• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
آٹھواں معیار:
۱: '' کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے لیے ہجرت نہ ہو۔'' (۴۱۵)
۲: '' انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔'' (۴۱۶) مرزا صاحب نے ہجرت نہیں کی۔ (۴۱۷)
نواں معیار:
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ والی آیت (جس میں ہر ایک شخص کی وفات کے بعد اس کی اولاد کو وارث قرار دیا گیا۔ ناقل) میں جو استثناء ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کی وجہ سے ہے جو بخاری و مسلم بلکہ تمام صحاح میں مذکور ہے اور وہ نَحْنُ مَعَاشِرُ الْاَنبیائِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ ہے (یعنی ہم نبیوں کا گروہ نہ کسی کا وارث ہوتا ہے نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔ ناقل) اگر کہا جائے کہ یہ حدیث اس لیے صحیح نہیں کہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ورِثُ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ (النمل ع۲) فَھَبْ لِیْ مِن لَّدُنْکَ وَلِیًّا یَّرثُنِیْ وَیَرِثْ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ (مریم ع) آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں روحانی ورثہ مراد ہے نہ کہ مالی ورثہ۔'' (۴۱۸)
عبارت بالا سے ثابت ہے کہ انبیاء کرام نہ تو خود اپنے والدین کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی آگے ان کی اولاد ان کی جائیداد کی وارث ہوتی ہے حالانکہ مرزا صاحب نے اپنے والد کی جائیداد کا ورثہ بھی پایا، (۴۱۹) اور آگے ان کی اولاد بھی وارث ہوئی (۴۲۰)۔ پس مرزا صاحب اس معیار نبوت پر بھی پورے نہیں اُترے۔
-----------------------------------------------------------------------
(۴۱۵) الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخہ ۳۰ ؍ نومبر ۱۹۰۱ء ص۴ و ملفوظات مرزا ص۵۸۸، ج۱
مرزا اس سلسلہ میں مزید لکھتے ہیں کہ ہجرت سنت انبیاء است حقیقت المہدی ص۳۱ ہر ایک نبی کے لیے ہجرت مسنون ہے، تحفہ گولڑویہ ص۱۳، ابو صہیب
(۴۱۶) براھین احمدیہ ص۱۸۰، ج۵ و روحانی ص۳۵۰، ج۲۱
(۴۱۷) تاریخ احمدیت ص۱۵۰، ج۲ وحیات احمد ص۱۹۳، ج۲، نمبر۳
(۴۱۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۴۵ طبعہ ۱۹۳۲ء نوٹ: مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت میں '' اگر کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں''سے ما قبل کی عبارت کو تو رہنے دیا ہے لیکن ما بعد کی عبارت کو نکال دیا ہے خادم مرزائی نے یہ رد و بدل ایک خاص ضرورت کے ماتحت کیا ہے وہ یہ کہ ان آیات کو انبیاء کی وراثت پر بطور دلیل پیش کرکے مولانا معمار مرحوم کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔ پاکٹ بک احمدیہ ص۱۰۸۱ طبعہ ۱۹۴۵ء۔ ابو صہیب
(۴۱۹) تاریخ احمدیت ص۳۹، ج۲ و حیات احمد ص۶۳، ج۲ نمبر۲
(۴۲۰) پاکٹ بک احمدیہ ص۱۰۸۱ طبعہ ۱۹۴۵ء
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دسواں معیار:
مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ ایک صحیح حدیث ہے:
اِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نِبَیٌّ اِلاَّ عَاشَ نِصْفَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ وَاَخْبَرنِیْ اِنَّ عِیْسی ابْنَ مَرْیَم عَاشَ عِشْرِیْنَ وَمَائۃ سنۃ فلا ارانی الا ذاھبا علٰی راس الستین واعلموا ایھا الاخوان ان ھذا الحدیث صحیح وَرَجَالُہٗ ثِقَاتٌ لَہٗ طُرُقٌ ۔ (۴۲۱)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل نے خبر دی ہے کہ ہر ایک نبی اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پاتا رہا ہے اور اس نے مجھے بتایا کہ عیسیٰ ایک سو بیس سال زندہ رہا پس میں خیال کرتا ہوں کہ ساٹھ سال کا میں اس جہاں سے رحلت کر جاؤں گا (مرزا صاحب فرماتے ہیں) بھائیو! یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی بالکل ثقہ ہیں۔ اور معتبر ہیں اور اس کی بہت سی سندیں ہیں۔''
اس بیان کی رو سے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ساٹھ سال ہوئی۔ تو مرزا صاحب کی اگر وہ صادق نبی ہوتے تو کل عمر تیس سال ہونی چاہیے تھی چونکہ وہ ۵۹ برس کے ہو کر مرے، لہٰذا وہ اپنے ہی اس مسلمہ معیارِ نبوت کی رو سے کاذب ہیں۔
اعتراض:
یہ تمام انبیاء کے متعلق نہیں، صرف حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے۔ (۴۲۲)
----------------------------------------------------------
(۴۲۱) حاشیہ حمامۃ البشرٰی ص۲۶ و روحانی ص۲۰۷، ج۷
(۴۲۲) لم اجدہ
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر چوتھی دلیل

اختلافات مرزا
لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ فَوَجَدُوْا فِیْہِ اِخْتَلَافًا کَثِیْرًا ۔ (۴۲۳)
(۱) صرف محدث غیر نبی
'' اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام۔ توضیح المرام۔ ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں سے بیان کئے گئے ہیں مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں۔ سو مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں تو وہ ان کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ ابتداء سے میری نیت جس کو اللہ خوب جانتا ہے اس لفظ سے مراد نبوت حقیقی نہیں بلکہ صرف محدث مراد ہے۔ جس کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مکلم مراد لیے ہیں یعنی محدثوں کی نسبت فرمایا:
قَدْ کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنی اِسْرَائیل رِجَالٌ یُکَلِّمُوْنَ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّکُوْنُوْ انْبِیآئَ ۔ (۴۲۴)
عبارت مندرجہ بالا سے ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ بموجب حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف محدث ہونے کا ہے جو غیر نبی ہوتا ہے ایک دوسری جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
'' نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو بحکم خدا کیا گیا ہے۔'' (۴۲۵)
------------------------------------------
(۴۲۳) پ۵ النساء آیت: ۸۳ مرزائی آیت مذکورہ کا معنی چشمہ معرفت ص۱۹۰ میں ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ اگر وہ (قرآن) خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا، انتھی بلفظہٖ۔ ابوصہیب
(۴۲۴) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ نمبر ۳۶۶
(۴۲۵) ازالہ اوہام ص۴۲۲ و روحانی ص۳۲۰، ج۳
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۱)اس کے خلاف صرف محدث ہونے سے انکار
ان (بروزی اور ظلی) معنوں کی رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں۔ اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبر پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے اگر کہو کہ اس کا نام (صرف) محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں مگر نبوت کے معنی اظہار غیب ہے۔ (۴۲۶)
اس عبارت میں صرف محدث ہونے کا انکار اور ظلی بروزی یعنی بہ فیض محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہونے کا اقرار ہے۔
-----------------------------------------------------------
(۴۲۶) اشتہار مرزا، مورخہ ۵ ؍ نومبر ۱۹۰۱ء بنام ایک غلطی کا ازالہ ، مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۴۳۵، ج۳ و روحانی ص۲۰۹، ج۱۸
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۲) غیر تشریعی نبوت کا دعویٰ
(الف):'' جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں۔ اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لیے اسی کا نام پا کر اسی کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا سو اب بھی میں انہی معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔'' الخ (۴۲۷)
(ب):'' اب بجز محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو پس اس بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔'' (۴۲۸)
اس کے خلاف تشریعی نبوت کا ادّعاء
'' اگر کہو کہ صاحب الشریعۃ افترا کرکے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری تو اول یہ دعویٰ بے دلیل ہے خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعۃ ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔'' (۴۲۹)
ہفوات نمبر ۱ کی عبارت میں اپنے دعویٰ کو لغوی غیر حقیقی نبی کہہ کر صرف محدث غیر نبی ہونے کا اقرار کیا وہ بھی از خود نہیں بلکہ بخاری شریف کی حدیث کی رو سے۔ اس کے بعد ''صرف محدث ہونے کا انکار کیا'' اور ہفوات نمبر ۲ کی پہلی تحریر میں بغیر شریعت کے نبی ہونے کا دعویٰ کیا مگر اربعین نمبر۴ کی منقولہ بالا تحریر میں صاحب الشریعۃ ہونے کے مدعی بن گئے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
(۴۲۷) ایضاً مجموعہ ص۴۳۶، ج۳ و روحانی ص۲۱۰، ج۱۸
(۴۲۸) تجلیات الھٰیہ ص۲۰ و روحانی ص۴۱۲، ج۲۰
(۴۲۹) اربعین ص۶، نمبر۴ و روحانی ص۴۳۵، ج۱۷
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۳) میرے انکار سے کوئی کافر نہیں ہو جاتا
(الف): '' ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہوسکتا۔'' (۴۳۰)
(ب): '' مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا نہیں جو ہماری ایمانیات کی جزو ی ہمارے دین کے رکنوں میں ہو۔ بلکہ صدہا پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں جس زمانہ تک پیشگوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔'' (۴۳۱)
(ج): '' اس جگہ تو ایسے انقلاب کا دعویٰ نہیں وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہی نمازیں ہیں جو پہلے تھیں۔ دین میں سے کوئی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کا دعویٰ اس حالت میں گراں اور قابل احتیاط ہوتا جبکہ اس کے ساتھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔'' (۴۳۲)
مرزا کا دعویٰ تھا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ دیا کہ وہ آئے گا۔ عبارات بالا میں مرزا صاحب صاف مانتے ہیں کہ مسیح موعود کا اقرار و انکار ایمانیات میں داخل نہیں۔ کوئی شخص میرے انکار کی وجہ سے کافر نہیں ہو جاتا۔ اس کے خلاف ملاحظہ ہو۔
میرا منکر جہنمی ، کافر غیر ناجی ہے!
(الف):'' ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔'' (۴۳۳)
(ب): '' جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا و رسول کی پیشگوئی موجود ہے۔'' (۴۳۴)
(ج):'' (اے مرزا) جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور بیعت میں داخل نہ ہوگا وہ خدا رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔'' (۴۳۵)
(د): '' اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح علیہ السلام کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔'' (۴۳۶)
مرزا کا دعویٰ تھا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی ہے بایں ہمہ پہلی تحریرات میں صاف لکھا کہ مسیح موعود کا انکار و اقرار ایمانیات میں داخل نہیں، میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ میری تعلیم میں کوئی انقلاب نہیں۔ ہماری عملی حالت دیگر مسلمانوں جیسی ہے بخلاف اس کے دوسری تحریرات میں مسیح موعود یعنی بزعم خود۔ خود بدولت کے انکار کو خدا و رسول کی پیشگوئی کا منکر کافر، بیعت نہ کرنے والے کو اور پیروی سے باہر رہنے والے کو جہنمی اپنی تعلیم کو مدارنجات ٹھہرایا ہے۔
بعض مرزائی جواب دیا کرتے ہیں کہ یہ کوئی اختلاف نہیں:
'' جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر ظاہر نہ فرمایا گیا۔ آپ انکار فرماتے رہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے توصیح فرما دی آپ نے بھی اعلان فرما دیا۔'' (۴۳۷)
الجواب:
یہاں اختلاف دعویٰ کے متعلق ہے اور ہم پہلے مرزا صاحب کی تحریرات سے ثابت کر آئے ہیں کہ براہین احمدیہ کے زمانہ سے ہی مرزا صاحب بقول خود خدا کے نزدیک نبی و رسول تھے اور یہ بھی کہ انبیاء کو ان کے دعویٰ میں غلطی نہیں ہوسکتی (۴۳۸)۔ پس مرزا صاحب کا باجود ''نبی اللہ'' ہونے کے یہ کہنا کہ ''میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا'' اور پھر کافر کہنا دلیل ہے اس بات کی کہ مرزا صاحب خدا کے نبی ہرگز نہ تھے بلکہ ایک مراقی یا حسب موقع و ضرورت خود۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لینے والے تھے۔
---------------------------------------------------------------------------------
(۴۳۰) تریاق القلوب ص۱۳۰ و روحانی ص۴۳۲، ج۱۵
(۴۳۱) ازالہ اوہام ص۱۴۰ و روحانی ص۱۷۱، ج۳
(۴۳۲) آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹ و روحانی جلد ۵ صفحہ ایضًا
(۴۳۳) مکتوب مرزا بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرحوم، مندرجہ الذکر الحکیم ص۲۳ نمبر۴ و حقیقت الوحی ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۷، ج۲۲ وتذکرہ ص۶۰۷
(۴۳۴) حقیقت الوحی ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۸، ج۲۲
(۴۳۵) مکتوب مرزا بنام بابو الٰہی بخش صاحب مورخہ ۱۶؍ جون ۱۸۹۹ء مندرجہ اشتھار مرزا مورخہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۰ء و مجموعہ اشتھارات مرزا ص۲۷۵، ج۳ وتبلیغ رسالت ص۲۷، ج۹ وتذکرہ ص۳۳۶
(۴۳۶) اربعین ص۶ نمبر ۴ و روحانی ص۴۳۵، ج۱۷
(۴۳۷) تفہیمات ربانیہ ص۲۲۳
(۴۳۸) اعجاز احمدی ص۲۶ و روحانی ص۱۳۵، ج۱۹
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۴) مسیح ابن مریم دوبارہ نازل ہوگا
{ ھُو الّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی }
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا۔ مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کے ہاتھ سے اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا۔ (۴۳۹)
اس کے خلاف
'' قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیات بینات میں مسیح کے فوت ہو جانے کا قائل ہے۔'' (۴۴۰)
'' قرآن شریف مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں۔'' (۴۴۱)
مقدم الذکر تحریر میں از روئے قرآن مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد بتائی اور مؤخر الذکر عبارت میں از روئے قرآن انکار کیا اس سے نہ صرف اختلاف ثابت ہوا بلکہ مرزا صاحب کی قرآن دانی بھی معلوم ہوگئی۔
اعتراض:
پہلے مرزا صاحب نے رسمی عقیدہ کی وجہ سے حیات مسیح تسلیم کی بعد میں بوحی الٰہی اس عقیدہ کو چھوڑ دیا۔ (۴۴۲)
جواب:
مرزا صاحب صاحب بقول خود براہین احمدیہ کے زمانہ میں ''نبی اللہ'' تھے اور ''مامور الٰہی'' اور خاص کر مامور بھی اس لیے کئے گئے کہ '' قرآن کی اصلی تعلیم'' بیان کریں لہٰذا مرزا کا ایک ایسے عقیدہ کو رسماً نہیں بلکہ بتمسک قرآن لکھنا جو آئندہ ان کے اصلی دعوے کے مخالف بننے والا تھا۔ صاف ثابت کر رہا ہے کہ وہ مفتری علی اللہ تھے۔ انبیاء کو ان کے دعویٰ میں غلطی نہیں ہوسکتی۔ ماسوا اس کے مرزا صاحب کا یہ بھی مذہب ہے کہ:
'' انبیاء اپنے کل اقوال و افعال میں خدا کے ترجمان ہوتے ہیں ان کی اپنی ہستی کچھ نہیں ہوتی، ایک کٹ پتلی کی طرح بلکہ ایک مردہ کی مانند خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔'' (۴۴۳)
پس برامین احمدیہ والا عقیدہ کبھی غلط نہیں جانا جاسکتا تاوقتیکہ انہیں مفتری علی اللہ نہ سمجھا جائے پھر مرزا صاحب کا یہ بھی قول ہے '' روح القدس کی قدسیت، ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ بلا فصل۔ ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے۔'' (یہ میرا ذاتی تجربہ ہے) (۴۴۴) خاص کر براہین احمدیہ تو وہ کتاب ہے جو بقول مرزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں رجسٹری ہوچکی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں '' خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام قطبی رکھا۔'' (مفہوم ۴۴۵)
ہاں ہاں۔ براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزا ''مؤلف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا۔'' (اشتہار براہین) (۴۴۶)
پس اس میں اصلاح کی بجائے مسیحیت پاش۔ مرزائیت سوز بارود کا جمع ہونا مرزا کے کاذب ہونے کی شہادت ہے۔
-------------------------------------------------------------
(۴۳۹) براھین احمدیہ ص۴۹۸، ج۴ و روحانی ص۵۹۳، ج۱ و تفسیر مرزا ص۱۱۱، ج۸
(۴۴۰) ازالہ اوہام ص۱۴۲ و روحانی ص۱۷۲، ج۳
(۴۴۱) ایام الصلح ص۱۴۶ و روحانی ص۳۹۲، ج۱۴
(۴۴۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۹ وکشتی نوح ص۴۷ و روحانی ص۵۰، ج۱۹
(۴۴۳) ریویو ص۷۱، ۷۲ جلد دوم مفہوم
(۴۴۴) آئینہ کمالات اسلام ص۹۳
(۴۴۵) براھین احمدیہ ص۲۴۸، ج۳ و روحانی ص۲۷۵، ج۱ وتذکرہ ص۴
(۴۴۶) اشتھار مرزا ملحقہ آخر ، سرمہ چشم آریہ و روحانی ص۳۱۹، ج۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۵) حضرت مسیح کی بادشاہت
'' حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے خبر دی تھی کہ تو بادشاہ ہوگا انہوں نے اس وحی الٰہی سے دنیا کی بادشاہی سمجھ لی۔ اسی بنا پر حواریوں کو حکم دیا کہ کپڑے بیچ کر ہتھیار خرید لو۔ مگر آخر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غلط فہمی تھی اور بادشاہت سے مراد آسمانی بادشاہت تھی۔ اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہے۔'' (۴۴۷)
اس کے خلاف
'' یہ ناخدا ترس نام کے مولوی کہتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہودیوں کا یہی حال ہے۔ حال میں ایک یہودی کی تالیف شائع ہوئی ہے جو میرے پاس اس وقت موجود ہے گویا وہ محمد حسین بٹالوی یا ثناؤ اللہ (فاتح قادیان امرتسری) کی تالیف ہے جو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس شخص یعنی عیسیٰ علیہ السلام سے ایک معجزہ بھی ظہور میں نہیں آیا اور نہ کوئی پیشگوئی اس کی سچی نکلی وہ کہتا تھا کہ داؤد کا تخت مجھے ملے گا، کہاں ملا؟ اب بتلاؤ اس یہودی اور مولوی محمد حسین اور میاں ثناؤ اللہ کا دل متشابہ ہیں یا نہیں میری کسی پیشگوئی کے خلاف ہونے کی نسبت کس قدر جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ ایک پیشگوئی بھی جھوٹی نہیں نکلی۔ مگر جو اس فاضل یہودی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر اعتراض کئے ہیں وہ نہایت سخت اعتراض ہیں کہ ان کا تو ہمیں بھی جواب نہیں آتا اگر مولوی ثناؤ اللہ یا محمد حسین یا کوئی پادری صاحبوں میں سے ان کا جواب دے سکے تو ہم ایک سو روپیہ بطور انعام اس کے حوالہ کریں گے۔'' (۴۴۸)
'' یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا جواب دینے میں حیران ہیں۔'' (۴۴۹)
ناظرین کرام! غور فرمائیے کہ عبارت میں انجیل کی بادشاہت براہین والی پیشگوئی کو بتاویل پوری ہوچکی ظاہر کرکے اس پر اعتراض کرنے والے کو بے ایمان، شریر ہٹ دھرم کا خطاب دیا ہے۔ مگر جونہی اپنی جھوٹی پیشگوئی کی رو سے زیر مواخذہ آئے جھٹ سے یہود نا مسعود کے رنگ میں رنگین ہو کر انہی کی ہاں میں ہاں ملا دی کہ '' مسیح کی کوئی پیشگوئی سچی نہ نکلی'' وہ بھی اس انداز میں کہ ''یہودیوں کے اعتراض ایسے قوی ہیں کہ ہم سے بھی ان کا جواب نہیں بن پڑتا'' گویا مسیح کی پیشگوئی سچ مچ اور یقینی طور پر جھوٹی نکلی (اف رے ظلم) اس ظلم پر ستم یہ کرتے ہیں کہ '' ایسی پیشگوئیوں پر تو نسخ بھی جاری نہیں ہوسکتا تا یہ خیال کیا جائے کہ وہ منسوخ ہوگئی تھیں۔'' (۴۵۰) دراصل یہود اس کو یوطی کے مرتد ہونے کا بھی یہی سبب تھا کہ علانیہ ہتھیار بھی خریدے گئے مگر بات سب کچی رہی اور داؤد کے تخت والی پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ (۴۵۱)
----------------------------------------
(۴۴۷) براھین احمدیہ ص۸۹، ج۵ و روحانی ص۲۵۰، ج۲۱ ملخصًا
(۴۴۸) ملخصًا ، اعجاز احمدی ص۴ تا ۵ و روحانی ص۱۱۰ تا ۱۱۱، ج۱۹
(۴۴۹) ایضًا ص۱۳ و روحانی ص۱۲۰، ج۱۹
(۴۵۰) ایضًا ص۵ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۹
(۴۵۱) ایضًا ص۶ و روحانی ص۱۱۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۶) حضرت مسیح علیہ السلام کے اخلاق پر حملہ
حضرت مسیح علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پر بد دعا کی اور دوسروں کو دعا کرنا سکھلایا۔ دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو مگر خود اس قدر بد زبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو دارالحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور برے برے نام ان کے رکھے۔ اخلاقی معلم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھلا دے۔ (۴۵۲)
اس کے خلاف
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اکثر سخت لفظ اپنے مخاطبین کے حق میں استعمال کئے ہیں۔ جیسا کہ سور ، کتے، بے ایمان، بدکار وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق فاضلہ سے بے بہرہ تھے۔ کیونکہ وہ تو خود اخلاق سکھلاتے اور نرمی کی تاکید کرتے ہیں یہ لفظ جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر جاری رہتے تھے یہ غصہ کے جوش اور مجنونانہ طیش سے نہیں نکلتے تھے بلکہ اپنے محل پر یہ الفاظ چسپاں کئے جاتے تھے۔ (۴۵۳)
پہلی عبارت میں انجیل کے سخت الفاظ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بتا کر ''جناب مسیح علیہ السلام کو بد اخلاق بد زبان'' اخلاقی معلم مگر خود اخلاق سے بے بہرہ قرار دیا ہے اور دوسری تحریر میں انہی سخت الفاظ کو عین موقع و محل کے مطابق لکھ کر ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام '' کو صاحبِ اخلاق کریم لکھا ہے۔
عذر مرزائیہ:
پہلا بیان اس بنا پر ہے کہ عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حسب موقع و محل سخت گوئی پر اعتراض کرتے ہیں۔ انہیں جواب دیا گیا ہے کہ پھر اس طرح مسیح پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر دوسرا بیان اسلامی نقطہ نگاہ کی رو سے ہے (مفہوم)۔ (۴۵۴)
الجواب:
رسالہ چشمہ مسیح (جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بد زبان لکھا گیا ہے) میں عیسائیوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت گوئی کا اعتراض نقل کرکے یہ جواب نہیں دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ، فریب اور بہتان ہے، چشمہ مسیحی تو ایک مسلمان ساکن بانس بریلی کے خط کا جواب ہے (۴۵۵) اس نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کی کتاب ینابیع الاسلام سے مسلمانوں کو ضرر کا احتمال ہے مرزا صاحب اس کے جواب میں انجیل کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں انجیل کی سختی کو ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام '' کی طرف منسوب کرکے انہیں '' بد اخلاق بد زبان قرار دیا ہے بخلاف اس کے ضرورۃ الامام کی تصنیف میں اپنی سخت گوئی پر پردہ ڈالنے کے لیے انجیل کے انہی سخت الفاظ کو اپنی پشت پناہ بنا کر عین اخلاق مناسب موقع و محل ظاہر کرتے ہیں۔ پس مرزائی جواب نفس واقع کی بنا پر نہیں بلکہ مرزا صاحب سے اعتراض اٹھانے کو ایک ذہنی و خیالی جوڑ توڑ ہے۔
------------------------------------------------
(۴۵۲) چشمہ مسیحی ص۱۱ و روحانی ص۳۴۶، ج۱۳
(۴۵۳) ضرورت الامام ص۷ و روحانی ص۴۷۷ تا ۴۷۸، ج۱۳
(۴۵۴) تجلیات رحمانیہ ص۵۴ تا ۵۴ نوٹ: بالفرض اگر تسلیم کرلیا جائے کہ مرزا نے الزامی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں! تو سوال یہ ہے کہ آیا الزامی طور پر کسی نبی کو گالیاں دینا جائز ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں! تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانا ان کو مقدس و راست باز تسلیم کرنا ضروریات دین میں سے ہے جس طرح نبی کریم علیہ السلام کی ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے اسی طرح دیگر انبیاء کی توہین کرنے والا بھی کافر و مرتد اور واجب القتل ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے '' الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص۵۶۵، مؤلفہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ مرزا جی کی اس روش کا ہی نتیجہ ہے کہ مرزائی عام بحث مباحثہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں، مثل ہے درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ (خاص قادیان کا) مرزا محمود کی زبانی ملاحظہ کریں، کہتا ہے کہ کل ہی یہاں (قادیان میں) ایک معاملہ پیش ہوا کہ بحث میں کسی نے حضرت مسیح کی نسبت گندے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ شاید وہ یہ عذر پیش کرے کہ بحث کرنے والے (عیسائی) نے چونکہ آنحضرتe کی شان میں گستاخی کی تھی اس لیے میں نے بھی ایسا کیا لیکن یہ وہی بات ہے جو ینھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی کے نیچے آتی ہے کیا ایک آدمی کے حد سے بڑھنے سے دوسرے کو بھی بڑھ جانا چاہیے؟ کیا ایک کے فحشاء و منکر سے باز نہ رہنے سے دوسرے کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے؟ ہرگز نہیں! کیا کسی کا یہ عذر قابل پذیرائی ہوسکتا ہے کہ فلاں نے چونکہ جھوٹ بولا تھا اس لیے میں نے بھی بولا ہے فلاں نے چونکہ چوری کی تھی اس لیے میں نے بھی کی ہے۔ فلاں نے چونکہ کفر بکا تھا اس لیے میں نے بھی اس کا ارتکاب کیا ہے اس قسم کے جواب (کہ میں نے مسیح کو الزامی گالیاں دی تھیں) تو دوزخی لوگ دیں گے مومن کو بہت احتیاط کرنی چاہیے اگر کوئی آنحضرت علیہ السلام کو گالی دے تو کسی مسلمان کا یہ کام نہیں کہ وہ اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح کو گالیاں دے دے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ آنحضرت علیہ السلام کو دو گالیاں دیتا ہے ایک اس بکواس کرنے والے کی معرفت اور ایک خود لیکن وہ یاد رکھے کہ یہ بہت سخت بغاوت اور سرکشی ہے کوئی معمولی گناہ نہیں (اس) سے ایمان سلب ہو جاتا ہے قرآن نے اس کا نام کفر رکھا ہے، مرزے محمود کا خطبہ جمعہ مورخہ ۱۸؍ جون ۱۹۱۵ء مندرجہ الفضل ۲۲؍ جون ۱۹۱۵ء بحوالہ خطبات محمود ص۳۵۷ تا ۳۵۹، ج۴ ملخصاً ۔ ابو صہیب
(۴۵۵) چشمہ مسیحی ص ب و روحانی ص۳۳۶، ج۲۰
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۷) انجیل کی تعلیم حلم منجانب اللہ نہ تھی
'' حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودی علماء کو سخت گالیاں دیں۔ پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا، خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے؟ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔'' (۴۵۶)
اس کے خلاف
مرزا صاحب قرآن مجید کی مناسب فطرت اور عالمگیر تعلیم ''برمحل نرمی و برموقع سختی کا ذکر کرکے لکھتے ہیں:
'' انجیل کی تعلیم اس کمال کے مرتبے سے جس نے نظامِ عالم، مربوط و مضبوط ہے، تنزل و فروتر ہے، اس تعلیم کو کامل خیال بھی بھاری غلطی ہے یہ ان ایام کی تدبیر ہے کہ جب قوم بنی اسرائیل کا اندرونی رحم بہت کم ہوگیا تھا اور خدا کو منظور تھا کہ جیسا وہ لوگ مبالغہ سے کینہ کشی کی طرف مائل تھے ایسا ہی بہ مبالغہ تمام رحم اور در گزر کی طرف مائل کیا جاوے لیکن یہ رحم اور درگزر کی تعلیم ایسی تعلیم نہ تھی جو ہمیشہ کے لیے قائم رہ سکتی بلکہ مختص المقام چند روزہ انتظام تھا۔'' (۴۵۷)
ایسا ہی احمدیہ پاکٹ بک والے نے بھی صفحہ ۴ پر لکھا ہے۔
حاصل یہ کہ چشمہ مسیحی کی عبارت میں انجیل کی تعلیم حلم و درگزر کو غیر منجانب اللہ لکھا مگر براہین میں من عنداللہ۔ (۴۵۸)
------------------------------------------------------------------
(۴۵۶) ایضاً ص۱۳ و روحانی ص۳۴۶، ج۲۰
(۴۵۷) براھین احمدیہ ص۳۵۷ تا ۳۵۹، ج۴ و روحانی ص۴۲۶ تا ۴۲۹، ج۱
(۴۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۴ طبعہ ۱۹۳۲ء
 
Top