وحید احمد
رکن ختم نبوت فورم
نواں معیار:
بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ پیشگوئی کے وقت ظہور یا مصداق اشخاص سمجھنے کے متعلق غلطی ہو جاتی ہے یا خدا کا وعدہ کسی شرط کی وجہ سے ایک قوم کی بجائے دوسری قوم کے حق میں پورا ہوتا ہے؟ (۲۷۵)
الجواب:
خدا کا نبی اپنی ذات میں عالم الغیب نہیں ہوتا مگر جو بات وحی میں موجود ہوتی ہے اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کرتا۔ اگر بتقاضائے بشریت غلطی کر جائے تو ''خدا تعالیٰ غلطی پر قائم نہیں رکھتا'' (۲۷۶) ہاں ، ''ہاں نبی غلطی پر قائم نہیں رکھا جاسکتا'' (۲۷۷) خاص کر پیشگوئی والی وحی کے سمجھنے میں جو ''نبی کی صداقت کا معیار ہوتی ہے'' نبی قطعاً غلطی نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کی غلطی نبی کی صداقت پر اثر انداز ہوتی ہے اب سنیے اپنی پیش کردہ امثلہ کا جواب:
مثال اول: رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لَتَدْخُلُن الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ والی رؤیا کو حدیبیہ والے سال کے لیے اندازہ فرمایا اور قریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کو لے کر چل کھڑے ہوئے لیکن علم الٰہی میں اس کے پورا ہونے کا وقت آئندہ سال تھا۔ (۲۷۸ )
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خواب آیا تھا اس میں کوئی ایک لفظ ایسا موجود نہیں کہ حج اسی سال ہوگا۔ '' کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا'' (۲۷۹) '' جاہل جلد باز یہ نہیں سوچتا کہ اس پیشگوئی میں کیا سال کی شرط تھی کہ اسی سال حج ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا تھا کہ اسی سال تم زیارت کعبہ کرو گے چنانچہ اگلے سال کعبہ کی زیارت ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا کو اللہ تعالیٰ نے سچ کر دکھلایا اور یہ پہلی دفعہ کا عازم مکہ ہونا ایک بڑی بھاری فتح کی بنیاد ہوا۔ (۲۸۰)
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسی سال حج ہوگا۔ (۲۸۱) پس یہ قطعاً جھوٹ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی کا وقت مقرر کرنے میں غلطی کھائی ہرگز ہرگز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔
اب رہا یہ امر کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب کے دیکھنے کے بعد حج کو تشریف کیوں لے گئے؟ جواباً عرض ہے کہ یہ بھی غلط ہے خواب اس سفر کا باعث نہیں ہوا کیونکہ خواب تو آیا ہی راستہ میں تھا چنانچہ حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ (جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں اور نہایت ثقہ راوی ہیں) کی صحیح روایت جسے تفسیر در منثور میں پانچ جلیل القدر محدثین سے نقل کیا ہے یہ ہے ''أری رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَھُوَ بِالْحُدِیبیۃ اِنہٗ یَدْخُلُ مکۃ ھُوَ وَاَصَحَابُہ آمّین'' (۲۸۲) ارشاد الساری فتح الباری عمدۃ القاری۔ تفسیر جامع البیان وغیرہ میں بھی ایسا ہی مرقوم و مسطور ہے کہ خواب حدیبیہ میں آیا تھا۔ (۲۸۳)
بفرضِ محال یہی صحیح ہو کہ سفر کرنے سے پہلے خواب دیکھا گیا تھا۔ تو بھی اس کا کیا ثبوت ہے کہ سفر اس خواب کی بنا پر تھا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سفر میں بہت سے دیگر مصالح و فوائد اور خدا کی حکمتیں تھیں یہی سفر فتح مکہ کی بنیاد، مسلمانوں کی ترقی کا باعث اور صحابہ کرامy کے راسخ الایمان ہونے کا سرٹیفکیٹ دلانے کا موجب ہوا ''لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ' ' یہ واقعہ صلح، حدیبیہ کا ہے۔ (۲۸۴)
الغرض یہ بات بے ثبوت ہے کہ حضور علیہ السلام کا سفر اس خواب کی بنا پر تھا۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' جب تک خدا تعالیٰ خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اس کی کسی خاص شق کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔'' (۲۸۵)
اگر امر واقعہ ایسا ہی ہو جیسا کہ مرزائی کہتے ہیں تو بھی انہیں مفید نہیں، کیونکہ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا:
'' میں غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا خدا کی رحمت مجھے جلد تر حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے میری روح فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے۔'' (۲۸۶)
پس مرزا صاحب کا اپنی پیشگوئی میں اس وقت تک غلطی میں مبتلا رہنا کہ اس کا وقت اندازہ کردہ گزر جائے بقول ان کے ناجائز ہے۔
دوسری مثال: مرزائی صاحبان یہ پیش کرتے ہیں کہ '' حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا ' 'یا قوم ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقدسَۃَ الَّتِی کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلٰٓی اَدْبَارِکُم فتنقلبوا خَاسِرِیْنَ' ' اے قوم ارض مقدس میں داخل ہو اور پیچھے مت لوٹو کہیں خسارہ پانے والے نہ ہو جاؤ خدا یہ زمین تمہارے لیے لکھ چکا ہے۔
اس آیت میں معین و مخصوص اشخاص کو ''کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ'' کی خبر دی۔ گئی وہ بنی اسرائیل بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس زمین میں داخل نہ ہوسکے عالم تقدیر کا (یہ) امر موعود کے لیے ظاہر نہیں ہوا۔ (۲۸۷)
نوٹ: اسی کے قریب قریب مرزا صاحب نے بھی اعتراض کیا ہے۔ (۲۸۸)
الجواب:
مرزائیوں نے اس مثال میں بہت جھوٹ بولے ہیں (۱) یہ کہ یہ وعدہ الٰہی ان معین و مخصوص اشخاص سے خاص تھا جو اس زمین میں داخل نہ ہوسکے (۲) یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس وعدہ کے ذاتی طور پر مخاطب تھا۔ (۳) یہ کہ یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ وعدہ جیسا کہ یا قوم کے لفظ سے ظاہر ہے عام قوم بنی اسرائیل کے لیے تھا وہ بھی شرط صلاحیت سے مشروط خود مرزائی مولوی مانتا ہے۔ '' خدا تعالیٰ کا وعدہ کسی کی وجہ سے ایک قوم کی بجائے دوسری کے حق میں پورا ہوتا ہے'' (جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے) (۲۸۹)۔ اس مرزائی اقرار کو بھی چھوڑو خود قرآن پاک گواہ ہے کہ ان کو کہا گیا تھا۔ ''وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِیْن'' (۲۹۰) اگر پیچھے پھرو گے گھاٹا پاؤ گے چونکہ ابتدا اس قوم نے سرکشی کی کہ ''اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَاِنَّا لَنْ تَدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجوْا مِنْھا'' (۲۹۱) ہم تو ہرگز اس سرزمین میں داخل نہ ہوں گے۔ وہاں ایک جنگجو قوم رہتی ہے حتیٰ کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔
اس ظاہری انکار کے ساتھ گستاخی بھی کی کہ ''فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ'' (۲۹۲) ہم یہیں بیٹھیں ہیں جا تو اور تیرا خدا لڑو۔
ان کی اس انتہائی شقاوت و بدبختی پر خدا کا غضب وارد ہوا کہ پہلے تو یہ وعدہ عام تھا بنی اسرائیل کے ہر طبقہ سے بشرط صلاحیت اب مقید کردیا گیا کہ ''قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَّتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوَمِ الْفَاسِقِیْنَ'' (۲۹۳) بیشک یہ زمین چالیس سال کے لیے ان پر قطعاً حرام کی گئی۔ اب یہ در بدر ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔ پس تو اس فاسق قوم پر تاسف نہ کر۔
چالیس سال کے بعد یہ وعدہ الٰہی حرف بہ حرف پورا ہوا چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' پھر خدا تعالیٰ نے ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو برگزیدہ کیا اور وہ اس زمین میں داخل ہوا۔'' (۲۹۴)
خلاصہ یہ کہ وعدہ خاص اشخاص یا معین افراد کی ذات تک محدود نہ تھا عام قوم بنی اسرائیل کے لیے تھا جو حرف بحرف پورا ہوا۔
مرزا صاحب کی تحریر سے اس کی مثال:
میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مخالفانہ جوش سے بھرے ہوئے آج تمہیں نظر آتے ہیں تھوڑے ہی زمانہ کے بعد تم ان کو نہ دیکھو گے۔ (۲۹۵)
اگرچہ یہ خبر محض قیاس پر مبنی ہے کیونکہ آخر ایک نہ ایک دن مرزا صاحب کے مخالف جو موجود تھے مرنے والے تھے لہٰذا یہ پیشگوئی نہیں محض قیاس سے مگر ہم اس وقت اس بحث کو چھوڑتے ہیں۔ ہمارا مدعا اس سے یہ ہے کہ اس جگہ مرزا صاحب نے جن اپنے مریدوں کو مخاطب کرکے یہ الفاظ کہے تھے مثلاً مولوی نور دین عبدالکریم، محمد احسن وغیرہ ہزارہا اشخاص اور خود بدولت مرزا صاحب کے ان کے رو برو یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ یقینا نہیں! مرزا صاحب کے اس زمانہ کے مخالف آج بھی اللہ کے فضل و کرم سے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور مرزا صاحب معہ اپنے اخص حواریوں کے خدا جانے ہسپتال روحانی کے کس درجہ میں پڑے ہوں گے۔
احمدی صاحبان اس کا جواب یہی دیں گے کہ یہ پیشگوئی گو اس وقت کے مریدوں کو مخاطب کرکے کی گئی تھی، مگر مراد اس سے عام احمدی قوم ہے جن کے ہوتے ہوئے یہ پوری ہوگی یہی ہمارا جواب ہے کہ گو مخاطب اس پیشگوئی کے وہ اشخاص تھے جو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تھے مگر مراد اس سے عام قوم بنی اسرائیل تھی۔
پس جو پیشگوئی جن اشخاص کے متعلق ہوتی ہے وہ انہی کی ذات پر پوری ہوتی ہے نہ کہ کسی دوسری قوم پر ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی شرط ظاہری کے سبب اس قوم کے بعض افراد خارج کیے جائیں۔ اپنی شرارت کے سبب نعماء الٰہی سے محروم رکھے جائیں وہ بھی اس صورت میں کہ پیشگوئی مشروط ہو صلاحیت سے۔
------------------------------------------------------------------
(۲۷۵) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۲۸، طبعہ ۱۹۳۲ء
(۲۷۷) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۸۹،ج۵ و روحانی ص۲۵۰، ج۲۱
(۲۷۸) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۹) فتاوٰی احمدی ص۵۳، ج۱ طبعہ ۱۹۴۳
(۲۸۰) مرزائی نور الدین جانشین اول مرزا قادیانی کا فتوٰی ، مندرجہ بدر جلد ۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۶ء ، ص۵
(۲۸۱) صحیح بخاری ص۳۸۰، ج۱ فی الشروط باب الشروط فی الجھاد
(۲۸۲) الدر المنثور ص۸۰،ج۷ و دلائل النبوۃ ص۱۶۴،ج۴
(۲۸۳) لم اجدہ
(۲۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۶۵ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۲۸۵) ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۸۶) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۱۵۵، ج۳
(۲۸۷) مضمون مرزائی اللہ دتا جالندھری ، مندرجہ الفضل ، مورخہ ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۲ء
(۲۸۸) الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ص۲ و ملفوظات مرزا ص۵۷۶، ج۴
(۲۸۹) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴، ج۵۷۵
(۲۹۰) پ۶ المائدہ آیت ۲۲
(۲۹۱) ایضاً آیت:۲۳
(۲۹۲) ایضاً ۲۵
(۲۹۳) ایضاً ۲۷
(۲۹۴) الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء و ملفوظات مرزا ص۵۷۶، ج۴
(۲۹۵) ازالہ اوہام ص۳۲ و روحانی ص۱۱۹، ج۳
بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ پیشگوئی کے وقت ظہور یا مصداق اشخاص سمجھنے کے متعلق غلطی ہو جاتی ہے یا خدا کا وعدہ کسی شرط کی وجہ سے ایک قوم کی بجائے دوسری قوم کے حق میں پورا ہوتا ہے؟ (۲۷۵)
الجواب:
خدا کا نبی اپنی ذات میں عالم الغیب نہیں ہوتا مگر جو بات وحی میں موجود ہوتی ہے اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کرتا۔ اگر بتقاضائے بشریت غلطی کر جائے تو ''خدا تعالیٰ غلطی پر قائم نہیں رکھتا'' (۲۷۶) ہاں ، ''ہاں نبی غلطی پر قائم نہیں رکھا جاسکتا'' (۲۷۷) خاص کر پیشگوئی والی وحی کے سمجھنے میں جو ''نبی کی صداقت کا معیار ہوتی ہے'' نبی قطعاً غلطی نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کی غلطی نبی کی صداقت پر اثر انداز ہوتی ہے اب سنیے اپنی پیش کردہ امثلہ کا جواب:
مثال اول: رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لَتَدْخُلُن الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ والی رؤیا کو حدیبیہ والے سال کے لیے اندازہ فرمایا اور قریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کو لے کر چل کھڑے ہوئے لیکن علم الٰہی میں اس کے پورا ہونے کا وقت آئندہ سال تھا۔ (۲۷۸ )
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خواب آیا تھا اس میں کوئی ایک لفظ ایسا موجود نہیں کہ حج اسی سال ہوگا۔ '' کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا'' (۲۷۹) '' جاہل جلد باز یہ نہیں سوچتا کہ اس پیشگوئی میں کیا سال کی شرط تھی کہ اسی سال حج ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا تھا کہ اسی سال تم زیارت کعبہ کرو گے چنانچہ اگلے سال کعبہ کی زیارت ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا کو اللہ تعالیٰ نے سچ کر دکھلایا اور یہ پہلی دفعہ کا عازم مکہ ہونا ایک بڑی بھاری فتح کی بنیاد ہوا۔ (۲۸۰)
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسی سال حج ہوگا۔ (۲۸۱) پس یہ قطعاً جھوٹ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی کا وقت مقرر کرنے میں غلطی کھائی ہرگز ہرگز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔
اب رہا یہ امر کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب کے دیکھنے کے بعد حج کو تشریف کیوں لے گئے؟ جواباً عرض ہے کہ یہ بھی غلط ہے خواب اس سفر کا باعث نہیں ہوا کیونکہ خواب تو آیا ہی راستہ میں تھا چنانچہ حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ (جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں اور نہایت ثقہ راوی ہیں) کی صحیح روایت جسے تفسیر در منثور میں پانچ جلیل القدر محدثین سے نقل کیا ہے یہ ہے ''أری رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَھُوَ بِالْحُدِیبیۃ اِنہٗ یَدْخُلُ مکۃ ھُوَ وَاَصَحَابُہ آمّین'' (۲۸۲) ارشاد الساری فتح الباری عمدۃ القاری۔ تفسیر جامع البیان وغیرہ میں بھی ایسا ہی مرقوم و مسطور ہے کہ خواب حدیبیہ میں آیا تھا۔ (۲۸۳)
بفرضِ محال یہی صحیح ہو کہ سفر کرنے سے پہلے خواب دیکھا گیا تھا۔ تو بھی اس کا کیا ثبوت ہے کہ سفر اس خواب کی بنا پر تھا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سفر میں بہت سے دیگر مصالح و فوائد اور خدا کی حکمتیں تھیں یہی سفر فتح مکہ کی بنیاد، مسلمانوں کی ترقی کا باعث اور صحابہ کرامy کے راسخ الایمان ہونے کا سرٹیفکیٹ دلانے کا موجب ہوا ''لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ' ' یہ واقعہ صلح، حدیبیہ کا ہے۔ (۲۸۴)
الغرض یہ بات بے ثبوت ہے کہ حضور علیہ السلام کا سفر اس خواب کی بنا پر تھا۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' جب تک خدا تعالیٰ خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اس کی کسی خاص شق کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔'' (۲۸۵)
اگر امر واقعہ ایسا ہی ہو جیسا کہ مرزائی کہتے ہیں تو بھی انہیں مفید نہیں، کیونکہ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا:
'' میں غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا خدا کی رحمت مجھے جلد تر حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے میری روح فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے۔'' (۲۸۶)
پس مرزا صاحب کا اپنی پیشگوئی میں اس وقت تک غلطی میں مبتلا رہنا کہ اس کا وقت اندازہ کردہ گزر جائے بقول ان کے ناجائز ہے۔
دوسری مثال: مرزائی صاحبان یہ پیش کرتے ہیں کہ '' حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا ' 'یا قوم ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقدسَۃَ الَّتِی کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلٰٓی اَدْبَارِکُم فتنقلبوا خَاسِرِیْنَ' ' اے قوم ارض مقدس میں داخل ہو اور پیچھے مت لوٹو کہیں خسارہ پانے والے نہ ہو جاؤ خدا یہ زمین تمہارے لیے لکھ چکا ہے۔
اس آیت میں معین و مخصوص اشخاص کو ''کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ'' کی خبر دی۔ گئی وہ بنی اسرائیل بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس زمین میں داخل نہ ہوسکے عالم تقدیر کا (یہ) امر موعود کے لیے ظاہر نہیں ہوا۔ (۲۸۷)
نوٹ: اسی کے قریب قریب مرزا صاحب نے بھی اعتراض کیا ہے۔ (۲۸۸)
الجواب:
مرزائیوں نے اس مثال میں بہت جھوٹ بولے ہیں (۱) یہ کہ یہ وعدہ الٰہی ان معین و مخصوص اشخاص سے خاص تھا جو اس زمین میں داخل نہ ہوسکے (۲) یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس وعدہ کے ذاتی طور پر مخاطب تھا۔ (۳) یہ کہ یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ وعدہ جیسا کہ یا قوم کے لفظ سے ظاہر ہے عام قوم بنی اسرائیل کے لیے تھا وہ بھی شرط صلاحیت سے مشروط خود مرزائی مولوی مانتا ہے۔ '' خدا تعالیٰ کا وعدہ کسی کی وجہ سے ایک قوم کی بجائے دوسری کے حق میں پورا ہوتا ہے'' (جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے) (۲۸۹)۔ اس مرزائی اقرار کو بھی چھوڑو خود قرآن پاک گواہ ہے کہ ان کو کہا گیا تھا۔ ''وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِیْن'' (۲۹۰) اگر پیچھے پھرو گے گھاٹا پاؤ گے چونکہ ابتدا اس قوم نے سرکشی کی کہ ''اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَاِنَّا لَنْ تَدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجوْا مِنْھا'' (۲۹۱) ہم تو ہرگز اس سرزمین میں داخل نہ ہوں گے۔ وہاں ایک جنگجو قوم رہتی ہے حتیٰ کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔
اس ظاہری انکار کے ساتھ گستاخی بھی کی کہ ''فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ'' (۲۹۲) ہم یہیں بیٹھیں ہیں جا تو اور تیرا خدا لڑو۔
ان کی اس انتہائی شقاوت و بدبختی پر خدا کا غضب وارد ہوا کہ پہلے تو یہ وعدہ عام تھا بنی اسرائیل کے ہر طبقہ سے بشرط صلاحیت اب مقید کردیا گیا کہ ''قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَّتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوَمِ الْفَاسِقِیْنَ'' (۲۹۳) بیشک یہ زمین چالیس سال کے لیے ان پر قطعاً حرام کی گئی۔ اب یہ در بدر ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔ پس تو اس فاسق قوم پر تاسف نہ کر۔
چالیس سال کے بعد یہ وعدہ الٰہی حرف بہ حرف پورا ہوا چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' پھر خدا تعالیٰ نے ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو برگزیدہ کیا اور وہ اس زمین میں داخل ہوا۔'' (۲۹۴)
خلاصہ یہ کہ وعدہ خاص اشخاص یا معین افراد کی ذات تک محدود نہ تھا عام قوم بنی اسرائیل کے لیے تھا جو حرف بحرف پورا ہوا۔
مرزا صاحب کی تحریر سے اس کی مثال:
میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مخالفانہ جوش سے بھرے ہوئے آج تمہیں نظر آتے ہیں تھوڑے ہی زمانہ کے بعد تم ان کو نہ دیکھو گے۔ (۲۹۵)
اگرچہ یہ خبر محض قیاس پر مبنی ہے کیونکہ آخر ایک نہ ایک دن مرزا صاحب کے مخالف جو موجود تھے مرنے والے تھے لہٰذا یہ پیشگوئی نہیں محض قیاس سے مگر ہم اس وقت اس بحث کو چھوڑتے ہیں۔ ہمارا مدعا اس سے یہ ہے کہ اس جگہ مرزا صاحب نے جن اپنے مریدوں کو مخاطب کرکے یہ الفاظ کہے تھے مثلاً مولوی نور دین عبدالکریم، محمد احسن وغیرہ ہزارہا اشخاص اور خود بدولت مرزا صاحب کے ان کے رو برو یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ یقینا نہیں! مرزا صاحب کے اس زمانہ کے مخالف آج بھی اللہ کے فضل و کرم سے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور مرزا صاحب معہ اپنے اخص حواریوں کے خدا جانے ہسپتال روحانی کے کس درجہ میں پڑے ہوں گے۔
احمدی صاحبان اس کا جواب یہی دیں گے کہ یہ پیشگوئی گو اس وقت کے مریدوں کو مخاطب کرکے کی گئی تھی، مگر مراد اس سے عام احمدی قوم ہے جن کے ہوتے ہوئے یہ پوری ہوگی یہی ہمارا جواب ہے کہ گو مخاطب اس پیشگوئی کے وہ اشخاص تھے جو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تھے مگر مراد اس سے عام قوم بنی اسرائیل تھی۔
پس جو پیشگوئی جن اشخاص کے متعلق ہوتی ہے وہ انہی کی ذات پر پوری ہوتی ہے نہ کہ کسی دوسری قوم پر ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی شرط ظاہری کے سبب اس قوم کے بعض افراد خارج کیے جائیں۔ اپنی شرارت کے سبب نعماء الٰہی سے محروم رکھے جائیں وہ بھی اس صورت میں کہ پیشگوئی مشروط ہو صلاحیت سے۔
------------------------------------------------------------------
(۲۷۵) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۲۸، طبعہ ۱۹۳۲ء
(۲۷۷) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۸۹،ج۵ و روحانی ص۲۵۰، ج۲۱
(۲۷۸) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۹) فتاوٰی احمدی ص۵۳، ج۱ طبعہ ۱۹۴۳
(۲۸۰) مرزائی نور الدین جانشین اول مرزا قادیانی کا فتوٰی ، مندرجہ بدر جلد ۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۶ء ، ص۵
(۲۸۱) صحیح بخاری ص۳۸۰، ج۱ فی الشروط باب الشروط فی الجھاد
(۲۸۲) الدر المنثور ص۸۰،ج۷ و دلائل النبوۃ ص۱۶۴،ج۴
(۲۸۳) لم اجدہ
(۲۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۶۵ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۲۸۵) ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۸۶) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۱۵۵، ج۳
(۲۸۷) مضمون مرزائی اللہ دتا جالندھری ، مندرجہ الفضل ، مورخہ ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۲ء
(۲۸۸) الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ص۲ و ملفوظات مرزا ص۵۷۶، ج۴
(۲۸۹) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴، ج۵۷۵
(۲۹۰) پ۶ المائدہ آیت ۲۲
(۲۹۱) ایضاً آیت:۲۳
(۲۹۲) ایضاً ۲۵
(۲۹۳) ایضاً ۲۷
(۲۹۴) الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء و ملفوظات مرزا ص۵۷۶، ج۴
(۲۹۵) ازالہ اوہام ص۳۲ و روحانی ص۱۱۹، ج۳