ ﷺ کے بعد نبوت منقطع ہوچکی تھی۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ نبی نہیں ہوسکتے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس حدیث کو کہ میرے بعد اگر نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے، ضعیف کہاگیا ہے اور پھر اس ضمن میں لفظ بعد کے بہت سے تاویلی معنی کئے گئے ہیں اور شاید اس لئے کہ یہ حدیث مدعا علیہ کے منشاء کے بالکل مخالف تھی۔ حدیث کے الفاظ ایسے مبہم نہیں کہ ان کے مفہوم کے لئے کسی تاویل کی ضرورت ہو۔ ان سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہاںبعد سے کیامراد ہے۔
ختم نبوت کے بارہ میں مدعیہ کی طرف سے جو حدیث بیت النبوت والی پیش کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ اس میں من قبلی کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مثال ان انبیاء کی نسبت سے ہے جو حضور ﷺ سے پہلے ہوگذرے ہیں۔ آئندہ کسی نبی کے آنے یا نہ آنے کا اس میں ذکر نہیں۔ لیکن یہ حجت اس لئے درست نہیں کہ اس حدیث میں نبوت کو ایک گھر سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کی تکمیل کے سلسلہ میں یہ کہاگیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے وجود سے قبل غیر مکمل تھا۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے پر مکمل ہوگیا۔ اگر آئندہ انبیاء کا سلسلہ جاری رہنا تسلیم کیا جاوے تو پھر اس گھر کی تکمیل لازم نہیں آتی۔ یہ سمجھانے کے لئے کہ اب سلسلہ 2220انبیاء میں سے اور کوئی باقی نہیں۔ نبوت کو ایک گھر سے تشبیہ دی گئی اور جیسا کہ گھر کی چنائی اینٹوں سے کی جاتی ہے۔ اس سے بیت نبوت کی چنائی انبیاء سے ہوئی اور جو ایک اینٹ اس گھر کی تکمیل کو ناقص بنائے ہوئے تھی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے پر پوری ہوگئی۔ اس مثال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ مشیت ایزدی میں جو تعداد انبیاء مقرر تھی وہ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پوری ہوچکی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انبیاء کی تعداد میں اب کوئی عدد باقی نہیں رہا۔ اس لئے سابقہ اعداد میں سے ایک کو واپس لانا پڑا ہے۔ اس پر مدعا علیہ کی طرف سے یہ اعتراض کیاگیا ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا آنا تسلیم کیا جاوے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ مکان کی تعمیر ادھوری رہ گئی۔ لیکن یہ حجت اس لئے قائم نہیں رہ سکتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس مکان کی تعمیر میں پہلے شامل ہوکر اسے مکمل کر چکے ہیں اور نئے نبی اگر ابھی اور آنے باقی ہوں تو پھر اس عمارت کی تعمیر مکمل نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس کی تکمیل اس وقت سمجھی جائے گی جب تمام انبیاء ختم ہوچکیں۔ اس لئے اسے اس وقت میں مکمل سمجھا جائے گا جب کہ تمام انبیاء کا سلسلہ ختم نہ ہو لے۔ حضور ﷺ کا اس عمارت کو اپنی تشریف آوری سے مکمل فرمادینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کے بعد تعداد انبیاء میں سے اور کچھ باقی نہیں۔ حضرت عیسیٰ کا آنا ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے تکمیل شدہ مکان میں سے کچھ اینٹیں اکھاڑ کر بشرط ضرورت دوسری جگہ لگادے۔ اس پر یہ کہا جائے گا کہ اس نے اپنے مکان کو اکھیڑا، یہ نہ کہا جائے گا کہ اس نے مکان کومکمل نہیں کیا۔ کیونکہ اس کی تکمیل پہلے ہوچکی تھی۔
مدعا علیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کا نبی ہونا اس مکان کی تعمیر کا منافی نہیں۔ کیونکہ انہیں حضور ﷺ کے فیض سے نبوت ملی ہے۔ اس لئے یہ نبوت اس مکان بیت النبوت کی تکمیل کا سلسلہ شمار ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایک مکمل چیز پر اگر کوئی اور زائد چیز بطور اضافہ شامل کیا جاوے تو اس سے دو ہی صورتیں پیدا ہوں گی یا تو وہ زائد چیز اس کی زینت کو 2221بڑھادے گی یا اسے بدزیب کر دے گی۔ اب اگر مرزاصاحب کو بیت النبوۃ پر چسپاں کیا جاوے تو وہ یا تو اس کی زینت کو بڑھائیں گے یا اسے بدزیب کریں گے۔ اگر سمجھا جاوے کہ انسے اس کی زینت بڑھے گی تو اس سے وہ افضل الانبیاء ہو جائیں گے نہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، اور یہ بات ان کے اپنے عقیدہ کے بھی خلاف ہے۔ اب صاف ہے کہ ان کے اس بیت النبوۃ پر چسپاں ہونے سے دوسری ہی صورت پیدا ہوگی اور اس گھر کی تکمیل میں وہ زائد از ضرورت ہی رہیں گے۔ اس لئے اس حدیث سے جس کی صحت سے مدعا علیہ کو بھی انکار نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری نبی ہونا پوری طرح ثابت ہو جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے ایک اور حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس کذاب ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو نبی خیال کرے گا۔ حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک جو بھی دعویٰ نبوت کرے وہ ضرور جھوٹا ہے۔ کیونکہ آخر زمانہ میں آنے والے مسیح موعود کو خود حضور ﷺ نے بھی نبی اﷲ کے لقب سے ملقب فرمایا ہے۔ دوسرا تیس کی تعین بھی بتلارہی ہے کہ کوئی سچا بھی آسکتا ہے۔ تیسرا اس حدیث کا مضمون آج سے قریباً پانچ سو برس پہلے پورا ہوچکا ہے۔ کیونکہ ۳۰دجال وکذاب گزر چکے ہیں۔ اس کا جواب ایک تو خود گواہ مدعا علیہ نے ہی دے دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں کہ جس میں کذابوں کی تعداد کم وبیش ۷۰ تک بیان کی گئی ہے۔ اس لئے سمجھا جائے گا کہ حضور ﷺ نے ۳۰ کی کوئی متعین تعداد بیان نہیں فرمائی بلکہ اس قسم کے اعداد بیان کرنے سے حضور ﷺ کی مراد کذابوں کی کثرت بیان کرنے سے تھی۔ کیونکہ اگر مدعا علیہ کی بحث کی رو سے یہ قرار دیا جاوے کہ ایسے کذابوں کی صحیح تعداد ۲۷ ثابت ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو تیس کذاب اس سے قبل گذرنے بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے تین ضرور سچے ہوں گے۔ لیکن ایسا ثابت نہیں ہوتا اور ان باقی مانندہ تین کو بھی دنیا نے جھوٹا ہی سمجھا اور انہیں بھی کذابوں کی ذیل میں داخل کیاگیا۔ دوسرا مسیح موعود کے آنے کی استثناء خود حضور ﷺ نے فرمادی اور ساتھ ہی اس کا نام عیسیٰ ابن مریم بتلا کر اسے نام سے ہی مشخص فرمادیا۔ علاوہ ازیں اگر سچے نبی ہوسکتے تھے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جہاں حضور ﷺ نے جھوٹے نبیوں کی آمد اور ان کی تعداد کی اطلاع دی تھی۔ وہاں اس کی 2222تصریح کیوں نہ فرمائی کہ اس کے بعد سچے نبی بھی آئیں گے اور اس قدر آئیں گے۔ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ امت کو ایک گمراہی سے بچا کر دوسری گمراہی میں ڈال دیا جاتا اور انہیں جھوٹے اور سچے نبی میں تمیز کرنے کے لئے کوئی معیار نہ بتلایا جاتا۔ اس لئے یہ حدیث بھی مشیت ادعا مدعیہ اور مدعا علیہ کی حجت کے منافی ہے۔
لہٰذا اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔
اس کے بعد مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مسیلمہ کذاب وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے جو حوالے مدعیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں اور یہ کہاگیا ہے کہ انہیں اس بناء پر قتل کیاگیا کہ انہوں نے دعویٔ نبوت کیا تھا۔ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ صحابہؓ کا جنگ کرنا محض اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کامقابلہ کر کے خود بادشاہ بننا چاہا تھا اور نبوت کے دعویٰ کو اس کے حصول کے لئے انہوں نے صرف ایک ذریعہ بنایا تھا۔ اگر مدعا علیہ کا یہ ادعا درست بھی سمجھ لیا جاوے تو چونکہ اس کے ساتھ ہی وہ بیان کرتا ہے کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کو حصول حکومت کے لئے ایک ذریعہ بنایا تھا تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ جس بناء پر وہ اپنے آپ کو حکومت کا حقدار سمجھتے تھے۔ صحابہؓ نے اسے بھی نادرست سمجھا تھا۔ اگر صحابہ کے ذہن میں یہ ہوتا کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت ہوسکتی ہے تو وہ ان کی نبوت کے متعلق پورا اطمینان کرتے اور اس کے بعد ان کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرتے۔ خلافت ارضی جلیل القدر انبیاء کی نبوت کا ایک جزو لاینفک رہی ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا مدعیان نبوت خلافت ارضی کو لوازمات نبوت میں سے سمجھتے ہوئے دعویٰ نبوت کے بعد اس کے لئے کوشاں ہوئے ہوں تو اس صورت میں صحابہؓ کا ان کے ساتھ جنگ کرنا دعویٰ نبوت کی بناء پر متصور ہوگا نہ کہ بغاوت کی بناء پر۔ کیونکہ انہیں باغی مرتد اور کافرقرار دیا جاکر سمجھا گیا۔ 2223اس سلسلہ میں مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ظلی وبروزی)
مدعا علیہ نے اپنی بحث میں آگے یہ دکھلایا ہے کہ مرزاصاحب نے ظلی اور بروزی کی اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے قائم کی ہیں کہ جس قسم کی نبوت کے وہ مدعی ہیں وہ شریعت والی نبوت نہیں اور نہ اس سے قرآن مجید کا منسوخ ہونا لازم آتا ہے۔ بلکہ آپ کا مطلب ان سے صرف یہ تھا کہ ان کو بلاواسطہ نبوت نہیں ملی۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کے اتباع اور آپ میں فنا ہوکر اور آپ کی غلامی میں یہ مرتبہ نبوت ملا ہے۔ اس لئے آپ نے اپنے آپ کو ظلی نبی لکھا تاکہ آئندہ لوگ نبی کا لفظ سن کر چونک نہ پڑیں اور اس ظلی بروزی کے لفظ سے سمجھ لیں کہ آپ ویسے نبی نہیں جو معروف اصطلاح میں لئے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہ ہر ایک کمال آپ کو آنحضرت ﷺ کے اتباع اور ذریعہ سے ملا ہے۔ آپ نے صرف اپنی نبوت کی حقیقت سمجھانے کے لئے ظلی، بروزی اور امتی نبی کی اصطلاحیں مقرر کیں تاکہ لوگ نبی کے لفظ سے دھوکا نہ کھا جائیں اور اصطلاحوں کا قائم کرنا ہر ایک کے لئے جائز ہے۔ بروز وغیرہ کے الفاظ صوفیاء نے بھی قائم کئے ہیں۔ مرزاصاحب تناسخ کے اس معنی میں جس معنی میں کہ اہل ہنود سمجھتے ہیں قائل نہ تھے۔ ان کے اس قول سے کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خو، طبیعت اور مشابہت کے لحاظ سے… عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر جنم لیا‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ انحضرت ﷺ کی پیدائش حضرت ابراہیم ہی کی پیدائش تھی۔ چنانچہ انہوں نے (تریاق القلوب ص۱۵۵، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷، حاشیہ) پر وجود دو رویہ کی تفسیر خود ہی بیان کی ہے اور تناسخ کے مسئلہ کا رد مرزاصاحب نے اپنی بہت سی کتابوں میں کیا ہے۔ مہدی موعود کی بروزی نبوت کے متعلق مدعیہ کے گواہ مولوی نجم الدین صاحب نے جو اعتراض کیا ہے۔ اس کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اس نے اس حوالہ کے آگے کی عبارت نہیں پڑھی۔ اس میں خاتم الاولاد کا مطلب یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے خاتمہ کے بعد نسل انسان کوئی کامل فرزند پیدا نہیں کرے گی۔ باستثناء ان فرزندوں کے جو اس کی حیات میں ہوں۔ سوائے ظلی اور بروزی اصطلاحات کے باقی تمام بحث فروعی امور کے متعلق ہے جن کا امر مابہ النزاع پر چنداں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اس کے جواب میں اگر مدعیہ کی بحث کو جو اوپر بیان 2224کی جاچکی ہے دیکھا جاوے تو اس سے یہ نتیجہ درست طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ظلی اور بروزی اور امتی وغیرہ کی اصطلاحات محض الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ دراصل مرزاصاحب کا دعویٰ حقیقی نبو ت کے متعلق ہی تھا۔ جیسا کہ اس کی تشریح بعد میں ان کے خلیفہ ثانی کی تحریر جس کا حوالہ اوپر گذر چکا کی گئی ہے۔ خلیفہ صاحب کی اس تحریر کے متعلق مدعا علیہ نے ان کی ایک اور تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مثال کے طور پر لکھا تھا کہ اگر حقیقی نبی کے یہ معنی کئے جاویں کہ وہ بناوٹی یا نقلی نبی نہ ہو تو ان معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود کو میں حقیقی نبی مانتا ہوں۔ یعنی صادق اور منجانب اﷲ اور غیرتشریعی نبی مانتا ہوں۔ لیکن اس سے ان کی وہ تحریر جس کا حوالہ مدعیہ کی طرف سے دیاگیا ہے رد نہیں ہوئی۔ وہ تحریر بذاتہ ایسی ہے کہ جس سے خود ایک مستقل مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے مرزاصاحب کے حقیقی نبی ہونے کا ثبوت دینے کی بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور پھر ساتھ ہی یہ کہا کہ انہوں نے ظلی بروزی کے الفاظ محض بطور انکسار کے استعمال فرمائے ہیں اور کہ اس قسم کی فروتنی نبیوں کی شان میں داخل ہے۔ ان کے ان الفاظ کی مدعا علیہ کی طرف سے کوئی تردید نہیں کی گئی اور نہ ان کی کوئی تردید ہوسکتی ہے۔ مرزاصاحب نے اپنے ایک اعلان میں یہ لکھا ہے کہ خدا نے مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود ہی قرار دیا۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروزات کے سلسلہ میں مرزاصاحب کے جن اقوال کا حوالہ گواہان مدعیہ کے بیانات میں دیاگیا ہے اور ان سے جو نتائج انہوں نے برآمد کئے ہیں اور جو ان کی بحث میں اوپر بیان کئے جاچکے ہیں ان سے واقعی یہ اخذ ہوتا ہے کہ مرزاصاحب اپنے ان اقوال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس قسم کا جنم مراد لیتے ہیں کہ جو بطریق تناسخ سمجھا جاتا ہے نہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خو، طبیعت اور دیگر خصائل کے ودیعت ہونے سے ان سوالات پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ سوالات مرزاصاحب کی اپنی تکفیر سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اس مقدمہ میں ایک ضمنی سوال ہے۔ اس لئے ان کے ایسے عقائد پر کہ جن پر مقدمہ ہذا کے تصفیہ کا زیادہ دارومدار نہیں ہے۔ تفصیلی بحث بلاضرورت ہے۔
2225ذیل میں مدعا علیہ کی طرف سے مدعیہ کے ان اعتراضات کا جواب درج کیا جاتا ہے جو مرزاصاحب کے دعویٰ نبوت تشریعیہ کے متعلق عائد کئے گئے ہیں۔
اس کی طرف سے بیان کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاں اپنے لئے رسول کا لفظ لکھا ہے وہاں انہوں نے اس لفظ کے ساتھ کسی جگہ شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے صاف لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے بجز فرقان حمید اور کوئی کتاب نہیں۔ دعویٰ نبوت کے متعلق انہوں نے صاف کہا ہے کہ میں ان معنوں سے نبی ہوں کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اور جہاں انہوں نے یہ کہا کہ مجھے نبی کا خطاب دیاگیا۔ وہاں آگے یہ الفاظ بھی ہیں مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔
جہاں مرزاصاحب نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی وحی پر اس طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح کہ قرآن اور دوسری وحیوں پر۔ اس سے ان کا صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ اخذ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس قسم کے اقوال سے یہ مراد ہے کہ آپ اپنی وحی کو منجانب اﷲ اور اس کے دخل شیطانی اور خطا سے پاک ومنزہ ہونے پر کامل یقین رکھتے ہیں اوراس کا وہ اظہار کر رہے ہیں اور یہ اس بات کو مستلزم نہیں کہ آپ صاحب شریعت ہونے کے مدعی ہیں۔
مرزاصاحب نے یہ نہیں کہا کہ میری وحی شرعی اور قرآن کی مثل ہے۔ مرزاصاحب کا اپنی وحی کو مدار نجات ٹھہرانا بھی ان کا مدعی نبوت تشریعہ ہونا ثابت نہیں کرتا۔ کیونکہ ان کی جو وحی اور تعلیم ہے وہ وہی تعلیم ہے جو عین قرآن مجید اور اسلام کی ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اب قرآن مجید کی اس تعلیم پر کاربند ہوکر وہی نجات پاسکتا ہے جو آپ کے حلقہ بیعت میں داخل ہو دوسرا نہیں۔ مرزاصاحب نے یہ نہیں فرمایا کہ میری وحی میں کوئی نئی شریعت ہے یا میری وحی ناسخ شریعت محمدیہ ہے۔ بلکہ فرمایا کہ شریعت محمدیہ کے ہی بعض ضروری احکام کی تجدید ہے۔ قرآن مجید کی بیسیوں آیتیں دوبارہ امت محمدیہ کے اولیاء اﷲ پر نازل ہوئیں۔ اس طرح مرزاصاحب پر قرآن مجید کے بہت 2226سے اوامر ونواہی نازل ہوئے اور انہی کے متعلق مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ: ’’میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
مرزاصاحب کے قول نمبر۶ مذکورہ بالا کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اولیاء امت نے اس امر کو تسلیم کیا ہے۔ شریعت محمدی کے اوامر ونواہی کا بطور تجدید کے کسی بزرگ پر نازل ہو جانا ناجائز ہے۔ صرف ایسے اوامر ونواہی کا جو شریعت محمدیہ کے مخالف ہوں اور آنحضرت ﷺ کی پیروی کا نتیجہ نہ ہوں اترنا ممنوع ہے۔ اس قول میں مرزاصاحب نے شریعت کا لفظ صرف مخالفین کے مقابل پر بطور الزام استعمال کیا ہے اور فرضی طور پر معترضین کو ملزم کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ یہ عذر بھی مخالفین کا باطل ہے۔ کیونکہ شریعت اوامر ونواہی کا نام ہے اور میرے الہامات میں امر اور نہی دونوں موجود ہیں۔
قول نمبر۱۲ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس سے جو مرزاصاحب کے صاحب شریعت نبی ہونے کا استدلال کیاگیا ہے وہ درست نہیں۔ کیونکہ اس جگہ انہوں نے صرف صاحب شریعت نبی محدث اور ملہم کے انکار کا حکم بیان کیا ہے اور دوسرے انبیاء جو شریعت یا احکام جدید نہیں لائے۔ ان کا حکم اس عبارت میں مذکور نہیں اس سے گواہان مدعیہ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ مرزاصاحب کی دوسری تحریروں کے مخالف ہے۔ کیونکہ دوسری جگہ مرزاصاحب نے کہا ہے کہ ’’میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر کھڑا ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف میری مراد نبوت سے کثرت مکالمت ومخاطبت الٰہیہ ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اس وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے اور اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افتراء کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے۔ پس جب کہ میں نے مکذب کے نزدیک خدا پر افتراء کیا تو اس صورت میں میں نہ صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا اور اگر میں مفتری نہیں تو بلاشبہ وہ کفر اس پر پڑے گا۔‘‘
مرزاصاحب کے مدعی صاحب شریعت ہونے کی بابت مدعیہ کی طرف سے جو ان کے ماہواری چندہ دئیے جانے کے حکم کا حوالہ دیا جا کر بحث کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کا یہ 2227جواب ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں اور نہ اس میں تعمیل نہ کرنے والے کے متعلق کافر مرتد یا ملعون وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بلکہ یہ حکم قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے انفاق فی سبیل اﷲ پر بہت زور دیا ہے۔ مرزاصاحب نے اس قرآنی تعلیم کے ماتحت فرمایا کہ ایسا شخص جو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتا اور باوجود مقدرت ۳،۳ ماہ تک اس ربانی حکم سے غافل رہتا ہے اور کچھ پرواہ نہیں کرتا تو اس کا سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں اور گواہان مدعیہ کا یہ کہنا کہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے درست نہیں۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ فرمایا کہ اﷲ کی قسم کہ اگر انہوں نے ایک معمولی رسی بھی جس سے اونٹ باندھا جاتا ہے اور جسے وہ رسول اﷲ ﷺ کے وقت میں ادا کرتے تھے روکی، تو میں ان سے قتال کروں گا۔ دیکھئے کہ زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ ادا نہ کرنے پر کتنی سخت سزا مقرر کی گئی۔ ان دلائل کا زیادہ تفصیلی جوابات دینے کی ضرورت نہیں۔ ان کو اگر گواہان مدعیہ کی پیش کردہ دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو ان کا ابطال خود بخود ہی ثابت ہو جائے گا۔ تاہم ان کے مختصراً جوابات درج کئے جاتے ہیں۔ رسول کی تعریف خود گواہ مدعا علیہ نے یہ کی ہے کہ جو صاحب کتاب ہو اور نبی عام ہوتا ہے۔ چاہے کتاب لائے یا نہ لائے۔ اب مرزاصاحب کے اپنے آپ کو رسول کہنے سے یہی مراد لی جائے گی کہ وہ صاحب کتاب نبی ہیں۔ علاوہ ازیں جو وحی کہ دخل شیطانی سے منزہ قرار دیا جاوے تو وہ منجانب اﷲ ہونے کی وجہ سے اس طرح قطعی ہوگی جیسا کہ دیگر انبیاء کی وحی چنانچہ مرزاصاحب خود بھی فرماتے ہیں کہ اگر ان کی وحی کو جمع کیا جاوے تو وہ کئی جزئیں بن جائے۔ اب اس قسم کی وحی کو اگر کتابی صورت میں نہ بھی لایا جائے تو بھی کتاب اﷲ کہلائے گی۔ کیونکہ اس میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے اوامر ونواہی بیان کئے جاتے ہیں۔ مرزاصاحب کی ایسی وحی جس میں شریعت محمدیہ کے اوامر ونواہی کی تجدید ہے۔ بہت تھوڑی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی جو دیگر وحی ہے اس کی قطعیت کے لحاظ سے اس پر بھی اس طرح ایمان لانا ضروری ہوگا۔ جیسا کہ قرآن مجید پر اور وہ بھی شریعت کا جزو تصور ہوگی۔ اس لئے مرزاصاحب نے رسول کے لفظ کے ساتھ شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا تو بھی ان کی تصریحات 2228سے یہی سمجھا جائے گا کہ وہ صاحب شریعت رسول ہیں چاہے وہ صاف الفاظ میں یہ کہیں یا نہ کہیں۔ ان کے دیگر اقوال سے نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ ان کے دیگر اقوال جن میں انہوں نے اپنی نبوت کی تشریح کی ہے یا یہ کہا ہے کہ جدید شریعت نہیں لائے۔ ان اقوال کا کہ جن سے مذکورہ بالا نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ رد نہیں بن سکتے۔ کیونکہ جیسا کہ شروع بحث میں دکھلایا گیا جو اقوال کہ اپنے اندر مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالب وہی سمجھے جائیں گے جو ان اقوال کی اپنی طرز بیان سے اخذ ہوتے ہیں اور تاوقتیکہ اس بات کی صراحت نہ ہو کہ وہ اقوال واپس لئے جاچکے ہیں۔ دیگر اقوال نہ ان کے قائم مقام بن سکتے ہیں اور نہ ان کی تشریح۔
مرزاصاحب چاہے یہ کہیں یا نہ کہیں کہ ان کی وحی شرعی اور قرآن کی شکل ہے۔ وہ جب اسے دخل شیطانی سے پاک سمجھتے ہیں اور دوسروں پر حجت قرار دے کر اسے مدار نجات ٹھہراتے ہیں اور اپنے نہ ماننے والے کو بھی کافر سمجھتے ہیں اور بقول گواہ مدعا علیہ اب آئندہ کے لئے مرزاصاحب کی بیعت میں داخل ہونا بھی ضروری ہے تو پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی وحی شرعی نہیں؟ خصوصاً جب کہ صاحب شریعت کی تعریف بھی خود مرزاصاحب یہ کرتے ہیں کہ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر ونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا اور پھر آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اوامر ونواہی نئے ہوں۔ ان کی اس تعریف کی رو سے صاف قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی وحی کو شرعی وحی سمجھتے ہیں اور جب وہ شرعی وحی ہوئی تو اس پر ایمان لانا اس طرح واجب ہوا جیسا کہ قرآن مجید پر۔ یہ ضرور ہے کہ قرآن مجید کی آیات کا نزول دیگر اولیاء اﷲ پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے ان کو اپنے اوپر چسپاں نہیں کیا اور نہ ان کو دوسروں پر بطور حجت پیش کیا ہے۔ اس لئے دیگر اولیاء اﷲ کی مثال مرزاصاحب کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جاسکتی۔
2229قول نمبر۶ میں صاحب شریعت کے الفاظ مرزاصاحب کی طرف سے فرضی طور پر استعمال نہیں کئے گئے۔ جیسا کہ مدعا علیہ کا ادّعا ہے۔ بلکہ بڑی شدومد سے صاحب شریعت کی تعریف کی جاکر اپنا صاحب شریعت ہونا دکھلایا گیا ہے۔ اس قول کی عبارت پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہاںصاحب شریعت کے الفاظ فرضی ہیں یا اصلی۔ اس قول کی مزید تائید پھر قول نمبر۱۲ سے ہوتی ہے۔ اس قول کے مرزاصاحب کے دیگر اقوال کے متناقض ہونے کو خود گواہ مدعا علیہ نے بھی مانا ہے اور مرزاصاحب کے دیگر اقوال سے اس نقیض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ قول بذاتہ کسی شرح کا محتاج نہیں اور اپنا مفہوم آپ ہی بیان کر رہا ہے۔ اس قول میں مرزاصاحب نے اپنی عظمت اور شان دکھلا کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی ہیں اور اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والوںکو وہ اس بناء پر کافر کہتے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے ایک دوسری توجیہ ہے کہ وہ اس شخص کو جو انہیں نہیں مانتا اس بناء پر کافر کہتے ہیں کہ وہ انہیں مفتری سمجھتا ہے اور چونکہ وہ مفتری نہیں ہیں اس لئے وہ کفر اس پر توٹتا ہے۔
مرزاصاحب نے اپنی جماعت کو جو ماہواری چندہ دینے کا حکم دیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کی طرف سے جو فرمان شائع ہوا ہے اور جس کا حوالہ اوپر دیاجاچکا ہے اس کے ملاحظہ سے پایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ حکم اﷲتعالیٰ سے مطلع ہوکر دیا ہے۔ گویا یہ حکم دراصل ان کا حکم نہیں۔ اﷲتعالیٰ کا حکم ہے۔ چنانچہ گواہ مدعا علیہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک ربانی حکم ہے اور اس ربانی حکم کی تعمیل نہ کرنے والے کو مرزاصاحب نے منافق کہا ہے۔ اب اگر مرزاصاحب نے صاف الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ وہ مرتد اور ملعون ہے تو اس سے ان کے اس حکم کے نتیجہ پر کہ وہ منافق ہے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ کیونکہ منافق کو خداوند تعالیٰ نے کافروں کی ذیل میں شامل کیا ہے۔ بلکہ بہت بڑا کافر کہا ہے۔ اس لئے قاصر کو سوائے اس کے کہ اسے مرتد اور ملعون سمجھا جائے اور کیا کہا جائے گا۔ کیونکہ اس کا بیعت سے خارج ہو جانا بھی مثل ارتداد ہے۔
اگرمرزاصاحب کے باوجود اسے منافق کہنے اور بیعت سے خارج کرنے کے گواہ مدعا علیہ کے نزدیک پھر بھی وہ مسلمان رہتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ مرزاصاحب کو نبی اﷲ نہیں مانتا۔ 2230کیونکہ نبی کے حکم کی تعمیل عین خدا کی تعمیل ہوتی ہے اور اس کی ناراضگی موجب غضب الٰہی، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم دیتے وقت مرزاصاحب نے بھی اپنے مرتبے کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھا اور اپنی طاقت کے ساتھ خدا کی طاقت کو بھی شامل کرنے کے باوجود قاصر کو صرف یہی سزا دے سکتے ہیں کہ اسے سلسلۂ بیعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ حالانکہ خدا نے نبی کی وہ شان بنائی ہے کہ اس کے حکم کی عدم تعمیل تو بجائے ماند، اس کے آگے اونچا بولنے سے بھی تمام اعمال کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور عدم تعمیل احکام تو دین ودنیا میں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اس سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے یہ درست کہا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے متعلق بھی اس قسم کا کوئی شرعی حکم نہیں۔ جس حکم کا حوالہ گواہ مدعا علیہ نے دیا ہے۔ وہ رسول اﷲ ﷺ کے خلیفہ اوّل کا ہے نہ کہ خدا اور اس کے رسول کا، گواہ مدعا علیہ کا اس بارہ میں مرزا صاحب کا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے ساتھ مقابلہ کرنا مرزاصاحب کے مرتبہ کی اور تنقیص ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ انہیں نبی مانتا ہے اور پھر ان کے احکام کے مقابلہ میں ایک غیر نبی کے احکام پیش کرتا ہے۔ یہ معمہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مرزاصاحب کو باوجود نبی ماننے کے ان کی کیا شان سمجھ رکھی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ مرزاصاحب کا یہ حکم زکوٰۃ پر مستزاد ہونے کی وجہ سے ایک نیا حکم ہے اور اس بناء پر مرزاصاحب اپنی بیان کردہ تعریف کی رو سے بھی شرعی نبی ہوئے۔ ہر حکم انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب نہیں۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نافذ ہونا بیان کیاگیا ہے اور خود مدعا علیہ کی طرف سے اسے ایک ربانی حکم ہونا مانا گیا ہے اور پھر اس کی سزا بھی محض دنیاوی مقرر نہیں بلکہ قاصر کو منافق قرار دیا جاکر اور مرتد بنایا جا کر اسے عذاب آخرت کا مستوجب قرار دیا گیا ہے۔ تو اس حالت میں کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی شرعی حکم نہیں۔ بلکہ محض انفاق فی سبیل اﷲ میں ایک ترغیب ہے۔ اگر نبیوں کے احکام کی اس طرح تعبیر کی جانی لگے تو پھر نبی اور رسولوں کے احکام تو بجائے ماند، احکام خداوندی کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہتی اور نبوت کا تمام سلسلہ ہی ایک بے معنی سی چیز دکھائی دینے لگتا ہے۔ لہٰذا مرزاصاحب کی ان تحریروں سے جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ نتیجہ درست طور پر اخذ کیاگیا ہے کہ وہ 2231صاحب شریعت نبی ہونے کے بھی دعویدار ہیں۔ گو بعد میں انہوں نے اپنے اس دعویٰ میں کامیاب نہ ہونے کی صورت دیکھ کر اس پر زیادہ زور نہیں دیا اور اپنے ان اقوال کی جن سے ان کے صاحب شریعت نبی ہونے کے نتائج اخذ ہوتے مختلف توجیہیں شروع کر دیں۔
اس کے بعد مدعا علیہ کی طرف سے مرزاصاحب کے قیامت، نفخ صور اور حشر احیاء وغیرہ اعتقادات کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ گواہان مدعیہ کی طرف سے ان عقائد کی نسبت جو اعتراضات وارد کئے گئے ہیں وہ درست نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب نے ان عقائد کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن مجید اور احادیث کی رو سے درست ہے۔ ان عقائد کے متعلق زیادہ تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ اگر مرزاصاحب کو نبی تسلیم نہ کیا جاوے تو پھر تو ان عقائد کے متعلق ان کی رائے ایک ذاتی رائے تصور ہوگی اور اس سے اختلاف کیا جانا ممکن ہو گا اور اگر انہیں نبی تسلیم کر لیا جاوے تو پھر ان کی رائے تعلیم وحی کا نتیجہ شمار ہو کر قابل پابندی ہو گا اور اس صورت میں اس سے ذرا بھر اختلاف نہیں ہوسکے گا۔ بلکہ اختلاف کرنے والا عاصی سمجھا جاوے گا۔ ان کے نبی نہ ہونے کی صورت میں ان کے یہ عقائد امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے تحقیق طلب ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس صورت میں ان کے خلاف فتویٰ کی صورت بھی بدل جائے۔ مگر ان کے مدعی نبوت ہونے کی حالت میں ان کے یہ عقائد جمہور امت کے عقائد کے خلاف ہونے کے باعث وجوہات تکفیر میں مزید اضافہ کا سبب بن سکیں گے۔
اب ذیل میں توہین انبیاء کے سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کا جو جواب مدعا علیہ کی طرف سے دیاگیا ہے وہ درج کیا جاتا ہے۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی نبی کی توہین نہیں کی۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ جو شخص اپنے آپ کو جن لوگوں سے مشابہت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی اس پاک گروہ کا ایک فرد ہوں۔ پھر کیونکر ان کی توہین کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ توہین اس کی اپنی توہین ہوگی۔
2232اصول کے لحاظ سے تو یہ بات درست ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ مرزاصاحب کے اقوال سے ہوتا ہے۔ گواہان مدعیہ کے بیانات میں اس کی مفصل بحث پائی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے جن اشعار کو باعث توہین قرار دیا گیا ہے۔ اس سے کوئی توہین پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ مرزاصاحب کے ان اشعار سے مراد یہ ہے کہ جام عرفان الٰہی اور ایقان ہر نبی کو دیا گیا تھا اور خداوند تعالیٰ نے وہ پورے کا پورا مجھے بھی دیا ہے اور کہ میں اپنی معرفت اور عرفان الٰہی میں اور اپنے یقین میں کسی نبی اور رسول سے کم نہیں ہوں اور یہ کمال جو مجھے حاصل ہوا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اتباع سے بطریق وراثت ملا ہے۔
مرزاصاحب پر یہ غلط اتہام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی بھی توہین کی ہے۔ بلکہ آپ کی کتب آنحضرت ﷺ کی تعریف سے پر ہیں۔ جن آیات قرآنیہ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے اوپر چسپاں کی ہیں۔ ان کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی رئیس طائفہ اہل حدیث نے یہ لکھا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان آیات کا مورد نزول ومخاطب وہ ہیں بلکہ ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب ومراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خداوند تعالیٰ نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔
لیکن یہ جواب اس وقت کے متعلق ہے جب تک کہ مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ مرزاصاحب پر یہ الزام بھی غلط لگایا گیا ہے کہ انہوں نے عین محمد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں صاف طور پر کہا ہے کہ میں ان کا خادم ہوں اور وہ میرے مخدوم ہیں۔ میں ان کا ظل ہوں اور وہ اصل ہیں۔ میں آپ کی خدمت اور آپ کی شاگردی اور آپ کے اتباع میں اس قدر فنا ہوں کہ گویا میرا وجود آپ کے وجود سے بلحاظ روحانیت علیحدہ نہیں ہے اور بزرگان دین نے یہ لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے 2233کامل متبع بہ سبب کمال متابعت انہیں میں جذب ہو جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں ایسے رنگین ہوتے ہیں کہ تابع اور متبوع یعنی نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ سوائے اوّل آخر ہونے کے، مرزاصاحب نے یہ نہیں کہا کہ میں عین محمد ہوں۔ بلکہ بروزی طور پر فرمایا ہے اور لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا کہ جو خلق، ہمت، ہمدردی، اخلاق میں اس کے مشابہ تھا اور ظاہری طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطاء کیا۔ تایہ سمجھاجاوے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا۔ لیکن صوفیاء نے اس مقام کو عینیت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اس پر بھی مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس استدلال کو مدعیہ کے پیش کردہ استدلال کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے آگے یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کے اس شعر سے کہ ’’لہ خسف القمر المنیر وان لی‘‘ سے آنحضرت ﷺ کی توہین نہیں نکلتی۔ کیونکہ اگر مرزاصاحب کے لئے چاند اور سورج کا گرہن نشان ہوا تو وہ اس لئے کہ احادیث کی کتب میں سچے مہدی کی علامات میں سے یہ قرار دیا گیا ہے۔ پس یہ نشان بھی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہوگا۔ مگر مدعیہ کا استدلال اس پر نہیں کہ مرزاصاحب نے چاند گرہن کے نشان کو اپنے لئے تجویز کیا ہے۔ بلکہ اس کی طرف سے توہین کا موجب یہ بات سمجھی گئی ہے کہ اس شعر میں رسول اﷲ ﷺ کے معجزہ شق القمر کا استخفاف کیا گیا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کے معجزات کے متعلق مدعیہ کی طرف سے مرزاصاحب کے جن اقوال پر اعتراض کیاگیا ہے۔ اس کا مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے دوسری کتاب میں جہاں آنحضرت ﷺ کے تین ہزار معجزات بتلائے ہیں۔ وہاں اپنی پیش گوئیاں سو کے قریب لکھی ہیں اور آپ نے اپنے دس لاکھ ایسے نشانات بتلائے ہیں کہ اگر ویسے نشانات آنحضرت ﷺ کے شمار کئے جاویں تو دس (۱۰) ارب سے بھی زیادہ ہوں۔
مدعیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ معجزہ خرق عادات ہوتا ہے اور مرزاصاحب نے اپنے نشانات کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ اوّل درجہ کے خرق عادت ہیں۔ اس لئے ان نشانات کو بھی 2234معجزات ہی شمار کیا جائے گا۔ ہر دو فریق کے دلائل اس بارہ میں مسل پر موجود ہیں۔ ان سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ صداقت کس میں ہے۔ میں ان سوالات پر اس لئے بھی زیادہ بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہ سوالات مرزاصاحب کی اپنی ذات کے متعلق ہیں اور امر مابہ النزاع سے ان کا بہت تھوڑا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس طرح مدعا علیہ کا یہ ادعا ہے کہ مرزاصاحب نے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کی بھی کوئی توہین نہیں کی۔ اس کے بعد پھر اس کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے سلسلہ میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاں عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی فضیلت بیان کی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے متبع اور امتی ہونے کی وجہ سے کی ہے اور علماء خود مانتے چلے آئے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے بھی یہ خواہش کی تھی کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کی امت میں سے ہوں اور دوسرے شعراء اور صوفیاء کے اقوال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ بھی رسول اﷲ ﷺ کے متبع ہونے کے باعث حضرت عیسیٰ پر اپنی فضیلت ظاہر کرتے آئے ہیں۔ مگر اسے توہین نہیں سمجھا گیا اور اس ضمن میں شیخ محمود حسن صاحبؒ کے چند اشعار جو انہوں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے مرثیہ میں لکھے ہیں درج کئے جاکر یہ بحث کی گئی ہے کہ ان اشعار سے انبیاء کی توہین نہیں ہوتی۔ پھر مرزاصاحب کے اشعار سے کیونکر توہین اخذ کی جاتی ہے۔
اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے دیا ہے کہ جو مدحیہ اشعار ہوں وہ تحقیقی نہیں ہوتے۔ بلکہ بشر کی کلام میں اٹکل کے ہوتے ہیں اور شاعرانہ محاورہ نئی نوع کلام کی تسلیم کیاگیا ہے۔ فرق اس میں یہ ہے کہ جو خدا کی کلام ہوگی تو وہ عقیدہ ہوگا اور تحقیق ہوگی اور وہ کسی طرح اٹکل نہ ہوگی۔ حقیقت حال ہوگی۔ نہ کم نہ بیش۔ بشر انتہائی حقیقت کو نہیں پہنچتا۔ تخمینی لفظ کہتا ہے اور دنیا نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ شاعرانہ نوع تعبیر عام اطلاق الفاظ نہیں اور وہ تخمینہ پر عبارت کہہ دیتے ہیں جو آس پاس ہوتی ہے۔ ٹھیک حقیقت نہیں ہوتی اور خود شاعر کی نیت میں اور ضمیر میں منوانا اس کا عالم کو منظور نہیں ہوتا۔
2235جھوٹے اور شاعر میں یہ فرق ہے کہ جھوٹا کوشش کرتا ہے کہ میری کلام کو لوگ سچ مان لیں اور شاعر کی اصلاً یہ کوشش نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ حاضرین بھی میرے اس کلام کو حقیقت پر نہیں سمجھیں گے۔ بلکہ اگر کوئی حقیقت پر سمجھے تو دوسرے وقت وہ اس کی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اور ایسے وقائع دنیامیں بہت پیش آچکے ہیں۔ مبالغہ شاعروں کے ہاں ہوتا ہے اور یہ ایک قسم ہے کلام کی جو فنون علمیہ میں درج ہے اور اس مبالغہ کی حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی چیزکو بڑا ادا کرنا اور بڑی چیز کو چھوٹا بشرطیکہ نہ اعتقاد ہو اور نہ مخلوق کو منوانا ہو۔ پس اگر کوئی شخص کوئی ایسی چیز کہتا ہے کہ جس سے مغالطہ پڑتا ہے۔ نبوت کے باب میں اور وہ ساری کوشش اس میں خرچ کرتا ہے تو وہ اور جہاں کا ہے اور حضرت شاعر اور جہاں میں۔
چنانچہ مرزاصاحب اپنی کتاب (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر لکھتے ہیں کہ ’’یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔‘‘ علاوہ ازیں سمجھ میں نہیں آتا کہ مرزاصاحب نے شاعری کا شیوہ کس طرح اختیار فرمایا اور کیوں انہیں اس معاملہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفات عالیہ سے بطور ظل کے حصہ نہ ملا۔ کیونکہ حضور ﷺ کے متعلق قرآن مجید کی سورۂ یٰسین میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ‘‘ اور سورۂ شعراء میں شعراء کی مذمت کی جاکر یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’الم تر انہم… یفعلون‘‘ اس حکم کے تحت میں تو مرزاصاحب کے نہ صرف وہ اقوال جو اشعار میں درج ہیں بلکہ کوئی قول بھی معتبر نہیں رہتا۔
مدعیہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’مرزاصاحب نے حضرت مسیح کے معجزات کو مسمریزم کی قسم سے کہا ہے۔‘‘ مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ میں حضرت مسیح کے اعجازی خلق کو مانتا ہوں۔ ہاں اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح نے خداتعالیٰ کی طرح حقیقی طور پر کسی مردہ کو زندہ کیا۔ یا حقیقی طور پر کسی پرندہ کو پیدا کیا۔ کیونکہ اگر حقیقی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے مردہ زندہ کرنے یا پرندے پیدا کرنے کو تسلیم کیا جاوے تو اس سے خداتعالیٰ کی خلق اور اس کا احیاء مشتبہ ہو جائے گا اور عمل ترب کے متعلق وہ اپنے ایک الہام کے حوالہ سے یہ لکھتے ہیں کہ 2236یہ عمل الترب ہے۔ جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں۔ آپ نے اس عمل کو اپنے لئے اس لئے پسند نہ کیا کہ اس علمی زمانہ میں ایسے معجزات دکھلانے کی ضرورت نہ تھی اور حضرت مسیح کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے۔ باذن وحکم الٰہی اختیار کیا تھا۔ ورنہ انہیں بھی یہ عمل پسند نہ تھا۔
اس جواب کے متعلق بھی مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہر دو فریق کی طرف سے اس بارہ میں جو مواد پیش کیاگیا ہے وہ اوپر دکھلایاجاچکا ہے۔ اس سے ہر دو کے دلائل کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے متعلق مرزاصاحب کے جو دیگر اقوال ان کی کتب ’’دافع البلاء اور ضمیمہ انجام آتھم وغیرہ‘‘ سے پیش کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان میں بہت ہی سب وشتم درج ہے۔ ان کی بابت مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ان میں عیسائی مخاطب ہیں اور ان اقوال میں ان لوگوں کے اعتقادات کے مطابق جو ان کی کتابوں میں درج ہیں۔ انہیں الزامی جواب دئیے گئے ہیں اور فن مناظرہ میں اس قسم کی روش عام طور پر اختیار کی جاتی ہے اور اس کی تائید میں مدعا علیہ کی طرف سے دیگر علماء کے اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ مرزاصاحب کے ان اقوال کو اگر سیاق وسباق عبارت سے ملا کر دیکھا جاوے تو مدعا علیہ کا یہ جواب حقیقت سے خالی معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ان دشنام آمیز الفاظ کو سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے اپنی شہادت میں بسلسلہ توہین عیسیٰ علیہ السلام بیان نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں موجب ارتداد مرزا صاحب میں اس قسم کی کوئی چیز پیش نہیں کرتا۔ جس میں کہ مجھے نیت سے بحث کرنی پڑے۔ بلکہ میں نے اس چیز کو لیا ہے جسے انہوں نے قرآن کی تفسیر بنایاہے اور اسے حق کہا ہے اور جن چیزوں میں مجھے نیت کی تلاش رہتی وہ میں نے اپنی بحث سے خارج کر دئیے ہیں اور انہیں موجب ارتداد قرار نہیں دیا۔
2237میں نے مرزاصاحب کی نیت پر گرفت نہیں کی زبان پر کی ہے اور نہ ہی وجہ ارتداد میں تعریض کو لیا ہے۔ بلکہ جس ہجو کو انہوں نے قرآن مجید سے مستند کیا اور اسے قرآن مجید کی تفسیر گردانا اور جس ہجو کو اپنی جانب سے حق کہا وہ اسے وجہ ارتداد سمجھتے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے مرزا صاحب کے حسب ذیل اقوال داخل کئے ہیں۔ ’’مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
اور کہا ہے کہ اس سے تعریض اور تصریح دونوں قسم کی توہین ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ ’’عیسائیوں نے آپ کے بہت سے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
اس سے صریح عیسیٰ علیہ السلام کی توہین ٹپکتی ہے۔ کیونکہ حق بات کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مرزاصاحب کے اپنے فیصلہ کے الفاظ ہیں۔ شاہ صاحب کی یہ رائے عین حق شناسی پر مبنی ہے اور جن اقوال سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کا نتیجہ نکالا ہے۔ ان سے واقعی ان کی توہین اخذ ہوتی ہے۔ باقی رہا کسی نبی کا دوسرے نبی سے افضل ہونے کا سوال اس کے متعلق شاہ صاحب کے بیان کے حوالہ سے اوپر جواب دیا جاچکا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تمام امت کی تکفیر)
چھٹی وجہ تکفیر بیان کردہ گواہان مدعیہ کا مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ تمام امت محمدیہ مشرک ہے۔ بلکہ جس عبارت کا حوالہ گواہان مدعیہ کی طرف سے دیا جاکر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ پہلے مسلمانوں سے یہ قول غلطی سے صادر ہوا ہے اور وہ لوگ خدا کے نزدیک معذور ہیں۔ کیونکہ انہوں نے عملاً غلطی نہیں کی اور انہوں نے حیات مسیح کے عقیدہ کو مبداء شرک یامنجز الی الشرک قرار دیا ہے اور اس کو شرک عظیم کہنا باعتبار مایؤل الیہ کے ہے اور اس امر کو حق بلاغت میں مجاز مرسل سے شمار کیاگیا ہے۔ اس ضمن میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ درج کیا جاتا ہے کہ حیات عیسیٰ کے مسئلہ پر فریقین کو بحث کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی جس قسم کی حیات کے تمام مسلمان قائل ہیں وہ ادراک انسانی سے باہر ہے۔ اس لئے اسے امر واقع کے 2238طور پر ثابت کرنا ایک لاحاصل سعی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ قرآن مجید کی رو سے اس ظاہر زندگی کے علاوہ ایک اور قسم کی زندگی بھی ہے جس کو انسانی فہم اور عقل احاطہ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ شہداء کے متعلق بیان کیاگیا ہے کہ وہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور اس کے ہاں انہیں رزق ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو آیت ’’لا تحسبن الذین قتلوا… من فضلہ‘‘ پارہ۴ رکوع۷، سورۂ آل عمران مدعیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مرزاصاحب نے ایک لفظ ’’ذریۃ البغایا‘‘ استعمال کر کے تمام مسلمانوں کو ولد الزنا قرار دیا ہے اس کا جواب مدعا علیہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ذریۃ البغایا کے معنی وہ نہیں جو فریق مخالف نے لئے ہیں۔ کیونکہ ان معنوں کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں۔ ظاہر میں اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ ہدایت سے دور اور ناشائستہ آدمی جن کی حالت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہریں ہیں وہ انہیں قبول نہ کریں گے یا یہ کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو لوگوں کا پیشوا اور امام سمجھتے ہیں یعنی مولوی لوگ جو کفر کے فتویٰ لے کر شہر بشہر پھرتے ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ بغایا کے معنی ہر اول کے بھی ہوتے ہیں۔ نیز بغایا مطلق عورتوں کو بھی کہتے ہیں۔ چاہے وہ فاجرہ ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن اس پر بھی زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ اس لفظ کے استعمال اور طرز خطاب سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہاں اس لفظ سے کیا مراد ہے۔
مرزاصاحب اپنے مکذبین اور منکرین کو کافر کہنے سے مدعیہ کی طرف سے جو انہیں کافر کہا گیا ہے اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب اپنے نہ ماننے والوں کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ جو شخص انہیں نہیں مانتا وہ انہیں مفتری قرار دے کر نہیں مانتا۔ اس لئے ان کی تکفیر کی وجہ سے وہ خود کافر بنتا ہے۔ لیکن یہ کوئی معقول جواب نہیں۔ کیونکہ ایک شخص اگر واقعہ میں کافر ہو تو اسے کیوں کافر نہ کہا جاوے۔ اس طرح تو کسی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ کیونکہ اسے کافر کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔ مرزاصاحب کے سچے یا جھوٹے نبی ہونے کے متعلق اوپر بحث کی جاچکی ہے۔ لہٰذا ان دلائل کی رو سے اگر کوئی شخص ان کو کافر کہتا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خود پھر کیونکر کافر ہو جائے گا اور اگر بالفرض محال یہ رائے درست بھی ہو تو 2239پھر صرف ان لوگوں کوکافر کہنا چاہئے جو مرزاصاحب کو کاذب یا کافر کہیں۔ جو ان کی نہ تکذیب کرتے ہیں اور نہ تکفیر۔ انہیں کیوں کافر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ انہیں کافر کہنے کی یہ وجہ نہیں کہ وہ مرزاصاحب کو مفتری جان کر کافر کہتے ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ خود مرزاصاحب نے اپنی کتاب (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۲۶۹) پر یہ بیان کی ہے کہ: ’’کسی کا کوئی عمل میرے دعویٰ اور دلیلوں اور میرے پہچاننے کے بغیر مفید نہیں ہوسکتا۔‘‘
پھر آگے اس کتاب (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۳۰۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’بہرحال حکم خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخض کو جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔‘‘
ان عبارات سے صاف اخذ ہوتا ہے کہ جو شخص مرزاصاحب کو نہیں مانتا خواہ ان کو کافر کہے یا نہ کہے وہ مسلمان نہیں اور اس کا کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہے۔ مدعا علیہ کے گواہان نے ریاست ہذا کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور یہ دکھلانے کے لئے کہ گواہان مدعیہ نے مرزاصاحب اور ان کے متبعین کے خلاف فتویٰ تکفیر محض اپنے بغض اور عناد کی بناء پر اور اپنے بزرگان کے اقتداء کا خوگر ہونے کی وجہ سے دیا ہے۔ ورنہ دراصل مرزاصاحب ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں ہیں۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ کہ جن کا نہ صرف ریاست بہاول پور کا ایک حصہ معتقد اور مرید ہے بلکہ جن کے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی بکثرت مرید پائے جاتے ہیں کی ایک کتاب ’’اشارات فریدی‘‘ سے یہ دکھلایا ہے کہ ان کے نزدیک مرزاصاحب کسی عقیدہ اہل سنت والجماعت اور ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں پائے جاتے۔ بلکہ آپ ان کے متعلق یہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے تمام اوقات خداتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں اور حمایت دین پر کمربستہ ہیں اور کہ علمائے وقت تمام مذاہب باطلہ کو چھوڑ اس نیک آدمی کے پیچھے پڑ گئے ہیں جو اہل سنت والجماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے۔
اور خواجہ صاحب کی اس تحریر پر بڑی شرح اور بسط سے بحث کی جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ یہ الفاظ خواجہ صاحبؒ کے اپنے ہی ہیں اور انہوں نے مرزاصاحب کی کتابیں دیکھنے کے بعد یہ 2240رائے قائم کی تھی۔ مدعیہ کی طرف سے بھی اس کا مفصل جواب دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کی جو کتابیں خواجہ صاحب نے اس وقت تک دیکھیں تھیں۔ ان میں مرزاصاحب کا دعویٰ نبوت درج نہ تھا۔ چنانچہ مرزاصاحب کی ایک تحریر سے جو آپ کی کتاب (انجام آتھم ص۶۹، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) پر درج ہے پایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحبؒ بھی بعد میں مرزاصاحب کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے مرزاصاحب اس تحریر میں لکھتے ہیں کہ: ’’اب ہم ان مولوی صاحبان کے نام ذیل میں لکھتے ہیں کہ جن میں سے بعض تو اس عاجز کو کافر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی اور بعض کافر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں۔ مگر مفتری اور کذاب اور دجال نام رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ تمام مکفرین اور مکذبین مباہلہ کے لئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفر اور مکذب ہیں۔‘‘
اور اس کے ساتھ مرزاصاحب نے ہر دو گروہوں کی فہرستیں دی ہیں۔ اس فہرست میں میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ بہاول پور کا نام بھی درج ہے۔
فریقین کی ان بحث ہائے کو مدنظر رکھتے ہوئے حسب ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک مقدس اور نیک لوگوں کے گروہ کا نام صوفیائے ہے۔ ان صوفیائے کرام کو ذکر الٰہی، عبادت اور ریاضت سے جو ذوق اور حظ حاصل ہوتا ہے اس میں ان پر تجلیات الٰہی وارد ہوتی ہیں، اور ان کے قلب کی کچھ اس قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے وہ کچھ غیب کی خبروں پر مطلع ہو جاتے ہیں۔ اس کو وہ الہام یا کشف کہتے ہیں اور بعض صوفیائے کرام نے اسے مجازی طور پر وحی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یہ لوگ اپنے نبی کی تعلیم کے تحت عمل پیرا ہوتے ہیں۔ نبی مامور من اﷲ ہوتا ہے اور اسے اﷲتعالیٰ کی جانب سے براہ راست غیب کی خبروں کی اطلاع دی جاتی رہتی ہے اور اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچائے۔ انہیں قیامت کے دن سے ڈرائے اور آئندہ زندگی کے حالات سے مطلع کرے اور جس ذریعہ سے انہیں یہ اطلاع ہوتی ہے۔ اسے وحی کہا جاتا ہے اور وحی کی یہ اصطلاح انبیاء کے لئے ہی مختص ہے۔ دوسری جگہ اگر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مجازی یا لغوی معنی لئے جاتے ہیں۔ 2241انبیاء کو یہ وحی تین طریق پر ہوتی ہے۔ یا تو اﷲتعالیٰ کوئی بات کسی نبی کے دل میں ڈال دیتا ہے یا فرشتوں میں سے کوئی قاصد بھیج کر اس کے ذریعہ سے مطلع فرماتا ہے۔ یا پس پردہ خود کلام فرماتا ہے۔ یہ وحی چونکہ دخل شیطانی سے منزہ ہوتی ہے۔ اس لئے اسے قطعی سمجھا جاتا ہے اور اس کا نہ ماننا کفر ہے۔ اولیاء کا الہام یا کشف گو دخل شیطانی سے پاک بھی ہو،تا ہم نہ وہ قطعی ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں پر کوئی حجت ہوتا ہے۔ بلکہ الہام اور کشف کے ذریعہ قرآن مجید کے معارف اور اسرار سمجھائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض اکابر صوفیائے کرام پر آیات قرآنی کا نزول بھی ہوتا ہے۔ ان آیات کو وہ اپنے اوپر چسپاں نہیں کرتے۔ بلکہ جیسے کسی سیاح کو دوران سیاحت میں اعلیٰ مقامات دکھلائے جاویں۔ اس طرح ان کو اعلیٰ مراتب روحانی کی سیر کرائی جاتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب جب اس میدان میں گامزن ہوئے اور ان پر مکاشفات کا سلسلہ جاری ہونے لگا تو وہ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکے اور صوفیائے کرام کی کتابوں میں وحی اور نبوت کے الفاظ موجود پاکر انہوں نے سابقہ اولیاء اﷲ سے اپنا مرتبہ بلند دکھلانے کی خاطر اپنے لئے نبوت کی ایک اصطلاح تجویز فرمائی۔ جب لوگ یہ لفظ سن کر چونکنے لگے تو انہوں نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کرنا چاہا کہ تم گھبراتے کیوں ہو۔ آنحضرت ﷺ کے اتباع سے جس مکالمہ اور مخاطبہ کے تم لوگ قائل ہو۔ میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔ یہ صرف لفظی نزاع ہے۔ سو ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کوئی اصطلاح مقرر کرے۔ گویا انہوں نے نبی کے لفظ کو برعکس اس کی اصل اور عام فہم مراد کے یہاں اصطلاحی طور پر کثرت مکالمہ اور مخاطبہ پر حاوی کیا اور یہ اصطلاح بھی اﷲتعالیٰ کے حکم سے قائم کی۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اس لفظ کا استعمال کثرت سے اپنے متعلق کرنے لگے تو لوگ پھر چونکے۔ اس پر انہوں نے پھر یہ کہہ کر انہیں خاموش کیا کہ میں کوئی اصلی نبی تو نہیں بلکہ اس معنی میں کہ میں نے تمام کمال آنحضرت ﷺ کے اتباع اور فیض سے حاصل کیا ہے۔ ظلی اور بروزی نبی ہوں اور اس کے بعد انہوں نے ان آیات قرآنی کو جو شاید کسی اچھے وقت میں ان پر نازل ہوئی تھیں۔ اپنے اوپر چسپاں کرنا شروع کر دیا اور شدہ شدہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کا اظہار کر دیا۔ لیکن صریح آیات قرآنی 2242اور احادیث اور اقوال بزرگان سے جب انہیں اس میں کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے اس دعویٰ کو ترک کر کے اپنا مفر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث میں جا تلاش کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو بذریعہ وحی ثابت کر کے یہ دکھلایا کہ ان احادیث کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں کسی شخص کو نبو ت کا درجہ عطاء کیا جائے گا، نہ یہ کہ حضرت مسیح ناصری واپس آئیں گے۔ مدعا علیہ کے ایک گواہ کے بیان سے یہ اخذ ہوتا ہے اور نامعلوم اس نے بطور خود یا مرزاصاحب کی کسی تحریر کی رو سے یہ بیان دیا ہے کہ احادیث میں جو عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبر آئی ہے اس میں رسول اﷲ ﷺ سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ بعض پیش گوئیاں ایسی ہوتی ہیں جو آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن حقیقت ان کے ظہور کے وقت نمایاں ہوتی ہے اور اجتہادی غلطی پیش گوئیوں کے سمجھنے میں یعنی کیفیت تحقیق وقوع کے لحاظ سے ہر نبی سے ممکن ہے۔ حتیٰ کہ رسول اﷲ ﷺ سے بھی اس کی مثال اس نے بخاری کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر یہ دی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک رؤیا کی بناء پر یہ سمجھا کہ وہ حجر یمامہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے۔ لیکن آپ جس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو اس وقت آپ پر اس پیش گوئی کی حقیقت کھلی کہ اس سے مراد مدینہ تھا اور کہ جب نبی سے اجتہادی غلطی ممکن ہوئی تو پیش گوئی کے پورا ہونے کے وقت اصل حقیقت پیش گوئی کی منکشف ہو جائے گی اور کہ امتی کو پیش گوئی کے تحقق وقوع کے وقت وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ غرض مرزاصاحب نے سابقہ مراحل سے گزرنے کے بعد بڑھ چڑھ کر اپنے مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کا اظہار شروع کر دیا اور نبوت کو پھر ایک ایسا گورکھ دھندہ بنا دیا کہ جو نہ تو لوگوں کی سمجھ میں آسکا ہے اور نہ ہی ان کے اپنے متبعین جیسا کہ اوپر دکھلایا جاچکا ہے۔ ان کے مرتبہ کو بخوبی سمجھ سکے ہیں۔ بلکہ خود خدا کو بھی نعوذ باﷲ ان کے نبی بنانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ جب خداوند تعالیٰ نے یہ محسوس فرمایا کہ نعوذ باﷲ اس کے حبیب سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ اب ان کی آن رکھنے کے لئے اورمرزاصاحب کو نبوت کا مرتبہ عطاء فرمانے کے لئے اﷲتعالیٰ نے بقول مرزاصاحب پہلے تو ان تمام پیش گوئیوں کو جوقرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق 2243تھیں۔ مرزاصاحب کی طرف پھیر دیا اور پھر انہیں کبھی مریم بنایا اور کبھی عیسیٰ اور اس کے بعد بارش کی طرح وحی کر کے یہ جتلایا کہ عیسیٰ ابن مریم فوت ہوچکے ہیں۔ اب تم بلاخوف وخطر نبی ہونے کا دعویٰ کر دو اور جہاں پہلے وہ ’’فاستمع لمایوحی‘‘ اور ’’یا ایہا المدثر قم فانذر‘‘ کی تحکمانہ وحی کے ذریعہ سے نبیوں کو چوکنا کر کے اپنی طرف سے مامور فرمایا کرتا تھا۔ وہاں مرزاصاحب کے لئے اسے نعوذ باﷲ مختلف حیل اختیار کرنے پڑے۔ مرزاصاحب کے اس طرز عمل سے نبی بننے سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہاں نبوت کے عہدے ختم ہوچکے تھے۔ کیونکہ اس نے پہلے تو مرزاصاحب کے لئے نبوت کی اصطلاح تجویز فرمائی۔ پھر وہ جب اس سے خوش نہ ہوئے تو ان کو نبی کا خطاب عطاء فرمادیا۔ جیسا کہ نواب اور راجہ کے خطابات گورنمنٹ سے ان لوگوں کو بھی عطاء فرمائے جاتے ہیں۔ جو صاحب ریاست نہ ہوں۔ لیکن جب مرزاصاحب کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی باوجودیکہ اﷲتعالیٰ انہیں ’’یا ولدی‘‘ بھی فرماچکا تھا اور اس خیال سے کہ رسول اﷲ ﷺ کو چونکہ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں خاتم النّبیین کہہ چکا تھا۔ وہ بھی کسی دوسرے نبی کے بننے سے خفا نہ ہوں۔ مرزا صاحب کو آپؐ کا ظل بنادیا گیا اور آخر کار جب ان کی خوشی نبی بننے میں ہی دیکھی اور یہ بھی خیال آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں بھجوانے کا وعدہ ہوچکا ہے تو انہیں مار کر مرزاصاحب کو نبی بنادیا گیا۔ استغفراﷲ!
گواہ مدعا علیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی سے بھی اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے تو پھر اس کا کیا اعتبار ہے کہ مرزاصاحب سے یہ غلطی نہ ہوئی ہوگی۔ خصوصاً جب کہ مرزاصاحب رسول اﷲ ﷺ کے ظل بھی ہیں۔ غیراغلب ہے کہ اصل کی فطرت ظل کی فطرت پر اثر انداز نہ ہوئی ہو اور علاوہ ازیں مرزاصاحب اپنے اقرار کے مطابق آنحضرت ﷺ سے زیادہ ذکی بھی نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ کی کئی سال سے متواتر وحی کے بعد انہوں نے یہ جا کر سمجھا کہ وہ نبی ہوچکے۔ اس لئے ممکن ہے کہ انہوں نے وحی الٰہی کا مفہوم غلط سمجھ کر دعویٰ نبوت کر دیا ہو۔ مرزاصاحب کی اپنی تصریحات سے یہ پایا جاتا ہے کہ انہیں امتی ہونے کے وقت نزول مسیح کے متعلق وقوع کا علم نہیں ہوا۔ بلکہ جب ان کو نبوت کا خطاب مل چکا۔ اس کے بعد انہیں یہ جتلایا گیا کہ مسیح ناصری 2244فوت چکے ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ کے گواہ کا یہ کہنا کہ امتی کو وقوع کے وقت تحقیق وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ مرزا صاحب کی اپنی تصریحات سے باطل ہوجاتا ہے۔ گواہ مذکور نے رسول اﷲ ﷺ کی جس حدیث کا حوالہ دے کر یہ کہا ہے کہ آپ سے اجتہادی غلطی کا وقوع ممکن ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ہجرت کے وقت کوئی غلطی فرمائی۔ گواہ مذکور کی یہ حجت اس وقت صحیح ہوتی کہ جب آپ بجاے مدینہ کے حجر یمامہ کی طرف تشریف لے جاتے اور پھر وہاں سے مدینہ عالیہ کی طرف لوٹتے۔ وہاں جانے کے متعلق آپ کا صرف ایک خیال تھا جو وقوع میں نہ آیا اور اس رؤیا پر عمل اس طرح ہوا جس طرح مشیت ایزدی میں مقدر تھا۔ خود اس مثال سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر نبی کو کسی طرح غلط فہمی ہو بھی جائے تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے اسے فوراً رفع کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ صدیوں تک وہ غلطی چلی جائے اور نہ خود نبی پر اور نہ اس کے کامل متبعین پر اس کا افشاء ہو۔ اس لئے یہ کہنا بڑی دیدہ دلیری ہے کہ رسول اﷲ سے نزول عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی بیان کرنے میں اجتہادی غلطی ہوئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے پھر اخیر عمر میں جاکر اپنے دعویٰ کی غلطی کو محسوس کیا اور پھر اصطلاحی نبوت کو ہی جاکر قائم کیا۔ جس سے انہوں نے اپنے دعویٰ کی ابتداء شروع کی تھی۔ جیسا کہ ان کے اس خط سے جو انہوں نے وفات سے دو تین یوم قبل اخبار عام کے ایڈیٹر کے نام لکھا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے اس میں درج ہے کہ سو میں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیش گوئی کرنے والا ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے بجا طور یہ کہا ہے کہ مرزاصاحب کی کتابیں دیکھنے سے یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ان کی ساری تصانیف میں صرف چند ہی مسائل کا تکرار اور دور ہے ایک ہی مسئلہ اور ایک ہی مضمون کو بیسیوں کتابوں میں مختلف عنوانوں سے ذکر کیا ہے اور پھر سب اقوال میں اس قدر تہافت اور تعارض پایا جاتا ہے اور خود مرزاصاحب کی ایسی پریشان خیالی ہے اور بالقصد ایسی روش اختیار کی ہے کہ جس سے نتیجہ گڑبڑ ہے اور 2245ان کو بوقت ضرورت مخلصی اور مفرباقی رہے۔ چنانچہ کہیں وہ تو ختم نبوت کے عقیدہ کو اپنے مشہور اور اجماعی معنی کے ساتھ قطعی اور اجماعی عقیدہ کہتے ہیں اور کہیں ایسے عقیدہ بتلانے والے مذہب کو لعنتی اور شیطانی مذہب قرار دیتے ہیں۔ کہیں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو تمام امت محمدیہ کے عقیدہ کے موافق متواترات دین میں داخل کرتے ہیں اور اس پر اجماع ہونا نقل کرتے ہیں اور کہیں اس عقیدہ کو مشرکانہ عقیدہ بتلاتے ہیں۔
ختم نبوت کا عقیدہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے اور خاتم النّبیین کے جو معنی مدعا علیہ کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے صحیح معنی وہی ہیں جو گواہان مدعیہ نے بیان کئے ہیں مدعا علیہ کی طرف سے اس ضمن میں یہ کہاگیا ہے کہ یہ حدیث ہے کہ قرآن شریف کی ہر آیت کے ایک ظاہری معنی ہیں اور ایک باطنی اور کہ تاویل کرنے والے کو کافر نہیں سمجھا گیا۔ اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ دیا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں اور باوجود قوی نہ ہونے کے اس کی مراد میرے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث میں لفظ بطن سے تو جو کچھ رسول اﷲ ﷺ کے دل میں تھا وہ سب منکشف نہیں ہے۔ مجملاً ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کی مراد وہ ہے کہ قواعد لغت اور عربیت سے اور ادلہ شریعت سے علماء شریعت سمجھ لیں اور اس کے تحت میں قسمیں ہیں اور بطن سے یہ مراد ہے کہ حق تعالیٰ اپنے ممتاز بندوں کو ان حقائق سے سرفراز کر دے اور بہتوں سے وہ خفی رہ جائیں۔ لیکن ایسا کوئی بطن جو مخالف ظاہر ہو اور قواعد شریعت رد کرتے ہوں۔ مقبول نہ ہوگا اور رد کیا جائے گا اور بعض اوقات باطنیت اور الحاد کی حد تک پہنچا دے گا۔ حاصل یہ ہے کہ ہم مکلف فرمانبردار بندے اپنے مقدور کے موافق ظاہر کی خدمت کریں اور بطن کو سپرد کر دیں خدا کے۔ تاویل کے متعلق ان کا یہ جواب ہے کہ اخبار احاد کی تاویل اگر کوئی شخص قواعد کے مطابق کرے تو اس کے قائل کو بدعتی نہیں کہیں گے۔ اگر قواعد کی رو سے صحیح نہیں تو وہ خاطی ہے۔ آیات قرآنی متواتر ہیں اور قرآن وحدیث جو نبی کریم سے ہم تک پہنچا اس کی دو جانبیں ہیں۔ 2246ایک ثبوت کی، دوسری دلالت کی۔ ثبوت قرآن کا متواتر ہے۔ اس تواتر کا اگر کوئی انکار کرے تو پھر قرآن کے ثبوت کی اس کے پاس کوئی صورت نہیں اور ایسا ہی جو شخص تواتر کی صحت کا انکار کرے اس نے دین ڈھادیا۔ دوسری جانب دلالت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ مطلب پر رہنمائی کرنا۔ دلالت قرآن کی کبھی قطعی ہوتی ہے اور کبھی ظنی۔ اگر اجماع ہو جائے صحابہ کا اس کی دلالت پر یا کوئی اور دلیل عقلی یا نقلی قائم ہو جائے کہ مدلول یہی ہے تو پھر وہ دلالت بھی قطعی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن سارا بسم اﷲ سے لے کر والناس تک قطعی الثبوت ہے۔ دلالت میں کہیں ظنیت ہے اور کہیں قطعیت، لیکن قرآن کے معنی سے دلالت بھی قطعی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں تاویل اوامر ونواہی میں ہوسکتی ہے۔ اخبار میں نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ مدعیہ کے گواہ مولوی نجم الدین صاحب نے بیان کیا ہے۔ اس بحث سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ آیت خاتم النّبیین قطعی الدلالت ہے اور اس کے بطن کے معنی ایسے نہیں ہوسکتے کہ جو رسول اﷲ ﷺ کے خاتم النّبیین معنی آخری نبی سمجھنے کے منافی ہوں اور چونکہ یہ اجماعی عقیدہ ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا معنی سے انکار کفر ہے۔ مدعا علیہ کی طرف سے جو یہ کہاگیا ہے کہ تاویل کرنے والے کو کافر نہیں سمجھا گیا اور جن مسائل کی بناء پر اس نے ایسا کہا ہے۔ وہ اس قبیل کے نہیں۔ جیسا کہ مسئلہ ختم نبوت، لہٰذا یہ قرار دیاجاتا ہے کہ خاتم النّبیین کے جو معنی مدعیہ کی طرف سے کئے گئے ہیں اور اس معنی کے تحت جو عقیدہ ظاہر کیاگیا ہے اس عقیدہ سے انحراف وارتداد کی حد تک پہنچتا ہے اور کہ آنحضرت ﷺ کے بعد عہدہ نبوت اور وحی نبوت منقطع ہوچکے ہیں۔ مرزاصاحب صحیح اسلامی عقائد کی رو سے نبی نہیں ہوسکتے اور ان کے نبی نہ ہونے کی تائید میں ایک یہ امر بھی ہے کہ ان کے متبعین میں سے ایک گروہ جو لاہوری کہلاتے ہیں انہیں نبی تسلیم نہیں کرتے۔
لہٰذا ان کے مخالف جملہ فرقوں کے نزدیک اور ان کے ایک موافق فرقہ کی رائے میں رسول اﷲ ﷺ کا خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی ہونا ثابت ہے۔ اس لئے مرزاصاحب کی نبوت کا دعویٰ کسی حالت میں بھی درست نہیں۔ ظلی اور بروزی نبی اگر آنحضرت ﷺ کے کمال اتباع سے ہونے ممکن ہوتے تو اس قسم کے نبی مرزاصاحب کے آنے 2247سے قبل کئی آچکے ہوتے۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب کو درجہ کمال بھی اس وقت حاصل ہوسکتا تھا کہ اس قسم کے اور کئی نبی پیدا ہوچکے ہوتے۔ کیونکہ ہر جنس کا کمال اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے اور ناقص افراد موجود ہیں۔ چنانچہ رسول اﷲ ﷺ بھی اسی لئے افضل الانبیاء ہیں کہ سلسلہ رسالت اور نبوت میں دیگر انبیاء منسلک ہیں۔ مرزاصاحب نے اپنے آپ کو خاتم الاولیاء ظاہر کر کے یہ بیان کیا ہے کہ وہ ولایت ختم کر چکے۔ لیکن اس سے وہ ولی ہی شمار ہوں گے۔ نبی نہیں سمجھے جائیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے افاضۂ روحانی سے اگر نبوت مل سکتی ہے تو ضرور ہے کہ ان سے قبل ایسے نبی آتے کہ جن کے بعد انہیں درجہ کمال حاصل ہوتا۔ مدعیہ کی طرف سے یہ درست کہا گیا ہے کہ ظلی اور بروزی کی اصطلاحیں دراصل الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ ورنہ دراصل مرزاصاحب کی مراد اس سے اصل نبوت سے ہے۔ جیسا کہ اس کی تشریح بعد میں ان کے خلیفہ ثانی نے کی۔ کچھ شک نہیں کہ یہ الفاظ مغالطہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی شرع میں اس قسم کے الفاظ پر کسی عقیدہ کا حصر ہے۔ مرزاصاحب نے یہ بیان کر کے کہ اس قسم کی نبوت قیامت تک جاری ہے۔ اسلام میں ایک فتنہ کی بناء ڈالی ہے اور ناممکن نہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص دعویٰ نبوت کرے۔ ان کی کارگزاری کو بھی ملیا میٹ کر دے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(دین یا تماشہ؟)
اس طرح مذہب سے امان اٹھ جائے گی اور سوائے اس کے کہ وہ ایک کھیل اور تمسخر بن جائے۔ اس کی کوئی حقیقت بحیثیت دین کے قائم نہ رہے گی۔ اس لئے بھی رسول اﷲ ﷺ کا آخری نبی ماننا علاوہ عقائد صحیح میں سے ہونے کے از بس ضروری ہے۔ مرزاصاحب رسول اﷲ ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے۔ اس لئے ان کا اسلام کے اس بنیادی مسئلہ سے انکار کفر کی حد تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر عقائد بھی ان عقائد کے مطابق نہیں پائے جاتے۔ جس کی آج تک امت مرحومہ پابند چلی آئی ہے۔ خدا کا تصور اس نے تیندوے سے تشبیہ دے کر ایسا پیش کیا ہے کہ جو سراسر 2248نص قرآنی کے خلاف ہے اور اس طرح یہ بیان کر کے کہ خدا خطا بھی کرتا ہے اور صواب بھی اور روزے رکھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ جو سراسر نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔ انہوں نے آیات قرآنی کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ جیسا کہ ایک آیت ’’ہو الذی ارسل رسولہ… الخ!‘‘ کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ اس میں میرا ذکر ہے اور دوسرے الہام باالفاظ محمد رسول اﷲ بیان کر کے یہ کہا کہ اس میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی۔ اس طرح اور کئی ایسی تصریحیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آیات قرآنی کو اپنے اوپر چسپاں کرتے تھے۔ اس سے بھی رسول اﷲ ﷺ کی توہین کانتیجہ درست اخذ کیاگیا۔ اس طرح ان کے بعض اقوال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی توہین ظاہر ہوتی ہے اور حضرت مریم کی شان میں مرزاصاحب نے جو کچھ کہا ہے اور جس کا حوالہ شیخ الجامعہ صاحب گواہ مدعیہ کے بیان میں ہے اور جس کا مدعا علیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس سے قرآن شریف کی صریح آیات کی تکذیب ہوتی ہے۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ جن سے سوائے مرزا صاحب کو کافر قرار دینے کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے مرزاصاحب کی بعض کتب کے حوالے دئیے جاکر یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی نبی کی توہین نہیں کی۔ اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے خوب دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک جگہ کلمات توہین ثابت ہوگئے تو اگر ہزار جگہ کلمات مدحیہ لکھے ہوں اور ثناء خوانی بھی کی ہو تو وہ کفر سے نجات نہیں دلا سکتے۔ جیسا کہ تمام دنیا اور دین کے قواعد مسلمہ اس پر شاہد ہیں کہ اگر ایک شخص تمام عمر کسی کا اتباع اور اطاعت گزاری کرے اور مدح وثناء کرتا رہے لیکن کبھی کبھی اس کی سخت ترین توہین بھی کر دے تو کوئی انسان اس کو مطیع اور معتقد واقعی نہیں کہہ سکتا۔
مدعا علیہ کی طرف سے دیگر صوفیاے کرام کے بعض ایسے اقوال جو مرزاصاحب کے بعض اقوال کے مشابہ ہیں۔ بیان کئے جاکر یہ کہاگیا ہے کہ ان اقوال کی بناء پر پھر ان بزرگان کو کیونکر مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ اس کا جواب باالفاظ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ درج کیاجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولیاء اﷲ کو ان کی طہارت تقویٰ اور تقدس کی خبریں سن کر اور ان کے شواہد وافعال واعمال اور اخلاق سے تائید پاکر ولی مقبول تسلیم کر لیا ہے اور قرائن اور نشانیوں سے جو 2249خارج مبحوث عنہ سے ہوں۔ یعنی انہی شطحیات سے ان کی ولایت ثابت نہ کرتی ہو۔ بلکہ ولایت ان کی خارج سے پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو۔ جو طریقہ ثبوت کا ہے اس کے بعد کہ ہم نے کسی کی ولایت تسلیم کی اور ہم اس تسلیم میں صواب پر تھے تو اس کے بعد اگر کوئی کلمہ مغائر یا موہم ہمارے سامنے پڑتا ہے تو ہم اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی توجیہ کریں اور محل نکالیں اور یہ کہ اس کا ٹھکانہ کیا ہے۔ شطحیات کو ہی پہلے پیش کرنا اور اس پر ولایت کا جمگھٹ جمانا نافہم اور جاہل کاکام ہے۔ کسی شخص کی راست بازی اگر جداگانہ تجارب سے اور جو طریقہ راست بازی ثابت کرنے کا ہے۔ ثابت ہوئی ہو تو پھر اگر کوئی کلمہ موہم اور مغالطہ میں ڈالنے والا اس کا سامنے آگیا۔ تو منصف طبیعتوں کے ذہن اس کی توضیح کریں گے اور عمل نکالیں گے۔ یہ عاقل کا کام نہیں ہے کہ راست بازی کسی کی ثابت ہونے سے پیشتر وہی کلمات مغالطہ پیش کر کے مسلم الثبوت مقولوں پر قیاس کرے اور کہے کہ فلاں نے ایسا کیا۔ فلاں نے ایسا کیا۔ اس کا جواب مختصر یہ ہو گا کہ فلاں کی راست بازی جداگانہ اگر ہمیں کسی طریقہ اور دلیل سے معلوم ہے تو ہم محتاج توجیہ ہوں گے اور اگر زیر بحث یہی کلمات ہیں اور اس سے پیشتر کچھ سامان خیر کا ہے ہی نہیں۔ تو ہم یہ کھوٹی پونجی اس کے منہ پر ماریں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اہل قبلہ)
مدعا علیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ علماء نے یہ کہا ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور کہ جو ’’جو لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کہے اس کو بھی کافر کہنا درست نہیں۔ وغیرہ وغیرہ! ان شبہات کا جواب بھی شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے خود دیاہے جو انہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں ہے۔ بے علمی اور ناواقفیت پر مبنی ہے۔ کیونکہ حسب تصریح واتفاق علماء اہل قبلہ کے یہ معنی نہیں کہ جو قبلہ کی طرف منہ کرے وہ مسلمان ہے۔ چاہے سارے عقائد اسلام کا انکار ہی کرے۔ قرآن مجید میں منافقین کو عام کفار سے زیادہ تر کافر ٹھہرایا گیا ہے۔ حالانکہ وہ فقط قبلہ ہی کی طرف منہ ہی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تمام ظاہری احکام اسلام ادا کرتے تھے۔ اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہ اتفاق کیا 2250ضروریات دین پر اور یہ جو مسئلہ ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں اس کی مراد یہ ہے کہ کافر نہیں ہوگا۔ جب تک کہ نشانی کفر کی اور علامتیں کفر کی اور کوئی چیز موجبات کفر میں سے نہ پائی گئی ہو۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ارکان اسلام)
دوسرا شبہ یہ کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تمام ارکان اسلام کے پابند اور تبلیغ اسلام میں کوشش کرنے والے ہیں۔ پھر ان کو کیسے کافر کہا جائے؟
اس کے جواب میں انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ یہ قوم جس کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دین اسلام سے صاف نکل جائے گی اور اس کے قتل کرنے میں بڑا ثواب ہے۔ یہ لوگ نماز، روزے کے پابند ہوں گے۔ بلکہ ظاہری خشوع اور خضوع کی کیفیات بھی ایسی ہوں گی کہ ان کے نماز، روزے کے مقابلے میں مسلمان اپنے روزے کو بھی ہیچ سمجھیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب کہ بعض ضروریات دین کا انکار ان سے ثابت ہوا تو ان کی نماز، روزہ وغیرہ ان کو حکم کفر سے رہا نہ کر سکی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(۹۹وجوہ کفر)
تیسرا شبہ یہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ فقہائے نے ایسے شخص کو مسلمان ہی کہا ہے جس کی کلام میں ۹۹وجہ کفر کی موجود ہو اور صرف ایک وجہ اسلام کی، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا منشاء بھی یہی ہے کہ فقہاء کے بعض الفاظ دیکھ لئے گئے اور اس کے معنی سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی اور ان کے وہ اقوال دیکھے جن میں صراحتاً بیان کیاگیا ہے کہ یہ حکم اپنے عموم پر نہیں ہے۔ بلکہ اس وقت ہے جب کہ قائل کا صرف ایک کلام مفتی کے سامنے آوے اور قائل کا کوئی دوسرا حال معلوم نہ ہو اور نہ اس کے کلام میں کوئی ایسی تصریح ہو۔ جس سے معنی کفر متعین ہو جائے تو ایسی حالت میں مفتی کا فرض ہے کہ معاملہ تکفیر میں احتیاط برتے اور اگر کوئی خفیف سے خفیف احتمال ایسا نکل سکے جس کی بناء پر یہ کلام کلمہ کفر سے بچ جائے تو اس احتمال کو اختیار کر لے اور اس شخص کو کافر نہ کہے۔ لیکن اگر ایک شخص کا یہی کلمہ کفر اس کی سینکڑوں تحریرات میں بعنوانات والفاظ مختلفہ موجود ہو جس کو دیکھ کر یہ یقین ہو جائے کہ یہی معنی، معنی کفری مراد لیتا ہے یا خود اپنے کلام میں معنی کفری کی تصریح کر دے تو باجماع فقہاء اس کو ہرگز مسلمان نہیں 2251کہہ سکتے بلکہ قطعی طور پر ایسے شخص پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔
چوتھا شبہ یہ ہے کہ اگر کوئی کلمہ کفر کسی تاویل کے ساتھ کہا جاوے تو کفر کا حکم نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی وہی تصریحات فقہا سے ناواقفیت کا رکن ہے۔ حضرات فقہائے اور متکلمین کی تصریحات موجود ہیں کہ تاویل اس کلام اور اس چیز میں مانع تکفیر ہوتی ہے جو ضروریات دین میں سے نہ ہو۔ لیکن ضروریات دین میں اگر کوئی تاویل کرے اور اجماعی عقیدہ کے خلاف کوئی نیا معنی تراشے تو بلاشبہ اس کو کافر کہا جائے گا۔ اسے قرآن مجید نے الحاد اور حدیث نے اس کا نام زندیقی رکھا ہے۔ زندیق اسے کہتے ہیں جو مذہبی لٹریچر بدلے یعنی الفاظ کی حقیقت بدل دے۔ مرزاصاحب نے جیسا کہ اوپر دکھلایا جاچکا ہے بہت سے اسلامی عقائد کے حقائق بدل دئیے ہیں۔ گو ان کے الفاظ وہی رہنے دئیے ہیں۔ اس لئے ان کو حسب تصریحات مذکورہ بالا کافر ہی قرار دینا پڑے گا اور ان عقائد کے تحت ان کا اتباع کرنے والا بھی اس طرح ہی کافر سمجھا جائے گا۔
مدعا علیہ کی طرف سے گواہان مدعیہ پر ایک یہ اعتراض بھی وارد کیاگیا ہے کہ وہ دیوبندی عقائد سے تعلق رکھنے والے ہیں اور علمائے دیوبند کے خلاف فتویٰ تکفیر شائع ہو چکا ہے۔ اس لئے ایک شخص جو خود کافر ہو وہ کس طرح دوسرے کے متعلق کفر کا فتویٰ دے سکتا ہے؟ اس کا جواب مدعیہ کی طرف سے ایک تو یہ دیا گیا ہے کہ اس کے تمام گواہان دیوبندی صاحبان نہیں ہیں۔ مثلاً شیخ الجامعہ صاحب، مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی نجم الدین صاحب۔ دوسرا دیوبندی صاحبان کے خلاف فتویٰ تکفیر ایک غلط فہمی کی بناء پر دیاگیا تھا جو بعد میں واپس لیا جاچکا ہے۔ اگر یہ صحیح نہ بھی ہو تو بھی مدعا علیہ کی حجت اس بناء پر صحیح نہیں کہ ان کی رائے کو بطور فتویٰ قبول نہیں کیاگیا۔ بلکہ ان کے پیش کردہ دلائل پر مدعا علیہ کے پیش کردہ دلائل کے مقابلہ میں تنقید کی جاکر رائے قائم کی گئی ہے۔ اس لئے چاہے وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ ان کی ذاتی رائے پر کوئی عمل نہیں کیاگیا۔ بلکہ دیکھا گیا ہے کہ قرآن شریف اور احادیث کی رو سے کس 2252فریق کے دلائل صحیح ہیں اور کس کے غلط۔ اس لئے ان کے خلاف اگر کوئی فتویٰ تکفیر ہو بھی تو اس معاملہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مدراس ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ قرار دیا تھا کہ اس سوال کو کہ عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا نہ، علماء اسلام ہی بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا علمائے اسلام کی تحقیق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جن لوگوں نے اس مقدمہ میں شہادتیں دی ہیں اور اس پر فتویٰ کفر لگایا ہے وہ خود بھی مسلمان ہیں یا نہ؟ اور اس طرح فیصلہ کرنے والے کا مسلمان ثابت ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ ہے ہر دو فریق کا ادعا ہے کہ وہ مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن چند اہم اور بنیادی مسائل کے متعلق ہر دو فریق کا اختلاف ہے اور وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ لہٰذا اس بارہ میں عام دنیاوی اصول کے مطابق رائے اس فرقہ کی غالب سمجھی جائے گی جس میں اکثریت ہو۔ یہ اکثریت بحق مدعیہ پائی جاتی ہے۔ اس لئے فریق مدعیہ کی رائے ہی غالب رہے گی اور اسے مسلمان اور اقلیت کو کافر سمجھا جائے گا۔ لہٰذا اس قرارداد کے تحت مدعیہ کے کسی گواہ کے خارجی طور پر مسلمان ثابت کئے جانے کی ضرورت نہیں اور فیصلہ کنندہ بھی اس ذیل میں مسلمان شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ نے اپنی بحث میں جب مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو شرعاً درست تسلیم کر کے اپنے اوپر حجت مان لیا ہے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ شرعاً عدالت ہذا کا فیصلہ اس پر حجت نہ ہوسکے۔
گواہان مدعیہ پر مدعا علیہ کی طرف سے کنایتہ اور بھی کئی ذاتی حملے کئے گئے ہیں۔ مثلاً انہیں علماء سوء کہا گیا اور یہ کہاگیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے خود ہی ایسے مولویوں کو جو ذریۃالبغایا میں مخاطب ہیں بندر اور سور کا لقب دیا ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ وہ آسمان کے نیچے سب سے بدتر مخلوق ہوں گے۔ لیکن ملاحظہ مسل سے ہر عقلمند آدمی اندازہ لگاسکتا ہے کہ طرفین کے علماء میں سے ان احادیث کا صحیح مصداق کون ہیں۔
2253مرزاصاحب کے دعویٰ نبوت کے سلسلہ میں ایک اور مسئلہ پر بھی مختصر بحث کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ مرزاصاحب اپنے آپ کو اس لئے بھی نبی سمجھتے ہیں کہ انہیں مسیح موعود ہونے کا بھی دعویٰ ہے اور مسیح موعود کو چونکہ احادیث میں نبی اﷲ کہاگیا ہے۔ اس لئے مرزاصاحب نبی اﷲ ہوئے۔ اس کے متعلق جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں اور آخر زمانہ میں وہی آسمان سے نزول فرمائیں گے اور وہ چونکہ پہلے سے نبی اﷲ ہیں۔ اس لئے پھر بھی نبی اﷲ ہوں گے۔مگر وہ عمل شریعت محمدیہ پر کریں گے۔ اپنی شریعت پر نہیں چلیں گے۔ اس کی مثال مدعیہ کی طرف سے یہ دی گئی ہے کہ جیسے کسی دوسرے علاقہ کا گورنر کسی دوسرے گورنر کے علاقہ میں چلا جائے تو وہاں اپنے عہدہ کے لحاظ سے گووہ گورنر شمار ہوگا۔ لیکن دوسرے گورنر کے علاقہ میں وہ اس گورنر کی حکومت کے تابع ہوکر رہے گا۔ اپنے علاقہ کے قوانین یا آئین پر عمل پیرا نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے رسول اﷲ ﷺ چونکہ قیامت تک کے لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لئے قیامت تک آپ ﷺ کی شریعت ہی نافذ رہے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس شریعت کے تحت عمل پیرا ہوں گے۔
اس مثال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا امتی نبی ہونا تو واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں کو نزول مسیح کا عقیدہ بہت عجب معلوم ہوتا ہے اور ان کے ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ کس طرح ایک شخص کئی ہزار سال کے بعد دنیامیں واپس آسکتا ہے۔ شک نہیں کہ علوم جدیدہ کی روشنی میں یہ مسئلہ بہت کچھ قابل اعتراض معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ مولانا محمود علی صاحب اپنی کتاب ’’دین وآئین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس قسم کے اعتراضات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جواب دینے والے بالعموم یہ روش اختیار کرتے ہیں کہ جن قباحتوں کے چہرہ پر موجودہ مسلمات کا روغن قازمل دیا جاتاہے۔ ان کو قباحت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں دیکھتے اور جس جملہ کے ساتھ فلسفہ اور سائنس کا نقارہ بجتا ہوا سن پاتے ہیں اپنے ہوش وحواس کو اس کے مقابلہ پر قائم رکھنے کی جرأت نہیں کرتے اور ایک مجرم کی طرح اپنی بریت کی یہی صورت دیکھتے ہیں کہ اپنے فعل کو دلیری کے ساتھ حق بجانب ثابت کرنے کے بجائے ہاتھ جوڑ کر اس کے ارتکاب سے 2254انکار کریں اور مذہب کی حمایت میں صرف یہ کہہ کر دامن چھڑائیں کہ جس مسئلہ پر اعتراض ہے وہ اسلامی اصول میں داخل نہیں۔‘‘ مولانا موصوف آگے لکھتے ہیں ایسے اعتراضوں کے ایسے جواب آج کل فیشن میں داخل ہیں اور جواب دینے والے گویا یقین کر لیتے ہیں کہ تہذیب جدید جس امر پر قبیح ہونے کا فتویٰ صادر کرتی ہے اس میں کوئی حسن باقی نہ رہا ہوگا۔ ان کا بس چلتا ہے تو قرآن اور حدیث پر۔ ان دونوں سے جس طرح بن پڑتا ہے رہائی پانے کی سبیل نکال لیتے ہیں۔ اپنے ذاتی خیالات کو اسلام اور ایسے اسلام کو سب اعتراضوں سے پاک تصور کر لیتے ہیں۔
مسئلہ نزول مسیح بھی اس قبیل کا ہے کہ جس پر اس قسم کے اعتراض وارد کئے جاتے ہیں۔ لیکن جو شخص قرآن پر اعتقاد رکھتا ہے اسے اس پر یقین رکھنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں ایک شخص کو سو سال کے بعد زندہ کرنے کا واقعہ موجود ہے۔ اس طرح اصحاب کہف تین سو سال سے زائد عرصہ تک غار میں بحالت خواب پڑے رہے۔ اس لئے وہ امور اگر ذات باری کے لئے ناممکنات میں سے نہ تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں بھیجنا بھی اس کے آگے کوئی مشکل نہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش جس طرح غیرمعمولی طریق پر ہوئی۔ اس طرح ان کے نزول کو بھی غیرمعمولی طریق پر وقوع میں آنا تصور کیا جاسکتا ہے۔ باقی رہا اس پیش گوئی کی صداقت کا سوال سو اس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ پیش گوئی صحیح نہ ہوتی تو مرزاصاحب نے جہاں کئی دیگر متواترات کا انکار کیا تھا۔ وہاں اس کا بھی انکار فرمادیتے۔ لیکن وہ بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کر سکے اور اس کی ممکن سے ممکن جو بھی تاویل ہوسکتی تھی وہ بیان کرنے میں انہوں نے کوئی دریغ نہیں کیا۔ لیکن اوپر کی بحث سے پایا جاتا ہے کہ قرآن واحادیث کی رو سے وہ تاویل درست ثابت نہیں ہوئی اور سوائے اس کے کہ یہی عقیدہ رکھا جائے کہ اس پیش گوئی کی رو سے حضرت عیسیٰ ابن مریم ہی دنیا میں واپس تشریف لائیں گے۔ اس کا اور کوئی حل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے سوا آنحضرت ﷺ کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیںہوسکتا۔ اس لئے اس 2255عقیدہ کو اگر قائم رکھا جاوے تو جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت زندہ ہوں گے۔ انہیں خود اس پیش گوئی کی تصدیق ہو جائے گی اور جو اس سے قبل فوت ہوں گے نہ خداوندتعالیٰ ان کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے گا کہ جو ان سے قبل اس عقیدہ پر وفات پاتے رہے۔ البتہ اس عقیدہ کو چھوڑنے والا ضرور گنہگار ہوگا۔ کیونکہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان کا مکذب سمجھا جائے گا۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا بھی ہے یا نہ۔ کیونکہ شکی طبیعتیں یہ کہہ سکتی ہیں کہ احادیث کی تدوین چونکہ بہت مدت کے بعد ہوئی۔ اس لئے کیونکر پورے اطمینان سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ راویوں کو احادیث کے پورے الفاظ یاد رہے ہیں یا یہ کہ ان الفاظ سے رسول اﷲ ﷺ کی مراد وہی تھی جو کہ ان راویوں نے سمجھی۔ اس کا جواب تو علماء ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا موٹا جواب یہ ہے کہ اگر یہ حدیث ہو صحیح اور ہم نے اس کا عقیدہ دیا چھوڑ تو قیامت کے دن ہم جوابدہ ہوں گے اور اگر یہ حدیث صحیح نہ بھی ہو تو اس پر محض ایک عقیدہ رکھنے سے جو قرآن کے کسی صورت میں بھی مخالف نہیں پایا جاتا۔ ہمارا کیا بگڑتا ہے۔ لہٰذا بہرحال ہمیں اس پر عقیدہ رکھنا لازمی ہے۔‘‘
مدعا علیہ کی طرف سے ایک یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول مانا جاوے تو اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ رسول اﷲ ﷺ کی امت میں سے ایسا کوئی شخص اہلیت نہ رکھتا تھا کہ اسے لوگوں کی اصلاح کے لئے مامور فرمایا جاتا اور اس سے امت کی توہین لازم آئے گی۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے کسی شخص کا مامور ہونا اس کے کسی استحقاق کی بناء پر نہیں ہوتا۔ دوسرا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امت کی حالت بہت ابتر ہوگی۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ اس وقت تک کوئی بھی اس فرض کے سرانجام دینے کا اہل نہ پایا جاوے۔ اس لئے مخلوق کی اصلاح کے لئے سابقہ انبیائوں میں سے ہی ایک کو واپس لایا جانا ضرور 2256سمجھا گیا ہو۔ یہ باتیں مشیت ایزدی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی۔
ہمارے دلوں میں شکوک دراصل اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم ہدایت قرآنی پر پوری طرح پابند نہیں ہیں۔ اگر ہم تمام احکام ربانی پر عمل کریں تو اس حالت کے نتائج ہی اعتراض کرنے والوں کو خاموش کر دیتے ہیں اور جیسا کہ مولانا محمود علی صاحب نے اپنے ایک اور مضمون میں تحریر فرمایا ہے۔ جب تک مسلمان ’’لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ‘‘ پر عامل رہے۔ انہیں نہ خود کوئی تکلیف پیش آئی اور نہ دوسروں پر اثر ڈالنے کے لئے کسی دشواری کا سامنا ہوا اور جب قوم کی قوم ہی ایک رنگ میں رنگین ہو تو ایسا منظر شکوک کو غبار بنا کر اڑادیتا ہے اور اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مگر افسوس جیسا کہ مولانا اپنی کتاب محولہ بالا میں تحریر فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی ضروری بلکہ زندگی کا واحد مقصد آج کل یہ قرار پاگیا ہے کہ انسان زندگی کی ہر ساعت اور ہر ثانیہ کے اندر تمام تر توجہ اس مادی سامان کے مہیا کرنے اس کو کام میں لانے اور اس کے نتائج سے لطف اٹھانے پر مبذول رہے اور موجودہ زندگی کے بعد کوئی خیال اور اس کے لئے کسی عمل اور کسب کا کوئی ارادہ اور اس دنیا سے باہر کی ہستی کے ساتھ تعلق رکھنے کا کوئی وہم بھی دل میں نہ آنے پاوے اور اپنی تمام کوششوں کا محور اس دنیا کو اور یہاں کی چند روزہ زندگی کو سمجھنا صحیح اصول کار ہے۔ یہ حالت کیوں پیش آئی۔
اس کا جواب بھی مولانا محمود علی صاحب کی ایک تحریر سے دیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کے پیش کرنے والے جو زبان سے کہتے ہیں وہ کر کے نہیں دکھلاتے اور وعظ ونصیحت میں فصاحت قرآنیہ پر انسانی طرز کلام کو ترجیح دے کر منطقی موشگافیوں اور شاعرانہ مبالغوں سے کام لیتے ہیں اور رہنمائی سے زیادہ اپنے فضل وکمال کی نمائش چاہتے ہیں۔ حالانکہ اہل ایمان پر نہ بحث نہ مناظرہ فرض ہے نہ منطقیانہ موشگافیوں اور فلسفیانہ معرکہ آرائیوں کی ضرورت۔ وہی روشنی ہدایت جو کلام الٰہی نے پیش کی ہے۔ اس طرز ادا سے جو اس ہادی برحق نے اختیار کی ہے ہر عالم وجاہل 2257تک پہنچا دینے کی ضرورت ہے۔ سب کا ہدایت پانا اور تمام مخلوق کا ایک راہ اختیار کرنا ممکن نہیں۔ ورنہ کلام الٰہی میں اب بھی وہی کشش ہے اور قرآن کریم کے اندر جذب قلوب کا وہی اثر غافل انسانوں کو خواب غفلت سے جگانے والا اور تشنگان ہدایت کو شراب معرفت سے سیراب کرنے والا اگر ہے تو صرف قرآن کریم اور اس کلام مبارک کا ایک ایک لفظ چشم بینا کو محو حیرت کرنے اور دل دانا کا دامن کھینچنے میں وہ تاثیر دکھاتا ہے جو آئینہ پر جمال یار اور پرکاہ پر کہربا۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس بات پر بہت زور دیاگیا ہے کہ علماء وائمہ کی اندھی تقلید درست نہیں۔ یہ ٹھیک ہے قرآن مجید میں ہر شخص کو خود بھی تدبر کرنا چاہئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام قواعد ودیگر لوازمات کو جو معنی اخذ کرنے کے لئے ضروری ہیں پس پشت ڈال کر اپنی سمجھ پر چلنا شروع کر دیا جاوے۔ جیسا کہ خود مدعا علیہ کے اپنے گواہان کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک تو آیت ’’وبالآخرۃ ہم یوقنون‘‘ کے یہ معنی کرتا ہے کہ یوم آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور دوسرا آخرت کے معنی زمانہ آخر کی وحی بتلاتا ہے۔ ذرا احمدی صاحبان خود بھی سوچیں کہ انہوں نے دین کو کیا مذاق بنا رکھا ہے؟ اس بحث کے بعد اب اصل معاملہ متنازعہ کو طے کرنے کے لئے یہ بتلانا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے بنیادی اصول ہیں کہ جن سے اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے یا یہ کہ کن اسلامی عقائد کی پیروی نہ کرنے سے ایک شخص مرتد سمجھا جاسکتا ہے اور کہ عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا نہ؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(خلاصہ بحث)
اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور کہ رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النّبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
مدعا علیہ مرزاغلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے۔ یعنی کہ وہ 2258رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدہ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جائے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لئے جاویں تو بھی مدعا علیہ مرزاصاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزاصاحب کی وحی ہوگی نہ کہ احادیث واقوال فقہائ، جن پر کہ اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن میں سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزاصاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
علاوہ ازیں احمدی مذہب میں بعض احکام ایسے ہیں کہ جو شرع محمدی پر مستزاد ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں مثلاً چندہ ماہواری کا دینا جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے۔ زکوٰۃ پر ایک زائد حکم ہے اس طرح غیراحمدی کا جنازہ نہ پڑھنا کسی احمدی کی لڑکی غیراحمدی کو نکاح میں نہ دینا۔ کسی غیراحمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا شرع محمدی کے خلاف اعمال ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے ان امور کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیوں غیراحمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ کیوں ان کو نکاح میں لڑکی نہیں دیتے اور کیوں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ لیکن یہ توجیہیں اس لئے کارآمد نہیں کہ یہ امور ان کے پیشواؤں کے احکام میں مذکور ہیں۔ اس لئے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے شریعت کا جزو سمجھے جائیں گے جو کسی صورت میں بھی شرع محمدی کے موافق تصور نہیں ہوسکتے۔ اس کے ساتھ جب یہ دیکھا جاوے کہ وہ تمام غیراحمدی کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے مذہب کو مذہب اسلام سے ایک جدا مذہب قرار دینے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ کے گواہ مولوی جلال الدین شمس نے اپنے بیان میں مسیلمہ وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گواہ مذکور کے نزدیک دعویٰ نبوت کاذبہ ارتداد ہے اور کاذب مدعی نبوت کو جو مان لے وہ مرتد سمجھا جاتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(فیصلہ)
مدعا علیہ کی طرف سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب کاذب مدعی نبوت ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ بھی مرزاصاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو 2259۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں۔ بحق مدعیہ ثابت قرار دے جا کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادعا کے مطابق مدعیہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا اور کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی طرف منسوب کئے ہیں وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں۔ لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا۔ جو معنی مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی۔ اس لئے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح چونکہ ارتداد سے فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیا گیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اﷲ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے۔ اس لئے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد سمجھتے ہیں تو ان کو اپنے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی، مدعیہ کے دعویٰ کے رو سے چونکہ مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے۔ اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کے مستحق ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اپنے حق میں چند نظائر قانونی کا بھی حوالہ دیاگیا تھا۔ ان میں سے پٹنہ اور پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ جات کو عدالت عالیہ چیف کورٹ نے پہلے واقعات مقدمہ ہذا پر حاوی نہیں سمجھا اور مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو عدالت معلی اجلاس خاص نے قابل پیروی قرار نہیں دیا۔ باقی رہا عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور کا فیصلہ بمقدمہ مسمات جندوڈی بنام 2260کریم بخش اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ جناب مہتہ اودھوداس صاحب جج چیف کورٹ کے اجلاس سے صادر ہوا تھا اور اس مقدمہ کا صاحب موصوف نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی انحصار رکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا تھا اور خود ان اختلافی مسائل پر جو فیصلہ مذکور میں درج تھے کوئی محاکمہ نہیں فرمایا تھا۔ مقدمہ چونکہ بہت عرصہ سے دائر تھا۔ اس لئے صاحب موصوف نے اسے زیادہ عرصہ معرض تعویق میں رکھنا پسند نہ فرما کر باتباع فیصلہ مذکور اسے طے فرمادیا۔ دربار معلی نے چونکہ اس فیصلہ کو قابل پابندی قرار نہیں دیا۔ جس فیصلہ کی بناء پر کہ وہ فیصلہ صادر ہوا۔ اس لئے فیصلہ زیربحث بھی قابل پابندی نہیں رہتا۔
فریقین میں سے مختار مدعیہ حاضر ہے۔ اسے حکم سنایا گیا۔ مدعا علیہ کارروائی مقدمہ ہذا ختم ہونے کے بعد جب کہ مقدمہ زیر غور تھا فوت ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف یہ حکم زیر آرڈر ۲۲۔رول ۶ ضابطہ دیوانی تصور ہوگا۔ پرچہ ڈگری مرتب کیا جاوے اور مسل داخل دفتر ہو۔
۷؍فروری ۱۹۳۵ئ، مطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ
بمقام بہاول پور
دستخط: محمداکبر ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر، ریاست بہاول پور (بحروف انگریزی)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2261ضمیمہ نمبر:۲
’’قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘


شیخ محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج کیمبل پور بمقام راولپنڈی
کا
فیصلہ
مرزائی
دائرہ اسلام سے خارج ہیں


ناشر
مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان پاکستان
فون نمبر:۳۳۴۱
2262سلسلہ اشاعت نمبر(۱۸)

طبع اوّل
۱۳۸۸ھ
۱۹۶۸ء


؎ ناشر: مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان
؎ کتابت: ابوزبیر شاد خوشنویس شاہین مارکیٹ
؎ طباعت: حسینیہ پرنٹنگ پریس ملتان شہر
؎ صفحات: باون صفحات (۵۲)
؎ تعداد: پانچ ہزار (۵۰۰۰)
؎ قیمت: پچاس پیسے (۵۰ئ۰)

ملنے کا پتہ:
مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت۔ ملتان شہر
تغلق روڈ بیرون لوہاری گیٹ۔ فون نمبر:۳۳۴۱
2263بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
تعارف
فروری ۱۹۵۳ء میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں جب اس وقت کی گورنمنٹ نے مجلس عمل کے راہنماؤں کو اچانک پابند سلاسل کر کے جیل بھیج دیا تو راہنمایان ملت کی گرفتاری کے بعد اس وقت کی حکومت کے متشدانہ فیصلہ نے عوام کے جذبات میں جو اشتعال پیدا کیا اس سے حالات امن وقانون کے دائرہ اختیار سے باہر چلے گئے۔ آخری حربہ حکومت وقت نے یہ استعمال کیا کہ لاہور میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جب جولائی میں حالات پرسکون ہوئے تو نئی وزارت نے جو ملک فیروز خان نون نے قائم کی۔ ان ہنگامی حالات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا جو مسٹر جسٹس محمد منیر اور جسٹس اے آر کیانی مرحوم پر مشتمل تھا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت اس کیس کی پیروی میں مصروف تھی اور فروری ۱۹۵۴ء میں یہ کیس آخری مراحل میں داخل تھا۔ اس وقت جماعت کا ڈیفنس آفس حکیم عبدالمجید صاحب سیفی مرحوم جو بی۔اے علیگ تھے اور مرحوم اصل شاہ پور ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ ان کا دولت کدہ واقع بیڈن روڈ تھا۔
۱۸؍فروری(۱۹۵۴ئ) کو اچانک ایک بزرگ راولپنڈی سے تشریف لائے جنہوں نے آتے ہی مولانا محمد علی جالندھری(رحمتہ اﷲ علیہ ) کانام پوچھا حضرت مولانا محمد علی صاحب سے ملاقات کرائی گئی۔ وہ غالباً لیفٹیننٹ نذیر الدین جو اس مقدمہ میں مدعا علیہ ہیں۔ ان کا بھائی تھا یا کوئی دوسرا عزیز تھا۔ انہوں نے اس کیس کی نوعیت ذکر کی کہ: ’’قادیانی عورت نے اپنے مرکز ربوہ سے امداد حاصل کر کے میرے بھائی کے خلاف حق مہر وغیرہ کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ ہماری طرف سے آپ اس مقدمہ کی پیروی کریں۔‘‘
حضرت مولانا محمد علی صاحب نے وعدہ فرمالیا کہ ہم مناظر اسلام مولانا لال حسین صاحب اخترؒ کو کیس کی پیروی کے لئے روانہ کریں گے۔ چنانچہ سال ڈیڑھ سال کیس زیرسماعت رہا۔ جس کا 2264دفاع اہل اسلام کی طرف سے مولانا موصوف کرتے رہے اور راولپنڈی میں بحیثیت گواہ صفائی مدعا علیہ کے پیش ہوتے رہے۔ جس کا نتیجہ (لوئر کورٹ سے لے کر سیشن کورٹ تک) اہل اسلام کے حق میں نکلا۔ اﷲتعالیٰ دونوں جج صاحبان کو ان کی دینی وقانونی فراست پر جزائے خیر عطاء فرمائے۔ ہماری دعا ہے کہ خداتعالیٰ ایسے باخبر دینی احساس رکھنے والے ججز اور افسروں کو ان کے مناصب پر قائم رکھے تاکہ اسلامی ملک میں کفر وارتداد، اسلام سے جدا ہوکر سامنے آجائے اور مسلمان، قادیانی مکرو فریب سے بچ جائیں۔
یاد رہے پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس تھا۔ کیونکہ یہ فیصلہ صرف ایک عورت کے خلاف نہ تھا۔ بلکہ پوری امت قادیانیہ کے کفر پر مہر تصدیق ثبت کرنا تھی۔ چنانچہ اس فیصلہ سے قادیانی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ جس کی وجہ سے پوری جماعت کے لیڈر اور وکلاء نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے پر غور وخوض کیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق اپیل تیار کر لی گئی۔ وکیل مقرر کیا گیا۔ لیکن جب چوہدری ظفر اﷲ خان سے مشورہ کیاگیا تو اس نے کہا کہ ’’اپنی ذمہ داری پر اپیل دائر کریں میں کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔‘‘ چنانچہ ۳؍جون ۱۹۵۵ء سے آج تک امت قادیانیت نے خاموشی اختیار کر کے اپنے کفر کی تصدیق کر دی ہے۔
قبل ازیں یہ فیصلہ انگریزی میں چالیس ہزار کی تعداد میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کیا۔ پھر ڈاکٹر عبدالقادر صاحب نے گجرات سے کافی تعداد میں شائع کیا۔ پھر کراچی مجلس تحفظ ختم نبوت نے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر کے اندرون وبیرون ملک مفت تقسیم کیا۔
انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے بعض حوالہ جات اور عبارات میں خلجان پڑ گیا تھا۔ اس وجہ سے انگریزی فیصلہ کی طرح اب مجلس تحفظ ختم نبوت اسے اپنے مرکزی مکتبہ سے نہایت احتیاط سے بہ تصحیح تام چھاپ کر مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہی ہے تاکہ روشن ضمیر ججز کے فیصلوں سے پڑھا لکھا طبقہ اپنے دل کا اطمینان کرے اور ملت کے اس باغی گروہ کے جال کفروارتداد سے اپنے آپ کو بچائے۔
ناظم شعبہ نظر واشاعت، مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان
 
Top