وحید احمد
رکن ختم نبوت فورم
چوتھی غلط پیشگوئی
(تصویر کا دوسرا رخ)
نکاح محمدی بیگم اور موت سلطان محمد مرزا صاحب کی زندگی میں
جب مرزا صاحب کی میعاد والی پیشگوئی جھوٹی نکلی تو آپ نے یہ عذر کیا کہ گو سلطان محمد مقررہ وقت میں نہیں مرا۔ مگر میری زندگی میں ضرور مرے گا چنانچہ لکھا:
'' کہ اس وعید کی میعاد میں تخلف (ٹل جانا) جائز ہے۔ قرآن اور تورات کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وعید کی موت توبہ اور خوف سے ٹل سکتی ہے۔ (۴۵) میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے، اس کی انتظار کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔ اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسا ہی پورا کردے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی (میعاد میں نہ مرنے پر اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ) اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے، وقتوں میں تو کبھی استعارات کا دخل ہو جانا ہے۔ بائیبل کی بعض پیشگوئیوں میں دنوں کے سال بنائے گئے ہیں جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اگر خدا کا خوف ہو تو اس پیشگوئی کے نفس مفہوم (میری زندگی میں مرنے) میں شک نہ کیا جائے۔ وعید کی پیشگوئی میں گو بظاہر کوئی بھی شرط نہ ہو تب بھی بوجہ خوف تاخیر ڈال دی جاتی ہے پھر اس اجماعی عقیدہ سے محض میری عداوت کے لیے منہ پھیرنا اگر بد ذاتی نہیں تو کیا ہے (مطلب کہ سلطان محمد کے اندرون میعاد نہ مرنے پر اعتراض نہ کرو اگر ضرور تم اس کی موت کے لیے کسی میعاد کے ہی خواہاں ہو تو) فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔ پیشگوئی میں تین شخصوں کی موت کی خبر دی گئی تھی۔ دونوں فوت ہوچکے صرف ایک (سلطان محمد) باقی ہے اس کا انتظار کرو۔ ضرور ہے کہ یہ وعید کی (میعادی) موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بے باق کر دیوے سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو۔ اس کو مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو اس پیشگوئی میں عربی الہام کے الفاظ یہ ہیں: ''کَذَبُوْا بِاٰیِتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِوُن فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَردھا لا تبدیل لکلمات اللّٰہ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالُ لما یُرِیْدُ'' (یعنی انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ٹھٹھا کر رہے ہیں سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تیری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔)'' (۴۶)
انجام آتھم کی اس عبارت میں وہی عذر کیا ہے کہ سلطان محمد اڑھائی سالہ میعاد میں اس لیے نہیں مرا کہ وہ خائف ہوگیا تھا۔ وعید کی پیشگوئیوں میں عذاب ٹل جانا جائز ہے۔ ایسی میعادیں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں وغیرہ اگر تم ضرور کسی معیاد کے اندر اس کی موت چاہتے ہو تو اٹھو اس سے تکذیب کا اشتہار دلاؤ پھر جو میعاد خدا مقرر کرے اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔
ہم حیران ہیں کہ اس ڈھٹائی کا کیا جواب دیں کیا اس سے پہلے کئی بار خدا تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر جو میعاد بتائی تھی اس کے مطابق وہ مر گیا؟ ہرگز نہیں۔ باقی رہا توبہ کا عذر سو اس کا مفصل جواب ہم دے چکے ہیں کہ محض غلط عذر ہے پس جبکہ مرزا صاحب کی کسی پہلی میعادی پیش گوئی صریح غلط نکلی ہے تو اس کے بعد لوگوں کو کسی دوسری میعاد مقرر کرانے کے لیے اشتہار دلانے کی کیا ضرورت تھی جب کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے مرزا صاحب کو اچھی طرح ذلیل کرچکا ہے۔ غرض یہ سب مغالطہ دینے اور شرمندگی اتارنے کی چالیں ہیں۔ بہرحال اس عبارت میں آئندہ کے لیے سلطان محمد کی موت کو اپنی زندگی کے اندر اندر قطعی و یقینی تقدیر مبرم اٹل قرار دیا ہے۔
ناظرین یہ قول مرزا صاحب کا مرزائی مشن کے قلع قمع کرنے کو ایک زبردست حربہ ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب اپنے بہادر اور زبردست کامیاب رقیب سلطان محمد کے سامنے اس نامرادی کی حالت میں مر گئے۔ اور محمدی بیگم آج تک سلطان محمد ہی کے عقد میں ہے۔ (۴۷)
اعتراض:
سلطان محمد کی موت تکذیب کے اشتہار پر مبنی تھی جو اس نے نہیں دیا اس لیے بچ رہا۔ (۴۸)
جواب:
تکذیب کا اشتہار کسی میعاد کے مقرر کرانے کے لیے تھا جیسا کہ انجام آتھم کی تحریر بالا اس پر شاہد ہے اور ہمارا اعتراض اس وقت کسی میعاد کے اندر نہ مرنے پر نہیں۔ بلکہ اس پر ہے کہ مرزا صاحب نے جو سلطان محمد کی موت اپنی زندگی میں تقدیر مبرم بتائی تھی جس کے نہ ہونے پر تھا کہ اگر میری زندگی میں نہ مرے تو میں جھوٹا ہوں۔ پس تمہارا یہ عذر قطعاً لغو ہے، اس تقدیر مبرم والی موت میں کوئی شرط نہ تھی۔ بار بار مرزا صاحب نے لکھا ہے:
(۱) اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے۔
(۲) جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔
(۳) اس پیشگوئی کے نفس مفہوم میں شک نہ کیا جائے۔
(۴) صرف ایک باقی ہے اس کی موت کا انتظار کرو۔
(۵) خدا تعالیٰ انجام کار اس لڑکی کو میری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے وغیرہ وغیرہ۔
انجام آتھم کی یہ سب عبارتیں مرزائیوں کو لغو اور بیہودہ ثابت کر رہی ہیں۔
دوسرا جواب:
مرزا صاحب نے سلطان محمد کی موت کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور تقدیر مبرم میں کوئی شرط نہیں ہوتی جیسا کہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے:
'' گو بظاہر کوئی وعید کی پیشگوئی شرط سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر شرط ہوتی ہے بجز ایسے الہام کے جس میں یہ ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی شروط نہیں پس ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پا جاتا ہے یہ نکتہ سورۃ فاتحہ میں مخفی رکھا گیا ہے۔ (ص۱۰ حاشیہ انجام آتھم)
یہ عبارت صاف ظاہر کرتی ہے کہ تقدیر مبرم بلا شرط ہوتی ہے۔
اور سنو! اگر سلطان محمد کی موت اشتہار تکذیب پر مبنی ہوتی تو انجام آتھم کی اس تحریر کے بعد ساری عمر میں اسے کیوں نہ پیش کیا۔ بار بار یہی کہتے رہے کہ مجھے خدا نے:
(۱) کہا ہے یبارکک اللّٰہ مُسْتَکْثَرِۃٍ خدا تجھے بکثرت برکت دے گا ''فَھٰذِہٖ اِشَارَۃ اِلٰی زَمَانٍ یَّاتِیْ عَلْیِھمْ بَعْدَ زَمَان الْاٰفَاتِ عِنْدَوُصْلَۃٍ مُقَدَّرَۃٍ مَعْدُوْدَۃٍ فِی الْاِشَتَھَارَاتِ'' یہ اشارہ ہے کہ ان آفتوں کے بعد زمانہ آنے والا ہے جس میں وصل مقدر ہے جس کا اشتہارات میں وعدہ دیا گیا ہے۔ ''وَتَتِمُّ یَوْمَئِذٍ کَلِمَۃُ رَبِّنَا وَتَسْوَدُّ وَجُوْہُ اَعْدَائِنَا وَیَظْھَرُ اَمْرُ اللّٰہِ وَلَوْ کَانُوْا کَارِھِیْنَ'' وہ وقت آنے والا ہے کہ اس دن خدا کے کلمے پورے ہو رہیں گے اور دشمنوں کے منہ سیاہ ہو جائیں گے خدا کی بات ظاہر ہوگی اگرچہ وہ کراہت کریں ''وَاِنَّ اللّٰہَ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَاِنَّ اللّٰہَ یُخْزِیْ قَوْمًا فَاسِقِیْنَ'' بلاشبہ خدا غالب ہے اور لاریب خدا فاسقوں کو رسوا کرے گا ''وَالْآنَ مَا لَقِیَ اِلاَّ وَاحِدٌ مِنَ الھالکِیْنَ فانظروا حکم اللّٰہِ'' اب صرف ایک شخص ہلاک ہونے والوں میں سے باقی ہے پس منتظر رہو خدا کے حکم کے ''وَاِنَّہٗ لَا یُبْطِلُ قَوْلَہٗ وَاِنَّہٗ لَا یُخْزِیُٔ قَوْمًا مُلْھَمِیْنَ'' تحقیق خدا اپنی پیشگوئی کو باطل نہیں کرے گا۔ بے شک خدا اپنے ملہموں کو رسوا نہیں کرے گا (۴۹) یاد رکھو خدا کے فرمودہ میں تخلف نہیں اور انجام وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں، خدا کا وعدہ ہرگز نہیں ٹل سکتا۔ (۵۰)
یاد رکھو اس پیشگوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا اے احمقو! یہ انسان کا افترا نہیں یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں، وہی رب ذوالجلال ہے جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ (۵۱)
نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔ (۵۲)
مرزائی اعتراض:
تقدیر مبرم بھی بدل جاتی ہے اور اس میں بھی شرط ہوسکتی ہے۔ (۵۳)
الجواب:
ہم اس وقت مرزا صاحب کے الہامات پر گفتگو کر رہے ہیں پس اس بارے میں مرزا صاحب کا تقدیر مبرم کے متعلق جو مذہب ہوگا اسی پر فیصلہ ہوگا۔ اور ہم اوپر بہ تحریرات مرزا ثابت کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک تقدیر مبرم بلا شرط ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ محمدی بیگم کے نکاح والی تقدیر مبرم ایسی ہے جو بقول مرزا '' کسی طرح نہیں ٹل سکتی۔ اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے'' حاصل یہ کہ مرزا صاحب نے اس پیشگوئی کو اپنے صادق یا کاذب ہونے کی دلیل قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ اگر یہ پوری نہ ہو تو '' میں ہر ایک بد سے بد تر ٹھہروں گا'' اور یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس لیے ہم مرزا صاحب کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو انہوں نے خود سکھلایا ہے۔
ضمیمہ متعلقہ محمدی بیگم
ناظرین! اس مضمون پر کافی بحث ہوچکی ہے مزید ملاحظہ ہو:
اعتراض:
اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں صاف بتایا گیا ہے۔ کہ ایک توبہ نہ کرے گا تو مر جائے گا اور دوسرا توبہ کرے گا اور وہ بچ جائے گا۔ اس کے چھ ماہ بعد احمد بیگ والد محمدی بیگم مر گیا اور سلطان محمد شوہر محمدی بیگم ڈر گیا تو اس لیے وہ بچ گیا۔ (۵۴)
الجواب:
یہ تمام قصہ محض جھوٹ اورمغالطہ ہے کیونکہ اول تو مرزا صاحب کی تصریح کے بموجب مرزا احمد بیگ کو سلطان محمد کی زندگی میں مرنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ مرزا صاحب نے صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ احمد بیگ کی موت آخری مصیبت ہوگی۔ چنانچہ پرمرزا صاحب لکھتے ہیں:
''فاوحی اللہ الی ان اخطب الصبیۃ (۵۵)الکبیرۃ لنفسک'' یعنی خدا نے مجھے وحی کی ہے کہ احمد بیگ سے اس کی بڑی لڑکی کا رشتہ اپنے لیے طلب کر۔ اس کے بعد فرماتے ہیں ''ان لم تقبل فاعلم اللّٰہ قد اخبرنی ان انکحھا رجلا اخر لایبارک لھا ولا لک فان لم تزوجہ فُلُصیْبُ علیک المصائب واٰخر المصائب موتک'' (۵۶) یعنی مجھے خدا نے یہ فرمایا کہ احمد بیگ سے یہ بھی کہہ دے کہ اگر تو نے میرے اس سوال پر رشتہ کو قبول نہ کیا تو جان لے کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ اس لڑکی سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بھی اور تیرے لیے بھی موجب برکت نہ ہوگا پس اگر تو اس ڈانٹ سے نہ ڈرا تو تجھ پر کئی ایک مصیبتیں برسیں گی اور سب سے آخری مصیبت تیری موت ہوگی۔''
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سلطان محمد اور محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق سلسلہ مصائب کی آخری کڑی محمدی بیگم کے باپ احمد بیگ کی موت ہے علاوہ اس تصریح کے ایک زبردست قرینہ بھی اس کی تائید میں ہے کہ مرزا صاحب احمد بیگ کی موت کی غایت تین سال مقرر کرتے ہیں اب ظاہر ہے کہ اڑھائی سال تین سال سے پہلے گذرتے ہیں پس مرزا احمد بیگ کی موت اس کے داماد کی موت کے بعد ہونی چاہیے تھی جو اس طرح نہیں ہوئی۔ اس پیش گوئی کی یہ خبر بھی جھوٹی نکلی۔
باقی رہا سلطان محمد کا ڈرنا اور توبہ کرنا محض مصنوعی بات ہے نہ وہ ڈرانہ اس نے توبہ کی۔ آخر اس کا قصور کیا تھا جس سے وہ توبہ کرتا مرزا صاحب خود فرماتے ہیں:
'' احمد بیگ کے داماد کا قصور یہ تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پرواہ نہ کی۔ پیشگوئی کو سن کر پھر نکاح کرنے پر راضی ہوئے۔ (۵۷)
معلوم ہوا کہ سلطان محمد کا قصور محمدی بیگم سے نکاح کرنا تھا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس نے توبہ کی۔ اب توبہ کے متعلق مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ توبہ کسے کہتے ہیں؟ مرزا صاحب رقم طراز ہیں:
'' مثلاً اگر کافر ہے تو سچا مسلمان ہو جائے اور اگر ایک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دست بردار ہو جائے۔ '' (۵۸)
یہ تعریف توبہ کی بالکل صحیح و درست ہے جس کی رو سے سلطان محمد کی توبہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر اس جرم سے دست بردار ہو جاتا۔ بخلاف اس کے اس نے جو کچھ کیا وہ محتاج تشریح نہیں آج وہ اس عورت پر قابض و متصرف ہے نہ وہ نکاح سے پہلے ڈرا (جو مرزا صاحب کی تحریر مذکورہ بالا سے ثابت ہے) اور نہ نکاح کے بعد کیونکہ یوم نکاح ۱۸۹۲ء سے آج تک چالیس سال سے زائد عرصے وہ اس عورت پر قابض ہے اور خدا نے اسے اس محمدی بیگم کے بطن سے مرزا صاحب کی تحریر کے خلاف ایک درجن کے قریب اولاد بھی بخشی ہے۔ حالانکہ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اس سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بابرکت نہ ہوگا۔ پس پیشگوئی کی یہ جزو بھی جھوٹی نکلی۔ نیز مرزا سلطان محمد مرزا غلام احمد صاحب کے الہام '' بستر عیش'' کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ احمدی دوست یہی ہانکتے جا رہے ہیں کہ مرزا سلطان محمد، تائب ہوگیا اس لیے وہ بچ گیا۔ آخر اس کا کیا گناہ تھا اور اس کی توبہ کیا چاہیے تھی؟ کیا اس نے اس گناہ سے توبہ کی؟ اس کا یہی قصور تھا کہ وہ مرزا صاحب کے ''بستر عیش'' کی خواہش و تمنا کے پورا ہونے میں حائل تھا۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مریم علیہ السلام میرے نکاح میں آوے گی، جو نہ آئی۔ (۵۹)
الجواب:
یہ روایت بالکل غیر مستند ہے (اگر سچے ہو تو سند بیان کرو) (۶۰) بفرض محال اگر صحیح بھی ہو تو یہ ایک کشفی معاملہ ہے۔ جناب مریم صدیقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے سینکڑوں برس پیشتر فوت ہوچکی تھیں۔ پس اس نکاح کے کشفی اور متعلقہ عالم آخرت ہونے پر یہی کافی دلیل ہے نیز مرزا صاحب خود رقم طراز ہیں:
'' بعض آثار میں آیا ہے کہ حضرت مریم صدیقہ والدہ مسیح علیہما السلام عالم آخرت میں زوجہ مطہرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی۔'' (۶۱)
پس جبکہ خود اس روایت میں اس نکاح کا متعلقہ عالم آخرت قرار دیا گیا ہے تو تمہارا اس کو محمدی بیگم کے نکاح کی نظیر بنانا صریح خلاف دیانت ہے۔
اعتراض:
یہ پیش گوئی مشروط تھی جیسا کہ لکھا ہے ''اَیَّھُا المراۃ توبی توبی'' ۔ (۶۲)
الجواب:
اول تو یہ الہام حسب تحریر مرزا صاحب محمدی بیگم کی نانی کے متعلق ہے اور توبی توبی صیغہ مؤنث کا بھی گواہی دے رہا ہے کہ یہ کسی عورت کے متعلق ہے اور سلطان محمد شوہر محمدی بیگم مرد ہے نہ کہ عورت۔ دیگر یہ کہ محمدی بیگم کی نانی کی توبہ بھی یہی ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی نواسی مرزا جی کو دینے کی سفارشیں کرتیں جیسا کہ مرزا جی کے اپنے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ باکرہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتی ہے اور مرزا صاحب نے اپنی چھوٹی بہو عزت بی بی سے جو خط اس کے باپ مرزا علی شیر بیگ کو لکھوائے اور خود بھی لکھے ان سے ظاہر ہے کہ مرزا جی محمدی بیگم کے کنواری ہونے کی حالت میں بھی نکاح کی کوشش کرتے رہے پس محمدی بیگم کی نانی نے باوجود اس دھمکی کے کوئی پروا نہ کی۔ اور اپنی نواسی مرزا جی کی خواہش کے خلاف سلطان محمد سے بیاہ دی۔ اور اس کی نواسی محمدی بیگم پر کوئی بھی بلا نہ آئی۔
اعتراض:
تقدیر مبرم ٹل سکتی ہے نیز احادیث سے ثابت ہے کہ دعا اور صدقات سے تقدیر مبرم ٹل جاتی ہے۔ (۶۳)
الجواب:
یہ سب مغالطے ہیں اگر ہر تقدیر مبرم اور غیر مبرم دعا اور صدقات سے ٹل سکتی ہے تو مبرم غیر مبرم میں تمیز نہ رہی۔ اور تقسیم بیکار ہوئی ان احادیث کا صحیح مفہوم جو سب احادیث کو اور نفس مسئلہ کو ملحوظ رکھ کر یہی ہے کہ دعا اور صدقات سے وہی امور ٹلتے ہیں جو ان سے متعلق ہوں اور یہ سب کچھ خدا کے علم میں پہلے ہی سے ہوتا ہے (۶۴) حصنِ حصین و نووی شرح مسلم۔ مگر مرزا جی کے نزدیک تقدیر مبرم اٹل ہے اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہو جاتا ہے نیز اگر بقول مرزائی صاحبان احمد بیگ کے داماد کی موت اور محمدی بیگم کے نکاح کی ہر دو تقدیریں ٹل گئیں۔ اب نتیجہ صاف ہے کہ یہ پیش گوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں کیونکہ مرزا صاحب کے قول کے بموجب خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں اور جب ٹل گئیں تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تھیں۔ وہذا المراد۔
ملاحظہ ہو مرزا صاحب کا ارشاد کہ تقدیر مبرم نہ ٹلنے کی بابت:
'' یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح نہیں ٹل سکتی کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ ''لَا تَبْدِیْلَ کَلِمَاتِ اللّٰہِ'' یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے اور اسی طرح کرے گا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے کہ میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر نہیں ٹلتی اور میرے آگے کوئی ان ہونی نہیں۔ اور میں سب روکوں کو اٹھا دوں گا جو اس حکم کے نفاذ کے مانع ہوں۔'' (۶۵)
اعتراض:
حضرت یونس علیہ السلام نے آسمان سے خبر پا کر کہا تھا کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نہ ہوا۔ (۶۶)
الجواب:
یہ کسی آیت و حدیث صحیح میں وارد نہیں ہوا۔ یہ سراسر بہتان ہے یہ سب کچھ کذب و افترا ہے۔
اعتراض:
سلطان محمد نے آج تک ایک فقرہ بھی مرزا صاحب کے حق میں تکذیب کے طور پر نہیں لکھا۔
الجواب:
ناظرین! ہم آپ کی خدمت میں مرزا سلطان محمد کے دو خط پیش کرتے ہیں جو مرزائی صاحبان کی تکذیب کے لیے کافی ہیں اور ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس پیشگوئی سے ہرگز نہیں ڈرا۔ وہ ایک فوجی ملازم تھا جنہیں ہمیشہ تلواروں کی چھاؤں اور گولیوں کی بارش کا خیال بندھا رہتا ہے۔ جب جنگ کے میدانوں میں سینہ سپر ہونے سے یہ لوگ نہیں ڈرتے تو ایک عورت کے نکاح کی ضد میں مرزا صاحب کی اس پیش گوئی سے اسے کیا خوف ہوسکتا تھا۔ چنانچہ وہ خود لکھتا ہے۔
خط نمبر اوّل
جناب (۱)مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جو میری موت کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ میں نے اس میں ان کی تصدیق کبھی نہیں کی۔ نہ میں اس پیشگوئی سے کبھی ڈرا۔ میں ہمیشہ سے اور اب بھی اپنے بزرگان اسلام کا پیرو رہا ہوں۔ (۳؍ مارچ ۱۹۲۴ء دستخط مرزا سلطان محمد)
۱: ایڈیٹر نے اخبار اہل حدیث میں اعلان کیا تھا کہ مرزائی صاحبان اگر اس چٹھی کو غیر صحیح ثابت کردیں تو وہی تین سو روپیہ مرزائیوں کو انعام دیں گے جو مولوی ثناء اللہ صاحب نے لودھانہ میں میر قاسم علی مرزائی سے جیتا تھا۔ مگر میرزائیوں نے اس اعلان پر دم نہیں مارا اور خاموش ہیں۔
تصدیقی دستخط!
مولوی عبداللہ امام مسجد مبارک
مولوی مولا بخش خطیب جامع مسجد پٹی بقلم خود
مولوی عبدالمجید ساکن پٹی بقلم خود
مستری محمد حسین نقشہ نویس پٹی بقلم خود
مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر (۶۷)
خط نمبر دوم
مکرم جناب شاہ صاحب!
اسلام علیکم !میں تادم تحریر تندرست اور بفضل خدا زندہ ہوں میں خدا کے فضل سے ملازمت کے وقت بھی تندرست رہا ہوں میں اس وقت بعہدہ رسال داری پنشن پر ہوں۔ گورنمنٹ کی طرف سے مجھے پانچ مربہ اراضی عطا ہوئی ہے میری جدی زمین بھی قصبہ پٹی میں میرے حصہ میں قریباً ۱۰۰ بیگھ آئی ہے اور ضلع شیخوپورہ میں بھی میری اراضی قریباً تین مربعہ ہے میری پنشن گورنمنٹ کی طرف سے ۱۳۵ روپے ماہواری ہے۔ میرے چھ لڑکے ہیں جن میں سے ایک لاہور میں پڑھتا ہے گورنمنٹ کی طرف سے اس کو پچیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا ہے دوسرا لڑکا خاص پٹی میں انٹرنس میں تعلیم پاتا ہے میں خدا کے فضل سے اہل سنت والجماعت ہوں، میں احمدی مذہب کو برا سمجھتا ہوں میں اس کا پیرو نہیں ہوں اس کا دین جھوٹا سمجھتا ہوں۔ والسلام
تابعدار سلطان محمد بیگ پنشنر از پٹی ضلع لاہور (۶۸)
------------------------------------------------------------------------------
(۴۵) حاشیہ انجام آتھم ص۲۹ و روحانی ص۲۹، ج۱۱ ملخصًا
(۴۶) ایضاً ص ۳۱، ۳۲
(۴۷) مرزا جی نے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میںاپنے میزبان کے گھرہیضہ سے دم توڑدیا تھا جبکہ مرزا سلطان محمد مرحوم نے ۱۹۴۹ (شھادۃ القران ص۸۳،ج۲ مؤلفہ مولانا میر رحمۃ اللہ علیہ)میں وفات پائی اور محترمہ محمدی بیگم صاحبہ مرحومہ نے ۱۹؍ نومبر ۱۹۶۶ء کو انتقال فرمایا، انا للہ ''الاعتصام ''جلد۱۸ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۶ء ص۳، ابو صہیب
(۴۸) تفہیمات ربانیہ ص۶۰۳
(۴۹) انجام آتھم ص۲۱۷،ج۲۱۸ و روحانی ص۲۱۷ تا ۲۱۸، ج۱۱
(۵۰) ضمیمہ انجام آتھم ص۱۳ و روحانی ص۲۹۷، ج۱۱
(۵۱) ایضاً ص۵۴ و روحانی ص۳۳۸، ج۱
(۵۲) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء نوٹ: مرزائیوں نے مرزا دجال کے اشتہارات کو دوبار شائع کیا ہے پہلی بار تو تو میر قاسم نے ' تبلیغ رسالت' کے نام سے ان کی اشاعت کی تھی اور دوسری بار مرزائی عبداللطیف بہاولپوری نے مزید اشتہارات کو تلاش کرکے، مجموعہ اشتہارات مرزا دجال کے نام سے الشرکۃ المرزائیہ ربوہ کی طرف سے اشاعت کی تھی، ان دونوں میں ایسا کوئی اشتہار نہیں ہے، ممکن ہے کہ اس اشتہار کا کوئی نسخہ مولانا معمار مرحوم کے پاس ہو، جہاں سے انہوں نے مذکورہ نقل کی ہے واللہ اعلم، ابو صہیب
(۵۳) مفہوم، احمدیہ پاکٹ بک ص۷۸۷ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۴) تفہیمات ربانیہ ص۶۰۸
(۵۵) نحو میر کے متعلم اس ہندی نما عربی کی صحت پر اعتراض نہ کریں کیونکہ مرزا دجال عجمی تھے۔ ابو صہیب
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲، ۵۷۳ ملخصًا
(۵۷) اشتہار مرزا مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۹۵ ج۲
(۵۸) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۶
(۵۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۹۳
(۶۰) نوٹ ضروری حضرت مریم u سے نکاح کی تمام کی تمام روایات ساقط الاعتبار ہیں، تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) حضرت سعد بن جنادہ t سے طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ قد زوجنا فی الجنۃ مریم بنت عمران وامراۃ فرعون واخت موسیٰ (الحدیث) اس کے سند کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا کہنا ہے '' فیہ من لم اعرفھم'' یعنی اس کی سند میں ایسے مجہول راوی شامل ہیں جنہیں میں نہیں جانتا، مجمع الزوائد ص۲۲۱، ج۹، علامہ مناوی اورمحدث البانی رحمہ اللہ نے بھی یہ علت بیان کی ہے، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ص۲۲۰، ج۲
(۲ ) دوسری روایت ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً تقریباً انہیں الفاظ میں مروی ہے جس کی سند میں مروی ہے جس کی سند میں خالد بن یوسف راوی ہے جو کہ ضعیف ہے مجمع الزوائد ص۲۲۱، ج۹
(۳) تیسری روایت ابی رواد سے مرفوعاً آئی ہے جو کہ منقطع السند ہونے کے علاوہ اس میںایک راوی (محمد بن الحسن) کذاب ہے (ایضاً ص۲۲۱، ج۹ )
(۴) چوتھی روایت حضرت ابی امامۃ سے ابو الشیخ نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے جس کی سند میںیونس بن شعیب راوی ہے جسے امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، میزان ص۴۸۱، ج۴ والضعفاء الکبیر ص۴۵۹، ج۴ علاوہ ازیں ایک راوی عبدالنور ہے جو کہ کذاب ہے، اس مؤخر الذکر روایت کو ہی مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ (ابوصہیب)
(۶۱) سرمہ چشم آریہ ص۲۴۲ و روحانی ص۲۹۲، ج۲
(۶۲) تفیہمات ربانیہ ص۵۹۰ طبعہ جدید
(۶۳) ایضاً ص۵۹۴
(۶۴) شرح صحیح مسلم لم اجدہ
(۶۵) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۴
(۶۶) تفیہمات ربانیہ ص۵۷۲
(۶۷) اخبار ' اہل حدیث' مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۴۴ء
(۶۸) ایضاً مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۳۰ء
بشکریہ: محدث فورم
(تصویر کا دوسرا رخ)
نکاح محمدی بیگم اور موت سلطان محمد مرزا صاحب کی زندگی میں
جب مرزا صاحب کی میعاد والی پیشگوئی جھوٹی نکلی تو آپ نے یہ عذر کیا کہ گو سلطان محمد مقررہ وقت میں نہیں مرا۔ مگر میری زندگی میں ضرور مرے گا چنانچہ لکھا:
'' کہ اس وعید کی میعاد میں تخلف (ٹل جانا) جائز ہے۔ قرآن اور تورات کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وعید کی موت توبہ اور خوف سے ٹل سکتی ہے۔ (۴۵) میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے، اس کی انتظار کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔ اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسا ہی پورا کردے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی (میعاد میں نہ مرنے پر اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ) اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے، وقتوں میں تو کبھی استعارات کا دخل ہو جانا ہے۔ بائیبل کی بعض پیشگوئیوں میں دنوں کے سال بنائے گئے ہیں جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اگر خدا کا خوف ہو تو اس پیشگوئی کے نفس مفہوم (میری زندگی میں مرنے) میں شک نہ کیا جائے۔ وعید کی پیشگوئی میں گو بظاہر کوئی بھی شرط نہ ہو تب بھی بوجہ خوف تاخیر ڈال دی جاتی ہے پھر اس اجماعی عقیدہ سے محض میری عداوت کے لیے منہ پھیرنا اگر بد ذاتی نہیں تو کیا ہے (مطلب کہ سلطان محمد کے اندرون میعاد نہ مرنے پر اعتراض نہ کرو اگر ضرور تم اس کی موت کے لیے کسی میعاد کے ہی خواہاں ہو تو) فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔ پیشگوئی میں تین شخصوں کی موت کی خبر دی گئی تھی۔ دونوں فوت ہوچکے صرف ایک (سلطان محمد) باقی ہے اس کا انتظار کرو۔ ضرور ہے کہ یہ وعید کی (میعادی) موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بے باق کر دیوے سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو۔ اس کو مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو اس پیشگوئی میں عربی الہام کے الفاظ یہ ہیں: ''کَذَبُوْا بِاٰیِتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِوُن فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَردھا لا تبدیل لکلمات اللّٰہ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالُ لما یُرِیْدُ'' (یعنی انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ٹھٹھا کر رہے ہیں سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تیری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔)'' (۴۶)
انجام آتھم کی اس عبارت میں وہی عذر کیا ہے کہ سلطان محمد اڑھائی سالہ میعاد میں اس لیے نہیں مرا کہ وہ خائف ہوگیا تھا۔ وعید کی پیشگوئیوں میں عذاب ٹل جانا جائز ہے۔ ایسی میعادیں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں وغیرہ اگر تم ضرور کسی معیاد کے اندر اس کی موت چاہتے ہو تو اٹھو اس سے تکذیب کا اشتہار دلاؤ پھر جو میعاد خدا مقرر کرے اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔
ہم حیران ہیں کہ اس ڈھٹائی کا کیا جواب دیں کیا اس سے پہلے کئی بار خدا تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر جو میعاد بتائی تھی اس کے مطابق وہ مر گیا؟ ہرگز نہیں۔ باقی رہا توبہ کا عذر سو اس کا مفصل جواب ہم دے چکے ہیں کہ محض غلط عذر ہے پس جبکہ مرزا صاحب کی کسی پہلی میعادی پیش گوئی صریح غلط نکلی ہے تو اس کے بعد لوگوں کو کسی دوسری میعاد مقرر کرانے کے لیے اشتہار دلانے کی کیا ضرورت تھی جب کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے مرزا صاحب کو اچھی طرح ذلیل کرچکا ہے۔ غرض یہ سب مغالطہ دینے اور شرمندگی اتارنے کی چالیں ہیں۔ بہرحال اس عبارت میں آئندہ کے لیے سلطان محمد کی موت کو اپنی زندگی کے اندر اندر قطعی و یقینی تقدیر مبرم اٹل قرار دیا ہے۔
ناظرین یہ قول مرزا صاحب کا مرزائی مشن کے قلع قمع کرنے کو ایک زبردست حربہ ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب اپنے بہادر اور زبردست کامیاب رقیب سلطان محمد کے سامنے اس نامرادی کی حالت میں مر گئے۔ اور محمدی بیگم آج تک سلطان محمد ہی کے عقد میں ہے۔ (۴۷)
اعتراض:
سلطان محمد کی موت تکذیب کے اشتہار پر مبنی تھی جو اس نے نہیں دیا اس لیے بچ رہا۔ (۴۸)
جواب:
تکذیب کا اشتہار کسی میعاد کے مقرر کرانے کے لیے تھا جیسا کہ انجام آتھم کی تحریر بالا اس پر شاہد ہے اور ہمارا اعتراض اس وقت کسی میعاد کے اندر نہ مرنے پر نہیں۔ بلکہ اس پر ہے کہ مرزا صاحب نے جو سلطان محمد کی موت اپنی زندگی میں تقدیر مبرم بتائی تھی جس کے نہ ہونے پر تھا کہ اگر میری زندگی میں نہ مرے تو میں جھوٹا ہوں۔ پس تمہارا یہ عذر قطعاً لغو ہے، اس تقدیر مبرم والی موت میں کوئی شرط نہ تھی۔ بار بار مرزا صاحب نے لکھا ہے:
(۱) اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے۔
(۲) جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔
(۳) اس پیشگوئی کے نفس مفہوم میں شک نہ کیا جائے۔
(۴) صرف ایک باقی ہے اس کی موت کا انتظار کرو۔
(۵) خدا تعالیٰ انجام کار اس لڑکی کو میری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے وغیرہ وغیرہ۔
انجام آتھم کی یہ سب عبارتیں مرزائیوں کو لغو اور بیہودہ ثابت کر رہی ہیں۔
دوسرا جواب:
مرزا صاحب نے سلطان محمد کی موت کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور تقدیر مبرم میں کوئی شرط نہیں ہوتی جیسا کہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے:
'' گو بظاہر کوئی وعید کی پیشگوئی شرط سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر شرط ہوتی ہے بجز ایسے الہام کے جس میں یہ ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی شروط نہیں پس ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پا جاتا ہے یہ نکتہ سورۃ فاتحہ میں مخفی رکھا گیا ہے۔ (ص۱۰ حاشیہ انجام آتھم)
یہ عبارت صاف ظاہر کرتی ہے کہ تقدیر مبرم بلا شرط ہوتی ہے۔
اور سنو! اگر سلطان محمد کی موت اشتہار تکذیب پر مبنی ہوتی تو انجام آتھم کی اس تحریر کے بعد ساری عمر میں اسے کیوں نہ پیش کیا۔ بار بار یہی کہتے رہے کہ مجھے خدا نے:
(۱) کہا ہے یبارکک اللّٰہ مُسْتَکْثَرِۃٍ خدا تجھے بکثرت برکت دے گا ''فَھٰذِہٖ اِشَارَۃ اِلٰی زَمَانٍ یَّاتِیْ عَلْیِھمْ بَعْدَ زَمَان الْاٰفَاتِ عِنْدَوُصْلَۃٍ مُقَدَّرَۃٍ مَعْدُوْدَۃٍ فِی الْاِشَتَھَارَاتِ'' یہ اشارہ ہے کہ ان آفتوں کے بعد زمانہ آنے والا ہے جس میں وصل مقدر ہے جس کا اشتہارات میں وعدہ دیا گیا ہے۔ ''وَتَتِمُّ یَوْمَئِذٍ کَلِمَۃُ رَبِّنَا وَتَسْوَدُّ وَجُوْہُ اَعْدَائِنَا وَیَظْھَرُ اَمْرُ اللّٰہِ وَلَوْ کَانُوْا کَارِھِیْنَ'' وہ وقت آنے والا ہے کہ اس دن خدا کے کلمے پورے ہو رہیں گے اور دشمنوں کے منہ سیاہ ہو جائیں گے خدا کی بات ظاہر ہوگی اگرچہ وہ کراہت کریں ''وَاِنَّ اللّٰہَ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَاِنَّ اللّٰہَ یُخْزِیْ قَوْمًا فَاسِقِیْنَ'' بلاشبہ خدا غالب ہے اور لاریب خدا فاسقوں کو رسوا کرے گا ''وَالْآنَ مَا لَقِیَ اِلاَّ وَاحِدٌ مِنَ الھالکِیْنَ فانظروا حکم اللّٰہِ'' اب صرف ایک شخص ہلاک ہونے والوں میں سے باقی ہے پس منتظر رہو خدا کے حکم کے ''وَاِنَّہٗ لَا یُبْطِلُ قَوْلَہٗ وَاِنَّہٗ لَا یُخْزِیُٔ قَوْمًا مُلْھَمِیْنَ'' تحقیق خدا اپنی پیشگوئی کو باطل نہیں کرے گا۔ بے شک خدا اپنے ملہموں کو رسوا نہیں کرے گا (۴۹) یاد رکھو خدا کے فرمودہ میں تخلف نہیں اور انجام وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں، خدا کا وعدہ ہرگز نہیں ٹل سکتا۔ (۵۰)
یاد رکھو اس پیشگوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا اے احمقو! یہ انسان کا افترا نہیں یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں، وہی رب ذوالجلال ہے جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ (۵۱)
نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔ (۵۲)
مرزائی اعتراض:
تقدیر مبرم بھی بدل جاتی ہے اور اس میں بھی شرط ہوسکتی ہے۔ (۵۳)
الجواب:
ہم اس وقت مرزا صاحب کے الہامات پر گفتگو کر رہے ہیں پس اس بارے میں مرزا صاحب کا تقدیر مبرم کے متعلق جو مذہب ہوگا اسی پر فیصلہ ہوگا۔ اور ہم اوپر بہ تحریرات مرزا ثابت کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک تقدیر مبرم بلا شرط ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ محمدی بیگم کے نکاح والی تقدیر مبرم ایسی ہے جو بقول مرزا '' کسی طرح نہیں ٹل سکتی۔ اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے'' حاصل یہ کہ مرزا صاحب نے اس پیشگوئی کو اپنے صادق یا کاذب ہونے کی دلیل قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ اگر یہ پوری نہ ہو تو '' میں ہر ایک بد سے بد تر ٹھہروں گا'' اور یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس لیے ہم مرزا صاحب کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو انہوں نے خود سکھلایا ہے۔
ضمیمہ متعلقہ محمدی بیگم
ناظرین! اس مضمون پر کافی بحث ہوچکی ہے مزید ملاحظہ ہو:
اعتراض:
اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں صاف بتایا گیا ہے۔ کہ ایک توبہ نہ کرے گا تو مر جائے گا اور دوسرا توبہ کرے گا اور وہ بچ جائے گا۔ اس کے چھ ماہ بعد احمد بیگ والد محمدی بیگم مر گیا اور سلطان محمد شوہر محمدی بیگم ڈر گیا تو اس لیے وہ بچ گیا۔ (۵۴)
الجواب:
یہ تمام قصہ محض جھوٹ اورمغالطہ ہے کیونکہ اول تو مرزا صاحب کی تصریح کے بموجب مرزا احمد بیگ کو سلطان محمد کی زندگی میں مرنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ مرزا صاحب نے صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ احمد بیگ کی موت آخری مصیبت ہوگی۔ چنانچہ پرمرزا صاحب لکھتے ہیں:
''فاوحی اللہ الی ان اخطب الصبیۃ (۵۵)الکبیرۃ لنفسک'' یعنی خدا نے مجھے وحی کی ہے کہ احمد بیگ سے اس کی بڑی لڑکی کا رشتہ اپنے لیے طلب کر۔ اس کے بعد فرماتے ہیں ''ان لم تقبل فاعلم اللّٰہ قد اخبرنی ان انکحھا رجلا اخر لایبارک لھا ولا لک فان لم تزوجہ فُلُصیْبُ علیک المصائب واٰخر المصائب موتک'' (۵۶) یعنی مجھے خدا نے یہ فرمایا کہ احمد بیگ سے یہ بھی کہہ دے کہ اگر تو نے میرے اس سوال پر رشتہ کو قبول نہ کیا تو جان لے کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ اس لڑکی سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بھی اور تیرے لیے بھی موجب برکت نہ ہوگا پس اگر تو اس ڈانٹ سے نہ ڈرا تو تجھ پر کئی ایک مصیبتیں برسیں گی اور سب سے آخری مصیبت تیری موت ہوگی۔''
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سلطان محمد اور محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق سلسلہ مصائب کی آخری کڑی محمدی بیگم کے باپ احمد بیگ کی موت ہے علاوہ اس تصریح کے ایک زبردست قرینہ بھی اس کی تائید میں ہے کہ مرزا صاحب احمد بیگ کی موت کی غایت تین سال مقرر کرتے ہیں اب ظاہر ہے کہ اڑھائی سال تین سال سے پہلے گذرتے ہیں پس مرزا احمد بیگ کی موت اس کے داماد کی موت کے بعد ہونی چاہیے تھی جو اس طرح نہیں ہوئی۔ اس پیش گوئی کی یہ خبر بھی جھوٹی نکلی۔
باقی رہا سلطان محمد کا ڈرنا اور توبہ کرنا محض مصنوعی بات ہے نہ وہ ڈرانہ اس نے توبہ کی۔ آخر اس کا قصور کیا تھا جس سے وہ توبہ کرتا مرزا صاحب خود فرماتے ہیں:
'' احمد بیگ کے داماد کا قصور یہ تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پرواہ نہ کی۔ پیشگوئی کو سن کر پھر نکاح کرنے پر راضی ہوئے۔ (۵۷)
معلوم ہوا کہ سلطان محمد کا قصور محمدی بیگم سے نکاح کرنا تھا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس نے توبہ کی۔ اب توبہ کے متعلق مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ توبہ کسے کہتے ہیں؟ مرزا صاحب رقم طراز ہیں:
'' مثلاً اگر کافر ہے تو سچا مسلمان ہو جائے اور اگر ایک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دست بردار ہو جائے۔ '' (۵۸)
یہ تعریف توبہ کی بالکل صحیح و درست ہے جس کی رو سے سلطان محمد کی توبہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر اس جرم سے دست بردار ہو جاتا۔ بخلاف اس کے اس نے جو کچھ کیا وہ محتاج تشریح نہیں آج وہ اس عورت پر قابض و متصرف ہے نہ وہ نکاح سے پہلے ڈرا (جو مرزا صاحب کی تحریر مذکورہ بالا سے ثابت ہے) اور نہ نکاح کے بعد کیونکہ یوم نکاح ۱۸۹۲ء سے آج تک چالیس سال سے زائد عرصے وہ اس عورت پر قابض ہے اور خدا نے اسے اس محمدی بیگم کے بطن سے مرزا صاحب کی تحریر کے خلاف ایک درجن کے قریب اولاد بھی بخشی ہے۔ حالانکہ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اس سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بابرکت نہ ہوگا۔ پس پیشگوئی کی یہ جزو بھی جھوٹی نکلی۔ نیز مرزا سلطان محمد مرزا غلام احمد صاحب کے الہام '' بستر عیش'' کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ احمدی دوست یہی ہانکتے جا رہے ہیں کہ مرزا سلطان محمد، تائب ہوگیا اس لیے وہ بچ گیا۔ آخر اس کا کیا گناہ تھا اور اس کی توبہ کیا چاہیے تھی؟ کیا اس نے اس گناہ سے توبہ کی؟ اس کا یہی قصور تھا کہ وہ مرزا صاحب کے ''بستر عیش'' کی خواہش و تمنا کے پورا ہونے میں حائل تھا۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مریم علیہ السلام میرے نکاح میں آوے گی، جو نہ آئی۔ (۵۹)
الجواب:
یہ روایت بالکل غیر مستند ہے (اگر سچے ہو تو سند بیان کرو) (۶۰) بفرض محال اگر صحیح بھی ہو تو یہ ایک کشفی معاملہ ہے۔ جناب مریم صدیقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے سینکڑوں برس پیشتر فوت ہوچکی تھیں۔ پس اس نکاح کے کشفی اور متعلقہ عالم آخرت ہونے پر یہی کافی دلیل ہے نیز مرزا صاحب خود رقم طراز ہیں:
'' بعض آثار میں آیا ہے کہ حضرت مریم صدیقہ والدہ مسیح علیہما السلام عالم آخرت میں زوجہ مطہرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی۔'' (۶۱)
پس جبکہ خود اس روایت میں اس نکاح کا متعلقہ عالم آخرت قرار دیا گیا ہے تو تمہارا اس کو محمدی بیگم کے نکاح کی نظیر بنانا صریح خلاف دیانت ہے۔
اعتراض:
یہ پیش گوئی مشروط تھی جیسا کہ لکھا ہے ''اَیَّھُا المراۃ توبی توبی'' ۔ (۶۲)
الجواب:
اول تو یہ الہام حسب تحریر مرزا صاحب محمدی بیگم کی نانی کے متعلق ہے اور توبی توبی صیغہ مؤنث کا بھی گواہی دے رہا ہے کہ یہ کسی عورت کے متعلق ہے اور سلطان محمد شوہر محمدی بیگم مرد ہے نہ کہ عورت۔ دیگر یہ کہ محمدی بیگم کی نانی کی توبہ بھی یہی ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی نواسی مرزا جی کو دینے کی سفارشیں کرتیں جیسا کہ مرزا جی کے اپنے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ باکرہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتی ہے اور مرزا صاحب نے اپنی چھوٹی بہو عزت بی بی سے جو خط اس کے باپ مرزا علی شیر بیگ کو لکھوائے اور خود بھی لکھے ان سے ظاہر ہے کہ مرزا جی محمدی بیگم کے کنواری ہونے کی حالت میں بھی نکاح کی کوشش کرتے رہے پس محمدی بیگم کی نانی نے باوجود اس دھمکی کے کوئی پروا نہ کی۔ اور اپنی نواسی مرزا جی کی خواہش کے خلاف سلطان محمد سے بیاہ دی۔ اور اس کی نواسی محمدی بیگم پر کوئی بھی بلا نہ آئی۔
اعتراض:
تقدیر مبرم ٹل سکتی ہے نیز احادیث سے ثابت ہے کہ دعا اور صدقات سے تقدیر مبرم ٹل جاتی ہے۔ (۶۳)
الجواب:
یہ سب مغالطے ہیں اگر ہر تقدیر مبرم اور غیر مبرم دعا اور صدقات سے ٹل سکتی ہے تو مبرم غیر مبرم میں تمیز نہ رہی۔ اور تقسیم بیکار ہوئی ان احادیث کا صحیح مفہوم جو سب احادیث کو اور نفس مسئلہ کو ملحوظ رکھ کر یہی ہے کہ دعا اور صدقات سے وہی امور ٹلتے ہیں جو ان سے متعلق ہوں اور یہ سب کچھ خدا کے علم میں پہلے ہی سے ہوتا ہے (۶۴) حصنِ حصین و نووی شرح مسلم۔ مگر مرزا جی کے نزدیک تقدیر مبرم اٹل ہے اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہو جاتا ہے نیز اگر بقول مرزائی صاحبان احمد بیگ کے داماد کی موت اور محمدی بیگم کے نکاح کی ہر دو تقدیریں ٹل گئیں۔ اب نتیجہ صاف ہے کہ یہ پیش گوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں کیونکہ مرزا صاحب کے قول کے بموجب خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں اور جب ٹل گئیں تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تھیں۔ وہذا المراد۔
ملاحظہ ہو مرزا صاحب کا ارشاد کہ تقدیر مبرم نہ ٹلنے کی بابت:
'' یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح نہیں ٹل سکتی کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ ''لَا تَبْدِیْلَ کَلِمَاتِ اللّٰہِ'' یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے اور اسی طرح کرے گا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے کہ میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر نہیں ٹلتی اور میرے آگے کوئی ان ہونی نہیں۔ اور میں سب روکوں کو اٹھا دوں گا جو اس حکم کے نفاذ کے مانع ہوں۔'' (۶۵)
اعتراض:
حضرت یونس علیہ السلام نے آسمان سے خبر پا کر کہا تھا کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نہ ہوا۔ (۶۶)
الجواب:
یہ کسی آیت و حدیث صحیح میں وارد نہیں ہوا۔ یہ سراسر بہتان ہے یہ سب کچھ کذب و افترا ہے۔
اعتراض:
سلطان محمد نے آج تک ایک فقرہ بھی مرزا صاحب کے حق میں تکذیب کے طور پر نہیں لکھا۔
الجواب:
ناظرین! ہم آپ کی خدمت میں مرزا سلطان محمد کے دو خط پیش کرتے ہیں جو مرزائی صاحبان کی تکذیب کے لیے کافی ہیں اور ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس پیشگوئی سے ہرگز نہیں ڈرا۔ وہ ایک فوجی ملازم تھا جنہیں ہمیشہ تلواروں کی چھاؤں اور گولیوں کی بارش کا خیال بندھا رہتا ہے۔ جب جنگ کے میدانوں میں سینہ سپر ہونے سے یہ لوگ نہیں ڈرتے تو ایک عورت کے نکاح کی ضد میں مرزا صاحب کی اس پیش گوئی سے اسے کیا خوف ہوسکتا تھا۔ چنانچہ وہ خود لکھتا ہے۔
خط نمبر اوّل
جناب (۱)مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جو میری موت کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ میں نے اس میں ان کی تصدیق کبھی نہیں کی۔ نہ میں اس پیشگوئی سے کبھی ڈرا۔ میں ہمیشہ سے اور اب بھی اپنے بزرگان اسلام کا پیرو رہا ہوں۔ (۳؍ مارچ ۱۹۲۴ء دستخط مرزا سلطان محمد)
۱: ایڈیٹر نے اخبار اہل حدیث میں اعلان کیا تھا کہ مرزائی صاحبان اگر اس چٹھی کو غیر صحیح ثابت کردیں تو وہی تین سو روپیہ مرزائیوں کو انعام دیں گے جو مولوی ثناء اللہ صاحب نے لودھانہ میں میر قاسم علی مرزائی سے جیتا تھا۔ مگر میرزائیوں نے اس اعلان پر دم نہیں مارا اور خاموش ہیں۔
تصدیقی دستخط!
مولوی عبداللہ امام مسجد مبارک
مولوی مولا بخش خطیب جامع مسجد پٹی بقلم خود
مولوی عبدالمجید ساکن پٹی بقلم خود
مستری محمد حسین نقشہ نویس پٹی بقلم خود
مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر (۶۷)
خط نمبر دوم
مکرم جناب شاہ صاحب!
اسلام علیکم !میں تادم تحریر تندرست اور بفضل خدا زندہ ہوں میں خدا کے فضل سے ملازمت کے وقت بھی تندرست رہا ہوں میں اس وقت بعہدہ رسال داری پنشن پر ہوں۔ گورنمنٹ کی طرف سے مجھے پانچ مربہ اراضی عطا ہوئی ہے میری جدی زمین بھی قصبہ پٹی میں میرے حصہ میں قریباً ۱۰۰ بیگھ آئی ہے اور ضلع شیخوپورہ میں بھی میری اراضی قریباً تین مربعہ ہے میری پنشن گورنمنٹ کی طرف سے ۱۳۵ روپے ماہواری ہے۔ میرے چھ لڑکے ہیں جن میں سے ایک لاہور میں پڑھتا ہے گورنمنٹ کی طرف سے اس کو پچیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا ہے دوسرا لڑکا خاص پٹی میں انٹرنس میں تعلیم پاتا ہے میں خدا کے فضل سے اہل سنت والجماعت ہوں، میں احمدی مذہب کو برا سمجھتا ہوں میں اس کا پیرو نہیں ہوں اس کا دین جھوٹا سمجھتا ہوں۔ والسلام
تابعدار سلطان محمد بیگ پنشنر از پٹی ضلع لاہور (۶۸)
------------------------------------------------------------------------------
(۴۵) حاشیہ انجام آتھم ص۲۹ و روحانی ص۲۹، ج۱۱ ملخصًا
(۴۶) ایضاً ص ۳۱، ۳۲
(۴۷) مرزا جی نے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میںاپنے میزبان کے گھرہیضہ سے دم توڑدیا تھا جبکہ مرزا سلطان محمد مرحوم نے ۱۹۴۹ (شھادۃ القران ص۸۳،ج۲ مؤلفہ مولانا میر رحمۃ اللہ علیہ)میں وفات پائی اور محترمہ محمدی بیگم صاحبہ مرحومہ نے ۱۹؍ نومبر ۱۹۶۶ء کو انتقال فرمایا، انا للہ ''الاعتصام ''جلد۱۸ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۶ء ص۳، ابو صہیب
(۴۸) تفہیمات ربانیہ ص۶۰۳
(۴۹) انجام آتھم ص۲۱۷،ج۲۱۸ و روحانی ص۲۱۷ تا ۲۱۸، ج۱۱
(۵۰) ضمیمہ انجام آتھم ص۱۳ و روحانی ص۲۹۷، ج۱۱
(۵۱) ایضاً ص۵۴ و روحانی ص۳۳۸، ج۱
(۵۲) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء نوٹ: مرزائیوں نے مرزا دجال کے اشتہارات کو دوبار شائع کیا ہے پہلی بار تو تو میر قاسم نے ' تبلیغ رسالت' کے نام سے ان کی اشاعت کی تھی اور دوسری بار مرزائی عبداللطیف بہاولپوری نے مزید اشتہارات کو تلاش کرکے، مجموعہ اشتہارات مرزا دجال کے نام سے الشرکۃ المرزائیہ ربوہ کی طرف سے اشاعت کی تھی، ان دونوں میں ایسا کوئی اشتہار نہیں ہے، ممکن ہے کہ اس اشتہار کا کوئی نسخہ مولانا معمار مرحوم کے پاس ہو، جہاں سے انہوں نے مذکورہ نقل کی ہے واللہ اعلم، ابو صہیب
(۵۳) مفہوم، احمدیہ پاکٹ بک ص۷۸۷ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۴) تفہیمات ربانیہ ص۶۰۸
(۵۵) نحو میر کے متعلم اس ہندی نما عربی کی صحت پر اعتراض نہ کریں کیونکہ مرزا دجال عجمی تھے۔ ابو صہیب
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲، ۵۷۳ ملخصًا
(۵۷) اشتہار مرزا مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۹۵ ج۲
(۵۸) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۶
(۵۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۹۳
(۶۰) نوٹ ضروری حضرت مریم u سے نکاح کی تمام کی تمام روایات ساقط الاعتبار ہیں، تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) حضرت سعد بن جنادہ t سے طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ قد زوجنا فی الجنۃ مریم بنت عمران وامراۃ فرعون واخت موسیٰ (الحدیث) اس کے سند کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا کہنا ہے '' فیہ من لم اعرفھم'' یعنی اس کی سند میں ایسے مجہول راوی شامل ہیں جنہیں میں نہیں جانتا، مجمع الزوائد ص۲۲۱، ج۹، علامہ مناوی اورمحدث البانی رحمہ اللہ نے بھی یہ علت بیان کی ہے، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ص۲۲۰، ج۲
(۲ ) دوسری روایت ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً تقریباً انہیں الفاظ میں مروی ہے جس کی سند میں مروی ہے جس کی سند میں خالد بن یوسف راوی ہے جو کہ ضعیف ہے مجمع الزوائد ص۲۲۱، ج۹
(۳) تیسری روایت ابی رواد سے مرفوعاً آئی ہے جو کہ منقطع السند ہونے کے علاوہ اس میںایک راوی (محمد بن الحسن) کذاب ہے (ایضاً ص۲۲۱، ج۹ )
(۴) چوتھی روایت حضرت ابی امامۃ سے ابو الشیخ نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے جس کی سند میںیونس بن شعیب راوی ہے جسے امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، میزان ص۴۸۱، ج۴ والضعفاء الکبیر ص۴۵۹، ج۴ علاوہ ازیں ایک راوی عبدالنور ہے جو کہ کذاب ہے، اس مؤخر الذکر روایت کو ہی مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ (ابوصہیب)
(۶۱) سرمہ چشم آریہ ص۲۴۲ و روحانی ص۲۹۲، ج۲
(۶۲) تفیہمات ربانیہ ص۵۹۰ طبعہ جدید
(۶۳) ایضاً ص۵۹۴
(۶۴) شرح صحیح مسلم لم اجدہ
(۶۵) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۴
(۶۶) تفیہمات ربانیہ ص۵۷۲
(۶۷) اخبار ' اہل حدیث' مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۴۴ء
(۶۸) ایضاً مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۳۰ء
بشکریہ: محدث فورم