• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۸)ختم نبوت
۱: '' چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا، اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔'' (۴۵۹)
۲: '' قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ اس اُمت میں سلسلہ خلافت دائمی کا اسی طور پر قائم کیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں قائم تھا، صرف اسی قدر لفظی فرق رہا کہ اس وقت تائید دین کے لیے نبی آتے تھے، اور اب محدث آتے ہیں۔'' (۴۶۰)
۳: نہ مجھے دعویٰ نبوت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا قائل اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں آنجناب کے بعد اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا نیا ہو یا پرانا اور قرآن شریف کا ایک نقطہ یا شوشہ منسوخ نہیں ہوگا ہاں محدث آئیں گے جو اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور نبوت تامہ کے بعض صفات ظلی طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں اور بلحاظ بعض وجوہ شان نبوت کے رنگ سے رنگین کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک میں ہوں (گویا ایسے بہت سے ہوتے ہیں۔ناقل) (۴۶۱)
ایسا ہی ہم ہفوات مرزا نمبر ۱ میں اشتہار مرزا نقل کر آئے ہیں کہ مرزا ختم نبوت کا قائل اور دعویٰ نبوت سے انکاری ہے اور '' صرف محدث غیر نبی'' ہونے کا مدعی ہے۔
اس کے خلاف
'' در حقیقت یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں۔ ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے نبوت ہی باطل ہوتی ہے۔ کیا ہم ختم نبوت کے یہ معنی کرسکتے ہیں کہ وہ تمام برکات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ملنی چاہئیں تھیں وہ سب بند ہوگئے (۴۶۲) خدا کا یہ قول ولٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیْینَ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لیے مہر ٹھہرائے گئے ہیں۔ یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی مہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا غرض اس آیت کے یہ معنی تھے جن کو الٹا کر نبوت کے آئندہ فیض سے انکار کردیا گیا۔ نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے کو ظلی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتع کردے۔'' (۴۶۳)
'' ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔'' (۴۶۴)
پہلی تحریرات میں ختم نبوت کا اقرار ہے دوسری میں انکار۔
--------------------------------
(۴۵۹) شھادت القرآن ص۲۸ و روحانی ص۳۲۴، ج۶
(۴۶۰) ایضاً ص۶۰ و روحانی ص۳۵۶،ج۶
(۴۶۱) نشان آسمانی ص۳۰ تا ۳۱ و روحانی ص۳۹۰ تا ۳۹۱، ج۴
(۴۶۲) چشمہ مسیحی ص۶۷ و روحانی ص۳۸۳، ج۲۰
(۴۶۳) ملخصًا ایضاً ص۷۴ و روحانی ص۳۸۸، ج۲۰ و تفسیر مرزا ص۶۶، ج۷
(۴۶۴) بدر جلد ۷ نمبر۹ مورخہ ۵ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۳، ۱۷ مورخہ ۶ ؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷، ج۵ و حقیقت النبوۃ ص۲۱۳
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۹) مسیح نیک تھا
۱: '' حضرت مسیح علیہ السلام تو ایسے خدا کے متواضع اور حلیم اور عاجز اور بلقیس بندے تھے جو انہوں نے یہ بھی روا نہ رکھا جو کوئی ان کو نیک آدمی کہے۔'' (۴۶۵)
۲: حضرت مسیح علیہ السلام تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے۔'' (۴۶۶)
اس کے خلاف
'' یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چال چلن۔'' (۴۶۷)
مرزائی عذر:
ست بچن میں کفارہ کے ابطال میں انجیل سے الزامی جواب دیا ہے۔ چنانچہ جس عبارت پر حاشیہ ہے اس کے یہ الفاظ ہیں:
'' یسوع کے مصلوب ہونے سے اس پر ایمان لانے والے گناہ سے رک نہیں سکتے۔'' الخ (۴۶۸)
الجواب:
ہمارا اعتراض یہ نہیں کہ کفارہ پر ایمان لانے سے عیسائی گناہ سے بچے یا نہ۔ ہمارا اعتراض تو یہ ہے کہ انجیل کا ایک ہی فقرہ ہے جسے حضرت یسوع مسیح کے انکسار و تواضع کا ثبوت بھی بنایا گیا ہے اور دوسری جگہ اپنی نفساتی عادت ''دشنام طرازی'' کے ماتحت اسی فقرہ کو مورد اعتراض بتایا ہے۔
-------------------------------------------------
(۴۶۵) براھین احمدیہ ص۱۰۲، ج۱ و روحانی ص۹۴، ج۱
(۴۶۶) چشمہ مسیحی ص۵۷ و روحانی ص۳۷۵، ج۲۰
(۴۶۷) ست بچن ص۱۷۲ و روحانی ص۲۹۶، ج۱۰
(۴۶۸) ایسا معترض در اصل مرزا جی کی تحریرات کا رنگ بدل کر حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ : یہی وہ سِر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک استاد تو انہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ اس پر آج کل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا۔ حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خدا تعالیٰ ہی سے آتی ہے۔ وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ اترتی ہے وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کرلے مگر ان نادانوں نے ایک عمدہ اور قابل قدر بات کو معیوب بنا دیا اور حضرت عیسیٰ کو متکبر ثابت کیا! حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے۔ الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۵ء ص۲ وملفوظات مرزا ص۲۱۳، ج۴ و تفسیر مرزا ص۱۴۸، ج۴۔ مرزا کی اس عبارت سے واضح ہے کہ ست بچن کی عبارت الزامی نہیں ہے کیونکہ ''تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے'' کا جو مفہوم مرزا جی نے بیان کیا ہے وہ عیسائیوں کے مسلمات میں سے نہیں! بلکہ اُن کے نزدیک اس کا یہ معنی ہے کہ تو مجھے نیک کی بجائے خدا کیوں نہیں کہتا جیسا کہ خود مرزا نے اعتراف کیا ہے، مگر الزامی جواب میں یہ ضروری ہے کہ جواب فریق ثانی کے مسلمات سے ہو ورنہ الزامی جواب نہ ہوگا لہٰذا گزارش ہے کہ عقل کے ناخن لو کیا کہہ رہے ہو۔ (ابو صہیب)
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
(۱۰) یسوع کی روح والا انسان شریر مکار
'' ایک شریر مکار نے جس میں سراسر یسوع کی روح تھی۔'' (۴۶۹)
اس کے خلاف
'' مجھے (خدا نے) یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا اور تو اور طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی۔'' (۴۷۰)
مرزائیوں کی رسول دشمنی کلماتِ نبویہ میں اختلاف ثابت کرنے کی ناپاک سعی
اعتراض اوّل:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو موسیٰ علیہ السلام سے اچھا نہ کہو'' بخاری فی الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص)
مگر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں تمام انبیاء کا سردار ہوں۔ (۴۷۱)
الجواب:
(۱) مرزائی معترض کا یہ کہنا کہ حدیث '' مجھ کو موسیٰ علیہ السلام سے اچھا نہ کہو'' اور '' جو یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں'' وہ جھوٹ بولتا ہے ''پہلے فرمایا اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: میں تمام انبیاء کا سردار ہوں۔'' مرزائی معترض ثبوت پیش کرے اور بتائے کہ کہاں لکھا ہے کہ پہلی دو حدیثیں پہلے بیان فرمائیں۔ اور تیسری بعد میں بیان فرمائی۔ ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ''میں تمام انبیاء کا سردار ہوں'' پہلے فرمایا اور پھر خاص واقعات کی بنا پر، چند افراد کے دلوں سے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے خلاف جذبات نفرت و حقارت دور کرنے کی خاطر فرمایا کہ ''موسیٰ سے مجھ کو، اچھا نہ کہو'' اس کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ انبیاء سابقہ کے متعلق بھی لوگ نیک جذبات رکھیں اور کہیں مقابلے میں ان کے متعلق گستاخانہ کلمہ منہ سے نہ نکالیں۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے لے کر وصال الٰہی تک بالیقین اسی عقیدہ پر قائم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے سردار ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی اکثر آیات شاہد ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر انبیاء کے متعلق بھی ایسا ہی فرمایا کہ ان میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذَبَ (۴۷۲) ۔
لاریب ایک نبی اللہ کا نام لے کر دوسرے کو اس پر فضیلت دینا ممنوع ہے لیکن بصورت تعبیر، کیونکہ اس طرح باہمی انبیاء میں منافرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسلام آیا ہے تمام انبیاء کے احترام کو قائم کرنے کے لیے لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ (۴۷۳) بات یہ ہے کہ اظہار فضیلت بصورتِ تعییر در شے ہے اور بطور اظہار حقیقت کے شئی دیگر۔ ممنوع پہلا حصہ ہے نہ دوسرا۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء کرام آپس میں فی الحقیقت بھی ایک درجے کے ہیں۔ قرآن پاک شاہد ہے کہ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ (۴۷۴) جماعت انبیاء سے ہم بعض کو بعض پر فضیلت دے چکے ہیں:
'' خا ص کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو وہ شان ہے کہ تمام انبیاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد پر کمر بستہ ہونے کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہوا ہے۔'' (حقیقۃ الوحی مصنفہ مرزا ص۱۳۰)
۲: بڑے کو گھر تک پہنچانے کے لیے ہم اسی جواب پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ مرزا صاحب کے ہاتھ سے مرزائیوں کے کذب پر مہر تصدیق ثبت کراتے ہیں سنیے اور گوش ہوش سے سنیے:
لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن (۴۷۵) کی تفسیر میں مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' اس آیت میں ان نادان موحدوں کا رد ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متی سے بھی زیادہ فضیلت نہ دی جائے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تب وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی۔ ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط کے نیچے ''احقر عباد اللہ'' لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارتِ نفس ہے۔'' (۴۷۶)
مرزا صاحب کے قول کے بموجب معترض میں ''نادانی اور شرارتِ نفس'' پائی جاتی ہے۔
اعتراض دوم:
بخاری شریف میں ایک حدیث ہے وَاَتَی النَّبِیُ ﷺ بَنی حارثۃ فَقَالَ یَا بنی حَارِثَۃَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَم ثم التفت فقال بل اَنْتُمْ فِیْہِ (بخاری کتاب الحج باب حرم المدینہ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی حارثہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور فرمایا، اے بنی حارثہ تم لوگ حرم سے باہر نکل گئے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر ادھر دیکھ کر فرمایا: نہیں تم حرم کے اندر ہو '' اب قَدْ خَرَجْتم من الحرم اور بل اَنتم فیہ میں تناقض ہے یا نہیں؟'' (۴۷۷)
الجواب:
اس حدیث میں تو مرزائی معترض مصنف مرزائی پاکٹ بک کی یہودیانہ تحریف نے یہودیوں کے بھی خصائص مروجہ کو مات کردیا ہے۔ جو لفظ اس کی تحریف کا اظہار کرنے والا تھا، اسے ہضم ہی کر گیا۔ حدیث میں اُرَاکُمْ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ (۴۷۸) یعنی میں گمان کرتا ہوں کہ تم حرم سے نکل گئے ہو۔ اُرَاکُمْ مجہول کا ایسا صیغہ ہے جو ظن و گمان کے معنی دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو کتب لغت حدیث مثل نہایہ ابن اثیر وغیرہ(۴۷۹)۔ اسی لیے بخاری شریف کے حاشیہ پر اس کے تحت میں لکھا ہے:
جَزَمَ بِمَا غَلَبَ عَلٰی ظَنِّہٖ ۔
پس ابتداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظن و گمان کے تحت فرمایا کہ تم حرم سے نکل گئے ہو۔ مگر بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے '' ادھر ادھر'' دیکھا اور معلوم کیا کہ وہ حرم سے نہیں نکلے تو فرمایا نہیں تم اندر ہی ہو۔ یہ تناقض کہاں ہوا ۔ فَبَطَلَ مَاکَانُوْا یَاْفِکُوْنَ آہ :
الٹی سمجھ کسی کو بھی ہرگز خدا نہ دے
دے آدمی کو موت پر یہ بد ادا نہ دے

تیسرا اعتراض:
بعض دفعہ ناسمجھی سے معترض تناقض سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل تناقض نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن مجید کی آیت { وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدٰی }اور { ما ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی } میں۔ (۴۸۰)
الجواب:
یہ سیاہ باطن انسان کیسی چالیں چل رہا ہے۔ کفر باطنی تو جوش مارتا ہے کہ لگے ہاتھوں قرآن پر بھی ہاتھ صاف کرکے مرزائی نبوت کے ساتھ اُسے بھی دنیا میں ذلیل کردوں۔مگر قرآنی آہنی دیوار سے سر ٹکرانا باعث ہلاکت سمجھ کر نادانی اور ناسمجھی کے قلعہ میں پناہ گزین ہوتا ہے۔
جس طرح یہ صحیح ہے کہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ ایک مراقی انسان کے پیروؤں میں بھی مراق کا اثر ہو۔ احمدیہ پاکٹ بک کا مصنف مرزا صاحب کے ہفوات کی مدافعت کرتا کرتا خود ہی تخالف و تہافت کے اندھے کنوئیں میں اوندھے بل گرا ہے۔
اب مرزا صاحب کے قلم سے اس کا مطلب سنیے اور اپنے ملحدانہ عقائد سے توبہ کیجیے:
وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدٰی اب ظاہر ہے کہ ضَال کے معنی مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں۔ گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ) تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقاد رکھے کہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو کافر بے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہئیں جو آیت کے سیاق و سباق سے ملتے اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوی وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدٰی وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی یعنی خدا نے تجھے یتیم اور بے کس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال (یعنی عاشق وجہ اللہ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کردیا۔'' (۴۸۱)
-------------------------------------------------------
(۴۶۹) ضمیمہ انجام آتھم ص۵ و روحانی ص۲۸۹، ج۱۱
(۴۷۰) تحفہ قیصریہ ص۲۰ و روحانی ص۲۷۲، ج۱۲
(۴۷۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۱، طبعہ ۱۹۳۲ء
(۴۷۲) صحیح بخاری ص۶۶۲، ج۲ کتاب التفسیر باب یستفتونک قل اللّٰہ یفتیکم فی الکلالۃ مسلم ص
(۴۷۳) پ۳ البقرہ آیت ۲۸۶
(۴۷۴) پ۳ البقرہ آیت ۲۵۴
(۴۷۵) پ۸ الانعام آیت: ۱۶۴
(۴۷۶) آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۳ و تفسیر مرزا ص۱۳۴، ج۴ و روحانی ص۱۶۳، ج۵
(۴۷۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۲ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۴۷۸) صحیح بخاری ص۲۵۱، ج۱ فی الفضائل باب حرم المدینۃ
(۴۷۹) لغات الحدیث ص۷، ج۲ کتاب الراء المہملۃ ولسان العرب ۲۔۳۰۴، ج۱۴ وتاج العروس ص۱۴۳، ج۱۰
(۴۸۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۳۹، طبعہ ۱۹۴۵ء
(۴۸۱) آئینہ کمالات اسلام ص۱۷۰ تا ۱۷۱ و تفسیر مرزا ص۴۰۷، ج۸ و روحانی ص۱۷۰ تا ۱۷۱، ج۵
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
کذب مرزا پر پانچویں دلیل

کذبات مرزا
پہلا جھوٹ:
''اول تم میں سے مولوی اسماعیل علی گڑھ نے میرے مقابل پر کہا کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو دس سال کے قریب ہوچکے وہ مر گیا۔ (۴۸۲)
مولوی اسمٰعیل نے یہ کہیں نہیں لکھا اور نہ کہا۔ ثبوت بذمہ مدعی۔
دوسرا جھوٹ:
دیکھو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔(۴۸۳)
ایسا ہی صفحہ ۴۹، ۵۰، ۶۳، انجام آتھم (۴۸۴) میں لکھا ہے حالانکہ قرآن پاک میں کہیں نہیں لکھا کہ میں مفتری کو جلد ہلاک کرتا ہوں۔ بلکہ اس کے الٹ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۔ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ۔ (۴۸۵) (سورۂ یونس ع) جو لوگ خدا پر افترا کرتے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے؟ ہاں دنیا میں انہیں نفع ہو تو ہو۔ ماسوا اس کے خود مرزا صاحب کو اقرار ہے کہ مفتری کو ۲۳ سال تک مہلت مل سکتی ہے زیادہ نہیں ملاحظہ ہو ص۶ اربعین نمبر ۴، و ص۲ ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ وغیرہ۔(۴۸۶)
تیسرا جھوٹ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم علیہ السلام پر قیامت آجائے گی۔(۴۸۷)
یہ صریح جھوٹ ہے۔ بہتان ہے افترا ہے۔ کسی حدیث میں نہیں کہ تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال تک قیامت آجائے گی۔
چوتھا جھوٹ:
انبیاء گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ وہ (مسیح موعود) چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا۔ (۴۸۸)کسی نبی کا ایسا کشف موجود نہیں جس میں یہ لکھا ہو۔
پانچواں جھوٹ:
بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس (مسیح موعود خلیفہ) کے لیے آواز آئے گی ھذا خلیفۃ اللّٰہِ الْمَھْدِیْ ۔ (۴۸۹)
بخاری میں یہ حدیث نہیں ہے۔
مرزائی کہا کرتے ہیں فلاں امام نے فلاں حدیث بحوالہ بخاری لکھی جو اس میں نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بھی اسی طرح کی غلطی ہے۔(۴۹۰)
جواب:
اس کا یہ ہے کہ ان کا دعویٰ مرزا کی طرح یہ نہیں تھا کہ '' روح القدس'' کی قدسیت ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ، بلا فصل ملہم (خود بدولت) کے اندر کام کرتی رہتی ہے۔(۴۹۱)
چھٹا جھوٹ:
تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فہم قرآن میں ناقص تھا اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔(۴۹۲)
یہ بھی ایک گندہ اور ناپاک جھوٹ ہے ہرگز تفسیر ثنائی میں یہ نہیں لکھا ہے۔
ساتواں جھوٹ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔ (اشتہار تمام مریدوں کے لیے عام ہدایت مندرجہ اخبار الحکم ۲۴؍ اگست ۷ء) ۔(۴۹۳)
یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔
آٹھواں جھوٹ:
(میری پیشگوئی عبداللہ آتھم) میں یہ بیان تھا فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو مجھ سے وہ پہلے مر گیا۔(۴۹۴)
حالانکہ پیش گوئی میں تھا کہ جو شخص غلط عقیدہ پر ہے وہ پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ مگر مرزا صاحب اس جگہ پندرہ ماہ کی قید اڑا کر پیش گوئی کو وسیع کر رہے ہیں۔
نواں جھوٹ:
احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا امام ہوگا۔ (۴۹۵)
یہ بھی جھوٹ ہے کسی حدیث میں مسیح کا چودھویں صدی میں آنا نہیں لکھا۔
دسواں جھوٹ:
تین ہزار بار یا اس سے بھی زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیشگوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں پوری ہوچکی ہیں۔(۴۹۶)
حالانکہ اس کے بعد ۱۹۰۱ء میں مرزا صاحب '' ایک غلطی کا ازالہ'' کے ص۶ پر لکھتے ہیں:
'' پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں۔(۴۹۷)
جھوٹوں پر مرزا صاحب کا فتویٰ
۱: '' وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔ مگر اس آریہ میں اس قدر بھی شرم باقی نہ رہی۔'' (۴۹۸)
۲: '' جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔'' (۴۹۹)
۳: '' جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔'' (۵۰۰)
۴: '' جھوٹ ام الخبائث ہے۔'' (۵۰۱)
۵: '' جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔''(۵۰۲)
لعنت ہے مفتری پر خدا کی کتاب میں
عزت نہیں ہے ذرہ بھی اس کی جناب میں(۵۰۳)
------------------------------------------
(۴۸۲) نزول المسیح ص۳۱ و روحانی ص۴۰۹، ج۱۸ ، نوٹ: مولانا اسماعیل مرحوم علی گڑھی معروف اہل حدیث عالم تھے آپ نے مرزا کے رد میں القول الصریح فی تکذیب مثیل المسیح ، کے نام سے ایک مفصل کتاب بھی لکھ کر شائع کی تھی ۱۳۱۱ھ میں علی گڑھ میں وفات پائی، نزھۃ الخواطر ص۵۴، ج۸ ۔ ابو صہیب
(۴۸۳) نشان آسمانی ص۳۷ و روحانی ص۳۹۷، ج۴
(۴۸۴) روحانی خزائن ص۴۹ ، ۵۰ ، ۶۳، ج۱۱ و مجموعہ اشتھارات ص۲۸۱، ج۲
(۴۸۵) پ۱۱ یونس آیت: ۷۰، ۷۱
(۴۸۶) دیکھئے روحانی ص۴۳۵، ۴۶۸، ج۱۷ و تفسیر مرزا ص۲۱۳، ج۸
(۴۸۷) ازالہ اوہام ص۲۵۲ و روحانی ص۲۲۷، ج۳،
(۴۸۸) اربعین ص۴۳نمبر ۲ و روحانی ص۳۷۱، ج۱۷ ، نوٹ: اربعین کی عبارت میں اولیاء گزشتہ کے کشوف کا ذکر ہے چنانچہ اربعین کے پہلے اور دوسرے ایڈیشنوں میں علی الترتیب ص۲۳ و ۲۵ میں، اولیا گزشتہ' ہی کا لفظ ہے۔ ہاں اربعین کے ایک ایسے ایڈیشن میں جو بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان، کی طرف سے شائع ہوا تھا میں، انبیاء گزشتہ کے کشوف کا ذکر ہے۔ مگر مؤلف مرزائی پاکٹ بک کا کہنا ہے کہ یہ کتاب کی غلطی ہے۔ (ص ۹۰۳)
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرزا نے صاف لکھا ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود کا آنا جس قدر حدیثوں سے قرآن سے اولیاء کے مکاشفات سے بپایہ ثبوت پہنچتا ہے حاجت بیان نہیں، شھادت القرآن ص۹۶ و روحانی ص۳۶۵، ج۶ ۔ یہ عبارت اس بات کی دلیل ہے کہ مرزا نے اسی سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیا ہے کیونکہ مسیح موعود کا چودھویں صدی میں قرآن و حدیث نے قطعاً بیان نہیں کیا۔ ابوصہیب
(۴۸۹) شھادت القرآن ص۴۱ و روحانی ص۳۳۷، ج۶
(۴۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۸۸۷ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۴۹۱) حاشیہ آئینہ کمالات اسلام ص۹۳ و روحانی ص۹۳، ج۵
(۴۹۲) براھین احمدیہ ص۲۳۴، ج۵ و روحانی ص۴۱۰، ج۲۱
(۴۹۳) الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۷ء
(۴۹۴) کشتی نوح ص۶ و روحانی ص۶، ج۱۹
(۴۹۵) براھین احمدیہ ص۱۸۸، ج۵ و روحانی ص۳۵۹، ج۲۱
(۴۹۶) حقیقت المھدی ص۱۵ و روحانی ص۴۴۱، ج۱۴
(۴۹۷) مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۴۳۵، ج۳ وروحانی ص۲۱۰، ج۱۸ و حقیقت النبوۃ ص۳۶۴
(۴۹۸) شمنہ حق ص۴۶ و روحانی ص۳۸۶، ج۲
(۴۹۹) اربعین ص۲۰، نمبر ۳ و روحانی ص۴۰۷، ج۱۷ حاشیہ
(۵۰۰) حقیقت الوحی ص۲۰۶ و روحانی ص۲۱۵، ج۲۲
(۵۰۱) تبلیغ رسالت ص۲۸، ج۷
(۵۰۲) چشمہ معرفت و ۲۲۲ و روحانی ص۲۳۱، ج۲۳
(۵۰۳) نصرۃ الحق ص۱۱ و روحانی ص۲۱، ج۲۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراضوں کا جواب

(۱)صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کے سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ یکْنِ الَّذِیْنَ کَفُروْا والی سورت پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیَفِیتَّہُ الْمُسْلِمَۃَ ولَا یَھُوَدِیَّۃَ اب اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الدین عند اللّٰہ الی الاخر کو قرآن مجید لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا والی سورت کی آیات قرار دیا ہے۔ ذرا کوئی مولوی لَمْ یَکُنَ الَّذِیْنَ والی سورت تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ نکال کر دکھا دیں۔(۵۰۴)
الجواب:
قرآن پاک عربی مبین میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عربی نژاد ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو ان پر آیات پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی کیا وجہ! کیا وہ خود ان آیات کا لفظی ترجمہ نہیں جان سکتے تھے؟ یقینا پھر بات کیا ہے؟ قرآن پاک شاہد ہے کہ گروہ صحابہ میں سے ایک طائفہ تبلیغ و تفہیم قرآن کے لیے بالخصوص مخصوص تھا جن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بحکم خدا ان پر آیات کی تلاوت کرنا تعلیم الفاظ و کیفیت آداب و مواضع الوقوف کی تفہیم و مطالب قرآنیہ کی تشریح کے لیے تھا۔ لہٰذا صاف عیاں ہے کہ الفاظوَاِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَیِنْفِیَّۃُ بطور تفسیر ہیں۔
خود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سورہ لَمْ یکن الذین پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا۔ صاف دال ہے کہ وہ خود بھی ان الفاظ کو قرآن نہیں بلکہ تفسیر سمجھتے تھے۔
مرزائی صاحب چونکہ دل سے جانتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے اس لیے بموجب ضرب المثل ''چور کی داڑھی میں تنکا'' آگے چل کر بطور خود جواب بھی دیتے ہیں کہ:
'' یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث مذکورہ بالا میں لفظ قَرَأَ فِیْھَا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورت کی تفسیر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ورنہ قال فِیْھَا کہنا چاہیے تھا۔(۵۰۵)
گویا معترض ان الفاظ کو تفسیر ماننے کو تیار ہے اگر قَالَ فِیْھَا ہوتا۔ بہت خوب:
راہ پر آگیا ہے وہ خود باتوں میں!
اور کھل جائے گا دو چار ملاقاتوں میں

قَرَأَ کا لفظ قرآن کے لیے مخصوص نہیں۔ دیگر گفتگو پر بھی آتا ہے۔(۵۰۶) بخاری کتاب العلم باب القراء ۃ والعرض علی المحدث کو غور سے پڑھیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مفہوم قرآن پر بھی قرأۃ کا لفظ اہل عرب (بالخصوص جملہ محدثین) کے نزدیک مستعمل ہے چنانچہ امام المحدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ الباری مفہوم اور معانی قرآن پر قرأت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ضمام بن ثعلبۃ انہ قال للنبی ﷺ اللّٰہُ اَمَرَکَ ان نصلی الصلوٰۃ قَالَ نَعَمَ قَالَ فَھٰذہ القراء ۃ علی النبی ﷺ (بخاری کتاب العلم باب مذکورہ)(۵۰۷) ضمام بن ثعلبہ کا واقعہ ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اللّٰہُ اَمَرَکَ کیا خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں فرمایا ہاں! امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قرأت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
فرمایا اللّٰہ اَمَرَکَ قرآن کے لفظ ہیں؟ نہیں۔ پھر دیکھئے اس پر امام المحدثین قرأۃ کا لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنیے قرآں پاک سے مثال دیتا ہوں قیامت کے دن جب دشمنان دین معاندین رسول، دست و پا بستہ دربارِ خداوندی میں حاضر کئے جائیں گے تو انہیں فرمان ہوگا۔ اِقَرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا ۔(۵۰۸) بدبخت آج تو خود ہی اپنے نامہ اعمال کو پڑھ لے۔
فریب خوردہ انسان ! کیا اس دن خدا پر بھی اعتراض کرے گا کہ قَرَأَ کا لفظ تو صرف قرآن پر مخصوص ہے۔ الٰہی تو میرے سیاہ نامے پر اسے کیوں استعمال کر رہا ہے؟ غالباً نہیں، یقینا جواب یہی ملے گا کہ :
تو آشنائے حقیقت نۂٖ خطا اینجاست
ایک اور طرز سے:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں، جنہیں عہد نبوی میں جمع قرآن کی خدمت سپرد ہوئی تھی عَنْ اَنَسٍ جَمَعَ الْقُرْاٰنَ عَلٰی عَھْدِ النَّبی ﷺ اَرَبَعَۃٌ کُلُّھْمَ مِنْ اَنْصَارٍ اُبَیٌّ وَ مُعَاذ بن جبل وابو زید وزید بن ثابتٍ (بخاری باب مناقب ابی بن کعب)(۵۰۹) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار بزرگوار انسان انصاری، جمع قرآن کی خدمت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے خذوا القران من اَرْبَعَۃٍ مِنَ عبداللّٰہ بْنِ مَسَعُوْدٍ وَسَالِمٍ مَوْلٰی اَبْی حُذَیْفَۃَ وَمُعَاذ بن جَبَلٍ وَابی بن کعب (حوالہ مذکورہ) قرآن چار شخصوں سے سیکھو جن میں ایک ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اندریں حالات اگر زیر بحث الفاظ قرآن کے ہوتے یا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انہیں قرآن میں شمار کرتے تو پھر کم از کم ان کے جمع کردہ قرآن میں تو ان الفاظ کو موجود و مرقوم ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں۔ اس لیے مہر نیم روز کی طرح روشن ہے کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو قرآن ظاہر کیا اور نہ ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن سمجھا۔ پس مرزائی اعتراض سراسر کور چشمی بلکہ سیاہ قلبی پر مبنی ہے۔
----------------------------------------------------------------------------------
(۵۰۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۱ و ۴۶۲ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۸۷، ۸۸۸ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۰۵) ایضاً ص۴۶۲
(۵۰۶) صحیح بخاری ص۱۴، ج۱
(۵۰۷) ایضاً نوٹ: یہ قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ انہوں نے اپنے شیوخ سے اسے نقل کیا ہے امام بخاری کے الفاظ ہیں کہ واحتج بعضھم فی القراۃ علی العالم بحدیث ضمام بن ثعلبۃ ، صحیح بخاری ص۱۴، ج۱ اور قائل اس قول کے ابو سعید الحداد ہیں جیسا کہ امام بیہقی کے حوالے سے حافظ ابن حجر نے، فتح الباری ص۱۲۱، ج۱ میں اور محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص۳، ج۲ میں صراحت کی ہے۔ ابو صہیب
(۵۰۸) پ۱۵ بنی اسرائیل آیت : ۱۵
(۵۰۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۴ طبعہ ۱۹۳۲ء و ۹۰۳ طبعہ ۱۹۴۵ء
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
جھوٹ نمبر ۲:
بخاری (کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی نے کانے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، ہر ایک نبی کا فرداً فرداً اپنی اپنی قوم کو جن کتابوں میں دجال سے ڈرانا لکھا ہے وہ کتابیں پیش کرو۔(۵۰۹)
جواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوحی اللہ اور ہر نبی کا دجال سے ڈرانا فرمایا ہے۔ ہاں اگر کسی کتاب کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرماتے اور اس کتاب میں نہ ہوتا تو البتہ ایک بات تھی۔ مگر اب تو یہ اعتراض بعینہٖ یہ معنی رکھتا ہے۔
کم من عائب قولا صحیحا
واٰفتہ من الفھم السقیم
(۵۱۰)
یعنی ع
گل است سعدی و درچشم دشمناں خاراست
(۲) بفرض محال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالہام کسی نبی کی کتاب کا نام بھی لیتے تو بھی اس وقت تک اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا جب تک کہ بسند معتبر اس نبی کی کتاب کو پیش کرکے اس میں اس کی عدم موجودگی نہ ثابت کی جائے پس اگر تم میں ہمت ہے تو انبیاء سابقہ کی اصلی کتابیں لاؤ ہم ان شاء اللہ ان سے دکھا دیں گے کہ ہر ایک نے دجال سے ڈرایا ہے، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارۃٍ اُعِدَّتَ لِلْکٰفِرِیْنَ ۔(۵۱۱)
-----------------------------------
(۵۰۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۴ طبعہ ۱۹۳۲ء و ۹۰۳ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۱۰) صحیح بخاری ص۵۳۷، ج۱ فی المناقب باب مناقب ابی بن کعب
(۵۱۱) پ۱ البقرہ آیت : ۲۴
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
جھوٹ نمبر ۳
حدیث ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب:
قرآن پاک میں ہے کہ جناب ابراہیمp نے کفار کے بتوں کو توڑا فَجَعَلَھُمْ جُذَ اذًا اِلاَّ کَبیرًا لَھُمْ لَعَلَّھُمْ اَلَیَہِ یَرجِعُوْنَ ۔(۵۱۲) کردیا ان کو ٹکڑے ٹکڑے مگر بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع ہوں جب وہ بت خانے میں آئے اور اپنے معبودوں کی درگت دیکھی تو قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا۔ (۵۱۳) بولے ہمارے خداؤں کی یہ دروشاکس نے بنائی ہے کسی نے کہا ابراہیم علیہ السلام نے۔ تب حضور علیہ السلام کو بلا کر کہنے لگے ئَ اَنَْ فَعَلْتَ کیا یہ تو نے کیا ہے؟ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذا فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے۔(۵۱۴)
ایسا ہی ایک واقعہ سورہ والصفت میں مرقوم ہے کہ کفار نے آپ کو اپنے ساتھ آنے کی درخواست کی چونکہ آپ تہیہ فرما چکے تھے کہ آج ان کے بتوں کو توڑ دوں گا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اِنی سَقِیْمٌ میں بیمار ہوں۔ اسی طرح ایک یہ واقعہ ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا۔(۵۱۵)
ان تین واقعات میں پہلے دو واقعات تو سراسر ہمدردی مخلوق پر مبنی ہیں یعنی گمراہ ہوئی قوم کے لیے بتوں کو توڑنا وہ بھی اس طرح کہ آپ پہلے سے کہہ چکے تھے وَ تَا للّٰہِ لَاَکِیْدَن اَصْنَا مَکُمْ بَعْدَ اَنُ تُوَلُّوْ مُدْبِرِیْنَ (۵۱۶) خدا کی قسم جب تم چلے جاؤ گے میں تمہارے بتوں سے ایک گہری تدبیر کروں گا۔ جب انہوں نے ساتھ چلنے کو کہا۔ تو فرمایا میں بیمار ہوں (یعنی تمہاری گمراہی میرے لیے روگ بن رہی ہے جب تک اسے دور نہ کرلوں تمہارا میرا ساتھ نہیں نبھ سکتا) پھر جب وہ چلے گئے تو بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کو رہنے دیا ۔ جب انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو فرمایا اس بڑے بت نے توڑا ہے فَ سْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔ اب بھلا بت کیا بولتے۔ مٹی مجسموں میں طاقت گویائی کہاں؟ اور یہی مطلب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا کہ وہ غور کریں جب یہ بول نہیں سکتے تو ہماری مدد کیا کریں گے۔ ہدایت و گمراہی کا انحصار تو سعادت اور شقاوت قلبی پر موقوف ہے۔ تاہم جناب ابراہیم علیہ السلام کی تدبیر کا فوری اثر ان پر یہ ہوا کہ وہ اپنی گمراہی پر مطلع ہوگئے ان کے ضمیر نے انہیں مجبور کردیا کہ اقرار کریں کہ ہماری یہ غلطی تھی۔ فَرَجَعُوْ اِلٰیٓ اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْا اِنَّکُمْ اَنْتُمْ الظّٰلِمُوْنَ ۔(۵۱۷) پس انہوں نے رجوع کیا ایک دوسرے کی طرف اور بولے کہ لا ریب ہم ظالم ہیں اور یہی مطلب اس تدبیر سے حضرت خلیل اللہ کا تھا۔
باقی رہا تیسرا واقعہ سو اس میں ایک کافر ظالم کے دست تظلم سے بچنے کی خاطر ایک ظاہر اور انسانی تدبیر تھی کہ یہ میری بہن ہے اور واقعی ہر انسان بحیثیت انسان ہونے کے اور ہر مومن بحیثیت اپنے ایمان کے ایک دوسرے کا بھائی ہے جیسا کہ خود اسی حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی مطلب بتایا ہے یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جیسا کہ امام نودی اور حافظ ابن حجر(۵۱۸) نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جن کی حقیقت کذب کی نہیں ان سے توریہ مقصود ہے اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا کہ یہ سب خدا کے لیے تھیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف خدا کے واسطے ایسی تعریضی باتیں کہیں۔ آپ علیہ السلام نے ہرگز نہیں جھوٹ بولا ۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے موقع پر ایک باب خاص اسی مسئلہ تعریض کے متعلق باندھا ہے اَلْمَعَادِیْضُ ممدُوْحَۃٌ عَنِ الْکِذْبِ (۵۱۹) (کتاب الادب) ۔ یعنی تعریضات حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ نیز مرزا صاحب اپنی کتاب وافع الوساوس میں واقعات ابراہیمی پر اعتراض کرنے والے کو خبیث، متکبر اور شیطان کہتے ہیں۔
اسلام میں ، ہاں خدا کے سچے مذہب اسلام میں کسی قسم کا دل چھل یا ہیر پھیر نہیں ہے اس لیے بانی اسلام علیہ السلام نے اس میں کوئی ہیر پھیر نہیں کیا اور ان واقعات کو کذب ہی قرار دیا ہے۔ بتلائیے اس میں کیا گناہ کیا۔ اب سنیے ہم اس بارے میں مرزا صاحب کے کلمات پیش کرتے ہیں وہ بھی ان واقعات کو '' بہ ظاہر دروغ گوئی میں داخل'' سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
یاد رہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت افعال یا اقوال انبیاء سے ظہور میں آتے رہے ہیں کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کر لے جانا اور پھر اپنے مصرف میں لانا اور حضرت مسیح علیہ السلام کا کسی فاحشہ کے گھر چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو کسی حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا اور اس کے لگانے سے روک نہ دینا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا پھر اگر کوئی تکبر اور خود ستائی کی راہ سے اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ کہے کہ نعوذ باللہ وہ مال حرام کھانے والے تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یہ زبان پر لاوے کہ وہ طوائف کے گندہ مال کو اپنے کام میں لایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر بدگمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔(۵۲۰)
اس تحریر میں صاف اقرار ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کیا جو بہ ظاہر دروغ گوئی تھا آگے چل کر اس دروغ گوئی پر اعتراض کرنے والوں کو خبیث وغیرہ القاب دئیے۔
-----------------------------
(۵۱۲) پ۱۷ الانبیاء آیت : ۵۹
(۵۱۳) ایضاً آیت : ۱۱۰
(۵۱۴) ایضاً آیت : ۶۳، ۶۴ نوٹ: قادیانیت کا معروف مفسر قرآن مرزائی صلاح الدین مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ: ایسے طرز کلام کو انگریزی میں (Irony) اور عربی میں تعریض کہتے ہیں اس میں معانی ظاہری الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں یہ حدیث درج ہے لم یکذب ابراھیم النبی قط الاثلاث کذبات کہ ابراہیم نے صرف تین دفعہ جھوٹ بولا ہے ان باتوں کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے کذب کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفس اور حضور کی تعلیم اس قدر پاک تھی کہ حضور نے توریہ کو بھی کذب کا نام دیا ہے۔ ترجمہ و تفسیر قرآن ص۱۵۵۱، ج۳ طبعہ اسلام آباد ۱۹۸۱ء مؤلفہ مرزائی صلاح الدین قادیانی
(۵۱۵) پ۲۳ الصّٰفّٰ آیت : ۹۰
(۵۱۶) پ۱۷ الانبیاء آیت: ۵۸
(۵۱۷) ایضاً آیت : ۶۵
(۵۱۸) شرح صحیح مسلم ص۲۶۶، ج۲ فی الفضائل باب من فضائل ابراھیم الخلیل و فتح الباری ص۳۰۲ ، ج۶ کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیل
(۵۱۹) بخاری ص۹۱۷، ج۲ کتاب الادب
(۵۲۰) آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸ و روحانی ص۵۹۸، ج۵
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
جھوٹ نمبر ۴:
ہم کذبات میں درج کر آئے ہیں کہ مرزا صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا سو سال تک تمام بنی آدم علیہ السلام پر قیامت آجائے گی۔ اس کے متعلق مصنف مرزائی پاکٹ بک لکھتا ہے:
'' یہ حدیث متعدد کتب میں ہے اور ابو سعید (خدری رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ جب ہم جنگ تبوک سے واپس آئے تو ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کب قیامت ہوگی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال نہ گزرے گا مگر آج زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا۔'' (۵۲۱)
اس روایت کے ترجمہ میں مصنف پاکٹ بک نے عجب ہوشیاری سے کام لیا ہے الفاظ روایت لَا یَاتِیْ عَلَی النَّاسِ مِائَۃُ سَنَۃٍ وَعَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃٌ الْیَوْمَ کا ترجمہ یہ کیا ہے تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال نہ گزرے گا۔ مگر آج زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا '' کیسا دجل آمیز ترجمہ ہے، آج'' اور '' زندہ نہ ہوگا'' یہ ترجمہ کیا ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے '' سو سال نہ گزرے گا مگر آج کے زندوں میں سے کوئی روئے زمین پر نہ ہوگا۔''(۵۲۲)
الجواب:
اب سنیے بفرضِ محال ہم مان لیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور بلا کمی بیشی الفاظ کے ایسی ہی تو بھی اس سے مرزائی کذب دھویا نہیں جاتا ہے وہ الفاظ جو مرزائی نے نقل کیے ہیں لَا یَاْتِیْ عَلی النَّاسِ مِائۃ سَنَۃِ وَعَلٰی ظَھْرِ الْاَرضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃُ الْیَوْمِ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آج کے دن جتنے لوگ زمین پر ہیں سو سال نہ گزرے گا کہ ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہے گا۔ معاملہ صاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ سو سال تک ان میں سے کوئی زمین پر نہ رہے گا۔ بتلائیے اس میں تمام بنی آدم پر قیامت کا ذکر کہاں ہے اس کی مزید وضاحت مسلم کی وہ حدیث کر رہی ہے جو مصنف نے مرزائی پاکٹ بک نے نقل کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی خود کیا ہے کہ:
'' سو سال نہیں گزرے گا کہ آج کے زندوں میں سے کوئی بھی زندہ جان باقی ہو۔'' (ص۱۲۰ جلد ۶ کنز العمال و مسلم کتاب الفتن ) (۵۲۳)
یہ حدیث تو پہلی سے بھی صاف ہے کہ قیامت ذکر نہیں صرف موجودہ لوگوں کے سو سال تک زندہ نہ رہنے کا تذکرہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت وہ حدیث کر رہی ہے جسے مصنف نے دوسرے نمبر پر ترمذی کتاب الفتن سے نقل کیا ہے۔ مگر ایک تو اس کا ترجمہ غلط کیا ہے۔ دوم خیانت کی ہے۔ یعنی حدیث کا آدھا ٹکڑا نقل کیا ہے اور آدھا جو مرزائی استدلال کی جڑ کاٹ رہا تھا چھوڑ دیا ہے۔ بہرحال ہم پہلے اسی ٹکڑے کو زیر بحث لاتے ہیں جسے مرزائی نے نقل کیا ہے۔
فَقَالَ اَرَائتْکُمْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَأسِ مِائۃٍ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ ۔
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی رات سے سو سال نہ گزرے گا کہ روئے زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا۔''
جن لوگوں کو زبان عربی سے ذرہ بھر بھی مس ہے وہ مرزائی دجالیت پر مطلع ہوگئے ہونگے دیکھئے کیسے واضح الفاظ ہیں کہ لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھو علی ظھر الارض ۔نہیں باقی رہے گا جو اس وقت زمین پر موجود سے مگر مرزائی خائن نے صحیح ترجمہ ہی نہ کیا اور لکھ دیا کہ '' سو سال نہ گزرے گا کہ زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا'' اللہ اکبر چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر مثال نہ ہوگی ظالم کو خدا سے شرم نہ آئی کہ مرزا کے منہ سے سیاہی دھونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر حملہ کردیا بھلا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوتا کہ سو سال تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی اور نہ آتی جیسا کہ نہیں آئی تو معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر صادق ہونے میں کیا شک رہ سکتا ہے۔ افسوس لَعَنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ الْمُفْتَرِیْنَ
اب سنیے دوسرا حصہ اس حدیث کا جو آئینہ کی طرح صاف ہے۔
قَالَ ابِنُ عُمَرَ ؓ فوھل الناس فی مقالۃ رسول اللّٰہ ﷺ تِلْکَ فِیْمَا یَتَحَدَّ ثُوْنَہٗ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ ۔
لوگوں کو اس حدیث سے حیرانی ہوئی (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حیرانی کی کیا وجہ) انَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ بے شک و شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ لا تبقی ممن ھو الیوم علی ظھر الارض اَحَد آج جو لوگ زمین پر ہیں ان میں سے سو سال تک کوئی باقی نہیں رہے گا یُرِیْدُ بِذٰلِکَ اَنْ ینحزم ذٰلِکَ الْقَرْنُ یَقِیْنًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ اس حدیث میں یہی ہے کہ موجودہ قرن کے لوگ سو سال تک نہ بچیں گے۔ ھذا حدیث صحیح۔(۵۲۴)
اسی ترمذی شریف کے اسی باب میں ایک اور حدیث میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ہے: عَنْ جابر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ مَا علی الارض نفس منفوسہ یعنِی الیوم یاتی علیہا مائۃ سنۃً ۔(۵۲۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے دن جو بھی جاندار زمین پر ہے سو سال تک نہ رہے گا۔ دیکھئے اس جگہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یعنی کا لفظ کہہ کر الیوم کی قید لگا دی۔ پس مرزائی فریب ھَبَائً منثوراً ہوگیا مختصر یہ کہ مرزا نے ازالہ اوہام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھا ہے کہ ''سو سال تک قیامت، آجائے گی۔''
مرزائیو! اپنے تمام علماء کو اکٹھے کرو اور یہ حدیث دکھاؤ اگر نہ دکھا سکو اور ہرگز نہ دکھا سکو گے تو پھر اللہ سے ڈر کر ، مفتری کذاب کو چھوڑ دو ورنہ یاد رکھو ہم قیامت کے دن بھی تمہارے گلوں میں رستہ ڈال لیں گے اور حضور باری اس کا جواب مانگیں گے۔ فاتقو اللہ
-----------------------------------------------
(۵۲۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۶۸ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۸۹۷ طبعہ ۱۹۴۵ء بحوالہ طبرانی صفیر ص۱۵
(۵۲۲) تجلیات رحمانیہ ص۸۶ مولفہ مرزائی اللّٰہ دتا جالندھری
(۵۲۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۹ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۹۸ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۲۴) صحیح مسلم ص۳۱۰، ج۲ فی الفضائل باب قولہ لاثانی مائۃ سنۃ علی الارض الخ و ابوداؤد ص۲۴۲، ج۲ فی الفتن باب قرب الساعۃ والترمذی ص۲۴۲، ج۳ مع تحفۃ فی الفتن وقال ھذا حدیث صحیح۔
(۵۲۵) ترمذی مع تحفہ ص۲۴۲، ج۳ مصدر السابق
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر چھٹی دلیل مراقِ مرزا

تعریف مراق:
(۱) نَوْعٌ من المالیخولیا یسمی المراق ۔ (۵۲۶)
'' مراق مالیخولیا کی ایک نوع ہے۔''
(۲) '' مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔'' (۵۲۷)
(۳) قَالَ الشیخُ اِنَّمَا یقالُ مَا لیخولَیَا لِمَا کَانَ حَدُوْثُہٗ عَنْ سَوْدائٍ غَیْرَ مُحَتَرِقَۃٍ تَسْمِیَۃً لَہٗ بِاِسم السَّبَبِ لِاَنَّ معناہ بالیونانیۃ الخلط الاسود وقال یُوْحَنَا بِنْ سَرَا فیون معناہ الفرعُ فَیَکُوْنَ تَسْمِیَۃً بِاسْمِ عَرَضِہٖ ۔(۵۲۸)
'' شیخ الرئیس فرماتے ہیں اس کو مالیخولیا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا حدوث غیر محترقہ سودا سے ہوتا ہے اور یوحنا ابن سرافیون نے کہا ہے کہ اس کے معنی ڈر، خوف کے ہیں (یہ اس کے عوارض ہیں) اس لیے بسبب ان عوارض کے اس کا نام مراق رکھا گیا ہے۔ ''
حقیقت و اسباب و اقسام مرض:
(۱) تَغَیُّرُ الظُنُوْنِ وَالْفِکِرْ عَنِ الْمُجْرِیْ الطَّیْعْی اِلَی الْفَسَادِ وَالخَوْفِ لِمَزاجٍ سَوْدَاوِیٍّ وَتَوَحُّشُ الرُّوْحِ وَیَفْزَعُ وَلَا یُؤْذِیْ اَحَدًا بِخَلَافِ جَنُوْنِ السَّبْعِیّ وَنَوْعٌ مِّنْہُ یُقَالُ لَہُ الْمَرَاق وَھُوَ اَنْ یَکُوْنَ بِشِرْکَۃِ الْمَراقِ ۔(۵۲۹)
سو داوی مزاج انسان کے ظنون و افکار طبعی، خوف و فساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا روح وحشت و خوف محسوس کرتا ہے یہ مرض کسی کو کوئی ایذا نہیں دیتی بخلاف جنون سبعی کے (کہ وہ مریض کو سخت تکلیف دیتا ہے) مالیخولیا کی ایک قسم وہ ہے جسے مالیخولیا مراقی کہتے ہیں۔ یہ مرض مراق کی شرکت سے ہوتا ہے۔
(۲) مالیخولیا بحسب محل سبب تین قسم پر ہے اول دماغی جس کا محل وقوع دماغ ہے۔ اطبا اس کو شر الاصناف کہتے ہیں۔ دوم قلب اور دماغ کے سوا جس کا محل تمام بدن ہو۔ بخارات دماغ کی طرف چڑھیں۔ سوم امعاء میں ردیہ فضلات سے یا معدہ کے سوداوی ورم سے یا باب الکبد کے ورم سے یا جگر اور امعاء دونوں سے یا عروق د قاق سے یا ماساریقا کے سوداوی بلا ورم سدہ سے یا ما ساریقا کے ورم سے بخارات نکل کر غشا مراق تک پہنچیں اور مراق سے اٹھ کر دماغ کی طرف جائیں اور مالیخولیا پیدا کریں اس کو مالیخولیا مراقی کہتے ہیں چونکہ مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ اور مالیخولیا مراقی میں دماغ کو ایذا پہنچتی ہے اس لیے مراق کو سر کے امراض میں لکھا ہے۔(۵۳۰)
مرزا صاحب کو مراق تھا:
(۱) '' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی سو اس طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی یعنی مراق اور (ایک نیچے کے دھڑ کی) کثرت بول۔ (۵۳۱)
(۲) میرا تو یہ حال ہے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تا ہم مصروفیت کا یہ حال ہے کہ بڑی بڑی رات تک بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ تاہم میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں۔ (۵۳۲)
(۳) حضرت مسیح موعود نے بیشک مراق کا لفظ اپنی نسبت بولا ہے۔(۵۳۳)
مراقی نبی ہوسکتا اور نہ اس کی کوئی بات قابلِ اعتبار ہے
مرزا صاحب حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے عقیدہ پر لکھتے ہیں:
(۱) '' یہ بات تو بالکل جھوٹا منصوبہ ہے اور یا کسی مراقی عورت کا وہم۔'' (۵۳۴)
صاف عیاں ہے کہ مراقی شخص کی کسی بات کا اعتبار نہیں اس کی باتیں وہم ہی وہم ہوتی ہیں نہ حقیقت۔
(۲) ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی رسالہ ریویو اگست پر راقم ہیں:
'' ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لیے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔''
(۳) '' اس مرض میں تخیل بڑھ جاتا ہے اور مرگی اور ہسٹریا والوں کی طرح مریض کو اپنے جذبات اور خیالات پر قابو نہیں رہتا۔'' (۵۳۵)
(۴) '' نبی میں اجتماع توجہ بالا رادہ ہوتا ہے جذبات پر قابو رہتا ہے۔'' (۵۳۶)
مرزا صاحب کو مراق کے علاوہ ہسٹریا کے دورے بھی پڑا کرتے تھے
مرزا صاحب کا بیٹا مرزا بشیر ایم۔ اے کتاب '' سیرۃ المہدی'' حصہ اول ص۱۳ پر لکھتا ہے:
'' بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودہ علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اُتھو آیا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا، پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی (فرمایا) میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔'' (۵۳۷)
مرزائی عذر:
مراق والا حوالہ ڈائری کا ہے۔ اس لیے قابل اعتبار نہیں۔(۵۳۸)
الجواب:
یہ عبارت مرزا صاحب کی زندگی میں ان کے سامنے ان کے اپنے اخباروں میں شائع ہوئی اور مرزا صاحب کے قلم سے، جیسا کہ صیغۂ متکلم سے ظاہر ہے۔ اگر یہ افترا ہوتا تو یقینا مرزا صاحب اس کی تردید کردیتے، چونکہ مرزا صاحب نے اس کی تردید نہیں کی لہٰذا یہ انہی کے الفاظ میں اس کے علاوہ اس تحریر کی تردید ان کی جماعت میں سے بھی کسی نے نہ کی حتیٰ کہ خلیفہ نور دین کا زمانہ بھی گزر گیا۔
(۲) ڈائری کی عبارت قابل اعتبار اس لیے ہے کہ مرزا محمود خلیفہ قادیانی نے بھی اپنی کتاب ''حقیقت النبوۃ'' میں جا بجا ڈائری کے حوالے بطور شہادت نقل کیے ہیں، اگر ڈائری ناقابل اعتبار تھی تو پھر خلیفہ ثانی جیسا ذمہ دار آدمی کیوں اس جرم کا مرتکب ہوا۔(۵۳۹)
مرزائی عذر:
حضرت نے بیشک مراق کا لفظ اپنی نسبت بولا ہے مگر اس سے مراد سوائے دوران سر کے اور کچھ نہیں۔ حضرت نے کب کہا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ میاں بشیر احمد نے حضرت ام المومنین کی زبانی ہسٹریا لکھا ہے۔ مگر آپ کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں کہ جو ترجمہ مراق کا کیا ہے وہ درست ہو۔ ڈاکٹر شاہ نواز ایم۔ بی ۔ بی۔ ایس نے ریویو اگست ۱۹۲۶ء میں لکھا ہے بلکہ ثابت کیا ہے کہ مراق کا ترجمہ قطعاً ہسٹریا نہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز نے طبئی نقطہ نگاہ سے ثابت کردیا ہے کہ حضرت کو قطعاً ہسٹریا نہ تھا۔(۵۴۰)
الجواب:
مرزا صاحب کو دوران سر بھی تھا اور مراق بھی۔ دونوں کو ایک بنانا نہ صرف علم طب سے کورا پن ہے بلکہ خود تحریرات مرزا کے بھی خلاف ہے۔ کتاب منظور الٰہی کی تحریر جو ہم پہلے نقل کر آئے ہیں، اس کو بغور پڑھو۔ مرزا صاحب اپنے حق میں مراق اور دوران سر دونوں بیماریاں مانتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز بھی یہی لکھتے ہیں کہ:
'' واضح رہے کہ حضرت صاحب کی تمام تکلیف مثلاً دورانِ سر درد، کمی خواب، تشنج دل اور بد ہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث کمزوری تھا۔''(۵۴۱)
دیکھئے ڈاکٹر صاحب دورانِ سر اور مراق کو علیحدہ علیحدہ مرض شمار کرتے ہیں:
(۲) آپ کی ام المؤمنین بیشک ڈاکٹر نہیں ہوں گی۔ مگر مرزا صاحب تو حکیم تھے اور حکیم بھی بقول خود ایسے کہ ہزار سے زیادہ کتب طب پڑھے ہوئے تھے۔ جیسا کہ لکھتے ہیں:
'' میں نے خود طب کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کتابوں کو ہمیشہ دیکھتا رہا اس لیے میں اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزار کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہوگی جن میں مرہم عیسیٰ کا ذکر ہے (یہ قطعاً جھوٹ دروغ بے فروغ ہے۔ مرزائی اگر سچے ہیں تو ہزار کتب طب کا نام بتا دیں جن میں ایسا لکھا ہے ناقل) اور ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بنائی تھی ۔'' (۵۴۲)
اس کے علاوہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ محترمہ بھی اسی مراق کی مرض میں مبتلا تھیں ۔(۵۴۳) اس سے ثابت ہوا کہ مرزا صاحب مراق کی حقیقت اور اصلیت سے بخوبی واقف تھے اور اس مرض کے متعلق ان کا علم تجربے پر مبنی تھا۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین نے جو ''ڈاکٹر نہیں'' ضرور مرزا صاحب سے ہسٹریا کا نام سنا ہے ماسوا اس کے جب خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ مجھے مراق کی بیماری ہے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔
(۳) مراق کا ترجمہ ہسٹریا ہو یا نہ ہو۔ یہ سوال تو یہاں پیدا ہی نہیں ہوتا جبکہ مرزا صاحب خود مانتے ہیں کہ مجھے مراق ہے اور ان کی بیوی راوی ہے کہ ہسٹریا کے دورے بکثرت پڑا کرتے تھے، نتیجہ ظاہر ہے۔
(۴) اگر ڈاکٹر شاہ نواز نے طبی نقطہ نگاہ سے ثابت کردیا تھا کہ مرزا صاحب کو ہسٹریا نہ تھا تو آپ نے اس قیمتی نقطہ نگاہ کو پاکٹ بک میں درج کیوں نہ کردیا کہ لوگ اس کی حقیقت پر مطلع ہو جاتے۔ اے جناب! دنیا کو دھوکا مت دو، وہ بیچارے باوجود ہاتھ پیر مارنے کے رتی بھر اپنے دعویٰ کو مدلل نہیں کرسکے۔ علاوہ جب خود مرزا صاحب کی بیوی راوی ہے کہ ہسٹریا تھا تو اب کسی اور غیر واقف حال کا خواہ مخواہ ہسٹریا سے بچانے کی ناکام سعی کرنا وہی بات ہے کہ
پدرنتواند پسر تمام کند
عذر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کفار نے ایسے ایسے طومار باندھے تھے۔(۵۴۴)
الجواب:
کجا کسی کا بہتان باندھنا اور کجا خود مرزا صاحب کا اپنی نسبت مراق کا لکھنا اور اعلیٰ وجہ البصیرت اقرار کرنا۔
عذر:
ہسٹریا مردوں کو نہیں ہوا کرتا صرف عورتوں کو ہوا کرتا ہے۔
جواب:
مرزا صاحب مرد تھے اور ان کو ہسٹریا تھا۔
کتاب مخزن حکمت طبع چہارم ص۹۶۹ جلد دوم لکھا ہے:
'' یہ مرض عموماً عورتوں کو ہوا کرتا ہے اگرچہ شاذ و نادر مرد بھی اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔''(۵۴۵)
'' جن مردوں کو یہ مرض ہسٹریا ہو ان کو مراقی کہتے ہیں۔'' (۵۴۶)
ایک اور طرز سے
چونکہ مراق ایک ایسا مرض ہے جو بعض دفعہ کئی پشتوں تک اپنا اثر پہنچاتا ہے اس لیے اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کامراتی ہونا ہر طور سے ثابت کرنے کے لیے ان کی ہم جلیس بیوی صاحبہ اور اولاد کو بھی اس میں مبتلا کردیا تاکہ اور نہیں تو اسی دلیل سے مرزا صاحب کامراقی ہونا پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے۔
'' ایں خانہ ہمہ آفتاب است''
مرزا صاحب تو مراقی تھے ہی، مگر آپ کی بیوی بچہ مراقی سے اس لیے اگر ہم مرزا صاحب کے خاندان کو ''مراقی کنبہ'' کے نام سے یاد کریں تو غلط نہیں۔
مرزا صاحب کی بیوی کو بھی مراق تھا
مرزا صاحب کا اپنے جدی بھائیوں کے ساتھ مقدمہ تھا انہوں نے بطور گواہ مرز صاحب کا بیان عدالت میں دلوایا۔ آپ نے اس میں یہ بھی فرمایا:
'' میری بیوی کو مراق کی بیماری ہے کبھی کبھی وہ میرے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ طبی اصول کے مطابق اس کے لیے چہل قدمی مفید ہے۔'' (۵۴۷)
مرزا صاحب کے فرزند خلیفہ قادیان بھی مراقی ہیں
ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی لکھتے ہیں:
جب خاندان سے اس کی ابتدا ہوچکی تو پھر اگلی نسل میں بیشک یہ مرض منتقل ہوا۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔'' (۵۴۸)
---------------------------------------------------------------------------------------------
(۵۲۶) شرح اسباب ص۷۴، ج۱
(۵۲۷) بیاض حکیم نور الدین ص۲۱۱، ج۱ طبعہ وزیر ہند پریس ۱۹۲۸ء
(۵۲۸) حدود الامراض ص۵۱ طبعہ مجتبائی دہلی
(۵۲۹) ایضاً
(۵۳۰) بیاض نور الدین ص۲۱۱
(۵۳۱) بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ جون ۱۹۰۶ء ص۵ وتشحیذ الاذہان جلد ۱ نمبر۲ مورخہ جون ۱۹۰۶ء وملفوظات مرزا ص۳۳، ج۵
(۵۳۲) الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء و ملفوظات مرزا ص۵۶۵، ج۱
(۵۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۰ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۵۳۴) حاشیہ کتاب البریہ ص۲۵۶ و روحانی ص۲۷۴ ، ج۱۳
(۵۳۵) ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۶
(۵۳۶) ایضاً جلد ۲۶؍ مورخہ مئی ۱۹۲۷ء ص۳۰
(۵۳۷) سیرت المھدی ص۱۳، ج۱ طبعہ اول ص۱۶ تا ۱۷ طبعہ دوم ۱۹۳۵ء قادیان ملخصًا
(۵۳۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۶۴ طبعہ ۱۹۴۵
(۵۳۹) حقیقت النبوۃ ۲۵، ۲۶، ۶۱، ۷۳
(۵۴۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۰ طبعہ ۱۹۳۲ء وایضاً ص۱۰۶۶ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۴۱) ریویو آف ریلجنز جلد ۲۶ نمبر ۵ مورخہ ؍ مئی ۱۹۲۷ ص۲۶
(۵۴۲) راز حقیقت ص۶ و روحانی ص۱۵۸، ج۱۴
(۵۴۳) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء ومنظور الٰہی ص۲۴۴
(۵۴۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۶۷ طبعہ ۱۹۴۵
(۵۴۵) مخزن حکمت ص۹۶۹، ج۲ طبعہ چہارم
(۵۴۶) مرزے محمود کا خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء مندرجہ الفضل ۳۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء و خطبات محمود ص۷۵، ج۸
(۵۴۷) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء ومنظور الٰہی ص۲۴۴
(۵۴۸) ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۱۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر ساتویں دلیل

تہذیب مرز ا
یوں تو مرزا صاحب نے اپنے ارادت مندوں کو پھنسائے رکھنے اور عوام کو مغالطہ دینے کو بکرات و مرات اپنا صاحب اخلاق ہونا جتلایا ہے۔ '' خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا '' (۵۴۹) اور یہ بھی لکھا کہ '' گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں'' (۵۵۰) نیز اپنے مریدوں کو نصیحت کی '' اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔'' (۵۵۱) اور خود اپنے متعلق لکھا '' میں نے جوابی طور پر بھی کسی کو گالی نہیں دی'' (۵۵۲) مگر بقول شخصے ہر ایک برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہے۔ (۵۵۳)
۱۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ مرزا صاحب نے جواباً گالیاں نہ دیں وہ خود لکھتے ہیں کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں۔ (۵۵۴)
لہٰذا ہم مرزا صاحب کے برتن قلب کا ڈھکنا اٹھا کر ناظرین کے رو برو پیش کردیتے ہیں وہ خود ملاحظہ فرمالیں کہ اس میں کیا کچھ بھرا ہے۔
کسی شخص کا حرامی یا حلال زادہ ہونا اس کے والدین کے ملاپ غیر صحیحہ یا صحیحہ پر مبنی ہے ۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب لکھتے ہیں:
کُلُّ مُسْلِم یَقْبَلُنِیْ وَیُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ الاذریۃ البغایا ۔ (۵۵۵)
'' کل مسلمانوں نے مجھے مان لیا ہے اور تصدیق کی ہے مگر کنجریوں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔''
اٰ ذَیتنِیْ خُبْثًا فَلَسْتَ بِصَادِقٍ اِنْ لَمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَابْنَ بَغَائٖ ۔
''مرا بخباثت خود ایذا دادی پس من صادق نیستم، اگر تواے نسلِ بدکاراں بذلت نمیری۔''(۵۵۶)
(سعد اللہ!)تو نے مجھے اپنی خباثت سے دکھ دیا ہے پس میں صادق نہ ہوں گا اگر تو ذلت کی موت نہ مرے اے کنجری کے بیٹے ۔ (اردو ترجمہ از مؤلف)
--------------------------------------------------------------
(۵۴۹) اربعین ص۳۶ نمبر ۳ و روحانی ص۴۲۶، ج۱۷ وتذکرہ ص۳۹۴
(۵۵۰) ضمیمہ اربعین نمبر ۳،۴ ص ۵ و روحانی ص۴۷۱، ج۱۷
(۵۵۱) کشتی نوح ص۱۱ و روحانی ص۱۱، ج۱۹
(۵۵۲) مواھب الرحمن ص۱۸ و روحانی ص۲۳۶، ج۱۹
(۵۵۳) چشمہ معرفت ص۱ و روحانی ص۹ ، ج۱۳
(۵۵۴) اشتہار مرزا مورخہ ۲۰ ؍ ستمبر ۱۸۹۷ء مندرجہ اشتھارات مرزا ص۴۶۶،ج۲ وتبلیغ رسالت ص۱۶۵، ج۶ ودبا بچہ کتاب البریہ ص۱۱
(۵۵۵) آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸ و روحانی ص۵۴۸، ج۵
(۵۵۶) انجام آتھم ص۲۸۲ و روحانی ص۲۸۲، ج۱۱
 
Top