سترھویں غلطی پیشگوئی
ڈپٹی عبداللہ آتھم امرتسری
۱۸۹۳ء میں امرتسر کے اندر مرزا صاحب کا عیسائیوں کے ساتھ توحید وتثلیث پر مباحثہ ہوا جو پندرہ دن ہوتا رہا (۱۶۱)۔ اس مباحثہ میں جب مرزا صاحب باوجود ادعا حامل ''آسمانی تحائف علوی عجائبات، روحانی معارف و دقائق۔'' (۱۶۲) اپنے مد مقابل پر فتح نہ پاسکے تو شرمندگی اتارنے کو آخری دن یہ پیشگوئی کی کہ:
'' آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اس کو سخت ذلت پہنچنے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، اس کی عزت ظاہر ہوگی۔'' (۱۶۳)
اس پیشگوئی کی مزید تشریح اگلے صفحہ پر مرزا صاحب کی طرف سے یوں مندرج ہے:
'' میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ (۵ ؍ جون ۱۸۹۳ء) سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے رو سیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دی جاوے ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں۔ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا، ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندر و نہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں، محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔'' (جنگ مقدس۔ تقریر مرزا صفحات آخری)
الفاظ مذکورہ بالا صاف ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم ۵؍ جون ۱۸۹۳ء سے پندرہ ماہ (۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) تک بصورت الوہیت مسیح کے نہ چھوڑنے اور سچے خدا کے نہ ماننے کے خوف ہو جائے گا۔ اگر نہ ہو تو مرزا صاحب ایسے اور ویسے، چونکہ مرزا صاحب یہ پیشگوئی کرنے میں مفتری علی اللہ تھے اس لیے یہ پوری نہ ہوئی اور ''مسٹر عبداللہ آتھم بچ گیا'' (
1(۱۶۴)
) انصاف و دیانت تو یہ تھی کہ مرزا صاحب اس پیشگوئی کے غلط نکلنے کی صورت میں اپنی مقرر کی ہوئی سزا نہ سہی کم از کم ندامت اور غلطی کا ہی اقرار کرتے مگر مرزا اور دیانت
''شَتَّانَ مَا بَیْنَھُمَا''
آپ نے نہایت ہی نا انصافی سے کام لے کر انتہائی درجہ کے بودے جوابات سے اپنی پیشگوئی کی صداقت پر اصرار کیا اور مندرجہ ذیل عذرات بیان کیے۔
عذرا اوّل:
ہمارے الہام میں فریق کا لفظ ہے کیوں صرف عبداللہ آتھم کے وجود پر محدود کیا جاتا ہے۔ (۱۶۵)
اس تاویل سے جو مقصود مرزا صاحب کا تھا اسے یوں لکھا ہے کہ '' اس عرصہ میں پادری رائٹ مر گیا جس کی موت سے ڈاکٹر مارٹن کلارک (جو اس مباحثہ میں نہ صرف عیسائیوں کا پریزیڈنٹ تھا، بلکہ ایک دن کا مباحثہ بھی اس نے کیا تھا۔ ناقل) اور اس کے دوستوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ (۱۶۶)
جواب:
(۱) مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کے سامنے اس معاملے کو بایں الفاظ صاف کردیا ہے کہ:
'' عبداللہ آتھم کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ تھی۔'' (۱۶۷)
اسی طرح ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
ابتدا سے ہمارا علم یہی تھا کہ اس پیشگوئی کا مصداق صرف آتھم ہے۔ ہماری نیت میں کبھی کوئی اور نہ تھا۔ ہاں دوسروں پر ہم نے اثر دیکھا ورنہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ جیسا عبداللہ آتھم اس پیشگوئی میں شریک ہے دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس لیے ہماری پوری اور اصل توجہ صرف آتھم کی طرف رہی اور اب تک اسی کو اصل مصداق پیشگوئی کا سمجھتے ہیں۔ (کتاب البریت ص ۲۶۰۔۱۸۹۸ء)، (۱۶۸)
معاملہ صاف ہوگیا کہ مرزا صاحب کا انوار الاسلام میں دیگر عیسائیوں کو اس پیشگوئی میں لپیٹنا محض دفع الوقتی کے لیے کذب بیانی تھی۔
(۲) اگر ایک طرف مارٹن کلاک کا دوست مر گیا تو دوسری طرف انہی دنوں میں مرزا صاحب کے مقرب اور اخص حواری مولوی نورالدین کا لڑکا بھی مر گیا۔ (۱۶۹)
'' پس عوض معاوضہ مزیت ندارد۔''
عذر دوم از مرزا صاحب:
'' آتھم کی موت کی پیشگوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیشگوئی میں ہاویہ کا لفظ ہے اور پیشگوئی کے دنوں میں عبداللہ آتھم کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا یہی اس کا ہاویہ ہے۔'' (۱۷۰)
الجواب:
اللہ اکبر۔ بھائیو! مرزا صاحب کی پیشگوئی کے الفاظ پر نظر ڈالو کہ کس قدر زور ہے اور اس کے بعد اس تحریر کو پڑھو کہ کس قدر کمزوری، عاجزی اور بے بسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آہ! پندرہ ماہ تک تو برابر انتظار تھا کہ آج مرا یا کل، مگر جب اس کو معمولی سا زکام بھی نہ ہوا اور میعاد گزری تو جھٹ سے مرزا صاحب پر حقیقت کھل گئی کہ ہماری موت والی تشریح صرف خیال تھا۔
اچھا صاحب! اگر ہاویہ کے لفظ سے الہام میں موت مراد نہ تھی تو پھر مرزا صاحب نے یہ کیسے لکھا کہ:
(الف): الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کا وعدہ تھا۔ (۱۷۱)
(ب): آتھم نے رجوع کا حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدۂ موت میں تاخیر ڈال دی۔ (۱۷۲)
(ج): نفس پیشگوئی تو اس کی موت تھی۔ (۱۷۳)
کیوں جناب! '' یہ موت کا وعدہ'' نفس پیشگوئی موت یہ کس کی طرف سے تھے؟ انصاف!
یہ تو ہوا موت والی تشریح کا ذکر! اب سنیے آتھم کے دلی رجوع اور خوف کا جواب۔
مرزا صاحب کا یہ مباحثہ اسلام و عیسائیت کی صداقت پر تھا جس کو آخری دن ان الفاظ میں ختم کیا کہ:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔''
ان سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ ہر دانا بلکہ معمولی دماغ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب تک مسٹر آتھم ''جھوٹے خدا یعنی اعتقاد الوہیت مسیح'' کو نہ چھوڑیں گے اور سچے معبود
خالق السموت والارض وما بینھما
پر ایمان نہ لائیں گے یقینا موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اسی مضمون کو مرزا صاحب نے اپنی دیگر تصانیف میں یوں ادا کیا ہے:
۱: پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ (۱۷۴)
۲: پیشگوئی میں صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الی الحق ثابت نہیں ہوگا تو صرف اس حالت میں پیشگوئی کے اندر فوت ہوں گے۔ (۱۷۵)
۳:
''وَانْ یسلمن یَسْلم والا فمیت۔''
(۱۷۶)
یعنی اگر وہ اسلام لائے گا تو بچے گا ورنہ مر جائے گا۔ اس کے مقابل مسٹر عبداللہ آتھم کے الفاظ پڑھئے۔ ڈپٹی صاحب کا بیان اخبار وفادار ۱۵ ستمبر ۹۴ء میں درج ہے کہ:
'' مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے دل میں اسلام قبول کرلیا ہے اس لیے نہیں مرا، ان کو اختیار ہے جو چاہیں کہیں اس کو خدا نے جھوٹا کیا جو تاویل کریں کون روک سکتا ہے (مرزا صاحب بھی یہی لکھتے ہیں کہ بے حیا جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے ص ۳ اعجاز احمدی۔ ناقل) میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی ہوں اب میری عمر ۶۸ سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی چاہے پیشگوئی کرسکتا ہے کہ ایک سو سال کے اندر اندر اس وقت کے جو باشندے دنیا پر میں سب مر جاویں گے۔'' (۱۷۷)
اس خط میں مسٹر آتھم نے نہ صرف کسی قسم کے رجوع سے ہی انکار کیا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اور مرزا صاحب کی آئندہ گول مول پیشگوئی پر بھی چبتا ہوا حملہ کیا ہے یعنی مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ اگرچہ آتھم میعاد میں نہیں مرا مگر مر ضرور جائے گا۔ خدا اس کو نہیں چھوڑے گا وغیرہ یہ سب ڈھکو سلے اب کام نہیں آسکتے کیونکہ میں نے آخر کو تو مرنا ہے۔
بہرحال مسٹر آتھم رجوع سے انکاری ہے اس خط پر کیا موقوف ہے خود مرزا صاحب نے آتھم کے انکاری بیانات کو اپنے اشتہارات انعامی تین ہزار ص ۱۳ وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ پس ان ظاہری اور صاف بینات سے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ دل سے ڈر گیا تھا سوائے ڈھٹائی کے اور کچھ نہیں۔ ماسوا اس کے بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ آتھم دل میں مسلمان تھا تو کبھی یہ ایمان اس کو پیشگوئی کے عذاب سے بچا نہیں سکتا کیونکہ اگر مرزا صاحب کے الہامات سچے ہیں تو ان سے ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی ہونے سے پیشتر بھی آتھم دل میں عیسائیت کا منکر تھا اور جان بوجھ کر صداقت کو چھپاتا تھا۔
چنانچہ مرزا صاحب کے الہام میں مسٹر آتھم کے متعلق یہ الفاظ ہیں:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے۔'' (۱۷۸)
صاف واضح ہے کہ آتھم پہلے بھی اسلامی صداقت کا قائل تھا اور عمداً جھوٹ پر جما بیٹھا تھا ، احمدی دوستو! کیا کہتے ہو؟
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
مرزا صاحب کی ایک عجیب چالاکی:
جب مرزا صاحب نے دیکھا کہ آتھم علی الاعلان میری تکذیب پر کمر بستہ ہے تو یہ چال چلی کہ اگر آتھم دل میں ہماری پیش گوئی سے نہیں ڈرا تو قسم کھائے۔ ہم اس کو ایک ہزار دو ہزار، بلکہ چار ہزار تک انعام دینے کو تیار ہیں۔ (۱۷۹)
اس میں ایک بڑا راز مخفی تھا وہ یہ کہ مرزا صاحب جانتے تھے کہ عیسائیوں کے مذہب میں قسم کھانی شرعاً ممنوع ہے۔ جیسا کہ مرزا صاحب کشتی نوح میں پر لکھتے ہیں:
'' (اے مسلمانو!) قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھاؤ۔'' (۱۸۰)
اس لیے مرزا صاحب نے قسم کا مطالبہ کیا مراد یہ تھی اگر وہ قسم کھا گیا تو ہم کہہ دیں گے دیکھ لو ہماری بات سچی نکلی۔ آتھم عیسائیت سے دست بردار ہوچکا۔ اس کے مذہب میں قسم ممنوع ہے مگر اس نے اٹھا لی ہے۔
اگر اس نے قسم نہ کھائی جیسا کہ یقین ہے کہ وہ خلاف مذہب ہرگز نہ کھائے گا تو بھی ''پوں بارہ''؟ میں ہم خوب شور مچائیں گے۔ آسمان سر پر اٹھائیں گے کہ دیکھ لو، وہ جھوٹا ہے تبھی تو قسم نہیں کھاتا۔
دوسری چالاکی:
اس قسم کے معاملہ میں مرزا صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ صرف قسم کھانے پر ہی روپیہ ادا کرکے اپنی کذب گوئی کا اقرار کرنے کو تیار نہیں تھے بلکہ ساتھ ہی یہ پچ لگا رہے تھے:
''اگر عبداللہ آتھم قسم کھا لے پھر اگر ایک سال تک فوت نہ ہو تو جو مولوی لوگ ہمارا نام رکھیں سب سچ ہوگا۔'' (۱۸۱)
بھائیو! یہ ہے اصلی راز قسم دینے کا۔ مطلب یہ کہ کسی طرح ایک سال اور مہلت مل جائے اور موجودہ ذلت اور رسوائی کا سیاہ داغ مٹانے کا بہانہ پیدا ہو جائے۔ رہا سال کے بعد کا معاملہ۔ سو کون جئے کون مرے۔ ممکن ہے قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے اور آتھم مر جائے۔ یہ بھی نہ ہوا تو سال بھر میں سو تجویزیں، بیسیوں چالیں چلی جاسکتی ہیں۔
ادھر آتھم بھی ایک جہاں دیدہ سرد گرم چشیدہ تھا وہ بھلا ان چالوں میں کب آنے والا تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ:
'' قریب ستر برس کے تو میری عمر ہے۔ اب آئندہ سال بڑھانا کیا معنی، کیا جناب کے خونی فرشتوں کو پہلے موقع میرے مارنے کا نہیں ملا، ایک سال اور طلب ہوتی ہے۔'' (۱۸۲) اس چال میں بھی مرزا صاحب کو ناکامی ہوئی۔
عذر:
آتھم کے دل میں ڈر جانے کا یہ ثبوت ہے کہ اس نے پیشگوئی سننے کے بعد اسلام کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا۔ یہی اس کا رجوع ہے۔ (۱۸۳)
الجواب:
آتھم پہلے کب ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھا کرتا تھا۔ مرزا صاحب کی شہادت موجود ہے کہ:
'' مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج ہیں۔'' (۱۸۴)
علاوہ اس کے یہ بھی جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے بعد اسلام کے خلاف ''ایک سطر'' نہیں لکھی۔ اس مباحثہ کے بعد مسٹر آتھم نے ''خلاصہ مباحثہ'' شائع کیا جس میں برابر اس نے اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف حسبِ اعتقاد خود اعتراض کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ص۳،۴ بلکہ صفحاتِ آخر میں تو اس نے کھلم کھلا مرزا صاحب کو ''دہریہ اور ممتحن ایمان'' یعنی ''جھوٹا نبی'' لکھا ہے۔ (۱۸۵)
عذر:
آتھم نے عین جلسہ مباحثہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت لفظ کہنے سے رجوع کیا تھا۔ پس یہ بھی اس کا رجوع تھا۔ (۱۸۶)
الجواب:
اگر اس نے اسی دن رجوع کرلیا تھا تو پھر پندرہ ماہ والی پیشگوئی کیوں بحال رکھی گئی۔ کیوں نہ کہہ دیا کہ بس تم نے رجوع کرلیا ہے اب پیشگوئی منسوخ ہے۔ کیوں پندرہ ماہ تک انتظار کیا اور میعاد گزرنے کے بعد طرح طرح کے حیلے بہانوں سے جوا وپر مذکور ہوچکے ہیں ''جان چھڑانے'' کی ناکام سعی کی۔ پھر یہ بھی غلط ہے کہ اس نے سخت لفظ سے رجوع کیا تھا۔ رجوع نہیں انکار کیا تھا۔ یعنی اس نے بقول مرزا صاحب یہ کہا تھا کہ:
'' میں نے آنجناب کی شان میں ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔'' (۱۸۷)
افسوس مرزا صاحب سلطان المتکلمین اور رئیس المناظرین تو کہلاتے ہیں مگر انہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ رجوع اور انکار میں کیا فرق ہے؟
بالآخر ہم اس پیشگوئی کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ:
'' میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر وہ فریق پندرہ ماہ میں نہ مرے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کو تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔'' (۱۸۸)
احمدی بھائیو! کلمات بالا تمہارے نبی درسول کے '' پاک دہن'' سے نکلے ہوئے ہیں ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ اتقو اللّٰہ!
------------------------------------------------------------------
(۱۶۱) تفصیل کے لیے دیکھئے، اشاعۃ السنۃ ص۱۶ (ابو صھیب)
(۱۶۲) فتح الاسلام ص۶ و روحانی ص۶ ، ج۳
(۱۶۳) جنگ مقدس ص۲۱۰ و روحانی ص۲۹۲،ج۶ وتذکرہ ص۲۳۶
(۱۶۴) انوار الاسلام ص۲ و روحانی ص۲،ج۹
(۱۶۵) ایضاً ص۲۰ و روحانی ص۲۲، ج۹
(۱۶۶) ایضاً ص۸
(۱۶۷) کتاب البریہ ص۲۶۱ و روحانی ص۲۷۹،ج۱۳ مفہوماً
(۱۶۸) کتاب البریہ ص۲۶۰ و روحانی ص۲۹۹، ج۱۳
(۱۶۹) انوار الاسلام ص۲۷ و روحانی جلد ۹ صفحہ ایضاً
(۱۷۰) مفہوم ، انوار الاسلام ص۲، ۵
(۱۷۱) انوار الاسلام ص۴ و روحانی ص۵،ج۹
(۱۷۲) ایضاً ص۲
(۱۷۳) حقیقت الوحی ص۱۸۶ و روحانی ص۱۹۴، ج۲۲
(۱۷۴) کشتی نوح ص۶ و روحانی جلد ۱۹ صفحہ ایضاً
(۱۷۵) انجام آتھم ص۱۳ و روحانی ص۱۳، ج۱۱
(۱۷۶) کرامات الصادقین ص۴۰ و روحانی ص۸۲، ج۷
(۱۷۷) اشاعۃ السنۃ ص۱۱۲ تا ۱۱۳، ج۱۶ و کلمہ فضل رحمانی ص۱۴ طبعہ ۱۳۱۴ھ
(۱۷۸) دیکھئے باب ھذا کا نمبر ۱۶۳
(۱۷۹) دیکھئے، اشتہار مرزا ، مورخہ ۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۳،ج۲ و اشتہار مرزا، مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۵۶، ج۲ واشتہار مرزا مورخہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۶۴،ج۲
(۱۸۰) کشتی نوح ص۲۷ و روحانی ص۲۹، ج۱۹
(۱۸۱) انوار الاسلام ص۲۴ و روحانی ص۲۵، ج۹
(۱۸۲) مکتوب آتھم مورخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ اشاعۃ السنۃ ص۱۲۲تا ۱۱۴ ، ج۱۶ بنام اڈیٹر اخبار وفادار۔
(۱۸۳) انوار الاسلام ص۱۵ و روحانی ص۱۶، ج۹
(۱۸۴) سرمہ چشم آریہ ص۲۶۰ و روحانی ص۳۱۰، ج۲
(۱۸۵) لم اجدہ
(۱۸۶) تفیہمات ربانیہ ص۵۷۹ طبعہ جدید
(۱۸۷) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹، ج۱۹ نیز نزول المسیح ص۱۶۶ و روحانی ص۵۴۴، ج۱۸
(۱۸۸) جنگ مقدس ص۲۱۱ و روحانی ص۲۹۳، ج۶