ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
2265بعدالت شیخ محمد اکبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی
سول اپیل ۱۹۵۵ء
امۃ الکریم بنت کرم الٰہی راجپوت جنجوعہ مکان نمبر۵۰۰/بی نیا محلہ ٹرنک بازار
بنام
لیفٹیننٹ نذیر الدین ملک خلف ماسٹر محمد دین اعوان محلہ کرشن پورہ راولپنڈی
مفصل فیصلہ مسمات امۃ الکریم دختر کرم الٰہی (بقول میاں عطاء اﷲ وکیل برائے اپیلانٹ ایک لوہار ہے) کی شادی مسمی نذیر الدین میٹریکولیٹ (بقول میاں عطاء اﷲ ایک ترکھان ہے) سے ۲۵؍ستمبر ۱۹۴۹ء کو ہوئی تھی اور دو ہزار روپیہ مہر مقرر ہوا تھا۔ یہ بیان کیاگیا کہ نکاح ایک حنفی مولوی نے پڑھایا تھا۔ بقول خواجہ احمد اقبال وکیل برائے اپیلانٹ مسٹر نذیر الدین ترکھان اور میٹریکولیٹ ہونے کے باوجود بڑا خوش قسمت تھا کہ اسے پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل ہوگیا۔
اس نے یہ سوچا کہ آگے چل کر بڑے بڑے افسروں سے اس کا میل جول ہوگا اور ایک لوہار کی لڑکی کو بیوی کی حیثیت سے اپنے گھر میں رکھنا باعث تذلیل ہوگا اور افسران کی نظروں میں وہ سوشل نہیں سمجھا جائے گا۔ اس لئے اس نے ۱۶؍جولائی ۱۹۵۱ء کو اپنی منکوحہ بیوی امۃ الکریم کو باقاعدہ طور پر طلاق دے دی اور طلاق نامہ لکھ دیا۔ مسمات امۃ الکریم نے اس بناء پر مہر کی دو ہزار روپیہ کی رقم حاصل کرنے کے لئے اپنے پہلے خاوند لیفٹیننٹ نذیر الدین ملک کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ اس کے علاوہ شادی کے موقعہ پر اس کے والد نے اسے جو جہیز دیا تھا اور جو اس کے سابقہ خاوند کے پاس تھا۔ اس کی ۲۴۰۳روپے قیمت ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مفلسی (پاپرکیس) کا مقدمہ تھا۔
لیفٹیننٹ نذیرالدین ملک پر مسمات امۃ الکریم نے بیشتر الزمات لگائے تھے۔ ان کی اس نے تردید کی اور جہیز کے متعلق کہا کہ وہ اس کے پاس نہیں تھا۔ اپیلانٹ نے جو اس کی قیمت بتائی ہے وہ صحیح نہیں۔ حق مہر کے دعویٰ کے متعلق کہاگیا کہ شادی قانونی طور پر باطل تھی اس لئے کہ یہ فریب سے ہوئی تھی۔ کیونکہ مدعیہ کے متعلق یہ ظاہر کیاگیا تھا کہ وہ حنفی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حالانکہ وہ مرزاغلام احمد آف قادیان کی پیرو ہے اور اگر یہ فریب ثابت نہ بھی ہو تب بھی یہ شادی ایک مسلمان اور غیرمسلمان کے درمیان ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ بدیں وجہ یہ کہا گیا تھا کہ مدعیہ مہر کا کوئی مطالبہ نہیں کر سکتی۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ فریقین میں شادی کے بعد زن وشوہر کے تعلقات قائم رہے۔ ان تعلقات اور زن وشوئی کی تکمیل کی مظہر ایک بچی ہے جس کی عمر پانچ سال کے لگ بھگ ہے۔
امۃ الکریم نے مبینہ فریب سے صاف انکار کیا ہے اور ٹرائل کورٹ میں اس نے اقرار کیا تھا کہ وہ حنفی مسلمان ہے۔ اس کے والد کرم الٰہی نے بھی عدالت میں اقرار کیا تھا کہ وہ حنفی مسلمان ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ ایک مسلمان کی ایک احمدی عورت سے شادی قطعی طور پر باطل نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ فاسد ہوسکتی ہے۔ باطل شادی کا قانون کی نظر میں کوئی وجود نہیں۔ لیکن فاسد شادی کے ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں۔ جس میں خاوندکو زوجیت کے فرائض کی تکمیل کرنے کی صورت میں مقررہ یا مناسب مہر (ڈاور) ادا کرنا پڑتا ہے۔
لیفٹیننٹ نذیرالدین نے یہ بھی کہا کہ مدعیہ جہیز سے دست بردار ہوگئی تھی۔ اس سلسلہ میں چند ایک عذرات پیش کئے گئے۔ فریقین کے ان بیانات پر ٹرائل کورٹ کے فاضل جج نے حسب ذیل تنقیحات وضع فرمائیں:
2267۱… کیا مدعیہ اور مدعا علیہ کے درمیان شادی دھوکہ اور فریب سے ہوئی تھی۔ اس لئے مدعا علیہ پر لازم نہیں کہ وہ مدعیہ کو مہر ادا کرے۔ (۱۔سی اے) مبینہ دھوکہ ثابت نہ ہونے پر کیا فریقین کے درمیان شادی باطل ہے اور مہر کے دعویٰ پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟
۲… کیا مدعیہ مہر کے مطالبہ سے دستبردار ہوگئی تھی؟
۳… کیا جہیز کا کوئی سامان مدعا علیہ کے قبضہ میں ہے اور کتنی مالیت کا ہے؟
۴… اگر ایسا ہے تو مدعیہ کس قدر ریلیف کی اس سلسلہ میں مستحق ہے؟
سماعت کے بعد میاں محمد سلیم سینئر سول جج راولپنڈی نے ۲۵؍مارچ۱۹۵۵ء کو اس مقدمہ کا فیصلہ سنادیا تھا۔ اس فیصلہ میں علاوہ دیگر امور کے حسب ذیل قرار داد منتج ہوئیں:
۱… فریقین میں شادی کسی دھوکہ یا فریب سے نہیں ہوئی تھی۔
۲… مدعیہ کبھی مہر کے مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوئی تھی۔
۳… جہیز کا ۲۴۰۳روپے کا سامان جو مدعیہ کا تھا مدعا علیہ کے قبضہ میں ہے۔
میاں عطاء اﷲ ایڈووکیٹ اور خواجہ احمد اقبال ایڈووکیٹ نے مسمات امۃ الکریم کی طرف سے اور مسٹر ظفر محمود نے لیفٹیننٹ نذیرالدین ملک کی طرف سے پیروی کی ہے۔ ان وکلاء میں سے کسی نے بھی میری عدالت میں متذکرہ نتائج کی صحت کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کی دیگر قراردادیں حسب ذیل ہیں:
۱… قادیانیوں کو اہل کتاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مسمات امۃ الکریم قادیانی احمدی ہے۔ اس لئے جب اس کی شادی مدعا علیہ سے ہوئی تو اس وقت وہ غیرمسلم تھی۔ فریقین کی شادی قطعی طور پر باطل ہے۔ زوجیت کے فرائض کی تکمیل بھی اسے قانونی طور پر جائز قرار نہیں دے سکتی۔ (لہٰذا) مہر کا قرضہ قانونی طور پر واجب الوصول نہیں۔
2268متذکرہ نتائج کی اساس پر میاں محمد سلیم نے مسماۃ امۃ الکریم کو اپنے سابق خاوند سے جہیز کے سامان کی ۲۴۰۳ روپے کی مالیت وصول کرنے کی ڈگری دے دی۔ لیکن مہر کا مقدمہ خارج کر دیا۔
متذکرہ فیصلہ اور ڈگری کے خلاف دو(۲) اپیلیں دائر کی گئیں۔ مسماۃ امۃ الکریم نے دو ہزار روپیہ حق مہر کی اپیل دائر کی۔ دوسرا عدالت نے جہیز کے سامان کی مالیت ادا کرنے کی جو ڈگری لیفٹیننٹ نذیرالدین کے خلاف دی تھی اس سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لئے اس نے بھی اپیل دائر کر دی۔ شہادتیں اور خاص طور پر مسماۃ امۃ الکریم کے خطوط ظاہر کرتے ہیں کہ شادی کے وقت وہ قادیانی تھی۔ میں ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے اسے بحال رکھتا ہوں۔ ابتداء میں پیرایہ آغاز کے طور پر اپیلانٹ کے وکیل میاں عطاء اﷲ نے مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے تھے:
۱… مسلمانوں میں اس امر کے متعلق اجماع نہیں کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ خدا کے آخری نبی تھے اور یہ کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا جائے گا۔
۲… مسلمانوں میں اس امر کے متعلق بھی اجماع نہیں کہ جو شخص حضرت محمد ﷺ کے نبی آخرالزمان ہونے پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں۔
۳… اس پر بھی اجماع مسلمین نہیں کہ قادیانی احمدی غیرمسلم ہیں۔
سوال نمبر۱ کے تحت (الف) ٹرائل کورٹ کے فاضل جج نے یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ خدا کے آخری نبی تھے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس عقیدہ کی اساس ’’خاتم النّبیین‘‘ کے وہ الفاظ ہیں جو پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں استعمال کئے ہیں۔ لیکن قادیانی اس کو ختم النّبیین پڑھتے ہیں اور اس کی تاویل، نبوت کی مہر لگانے والا کرتے ہیں۔ اس تاویل کے مطابق ان کے نزدیک خدا ہمارے پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد بھی لاتعداد نبی بھیج سکتا ہے۔ اس کے پاس نبی کریم کی مہر ہوگی اور ان کے نزدیک مرزاغلام احمد بھی ایک ایسا نبی ہے جو خدا سے قرآن کریم سے مختلف کوئی ضابطہ نہیں 2269لایا۔ جنہیں پہلے ضابطہ کی تشریح کرنے کے لئے خداوند تعالیٰ کے مزید پیغامات کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ اس قسم کا نبی ان کے نزدیک ظلی یا غیرتشریعی نبی ہے۔ یعنی تشریعی نبی سے مختلف یعنی اس نبی سے مختلف جس پر خداوند تعالیٰ سے براہ راست وحی اتری ہو۔
ٹرائل کورٹ نے مرزاغلام احمد کے ایک کتابچہ کا اقتباس پیش کیا ہے جس میں انہوں نے اپنے دعویٰ کی وضاحت کی ہے: ’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگرکوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳)
اور یہ واضح کرنے کے لئے کہ مرزاغلام احمد کے معتقدین ان کے اس دعویٰ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزابشیرالدین محمود احمد کے حسب ذیل الفاظ کا ظاہر کرنا بھی ضروری سمجھا گیا۔
’’ہمار ایہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۰، طبع اکتوبر۱۹۱۶ئ، سٹیم پریس امرتسر)
مقدمہ کی سماعت کرنے والی عدالت نے یہ بھی کہا کہ نبوت کے بارہ میں قادیانیوں کا عقیدہ باقی مسلمانوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ مدعیہ کے فاضل وکیل نے اے۔آئی۔آر ۱۹۲۳ء 2270مدراس ۱۷۱ عدالت میں پیش کیا تھا۔ جس میں یہ رائے ظاہر کی گئی تھی کہ قادیانی صرف مسلمانوں کے اندر ایک فرقہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ رائے اس بناء پر قائم کی گئی تھی کہ مرزاغلام احمد کو نبوت کا دعویٰ کئے اتنا کم عرصہ گزرا تھا کہ یہ کہنا ممکن نہیں تھا کہ عام مسلمانوں کی غالب اکثریت قادیانیوں کو مسلمان سمجھنے کے خلاف تھی۔ عدالت ماتحت نے کہا ہے کہ بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے تقریباً ہر فرقہ کے علمائ، سوائے احمدیوں کے کسی نہ کسی وقت اعلان کر چکے ہیں کہ قادیانی مسلمانوں کا ایک فرقہ نہیں ہیں بلکہ غیرمسلم ہیں۔ عدالت کی رائے کی مطابق یہ بات ’’فسخ نکاح مرزائیاں‘‘ نامی کتابچہ سے بھی ثابت ہوتی ہے جو ۱۹۲۵ء میں دفتر اہل حدیث امرتسر سے شائع ہوا تھا اور جس میں اسلام کے مختلف فرقوں کے علماء کے فتویٰ موجود ہیں۔
بہاول پور کے فاضل ڈسٹرکٹ جج نے مسماۃ عائشہ بنام عبدالرزاق کے مقدمہ میں ۱۹۳۵ء میں جو مشہور فیصلہ کیا تھا اس سے بھی یہ بات زیادہ واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ یہ فیصلہ کتاب کی شکل میں شائع ہوا تھا۔ اس میں متعدد علماء کے فتاویٰ اور دلائل کی بناء پر جو دونوں فریق نے پیش کئے تھے۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کے مذہب میں فرق پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔ عدالت نے اس سلسلہ میں یہ امر پیش نظر رکھنا بھی مناسب سمجھا کہ حال ہی میں قادیانیوں کے خلاف ملک گیر پیمانہ پر جو تحریک چل رہی تھی اس کے دوران احمدیوں کے سوا باقی ہر خیال کے مسلمان علماء کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں اتفاق رائے سے اعلان کیا تھا کہ قادیانی مسلمہ معنوں میں مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ ایک مختلف مذہب کے پیرو ہیں۔ چنانچہ اب اس مرحلہ پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قادیانی غیرمسلم ہیں۔
مدعیہ کے فاضل وکیل نے ایک اور دلیل پیش کی ہے کہ قادیانی کم از کم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا شمار اہل کتاب یا قرآن کریم کے ماننے والوں میں ہوسکتا ہے اور 2271چونکہ شرع محمدی کی رو سے مسلمانوں اور اہل کتاب کا نکاح باطل نہیں بلکہ فاسد یعنی غیرپسندیدہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ نکاح قانونی تھا۔ لہٰذا مہر جائز قرار دینا چاہئے۔
عدالت نے کہا محمڈن لاء کے اس اصول پر مدعا علیہ کے وکیل کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ لیکن ان کی رائے میں قادیانیوں کو ’’اہل کتاب‘‘ میں بھی شمار نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں فریق کے وکلاء اس پر متفق تھے کہ ’’اہل کتاب‘‘ کی کوئی واضح تعریف کہیں موجود نہیں ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی یہ معلوم ہوتے ہیں ’’الہامی کتاب پر ایمان لانے والے۔‘‘
مدعیہ کی طرف سے اعلان کیاگیا تھا کہ قادیانی قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ’’اہل کتاب‘‘ ہیں۔ لیکن یہ مان لینے کے بعد قادیانیوں کو غیرمسلم کہنے کا سرے سے کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن کریم پر قادیانیوں کا ایمان ہے تو انہیں غیرمسلم کہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی۔
عدالت نے کہا کہ یہ استدلال مجھے پسند نہیں آیا۔ کیونکہ درحقیقت قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ قرآن شریف کے وہ مطلب تسلیم نہیں کرتے جس پر سارے مسلمانوں کا ایمان ہے۔ بلکہ اپنا مطلب پورا کرنے کے لئے انہوں نے قرآن کریم کی آیات توڑ موڑ کر انہیں نئے معنی پہنا دئیے ہیں۔ قادیانی قرآن کریم کو اس صورت میں تسلیم نہیں کرتے جس صورت میں وہ تیرہ سو سال سے قائم ہے اور اسے اس صورت میں تسلیم نہیں کرتے جس صورت میں نبی کریم ﷺ نے پیش کیا تھا۔ بلکہ مرزاغلام احمد نے جس طرح پیش کیا اسے وہ مانتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عیسائیوں نے بھی اپنی الہامی کتاب (انجیل) میں بے جا تبدیلیاں کی ہیں اور اس کے باوجود انہیں اہل کتاب تصور کیاجاتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی مانتے ہیں۔ اس لئے ان کے پیروکاروں کو (اہل کتاب) سمجھتے ہیں۔ درآنحالیکہ انہوں نے الہامی کتاب میں مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔
عدالت کی رائے میں قادیانیوں کا مسئلہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ مسلمان مرزاغلام احمد کو کسی صورت میں بھی نبی تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ نبوت کا جھوٹا دعویدار سمجھتے ہیں۔ نبوت کے ایسے جھوٹے دعویدار کے پیروؤں کو کسی حالت میں بھی اہل کتاب نہیں مانا جاسکتا۔ جب کہ وہ قرآن کریم کو انہی معنوں میں تسلیم نہ کرتے ہوں جن معنوں میں عامۃ المسلمین تسلیم کرتے ہیں۔ جیسا کہ خود قرآن کریم کی ابتدائی آیات میں کہاگیا ہے کہ یہ کتاب ان کی ہدایت کے لئے ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے نبی پر نازل کیاگیا اور اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ان سے پہلے آنے والے نبیوں پر نازل کیاگیا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہوتا ہے:
’’
والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک
(بقرہ:۴)‘‘
عدالت کی رائے میں یہ کتاب ان کے لئے وجہ ہدایت نہیں بن سکتی جو ہمارے نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد کے کسی الہام پر ایمان لے آئیں۔ قادیانی مرزا کے مبینہ الہامات پر ایمان رکھتے ہیں۔ عدالت کی یہ رائے اس لئے ہے کہ مدعی کے فاضل وکیل کی دلیل بے معنی ہے۔ قادیانیوں کو اہل کتاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا مدعیہ مدعا علیہ سے شادی کے وقت غیرمسلم تھی۔ دونوں کا نکاح بالکل باطل تھا اور اس لئے خلوت بھی اسے جائز نہیں بناسکتی اور مہرقانونی طور پر واجب الاداء قرار نہیں دیا جاسکتا۔
احمدیوں کا لاہوری فرقہ مرزاصاحب کو نبی نہیں مانتا بلکہ صرف مجدد مانتا ہے۔ اس مقدمہ میں تصفیہ طلب نتائج دوررس نتائج کے حامل اور روزمرہ پیش آنے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہماری عدالت عالیہ یعنی لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے کوئی نظیر نہیں پیش ہوئی۔ فسادات کی تحقیقاتی رپورٹ سے (جسے مدعیہ کے فاضل وکیل میاں عطاء اﷲ نے پیش کیا) پتہ چلتا ہے کہ مرزاغلام احمد ضلع گورداسپور کے ایک دیہات ’’قادیان‘‘ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے 2273فارسی اور عربی گھر پر پڑھی۔ لیکن بظاہر انہوں نے کسی قسم کی مغربی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ۱۸۶۴ء میں انہیں سیالکوٹ کی ضلع کچہری میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ جہاں وہ چار سال کام کرتے رہے۔ مارچ ۱۸۸۲ء میں مرزاغلام احمد نے اس الہام کا دعویٰ کیا کہ خدا نے ایک خاص کام ان کے سپرد کیا۔ بالفاظ دیگر انہوں نے ’’مامور من اﷲ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا۔