• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
چودھویں غلط پیشگوئی

''اِنَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ نُرِیْدُ عُمْرُک۔''
ہم تجھے بعض وہ امور دکھلا دیں گے جو مخالفوں کی نسبت ہمارا وعدہ اور تیری عمر زیادہ کریں گے۔ (۱۴۵)
اس '' الہام'' میں مرزا صاحب سے ''خدا'' کا وعدہ ہے کہ تیری عمر زیادہ کروں گا۔ اور ہم ثابت کر آئے ہیں کہ مرزا صاحب نے مقررہ موعودہ عمر ہی نہیں پائی۔ زیادہ کے کیا معنی۔ پس یہ بھی خدا پر افترا ہے۔
--------------------------
(۱۴۵) بدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء والحکم جلد ۱۰ نمبر۳۷ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۶۷۹ والبشرٰی ص۱۲۰، ج۲

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
پندرھویں غلط پیشگوئی

مرزا صاحب ڈاکٹر عبدالحکیم کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس نے میری موت کی پیشگوئی کی ہے اُس کے بالمقابل اپنی پیشگوئی لکھ کر فرمایا کہ پھر آخر میں خدا نے اردو میں فرمایا:
'' میں تیری عمر کو بھی بڑھا دوں گا یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۷ سے چودہ مہینے تک (یعنی ستمبر ۱۹۰۸ء تک) تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں، یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں میں ان سب کو جھوٹا کروں گا اور تیری عمر بڑھا دوں گا تاکہ (انہیں) معلوم ہو کہ میں خدا ہوں ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے۔'' (۱۴۶)
اس الہام کے اندر کئی وعدے ہیں ایک عبدالحکیم پر مرزا کا غلبہ بروئے پیشگوئی یعنی اس کی پیشگوئی جھوٹی ہوگی اور مرزا کی سچی۔ دوسرا مرزا صاحب کی عمر زیادہ ہونے کا چنانچہ لفظ ''تیری عمر کو بڑھا دوں گا'' اس پر دال ہیں تیسرا وعدہ دیگر مخالفین کو اس حیثیت میں جھوٹا کرنے کا کہ وہ تیری موت کی پیشگوئیاں کرتے ہیں میں ان کی پیشگوئیوں کو جھوٹا کرنے کے لیے ''تیری عمر بڑھا دوں گا'' حالانکہ مرزا صاحب ڈاکٹر عبدالحکیم کے بالمقابل پیشگوئیوں میں بھی کاذب ثابت ہوئے۔ اور عمر بھی نہ بڑھی، اسی طرح دیگر مخالفین کے مقابلے میں بھی مرزا صاحب جھوٹے نکلے، کیونکہ ان کا کذب مرزا کی عمر بڑھنے سے ثابت ہونا تھا اور عمر بڑھی نہیں۔
اعتراض:
مرزائی مناظر جواب دیا کرتے ہیں کہ عمر بڑھانے کا وعدہ صرف عبدالحکیم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے تھا اور اس کا جھوٹا ہونا اس طرح ظاہر ہے کہ مرزا صاحب اس کی بتائی ہوئی تاریخ کو نہیں مرے۔ (۱۴۷)
الجواب:
قطع نظر اس بات کے کہ مرزا صاحب عبدالحکیم کی پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے یا نہ، بات یہ ہے کہ مرزا صاحب کے الہام میں دو باتیں تھیں (۱) پیشگوئیوں میں فتح (۲) زیادتی عمر پس پیشگوئی میں ''غلبہ'' ہونے سے دوسری خبر سچی نہیں ہوسکتی جب تک کہ مرزا صاحب کی عمر نہ بڑھے۔ فَتَدَبَّرْ ۔
یہ تو ہوا عبدالحکیم کے متعلق حصہ کا جواب، باقی رہا دیگر مخالفین کے جھوٹا کرنے کو عمر کا بڑھنا۔ سو اس کا جواب مرزائیوں کے ذمہ ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
(۱۴۶) اشتہار مرزا، مورخہ ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۹۱،ج۳ و بدر جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء ص۵ وتذکرہ ص۷۴۸
(۱۴۷) مفہوماً ، احمدیہ پاکٹ بک ص۸۱۶ و ۸۲۰

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
سولھویں غلط پیشگوئی

وہی عمرِ مرزا
مرزا صاحب نے
ایک فارسی قصیدہ سے اپنی سچائی ثابت کرنے کو ایک شعر:
تاچہل سال اے برادرِ من
دورآں شہسوار می بینم
کی شرح یہ کی کہ:

'' یعنی اس روز سے جو وہ امام ملہم ہو کر اپنے تئیں ظاہر کرے گا چالیس برس تک زندگی کرے گا۔ اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لیے بالہام خاص مامور کیا گیا اور بشارت دی گئی کہ اسی برس یا اس کے قریب تیری عمر ہے۔ سو اس الہام سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے جن میں سے دس برس کامل گزر بھی گئے۔'' (۱۴۸)
معلوم ہوا کہ اس شعر کی رو سے جسے مرزا صاحب نے شاہ نعمت اللہ ولی کا ظاہر کیا ہے مرزا صاحب کو بعد سن بعثت کے چالیس سال تک ضرور ہی جینا چاہیے تھا کیونکہ یہ ایک ''ولی اللہ کی پیشگوئی'' ہے۔ جس کی تصدیق ایک ''نبی اللہ'' کر رہا ہے۔ اور اسے اپنی صداقت پر دلیل گردان رہا ہے اس تحریر سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرزا صاحب ان سطور کے لکھتے وقت تک دس سال گزار چکے تھے اور تیس سال باقی تھے۔ بہت خوب یہ تحریر ماہ جون ۱۸۹۲ء کی ہے جیسا کہ اس رسالہ کے سرورق ٹائٹل پیج کے صفحہ اندرونی پر تاریخ ثبت ہے۔ اب ۱۸۹۲ء میں ۳۰ جمع کریں۔ تو ۱۹۲۲ء بنتے ہیں یعنی مرزا صاحب کو حسب پیشگوئی، '' شاہ نعمت اللہ ولی'' ۱۹۲۲ء تک زندہ رہنا چاہیے تھا۔ حالانکہ آپ ۱۹۰۸ء میں مر گئے۔ (۱۴۹)
نتیجہ صاف ہے کہ نہ تو یہ قصیدہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کا ہے اور نہ ہی مرزا صاحب حسب قول و تشریح خود صادق مسیح موعود ہیں۔ آہ :
رسول قادیانی کی رسالت
بطالت ہے جہالت ہے ضلالت
ضمیمہ عمر مرزا
مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ:
'' میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے اخیری وقت میں ہوئی ہے۔'' (۱۵۰)
نوٹ: مرزا صاحب ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو فوت ہوئے تھے۔ لہٰذا آپ کی عمر ۶۹ سال شمسی اور ۷۲ سال قمری ہوئی۔
مزید فرماتے ہیں کہ:
'' اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس یا سترھویں برس میں تھا۔' ' (۱۵۱)
اس حساب سے مرزا صاحب کی عمر ۶۹ سال (شمسی) بنتی ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:
'' میری عمر قریباً چونتیس پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔'' (۱۵۲)
نوٹ: حکیم غلام مرتضیٰ صاحب ۱۸۷۴ء میں فوت ہوئے تھے۔ (۱۵۳) اس وقت مرزا صاحب ۳۵ برس کے تھے پس کل عمر ۶۹ سال ہوئی۔
کتاب سیرۃ المہدی میں:
'' حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیدا ہوا اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی۔'' (۱۵۴)
نوٹ: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب ۱۹۱۳ء بکرمی یعنی ۱۸۵۶ء میں پیدا ہوئے تھے (۱۵۵)۔ پس اس حساب سے بھی مرزا صاحب کی عمر ۱۹۰۸ء میں ۶۸ یا ۶۹ سال بنتی ہے۔
حکیم نور الدین صاحب بھیروی اپنی کتاب نور الدین میں لکھتے ہیں:
'' سن پیدائش حضرت صاحب مسیح موعود و مہدی مسعود ۱۸۳۹ء۔'' (۱۵۶)
اخبار پیغام صلح مؤرخہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۲۳ء میں ہے:
'' اس فرقہ (احمدیہ) کے بانی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہیں۔ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور پنجاب میں ایک گاؤں ہے آپ ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوئے۔'' (۱۵۷)
کتاب '' منظور الٰہی'' ص ۲۴۱ پر لکھا ہے:
۱۶؍ مئی ۱۹۰۱ء حضرت مسیح موعود کا بیان جو آپ نے عدالت گورداسپور میں بطور گواہ مدعا علیہ مرزا نظام الدین کے مقدمہ بند کرنے راستہ شارع عام جو مسجد کو جاتا تھا حسب ذیل دیا:
'' اللہ تعالیٰ حاضر ہے میں سچ کہوں گا میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہے۔'' (۱۵۸)
مئی ۱۹۰۱ء میں مرزا صاحب کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی۔ پس مئی ۱۹۰۸ء میں آپ کی عمر ۶۷۔ ۶۸ سال ہوئی۔
نوٹ: ان تحریروں سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب قادیانی ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔ مگر مرزا صاحب اپنی کتاب ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۹۷ پر یوں رقم طراز ہیں:
'' اور جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدے کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔'' (۱۵۹)
ناظرین! نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب قادیانی کی عمر ۷۴ سال سے کم ہوئی ہے۔ لہٰذا مرزا صاحب کاذب ٹھہرے۔
مرزا غلام احمد نے اپنی کتاب چشمہ معرفت کے صفحہ ۲۲۲ پر لکھا ہے:
'' جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔'' (۱۶۰)
----------------------------------------------------------------
(۱۴۸) نشان آسمانی ص۱۴ و روحانی ص۳۷۴ ، ج۴
نوٹ: یہ اشعار مرزا نے ، الاربعین فی احوال المھدیین ، سے نقل کیے تھے جو انہوں نے مولانا محمد جعفر تھانیسری رحمہ اللہ سے لی تھی۔ مزید تفصیل کے لیے اور ان اشعار کی حقیقت کے لیے دیکھئے، تائید آسمانی، مؤلفہ مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری ، طبہ مکتبہ سلفیہ ، (ابو صہیب)
(۱۴۹) تاریخ احمدیت ص ۵۵۵، ج۳
(۱۵۰) کتاب البریہ ص۱۵۹ و روحانی ص۱۷۷، ج۱۳ و مرزا غلام احمد قادیانی ص۶،ج۱ و حیات النبی ص۴۹،ج۱نمبر۱ و بدر جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخہ ۸؍ اگست ۱۹۰۴ء ص۵ و ریویو آف ریلجنز جلد ۵ نمبر۶ مورخہ جون ۱۹۰۶، ص۲۱۹
(۱۵۱) ایضاً
(۱۵۲) کتاب البریہ ص۱۷۴ و روحانی ص۱۹۲،ج۱۳ وحیاۃ النبی ص۴۳، نمبر۱ و مرزا غلام احمد قادیانی ص۱۱، ج۱
(۱۵۳) دیکھئے نزول المسیح ص۱۱۷ و روحانی ص۴۹۵،ج۱۸۔ نوٹ: نزول المسیح میں مرزا نے لکھا ہے۔ آج جو دس اگست ۱۹۰۲ء ہے مرزا قادیانی دجال کے ہلاک کو اٹھائیس برس ہوچکے ہیں (انتھی) اس عبارت سے مولانا معمار مرحوم کا استدلال ہے کہ مرزا کے والد نے ۱۸۷۴ء میں وفات پائی جو کہ بجا ہے لیکن قادیانی مؤرخین کے مطابق مرزا غلام مرتضیٰ کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی، تاریخ احمدیت ص۱۹۳،ج۱ ، مجدد اعظم ص۶۴،ج۱ و سیرت المھدی ص۱۵۰،ج۲ و سلسلہ احمدیہ ص۱۷، اس حساب سے مرزا کی کل عمر ۶۷ سال بنتی ہے۔ ابو صہیب
(۱۵۴) سیرۃ المھدی ص۲۵۶،ج۱ والحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۱ء و ملفوظات مرزا ص۵۶۲،ج۱
(۱۵۵) سیرۃ المھدی ۱۹۶، ص۱۹۷،ج۱ طبعہ اول
(۱۵۶) نور الدین بحواب ترک اسلام ص۱۷۰ و بمعنٰی ، حقائق الفرقان ص۳۵،ج۳
(۱۵۷) اخبار، پیغام صلح مورخہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۲۳
(۱۵۸) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ صفحہ ۷ مورخہ ۳۱جولائی ۱۹۰۱ء و منظور الٰہی ص۲۴۱
(۱۵۹) روحانی خزائن ص۲۵۹،ج۲۱
(۱۶۰) ایضاً ص۲۳۱،ج۲۳

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
سترھویں غلطی پیشگوئی

ڈپٹی عبداللہ آتھم امرتسری
۱۸۹۳ء میں امرتسر کے اندر مرزا صاحب کا عیسائیوں کے ساتھ توحید وتثلیث پر مباحثہ ہوا جو پندرہ دن ہوتا رہا (۱۶۱)۔ اس مباحثہ میں جب مرزا صاحب باوجود ادعا حامل ''آسمانی تحائف علوی عجائبات، روحانی معارف و دقائق۔'' (۱۶۲) اپنے مد مقابل پر فتح نہ پاسکے تو شرمندگی اتارنے کو آخری دن یہ پیشگوئی کی کہ:
'' آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اس کو سخت ذلت پہنچنے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، اس کی عزت ظاہر ہوگی۔'' (۱۶۳)

اس پیشگوئی کی مزید تشریح اگلے صفحہ پر مرزا صاحب کی طرف سے یوں مندرج ہے:
'' میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ (۵ ؍ جون ۱۸۹۳ء) سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے رو سیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دی جاوے ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں۔ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا، ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندر و نہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں، محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔'' (جنگ مقدس۔ تقریر مرزا صفحات آخری)
الفاظ مذکورہ بالا صاف ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم ۵؍ جون ۱۸۹۳ء سے پندرہ ماہ (۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) تک بصورت الوہیت مسیح کے نہ چھوڑنے اور سچے خدا کے نہ ماننے کے خوف ہو جائے گا۔ اگر نہ ہو تو مرزا صاحب ایسے اور ویسے، چونکہ مرزا صاحب یہ پیشگوئی کرنے میں مفتری علی اللہ تھے اس لیے یہ پوری نہ ہوئی اور ''مسٹر عبداللہ آتھم بچ گیا'' ( 1(۱۶۴) ) انصاف و دیانت تو یہ تھی کہ مرزا صاحب اس پیشگوئی کے غلط نکلنے کی صورت میں اپنی مقرر کی ہوئی سزا نہ سہی کم از کم ندامت اور غلطی کا ہی اقرار کرتے مگر مرزا اور دیانت ''شَتَّانَ مَا بَیْنَھُمَا'' آپ نے نہایت ہی نا انصافی سے کام لے کر انتہائی درجہ کے بودے جوابات سے اپنی پیشگوئی کی صداقت پر اصرار کیا اور مندرجہ ذیل عذرات بیان کیے۔

عذرا اوّل:
ہمارے الہام میں فریق کا لفظ ہے کیوں صرف عبداللہ آتھم کے وجود پر محدود کیا جاتا ہے۔ (۱۶۵)
اس تاویل سے جو مقصود مرزا صاحب کا تھا اسے یوں لکھا ہے کہ '' اس عرصہ میں پادری رائٹ مر گیا جس کی موت سے ڈاکٹر مارٹن کلارک (جو اس مباحثہ میں نہ صرف عیسائیوں کا پریزیڈنٹ تھا، بلکہ ایک دن کا مباحثہ بھی اس نے کیا تھا۔ ناقل) اور اس کے دوستوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ (۱۶۶)

جواب:
(۱) مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کے سامنے اس معاملے کو بایں الفاظ صاف کردیا ہے کہ:
'' عبداللہ آتھم کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ تھی۔'' (۱۶۷)
اسی طرح ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
ابتدا سے ہمارا علم یہی تھا کہ اس پیشگوئی کا مصداق صرف آتھم ہے۔ ہماری نیت میں کبھی کوئی اور نہ تھا۔ ہاں دوسروں پر ہم نے اثر دیکھا ورنہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ جیسا عبداللہ آتھم اس پیشگوئی میں شریک ہے دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس لیے ہماری پوری اور اصل توجہ صرف آتھم کی طرف رہی اور اب تک اسی کو اصل مصداق پیشگوئی کا سمجھتے ہیں۔ (کتاب البریت ص ۲۶۰۔۱۸۹۸ء)، (۱۶۸)
معاملہ صاف ہوگیا کہ مرزا صاحب کا انوار الاسلام میں دیگر عیسائیوں کو اس پیشگوئی میں لپیٹنا محض دفع الوقتی کے لیے کذب بیانی تھی۔
(۲) اگر ایک طرف مارٹن کلاک کا دوست مر گیا تو دوسری طرف انہی دنوں میں مرزا صاحب کے مقرب اور اخص حواری مولوی نورالدین کا لڑکا بھی مر گیا۔ (۱۶۹)
'' پس عوض معاوضہ مزیت ندارد۔''

عذر دوم از مرزا صاحب:
'' آتھم کی موت کی پیشگوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیشگوئی میں ہاویہ کا لفظ ہے اور پیشگوئی کے دنوں میں عبداللہ آتھم کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا یہی اس کا ہاویہ ہے۔'' (۱۷۰)
الجواب:
اللہ اکبر۔ بھائیو! مرزا صاحب کی پیشگوئی کے الفاظ پر نظر ڈالو کہ کس قدر زور ہے اور اس کے بعد اس تحریر کو پڑھو کہ کس قدر کمزوری، عاجزی اور بے بسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آہ! پندرہ ماہ تک تو برابر انتظار تھا کہ آج مرا یا کل، مگر جب اس کو معمولی سا زکام بھی نہ ہوا اور میعاد گزری تو جھٹ سے مرزا صاحب پر حقیقت کھل گئی کہ ہماری موت والی تشریح صرف خیال تھا۔
اچھا صاحب! اگر ہاویہ کے لفظ سے الہام میں موت مراد نہ تھی تو پھر مرزا صاحب نے یہ کیسے لکھا کہ:
(الف): الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کا وعدہ تھا۔ (۱۷۱)
(ب): آتھم نے رجوع کا حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدۂ موت میں تاخیر ڈال دی۔ (۱۷۲)
(ج): نفس پیشگوئی تو اس کی موت تھی۔ (۱۷۳)
کیوں جناب! '' یہ موت کا وعدہ'' نفس پیشگوئی موت یہ کس کی طرف سے تھے؟ انصاف!
یہ تو ہوا موت والی تشریح کا ذکر! اب سنیے آتھم کے دلی رجوع اور خوف کا جواب۔
مرزا صاحب کا یہ مباحثہ اسلام و عیسائیت کی صداقت پر تھا جس کو آخری دن ان الفاظ میں ختم کیا کہ:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔''
ان سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ ہر دانا بلکہ معمولی دماغ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب تک مسٹر آتھم ''جھوٹے خدا یعنی اعتقاد الوہیت مسیح'' کو نہ چھوڑیں گے اور سچے معبود خالق السموت والارض وما بینھما پر ایمان نہ لائیں گے یقینا موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اسی مضمون کو مرزا صاحب نے اپنی دیگر تصانیف میں یوں ادا کیا ہے:
۱: پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ (۱۷۴)
۲: پیشگوئی میں صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الی الحق ثابت نہیں ہوگا تو صرف اس حالت میں پیشگوئی کے اندر فوت ہوں گے۔ (۱۷۵)
۳: ''وَانْ یسلمن یَسْلم والا فمیت۔'' (۱۷۶)
یعنی اگر وہ اسلام لائے گا تو بچے گا ورنہ مر جائے گا۔ اس کے مقابل مسٹر عبداللہ آتھم کے الفاظ پڑھئے۔ ڈپٹی صاحب کا بیان اخبار وفادار ۱۵ ستمبر ۹۴ء میں درج ہے کہ:
'' مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے دل میں اسلام قبول کرلیا ہے اس لیے نہیں مرا، ان کو اختیار ہے جو چاہیں کہیں اس کو خدا نے جھوٹا کیا جو تاویل کریں کون روک سکتا ہے (مرزا صاحب بھی یہی لکھتے ہیں کہ بے حیا جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے ص ۳ اعجاز احمدی۔ ناقل) میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی ہوں اب میری عمر ۶۸ سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی چاہے پیشگوئی کرسکتا ہے کہ ایک سو سال کے اندر اندر اس وقت کے جو باشندے دنیا پر میں سب مر جاویں گے۔'' (۱۷۷)
اس خط میں مسٹر آتھم نے نہ صرف کسی قسم کے رجوع سے ہی انکار کیا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اور مرزا صاحب کی آئندہ گول مول پیشگوئی پر بھی چبتا ہوا حملہ کیا ہے یعنی مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ اگرچہ آتھم میعاد میں نہیں مرا مگر مر ضرور جائے گا۔ خدا اس کو نہیں چھوڑے گا وغیرہ یہ سب ڈھکو سلے اب کام نہیں آسکتے کیونکہ میں نے آخر کو تو مرنا ہے۔
بہرحال مسٹر آتھم رجوع سے انکاری ہے اس خط پر کیا موقوف ہے خود مرزا صاحب نے آتھم کے انکاری بیانات کو اپنے اشتہارات انعامی تین ہزار ص ۱۳ وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ پس ان ظاہری اور صاف بینات سے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ دل سے ڈر گیا تھا سوائے ڈھٹائی کے اور کچھ نہیں۔ ماسوا اس کے بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ آتھم دل میں مسلمان تھا تو کبھی یہ ایمان اس کو پیشگوئی کے عذاب سے بچا نہیں سکتا کیونکہ اگر مرزا صاحب کے الہامات سچے ہیں تو ان سے ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی ہونے سے پیشتر بھی آتھم دل میں عیسائیت کا منکر تھا اور جان بوجھ کر صداقت کو چھپاتا تھا۔

چنانچہ مرزا صاحب کے الہام میں مسٹر آتھم کے متعلق یہ الفاظ ہیں:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے۔'' (۱۷۸)
صاف واضح ہے کہ آتھم پہلے بھی اسلامی صداقت کا قائل تھا اور عمداً جھوٹ پر جما بیٹھا تھا ، احمدی دوستو! کیا کہتے ہو؟
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

مرزا صاحب کی ایک عجیب چالاکی:
جب مرزا صاحب نے دیکھا کہ آتھم علی الاعلان میری تکذیب پر کمر بستہ ہے تو یہ چال چلی کہ اگر آتھم دل میں ہماری پیش گوئی سے نہیں ڈرا تو قسم کھائے۔ ہم اس کو ایک ہزار دو ہزار، بلکہ چار ہزار تک انعام دینے کو تیار ہیں۔ (۱۷۹)
اس میں ایک بڑا راز مخفی تھا وہ یہ کہ مرزا صاحب جانتے تھے کہ عیسائیوں کے مذہب میں قسم کھانی شرعاً ممنوع ہے۔ جیسا کہ مرزا صاحب کشتی نوح میں پر لکھتے ہیں:
'' (اے مسلمانو!) قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھاؤ۔'' (۱۸۰)
اس لیے مرزا صاحب نے قسم کا مطالبہ کیا مراد یہ تھی اگر وہ قسم کھا گیا تو ہم کہہ دیں گے دیکھ لو ہماری بات سچی نکلی۔ آتھم عیسائیت سے دست بردار ہوچکا۔ اس کے مذہب میں قسم ممنوع ہے مگر اس نے اٹھا لی ہے۔
اگر اس نے قسم نہ کھائی جیسا کہ یقین ہے کہ وہ خلاف مذہب ہرگز نہ کھائے گا تو بھی ''پوں بارہ''؟ میں ہم خوب شور مچائیں گے۔ آسمان سر پر اٹھائیں گے کہ دیکھ لو، وہ جھوٹا ہے تبھی تو قسم نہیں کھاتا۔

دوسری چالاکی:
اس قسم کے معاملہ میں مرزا صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ صرف قسم کھانے پر ہی روپیہ ادا کرکے اپنی کذب گوئی کا اقرار کرنے کو تیار نہیں تھے بلکہ ساتھ ہی یہ پچ لگا رہے تھے:
''اگر عبداللہ آتھم قسم کھا لے پھر اگر ایک سال تک فوت نہ ہو تو جو مولوی لوگ ہمارا نام رکھیں سب سچ ہوگا۔'' (۱۸۱)
بھائیو! یہ ہے اصلی راز قسم دینے کا۔ مطلب یہ کہ کسی طرح ایک سال اور مہلت مل جائے اور موجودہ ذلت اور رسوائی کا سیاہ داغ مٹانے کا بہانہ پیدا ہو جائے۔ رہا سال کے بعد کا معاملہ۔ سو کون جئے کون مرے۔ ممکن ہے قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے اور آتھم مر جائے۔ یہ بھی نہ ہوا تو سال بھر میں سو تجویزیں، بیسیوں چالیں چلی جاسکتی ہیں۔
ادھر آتھم بھی ایک جہاں دیدہ سرد گرم چشیدہ تھا وہ بھلا ان چالوں میں کب آنے والا تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ:
'' قریب ستر برس کے تو میری عمر ہے۔ اب آئندہ سال بڑھانا کیا معنی، کیا جناب کے خونی فرشتوں کو پہلے موقع میرے مارنے کا نہیں ملا، ایک سال اور طلب ہوتی ہے۔'' (۱۸۲) اس چال میں بھی مرزا صاحب کو ناکامی ہوئی۔

عذر:
آتھم کے دل میں ڈر جانے کا یہ ثبوت ہے کہ اس نے پیشگوئی سننے کے بعد اسلام کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا۔ یہی اس کا رجوع ہے۔ (۱۸۳)
الجواب:
آتھم پہلے کب ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھا کرتا تھا۔ مرزا صاحب کی شہادت موجود ہے کہ:
'' مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج ہیں۔'' (۱۸۴)
علاوہ اس کے یہ بھی جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے بعد اسلام کے خلاف ''ایک سطر'' نہیں لکھی۔ اس مباحثہ کے بعد مسٹر آتھم نے ''خلاصہ مباحثہ'' شائع کیا جس میں برابر اس نے اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف حسبِ اعتقاد خود اعتراض کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ص۳،۴ بلکہ صفحاتِ آخر میں تو اس نے کھلم کھلا مرزا صاحب کو ''دہریہ اور ممتحن ایمان'' یعنی ''جھوٹا نبی'' لکھا ہے۔ (۱۸۵)

عذر:
آتھم نے عین جلسہ مباحثہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت لفظ کہنے سے رجوع کیا تھا۔ پس یہ بھی اس کا رجوع تھا۔ (۱۸۶)
الجواب:
اگر اس نے اسی دن رجوع کرلیا تھا تو پھر پندرہ ماہ والی پیشگوئی کیوں بحال رکھی گئی۔ کیوں نہ کہہ دیا کہ بس تم نے رجوع کرلیا ہے اب پیشگوئی منسوخ ہے۔ کیوں پندرہ ماہ تک انتظار کیا اور میعاد گزرنے کے بعد طرح طرح کے حیلے بہانوں سے جوا وپر مذکور ہوچکے ہیں ''جان چھڑانے'' کی ناکام سعی کی۔ پھر یہ بھی غلط ہے کہ اس نے سخت لفظ سے رجوع کیا تھا۔ رجوع نہیں انکار کیا تھا۔ یعنی اس نے بقول مرزا صاحب یہ کہا تھا کہ:
'' میں نے آنجناب کی شان میں ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔'' (۱۸۷)
افسوس مرزا صاحب سلطان المتکلمین اور رئیس المناظرین تو کہلاتے ہیں مگر انہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ رجوع اور انکار میں کیا فرق ہے؟

بالآخر ہم اس پیشگوئی کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ:
'' میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر وہ فریق پندرہ ماہ میں نہ مرے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کو تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔'' (۱۸۸)
احمدی بھائیو! کلمات بالا تمہارے نبی درسول کے '' پاک دہن'' سے نکلے ہوئے ہیں ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ اتقو اللّٰہ!
------------------------------------------------------------------
(۱۶۱) تفصیل کے لیے دیکھئے، اشاعۃ السنۃ ص۱۶ (ابو صھیب)
(۱۶۲) فتح الاسلام ص۶ و روحانی ص۶ ، ج۳
(۱۶۳) جنگ مقدس ص۲۱۰ و روحانی ص۲۹۲،ج۶ وتذکرہ ص۲۳۶
(۱۶۴) انوار الاسلام ص۲ و روحانی ص۲،ج۹
(۱۶۵) ایضاً ص۲۰ و روحانی ص۲۲، ج۹
(۱۶۶) ایضاً ص۸
(۱۶۷) کتاب البریہ ص۲۶۱ و روحانی ص۲۷۹،ج۱۳ مفہوماً
(۱۶۸) کتاب البریہ ص۲۶۰ و روحانی ص۲۹۹، ج۱۳
(۱۶۹) انوار الاسلام ص۲۷ و روحانی جلد ۹ صفحہ ایضاً
(۱۷۰) مفہوم ، انوار الاسلام ص۲، ۵
(۱۷۱) انوار الاسلام ص۴ و روحانی ص۵،ج۹
(۱۷۲) ایضاً ص۲
(۱۷۳) حقیقت الوحی ص۱۸۶ و روحانی ص۱۹۴، ج۲۲
(۱۷۴) کشتی نوح ص۶ و روحانی جلد ۱۹ صفحہ ایضاً
(۱۷۵) انجام آتھم ص۱۳ و روحانی ص۱۳، ج۱۱
(۱۷۶) کرامات الصادقین ص۴۰ و روحانی ص۸۲، ج۷
(۱۷۷) اشاعۃ السنۃ ص۱۱۲ تا ۱۱۳، ج۱۶ و کلمہ فضل رحمانی ص۱۴ طبعہ ۱۳۱۴ھ
(۱۷۸) دیکھئے باب ھذا کا نمبر ۱۶۳
(۱۷۹) دیکھئے، اشتہار مرزا ، مورخہ ۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۳،ج۲ و اشتہار مرزا، مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۵۶، ج۲ واشتہار مرزا مورخہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۶۴،ج۲
(۱۸۰) کشتی نوح ص۲۷ و روحانی ص۲۹، ج۱۹
(۱۸۱) انوار الاسلام ص۲۴ و روحانی ص۲۵، ج۹
(۱۸۲) مکتوب آتھم مورخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ اشاعۃ السنۃ ص۱۲۲تا ۱۱۴ ، ج۱۶ بنام اڈیٹر اخبار وفادار۔
(۱۸۳) انوار الاسلام ص۱۵ و روحانی ص۱۶، ج۹
(۱۸۴) سرمہ چشم آریہ ص۲۶۰ و روحانی ص۳۱۰، ج۲
(۱۸۵) لم اجدہ
(۱۸۶) تفیہمات ربانیہ ص۵۷۹ طبعہ جدید
(۱۸۷) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹، ج۱۹ نیز نزول المسیح ص۱۶۶ و روحانی ص۵۴۴، ج۱۸
(۱۸۸) جنگ مقدس ص۲۱۱ و روحانی ص۲۹۳، ج۶
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
اٹھارویں غلط پیشگوئی

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی
مرزا صاحب نے ایک پیشگوئی حضرت مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی کے متعلق بھی کر رکھی تھی کہ:
'' ہم اس کے ایمان سے نا امید نہیں ہوئے بلکہ امید بہت ہے اسی طرح خدا کی وحی خبر دے رہی ہے (اے مرزا) تجھ پر خدا تعالیٰ تیرے دوست محمد حسین کا مقسوم ظاہر کردے گا۔ سعید ہے پس روز مقدر اس کو فراموش نہیں کرے گا اور خدا کے ہاتھوں سے زندہ کیا جاوے گا اور خدا قادر ہے اور رشد کا زمانہ آئے گا اور گناہ بخش دیا جائے گا پس پاکیزگی اور طہارت کا پانی اسے پلائیں گے اور نسیم صبا خوشبو لائے گی اور معطر کردے گی۔ میرا کلام سچا ہے میرے خدا کا قول ہے۔ جو شخص تم میں سے زندہ رہے گا دیکھ لے گا۔'' (۱۸۹)
الفاظ مرقومہ بالا سے صاف عیاں ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رحمہ اللہ ایک نہ ایک دن ضرور مرزا صاحب پر ایمان لائیں گے۔ حالانکہ یہ پیشگوئی قطعاً بالکل غلط نکلی۔
عذر۔ مرزائی کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب استفتا کے صفحہ ۲۲ پر لکھا ہے کہ:
'' معلوم نہیں کہ وہ ایمان (محمد حسین کا) فرعون کی طرح ہوگا یا پرہیزگار لوگوں کی طرح۔'' (۱۹۰)
جواب:
یہ تحریر ۱۸۹۷ء کی ہے۔ بیشک اُس وقت مرزا صاحب نے اس پیشگوئی کو دورنگی میں ڈالا تھا مگر اس کے بعد جبکہ انہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں ''بوحی اللہ'' تعیین کردی ہے کہ محمد حسین کا ایمان سعید لوگوں کی طرح ہوگا۔ جیسا کہ اوپر کی عبارت جو ۱۹۰۳ء کی ہے میں موجود ہے تو اب ایک سابقہ مردودہ تحریر کو پیش کرکے فریب دینا بعید از شرافت ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱۸۹) اعجاز احمدی ص۵۰ تا ۵۱ و روحانی ص۱۶۲، ج۱۹
(۱۹۰) استفتا ص۲۲ و روحانی ص۱۳۰، ج۱۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
انیسویں غلط پیشگوئی

زلزلۃ الساعۃ
۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے قیامت خیز زلزلہ کے بعد مرزا صاحب نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ممکن ہے اس قہری رو میں اور بھی کوئی زلزلہ آجائے الہام پر الہام گھڑنے شروع کئے۔ چنانچہ ۸؍ اپریل ۵ء کو اشتہار دیا:
'' آج تین بجے کے قریب خدا کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی۔ تازہ نشان کا دھکہ۔ زلزلۃ الساعۃ خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا۔ مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکہ لگے گا وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا مجھے علم نہیں دیا گیا کہ زلزلہ سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہہ سکیں اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن یا چند ہفتوں تک ظاہر ہوگا یا خدا تعالیٰ اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا یا کچھ اور قریب یا بعید۔'' (۱۹۱)
ناظرین کرام! ملاحظہ ہو کہ مرزا صاحب قادیانی جو کہتے تھے کہ میں رسول اللہ نبی اللہ وغیرہ ہوں، خدا کے نبی کا ہر قول و فعل خدا کا قول ہوتا ہے اس جگہ کتنی قابل شرم اور نہایت ہی مکروہ اور نفرت انگیز چالوں سے راولوں اور ڈھکوسلہ بازوں سے بھی ہزار گنا زیادہ ''ہیروں پھیروں'' سے آئندہ زلزلہ کی پیش گوئی کر رہے ہیں شرم! شرم! شرم!!
اس کے بعد ۱۴؍ اپریل ۵ کو ایک کشف سنایا:
میں قادیان کے بازار میں گاڑی پر سوار ہوں اس وقت زلزلہ آیا مگر ہم کو کوئی نقصان اس زلزلہ سے نہیں ہوا (۱۹۲)
'' مکاشفات'' مرزا بحوالہ اخبار البدر جلد ۱نمبر ۳
اس کے بعد مرزا صاحب نے ۱۵؍ اپریل ۵ ء کو اپنی کتاب نصرۃ الحق پر یہ اشعار لکھے:
اک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائیں گے دیہات شہر و مرغزار
آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب
اک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تاباندھے ازار
یک بیک اس زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے
کیا بشر اور کیا شجر اور حجر اور کیا بحار
اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائیگی زیر و زبر
نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آب رُود بار
رات جو رکھتے تھے پوشاک برنگ یاسمن
صبح کردے گی انہیں مثل درختانِ چنار
ہوش اڑ جائیں گے انسان کے پرندوں کے حواس
بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار
ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی
راہ کو بھولے ہونگے مست و بے خود راہ دار
خون سے مردوں کے کوہستان کے آبِ رواں
سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار
مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس
زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار
اک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربانی نشان
آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار
ہاں! نہ کر جلدی سے انکار اے سفید ناشناس
اس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دار و مدار
وحی حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا
کچھ دنوں کر صبر ہو کر متقی اور بردبار(۱۹۳)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱۹۱) اشتہار مرزا مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۲۲،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۴ و تبلیغ رسالت ص۸۰،ج۱۹
(۱۹۲) بدر جلد اول نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۱ والحکم جلد۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۸ ومکاشفات مرزا ص۳۹
(۱۹۳) براھین احمدیہ ص۱۲۰ حصہ پنجم وروحانی ص۱۵۰،ج۲۱ وتذکرہ ص۵۳۹
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرقومہ بالا اشعار سے ظاہر ہے کہ عنقریب ایک ایسا زلزلہ آئے گا جس سے شہر و دیہات بلکہ جنگل و ویرانے چکرا جائیں گے۔ بشر و شجر، حجر و بحار جنبش میں آئیں گے یہ زلزلہ کوئی ایسا نہیں ہوگا کہ سالوں، مہینوں، ہفتوں یا گھنٹوں رہے بلکہ '' اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر و زبر'' یہ زلزلہ ایک ہی رات کو صبح سے پہلے پہلے آئے گا جس سے انسان تو انسان کبوتروں کو اپنی چہل، پہل اور بلبلوں کی چہچہاہٹ بھول جائے گی غیر ذی عقل ہستیوں کا تو کیا ذکر جو ہر انسان کو ظاہری نظر آتی ہے اس زلزلہ کا اثر اس مخلوق پر بھی پہنچے گا جسے انسان دیکھ نہیں سکتا یعنی جنات کی قوم بھی اس زلزلہ کے اثر سے مضمحل ہوگی وغیرہ۔
باوجود ان صریح تصریحات کے اس کے نیچے حاشیہ میں پھر وہی راولانہ چال اختیار کرکے لکھا:
'' خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت ہوگا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورۂ ''اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا'' اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر نہیں جما سکتا ممکن ہے یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلا دے۔'' الخ (۱۹۴)
آہ! قادیانی '' حضرت مسیح موعود نبی اللہ'' صاحب کس قدر ایچا پیچی سے کام لے رہے ہیں دعویٰ یہ ہے کہ:
میں امام الزمان ہوں امام الزمان کی پیش گوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے۔ (۱۹۵)
اسی طرح ازالہ اوہام میں لکھا ہے کہ:
'' جن پیشگوئیوں کو مخالفوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ وہ ایک خاص طرح کی روشنی و ہدایت اپنے اندر رکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں توجہ کرکے ان کا انکشاف کرا لیتے ہیں۔'' (۱۹۶) ، (ص۴۰۹ ازالہ اوہام ملخصاً)
مگر حالت یہ ہے کہ باوجودیکہ '' خدا کی وحی میں بار بار زلزلہ کا ذکر ہے۔'' پھر بھی مرزا جی کو ایمان نہیں۔ خدا کی وحی ہو تو ایمان ہو۔ یہاں تو خدا پر ہی ایمان نہیں سب الہامات اپنے نفس کی ایجاد ہیں پھر ان پر ایمان کیسے ہو آگے سنیے اس کے بعد مؤرخہ ۲۱؍ اپریل کو مرزا صاحب نے پھر ایک اشتہار دیا:
''۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ایک سخت زلزلہ کی خبر دی جو نمونہ قیامت اور ہوش ربا ہوگا۔ چونکہ دو مرتبہ مکرر طور پر اس علیم مطلق نے اس آئندہ واقع پر مجھے مطلع فرمایا ہے اس لیے میں یقین رکھتا ہوں کہ عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثہ کو یاد دلائے گا دور نہیں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اب دوسرا نشان دکھا دے تاکہ ماننے والوں پر اس کا زخم ہوتا وہ لوگ جو کئی منزلوں کے نیچے سوتے ہیں وہ کسی اور جگہ ڈیرے لگا لیں۔'' (ملخص اشتہار مرزا مؤرخہ ۲۱؍ اپریل ۵ء موسومہ النداء من وحی السماء )، (۱۹۷)
اس عبارت میں تو بلا کسی تاویل و احتمال کے صاف صاف زلزلے کا ذکر ہے وہ اس طرح کہ لوگ گھروں سے نکل کر آسمان کے نیچے ڈیرے لگائیں مطلب یہ کہ زلزلہ آیا کہ آیا۔ چنانچہ مرزا صاحب جن کا دعویٰ ہے کہ میرا ہر قول و فعل خدا کے حکم سے ہے جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں فرماتے ہیں کہ '' وہ حادثہ دور نہیں'' اس پر مزید شہادت یہ کہ خود مرزا صاحب نے بمعہ اہل و عیال مکان چھوڑ کر باغ میں جا ڈیرا لگایا (۱۹۸)۔ چنانچہ ۲۹؍ اپریل ۵ء کے اشتہار میں تھا:
'' آج ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری مرتبہ کے زلزلہ شدیدہ کی نسبت اطلاع دی ہے۔ یہ بات آسمان پر قرار پا چکی ہے کہ ایک شدید آفت سخت تباہی ڈالنے والی دنیا پر آوے گی جس کا نام خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ رکھا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا کچھ دنوں کے بعد اس کو ظاہر فرما دے گا مگر بار بار خبر دینے سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بہت دور نہیں (حضور آپ کا تو دعویٰ ہے کہ میری اپنی ہستی، کچھ نہیں میں خدا کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہوں۔ مفہوم ص ۴۴ ریویو جلد دوم یہاں کیا بات ہے کہ آپ مہینہ بھر سے ہیر پھیر کر رہے ہیں، مگر اصلیت آپ کو معلوم نہیں ہوتی۔ ناقل) یہ خدا تعالیٰ کی خبر اور اس کی خاص وحی ہے جو لوگ شائع کر رہے ہیں کہ کوئی سخت زلزلہ آنے والا نہیں ہے، وہ جھوٹے ہیں، بالکل سچ ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک پر آنے والا ہے جو پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں گزرا۔ غالباً صبح کا وقت ہوگا یا کچھ حصہ رات میں سے یا ایسا وقت ہوگا جو اس کے قریب ہے۔'' (۱۹۹)
برادران! ملاحظہ فرمائیے کہ نصرۃ الحق کے اشعار میں تو صاف تھا کہ '' رات جو رکھتے تھے پوشاک برنگ یاسمن صبح کردے گی انہیں مثل درختان چنار'' یعنی ابتدا رات سے صبح کے پہلے پہلے آئے گا۔ مگر اس اشتہار میں اور وسعت پیدا کی کہ '' یا ایسا وقت جو اس کے قریب'' بہرحال تحریر ہذا شاہد ہے کہ اس ملک میں ایک بے نظیر مہلک زلزلہ آنے والا ہے۔ اس کے بعد ۲۲؍ مئی ۱۹۰۵ء کو پھر اشتہار دیا (۲۰۰)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱۹۴) براھین احمدیہ ص۱۲۰ حصہ پنجم وروحانی ص۱۵۰،ج۲۱ وتذکرہ ص۵۳۹
(۱۹۵) ضرورت الامام ص۱۳ و روحانی ص۴۸۳، ج۱۳
(۱۹۶) ملخصًا ، ازالہ اوہام ص۶۰۹طبع ثانیہ
(۱۹۷) اشتہارمرزا مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۲۶،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۵ و تذکرہ ص۵۳۵ وریویو ص۲۳۸،ج۴ نمبر۶
(۱۹۸) سیرت المھدی ص۲۶،ج۱ و تاریخ احمدیت ص۳۹۸، ج۳ وحیات طیبہ ص۳۶۸ و مجدد اعظم ص۱۰۱۰،ج۲ و سلسلہ احمدیہ ص۱۴۷
(۱۹۹) اشتہار مرزا ، مورخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۳۵،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۹ وتذکرہ ص۵۴۴
(۲۰۰) یہ اشتہار مرزا نے ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء کو لکھا اور ۲۲؍ مئی کو شائع ہوا، مجموعہ اشتہارات ص۵۴۳، ج۳
 
مدیر کی آخری تدوین :

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ضروری گذارش لائق توجہ گورنمنٹ
'' مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر ملی کہ ایک زلزلہ اور آنے والا ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ میں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ یا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس گھڑی کو ٹال دے اور مجھے اطلاع دے یا پورے طور پر بقید تاریخ اور روز اور وقت اس آنے والے حادثہ سے مطلع فرما دے کیونکہ وہ ہر ایک بات پر قادر ہے اب تک قریباً ایک ماہ سے میرے خیمے باغ میں لگے ہوئے ہیں۔ میں واپس قادیان میں نہیں گیا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ وقت کب آنے والا ہے میں نے اپنے مریدوں کو بھی نصیحت کی کہ جس کی مقدرت ہو اسے ضروری ہے کہ کچھ مدت خیموں میں باہر جنگل میں رہے (حاشیہ میں لکھا ہے) اس کے واسطے کوئی تاریخ معین نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے پر ظاہر نہیں فرمائی۔ ایسی پیش گوئیوں میں یہی سنت اللہ کی ہے چنانچہ انجیل میں بھی صرف یہ لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے مگر تاریخ مقرر نہیں مجھے اب تک قطعی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ اس زلزلہ سے در حقیقت ظاہری زلزلہ مراد ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے، اس خوف کو لازم سمجھ کر میں خیموں میں گزارہ کرتا ہوں۔ ایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ ہوچکا ہے۔ اس قدر خرچ کون اٹھا سکتا ہے بجز اس کے کہ سچے دل سے آنے والے حادثہ پر یقین رکھتا ہے مجھے بعد میں زلزلہ کی نسبت یہ بھی الہام ہوا تھا۔ '' پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔'' اجتہادی طور پر خیال گزرتا ہے کہ ظاہر الفاظ وحی کے چاہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بہار کے ایام میں پوری ہوگی۔'' (۲۰۱)
اس جگہ پھر وہی چالاکی اختیار کی ہے کہ ایک طرف زلزلہ کی بار بار تصریح دوسری طرف احتمال و اہمال بہرحال جو کچھ ہو اس زلزلہ ''یا کوئی اور آفت شدیدہ'' کے جلد نازل و وارد ہونے پر مرزا صاحب کو یقین تھا۔ جو بہ تمام و کمال جھوٹا، خیالی اور وہمی ثابت ہوا۔ آخر انتظار بسیار کے بعد مرزا صاحب اپنا سا منہ لے کر چپکے سے قادیان میں آگئے اور غریب و محنتی مریدوں سے بطور چندہ اکٹھا کیا ہوا ہزار روپیہ کے قریب روپیہ مفت میں خیموں وغیرہ پر برباد ہوا۔ آگے ملاحظہ ہو ضمیمہ نصرۃ الحق ۹۷ اول کے حاشیہ پر لکھا ہے:
'' خدا تعالیٰ کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا غالباً صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے ۔ (اس تاخیر کی تعیین اسی صفحہ کے متن میں یہ کی گئی ہے)'' بار بار وحی الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لیے ظہو رمیں آئے گی۔ اگر خدا تعالیٰ نے بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال میں۔ ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور میں آجائے۔'' (۲۰۲)
با انصاف و باخدا ناظرین! دیکھیے کہاں تو یہ ہما ہمی تھی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ زلزلہ آیا کہ آیا حتیٰ کہ مریدوں کے نام سر کلر جاری کردیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر باہر ڈیرے لگاؤ اور خود بھی مہینہ بھر باغ میں رہے اور کہاں یہ بے بسی کہ زیادہ سے زیادہ سولہ سال کی تاخیر ہے۔
بھائیو! کیا آپ نے آج تک کوئی راول یا منجم بھی سنایا دیکھا ہے کہ وہ ہر بات میں مغالطہ اور دھوکہ کو ہی دین و ایمان سمجھے؟ یقینا نہیں دیکھا ہوگا مگر ہمارے ''حضرت مرزا صاحب'' ان سے بھی بڑھ چڑھ کر ہیں۔
بہرحال اس تحریر میں اتنا تو ہے کہ اس ملک کی تخصیص اور زندگی کی تعیین کی گئی ہے (شکریہ) اب سوال یہ ہوگا کہ ایسا زلزلہ ملک پنجاب میں مرزا صاحب کی زندگی میں کب آیا؟ اس کا جواب مرزائی یہ دیتے ہیں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء کو آیا تھا (۲۰۳)۔ اس کے جواب میں ہم اپنے ناظرین کے انصاف پر فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ وہ خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر گواہی دیں کہ کیا زلزلہ عظیم اپریل ۱۹۰۵ء کے بعد کا زلزلہ کسی وہم و خیال میں بھی ہے؟ کسی کو یاد ہے؟ ہرگز نہیں حالانکہ زلزلہ موعودہ ایسا زلزلہ تھا کہ:
'' جو پہلے زلزلہ سے بھی بڑھ چڑھ کر، قیامت خیز، ہوش ربا حادثہ محشر کو یاد دلانے والا جو نہ کسی آنکھ نے اس سے پہلے دیکھا نہ کسی نے سنا بلکہ کسی کے وہم میں بھی نہ گزرا ہو، کہاں وہ زلزلہ جو پرندوں کے ہوش و حواس کھو دے، جنوں کو بیخود کردے سمندروں، دریاؤں، شہروں، دیہاتوں کو چکرا ڈالے جس میں اتنے آدمی مریں کی ندیاں خون کی رواں ہوں۔''
پس ہمارے ناظرین خود اندازہ لگا لیں کہ مرزائی اس جواب میں کہاں تک راست گو اور ایماندار ہیں۔ اوہو میں دور چلا گیا۔ ساری دنیا بھی گواہی دیدے تب بھی مرزائی ایمان نہ لائیں گے۔ مجھے تو لازم ہے کہ خود مرزا صاحب کی تحریر سے دکھاؤں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ بہت ہی معمولی تھا ، احمدی دوستو! سنو اور کان کے پردے کھول کر بے ایمانی، ضدوتعصب کو چھوڑ کر سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی۔ پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا کہ لوگوں کو سو دائی اور دیوانہ کردے گا یہاں تک وہ تمنا کریں گے کہ اس دن سے پہلے مر جاتے اب یاد رہے کہ اس وقت تک جو ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے اس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍ فروری ۶ء اور ۲۰ مئی ۶ء اور ۲۱؍ جولائی ۶ء مگر غالباً خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں۔'' الخ (۲۰۴)
ظاہر ہے کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ وہ زلزلہ نہیں جو قیامت کا نمونہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئیاں بھی غلط ہوئیں۔
مرزائی عذر:
اس زلزلہ والی پیشگوئی پر مرزائی ایک عذر یہ کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو یہ الہاماً بتایا گیا تھا کہ وہ زلزلہ تاخیر میں پڑ گیا۔ لہٰذا زندگی میں نہ آنا قابل اعتراض نہیں۔ (۲۰۵)
الجواب:
تاخیر والا الہام مجمل ہے اس میں کہیں مذکور نہیں کہ بعد زندگی کے آئے گا بخلاف اس کے ہم جو تحریرات مرزا نقل کر آئے ہیں ان میں بالفاظ اصرح ''وحی'' سے بتایا گیا ہے کہ '' وہ زندگی میں آئے گا بڑی سے بڑی تاخیر زندگی تک ہے۔'' اس سے زیادہ نہیں۔ پس یہ عذر سراسر غلط ہے۔
-----------------------------------------------------
(۲۰۱) اشتہار مرزا مورخہ ۲۲؍ مئی ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۳۸،ج۳
(۲۰۲) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۷،ج۵ و روحانی ص۲۵۸، ج۲۱
(۲۰۳) تفہیمات ربانیہ ص۱۱۷
(۲۰۴) حقیقت الوحی ص۹۳ و روحانی ص۹۶، ج۲۲ و حاشیہ تذکرہ ص۶۴۸
(۲۰۵) تاریخ احمدیت ص۴۰۳،ج۳ و تفہیمات ربانیہ ص۱۱۴
 
مدیر کی آخری تدوین :

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
پیشگوئیوں کے متعلق مرزائیوں کے چند ایک خود ساختہ معیار اور اخبار انبیاء پر اعتراضات کا جواب

از تفہیمات ربانیہ مصنفہ مولوی اللہ دتہ احمدی و دیگر کتب مرزائیہ
معیار اول:
پیشگوئی کی غرض ایمان پیدا کرنا ہے ایمان وہی مقبول ہے جو ''یومنون بالغیب'' کا مصداق ہو۔ کوئی پیش گوئی ایسے طور پر پوری نہیں ہوسکتی ہو ''یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ'' سے باہر لے جائے نہ ہی کسی کا حق ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا) کے متعلق ایسا مطالبہ کرے۔ (۲۰۶)
الجواب:
آیت یومنون بالغیب سے مراد پیش گوئی لینا، تحریف فی القرآن ہے۔ غیب سے مراد ذاتِ الٰہی، عالم برزخ ملائکتہ اللہ، دوزخ، جنت، وغیرہ ہیں۔ مرزا صاحب خود راقم ہیں:
'' یومنون بالغیب متقی وہ ہیں جو خدا پر جو مخفی در مخفی ہے ایمان لاتے ہیں۔'' (۲۰۷)
علاوہ ازیں غیب سے مراد پیشگوئی نہ ہونے پر مرزا صاحب کے اقوالِ ذیل بھی دال ہیں:
(۱)'' پیشگوئی سے صرف یہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بطور دلیل کام آسکے لیکن جب ایک پیشگوئی خود (پردہ غیب میں ہونے کی وجہ سے۔ ناقل) دلیل کی محتاج ہے تو کس کام کی (۲۰۸)پیشگوئی میں تو وہ امور پیش کرنے چاہییں جن کو کھلے کھلے طور پر دنیا دیکھ سکے۔'' (۲۰۹)
پس جن پیشگوئیوں کو خود مرزا صاحب نے بطور دلیل صداقت مخالفین کے سامنے پیش کیا ہے ان کے متعلق یہ معیار مقرر کرنا مرزائیت کی انتہائی کمزوری کا ثبوت دینا ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------
(۲۰۶) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۳ طبعہ اول
(۲۰۷) حقیقت الوحی ص۱۳۲ و روحانی ص۱۳۵،ج۲۲ و تفسیر مرزا جلد دوم
(۲۰۸) ضمیمہ تحفہ گولڈویہ ص۱۲۱ و روحانی ص۳۰۱، ج۱۱۷
(۲۰۹) ایضاً
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
معیار دوم:
'' وعدہ ہو یا وعید ہر دو قسم کی پیشگوئیوں مرکزی نقطہ ایمان پیدا کرنے کے گرد چکر لگاتی ہیں۔ یہ غرض پوری ہو جائے تو وعید کا ٹل جانا ہی سنت الٰہی ہے۔'' (۲۱۰)
الجواب:
ہمارا بھی اس پر صاد ہے کہ جو پیشگوئی وعید کی مشروط بہ ایمان ہو اگر منکر ایمان لے آئے تو پیشگوئی ٹل نہیں جاتی بلکہ پوری ہو جاتی ہے۔
-------------------------------------------------------------------------
(۲۱۰) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۴ طبعہ اول
 
Top